اتر دیناجپور (مغربی بنگال) کےمسلم اقلیتی طلبا کےریاضی حصولیابی
Mathematics Achievement of Muslim Minority students of Uttar Dinajpur (W.B)
ڈاکٹر دانش ندیم
Dr. Danish Nadim2
Assistant Professor
MANUU – CTE, Darbhanga (Bihar)
Danishphd01@gmail.com
Mob. 7680933660
محمد راغب بابر
Md Raghib Baber
Research Scholar (Ph.D)
Dept. of Education and Training,
MANUU, Hyderabad.
mdbaber2@gmail.com
Mob. 8016075386
تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ انسانوں کی بہترین ، اخلاقی،روحانی، جسمانی،ثقافتی نشو و نما ہوتی ہے تعلیم انسان کی نشوونما کا بنیادی ذریعہ ہے ۔ بغیرتعلیم کے نہ تو انسان انسانیت کوپہچان سکتا ہے اور نہ ہی معراج کمال حاصل کرسکتا ہے۔ تعلیم کے ذریعہ ہی کردار میں تبدیلی آتی ہے صلاحیتوں اور علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ تعلیم کا عمل پیدا ہونے سے لے کر پوری عمر تک مسلسل جاری رہتا ہے تعلیم سماج کو تاریکیوں سے نکال کرروشنی کی طرف لاتی ہے اور سارے جہاں کو منور کرتی ہے۔ قدیم فلسفیوں نے تعلیم کو تیسری آنکھ مانا ہے جو انسان کو بصیرت دیتی ہے اور تمام معاملات کو صحیح طریقے سے پائے تکمیل تک پہچانے کا شعور عطاکرتی ہے اور ہمہ جہت ترقی اور خوشحالی پیدا کرتی ہے اور اس کے روح کو آرام فراہم کرتی ہے ۔اور بدلتے ہوئے حا لات میں فرد کے اندر مطابقت کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ ابتداء میں انسان جب ماحول، اطراف و اکناف کا مشاہدہ کرتا ہے تو فطرت اور فطرت کے قوانین کو سمجھنے کے لئے یا فطرت میں موجود مختلف اشیاء کی حقیقت سے آشنا ہونے کے لئے انہیں ایک منطقی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ منطقی سوچ مختلف مضامین کے مطالعے کی بنیاد پر فروغ پاتی ہے ۔ کیوں کہ ہر مضمون تعلیم کا جز ہوتا ہے اور اس کی مدد سے بچوں کے اندرونی صلاحیتوں کو ابھارا جاتا ہے اور ان کی منطقی سوچ اور غوروفکر کو فروغ دی جاتی ہے۔ جس مضمون کی مدد سے منطقی سوچ ، غوروفکراورمسئلہ حل کرنے کی صلاحیت فروغ پاتی ہیں وہ مضمون ریاضی ہے۔
ریاضی ایک ایسا مضمون ہے جو دیگر تمام مضامین کو سمجھنے اور ان میں مہارت حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے مثلا جغرافی،معاشیات،حیاتیات،طبعیات،فلکیات ،زراعت،کمپیوٹر سائنس،جیالوجی وغیرہ ان مضامین میں اعداد و شمار سے متعلق ضروریات کی تکمیل کے لئے ہم ریاضی کا ہی سہارا لیتے ہیں۔اس کے علاوہ انسان کی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے متعدد مسائل کا حل بھی ریاضی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ریاضی انسان کے اندر سوچ اور غور و فکر کی صلاحیت کو ابھارتا ہے۔ریاضی کے مطالعہ سے منطقی فکر و تجسس ،باریک بینی اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور ریاضی کے اکتساب سے خود مختاری،برداشت کی صلاحیت،خود اعتمادی اور کشادگی ذہن جیسی صلاحیتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔لہٰذا مندرجہ بالا میدان میں وہی انسان کامیاب ہو سکتا ہے جس نے ثانوی سطح پر ریاضی مضمون میں مہارت حاصل کر رکھی ہو کیونکہ ثانوی سطح پر ریاضی کے بنیادی اصولوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔جو مندرجہ بالا مضامین میں مہارت حاصل کرنے میں اکثر اوقات سود مند ثابت ہوتےہیں۔ ریاضی کا علم ہر طرح کے علوم کو سمجھنے اور غور وفکر کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔چونکہ آج کی دنیا جو پوری طرح سانئس اور ٹکنالوجی پر منحصرہے اس لیے زیادہ سے زیادہ ریاضی کی جانکاری کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ چنانچہ ریاضی کے اساتذہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ریاضی کی تدریس انتہائی مؤثر طریقے سے اور آسان زبان میں دینے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ طالب علم ریاضی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ اسی وقت کر پائے گا جب ریاضی کے بنیادی تصورات واضح ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر معلم ریاضی کے بنیادی تصورات کو اچھی طرح واضح نہیں کر پاتا ہے تب طلبہ میں ریاضی کے تئیں دلچسپی میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ اور اس طرح سےطلبہ میں کے تئیں منفی رجحان پیدا ہوتا ہے۔ جس سے طلبہ کے اندر وقوفی لیاقت ، منطقی سوچ، غور فکر ،مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اور ذہنی صلاحیت کا فروغ نہیں ہو پاتا ہے۔ نتیجتاً ان کےریاضی حصولیابی متاثر ہوتا ہے۔
Doshi, P. C (1989) نے دہم جماعت کے طلبا کے ریاضی حصولیابی میں ذہنی کارکردگی کے طریقہ کار (Cognitive performance style)کے اثرات کو معلوم کرنے کے لیے ایک تحقیقی کام کو انجام دیے جس کا بنیادہ مقصد طلباءکا ریاضی کے اکتساب کا ذہنی کارکردگی کا طریقہ کار کو معلوم کرنا اور اس طریقہ کار کے ذریعے کم مظاہرہ اور بہتر مظاہرہ والے طلباءکو معلوم کرنا اور ذہنی ترجیحی طریقہ کار اور ان کے مظاہرہ کےدرمیان رشتے کو معلوم کرناتھا۔محقق نے اپنی تحقیق کو عمل میں لانے کے لئےFactorial Design کے تحت دیہی اور بلدی علاقوں کے1200طلباءکو نمونہ کے طور پر منتخب کیا اور حصول معطیات کے لئے خودکا تیار کردہ آلہMathematics Cognitive performance Testاور Elementary Mathematics Achievement Testکا استعمال کیااورمحقق نےنتیجہ کے طور پر یہ اخذ کیا کہ ArtsاورCommerceکے اکثر طلباءمیں R.P.A.Qذہنی طریقہ پایا گیا۔ جب کہ سا ئنس کے طلباءمیںP.R.A.Qپایا گیا۔
جبکہ Rosaly (1992) نے ریاضی خصولیابی اور رویہ کے درمیان رشتہ معلوم کرنے اور ریاضی کے تئیں رویہ کو معلوم کرنے کے مقصد سے ایک تحقیقی کام کو انجام دیا۔ اس میں انہوں نے پایا کہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے طلبا کے بنسبت شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا میں ریاضی علوم سے متعلق مثبت ریہ ہے ۔ اور اسی طرح طلبا کی ریاضی حصولیابی طالبات کے بالمقابل بہتر پایا گیا۔
لہذہ موجودہ کام چھوٹی نوعیت کی ایک تحقیقی کام ہے جس کے تحت محقق اردو اور بنگلہ میڈیم سے ریاضی سیکھنے والے طالب علموں کی حصولیہابی کا تقابلی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیےمحقق مندرجہ ذیل مقاصد کو قلم بند کیے۔
1. ثانوی اسکول کے اقلیتی مسلم طلبا وطالبات کی ریاضی حصولیابی کی سطح کو معلوم کرنا۔
2. ثانوی اسکول کے اقلیتی مسلم طلباوطالبات کی ریاضی حصولیابی میں فرق کو معلوم کرنا۔
3. اردو اور بنگلہ میڈیم کے اقلیتی مسلم طلبا ء کے درمیان ریاضی حصولیابی کے فرق کو معلوم کرنا۔
4. اردو اور بنگلہ میڈیم کے اقلیتی مسلم طالبات کی درمیان ریاضی حصولیابی کے فرق کو معلوم کرنا۔
مندرجہ بالا مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہویے تحقیق کو پایے تکمیل تک پہنچانے کے لیے صفری مفروضات کو قائم کیے گیے جس کی تشریحات ذیل میں درج ہے۔
1. ثانوی اسکول کے اقلیتی مسلم طلبا و طالبات کی ریاضی حصولیابی میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوگا۔
2. اردو اور بنگلہ میڈیم کے اقلیتی مسلم طلبا ء کے درمیان ریاضی حصولیابی میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوگا۔
3. اردو اور بنگلہ میڈیم کے اقلیتی مسلم طالبات کی درمیان ریاضی حصولیابی میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوگا۔
تحقیق کی نوعیت اور وقت کو دھیان میں رکھتے ہوئے مقداری تحقیق کے بیانیہ سروے طریقہ کار (Descriptive Survey Method)کو استعمال کیا گیا ۔ موجودہ تحقیق میں آبادی سے مراد ریاست مغربی بنگال کے ضلع اتر دیناج پور کے گوالپوکھرسے اردو اور بنگلہ میڈیم سرکاری ثانوی اسکولوں میں زیرتعلیم طلب علموں سے ہے تو وہیں ان اسکولوں کے نہم جماعت کے طالب علموں کو بطور مرکوز آبادی منتخب کیا گیا تھا۔ مرکوز آبادی میں سے معلومات کی حصولیابی کے لیے غیر متناسب طبقہ واری اتفاقی نمونہ بندی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اردواور بنگلہ میڈیم کے کل 320طلباءمیں سےاردو کے 160 طالب علموں جس میں 80لڑکے اور 80 لڑکیاں اور بنگلہ کے 160میں سے 80لڑکے اور 80 لڑکیاں کو بطور نمونہ منتخب کیا گیا تھا۔ منتخبہ نمونوں سےڈیٹا حاصل کرنے کے لیے خود سے تیار کردہ Mathematics Achievement Test کو استعمال میں لایا گیا۔جس میں کل 20 items ہیں ۔ اس عالہ کی معقولیت کے لئے ماہرین کی مدد حاصل کی گئی جبکہ اعتمادیت کے لئے test-retest تکنیک کا استعمال کیا گیا جس کی قدر 0.74 ہے۔ اس کے علاوہ منتخبہ نمونوں سے حاصل شدہ معطیات کی تجزیہ و تشریح کے لئے SPSS کا استعمال کیا گیا۔ جس کے نتائج کو جدولی شکل میں دیکھایا گیا ہے جو ذیل میں درج ہیں۔
مفروضہ 1۔ ثانوی اسکول کے اقلیتی مسلم طلبا و طالبات کی ریاضی حصولیابی میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوگا۔
ٹیبل نمبر 1
مفروضہ 2۔ ا اردو اور بنگلہ میڈیم کے اقلیتی مسلم طلبا ء کے درمیان ریاضی حصولیابی میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوگا۔
ٹیبل نمبر 2
مفروضہ 3۔ اردو اور بنگلہ میڈیم کے اقلیتی مسلم طالبات کی درمیان ریاضی حصولیابی میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوگا ۔
ٹیبل نمبر 3
محاصل 1 :ریاضی حصولیابی میں طلبا و طالبات میں کوئی نمایاں فرق نہیں پایا گیا ۔ ریاضی حصولیابی میں طلباء کا اوسط 52.23 اور طالبات کا اوسط 53.25 ہے ۔ لہذا محقق کے تعین کردہ مفروضہ کو قبول کیا گیا ہے اور جنسی اعتبار سے ریاضی حصولیابی کی سطح میں کوئی معنی خیز فرق نہیں پایا گیا ہے۔
محاصل2 :اردو اور بنگلہ میڈیم طلبا ء میں ریاضی حصولیابی میں فرق پایا گیا۔ اردو میڈیم کے طلباء کا ریاضی حصولیابی کا اوسط 48.75 اور بنگلہ میڈیم کا اوسط 55.37 ہے اور حاصل شدہ t قدر 3.680 ہے۔ جو جدول t قدر 1.97 سے زیادہ ہے اس لئے محقق کے تعین کردہ مفروضہ کو reject کیا گیا اوراس طرح یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ Medium of instruction کے اعتبار سے اردو میڈ یم اور بنگلہ میڈیم طلباء کے درمیان ریاضی حصولیابی میں نمایا فرق پایاگیا
محاصل 3: اردو میڈیم کی طالبات اور بنگلہ میڈیم کی طالبات میں ریاضی حصولیابی میں فرق پایا گیا۔ اردو میڈیم طالبات کی ریاضی حصولیابی کا اوسط 63.44 اور بنگلہ میڈیم کا اوسط 69.39ہے اور حاصل شدہ t قدر 2.206 ہے۔ جو جدول t قدر 1.97 سے زیادہ ہے اس لئے محقق کے تعین کردہ مفروضہ کو reject کیا گیا اوراس طرح یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ Medium of instruction کے اعتبار سے اردو اور بنگلہ میڈیم طالبات کے درمیان ریاضی حصولیابی میں نمایاں فرق پایاگیا ۔
نتیجہ
ثانوی سطح کے طلباء مائل بہ بلوغ کے دور میں ہوتے ہیں۔ اس مرحلہ میں مختلف علاقوں جیسے جسمانی، وقوفی یا ذہنی ، سماجی اور جذباتی نشونما میں کئی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔ البتہ وقوفی نشونما اس مراحل کا ایک اہم عنصر ہے ۔ اس مرحلہ میں طلباء مختلف مسائل سے دوچار ہوتے ہیں ۔ تا ہم موجودہ مطالعہ’’ بنگلہ اور اردو میڈیم کے ثانوی اسکول کے مسلم اقلیتی طلبا ء میں ریاضی حصولیابی کا مطالعہ۔ انہیں حقائق کے بیاد پر پایے تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مطالعہ میں معطیات کا شماریاتی تجزیہ کرنے کے بعد مفروضات کی جانچ کی گئی اور اس تناظر میں نتائج حاصل ہوئے ہیں ۔ ریاضی حصولیابی میں طلبا و طالبات میں کوئی نمایاں فرق نہیں پایا گیا ۔یعنی جنسی اعتبار سے ریاضی حصولیابی کی سطح میں کوئی معنی خیز فرق نہیں پایا گیا ہے۔ اردو اور بنگلہ میڈیم طلبا ء(Boys) میں ریاضی حصولیابی میں فرق پایا گیا۔یعنی medium of instruction کے اعتبار سے اردو میڈ یم اور بنگلہ میڈیم طلباء کے درمیان ریاضی حصولیابی میں نمایاں فرق پایاگیا ۔: اردو میڈیم کی طالبات اور بنگلہ میڈیم کی طالبات(Girls) میں ریاضی حصولیابی میں فرق پایا گیا۔
Reference
1. Adams, John and Khan, Hafiz T A.(2014) .Research methods for business and social science students.New Delhi: SAGE Response.
2. Aggarwal,J.C .(2010). Essentials of educational psychology.New Delhi:Vikas Publishing House.
3. Baig, Dr.Mirza Shoukat .(2012). Psychological foundation of education. Hyderabad: Deccan Traders Educational Publisher.
4. Ahuja, Ram.(2015).Research methods. Jaipur: Rawat Publications.
5. Best, John and Khan , James. V .(2010).Research in education.New Delhi: PHI Learning Private.
6. Bhandarkar,K.M.(2007). Statistics in education. New Delhi: Neelkamal Publications.
7. Bhatia and Bhatia. (1998). Advanced educational psychology. New Delhi: Doaba House Book Sellers & Publishers
8. Chandraseke,B .(2016). Relationship between meta-cognitive ability and academic of ix standard students in mathematics.Edutracks.Vol.15.No.7 P.P.33-35
9. Creswell,John.W .(2012). Research in design. New Delhi: SAGE Publication.
10. Chauhan,S.S .(2004). Advanced educational psychology. New Delhi: Vikas Publication.
11. Chand, Tara and Prakash, Ravi.(2007). Advanced educational psychology. New Delhi: Kanishka Publishers.
12. Doshi, P.C .(1989). A study of achievement and cognitive performance style in mathematics of class xth students. Fifth Survey of educational research.NCERT.Vol.II.P.992.
13. Rosaly. (1992). The relationship between attitude of students towards mathematics. Fifth survey of education research. NCERT. Vol.II P.1290.
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!