سر سید احمد خان : ایک مصلح رہنما ، ادیب اور مفکر

توصیف احمد بٹ
ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اردو، دیوی اہلیہ یونی ورسٹی ،اندور ( ایم پی)
Mobile No: 9622774969

سر سید احمد خان کا شمار ہندوستان کی ان معتبر اور عظیم شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے تعلیم، سیاست، مذہب، ادب، معاشرت، صحافت وغیرہ میں بڑے بڑے کار نامے انجام دے کر ہماری تاریخ میں لافانی نقش قدم چھوڑے اور زندگی کے ہر شعبۂ جات میںہماری رہنمائی اور رہبری کی ہے۔ ان کا اصلی نام سید احمد خان لیکن ۱۸۶۹ ؁ ء میںIndian Community Service کی طرف سے ’’ سر ‘‘ کا خطاب ملنے کے بعد سر سید احمد خان نام اختیار کیا ۔
سر سید احمد خان کا زمانہ چونکہ ہمارے ملک کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی سال یعنی ۱۸۵۷ ؁ ء میں ہندوستان سے مغل سلطنت کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا ۔ یہ خاتمہ صرف باتوں باتوں سے نہیں ہوا بلکہ اس خاتمے کے لیے ہزاروں جانیں گئیں۔ جن میں زیادہ تر مسلمان مظلوموں کا خون بہایا گیا۔ ۱۸۵۷ ؁ ء میں اگر چہ ہر مذہب و ملت ، رنگ و نسل، جوان اور بوڑھے یکجا طور پر میدان میں اترآئے لیکن اس کے باوجود بھی صرف مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ مسلمانوں کی حالت دن بدن ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی تھی اور اس صورت میں مسلمانوں کو ایک ایسے فرشتہ صفت کی ضرورت تھی جو حریف قوم کے مد مقابل کھڑا ہو سکے۔ ایسے میں اﷲ تعالیٰ نے ان مظلوموں کی آواز سن لی اور سر سید احمد خان جیسے نا خدا کو بھیج دیا۔ جنہوں نے مسلمانوں کو نہ صرف تقریر کے ذریعے بیدار کیا بلکہ اپنی تحریروں کا بھی خوب استعمال کرکے مسلمانوں کی علمی و تعلیمی زندگی میں انقلاب پیدا کیا ۔ نور الحسن نقوی لکھتے ہیں :
’’ انھوں نے بے عملوں کو جہد و عمل پر آمادہ کیا، گوشہ نشینوں کو کھلی، فضاؤں میں سانس لینا سکھایا، ماضی کے پر ستاروں کو حال کی اہمیت سے آشنا کیا۔ اجداد کے کارناموں پر فخر کرنے والوں کو اپنے آپ میں اوصاف پیدا کرنے کی تلقین کی، مشرق کے پچاریوں کو مغرب کی خوبیوں سے روشناس کیا، غرض انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو زندہ قوموں کی طرح زندگی گزارنے اور سر بلند ہو کر جینے کا سلیقہ سکھایا۔ ‘‘(نور الحسن نقوی۔ ’’ سر سید اور ان کے کار نامے ‘‘صفحہ۔ )
سر سید احمد خان نے جب قوم کی ذمہ داری اپنے قندھوں پر لی تو سب سے پہلے وہ اس فکر میں مبتلا ہوئے کہ کس طرح ظالم انگریزوں کے دلوں سے مظلوم مسلمانوں کے لیے نفرت کو دور کیا جائے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے انھوں نے ’’ انگریزی تعلیم پر زور دیا اور مسلمانوں کو اسنگریزی تعلیم حاصل کرنا ضروری بتایا۔ یہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے انھوں نے خود کئی کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ ادبی انجمنوں کا افتتاح بھی کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے علی گڑھ کی سر زمین پر ایک کالج جو پہلے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اور بعد میں علی گڑھ کالج کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کالج میں دو الگ الگ شعبے قائم کیے گیے ہیں ۔ جدید مغربی علوم اور قدیم مشرقی علوم۔ سر سیدان میں دراصل جدید مغربی علوم کو ہی مفید اور کار آمد سمجھتے تھے۔ لہذا انھوں نے پہلے شعبے کو خوب فروغ دیا اور دوسرا شعبہ اپنے آپ بند ہو گیا۔ یہ کالج ترقی کرتے کرتے آج علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی شکل اختیار کر گیا جو آج بھی وہاں آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔ اس سلسلے میں شائستہ نوشین رقمطراز ہیں :
’’ سر سید کے انگلستان جانے کا ایک مقصد وہاں کے تعلیمی اداروں کا مطالعہ کرنا اور ہندوستان میں اس طرز کا ایک کالج قائم کرنا تھا ۔ چنانچہ واپس آنے کے بعد انھوں نے علی گڑھ میں ایک کالج ’’ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘‘ کے نام سے قائم کیا۔ اس وقت سر سید بنارس میں تعینات تھے۔ ان کے مخلص دوستوں نے اس کالج کے قیام میں مدد دی اور یہ ترقی کرکے اس وقت علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی شکل میں موجود ہے۔‘‘ (شائستہ نوشیں ۔ ’’ تفہیم ادب ‘‘ صفحہ۲۸۳ ۔۲۸۴)
سر سید نے اپنے قوم کو پریشان کن دیکھ کر اس کالج کا افتتاح کیا۔ سر سید نے جو تحریک مسلمانوں کے حق میں چلائی یہ اس تحریک کی ایک اہم کڑی تھی ۔تعلیم کو عام کرنے کے لیے اس کالج نے ایک کلیدی رول ادا کیا۔ کالج کے ابتدائی مراحل میں مسلمان دانشوروں کا ایک بڑا حلقہ جمع ہوگیا۔ جن میں شبلیؔ ، حالی ؔ، مولوی چراغ علی، محسن الملک، مولوی سید احمد، منشی ذکاء اﷲ، ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ اہم ہیں ۔ ان تمام باکمال بزرگوں کی ہم خیالی اور اجتماعی صورت نے بعد میں ایک تحریک کی شکل اختیار کی جو بعد میں سر سید تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس تحریک کے بنیادی طور پر پانچ پہلو تھے۔ تعلیم، سیاست، مذہب، ادب اور معاشرت۔ سر سید کے مطابق ان پہلوؤں کو سمجھنے کے بعد مظلوم مسلمان ان پرپابندی کے ساتھ اپنانے کے بعد طاقتور بن سکتا ہے ۔
سر سید احمد خان علی گڑھ تحریک کے بانی تھے اور انھوں نے ادبی انجمنوں اور محفلوں کے ساتھ ساتھ اپنی تصانیف کے ذریعے دعوت کو عام کیا۔ سر سید کی فکری بنیادیں ان کی تصانیف میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ سر سید کی مذہبی ، تصانیف، ان کی تاریخی سیرت نویسی ، ان کی مکالمہ نگاری، ان کے لیکچرز اور ان کے خطوط میں علی گڑھ تحریک کی فکری بنیادیں کسی نہ کسی صورت میں گردش کرتی نظر آتی ہیں ۔
سر سید کا پسندیدہ موضوع مذہب اسلام تھا اور اس سلسلے میں سب سے اہم کام اور آخری تصنیف ’’ تفسیر قرآن ‘‘ ہے۔ اس میں ان کے عقائد اور ان کا فکر انداز نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے ۔ سر سید کو تاریخ و تحقیق سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ ان موضوعات پر آثار الصنادید، آئین اکبری، تاریخ فیروز شاہی وغیرہ اہم کار نامے ہیں ۔ سر سید کی علمی اور تصنیفی سر گرمیوں کا دائزہ بہت وسیع ہے۔ انھوں نے تاریخ ، سیاست، آثار قدیمہ، صحافت، مذہب، سائنس اور دیگر کئی موضوعات پر خوب قلم چلایا او رہر میدان میں اپنا نقش قدم چھوڑا ہے۔ سر سید کو اس بات کا احساس تھا کہ زبان میں نئے الفاظ اور نئے خیالات ہمیشہ داخل ہونے چاہئے اور سر سید خود ہمیشہ سے سادگی، حقیقت اور خیال کی پاکیزگی کا خاص خیال رکھتے تھے۔
سر سید تحریک سے جو نمایاں تبدیلی آئی اس کا اثر آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے جس علم کا چراغ روشن کیا اس کو آج بھی ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ یہ تحریک نہ صرف ادبی تحریک تھی بلکہ یہ ایک اصلاحی تحریک تھی اور اس تحریک کے زیر اثر جن تصانیف کا وجود ہوا چاہے وہ سر سید کی آثار الصنادید ہو یا تفسیر قرآن ہو، مولوی نذیر احمدکی منتخب الحکایات یا چند پند، شبلی کی سیرت النعمان یا سوانح مولانا روم یا موازنہ انیس و دبیر ہو، حالی کی مجالس النساء یا مقدمہ شعر و شاعری ہو، محسن الملک کی تقلید عمل بالحدیث یا آیات بینات ہو ذکاء اﷲ کی تاریخ ہندوستان یا آئین قیصری۔ غرض آج کے ادیبوں کی تصانیف کو اگر ان کے سامنے رکھا جائے تو وہ بے سودمانی جائیں گی۔ سر سید تحریک سے وابستہ جو بھی تصانیف لکھی گئیں ان کا مطالعہ اگر آج کا ادیب کرے تو وہ ایک نئی دنیا میں کھو جائے گا اور ان تصانیف کے وجود کا سہرا سر سید کے حق میں جاتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی اپنے ایک مضمون میں سرسید کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقمطراز ہیں :
’’ سر سید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور و اثر ، وسعت و جامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کر سکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنیٰ فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں ۔ ملک میں آج بڑے بڑے انشاء پرداز موجود ہیں جو اپنے اپنے مخصوص دائرہ مضمون کے حکمران ہیں ۔ لیکن ان میں سے ایک شخصی بھی نہیں جو سر سید کے بار احسان سے گردن اٹھا سکتا ہو۔‘‘ (مضمون ’’ سر سید مرحوم اور اردو لٹریچر مصنف‘‘ شبلی نعمانی مشمولہ ’’ انتخاب مضامین سر سید ‘‘ صفحہ۔۱۷ )
سر سید نے مختلف موضوعات کو منتخب کرکے انقلابی مضامین لکھے اور تعلیم و سائنس، سیاست، معاشرت، جمہوریت، اخلاقیات، مذہب ، صفت و حرفت، بین الاقوامی حالات اور اس کے علاوہ اردو زبان و ادب اور مختلف تہذیبی اور تمدنی مسائل جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور اس طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں حرکت و عمل اور جوش و خروش کی روح پیدا کی گئی۔ سر سید نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے کئی رسالوں سے بھی خوب کام لیا ان رسالوں میں ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ سب سے زیادہ کار آمد ثابت ہوا۔ اس رسالے میں سر سید اور ان کے نامور رفقاء وقتاََ فوقتاََ سماجی مسائل پرمضامین کو شائع کرتے تھے۔ اس رسالے میں سر سید کے بعد محسن الملک کے مضامین سب سے زیادہ چھپتے تھے اس رسالے کے فوائد کاذکر کرتے ہوئے آل احمد سرور لکھتے ہیں :
’’تہذیب الاخلاق کے مضامین میں سر سید اپنی فکر کی بلندی پر نظر آتے ہیں ۔ اس پرچے نے قوم کی ذہنی قیادت، علماء اور رئیسوں کے بجائے متسوطہ طبقے کے ہاتھ میں دے دی۔ اس نے دین کی خاطردنیا کو بھی سنوارنے پر زور دیا ۔ باوجود شدید مخالفت کے اس کا اثر ہوا اور لوگ سر سید کے پیام کی طرف متوجہ ہونے لگے۔‘‘ (انتخاب مضامین سر سید ‘‘ صفحہ۔۹ )
سر سید کے مضامین کی وجہ سے لوگوں نے انگریزی تعلیم کی طرف توجہ دی جس پربدلے میں انھیں عوام میں انگریزوں کا حامی قرار دیا گیا مگر رفتہ رفتہ وہ سر سید کے مشن کو سمجھنے لگے اور اس کی آبیاری کرنے لگے۔ رسالہ’’تہذیب الاخلاق‘‘ سر سید نے انگلستان کے سفر کے واپسی پر اس وقت جاری کیا جب وہ انگلستان میں مدرسوں کا مطالعہ کرکے ۲۴ دسمبر ۱۹۷۰ ؁ ء میں ہندوستان آچکے تھے۔ اس رسالے سے نہ صرف مظلوم مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے بلکہ اس نے اردو نثر میں نئی جان بھی ڈالی۔ مگر یہ رسالہ گیارہ یا بارہ سالوں تک جاری ہونے کے بعد بند ہوگیا ۔
ساینٹفک سوسائیٹی سر سید کا ایک اہم کار نامہ ہے جس کا مقصد مشرق و مغرب کے نمائندہ مصنفین اور اہل قلم کی عمدہ کتابوں کو اردو میں منتقل کرنا تھا تاکہ ظالم اور مظلوم کو ایک دوسرے کے علوم و فنون کی اہمیت کا اندازہ ہو۔ اس سوسائیٹی میں سر سید کے ساتھ ساتھ ان کے رفقاء نے بھی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا اور اس کو فروغ دینے میں جُٹ گئے۔ اس سوسائیٹی میں بعد میں ہندو، مسلم اور انگریزوں نے برابری کا حصہ لیا۔ اور ان تینوں قوموں کو ملانا سر سید کا بنیادی مقصد تھا۔ غرض سر سید نے اپنی کوششوں اور صلاحیتوں سے مردہ دلوں میں جان ڈال دی اور ہندوستانی مسلمانوں کو سماج میں زندہ قوموں کی طرح زندگی گزارنے اور سر بلند ہو کر جینے کا سلیقہ سکھایا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.