سر سید احمد خانؒ کی ملی وعلمی خدمات (ایک مختصر تعارُف)
ڈاکٹر میٖر طفیل محمد
شعبۂ ماڈرن انڈین لینگویجز، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ
meertufail2@gmail.com
9897351301
سر سیداحمدخان ۱۸۱۷ء تا ۱۸۹۸ ء کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں۔ ان کی شخصیت بڑی تہہ دار اور معنٰی خیز تھی۔یعنی بعض مصاصر ایرانی ادباء کی اصطلاح میں اُن کی شخصیت بڑی جامع الاطراف اور جامع الحیثیات ہے ۔ وہ بیک وقت مصلح خطیب ، مورخ ،محقِق ،مفسر ،مجہتد ،مقالہ نِگار صحافی اور شاعر ہیں ۔گرز مختلِف طبائع اور متضاد ذہانتوں سے وہی کام لیتے ہیں جو ایک معمار مختلِف پتھروں سے عمارت بنانے میں لیتا ہے ۔ان میں بلاکی صبر کوشی اور غصب کی استقامت ہے ۔ ان کی انسانیت الگ اس درجہ مستحِکم اور قوی ہے کہ ان کی زندگی کچھ پُراسرار اور ماورائی سی معلوم ہونے لگتی ہے۔ ان کی زندگی ایسے انسانیت آموز واقعات سے پُر ہے کہ ان پر غور کرنے سے آدمی کادم رک سا جاتا ہے ۔شجاع اور جری وہ اتنے ہیں کہ اپنی جان کی مطلق پروا نہیں کر تے اور کبھی کبھی تو جان پر کھیل جاتے ہیں ۔
سر سید دینی ذہن اور مذہبی مزاج والی شخصیت تھے ۔شریعت سے ان کا مظبوط رشتہ تھا۔ انہیں قرآن وحدیث کے پیغامات و ہدایات اور مطالبات کی اچھی پرکھ تھی۔ سر سید کا یہ خواب تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو عصری تعلیم اور جدید تحقیقات کے میدان میں آگے بڑھے ۔ان کی ہر ایک سعی اسی مقصد کے حصول کے لیے تھی۔ سرسید ــ چاہتے تھے کہ پورے ملک میں تعلیمی نظام مناسب ہو اور مسلمان تعلیمی میدان میں آگے بڑھے چناچہ لکھتے ہیں :
’’کم از کم ایک مدرسہ قائم کرناچاہے ۔جس سے ہر قسم کے مطالب ومقاصد پورے ہوں ۔ کیونکہ تمام لوگوں کے ایک ہی مقاصد نہیں ہوتے ہیں ۔اگر کوئی شخص بڑاریاض داں بنا چاہے تو وہ بھی اس میں اپنا مقصد حاصل کرسکے ۔اگر کوئی شخص علوم وزبان انگریزی میں تحصیل کا مل کرنا اور عہدہ پائے جلیہ گورنمنٹ میں حاصل کرنا چائے وہ بھی کرسکے ۔کب ایسا انتظام اور سلسلہ قائم ہوجائیگا‘‘۔
سر سیدنے دینی جذبے کے تحت ہی انگلستان کا سفر اختیار کیا تھا ۔وہاں کی تہذیبی ومعاشرتی تعلیمی اور دیگر نظاموں کا سر سید پہ گہرا اثر پڑا توتوہندوستان واپسی پے انہوں نے اپنے قوم کی فلاح کے لئے اسی طریقے پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ سرسید اپنے رقیق مہدی حسن کو یہان کے حالات اور یہاں کے نظام وتربیت سے آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’جان و جاں من!ایسے ایسے مدرسوں سے کچھ فائدہ نہیں ہے ، ہائے افسوس ہے کہ مسلمانان ہندوستان ڈوبے جاتے ہیں اور کوئی ان کو نکالنے والا نہیں ہے ۔اے بھائی مہدی کچھ فکر کرو اور یقین کرو جان لو کہ مسلمانوں کے ہونٹوں تک پانی آگیا ہے ۔ا ب ڈوبنے میں بہت کم پا ئی ہے ۔اگر تم یہاں آتے دیکھتے کہ تر بیت کس طرح کی ہوتی ہے ؟ اور تعلیم اولاد کا کیا فائدہ ہے؟ اور علم کیوں کر آتا ہے؟اور کس طرح ہر کوئی قوم عزت حاصل کرتی ہے‘‘
سر سید ؒنے جس ز ما نے میں تعلیمی واصلاحی مشن کا آغاز کیا وہ ہندوستان کے زوال اور انحطاط کا دور تھا ۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ میں برطانوی سامراج نے باشدگان ہند کو تہ تیغ کرکے مفلوک الحالی کی نچلی سطح تک پہنچادیا تھا اوربتدریج ان کو منصب جلیلہ سے دستبردار کر دیا تھا ۔اس حاکمانہ ذہنیت نے ان پر بڑا گہرا نقش ثبت کیا ۔ بے اطمینانی اور ظلم و نا انصافی کی اس فضامیں زندگی گزار نے کے بجاے انہوں نے زندگی کے نشیب وفراز سے مقابلہ کرنا ہی چھوڑ دیا، سر سید احمد خانؒ مسلمانوکے اس رویہ کو گوارانہ کیا کہ قوم کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ، ہمدردی و غم خواری کے جذبہ سے سرشار ہوکر انہوں نے باشندگان ہندکی زیوں حالی کے اسباب کو تلاش کرنا شروع کردیا ۔اس میں انہیںجو چیز نمایاںطور پر نظر آئی وہ مسلمانوں کی بے عملی اور دور اندیشی کا فقدان تھا۔اسی وجہ سے تہذیب ،تمدن ،سیاست ،ادب ، ،مذہب،معاشرت،اقتصادیت بھی اس کی شکار ہوگئی غرض ہر معاملہ میں حد درجہ پستی اور کاہلی حاوی ہوگئی اور خود مسلمان اپنی بچی کچی قابلیت وصلاحیت کا استعمال کر کے کسی بڑی تبدیلی کے لیے فکر مند نہیں تھے ۔ انہوں نے دینی و مذ ہبی روح کو برقرار رکھتے ہوے جدید علوم و فنون اور انگریزی زبان وادب کے سیکھنے کا ان کو نہ صرف مشورہ دیا بلکہ وہ اس کی پرزور وکالت و حمایت کرنے لگے۔
سر سید کا خواب تھا کہ مسلمانوں کو اب عقلیت کے فلسفے سے بیدارکیا جاے اور انہیں تعلیم کے نور سے آراستہ کرایا جا ے ۔اس وقت میں نے انہوں نے سب سے پہلے مراد آباد اور غازی پور میں مدرسہ کھولا ۔ جس کی اخر اور منظم شکل ۱۸۷۵ ء میں علی گڈھ میں مدرستہ العلوم کا قیام تھا ۔پھر یہی مدرسہ اپنی شہری کار کردگی سے اعلیٰ مقام پر جا پہنچا۔جو لوگ ایک وقت میں سرسید کے کاموں اور ان کے تعلیمی نظام کے مخالف تھے جلد ہی ان کی فکر سے متفق ہوکر ان کے کاموں سے وابستہ ہوگئے ۔یہاںتک کہ ان کے بچوں نے بھی یہا ں تعلیم حاصل کر نا شروع کر دیا۔ ایک حیران کن والی بات یہ بھی ہے کہ یہاں سے گریجویٹ اور پوسٹ گر یجویٹ کی تعداد دو درجن سے بھی کم تھی اور اگلے ہی سالوں میں یہ تعداد بڈھ گئی اور اس طرح سرسید کا مشن چلتاگیا۔ آج ہم اس ادارے کو علی گڈھ مسلم یو نیورسٹی کے نام سے جانتے ہیںجو ہندوستان کی جانی مانی یونی ورسٹی وں میںشمار کی جاتی ہیں۔ شاعرِمشرق علامہ اقبال ؔسرسید کی فکر اور ان کی خدمات جلیلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’ وہ دور جدید کے پہلے مسلمان ہیںجس نے آنے واے زمانے کے ایجابی مزاج کی ایک جھلک دیکھ لی تھی اور اپنی جہد وسعی کا رخ اسلام کی نئی تفسیر و تعبیر کی طرف کر دیا تھا ۔جدید ہندوستان کی تعمیر اور مسلمانوں کے احیاء ملی کے لئے انہوں نے اس ذہنی غلامی سے آزاد کرانے کی مہم کا آغاز کیا جس نے ہمارے قوائے عمل کو مضمحل کردیا تھا اور ہم ان اعلی صلاحیتوں سے محروم ہوگئے تھے ۔جو زندہ قوموں کے ضمیر کو بیدار رکھتی ہیں ۔سر سید کے عزم کوہ کن نے مسلمانوں کی فکر کا دھار بدل کر زندگی کے نئے میدان میں لاکھٹراکیا ۔انہوں نے قومی خدمت کا ایک نیا اور انقلاب آفریں تصور دے کر ایک ایسی نسئل تیار کردی ۔جو قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ان کی تعلیم تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے جدوجہد کرتی رہی ۔ہندی مسلمانوں کی تاریخ میں سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد کسی مسلمان نے قومی اور ملی زندگی پر اثرنہیں ۔‘‘
اگر دیکھا جائے تعلیمی نظام میں ہندوستان اب تک بہت پیچھے تھا وہ اسلئے کیونکہ اس وقت میں جو دینی مدارس اور مکاتب جاری تھے ۔ان کا نظام تعلیم اور طریقہ تدرسی وہی تھا جو ایک تو رِوایاتی تھا یانہ جو بڑے عرصے سے قائم تھا ۔اب تک کوئی ایک بھی ادارہ ایسا نہ تھا جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا بھی انتظام ہو ۔ جہاں بچوں کو عمدہ تربیت سے بھی آراستہ کیا جاتا ہواور یہ نظام اسکے لئے ضروری تھاجیسے پانی انسان کے لئے ضروری ہے ۔ ٹھیک اسی طرح اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت نہ ہو تو انسانیت کی فلاح اور معاشرے کے استحکام کی توقع بے سود ہے ۔اگرچہ یہ بھی دیکھنے کو کھبی کھبار ملتا ہے کہ جو آدمی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنے مفاد کا مجروح ہوتا ہے اور اپنی تمام اور اخلاقی لیاقتوں کو نظرانداز کردیتا ہے ۔ایسے حالات میں جو چیز اس کی صحیح راہ پر چلاسکتی ہے وہ تر بیت ہی ہے ۔ اس تنا ظر میں سر سید احمد لکھتے ہیں:
’’ــتعلیم اور تر بیت کو ہم معنی سمجھنابڑ ی غلطی ہے ۔بلکہ وہ جدا جدا چیزیں ہیں جو ایک انسان میں ہے اس کو باہر نکالنا انسان کو تعلیم دینا ہے اور اس کو کسی کام کے لایق کرنا اس کی تربیت کرنا ہے۔مثلاجو قوتیں خداتعالی نے انسان میں رکھی ہیں ان کو تحریک دینااور شگفتہ وشاداب کرنا انسان کی تعلیم ہے اور اس کو کسی بات کا مخزن اور مجمع بنانا اس کی تر بیت ہے۔بلکہ اس کے دل کو سوتوں کا کھولنا اور اندرونی قوی کو حرکت میں لانے اور شگفتہ وشاداب کرنے سے نکلتا ہے اور انسان کو تربیت کرنا ۔اس کے لئے سامان کا مہیا کرنا اور اس سے کا م کا لینا ہے ۔جیسے جہازتیار ہونے کے بعد اس پر بوجھ لادنا اور حوص بنانے کے بعد اس میں پانی بھرنا ۔یسی تربیت سے تعلیم کا بھی پاناضروری نہیں ہے۔تر بیت جتنی چاہو کرو اس کے دل کو تربیت کرتے کرتے منہ تک بھردو۔مگر اس سے دل کی سرجی سوتیں نہیں کھلتی بلکہ بالکل بند ہو جا تی ہیں۔اندرونی قویٰ کو حرکت دیتے بغیر تربیت تو ہو جاتی ہے مگر تعلیم کبھی نہیں ہوتی ۔اس لیے ممکن ہے کہ ایک شخص کی تربیت تو بہت اچھی ہو اور تعلیم بہت بڑی۔‘‘
انگریزوں کے دور حکومت میں یہاں جو مغربی تعلیمی ادارے چل رہے تھے ان میں زیادہ توجہ تعلیم پر ہی دیتے مگر تربیت کے لیے کچھ کام نہیں کیاجاتا تھا تو اس کے برعکس سرسید نے جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا کو ذہنی اور جسمانی دونوں قسم کی تربیت سے آراستہ کیا :
’’اے عزیزو !تعلیم اگر اس سے ساتھ تربیت نہ ہو اور جس تعلیم سے قوم نہ بنے اور تعلیم درحقیقت کچھ قدرکے لایق نہیں ہے ۔پس انگریزی پٹرھ لینا اور بی اے،ایم اے ہوجانا ۔ جب تک اس کے ساتھ تربیت اور قومیت کی فیلیگ نہ ہوہم قوم کو قوم اور ایک معزز قوم نہیں بناسکتے‘‘
سرسیدکو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ محض چند کتابوں کا مطالعہ کر لینے سے ہی تعلیم حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے تر بیت بھی بہت ضروری ہے ،جس کے لیے اچھی سوسائٹی اور سماج و معاشرت درکار ہے ۔سرسید آکسفورڈاور کیمرج یونی ورسٹی وں کے طرزپر ہی ہندوستانیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے ۔سرسید کا کہناہے کہ تربیت تعلیم کا سب سے اہم حصہ ہے ۔بغیر تربیت کے تعلیم بے معنی ہے۔
سرسید احمد خان نے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اپنی پوری زندگی اپنے قوم کے لیے وقف کر دی تھی ۔ سر سید کاتعلیمی واصلاحی مشن کا نقط عروج یہی تھا کہ ہندوستانی مسلمان اپنی تعلیمی لیاقت وصلاحیت کی بدولت زندگی کے میدان میں آگے بڑھے، باعزت زندگی گزارسکیں اورعظمت رفتہ کو دوبارہ استوار کرسکیں اس سلسلے میں کہتے تھے کہ جب تک ان کے پاس علم وعمل کی دولت تھی وہ دنیاپر چھائے رہے مگر جوں ہی ان کے پاس علم سے بے گانگی اور عمل میں سستی و کاہلی آئی یہ لوگ کم زور ہوئے اور دنیا کے نقشے پر بے وقعت ہو کر رہ گئے ۔ سر سید کی زندگی میں تو صرف اور صرف مسائل اور چیلجز تھے لیکن آپ نے ان کا مقابلہ بڑے حوصلہ اور نیک نیتی کے ساتھ کیا اپنے مشن کے کارواں کو چلاتے رہے ۔
سرسید احمدخان کو اپنی تعلیمی واصلاحی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا مگر یہ سب حالات ان کے عز ائم اور ارادے کو متزلزل نہ کرسیکں ۔ اگر وہ وقت پر اس کام کا بیڑا نہ اُٹھاتے تو مسلمانوں کی حالت کچھ اور ہی ہوتی وہ سب پر عیاں ہے ۔انہوں نے جن ہنگامی حالات میں قوم وملت کی تعمیر وترقی کے لیے جدوجہد کی وہ یقیناًلایق ِتحسین ہے ۔معزز ،عزت اور باوقار قومی شہری بنانے کے لیے ہم سب کو یہی فکر کرنی ہوگئی اور اس میدان میں آگے آنا ہوگا کیونکہ یہی ہمارہی ترقی کی شاہ کلید ہے۔ سر سید کے دماغ میں ہر وقت یہ بات ہوتی تھی کہ جب تک مسلمان قوم عمدہ تعلیم وتہذیب سے آراستہ نہ ہو وہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتے ۔اسی لئے انھوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کو اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیا ۔اسی حوالے سے سر سید احمد خان لکھتے ہیں :
’’ اے دوستو!ومجھ کو بات کچھ زیادہ خوش کرنے والی نہیں ہے کہ کس مسلمان نے بی اے کیا یا ایم اے کی ڈگری حاصل کی بلکہ میری خوشی قوم کو قوم بنانے کی ہے۔‘ ‘
مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی ’’ حیاتِ جاوید‘‘ کے ذریعے علامہ شبلی نعمانی نے اپنی معرکتہ الآرامثنوی’’صبح امید‘‘ کے ذریعہ اور نواب محسن الملک اور ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی موثر تقریروں کے ذریعے ، سر سید احمدؒ کی عظمت کو برقرار رکھنے کی کوششیں کیںمگر ملتِ اسلامیہ کے اس محسن اور غم گسار پر بعد میں مطاعن کا سلسلہ اسی شد ومد اور تسلسل کے ساتھ شروع ہوا کہ آج خود نئی نسل جو انہی کی سا ختہ پر دارختہ ہے ۔جس کاعلمی ذوق اور بین الاقوامی سیاسی مزاج تمام تر سر سید کا مرہونِ منت ہے ۔ سرسید نے انیسویں صدی کے اخیر میں مسلم قوم کی ترقی کا جوخاکہ پیش کیا تھا وہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میںبھی اتنا ہی موثر اور معتبر ہے ،جو ان کے بصیرت اور دوراندیشی کی دلیل ہے ۔ آج کے تعلیمی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ جدید علوم سے باخبر ہونا اور جدید اعلی تعلیم حاصل کرنا ہی مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کا واحد راستہ ہے ۔انھوں نے مستقبل کے حالات کا صحیح اندازہ لگایا کہ آنے والے دور میں ہندوستان میںوہی قومیں عزت و قار ا ور ترقی حاصل کر سکیں گی جو جدید علوم اور اعلٰی تعلیم سے خود کو پوری طرح آراستہ کریں گے ۔ کیونکہ آنے والا دور سائنس اور ٹکنالوجی کا دور ہے ۔ سر سید نے مسلمانوں کے لئے جوشاہ راہ بنائی تھی آج ہمیںاسی راستے اور اسی ڈگر پر چلنا ہوگا ۔ان کی فکر اور سونچ کو از سر نو موضوع بنا کر ہم موجودہ دور کے تعلیمی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں ۔
کتابیات
۱۔ رسالہ فکر و نظر : علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ ، دسمبر ۲۰۱۰ء
۲۔ سر سید احمد خان کے لکچر وں کا مجموعہ :مرتبہ سراج الدین ، قومی بازار کشمیری لاہور ،۱۸۹۰ ء
۳۔ مقالاتِ سر سید : مرتب محمد عبداللہ خان خویشگی ، برویزبک ڈپو ، دہلی ، ۱۹۹۶ء ۴۔ خطبات سر سید : اسماعیل پانی پتی ،مجلِس ترقی ادب ، لاہور
۵۔ حیات جاوید : الطاف حسین حالی ،لاہور ۔ ۶۔ تہذیب الاخلاق :ماہ نامہ ، علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!