نظم ’’شکوہ‘‘ کا بیانیاتی تجزیہ

ڈاکٹرعبدالر حمن فیصل

 ڈپارٹمنٹ آف پرشین، عربک اینڈ اردو، یونی ورسٹی آف بروڈہ، بروڈہ، گجرات

Mb:08218467664

شکوہ/شکایت صرف ایک طرزِ اظہار ہی نہیں بلکہ اس کا اپنا ایک ادب (Literature) ہے جو قدیم زمانے سے کسی نہ کسی شکل میں رائج رہا ہے۔ مصنفین کے ذریعے مختلف اصناف ادب اور ہیئتوں میں شکوہ کا بیان کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً سیاسی نظمیں ، احتجاجی نظمیں، ہجویہ ، پندو نصائح اس کے ساتھ ہی غنائی شاعری بیانیہ، ڈرامہ، مضامین اور خطوط وغیرہ۔

اظہار اور ہیئت میں تنوع کے باوجود شکوہ /شکایت (Complaint) وقت کی کیفیت (time of temper) کے ایسے پہلو کو پیش کرتا ہے جس میں ناراضگی، انتشار، خوف، عدم تحفظ، بے اعتمادی اور ناامیدی شامل ہوتی ہے۔

Glossary of Poetic termمیں شکوہ(Complaint) کی یہ تعریف درج ہے:

A poem of lament, often directed at an ill-fated love,’…A complaint may also be a satiric attack an social injustice and immorality,”

Encyclopedia of Britannicaمیں بھی complaintکی تقریباً یہی تعریف کی گئی ہے۔

“Complaint also called plaint, in literature, a formerly popular variety of poem that laments or protests unrequited love or tell of personal misfortune misery, or injustice.”

یہاں اردو کی دو اصناف، واسوخت اور شہر آشوب کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ واسوخت میں عاشق اپنے محبوب سے شکایت کرتا ہے کیوں کہ معشوق کا عاشق کے بجائے کسی غیر سے آشنائی ہو گئی ہے۔ مذکورہ لغات کی تعریف میں at ill-fated love اور laments or protests unrequited love اسی کی وضاحت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ شہر آشوب جس میں اقتدار/سلطنت کے سیاسی بحران اور اس کے نتیجے میں تہذیبی، معاشرتی اور معاشی زوال و انتشار کا بیان اس کا موضوع ہے۔

گویا اردو میں شاعری کی ہیئت میں شکوہ/شکایت کا طرزِ اظہار ابتداء سے ہی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔

علامہ اقبال کی نظم ’شکوہ‘ ۱۹۱۱ء میں شائع ہوئی۔ اس عہد میں ہندوستان استعماری طاقتوں کے قبضہ میں تھا۔ ملک کی قدیم تہذیبیں اور روایات سب مٹ رہی تھیں، ظلم و تشدد کا ہر طرف شور و غل تھا۔ عوام کے دلوں میں انتشار، خوف، بے اعتمادی اور ناامیدی نے اپنا پہرا کر رکھا تھا۔ اس عہد یعنی استعماری ہندوستان (colonized india) کی دردناک تاریخ میں علامہ اقبال ایک مخصوص آواز کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے اس نظامِ حکومت کے خلاف اپنی صدا بلند کی۔ اپنی قوم کے پریشان کن اور بدتر حالات، استعماری دنیا کے مطالبات اور اپنے ماضی کی بازیافت کے تئیں ان کی حساسیت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک جانوس کی طرح ایک ہی وقت میں ماضی کی بازیافت اور مستقبل کا ادراک دونوں ہی ان کے یہاں نظر آتا ہے۔ حالاں کہ جس وقت اس نظم کی تخلیق ہوئی ہندوستانی مسلمانوں کو ایک ساتھ ایک پیلٹ فارم پر لانا ممکن نہیں تھا، جب تک کہ وہ ان کی موجودہ ضروریات کو خطاب (adressed) نہیں کرتے۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی کی یاد دلائی اور ساتھ ہی موجودہ محرومیت کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک آزاد وطن کی تصویر کی جانب اشارہ بھی کیا۔ نظم ’’شکوہ‘‘ اس کی نمایاں مثال ہے۔

علامہ اقبال کی یہ نظم کل ۳۱ بندوں پر مشتمل ہے لیکن نظم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نظم کل چھ حصوں پر مشتمل ہے۔ جسے اظہار کے طریقۂ کار بیانیہ کی زبان میں پلاٹ کہا جا سکتا ہے۔ چوں کہ یہ نظم براہ راست بیانیہ نظم نہیں ہے بلکہ ہماری روایتی شاعرے کے محبوب فارم مسدس کی ہیئت میں ایک شکوہ (Complaint) ہے جس کا اندازِ بیان Descriptiveہے، اس لیے اس میں پلاٹ کی وہ شکل نمایاں نہیں ہے جو براہِ راست بیانیہ یا قصہ گوئی کی نظموں مثلاً مرثیہ اور مثنوی میں نظر آتی ہے۔ نظم کااندازِ بیان Descriptiveہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ شکوہ میں کوئی ایک شخص اپنی عرض داشت کسی کے حضور پیش کرتا ہے۔ اس لیے بیانیہ کی طرح کرداروں کی اور اس کے نتیجے میں عمل کی کثرت ممکن نہیں۔

نظم کا بیان واحد متکلم راوی/شاعر کی زبانی شروع ہوتا ہے، یہاں راوی خود بحیثیت کردار موجود ہے۔ آگے چل کر بیان کے صیغے میں تبدیلی آتی ہے اور خطاب جمع متکلم کی زبانی شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں راوی تبدیل نہیں ہوتا بلکہ واحد متکلم بہ زبانِ قوم اپنا مدعا بیان کرنے لگتا ہے اور اختتام تک پہنچتے پہنچتے پھر واحد متکلم راوی کی زبانی بیان/خطاب ہونے لگتا ہے۔

پہلے بند میں راوی/شاعر سوال قائم کرتا ہے:

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں

فکر ِ فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہمنوا! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

یہ سوال شاعر یا راوی کس سے کر رہا ہے؟ اس کا مخاطَب کون ہے؟ اور دوسری بات یہ کہ سوال کیوں اور کس وجہ سے کیا جا رہاہے؟ ان دونوں سوالات کے جواب مذکورہ اشعار میں درج ہیں۔ اپنے وطن کے باشندوں کی پریشاں حالی و زبوں حالی کے نالے سن کر شاعر خاموش نہیں رہ سکتا اس لیے وہ اپنے مخاطب ’’ہمنوا!‘‘ سے کہتا ہے کہ مجھے ایسی قوت گویائی عطا کی گئی ہے جو بڑی جرأت اور حوصلے کی حامل ہے یہی وجہ ہے کہ میں خاکم بدہن، اپنے خالق سے ہی شکوہ کر رہا ہوں۔

مذکورہ بند میں صرف نظم کا موضوع ہی بیان نہیں ہوا ہے بلکہ اپنی قوم کی زبوں حالی، قوم کا نئے خوابوں کو حقیقت میں شرمندۂ تعبیر کرنے کے بجائے ماضی کے امتیاز و افتخار پر ہی آرام طلبی، اپنی اس حالت پر ان کی شکایت اور پہلے بند کے ٹیپ کے مصرعے میں ایک پختہ ارادے کے ساتھ جو ایک مومن/مسلمان کا عقیدہ ہے کہ خدا ہی ان کی اس حالت کو بدلے گا، کا بھی بیان ہوا ہے۔

نظم کے دوسرے بند سے واحد متکلم/شاعر بہ زبان قوم براہِ راست خدا سے مخاطب ہوتا ہے اور اپنے شکوہ کرنے کے سبب کا بیان کرتا ہے کہ اگر ہم آج قصۂ درد تیرے سامنے بیان کرتے ہیں تو اس لیے کہ ہم مجبور ہیں۔ مومن/مسلمان کا یہ شیوہ ہے کہ وہ ہر حالت میں خدا کی مرضی کا پابند رہے گا اور اس کا شکر ادا کرے گا۔ مومن کی اسی صفت کو سامنے رکھتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ ’’نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم‘‘ اور اسی مصرعے کی وجہ سے ٹیپ کے مصرعے کا لہجہ سختی کے بجائے ایک فریادی کے لہجے میں تبدیل ہو جاتا ہے:

اے خدا!شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے

خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

نظم کے تیسرے بند سے راوی اپنی عرضداشت(chargesheet) گزارنے کے بجائے پہلے خدا سے اپنے آزاد وجود ہونے کا منطقی جواز پیش کرتا ہے:

شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم

بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم

گویا علامہ انسانی ذات، الٰہی ضرورت کی پیداوار مانتے ہیں اور چوں کہ وہ الٰہی ضروریات کے تحت وجود میں آیا ہے اس لیے اپنی ضروریات کے تئیں وہ انصاف الٰہی کی توقع رکھتا ہے۔

اس کے بعد نظم کے چوتھے بند سے لے کر تیرہویں بند کے چار مصرعوں تک راوی بہ زبانِ قوم مسلمانوں کے بلند روحانی مرتبے کی حصولیابی اور دنیوی کامیابی و کامرانی کا بیان کرتا ہے بلکہ خدا کو ان حصولیابیوں کی یاد دلاتا ہے جو انہوں نے دینِ الٰہی/رضائے الٰہی کی خاطر حاصل کیں۔

نظم کا یہ پورا حصہ مسلمانوں کے درخشندہ ماضی کا Descriptive بیان ہے۔ اس طرح یہ اس بیانیہ نظم کا دوسرا پلاٹ ہے جس میں کوئی مخصوص کردار تو نظر نہیں آتا لیکن مختلف مقامات کے واقعات کی جانب اشارے اس پلاٹ کی تشکیل کرتے ہیں۔

۱۳ویں بند کے آخری دو مصرعے یعنی ٹیپ کا مصرعہ بعد کے آنے والے بیان/پلاٹ کے درمیان کی کڑی ہے جو ایک کو دوسرے متصل کرتا ہے۔ بیانیہ کی زبان میں کہیں تو ٹیپ کا یہ مصرعہ

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

ہم وفادار نہیں، تو بھی تو دلدار نہیں

اُس عمل کا کام کرتا ہے جو ایک صورت حال سے دوسرے صورت حال میں جانے کا منطقی جواز فراہم کرتا ہے۔

نظم میں اسی شعر سے براہِ راست شکوہ کے مضمون کی ابتداء ہوتی ہے لیکن یہاں شکوہ کا لہجہ فریادی کا نہیں بلکہ اس خود مختار انسانی وجود کا ہے جسے ضروریات الٰہی کے لیے بنایا گیا ۔ شاید اسی لیے شکوہ کا لہجہ سخت معلوم ہوتا ہے ۔ اس کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ نظم کا راوی /مدعی کوئی بلند پایہ شخصیت مثلاً ولی اللہ، صوفی یا ناصح نہیں بلکہ ایک ایسا انسان ہے جس کی زندگی پریشانی اور غم و آلام سے بھری ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں لہجے کی سختی بالکل فطری معلوم ہوتی ہے نہ کہ اس میں انکار کا پہلو نظر آتا ہے۔

۱۴ویں بند سے لے کر ۱۶ویں بند تک میں راوی مسلمانوں پر ہونے والے عذاب، ملت اسلامیہ کی زوال پذیری، غیروں /استعمار کے ذریعہ قوم کی ہونی والی تضحیک کا بیان کرتے ہوئے سوال قائم کرتا ہے:

خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں؟

اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟

لیکن اسی کے Parallel جہاں راوی مسلمانوں پر نازل ہونے والے عذاب اور زوال پذیری کا ذکر کرتا ہے وہیں اغیار پر ہونے والی رحمت اور ان کی سرخروئی کا بھی بیان کرتا ہے۔ گویاراوی/شاعر منطقی طور پر ٹھوس بنیادوں کے ذریعہ اپنی حالات و کیفیات کا بیان/شکوہ کرتا ہے۔

شکوِہ کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ نظم کے ۲۱ویں بندتک جاری رہتا ہے لیکن ۱۷ویں بند سے ۲۱ویں بند تک میں شکوہ کے ساتھ ساتھ راوی سوالات بھی قائم کرتے ہوئے چلتا ہے۔ یعنی Chargesheetپیش کرنے کے ساتھ ساتھ Interrogationکا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ مثلاً آخر ہماری حالت ایسی کیوں ہوئی، کیوں تیرے چاہنے والوں کے ساتھ برا سلوک ہو رہا ہے۔ مزید اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ تو ہر چیز کو بدلنے پر قادر ہے اور تیرے سوا یہ قوت کسی میں نہیں۔

اس حصہ کا آخری یعنی ۲۱واں بند اس سوال و شکوہ کا Climaxہے جب متکلم راوی بہ زبان وقوم خدا سے پوچھتا ہے:

تجھ کو چھوڑا کہ رسولؐ عربی کو چھوڑا؟

بت گری پیشہ کیا؟ بت شکنی کو چھوڑا؟

عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟

رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں؟

زندگی مثلِ بلال حبشی رکھتے ہیں؟

کہ کیا ہم نے تیری عبادت چھوڑ دی؟ نبیؐ کی محبت سے روگردانی کی یا توحید کو چھوڑ کر ملحد ہو گئے اور اگر ایسا نہیں ہے تو کوئی وجہ تو ہونی چاہیے؟ جب کہ آج بھی ہمارے سینے میں تکبیر کی آگ محفوظ ہے۔

مایوسی کی اس انتہا پر پہنچنے کے بعد علامہ اقبال مدعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے باشعور حامی کا کردار بھی ادا کرتے ہیں جو خطا کار بھی ہے۔نظم کے ۲۲ویں بند سے لے کر ۲۵ویں بند کے دو اشعار تک راوی مسلمانوں کی خطاؤں یا کمیوں کا اعتراف بھی کرتا ہے اور پھر ان کی حمایت بھی کرتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی

جادہ پیمائیٔ تسلیم و رضا بھی نہ سہی

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہر جائی ہے

سرفاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے

اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے

آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں؟

ہم وہی سوختہ ساماں ہیں، تجھے یاد نہیں؟

مدعی کے ذریعے شکایت پیش کر دینے اور خطاؤں کا اعتراف کر لینے کے بعد نظم کا اگلا حصہ ۲۶واں و ۲۷واں بند دعائیہ انداز میں ہے۔یہاں بھی ٹیپ کے مصرعے کے ہی ذریعہ علامہ اگلے حصے /بیان کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں بلکہ اس کے ذریعہ وہ بیان کے درمیان منطقی ربط قائم کرتے ہیں جو پلاٹ کی تشکیل میں بنیادی عنصر کا درجہ رکھتا ہے۔راوی اس حصے میں خدا سے اس کی نصرت اور مردہ قوم کے اندر نئی روح پھونکنے کی التجا کرتا ہے۔

۲۸ویں بند میں واحد متکلم راوی اب قوم کی موجودہ صورت حال اور وطن کی بدحالی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا ہے، جو لوگ رہنمائی کرتے تھے وہ سب بھی بدظن ہو گئے ہیں لیکن ٹیپ کے مصرعے میں راوی بیان کرتا ہے کہ صرف میں/شاعر ہی ہے جو اب تک زندہ ہے اور خاموش نہیں رہ سکتا ہے:

ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک

اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

گویا اقبال متکلم کی زبانی اس بند سے ما قبل کیے گئے تمام شکوِہ کی وجہ بتاتے ہیں کہ میں اس لیے سوال یا شکایت کر رہا ہوں کیوں کہ میرے اندر میری قوم /وطن کے لیے نالہ و فریاد کا طوفان اب تک جاگزیں ہے۔ ٹیپ کے اسی مصرعے سے شاعر، واحد متکلم بحیثیت کردار راوی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس کا مخاطب بھی اب خدا کے بجائے اس کے قوم/وطن والے ہیں مثلاً یہ شعر دیکھیں:

قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی

کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی

نظم کے آخری بند میں واحد متکلم/شاعر اپنے مقصد کے متعلق پرُ اعتماد نظر آتا ہے اور یہ امید کرتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو نیند سے جگائے گا اور خدا کی نصرت آئے گی ۔ اس اعتماد کامل کا اندازہ نظم کے آخری شعر سے لگایا جا سکتا ہے:

عجمی خم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری

نظم کے اس آخری شعر میں لفظ ہندی کا استعمال کرکے علامہ نے اس بیانیہ نظم کے زمان و مکان کا تعین بھی کر دیا ہے جو بیانیہ قصہ کا ایک بنیادی عنصر ہے۔ مسدس کی ہیئت میں کہی گئی یہ نظم جتنی غنائی ہے اتنی ہی descriptive بھی۔ چوں کہ یہ ایک شکوہ کا بیان ہے اس لیے بیانیہ کی وہ صورت موجود نہیں جو کسی افسانوی بیانیہ کا خاصہ ہوتی ہے۔ لیکن اس میں بیانیہ شاعری کا بنیادی عنصر قصہ موجود ہے۔ نظم میں ایک بیان/واقعے کا دوسرے بیان/واقعے سے منطقی ربط ٹیپ کے مصرعے کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے جس سے پلاٹ کی تشکیل ہوتی ہے۔ تمام اجزاء کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں تو ابتدا، وسط اوراختتام صاف نظر آتا ہے۔نظم کے مطالعے سے متکلم راوی کی صفات یعنی اس کے علم، مشاہدات و ترجیحات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً متکلم راوی انہیں واقعات کا بیان کر سکتا ہے جو اس کے مشاہدے میں ہو یا وہ اس میں خود شامل ہو۔ نظم میں راوی جہاں بھی کسی ایسی بات کا ذکر کرتا ہے جو اس کے مشاہدے میں نہیں ہے یا وہ اس میں شامل نہیں ہے وہاںعلامہ نے تاریخی شخصیتوں کے نام یا مقامات کے اسماء کا ذکر کیا ہے۔

نظم کے اس بیانیاتی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کو واقعہ کی تفصیلات کا وہ ہنر آتا ہے جس سے اس کی معنویت اور شدت سطح پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ نظم میں واقعات کی یہ تشکیل علامہ کا امتیاز تصور کیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.