غالبؔ ِخستہ پر جاری ہے، آج بھی آنسو! (غالبؔ !بیسویں صدی کے شعرا کی زبانی)

ڈاکٹر اشرف علی
سی سی ایل ہائی اسکول ،نیا نگر، رام گڑھ، جھارکھنڈ
فون :9311827240
ای میل:ashrafalimehadvi@gmail.com

غالبؔ کی شخصیت کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اردو شعرو ادب میں ان پر سب سے زیادہ کام ہو ا ہے ،ہو رہا ہے اور ہو تا رہے گا ۔ان کے معاصرین نے بھی تذکروں اور اخباروں کے ذریعے خوب لکھا ۔رفتہ رفتہ ان کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھو نے لگی ۔ہر زبان میں ان کی شاعری پر کام ہو نے لگا ۔اردو کے ادیبوں ،محققوںاور نقادوں کو بھی خوب سے خوب تر مو ضوع ملنے لگے ۔انیسویں اور بیسویں صدی کے شاعروں نے بھی اپنی شاعری میں غالب کو تضمین کر تے ہوئے تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔کسی نے خراج عقیدت پیش کی ہے ۔شاعروں نے غالب کے تمام احوال و آثار ،فکرو فن ،عرفان و شعور اوران کی افہام و تفہیم کو سلیقے کے ساتھ قلم بند کیا۔غالبؔ کو ان کے حیات میں وہ مقام نہیں ملا جو انہیں ملنا چاہیے تھا۔اس کی شکایت انہوںنے اپنی تحریروں میں جا بجا کی ہے۔زندگی کے مسائل اور حالات نے جو ان سے خلافِ اقدار کام کروائے ان سے ان کے خانوادہ بھی قطع تعلق کرکے بالکل بے بہرہ ہو گیا تو ان کے اعزا و اقربا بے خبر۔مو لانا ابوالکلام آزاد نے غالب کے حادثہ اسیری کے بعدان کے ’’اقرباء کی بے مہری ‘‘کو یو ں بیان کیا ہے ۔
’’اس سلسلے میں واقعے کا ایک پہلو نہایت عبرت انگیز ہے ،جس کی تفصیلات مجھے خواجہ حالی ؔمر حوم سے معلوم ہو ئیں جوں ہی میرزاگرفتار ہوئے اور رہائی کی طرف سے مایوسی ہوگئی۔نہ صرف دوستوں اور ہم جلیسوںنے بلکہ عزیموں نے بھی یک قلم آنکھیں پھیر لیں اور اس بات میں شرمندگی محسوس کر نے لگے کہ میرزا کے عزیز و اقارب تصور کئے جائیں ۔
اس باب میں خاندان لو ہارو کا جو طرز عمل رہا وہ نہایت افسوس ناک تھا ۔میں نے نواب امیرالدین مرحوم سے اشارۃً تذکرہ کر کے ٹٹولنا چاہا تو ان کے جوابات سے بھی اس کی پوری تصدیق ہو گئی ۔
اس خاندان کا کوئی فرد نہ تو اس زمانے میں میرزا سے ملااور نہ کسی طرح کی اعانت کی ۔اتنا ہی نہیں بلکہ جب آگرہ کے ایک اخبار نے میرزا کا ذکر کر تے ہوئے خاندان لو ہارو کا رشتہ دار ظاہر کیاتو یہ بات ان لو گوں پر نہایت شاق گز ری اور بہ اہتمام و تکلف اس کی تغلیط کرائی ۔یہ لکھوایا کہ میرزا صاحب اور خاندان ِ لوہارو کا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے محض دور کا سلبی تعلق ہے ۔
نواب ضیاء الدین پر میرزا کو جس درجہ ناز تھا ،وہ ان کے قصیدے سے ظاہر ہے …… لیکن نہایت افسوس کے ساتھ یہ واقعہ لکھنا پڑ تا ہے کہ انہوں نے بھی آنکھیں پھیرلیں اور اسے کسرِ شان سمجھے کہ ایک اسیر جرم سے ملنے جائیں‘‘۔
غالبؔ کے شاگرد محمد مردان علی خاں رعناؔ نے ان کی وفات کے بعد یہ تجویز رکھی کہ ا ن پر کوئی یادگاری لکچر منظرعام پر آنی چاہیے ۔اس لئے رعنا نے تجویز میںاس بات پر زور دیا کہ غالب کے شاگرد ہی نثری اور منظوم تحریری لکھ کر دیں گے کیو نکہ ان کے لئے یہ یادگار خالص ادبی ہو گا اور کتاب کی شکل میں ہو گی ۔جس کے دو حصے ہوں گے ۔ایک حصے میں ان شاگردو ں کے مضامین ہو ں گے اور دوسرے حصے میں غالب ہی کے نظموں اور مضامین کو یکجا کیا جائے گالیکن افسوس آج تک یہ دستاویز منظر عام پر نہیں آسکی اور رعنا ؔکی یہ خواہش تشنۂ تکمیل ہے ۔ اقتباس ملاحظہ کر یں :
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستانی شعراء میں غالبؔ مرحوم ،خاتم الشعراء تھے اور ان کے بعد حقیقی شاعری کا دور باقی نہ رہا ۔ایک ایسے استاد کے لئے جس نے اپنی ذہانت سے ہندوستان پر جادو کا اثر دکھا یا ہو۔ ضروری ہے کہ ایک ایسی یاد گار قائم کی جائے جو ان کے شایان ِ شان ہو ۔اس کا م میں جو لو گ ہاتھ بٹا سکتے ہیں وہ ان کے تلامذہ ہیں ۔اس لئے میں گزارش کر تا ہو ں کہ وہ فرماں بردار شاگردوں کی طرح صمیم قلب سے اس خیال کو جلد سے جلد عملی جا مہ پہنا نے کی کو شش کریں ۔میری نا چیز رائے میں دہلی کے مخصوص حضرات کو اس کے لیے ایک انجمن کی تشکیل کر نی چاہیے۔
یہ انجمن اس تجویز کو غوروفکر کے بعد منظور کر لے اور تخمینہ پیش کر ے کہ اس یادگار کے قائم کر نے میں کیا خرچ آئے گا۔پھر اس خرچ کو پورا کر نے کے لئے چندہ جمع کر نے کی کو شش کی جائے ۔لیکن میرے خیال میں یہ یاد گار خالص ادبی یعنی ایک کتاب کی صورت میں ہو تو بہتر ہے جس کے پہلے حصے میں ان تاریخی واقعات کو اردو فارسی میں مرتب کیا جائے جن کا ان کی ذات سے گہرا تعلق ہے ہو جو دوسروں کے لئے دلچسپی کا سبب بنیں ۔دوسرے حصے میں ان نظموں اور مضامین کو جمع کر دیا جائے جن کو ان کے شاگردوں نے لکھے ہیں اس کے بعد ان قطعات تار یخ اور مر ثیوں کو مر تب کیا جا ئے جو ان کے شاگردوں نے جو ان کی وفات پر کہے ہیں ۔اس کتاب میں ان کے شاگردوں کا مختصر تذکرہ بھی ہو نا چاہیے لیکن یہ تمام نثری اور منظوم تحریریں صرف غالبؔ کے شاگردو ں کی ہی ہو نی چا ہیے ۔اس کتاب کو دو حصوں اردو اور فارسی پر مشتمل ہو نا چاہیے۔اس کے باوجود اگر کوئی عقیدت مند مر حوم کے متعلق کوئی چیز بھیجتا ہے تو اسے بھی کتاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ غالب کی تصویر کے ساتھ ان کے شاگردوں کی مکمل فہرست ہو نا بھی ضروری ہے ۔ہر شاگرد اور چندہ دینے والے کو اس کتاب کا ایک نسخہ ملنا چاہیے۔ پھر جو کتابیں بچیں فروخت کر دی جائیں ۔اگر میری اس تجویز پر عمل کیا گیا تو غالب کے شاگرد اپنے لائق استاد کو کھلے بندوں خراج عقیدت پیش کر نے کا حق ادا کر یں گے اور یہ اہم ادبی یاد گار غالب ؔکے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گیــ‘‘ ۔
اسی تشنگی کو ملحوظِ خاطررکھ کر راقم الحروف نے غالب ؔکے شاگردوں کے علاوہ دیگر ان روحانی شاگردوں کو بھی اپنے مقالے کا موضوع بنایا ہے جنہوں نے وفاتِ غالبؔپر خراجِ عقیدت کے طور پر اپنے اپنے خیالات کو پیش کیا ہے اور ان کی عظمتوںکا اعتراف کیا ہے۔
وفاتِ غالبؔ پر لکھے گئے تعزیتی و تہنیتی منظوم شاعری کو یکجا کر نا بہت دشوار کن مرحلہ تھا لیکن راقم کی تلاش و بسیار کے بعد کافی مواد فراہم ہو چکا ہے یوں تو غالبؔ پر خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی ’’یاد گار ِ غالبؔ‘‘نامی کتاب ہر ایک کے لئے راہ بر کی حیثیت رکھتی ہے جس سے میں بھی استفادہ خوب کیا ۔عبدالرحمن بجنوری کی ’’محاسنِ کلامِ غالبؔ‘‘ اور مالک رام کی ’’تلامذہ غالبـؔ‘‘ نے اس بازیافت میں میری کافی مدد کی ۔ نظم و نثر میں غالبؔ پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔منظوم انداز میں شاعروں نے ان کی اہمیت اور قدرو منزلت کوخوب بیان کیا ہے ۔غالب نے جس طرح شاعری کے ذریعے فکری اساس کی دعوت د ی ہے اوراپنے عہد کے مسائل پیش کیا ہے اور گردشِ ایام کی سدِّ باب کا حل بھی نکالا ہے انہیں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے غالبؔ کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں اور دیگر شاعروں نے اپنی شاعری میں ان کے دیدو دریافت کو مو ضوع بنا کر تضمین کی شکل دی ہے ۔ان میں اہم نام شاگردِ غالب میں میر مہدی علی مجروحؔ ، محمد حسین آزادؔ، خواجہ الطاف حسین حالیؔ ،قربان علی بیگ سالکؔ اور بعد کے شعرا میں علامہ اقبالؔ،اختر اورینوؔی ،خواجہ حسن نظامی جگر مراد آبادی، جمیل جالبی ؔاردو لکھنو،ندرتؔ کانپوری،فضاابن فیضیؔ ،حرمت الاکرامؔ ،والی آسیؔ ،علیؔ سردار جعفری ،ارشدؔ تھانوی ،عبدالقادر ادیبؔ ،میلارام وفاؔ،ماہر القادرؔی ،صبا ؔاکبر آبادی ،عبد الرؤف عرجؔ ،رئیس ؔامرہوی ،تابشؔ دہلوی ،دلاور فگارؔوغیرہ اہم ہیں۔ان میں سے ہرایک کی تہنیت اور تعزیت کو زرین حروف میں لکھنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے یہاں کچھ کاتذکرہ کیا جاتا ہے ۔
جمیل جالبی ؔ غالب ؔ کی تعزیت کا اظہار کر نے سے قبل خدائے وحدہٗ لا شریک کے ذات اقدس کو فلسفیانہ انداز میں رقم کر تے ہیں پھر غالبؔ کی جانب رخ کر تے ہوئے ان کے علم وفن ،عرفان و شعور کو بیان کیا ہے ۔سِلک مضمون کو آئینہ حسن میں تبدیل کر کے حسن بندش کو سرمایہ عقیدت ثابت کیا ہے کہ انہوں نے الفاظ و معنی کے پیچ و خم کا اصراف کر تے ہوئے روح معانی اور خلعت الفاظ کا جامہ پہنا یا ہے ۔ان کی شاعری فکرو آگہی کا بہترین سر چشمہ ہے ۔اسی سر چشمے سے ہر ایک فیضیاب ہو ئے ۔متاخرین ان کے افکار کے سانچے میں ڈھلے تو متقدمین نے ان کی تیز رفتار ی سے کتنی زمینیں ہموار کیں ۔اس میں شو خی بھی ہے ،حکمت و حیرت بھی ۔یہاں جمیل جالبیؔ غالب ؔکو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیرا دیوان ایک عالم بت خانہ چیں ہے جس میں ہر صنم تیری خدائی کا طلب گار ِ سجود ہے ۔تو نے ہراصناف پر قسمت آزمائی ،غزل تیری شاعری کی آبرو ہے ،مثنوی و قصیدہ شان تمکین ہے ۔جمیل مزید یہ کہتے ہیں کہ تیری شاعری کا محور دلی کی معمولی زمین ہے جس نے کشورِ ہند میں سکہ جمایا ،جس کے باعث چہار جانب تیرے ہی نغمے گو نجنے لگے ،آخر میں جمیل یہ کہتے ہیں کہ تیرے مدحیہ قصیدے کا صلہ یہ ہے کہ نسل ممدوح تجھے خراج ِ تحسین پیش کر تا ہے اور جمیل تیرے درد تہہ ساغر کا طلب گار ہے کیو نکہ تو امام صف عرفاں ہے بہ ایمائے حضور ۔
تیرے افکار کے سانچے میں ڈھلے کتنے دماغ

تیری رفتار کی گرمی سے بنی کتنی زمیں
دیکھتے سب ہیں اس آئینے میں صورت اپنی

؎چہ تعقل چہ توہم چہ تحیر چہ یقیں
مختصر یہ کہ دو جزو کی یہ چھو ٹی سی کتاب

آیت اللہ ہے منجملہ آیات مبیں
تو امام صف عرفاں ہے بہ ایمائے حضور

تو غلام شہ مراداں ہے بہ فتوائے یقیں
غزل اردو شاعری کی آبر و ہے ۔اس آبرو کے تاجدار غالب ؔہیں جن کی تاجداری اقلیم ِ سخن پر ہے ۔جس کاکوئی بھی منکر نہیں ۔جرم ؔمحمد آبادی ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے غالبؔ کو تہنیت پیش کرتے ہوئے زمانے کے احوال کو بالائے طاق رکھ کر حلقہ ارباب نظر کے سامنے اقلیم معانی پر غالبؔ کی حکمرانی کا اعتراف کیا ہے ۔ان کے نزدیک غالبؔ ایک ایسے شاعر ہیں جن کی پیر وی کئے بغیر کوئی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا کیو نکہ غالبؔ دریائے تغزل کو روانی، اردو معلی کو جوانی بخشنے والے اور مضامین کو پر کیف بنانے والے وہ فردِ واحد ہیں جنہوں نے ریختہ گوئی کی تفسیر لکھی اور خواب کی تعبیر کو بیان کیا ہے ۔آج تک ان کے طرزِ اسلوب کو کوئی نہ پا سکا ۔ان کی نثری تحریریں بھی کیا خوب ہیں ۔جس میں انہوں نے نقد کی بنا ڈالی اور اس میں عرضـ مطلب کی نئی راہ نکا لی ۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا غالب کے ہر مضمون کی طالب ہے اور طالب کیو ں نہ ہوں کیو نکہ غالبؔہی ہے اقلیمِ سخن پر غالب ۔
طرز تحریر کا اسلوب کوئی پانہ سکا

گو ہر فکر تری طرح کوئی لا نہ سکا
آج بھی جو ہر مضمون کی ہے دنیا طالب

کیوں نہ غالب رہے اقلیم سخن پر غالب
سالک مسلک ایجاد کہوں گا ان کو

میر کی طرح میں استاد کہوں گا ان کو
غالبؔ ایک ایسے شاعر ہیں جن کو ہر بڑے چھو ٹے شاعروں نے قلمبند کیا ۔بڑوں کی شاعری کو شہرت ملی اور چھو ٹوں کو گمنامی نصیب ہوئی ۔گمنامی کے شاعر ندرتؔکا نپوری نے بھی غالب پر خوب لکھا ہے ۔انہیں خراج ِ عقیدت پیش کر تے ہوئے ان کی علو فکر ،زبان دانی اور علم و فن کی شیدائی پر خوب تحریر کیا ہے ۔ان کی شاعری اپنے عہد کی آئینہ ہے ۔ان کے تمام اصناف میں یک رنگی ،بلندخیالی ،معنی آفرینی،نغموںکی آہنگی سے پر صحت مند اشعار سے مشام ِ جاں مہکتا ہے ۔ان کے علم و فضل کی بنا پر ان کو بہادر شاہ ظفر نے دبیر الملک کا خطاب دیا اور ان کی عظمت کا قائل پوری دنیا ہے جس کی وجہ سے ان کی عظمت و رفعت پر زمانہ ناز کر تا ہے اور کر تا رہے گا ۔
ترے کلام کی خوبی ہے تیری یک رنگی

مزید طرہ ہے اس پر بلند آہنگی
خیال و لفظ میں مطلق نہیں کوئی تنگی

ادائے خاص و زباں و بیاں کا کیا کہنا
کہ سطح آب پہ مو ج رواں کا کیا کہنا
غالبؔ کی شخصیت ایک انمول ہیرے جیسا ہے ۔وہ ایک ہمہ جہت انسان تھے ۔ان کی شاعری زمانے کی المناک حوادث کے مر کز ہیں تو ان کی نثری تحریریں اپنے عہد کی بو لتی تصویریں ۔ان کے خطوط اپنے زمانے کے پر آشوب حالات کو پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے مکا لماتی انداز کو بڑی خو بصورتی سے رچا یا اور بسایا ہے ۔جگرؔ مراد آبادی نے غالبؔ کی تعزیت کا اظہار کر تے ہوئے اپنی نظم میں انہیں کے تمام اوصاف پر گفتگو کر نے کی سعی کی ہے ۔خاص طور پر جگرؔ لو گوں کے ذہن کو اس طرف لے جا نا چا ہتے ہیں کہ غالبؔ کے زمانے میں ہزاروں کی تعداد ان کے ہم عصروںکی تھی مگر ا ن ہزاروں میں تنہا انہیں کی ذات گرامی تھی جن کی نظم ونثرنے سبھوں میں مجتہد العصر قرار پا ئی ۔یہاںتک کہ ان کی تحریریں ہر ایک کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے عرفی ؔ،شیرازی ؔ،نظیری ؔ،ظہوری ؔ،اور فغانی ؔ وغیرہ سے بھی آگے چلی گئیں ۔اسی وجہ سے جگرؔ مراد آبادی نے غالب ؔ کو خراج عقیدت پیش کر تے ہوئے انہیںیہ باورکر انا چاہتے ہیں کہ تیری ذات میں ایسی ایسی صفات ہیں جس کا علم تجھے بھی نہیں ۔
اک مو ج نفس میں تری رقصا ں جمن و گنگ

تھے ملک سخن میں ترے ہم عصر ہزاروں
تنہا تھی ،تری ذات ،مگر صاحب اورنگ

تو نظم میں بھی ،نثر میں بھی مجتہد العصر
لیکن وہ ہے معذور کہ جس کی ہے نظر تنگ

تو نے اسے گنجائش کو نین عطا کی
اردو شاعری میں فضاابن فیضیؔ کا نام بہت بڑا ہے ۔ا ن کی شاعری زندگی کے مختلف رنگ و آہنگ کو پیش کر تی ہے ۔ابن فیضیؔؔ نے غالبؔ کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کے سعی کی ہیں جیسا کہ عنوان ’’سخن ایجاد ‘‘ سے ظاہر ہے ۔سخن ِ ایجاد میں ابن فیضیؔ نے غالبؔ کو غزل کا نئی رو اور نیا آہنگ قرار دیا ہے ۔اپنے اس نظم میں ابن فیضیؔؔ نے اس عہد کے حالات کو قلمبند کر دیاہے ۔خاص طور زمانے کی نا ہمواریوں کے باوجود اپنے وجود کو قائم و دائم رکھا اور ہنس ہنس کے دل کی جراحت کے مزے لیتے رہے ۔اپنی شاعری میں فلسفیانہ تخیل کی بنا ڈالی جس میںفن کا شعور ،غزلوں کی فضا بندی اور جذبات کی صناعی کا عکس بھر پور ملتا ہے ۔
کا ہشیار تھی طبع سخن ایجاد تری

تو نے غزلوں کو نئی رونیا آہنگ دیا
وہ تری نکتہ رسی ،فلسفیانہ تخیل

تو نے آفاقیت فکر کی گرہیں کھو لیں
پھو ٹی پڑتی ہے ہر اک لفظ سے احساس کی ضو

نوک جامہ ہے تری یا کسی قندیل کی لو
خلق الانسان من طین کا مصداق ہر انسان ہے ۔وہ مٹی سے بنایا گیا ہے اور اسی مٹی میں اسے دو بارہ جا نا ہے ۔شمیم ؔکر ھانی اپنی نظم ’’اسی خاک میں ہے ‘‘میں غالبؔ کو علو ہمت ،فکر تخیل ،طلسم معنی اور جنس حکمت کا خریدار قرار دیتے ہیں ۔ان کی عظمت و رفعت کو سلام کر تے ہیں اور یہ باور کر اتے ہیں کہ انسان اپنی عظمتوں سے جا نا اور پہچانا جا تاہے ۔ہر انسان کو اسی خاک میں جا نا ہے لیکن ان کی پہچان کا کے کارناموں کی وجہ سے باقی رہتی ہے اور وہ خاک بھی خوش قسمت ہو تا ہے جسے عظمت و بز رگی والی شخصیت نصیب ہو تی ہے ورنہ زمین بھی اسے کو ستی رہتی ہے۔ اس ضمن میں غالبؔ کی بات ہی کچھ اور تھی کیو نکہ ان کی رعنائی افکار پہ سارے عالم کو رشک تھا ۔

کعبہ اہل نظر مدفن غالب ہے یہی

محو خواب کیا دل بیدار اسی خاک میں ہے
ہے اسی قبر میں گنجئہ معنی کا طلسم

جنس حکمت کا خریدار اسی خاک میں ہے
ہے یہیں دفن حریف مئے مردا فگن عشق

بادۂ غم قدح خوار اسی خاک میں ہے
ڈالتا ہے جو زمانے پہ ابد کا پر تو

میرے ماضی کا وہ مینار اسی خاک میں ہے

رضاؔمظہری غالبؔ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی فکر آنے والی نسلوں کیلئے امیر کارواں اور جہان شعر کی بے تاج حکمراں کی ہیں۔ جہاں تک آپ کے بیان کا تعلق ہے تو آپ کے بیان پر ظہوریؔ وسعدیؔ اور جامیؔ بھی رشک کرتے ہیں اور سخن کے اعتبار سے بیدلؔ،عرفیؔ وغیرہ ہم زباں ہیں۔ انہیں خصوصیات کی وجہ سے جہانِ غالبؔ آپ کواپنی طرف راغب کرتاہے۔
ادبی زندگی میں غالبؔ کی شخصیت صحرائے زندگی کو گلستاں بنانے والی ہے۔ عہد حاضر میں ہم غالبیاتی ادب کا جائز لیتے ہیںتو ہمیں بڑے بڑے نام دیکھائی دیتے ہیں جنہوں نے غالبؔ کی فکر وفن پر لکھ کر خوب شہرت اور نام کمایاہے۔
ـ’’زندگی غزل اور غالبؔ‘‘نامی عنوان میں حرمتؔ الاکرام نے لفظ ارتقا کے تحت وقت کے دھارے کو پلٹا کھانے سے تعبیر کیاہے ۔ نشو مدنیت کی تاریخ کو ارتقا سے مربوط کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کو ارجن کی کمان بھی بتایاہے اور یہی ارتقاء غالبؔ کی زبان کو شعر بھی دیتاہے جس سے غالبؔ کے قلم کے ذریعہ اردو ارتقاء کی منزل طے کرتی ہے۔ غالبؔ ہی کے ذریعہ حسن الفاظ نے معانی کی ادا پائی۔ غالب کے بعدہی نغموں نے شوخی فکر پر اترانا سیکھا۔ غزل کی شکل میں نئی تبدیلی لانے میں غالب ؔکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اس لئے سخن آرائی کرنے والوں کو چاہئے کہ ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کریں۔
غالبؔ کو تہنیت اور دعائیں پیش کرتے ہوئے عمر انصاریؔ نے کیا خوب لکھا ہے
کہتا ہے شیخ آج بھی تجھ کو کہ تھا ولی

پڑھتاہے کلمہ آج بھی ہر برہمن ترا
لیوے ہے تیرا نام اٹھاوے ہے جو قلم

چومے ہے کوئی منھ دم فکر سخن ترا
گذرے ترے مزار سے ہوکر ہزار حشر

میلا نہ ہو سکا مگر اب تک کفن ترا

مختار ہاشمی ؔ نے غالب کے فکر و فن کو موضوع بناتے ہوئے ان کے جہاں دید کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان کی آمد کو ایک انقلاب قرارد یاہے۔ان کی حیات فلسفہ کو متعارف کرانے میں خوب فراوانی دیکھائی ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حریم فکر میں کون و مکاں کو قید کرنے کے ساتھ ساتھ زمین شعر میں ہفت آسماں کو قید کیاہے۔ جس کے باعث غالبؔ امام اہل بلاغت قرار پائے۔

امام اہل بلاغت فقیہہ شہر غزل

اسے پیمبر علم و ہنر بھی کہتے ہیں

غالبؔ کی نثر ونظم دونوں ہی معتبر اللغات ہیں۔ قلم کی روانی نے ان کے اندر حرارت زندگی پیدا کردی تھی ۔ زمانے کے مصائب کو برداشت کرتے ہوئے زندگی کے تمام پہلوئوں کو انہوں نے۔ غالب کے انہیں احوال وکوائف کو اثیمؔ خیرآبادی نے اپنی اسنـظم میں پیش کیا ہے ۔

ہے نظم جو ان کی شان رکھنے والی

تو نثر ہے کتنی جان رکھنی والی
سنجیدہ سی ہو یا ظریفانہ اثیم

ہر بات ہے ان کی آن رکھنے والی
الفاظ و معانی کے ہیں شایاں کیاکیا؟

معنی و الفاظ سے ہیں نمایاں کیاکیا؟

غالبؔ کی شاعری کی پیروی ہر خاص و عام نے کی ہے ۔ والی آمسؔ بھی ان میں سے ایک ہیں جنہوں نے ان کی پیر وی کرتے ہوئے ان کی ایک غزل کو اپنی اس تہنیتی غزل میں نظمیں کرتے ہوئے زمانے کے کے بکھرے ہوئے مسائل سے پریشان ہوکر اپنے اندر قوت پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کی اور ان بکھرے خیالات کو یکجا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن مصائب زمانہ اس کی اجازت نہیں دیتا اس لئے حقیقت یہ کہا جاسکتا ہے کہ’ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھاہے‘
آج کے دور میں غالبؔ بقید حیات ہوتے تو گردش ایام کو محسوس کرتے ہوئے ان کی شاعری کا انداز بیان ہی کچھ اور ہوتا ہے کیوں کہ آج کے دور میں ہنر مند انسان بے ہنر ہیں ۔ بیوقوف چالاک کی صفوں میں نظر آتے ہیں ۔ ان پڑھ پڑھے لکھوں کی جگہ دکھائی دیتے ہیں ۔ پہلے قو م کا سردار ہر چیز پر نظر رکھتا تھا اور اب ان کو نظر ثروت و دولت پر ہوتی ہے۔ لیڈر ان سیاسی اتھل پتھل سے بے خبر ہیں اور انہیں لیڈری کرنے کا بھرپور شوقین ہوتاہے ۔ ان ہی مسائل کی روشنی ڈالتے ہوئے ماچشؔ لکھنوی نے غالبؔ کو یوں مخاطب کیاہے۔
سنو !ہے شاعری میرے لئے گودرد سر غالبؔ

مخاطب کر رہاہوں آج میں تم کو مگر غالبؔ
ہنر مندوں پہ غالبؔ آگئے ہیں بے ہنر غالبؔ

جو نا بینا ہیں بیٹھے ہیں اہل نظر غالبؔ
یقیں ہے مجھ کو اس شعر و سخن کی بد مزاجی پر

اگر تم آج ہوتے پیٹ لیتے اپنا سر غالبؔ

سردار جعفری غالب کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں جس میں ان کی اوصاف شاعری کی خوب مدح کی گئی ہے۔ ان کے اشعار کے معنی و مفاہیم آسمان کی بلندیوں پر بھی گشت کرتی ہیں۔ تحریر و تقریر صداقت کا عکس افگن ہے جس میں ان کے شاعری کے نغمے ساز کے ساتھ چھیڑے ہیں مزید یہ انہی کا دین ہے کہ آج بڑے بڑے شاعر و ادیب ان کے رہین منت ہیں جس نے ہزاروں کی تعداد میں گل بداماں کی شکل میں چھوڑے ہیں۔ انہی نغمہ ساز میں اسعد شاہجہاں پوری بھی ہیں جو غالبؔ کی بغاوت شعر وادب پر بھی مرتے ہیں ۔ ان کا یہ شعر

جو تیرے دور کا میں احتساب کرتاہوں

تیر بغاوت شعر و ادب پہ مرتاہوں

غالبؔ کی طرز زندگی ایک بیش بہا قیمتی زندگی تھی ۔ ان کی زندگی عیش و آرام کے ساتھ مصائب و آلام کے ساتھ بھی گزرہی ہے لیکن اس زندگی میں فکر بھی ہے ۔ جینے کا طرز بھی ہے اور وادی شعر وسخن کے پیمبر بھی ہیں۔ جو ہر سعدیؔ غالبؔ کے انداز بیاں کو اس اندازمیں سراہتے ہیں۔

جاگ اٹھا آدمی سو یا ہوا

تو کچھ اس انداز سے گویا ہوا
کون غالبؔ کے طرفداروں میں ہے

تیری عظمت، تیری فن پاروں میں ہے

وہیں دوسری جانب عطا کاکوی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ غالبؔ جہاں سخنداں ہونا بہت دشوار ہے کیوں کہ ان کی شاعری زمانے کے بدلتے مزاج کے م طابق ہے ۔ ان کی زندگی خود مفسلی میں گذری ہے ایسے وقت میں بھی وہ آزاد وخودبیں کی زندگی بسر کی ہے اور شرمندہ احساس بھی نہیں ہوا۔
جسکو دشوار ہے غالبؔ سا سخنداں ہونا

فلک شعر و سخن کا مہ تاباں ہونا
مفلسی میں بھی وہ آزاد و خود بیں ہی رہا

اس کو آیا ہنسی شرمندہ احساس ہونا

زندہ قومیں شعر وشاعری کی شغف کواپنا شعار سمجھتی ہیں۔ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور شاعری کا مقام ان میں کافی اہم ہے کیوں شاعری اعتماد پیدا کرتی ہے۔ آل احمد سرور نقاد کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں ان کی تحریروں میں پوری زندگی پیوست ہوتی ہے۔ غالب ؔپر لکھے گئے تعزیت ناموں میں ان کا بھی اہم نام ہے ۔ ان کی نظم ’ مرزا غالبــ‘ ؔ کافی اہمیت کی حامل ہے جس میں ادب بھی ہے اور تہذیب بھی ۔ معجزہ فکر وفن بھی ہے تو اہل بصیرت کی بصارت بھی ۔

زندہ قوموں کے لئے شعر و ادب نعمت ہے

ان کو رکھتاہے جواں گر تو یہی آب حیات
بزم تہذیب چراغاں ہے اسی کے دم سے

لام کاری سے اسی کہ ہے بہاروں کو ثبات
ایں جمع اہل بصیرت ہے مرزا غالبؔ

ہم بھی لے آتے ہیں کچھ جذب و جنوں کی لوگات
اس طرح یکے بعد دیگرے سیکڑوں شعرائے کرام نے غالبؔ کو تہنیت اور خراجِ عقیدت پیش کیا ہے ۔ ہر شاعر کا انداز نرالہ اور اچھوتاہے۔ہر ایک شعرا اور ان کی نظموں پر خامہ فرسائی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جس کے لیے ایک طویل وقت درکار ہے اور جس کو اس مختصر سے مقالے میں سمیٹنا نا ممکن ہے۔یہ مقالہ صرف غالبؔ کو ایک خراج ہے اور میںایک سعادت مند کی حیثیت سے دعا گو ہوںکہ اللہ اس سعی کی بدولت ان کی روح کو تسکین عطا فرمائے۔(آمین)
***

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.