مرزا اسداللہ خان غالب کے غم نامے اور درد نامےکا تحقیقی جائزہ
ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی
اسسٹنٹ پروفیسر، فیکلٹی آف فارن لینگویج اینڈ لٹریچر، شعبہ اردو، تہران یونی ورسٹی، ایران
UNIVERSITY OF TEHRAN
f.azamlotfi@t.ac.ir
فارسی شاعر حافظ شیرازی نےعشق اور غم کے درمیان خاص مساوات قائم کی ہے۔ جسے رد کرنا آسان نہیں۔ ان کا شعر ہے
دوام عیش و تنعم نہ شیوہ عشق است
اگر معاشر مائی بنوش جام غمی
اردو غزل کے ایک بڑے نقاد ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے عشق اور غم کو شاعری کے لازوال موضوعات میں شمار کیا ہے۔ ان کے نزدیک:
عاشقانہ شاعری کو آپ دردوالم کے خیالات سے الگ نہیں رکھ سکتے عشق بغیرغم کے عضر کے تکمیل پذیر نہیں ہوسکتا۔ بغیر ادراک غم خود انسانی شخصیت ادھوری رہتی ہے ۔ غم کی دھیمی آنچ میں سلگنے سے شخصیت کے جو ہر نکھر تے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی زندگی میں غم کے عناصر ایسے پیوست ہیں کہ انہیں اس سے علیحد ہ کر ناممکن نہیں۔ خوشی اور مسرت کے گر یزپا لمحوں کی یاد میں جلد فراموش ہو جاتی ہیں لیکن غم کی یاد دل سے کبھی نہیں جاتی۔ اس کے نقوش ایسے گہرے ہوتے ہیں کہ زمانے کے ہاتھ سے بڑی مشکل سے کرتے ہیں۔ غزل میں جذبہ غم وہی حیثیت رکھتا ہے جو مغربی ادب میں ٹریجڈی المیہ ) کو حاصل ہے۔ ہر زبان کے ادب میں المیہ ہی کا مرتبہ آپ بلند پائیں گے ۔ غزل کے جذبہ غم کو مغربی ادب کی ٹریجڈی (الیہ ) کے مساوی قرار دے کر ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے مشرقی ادب میں المیہ کی معنویت کو بہت حد تک متعین کردیا ہے۔ اسی طرح غزل میں المیہ کی اہمیت کوتسلیم کرتےہوئے غزل کی جمالیاتی کے خصوص جذباتی مواد اور فکری نہج کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے۔ اور تھکن سے گر پڑنے والے ہرن کے حلق سے نکلتی ہے۔
(يوسف مین خان، ڈاکٹر اردوغزل۔ آیئے ادب لاہور ۱۹۹۴)
اردو شاعری میں درد نامہ کا آغازتصوف سے ۔ صوفيانہ واردات میں المیہ عناصر
صوفیانہ واردات میں المیہ عناصر کی موجودگی کو اسلامی تصوف کے آغاز ہی میں محسوس کرلیا گیا تھا، رقت قلب اور گریہ و زاری ایک محمود حالت کے طور پر بیان کیاجاتاہے۔
گوناگوںسیاسی درد اور معا شرتی درد عوامل کے علاوہ اردو شاعری اور نثر کے مزاج کی تشکیل میں تصوف کی روایات نے بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ اردو اور فارسی شاعری نے تصوف کی اس روایت سے بہت گہرے اثرات قبول کیے ہیں ، ان دونوں زبانوں کی شاعری میں اشک ریزی اور گریہ وزاری کی جذباتی اور اخلاقی قدر و قیمت کو متعین کرنے میں تصوف کے اس حزنیہ عنصر نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
غرض تصوف کی عمومی روایات اور متصوفانہ افکار نے ایک زندہ فکری اور تہذیبی روایات کی حیثیت سے اردو شاعری کے فکری اور جذباتی مزاج کی تشکیل پر بہت گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں، وحدت الوجود، عرفان ذات عظمت انسانی ، فنا اور بقا، حیرت اور تسلیم و رضا، عشق، ہمت، تجرد اور ترک علائق ، مشکلات و آلام، اخلاص عمل، حقیقت اور مجاز، جبر و قدر اور فقروغنا جیسے مہمات مسائل تصوف پوری اردو شاعری میں آ بگینوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں۔
میر سے لے کر غالب تک اور غالب سے لے کر اقبال تک تصوف کسی نہ کسی شکل میں اردو شعر کے جسد معنوی میں موضوعات و مضامین اور تلازمات وتصورات کی صورت میں خون کی طرح رواں دواں ے۔ جہاں تک، فانی جوغم پسندی اور پاس وقنوطیت کا آخری امام ہے فکری اعتبار سے واضح طور پر صوفیانہ افکار کا حامل ہے۔ اردو غزل میں جو گداز، لہجے کی جو شکستگی اور حزن و ملال کی جو عمومی لے موجود ہے۔ اس کا ایک سبب تصوف کی ہی زندہ روایت بھی ہے۔
درد نامہ غالب
غالب ایسے شاعر نہیں ہیںجو بغیر کسی کاوش یا محنت یا کسی درد کے شعر کہتے ہوں ، انہوں اپنی شاعری کا راز بیان کرتے ہوئے کہا ہے :
خون جگر است از رگ گفتار کشیدن
مرزا غالب نے اپنی ذات کے حوالے سےفارسی زبان سےمتا ثر ہو کر جمالیاتی الم نگاری کی ہے، جو اردو شاعری کا بہترین سرمایہ کہا جاسکتا ہے ، شدت احساس کے ساتھ ساتھ ندرت خیال اور حسن تفکر ان کے اشعار کی نمایاں خصوصیات ہیں غالب نے اپنے غم نامےکوفارسی انداز بیان سے سجایاہے
نے گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
غالب اس شعر میں اپنی ہستی کو ایک ساز سے تعبیر کیا ہے، ایران کے عظیم شاعر جیسے مولانا روم نے مثنوی معنوی کے اولین اشعار میں بانسری کوہستی انسانی کا استعارہ قرار دیا ہے ۔ مصرع اولی میں نغمہ کی لطیف صورتوں اور زمزموں کو جن میں سروں کی پیچیدگی اور تہ داری ہوتی ہے۔ گل نغمہ قرار دیا ہے۔ ساز کا پردہ (جہاں سے کر پیدا ہوتا ہے) بھی ساز کا اہم ترین حصہ ہے، چنانچہ کہتے ہیں کہ نہ میں ساز کا پردہ ہوں کہ میرے اندر سے سر پیدا کیا جائے، نہ گل نغمہ کی خوبصورتی ہوں۔ بلکہ میں تو اپنے ساز ہستی کی شکست کی آواز ہوں۔
رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عقدہ دل وا کرے کوئی
غالب غم روزگارکو ایک بہت بڑی حقیقت سمجھتےتھے۔ اوران کی نظر میں زمانےکی وضع اور تبدیلیاں۔ اور تغیرات کی موج انسان کے احساس درد اور الم کا باعث ہے
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنرمیں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
جاتی نہیں خلش الم روزگار کی
اےآسماں ہوا ترا انقلاب کیا
نذر درد دل غم دنیا کیا
اک مٹایا داغ، اک پیدا کیا
غالب اپنے الم اور غم کےدرد نامے کو مٹانا چاہتے ہیں مگر دنیا کے دستور کے حساب اور ایک درد دوبارہ جنم لیتا ہے
اسیر بند دل ہوکر غم دنیا سے فارغ ہوں
مری آزادیوں کا رازہے مہجور ہوجانا
غم دنیا بہ قدر ظرف نہیں
حسرت بیش و شکوہ کم کیا
غالب نشاط کےشاعر تھے، لیکن ان کے ماحول نے انہیں غم کا شاعر بنا دیا اور غم نامہ ان کا کارنا مہ۔ اور از الہ غم روح کے بوجھ کو ہلکاتو کرسکتا ہے لیکن تخلیق زندگی کا سبب نہیں بن سکتا ہے۔ لیکن غالب چونکہ تمام ترغم کے شاعر نہ تھے۔ بلکہ نشاط زیست کا جوش اور حسرت بھی لئے ہوئے تھے، اس لئے ان کے حقیقی طریق کار میں وہ تمام گر ہیں جو ایک تخلیقی شاعر میں ملتے ہیں۔
پروفیسر اسلوب احمد انصاری غالب کی شاعری کے حزنیہ عصر کو ان کے عہد کے خارجی حالات کا پرتو قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’غالب کے خطوط سے ان کے عہد کی ایک حد تک ذہنی اور بڑی حد تک سماجی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ شاعری (یعنی غالب کی شاعری) جونثر کے مقابلے میں کہیں زیادہ غالب کے حساس اور مرتعش ادراک کی تصویر ہے، فضا کی اس اداسی ، بے چینی اورغم گیتی سے مملو ہے، جو ایک زوال آمادہ تہذیب نے پیدا کر دی تھی ۔
غالب کے درد نامہ اور غم نامہ خطوط
یوسف مرزا خط لکھتے ہوئے ان مصیبتوں کا ذکر یوں کیا ہے ۔
میرا حال سوائے میرے خدا اور خداوند کے کوئی نہیں جانتا۔ آدمی کثر ت غم سے سودائی ہو جاتے ہیں ۔ عقل جاتی رہتی ہے۔ اگر اس ہجوم غم میں میری قوت متفکرہ میں فرق آگیا ہو تو کیا عجب ہے بلکہ اس کا اور نہ کرنا غضب ہے۔ پوچھو کہ غم کیا ہے !غم مرگ ،غم فراق، غم رزق، غم عزت، غم مرگ میں قلعہ نا مبارک سے قطع نظر کر کے اھل شہر کو گنتا ہوں، مظفر الدولہ‘ میر ناصر الدین ،مرزا عاشور بیگ ،میرا بھانجا، اس کا بیٹااحمد مرزا انیس برس کابچہ، مصطفی خاں ابن اعظم الدولہ اس کے دو بیٹے ارتضی خان اور مرتضی خان،قاضی فیض الله ،کیا میں ان کو اپنے عزیزوں کے برابر نہیں جانتا تھا۔ اے لو بھول گیا۔ حکیم رضی الدین خان ،میر امیر حسین میکش، اللہ ،اللہ، ان لوگوں کو کہاں سے لاؤں (اردوی معلی، ص، 255)
غالب اپنے غم نامہ میں آگہی ،شعو ر، انسانیت کا جذبہ سبھی کچھ جمع کردیا ہے ۔جب کہتے پوچھو کہ غم کیا ہے !غم مرگ ،غم فراق، غم رزق، غم عزت، غم مرگ، ان کے درد اور غم سمجھ اور انسانی شعور موجزن ہے
ایک اور خط میں لکھتے ہیں:
کوئی نہ سمجھے کہ میں اپنی بے رونقی اور تباہی کے غم میں مرتا ہوں۔ انگریز کی قوم میں سے جو روسیاہ کالوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے اس میں کوئی میرا امید گاہ تھا اور کوئی میرا شفیق اور کوئی میرا دوست ان برابر اور کوئی میرا شاگرد ہندوستانیوں میں کچھ عزیز، کچھ دوست ،کچھ شاگرد، کچھ معشوق، سودہ سب خاک میں مل گئے۔جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو اس کو زیست کیونکہ دشوار نہ ہو ،ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے ، ہاے اتنے یار مرے کہ جواب میں مروں گا تو میرا کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا ۔
غالب کو صرف اپنا ہی درد نہیں اپنے ہم وطنوں کااور ہندوستان کا درد ،اور کے علاوہ ہرانسان کےدرد سے آگاہی حاصل تھا، چنانچہ دستنبو میں ایک جگہ اپنےدرد نامے کواس الفاظ میں بیان کیا ہے :
’’دل است سنگ و آہن نیست و چرا نسوزد ، چشم است ، رخنہ و روزن نیست کہ نگرید ،آری ہم بہ داغ فرماندہان باید سوخت، و ہم بر ویرانی ہندوستان باید گریست ”
ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے کلام غالب کے درد اور المیہ کےبارے میں کہتے ہیں:
مرزاغالب ان تابوت بر دوش فلسفیوں میں نہیں جو زندگی کو ماتم خانہ اور اہل دنیا کو اہل جنازہ خیال کرتے ہیں۔کیونکہ وحدت الوجود کےفلسفے کا پہلا سبق ہے کہ ماسوا اور خدا صرف عارضی طور پر جدا ہیں اور بعد الموت پر یہ جدائی ختم ہو جاتی ہے
عشرت قطرہ ہے دریا میں فناہوجانا
درد کاحد سے گذر نا دوا ہوجانا
قطرہ دریا میں اور جزو کل میں مل کر عشرت جاوید حاصل کر سکتا ہے۔
فنا کو سونپ اگر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پر
نظر میں ہے ہماری جادہ راہ فناغالب
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشان کا
ہے نو آموز فنا ہمت دشوارپسند
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آسان نکلا
حاصل کلام :
غالب کےتمام کلام اور نثر میں جہاں دردو غم و حزن کی جھلک ہے وہ دل و دماغ پرا نسانیت کے اثر کو باقی رکھتا ہے نیزانسان کوبے دردی کے احساس سے دور رکھتا ہے ۔
غالب اپنے درد نامے میں انسان کو درد بے دردی سے دور رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں غم کو برداشت کرناانسان ہی کا کام ہے ۔اور اسی برداشت میں انسانیت کا رتبہ بھی پاسکتا ہے
غم ہستی یا غم محض مرزا غالب کے دردنامے میں پسندیدہ ترین موضوع ہیںجس کو بیان کرنے میں انہوں نے شعریت اور شعری تفکر کی بلندیوں کو چھو لیا ہے ۔
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے
چوں عکس پل بہ سیل بہ ذوق بلا برقص
جارا نگاہ دارو ہم از خود جدا بر قص
نبود وفائی عہد دمی خوش غنمت است
از شاہدان بہ نازش عہد وفا برقص
ذوقی است جستجو ، چہ زني دم ز قطع راہ
رفتار گم کن و بہ صدائی درا بر قص
سرسبز بودہ و بہ چمنہا چمیدہ ایم
ای شعلہ در گداز خس وخارما بر قص
ہم با نوای چند طریق سماع گیر
ہما در ہوائی جنش بال ہما بر قص
در عشق انبساط بہ پایان نمیرسد
چون گرد با خاک شوو در ہوا برقص
فرسودہ رسمہای عزیزان فرو گزار
در سور نوحہ خوان و بہ بزم عزا بر قص
چون خشم صالحاں و ولای منافقان
اور نفس خود مباش ، ولی بر ملا بر قص
از سوختن الم ، زشگفتن طرب محوی
بیہودہ در کنار سموم وصبا بر قص
غالب بدین نشاط کہ وابستہ کہ
بر خویشتن بال و بہ بند بلا بر قص
حوالہ جات :
1-بجنوری، عبدالرحمن ، ڈاکٹر،’’محاسن کلام غالب “انجمن ترقی اردو،علی گڑھ ص،1966،ص،66،67)
2-(دستنبو ،ص،14)
3-بنام ہرگوپال تفتہ، اردوی معلی؛ص،91)
4-پروفیسر اسلوب احمد انصاری،غالب شاعری کے چند بنیادی عناصر مشمولہ نقد غالب ،ص،269)
5-ممتاز حسین ، ’’غالب کا نظریہ “مشمولہ نقد غالب ۔ مرتبہ پروفیسر مختار الدین احمد الوقار پبلی کیشنز لاہور 1995،ص221)
6-يوسف مین خان، ڈاکٹر اردوغزل۔ آیئے ادب لاہور ۱۹۹۴)
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!