احمد شناسؔکے شعری مجموعہ’’ صلصال‘‘ کا خمیر

سجاد احمد نجار
ریسرچ اسکالر،اندور یونی ورسٹی ، اندور، ایم ۔ پی
9858667464.

اردو شعر و ادب کا افق ہر عہد میں تاباں رہا ہے ۔اس کے فروغ میں بر صغیرکے ہر خطے اور ہر علاقے کو یکساں اہمیت حاصل ہے ۔ ماضی کے نقشۂ ادب پر غائر نظر ڈالنے سے یہ بات روشن ہوتی ہے کہ اس میں بلا امتیاز ایسے جیالے غوطہ زن ہوئے کہ جن کی دیوانہ وار کوششوں ، فطری صلاحیتوں نیز فنی و فکری اظہار سے اس کے عمل میںمزید سرعت اور تابناکی آتی گئی ۔ بہمنی ، عادل شاہی اور قطب شاہی حکومتوں کے زیرِ اثر اردو اب کی کہانی ہو یا صوفیاء کرام کی اس زبان کے ضمن میں مجموعی خدمات کا رول ۔ مختلف دبستانوں کے رجحانات ہوں یا پھر اس زبان و ادب سے جڑی تحریکات کے شب و روز کے متاثر کُن واقعات ۔ مختصراً یہ کہ اردو زبان کے وسیلے اور اس کے اظہارات کے پسِ منظر میں بہت سے فنکاروں نے اس زبان کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا اور اس طرح یہ باقی دوسری بڑی زبانوں کی طرح توانا ہوتی گئی ۔ اس طرح دورِ حاضر میں اس زبان کی پیش رفت کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں ایسی منفرد آوازیں شعر و ادب کی شکل میں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں جن کی عظمت اہلِ ادب کے دلوں میں عمر بھر کے لئے گھر کرتی ہے ۔ اس مناسبت سے اردو کے فروغ میں جموں کشمیر کے ادب نوازوں کا رول بہت پہلے سے پیش پیش رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے نے ایسے قلم کار چمنِ اردو کو عطا کئے جن کی ادبی اہمیت کا اقرار اس زبان سے وابستہ جید علماء اور ناقدین کو نہ صرف ماضی بلکہ حال میں بھی رہا ہے ۔
آج کل کے دور میں جموں و کشمیر کے جوشعراء اردو شاعری کو نئے اور تازہ افکار سے متعارف کر ارہے ہیں ۔ ان میںوہ نام بھی شامل ہے کہ جس نے یہاں کے شعری سفر نامے میں اپنا نام ادبی حلقوں میں منوانے کے لئے پورے انہماک اور پوری آب و تاب کے ساتھ شاعری کے وسیع میدان میں اتر کر اپنی صلاحیتوں کا نرالا اظہار کیا ۔ اس نام کو احمد شناسؔ کے طور پر ادبی حلقوں میں جانا جاتا ہے ۔احمد شناسؔ چونکہ جموں کے راجوری علاقہ کے شاہدراہ شریف میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے یہاں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کر لی اور بعد میں انھیں K.A.S کے امتحان میں کامیابی حاصل ہوئی ، اس طرح مختلف محکمہ جات میں فرائضِ منصبی انجام دینے کے بعد آپ ڈپٹی کمشنر رام بن کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔ آ پ کی ملازمت اس نوعیت کی تھی کہ عوام کے ساتھ آپ تعلق کافی گہرا تھا ۔ آپ نے اعلیٰ عہدوں پہ مامورہو کر مختلف شہروں اور علاقوںکو نزدیک سے دیکھا اور وہاں کے لوگوں اور ان سے جڑے معاملات و مسائل کو بھی نزدیک سے دیکھنے کا پورا پورا موقع ملا،سماجی مشاہدے کے اس عمل سے آپ کو یہ فائدہ بہم پہنچا کہ آپ کے تجربات میں نہ صرف یہ کہ وسعت پیدا ہوگئی بلکہ ان تجربات کو آپ شاعری کے وسیلے سے پیش کرتے گئے ۔ دنیا چونکہ پہنائیوں کے مکمل نظام پر منحصر ہے ۔اس کا نہ کہیں سرا ہے اور نہ ہی کوئی آخری پڑاؤ ۔ یہاں نہ جانے کتنے چہرے منوں مٹی میں سما گئے۔ کسی کا نام رہا اور کوئی بے نامی کی زندگی بسر کرتا رہا ، کسی کی صدا فنون کے سانچے میں ڈھل کر حیات کی آخری سانس تک زندہ رہی اور کوئی اپنی زندگی کا اظہار پوری طرح سے کر نہ پایا ۔ شناسؔ کی شعری صدا ان کے باطنی اور ظاہری عمل کا مکمل نمونہ نہیں ہے بقولِ ان کے ؎
لفظوں کی دسترس میں مکمل نہیں ہوں میں
لکھی ہوئی کتاب کے باہر بھی سُن مجھے
مند رجہ بالا شعر سے احمد شناسؔ اس بات کے معترف نظر آتے ہیں کہ ان کے ہاں شاعری میںپیش کردہ تجربات ہی سب کچھ نہیں ہیں، بلکہ اس سے جدا بھی ان کی دنیا ہے جس کو سننے اور سمجھنے کی وہ قطعی دعوت دیتے ہیں۔
احمد شناس کے پہلے شعری مجموعہ ’’ پسِ آشکار‘‘ کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ ’’صلصال‘‘ کے مطالعے سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ انھوں نے نظموں کے ساتھ ساتھ غزلیہ شاعری کو بھی اپنے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ان دونوں اصنافِ شعر کی امتیازی شان کئی پہلوؤں سے ارفع ہے ۔ شناسؔ کی شاعری میں جہاں مذہبی حقیقت اور اس کی اصل روح کو پیش کرنے کی بہترین کاوش و سعی کی گئی ہے وہی دوسری طرف احمد شناسؔ ان تمام سماجی مضر رس عناصر کا بر ملا اظہار کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے باہمی نفرت ، وحشت و سراسیمگی ، اعلیٰ انسانی اقدار کی شکست وریخت ، تہذیبی اقدار کی پستی، انسانیت کی پامالی، مادیت کا غلبہ اور نفسیاتی الجھنوں وغیرہ کا بازار گرم رہتا ہے ۔ محمد متین ندوی شناس ؔکی اس انداز کی شاعری کے متعلق اپنے مضمون ’’ احمد شناس ایک منفرد اور معتبر شاعر ‘‘ میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہوتے ہیں:
’’ موجودہ دور میں جواخلاقی، سیاسی ، معاشرتی اور تہذیبی تبدیلیاں ہوئیں ہیں اور ہو رہی ہیں، ان کا اثر احمد شناسؔ کی شاعری پر بھی پڑا ہے ، احمد شناسؔ صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ پوری ادبی دنیا میں شہرت و مقبولیت اور اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں حسن بھی ہے اور عصری آگہی اور سسکتی و بلکتی انسانیت کا درد بھی۔‘‘
( سہ ماہی انتساب عالمی ، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۴، صفحہ۲۰۰ )
ملاحظہ ہو اس نوع کے اشعار
رشتوں کا آشوب انھیں کھا جائے گا
ہم سے کتنے دور ہمارے بچے ہیں
میں خود اپنے آپ سے ہوں بیگانہ سا
بستی کے انسان بھی میرے جیسے ہیں
٭
صایک بچہ ذہن سے پیسہ کمانے کی مشین
دوسر ا کمزور تھا سو، یر غمال ہو گیا
حادثہ بیرونِ ہستی تھا کہ اندر
سنگِ امکاں ریزہ ریزہ ہو گیا ہے
احمد شناس ؔ کی شاعری کسی مخصوص دائرے تک محدود نہیں ۔ ان کے ہاں مختلف النوع خیالات کے پیرائے اور اظہارات کے نئے نئے طریقے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ وہ شعر کہنے کا بہترین مذاق و مزاج رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے بیش تر اشعار میں زمینی معاملات و مشکلات اور اس سے جڑے حقائق کو پیش کرنے کی اچھی خاصی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار معنوی لحاظ سے پختہ ہوتے ہیں ۔ اور اس پختگی کا احساس اس وقت شدید ہوجاتا ہے جب ہم شناسؔ کی غزلوں اور نظموں کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں ۔ احمد شناسؔ کی شاعری کا ایک اور وصف ہجر و وصال کا بیان ۔ وہ اپنے معاصر شعراء کی طرح اپنی شاعری میں وصال و ہجر کے اظہار کے معاملے میں الگ راستہ نکال کر ایسی فضاء قائم کرتے ہیں کہ نہ صرف شعری آہنگ اور لفظیاتی برتاؤ کے نئے طریقے سامنے آجاتے ہیں بلکہ اس طرح کے اشعار میں منفرد تجربات بھی سامنے آتے ہیں ؎
کون قطرے میں اُٹھاتا ہے تلا طم
اور انتر آتما تک سینچتا ہے
میں اس کے بارشوں کا منتظر ہوں
وہ مجھ سے میرے آنسو مانگتا ہے
جب تک لہو کی آگ سلگتی ہے جسم میں
آئے گی بار بار مرے امتحان کی رات
احمد شناسؔ کے شعری مجموعہ ’’صلصال ‘‘ کی ایک اور خوبی دعوتِ فکر ہے ۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے متاثر کُن حقائق کا انکشاف اس طرز سے کرتے ہیں کہ قاری پورے غور و خوص کے بعدایسی فکر میں مبتلا ہوجا تا ہے جو اسے پارے کی طرح بے قرار کرتی ہے ۔ ملاحظہ ہوں اس انداز کے چند اشعار ؎
جہالت روگ تھا کہ دل کے اندر
وہی مذہب ہمار ا ہو گیا ہے
وہ خدا کے واسطے بولا ہمیشہ
اسلئے مذہب سے خارج ہو گیا ہے
روشنی ہے کہ ابھی تک نہیں اتری دل میں
روزِ اوّل سے کتابوں کا نمائندہ ہوں
ہے واہموں کا تماشہ یہاں وہاں دیکھو
ہمارے پاس مکمل خدا کہاں دیکھو
محمود ملک احمد شناسؔ کے شعری مجموعہ ’’ صلصال‘‘ کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ احمد شناسؔ نئی غزل کا ایک معتبر نام ہے ۔ میں نے ان کی غزلیں اکثر رسائل میں پڑھی ہیں ۔ ان کے ہاں ایک گہری فکر ہے ، جو قاری کو دعوتِ فکر دیتی ہے اور متاثر بھی کرتی ہے ۔ ’صلصال‘ میں شامل غزلیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور قاری کو کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں ۔‘‘ ( سہ ماہی انتساب عالمی ، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۴، صفحہ ۱۷۱)
احمد شناسؔ جس زمین سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کے حالات و واقعات طویل عرصے سے خلل میں ہیں، اس لئے وہ اپنی شاعری میں یہاں کی کشیدہ صورت حال سے پیدا ہونے والے مصائب کو بے باکانہ انداز سے پیش کرتے ہیں ۔ کشمیر کے مخصوص حالات و واقعات کی برہمی کے پسِ منظر میں شناسؔ کی ’’ ہمارے بچے‘‘ کے عنوان سے جو نظم اس شعری مجموعہ میں شامل ہے ، اس میں آنے والی نئی نسل کے تعلق سے جو خیال پیش کیا گیا ہے وہ صداقت کی بہترین مثال ہے ؎
سکولوں کے در و دیوار مرجھائے ہوئے ہیں
نہ جانے کیا ہوئے وہ لفظ کا پندار بچے
کسی نے پھر انھیں لوٹا دیا وحشت کی جانب
ہمیشہ مارنے مرنے کو ہیں تیار بچے
وراثت میں ملی ہے پیاس اندھی نفرتوں کی
رگوں میں پالتے ہیں زہر کا انگار بچے
شاعر چونکہ اپنے سماج کا نباض ہوتا ہے ۔ ان کے سامنے آس پاس کا ماحول ہر گھڑی مطالعے میں رہتا ہے ۔ وہ ہر اس چھوٹی بڑی شے پر پوری نگاہ رکھتے ہیں جو سماج سے جڑی ہوئی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی سماجی عناصر میں سماج کی تشکیل و تنظیم میں مذہب کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔یہی مذہبی جذبہ اعلیٰ انسانی شناخت اور باقی دوسری تعمیری کاموں کے سلسلے میں معاون و مدد گار رہتا ہے ۔ احمد شناسؔ کی شاعری کو پڑھ کر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کو اپنے مذہبی سرمائے پر پوری نگاہ ہے اور ساتھ ہی اس کو شعری وسائل سے اس طرح عمل میں لاتے ہیں کہ قاری کے سامنے ایک ایسا عقیدہ ابھر جاتا ہے جو متعلقہ مذہب یعنی اسلام کی سر بلندی کا سر چشمہ نظر آتا ہے۔احمد شناسؔ اپنی غزلیہ شاعری اور خصوصاً نظموں میں اساطیری پہلوؤں کو کہیں سلیس تو کہیں علامتی اور استعاراتی انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ اساطیری عناصر کے برتاوسے قاری کے دل میں جو مذہبی جوش وجذبہ اور ایمانی حرارت پیدا ہوتی ہے ،وہ آپ کی شاعری کا قابلِ قدر پہلو ہے ۔قدوس جاوید اس ضمن میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں:
’’’صلصال‘ کا شاعر شعوری سطح پر خود کو مذہب کے ساتھ Relate کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ وہ مذہب کو اسکے ڈھانچے یا اسکے Form کے حوالے سے نہیں بلکہ اس کی اصل یعنی اسکی روح کے حوالے سے دریافت کرتا ہے ‘‘۔(صلصال، احمد شناس،صفحہ۱۶)
احمد شناس کی شاعری کے موضوعات زیادہ تر عصری ہیں ۔ان میں مابعد جدید صورت حال کا عکس صاف صاف نظر آتا ہے ۔ شناسؔ کے مذکورہ شعری مجموعہ میں بہت سے ایسے اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں جن کا تعلق براہِ راست ہمارے سماج سے گہرا تر ہوتا جا رہاہے ۔آپ کے کلام میں تطہیر وپاکی کی آمیزش جابجا نظر آتی ہے ۔ ’’ صلصال ‘‘ کے خمیر میں یہ چیز اس لئے اولیت کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ شناسؔ بذاتِ خود پاکی و صافی کے دلدادہ رہے ہیں۔موصوف اپنے کلام میں پاکیزگی اور طہارت کاخیال نہایت عمدہ سلیقے سے رکھتے ہیں ۔ اس کے اظہار میں اسلوب اور فنی وسائل کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے احمد شناسؔ کی شاعری میں طرح طرح کے خیالات، احساسات اور جذبات وغیرہ کے علاوہ شعری اصطلاحات اور باقی دوسرے عناصر کا جس قدر خوب صورت اظہار ملتا ہے اس کے پسِ پردہ ان کی ادبی سر گرمی اور روز مرہ معاملات کا پُر خلوص عمل نظر آتا ہے ۔
احمد شناسؔ ایک حوصلہ پرور انسان ہیں ۔ ان کی شاعری میں بیم و رجا کے دلچسپ پیرائے نظر آتے ہیں ۔وہ حزن و یاس کو اپنے پاس سے گزرنے نہیں دیتے ہیں ۔ان کی شاعری ہمت و جذبہ کا درس دیتی ہے ۔ شناسؔ اپنی شاعری کے ذریعے اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ زندگی کے سفر میں انسان کو تھک ہار کر بیٹھنا نہیں چاہئے بلکہ متواتر کوششوں سے اچھے نتائج کی توقع رکھنی چاہئے۔ شناس ؔ دور اندیش شاعر ہیں ۔ وہ اپنی سوچ و فکر کی میزان کو توازن کے ساتھ برقرار رکھتے ہوئے اطمنان اور ذہنی مسرت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں ۔شناسؔ کی اسی خصوصیت کو کرشن کمار طورؔدرجِ ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
’’ احمد شناس کی شاعری بھی بہت سے شاعروں کی مانند روح عصر کا بے حد فن کارانہ انداز ہے ۔ وہ اپنی شاعری میں اپنے کرب ذات کو بے حد سکون کے ساتھ شعر آمیز کرتے ہیں ‘‘۔ (صلصال، احمد شناس،صفحہ۳۱)
درجِ بالا اقتباس کے تناظر میں احمد شناسؔ کے یہ چند اشعار دیکھئے ؎
تو نے مجھے خیال کیا تھا اسی طرح
گرد و غبار میں بھی ستارہ شعار ہوں
سانسوں کے درمیان سلگتے ہیں بال وپر
پھر بھی کسی اڑان کا امیدوار ہوں
احمدؔ کسی زمان و مکاں کا نہیں ہوں
لمحوں کی دیر ہے جو سرِ آبشار ہوں
جموں و کشمیر کے حوالے سے عصرِ حاضر کے شعراء میں احمد شناسؔ کا شعری قد بلند ہے ۔ ’’صلصال‘‘ میں موجود نظم ’’ ماں اور کتاب‘‘ احمد شناسؔ کی فکر اور اور ادبی صلاحیتوں کا بھر پور پتہ دیتی ہے ۔ان کے ہاں استعارات و تشبیہات کے علاوہ رمز و کنایہ کا عمدہ اظہار ملتا ہے ۔ وہ سلیس اور سادہ اسلوب سے بھی خاصا کام لیتا ہے ۔ الفاظ کے انتخاب و ترتیب میں آپ پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔آپ کی بیش تر غزلیں چھوٹی بحروں میں ہیں تاہم بعض غزلوں میں عروض و آہنگ اور قافیہ و ردیف کے عمدہ اظہار سے لطیف اور خوب صورت نغمگی چھلکتی نظر آتی ہے ۔ مجموعی طور پر ’’ صلصال‘‘ صحیح معنوں میں شناسؔ کی فکری اور فنی صلاحیتوں کی غمازی کرتا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.