افسانہ’’ ہم وحشی ہیں ‘‘ ایک جائزہ ۔۔۔۔۔
توصیف مجید لون
نانل ،اننت ناگ، کشمیر
عصر حاضر کے جن قلمکاروں نے اردو ادب خصوصاََاردو افسانے کو وقار بخشا ہے ان میں پرویز شہریار کا نام بھی شامل ہے ۔انہوں نے اپنے خون جگر سے اردو ادب کے اس چمن کی آبیاری کی ہے ۔وہ تن ،من اور دھن سے اردو ادب کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ۔انہوں نے اب تک ایک درجن سے زائد کتابیں اردو ادب کے حوالے کردی ہیں اور آج بھی مسلسل لکھنے پڑھنے میں مصروف عمل ہیں ۔پرویز شہریار کی ۱۰ جنوری ۱۹۶۴ء میں جمشید پور کے قاضی پور والے علاقے میں ہوئی۔اپنے ہی علاقے میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرزمین دہلی کی طرف رخ کرتے ہیں ۔جے این یو سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے بعد’’ عصمت کے یہاں عورت کا تصور ‘‘کے موضوع تحت ایک مقالہ تحریر کر کے جے این سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔بعد ازاں ’’ راجندر سنگھ بیدی کے افسانوی ادب کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ کے عنوان پر تحقیقی مقالہ تحریر کرکے دہلی یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ۔زمانہ طالب علمی سے ہی لکھنے کی طرف مائل ہوئے ۔انجام کار یہ کہ آج ایک اچھے لکھاری کے روپ ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ دسویں جماعت جماعت میں ان کی پہلی کہانی رسالہ پندار ۶ستمبر۱۹۸۰ء کے شمارے میں ’’ چمبل کی دسویں رانی ‘‘کے عنوان سے شائع ہوئی ۔تحریری سفر کے آغاز میں جدیدیت کے رحجان کے اثرات قبول کئے اور چند ایک علامتی تجریدی افسانے لکھے ۔ علامتی قسم کے افسانوں میں افسانہ ’’نئی روشنی کا آخری ڈبہ ‘‘قابل ذکر ہے تجریدی افسانے کے حوالے سے ان کا مشہور و معروف افسانہ ’’سایہ سایہ جنگل‘‘ جو شب خون میں شائع ہوا اور اس افسانے کے حوالے سے ہی شب خوں کے مدیر اعلیٰ شمس الرحمان فاروقی نے لکھا کہ ’’ پرویز شہر یار جمشید پور کے افسانہ نگار ہیں ‘‘۔ قارئین سے داد و دعائیں حاصل کرنے کے بعد ان کے جذبہ تحریر میں نکھا ر آنے لگا اور جلد ہی افسانے میں کہانی پن ‘ حقیقت نگاری اور بیانیہ انداز کا ادراک ہونے لگا۔پھر مسلسل ملک اور بیرون ممالک کے مستند و موقر رسائل و جرائد میں ان کی کہانیاں چھپتی رہی ۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ بڑے شہر کا خواب ‘‘ جنوری ۲۰۰۶ء میں منصئہ شہود پر آیا ۔ اس مجموعے میں مختلف موضوعات کے ۲۳ افسانے شامل ہیں۔ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’ شجر ممنوعہ کی چاہ میں ‘‘۲۰۱۴ء میں منظر عام پر آیا۔مجموعہ ۱۲ افسانوں پر مشتمل ہیں جو اپنے اندر مختلف موضوعات لئے ہوئے ہیں ۔افسانہ ’’ ہم وحشی ہیں ‘‘ بھی اس مجموعے کے مشمولات میں ہے۔
کہانی کا آغاز دھرم کے پجاریوں ‘کٹرپنتیوں کے وحشیانہ رویے سے ہوتا ہے ۔دھرم کے ٹھیکیدار دھرم کی آڑ میں دھرم کو ڈھال بنا کر لوگوں کو آلو گوبھی کی طرح کاٹ دیتے ہیں۔دراصل افسانہ نگار نے ان لوگوں کو بے نقاب کرنا چاہتا ہے جو اپنی چودھراہٹ اور سرداری کو برقرار رکھنے کے لئے communal riotsدنگے کر وا کر معصوموں کا قتل عام کرکے ان کی موت پر جشن مناتے ہیں ۔اقتباس۔۔
’’اور دھرم پرساد !‘‘—- رائٹ میں کتنے گوبھیوں کو کاٹا۔۔۔۔‘‘ — لگ بھگ دس کو مار گرایا۔۔۔۔‘‘
ارے رہنے دو کیوں چھوڑ رہے ہو صبح صبح ۔۔۔‘‘— ماں بھوانی کی قسم۔۔۔۔!‘‘
ارے کیا بتائیں جماں بھائی(زمان بھائی)عین وقت پر سالا کٹہ (دیسی پستول) ہی اٹک جا رہا تھا۔۔‘‘
نہیں تو بہترے ہی مارے ہوتے۔۔!‘‘
افسانہ نگار نے سکھ ‘ہندو ‘ مسلم فسادات کے تاریخی واقعات کو افسانہ کے قالب میں ڈھال کر یہ تاثر چھوڑنے کی کوشش کی ہے کہ آج کا انسان اتنا مہذب ہوگیا ہے بظاہر جس کے پاس اب نہ وہ خونی ناخن ‘ نہ دانت‘اور نہ وہ سینگ ہے لیکن پھر بھی درندگی اور وحشت کی جبلت اس کے خون میں موجود ہے اور یہ وحشت و درندگی کبھی رنگ‘ کبھی نسل‘ کبھی مذہب سے نفرت کی شکل میں سامنے آہی جاتی ہے ۔
افسانہ میں افسانہ نگار نے ۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے واقعہ بعد پیدا ہونے والی صورتحال سکھ ہندو فسادات اور ۱۹۷۹ء کا ہندو مسلم فسادات سے رونما ہونے والی خونریزی اور ظلم و زیادتی کی تصویر کشی سے افسانے کے پلاٹ کی تعمیر کی ہے۔
کہانی کا پلاٹ کچھ اس طرح سے ہے ۱۹۸۴ئمیں اندرا گاندھی کے اپنے ہی اسکوٹی گارڈوں نے ان پر گولیاں چلا کر انہیں ابدی نیند سلا دیا اس واقعے سے ہندوستان میں سکھ برادری کے اقلیتی فرقے پر اکثریتی فرقے (ہندئوں ) کا قہر ٹوٹ پڑا ۔سکھ مخالف دنگے نے زور پکڑ لیا ۔سیدھے سادھے سکھوں کا یہ حال ہوا کہ جو سکھ لوگ ہندئوں کے علاقوں میں رہتے تھے ان کی لوٹ لی جاتی ہے اور مکانات آگ کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں نہ جانے کتنے سکھ مکانوں کے ساتھ ہی آگ کے ہو لیے ۔پوری سکھ قوم سکتے میں آگئی سکھ مخالف دنگے نے ان کی یہ حالت کردی تھی کہ کاٹو تو جسم میں خون نہیں ۔افسانہ نگار اس واقعے سے یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اندرا گاندھی کا قتل اور بعد میں یہ سکھ مخالف دندے جیسے واقعات آن ہی آن میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ اس کے پیچھے ایک لابی کام کر رہی ہے جو عام لوگوں کو یہ سب کرانے کے لئے اکساتے ہیں افسانے کا ایک ضمنی کردار انتھونی جو کہ ایس ۔ایچ۔او کے روپ میں سامنے آتا ہے ۔دیکھا جائے تو ایس ایچ او کا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ لوگوں کا محافظ بن کے ان کی حفاظت کرے جبکہ افسانے میں اس کردار کی کہانی اس کے برعکس ہے وہ لوگوں کی حفاظت کرنے کے بجائے بلوائیوں کا ساتھ دے کر ان کو قتل عام کے لئے کھلی چھوٹ دیتا ہے ۔افسانہ نگار نے اس کردار کے ذریعے ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے جو اپنے اولین فرض کی پرواہ کئے بغیر رنگ و نسل‘قوم و مذہب‘کی آڑ میں اپنے پیشے کی فرضیت کا جنازہ نکال دیتے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ افسانہ نگار نے اس بات کی طرف بھی لطیف انداز میں اشارہ کیا ہے کہ جو اپنے فرض سے انصاف کرنے کے بجائے غفلت برتتے ہیں ان کا انجام کا بد سے بد تر ہوتا ہے ۔اقتباس
’’ہمارے محلے میں سرداروں کی کچھ فیملی تھی وہ محفوظ تھیں لیکن جو سردار ہندئوں کے علاقوں میں رہتے تھے ،ان کی دکانیں لوٹ لی گئی تھیں اور مکانات جلادئے گئے تھے ۔ان مکانوں میں جانے کتنے سکھ وں کو زندہ جلا دیاگیا تھا ۔اس کا کسی کے پاس کوئی حساب نہ تھا ۔اس وقت انتھونی نام کا ایس ایچ او ہمارے علاقے کے تھانے میں تھا۔اس نے بلوائیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی بعد میں پتہ چلا کہ آرمی کے جوانوں سے اس نے پنگا لیا تھا اور انہوں نے اپنی لاتوں اور بوٹوں سے پیٹ پیٹ کے آدھ مردے کی حالت میں کسی جنگل میں لے جا کر پھینک دیا تھا ۔‘‘
افسانے کا مرکزی کردار مکھن سنگھ ایک سائیکل مستری ۔اس کی ایک چھوٹی سی دکان مسلم محلہ آزاد نگر کے روڑ پر واقع ۔دکان کے ساتھ ہیایک چھوٹا سا کمرہ جو اس کا مکان تھا جس میں مکھن سنگھ اور اس کے بزرگ ماں باپ رہتے ہیں ۔فسادات برپا ہونے کی وجہ سے اچانک غائب ہوجاتا ہے اور دو ڈھائی سال کے بعد اپنے دوست پرویزے کے گھر چھپ چھپا کے آجاتا ہے ۔وہ چھپ چھپا کے ‘بھیس بدل ‘موچھے داڑھی کٹوا ‘کے اس لئے آ جاتا ہے کہ دہلی پولیس اس کے پیچھے پڑی ہوئی تھی وہ اس لئے دوران غائب جب وہ اپنی محبوبہ جسونت کور کو لینے امرتسر گیا تھا واپسی پر راستے میں دہلی کے شکر پور کے رنگ روڑ پر ایک وین میں سکھنی کو دیکھتا ہے ۔چند غنڈے بد معاش بلوائیوں نے وین کے ڈرائیور کو جو ایک سکھ تھا دن دھاڑے قتل کر دیا اور اب سکھنی کی عزت و آبرو کو تار تار کرنے کے لئے اسے تنگ و تاریک گلی کی طرف لے جا رہے تھے۔ان کی نیت سے صا ف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ اس سکھنی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے ہیں۔آس پاس کے لوگوں کے لئے یہ منظرخوشی کا تھا لیکن مکھن سنگھ اور سکھنی کے لئے قیامت صغریٰ۔مکھن سنگھ کو اس عورت کا بے آبرو ہونا برداشت نہیں ہوتا ۔اس کا خون خھول اٹھتا ہے اور ایک دیوار پر چڑھ کے موقعے ملتے ہی ان بلوائیوں پر وار کرتا ہے ۔اچانک ہوئے حملے سے یہ بدمعاش بلوائی بوکھلا گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چاروں اپنی جان بچا کر بھاگ جاتے ہیں ۔مکھن سنگھ جلدی سے واہ گرو کا نام لے کر سکھنی کے جسم کو اپنے کرپان کی زینت بنا لیتا ہے اور اس کے پیٹ سے خون کے فوارے پھوٹ پڑتے ہیں ۔
افسانہ نگار نے مکھن سنگھ کو خونی کے روپ میں پیش نہیں کیا بلکہ مکھن سنگھ ایک ایسا کردار ہے جو عزت و آبرو کا صدقہ جان سے دیتا ہے مکھن سنگھ کے نزدیک عورت کی جان کی اتنی قیمت نہیں جتنی اس کی عزت و آبرو کی ۔افسانہ نگار نے مکھن سنگھ کے کردار سے یہ بات باور کرائی ہے کہ انسان اپنے قوم و ملت کی آبرو کو زیادہ عزیز رکھتاہے بہ نسبت جان کے ۔یہی وجہ ہے کہ مکھن سنگھ کو سکھنی کا بے عزت و بے آبرو ہونا برداشت نہیں ہوا ۔اور وہ اسکی جان لے بیٹھتا ہے ۔گر مکھن سنگھ نے اپنا حلیہ نہ بدل دیا ہوتا تو شاید سکھنی کے ساتھ ہی مکھن سنگھ کی لاش بھی دیکھنے کو ملتی۔
افسانہ نگار نے نہ صرف سکھ ہندوکے اس فسادات سے کہانی کا پلاٹ بُنا ہے بلکہ دیگر اقلیتی قوموں پر ہورہے مظالم کی داستان بھی تاریخی ادوار سے پیش کی ہے ۔۔اس سلسلے میں پرویز شہریار نے ۱۹۷۹ء کے ہندو مسلم فسادات پر بھی لب کشائی کی ہے ۔اس فسادات سے جو انسانیت سوز واقعات رونما ہوئے جس سے پوری انسانیت انگشت بدندان ہو کے رہ گئی ۔اس فرقہ وارنہ فسادات کا نقشہ انہوں نے اس انداز سے پیش کیا ہے کہ عالمی طاقتیں اور قانون کی بڑی بڑی باتیں کرنے والے بھی اس جنگل راج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں ۔افسانہ نگار نے ۱۹۷۹ء کے اس دنگے کی کہانی ایک زخمی شدہ نوجوان جو اس واقعے کا چشم دید گواہ تھا جب ایک ایمبولنس میں ۱۰۵ مسلمان عورتوں اور بچوں کو پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا گیا تھا کے منھ سے بیان کرتا ہے۔زخمی شدہ نوجوان ہسپتال میں ہوش میں آنے کے بعد میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے پورے واقعے کی منظر کشی کچھ اس طرح سے کرتا ہے ۔فرقہ واریت کی آگ میں جل رہا پورا شہر ‘لوگ خوف و وحشت کے مارے اپنے اپنے گھروں میں محصور ‘چاروں طرف ہندئوں کا گھیرا اتنے میں مسیحا کے روپ میں بس میں سوار ہو کے ہمارے پاس آکے ہم سے مخاطب ہوئے ۔
’’ کریمہ اسکول میں مسلمانوں کا کیمپ لگا ہے ۔آپ میں سے جو کوئی وہاں جانا چاہتا ہے ۔اس ایمبولنس میں سوار ہوجائے۔‘‘
عجب کشمکش کا عالم ۔لوگ سوچ بچار میں ‘کریں تو کیا کریں ۔اس بس کا ایمبولنس سے کوئی موازنہ نہیں ۔نا ایمبولنس کا مشان نا اسکی شکل و صورت ۔ایسے میں مسیحا کے روپ میں انسانوں نے بڑی اپنائیت اور ہمدر جتائی اور کہا۔
’’یہ ایمبولنس ہی ہے ۔آگے جا کر ہم اس پر ایمبولنس کا بوڑ لگا دیں گے‘‘
اس سے پہلے بھی جب رائٹ ہنگامے ہوئے تھے تو خوف زدہ مسلمان کریمیہ اسکول اور مدرستہ فیض العلوم کے کمپوں میں پناہ گزیں ہوگئے تھے جہاں ان کے جان و مال کے لئے حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے ۔لہذا پہلے بزرگوں نے بس میں سوار ہونے کی پہل کی ۔لیکن مسیحا کے روپ میں ان انسانوں نے ایک تجویز پیش کی اور بزرگوں کو گاڑی میں سوار ہونے کے بجائے بچوں اور عورتوں کو سوار کیا۔
’’ صرف مہیلائیں اور بچے ہی چڑھیں ۔دوسری ٹرپ میں مردوں اور بزرگوں کو لے جایا جائے گا ‘‘
منحوس بس میں خوف سے چیختے ہوئے روتے بسورتے مسلمان عورتیں اور بچے سوار ہوئیں ۔عورتوں اور بچوں سے کچھا کھچ بھری ہوئی بس جب سیتا رام ڈیرہ کے پل کے قریب پہنچی تو وہاں پہلے سے موجود بلوائیوں نے فلک شگاف چیخ و چلاہٹ کے ساتھ ہی ان پر پٹرول چھڑکتے ہوئے جلتی ہوئی دیا سلائی پھینک دی ۔گاڑی میں سوار ۱۰۵ نفوس میں سے کود کر بس کے نیچے خود کو چھپا کر بچ جاتے ہیں۔افسانے میں بلوائیوں کے ہاتھوں ایمبولنس پر حملے کے اس واردات پر افسانہ نگار نے Human rights and redcross پرسوالات اٹھائے ہیں کہ کائنات کے کسی بھی کونے میں ایمبولنس پہ حملہ نہیں ہوتا ۔آخر یہ جنگل راج کہاں تک چلے گا ۔یہ بین الاقوامی تحفظاتی اصول کی کھلی خلاف ورزی نہیں تو ہے؟۔آخر یہ انسان اتنا وحشی کیوں ہوگیا ہے ۔اس پر دنیا کا کوئی قانون اثر کیوں نہیں کرتا ۔
پلاٹ کو آگے بڑھانے کے لئے افسانہ نگار نے ہندوستان میں مسلمانوں پر ہورہے مظالم جیسے واقعات کو بطور خاص پیش کیا ہے ۔بابری مسجدکا ذکر بھی ضمناََ کیا ہے ،گودراکانڈ‘اور گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ،مراد آباد کی عیدگاہ میں نماز میں سجدہ ریز مسلمانوں پر گولیوں کی بھر مار‘بھاگل پور میں مسلم کشی کے بعد گنے کے کھیت میں لاشوں کو دبانے والے جیسے واقعات پیش کرکے عالی اداروں اور انسانیت کا درس دینے والے نام نہاد امن پسنوں کو بے نقاب کرکے ان کے ظاہر باطن پر سوالیہ نشان لگا یا ہے ۔اقوام متحدہ خاموش تماشی بن کے مسلمانوں پر ہو رہے مظالم ‘قتل عام کا نظارہ ائیر کنڈیشنرکمروں air coniditioner room میں بیٹھ کے کرتے ہیں افسانہ نگار نے ان لوگوں پر بھی کاری ضرب لگا دی ہے جو مسلمانوں کو دہشت گردانے میں ایک جٹ ہوکے یک زبان رکھتے ہیں ۔لیکن بابری مسجد ِمراد آباد ‘بھاگل پور ‘ اصام کے کوکھر جاڑ وغیرہ جیسے واقعات پر ان کی زبانیں گنگ رہ جاتی ہے ۔افسانہ نگار نے ان لوگوں کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے جو دنیا بھر میں امن و آشتی کے ضامن اور شانتی کے ڈھول پیٹ کر انسانیت کا درس دیتے ہیں لیکن متذکرہ بالا جیسے واقعات دیکھ کے پتہ نہیں ان کو کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے ۔شاید وہ اس لئے کہ یہ اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں کا خون ہے ۔کیا مسلمان ان کے نزدیک انسان نہیں ہے ۔کیا انہوں نے مسلمانوں کو انسانی مخلوق سے بعید کوئی دوسری مخلوق سمجھ رکھا ہے ۔ہائے ہائے کہ ایسے نام لیواادارے جہاں انسانیت کو رنگ و نسل ‘قوم و مذہب ‘‘اونچ نیچ اور طاقت و دولت کی بنا پر تقسیم کرتے ہیں ۔
افسانہ نگار نے افسانے کا اختتام کچھ اس انداز سے کیا ہے جس سے پڑھ کر قاری کے دل میں ہوک سی اٹھتی ہے کہ یہ بھی تو انسان ہی ہیں جو مر رہے ہیں اور مارنے والے بھی انسان ہی ہے ۔افسانہ اس جملے سے اختتام پذیر ہوتا کہ ہم وحشی ہیں ۔اور یہ جملہ افسانے کے مرکزی کردار مکھن سنگھ ‘زمان بھائی اور پرویز کے منہ میں یکبارگی کے ساتھ نکلتا ہے اور یہی جملہ افسانے کا عنوان بھی ٹھہرا ہے
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!