’’اہلِ کتاب ‘‘ کا بیانیاتی تجزیہ

ڈاکٹر الطاف انجم

 اسسٹنٹ پروفیسر اُردو،  نظامتِ فاصلاتی تعلیم ،کشمیر یونی ورسٹی، سری نگر

7006425827

 ای میل : altafurdu@gmail.com

  بیسویں صدی کے ربع آخر میں اُردو تنقید کی آبِ جُو جس بحرِ بیکراں میں متشکل ہوئی اُس نے اُردو کی نظریاتی اور عملی تنقید کے ساتھ ساتھ تخلیقِ ادب کے محرکات کو بھی مناسب طور پر متاثر کیا۔ پس ساختیات، نو تاریخیت ، نومارکسیت ، تانیثیت وغیرہ ایسے تنقیدی کلامیے سامنے آئے جن سے فرار ایک سنجیدہ اور متین قاری اور ناقد کے لیے ممکن نہیں تھا بلکہ حساس اور متنوع ادبی شخصیات نے اِن نظریاتِ نقد کی تشریح اور اُردو میں ان کے نظریانے کی قابلِ قدر کوششیں کیں۔ انہی نظریات میں’’ بیانیات ‘‘(Narratology)ایک اہم تنقیدی ڈسکورس کے طور پر سنجیدہ ادبی حلقوں میں بارپایا۔ حالاں کہ اس کے ارتقائی ڈانڈے پون صدی قبل کی ادبی کتابوں میں ملتے ہیں تاہم مابعد جدیدیت کے تحت جب ہر طرح کی ادعائیت کے استرداد کا سامان میسرہوا تو دوسرے نظریات اور تنقیدی رویوّں کی طرح بیانیات کو بھی منضبط طور پر پنپنے اور علمی ڈسکورس میں شامل ہونے کا موقع ملا اور یوں اس پر سنجیدہ ادبا اور ناقدین غور و فکر میں مصروف ہیں۔ زیرِ نظر مقالہ میں راقم نے بیانیات کے نظریہ کی نمائندہ ناقدین کی تحریروں کی روشنی میں مختصر تعریف و توضیح پیش کی اور اس کے دوسرے حصہ میں اُردو کے ایک معروف فکشن نگار بشیر مالیر کوٹلوی کے افسانہ ’’اہلِ کتاب ‘‘ کو بیانیات کے تناظر میں تجزیہ پیش کیا ہے ۔ یہ تجزیہ جہاں نئے تنقیدی رجحانات کے تئیں نئی نسل کی مراجعت کا شارہ ہے وہیں مابعد جدید تنقیدکے اطلاق کی بھی سنجیدہ کوشش ہے۔

 اُردو فکشن کی تنقید بحیثیتِ مجموعی موضوع مرکزیت کی حامل رہی ہے۔ واقع یہ ہے کہ اُردو میں فکشن کا سفر داستان سے شروع ہوتا ہوا ناول اور افسانے کی سطح پرجاری ہے ۔داستان کی شعریات کے بنیادی مقدمات میںرومان و تخیل کی فروانی کو بڑا دخل ہے اور اس طرح اس کی کائنات کی تعمیرو تشکیل میں فوق فطری عناصر کا عمل دخل بھی رہتا ہے۔ جب انیسویں صدی کا آفتاب لبِ بام آگیا تو اس نے ادب کے اُفق پر نئے انفس و آفاق کی نئی سنہری کرنیں بکھیردیں جنہوں نے ادب سے رومان کے بجائے حقیقت پسندی کا تقاضا کیا۔ اس طرح جب نئی صبح کا آغاز ہوا تو داستان کی کوکھ سے ناول اور افسانے کاجنم ہوا۔اس دور میں اُردو میں جو ناول منصئہ شہود پر آئے وہ زندگی کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ حقیقت اور مقصدیت کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر ڈھو رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد افسانہ بھی ادبی منظرنامہ پر کروٹیں لینے لگا۔ ایک اعتبار سے یہ دونوں اصناف داستان کے تسلسل کا حصہ ہیں لیکن مقصدیت میں یہ دونوں داستان سے مختلف تھیں۔ ناول اور افسانے کو ادبی فن پارہ سمجھتے ہوئے بھی زندگی کا آئینہ متصور کیا جانے لگا۔ آپ سب کو معلوم ہوگا کہ مرزا ہادی رسواسے لے کر شمس الرحمٰن فاروقی تک سبھوں نے ناول کو اسی زمرے کی تخلیق قرار دیا(ناصر عباس نیّر)۔ اس طرح اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک فکشن نے جو سفر طے کیا اُس میں وہ زندگی کی حقیقت کی ترجمانی سے مشروط رہا۔اس دوران کی فکشن کی تنقید مجموعی طور پر انہی خطوط پر گامزن رہی لیکن بیسویں صدی کے ربع آخرمیں ثقافتی سطح پر مابعد جدیدیت کے ظہور میں آنے سے جہاں تخلیقی سطح پر موضوعات کی بوقلمونیت اور رنگارنگی ادب کا شناخت نامہ بن گئے وہیں ادب شناسی کے مختلف نظریات منصئہ شہود آئے۔ اس دور میں بھی کئی نظریات موضوعات سے غلو خلاصی حاصل نہیں کر سکے جن میں نوتاریخیت ، نو مارکسیت، بین المتونیت وغیرہ اہم ہیں تاہم فکشن کے حوالے سے بیانیات (Narratology) ایک اہم تنقیدی نظریے کے بطور سنجیدہ ادبی اور علمی حلقوں میں موضوعِ بحث بنتا گیا۔

 بیانیات کا اجمالی تعارف :

 بیانیات(Narratology) کا تعلق یقینابیانیہ سے ہے جو کسی بھی واقعہ کو لسانی تشکیل میں منقلب کرنے اور اس تفاعل میں کارفرما متعدد صورتوں اور پہلوؤں کا مطالعہ کرنے سے وابستہ ہے۔اس طرح راوی ، زبان اور واقعہ کی تثلیث کو بیانیات کے دائرے میں رکھ کر بحث و مباحثہ قائم کرسکتے ہیں۔ واقع یہ ہے کہ بیانیات ایک ایسا شعبہ علم ہے جو متن کی تشکیل میں واقع کی موجودگی سے علاقہ رکھتی ہے ۔ واقع کی اقسام سے لے کر اس کی بنیادی شرائط تک بیانیات تمام چیزوں کا احاطہ کرتی ہے۔ کرداروں کے آپسی تعامل ، قاری کے اثرات ، راوی کی فکری ترجیحات ، مصنف اور راوی کے درمیان خیالات کی ہم آہنگی یا تضاد جیسے مباحث بیانیات کے دائرے میں آتے ہیں ۔ ان سے قطع نظر مابعد جدیدیت کے دور میں بیانیات کی سرحدیں نہایت ہی وسیع ہوئیں ۔ مابعد جدیدیت نے جس طرح متعدد علوم ، نظریات اور اصطلاحات کے روایتی سکّہ بند تصور کو مسترد کرکے انہیں نئے اور لامحدود تناظرات سے وابستہ کردیا ہے ، اسی طرح مابعد جدید مفکرین رولاں بارتھ اور کلاڈ بریمنڈ نے بیانیات کی بنیادی روح یعنی نشانیاتی نظام کو دریافت کیا ہے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بیانیات اپنے روایتی دائرے سے باہر نکل کر ایک نظری اور تصوری نظام کا داعی ہے جو ’’اشیا کومنظم کرتا ، انھیں معرضِ فہم میں لاتا اور مخصوص قسم کا علم پیدا کرتا ہے ۔ بیانیہ کے نظری تصور میں بدلنے کے باوجود اس کی بنیادی نہاد’’ کہانی کا بیان ‘‘ قائم رہتی ہے مگر اب اس کا مقصد اور کردار بدل جاتا ہے۔

 بیانیات معاصر ادبی ڈسکورس کی اہم اصطلاحات میں سے ایک ہے۔ انگریزی میں اس کو زیوتان تودوروف (Tzvetan Todorov) نے فرانسیسی کے narratologieسے اخذ کرکے ۱۹۶۹ء؁ میں پہلی بار استعمال کیا ۔ اگرچہ اس کے بنیادی مباحث کے ڈانڈے افلاطون سے جا کر ملتے ہیں ۔ افلاطون نے نقل نگاری کے ضمن میں Mimesis اور واقع نگاری کے لیے Digesis کی اصطلاحیں وضع کیں۔نقل سے وہ حقیقی زندگی کی لسانی تشکیل مراد لیتے ہیں جب کہ واقعہ نگاری سے وہ بیانیہ شعریات کا تصور پیش کرتے ہیںجس کی اپنی تخیلی اور تشکیلی شناخت کا تعین کیا جاتا ہے۔لیکن اصل میں بیانیات (Narratology)کیتصور کو روسی ہیئت پسند ولادمیر پراپ نے اپنی کتاب Morphology of the Folktaleمیں ۱۹۲۹ء؁ میں ہی کیا ہے۔ بیانیات بیسویں صدی کے ربع آخر میں تنقیدی ڈسکورس کی آغوش میں پنپنے لگی جب مابعد جدیدیت نے تمام سکّہ بند نظریات کے استرداد کا نعرہ دیا اور کسی بھی ازم یا رویّے کو اپنانے کی آزادی فراہم کی۔واضح رہے کہ مابعد جدیدیت ایک ایسی ثقافتی صورتِ حال کا نام ہے جس میں کسی بھی ادبی یا تنقیدی ، سماجی یا ثقافتی ، لسانی یا عمرانیاتی جبر کے بجائے متعدد نظریات کے پروان چڑھنے کی گنجائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں مغرب میں اور ربع آخر میں اُردو میں بیک وقت کئی تنقیدی نظریات کی یورش ہوئی جنہوں نے تخلیقِ ادب سے لے کر تفہیمِ ادب اور تحسینِ ادب تک کے سابقہ نظریات اور رسومیات پر کاری ضرب لگادی ۔ اس دوران نہ صرف نئے تنقیدی نظریات ادبی اُفق پر سنجیدہ ادبا اور ناقدین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ کئی اہم تنقیدی اصطلاحات بھی نمایاں انداز میں بار پا گئیں جن میں کلامیہ (Discourse)، متن (Text)، ساخت (Structure)، آئڈیالوجی (Ideology)، افتراق، التوا، صوت مرکزیت، عالمگیریت، مہابیانیہ (Grand Narrative)کے ساتھ ساتھ بیانیات (Narratology)بھی اہم ہے ۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں مذکور ہوا ہے کہ انگریزی میں اس کا باضابطہ استعمال زِیوتان تودوروف نے کیا تاہم اُردو میں اس کو ۱۹۶۵ء؁ کے آس پاس ہی نامور فکشن نقاد ممتاز شیریں نے پیش کیا تھا ۔ اُن کا مقالہ’’ ناول اور افسانے میں تکنیک کا تنوّع ‘‘پہلی بار ’معیار ‘میں شائع ہوا تھا جو بعد میں اس حوالے سے اہم پیش رفت ثابت ہوا۔ اس کے بعد شمس الرحمٰن فاروقی اور دوسرے ناقدین نے اس طرف توجہ کی ۔ فاروقی نے ’’ساحری ، شاہی اور صاحب قرانی : داستانِ امیر حمزہ کا مطالعہ ژرارژینیت کے تصورِ بیانیات کی روشنی میں کیا ہے جس کا عکس اس کتاب کی پہلی جلد میں بجا طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔پروفیسر قاضی افضال حسین نے ۲۰۱۱ء؁ میں علی گڑھ سے شش ماہی ’’ تنقید ‘‘ کا بیانیات نمبر شائع کرکے نہایت ہی شاندار کوشش کی۔اس کے باوجود بھی ہم یہ کہتے ہوئے عاجزی محسوس کرتے ہیں کہ اُردو میں تاحال اس پر لکھا جانا باقی ہے۔ اب آئیے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بیانیات کی مزید تعریف اساتذہ کے حوالے سے ہی کرتے ہیں ۔یہاں پر پروفیسر قاضی افضال حسین کی رائے کو پیش کیا جاتا ہے :

 ’’ بیانیات (Narratology)اب ایک مستقل شعبہ علم (Discipline)ہے، جس کے ماہرین نے بیانیہ کی تعریف ، اوصاف اور تفاعل کے متعلق انتہائی فکر انگیز مباحث کا قابلِ قدر سرمایہ فراہم کردیا ہے ۔ افسانوی بیانیہ کے متعلق سے مسلسل نئے سوالات قائم ہو رہے ہیں : افسانے میں واقع کون بیان کرتا ہے ؟ راوی کا ایک طرف متن کے مصنف سے اور دوسری طرف واقع کے بیان سے کیا اور کیسا تعلق ہے ؟ خود واقع اور بیان کے تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟ کردار کیا ہے اور کیسے تشکیل پاتا ہے ۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ یہ اور اس طرح کے سوالات ہیں ،جن کے جوابات پر مشتمل مباحث سے بیانیات کی Disciplineقائم ہوتی ہے۔ ‘‘۱؎

بیانیات کی مذکورہ بالاتعریف جہاں ایک طرف ہمارے اذہان کو نئے تصور سے آشنا کرتی ہے وہیں ایک غلط فہمی بھی راہ پا رہی ہے۔ اس اقتباس میں مصنف نے بیانیات کا تعلق صرف فکشن سے وابستہ کررکھا ہے جب کہ بیانیات صرف افسانے سے متعلق نہیں بلکہ ہر اُس تحریر سے ہے جس میں کسی واقع کو بیان کیا گیا ہو۔ اس کے لیے بنیادی شرط واقع کی موجودگی ہے ۔ اس طرح سچ اور جھوٹ، صحیح اور غیر صحیح، افسانہ اور حقیقت کے خانوں میں اس کو مقیّد نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں :

’’بیانیہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ اس میں جو واقعات بیان ہوں وہ لا محالہ فرضی ہوں ۔ اگر یہ شرط عائد کی جائے تو بہت سے ناول اور افسانے بھی بیانیہ کی سرحد سے باہر ٹھہریں گے ۔ اس کے علاوہ اِ ن افسانوں اور ناولوں کا کیا ہوگا جن میں جھوٹ سچ اس طرح ملا کر پیش کردیا جاتا ہے کہ جھوٹ اور سچ کی تعریف ناممکن بن جاتی ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ لہٰذا بیانیہ محض واقعات پر مبنی ہوتا ہے۔‘‘ ۲؎

 شرجیل احمد خان نے اُردو میں مروج بیانیات کی تعریف کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بیانیہ کا دوسرا نام کہانی ہے ۔ ممتاز شیریں نے اپنے معرکتہ الآرا مضمون ’’ناول اور افسانے میں کہانی کا تنوع‘‘ میں یہ تاثر دیا ہے کہ بیانیہ دراصل افسانے کا دوسرا نام ہے ۔ حسن عسکری تو بیانیہ کو کہانیہ کہتے تھے لیکن سچ تو یہ ہے کہ بیانیہ دراصل افسانے کا دوسرا نام نہیں ہے ۔‘‘۳؎

مذکورہ بالا اقتباس میں مضمون نگار نے امتدادِ زمانہ کے ساتھ علمِ بیانیات کے بارے میں پھیل گئی کچھ غیر ضروری باتوں پر ہماری توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون میں بیانیات کی حدود و امکانات پر بھرپور بحث کرتے ہوئے اس کو اہلِ اُردو کے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں چھوڑا ہے ۔ ان کے مطابق فکشن بیانیہ ہر وہ افسانوی تحریر قرار دی جاسکتی ہے جس میں کسی واقعہ کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا ہو۔شرجیل احمد خان نے ولادمیر پروپ کی کتاب The Morphology of Folk Talesکی روشنی میں اُن ۳۱ عناصر کو نشان زد کیا ہے جو کلی یا جزوی طور پر تخلیقی متون (فکشن )کی تعمیر و تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

 بیانیات کی مختصر تعریف توضیح کے بعد آئیے اُردوکے معروف اور مقبول فکشن نگار اور فکشن شناس بشیر مالیر کوٹلوی کے ایک افسانہ ’’اہلِ کتاب ‘‘ کا بیانیات کے تناظر میں تجزیہ کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان کا یہ افسانہ ان کے افسانوی مجموعہ ’’چنگاریاں‘‘ میں موجود ہے جو سن ۲۰۰۷ء میں ہندوستان کے ایک اہم ااشاعتی ادارے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی نے مناسب اہتمام کے ساتھ زیورِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ بشیر مالیر کوٹلوی ہندوستان کے مردم خیز علاقے پنجاب کے ایک تاریخی شہر مالیر کوٹلہ میں بیٹھ کو قلم و قرطاس سنبھالے ہوئے ہیں اور تاحال انہوں نے افسانوں کے کئی مجموعہ جات اُردو دنیا کو تفویض کیے ہیں ۔فکشن شناسی میں اُن کا اختصاص یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے فنِ افسانچہ نگاری پر ایک یک موضوعی کتاب منضبط طور پرتصنیف کرکے اُردو کے افسانچہ نگار تخلیق کاروں کی راہ نمائی بھی کی ہے ۔ موصوف نے ’’گستاخی معاف‘‘ کے عنوان کے ایک ایسی منفرد کتاب اُردو دنیا میں پیش کی جس میں انہوں نے Re-Makingکی تکنیک کے تحت اُردو کے بلند پایہ اور رجحان ساز افسانہ نگاروں مثلاً کرشن چندر، بیدی، سعادت حسن منٹو وغیرہ کے افسانوںکو وہاں سے آگے بڑھا جہاں مذکورہ افسانہ نگاروں نے انہیں چھوڑا تھا۔حالاں کہ یہاں پر مفصل بات کرنے کا نہ موقع ہے اور نہ گنجائش تاہم یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے ان نامور افسانہ نگاروں کے افسانوں کے فنی اور تکنیکی عیوب کو اپنی تجزیاتی جراحی سے صاف و پاک کیا ہے۔ حالی ہی میں بشیر مالیر کوٹلوی کا ایک ناول ’’جسّی ‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آیا ہے جس کا اہلِ نظر ناقدین کی جانب سے مناسب انداز میں استقبال کیا جارہا ہے۔

 افسانہ ’’اہلِ کتاب ‘‘ کا بیانیاتی مطالعہ

 بیانیات کے تحت جب ہم فکشن کے کسی فن پارے کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُس دوران ہمیں سب سے پہلے کہانی اور پلاٹ کے درمیان اُن باہمی رشتوںکے نظام کو دریافت کرنا پڑتاہے جن کی رو سے کہانی کا مواد پلاٹ کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے اوراس طرح دو اجزا ایک کلُ کے بطور معرضِ وجود میں آتے ہیں۔ واضح رہے کہ ساختیات سے وابستہ فرانس کے دانشوروں نے پلاٹ کے لیے ڈسکورس کی اصطلاح وضع کی ہے جسے ترجمہ کر کے اس مضمون میںکلامیہ پڑھا جائے گا۔ وہ پلاٹ کو وسیع تر معنوں میں استعمال کرکے اسلوب اور تکنیک کو بھی ا س میں شامل کرتے ہیں۔ زیرِ تجزیہ افسانہ ’’اہلِ کتاب ‘‘کی کہانی کو کس طرح ڈسکورس کے تابع کردیا گیا ہے اور یہ کیوں کر جمالیاتی مظہر کے ساتھ ساتھ تخلیق کار کے فنّی ارتکاز کا موجب بن گیا ہے ؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں اس افسانے کے مختلف واقعات کو مدِ نظر رکھنا ہوگا۔

 بیانیات کی رو سے وہی تحریرصحت مند بیانیہ کی متحمل ہو سکتی ہے جو واقعات پر مبنی ہو۔ اب یہاں پر سوال قائم کیا جا سکتا ہے کہ کیاصرف فکشن کی تحریر کے واقعات ہی بیانیہ کے معیار پر پورا اُترتے ہیں یا غیر فکشن تحریر میں موجود واقعات کو بھی بیانیہ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ماہرینِ بیانیات نے یہ واضح کردیا ہے کہ بیانیہ کی تلاش صرف فکشن میں ہی نہیں بلکہ واقعات پر مبنی ہر تحریر بیانیات کے ذیل میں رکھی جاسکتی ہے۔’’اہلِ کتاب ‘‘ میں جو مختلف واقعات قاری کی توجہ کو انگیز کرتے ہیں ،اُن کوقارئین کے لیے ذیل میں درج کیا جا سکتا ہے :

 ۱۔مولانا افضال ملک کی اپنے بیٹے مظہر سے ٹیلی فون پر گفتگو

 ۲۔افضال ملک کا روتے روتے نڈھال ہونا

 ۳۔رحمتی کو دل کا دورہ پڑھنا

 ۴۔سند یافتہ مظہر کا نوکری کی تحصیل کے لیے خاک بسر ہونا

 ۵۔ہالینڈ جانے کے لیے مظہرکاگھر کو تین لاکھ نوے ہزار روپیے کے لیے گرِو رکھنا

 ۶۔مظہر کو ہالینڈ میں شہریت نہ ملنے کے سنگین مسائل کا سامنا ہونا

 ۷۔گھریلو اخراجات کا بوجھ، کرایہ دار کے بڑھتے تقاضے اور رحمتی کی بیماری سے پیداشدہ صورتِ حال

 ۸۔گھر کی جوان بیٹیوں کی شادی کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ پریشانیوںکا کوہِ گراں میںتبدیل ہونا۔

 ۹۔چھٹیاں منانے کے لیے مظہر کا لندن جانا

 ۱۰۔ہالینڈ میں مظہرکو غیر قانونی طور پر کام کرنے کی پاداش میں گرفتارکرنا

 ۱۱۔مظہر کا شادی کی تلاش میں سرگرداں ہونا

 ۱۲۔مظہر کی اپنے ہم جنس مائکل ڈیسوزا کے ساتھ شادی رچانا(۴)

مذکورہ بالا بارہ واقعات کا بیانیہ یہ باور کراتا ہے کہ اِ ن کی سرشت میں کوئی نظام سرگرم ہے جس کی وجہ سے واقعات کا تعدد ایک وحدت میں منقلب ہوجاتا ہے ۔بیانیات کے اہم بنیاد گزار ولادمیر پراپ نے اپنی کتاب The Morphology of Folk Talesمیں روس کے ایک سو مختلف قصوں کا مطالعہ کرکے یہ تصور پیش کیا کہ اِن قصوں کے عقب میں ایک نظام کارفرما ہے جسے بیانیات سے منکشف کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مذکورہ بارہ واقعات میںجس قدرِ مشترک کی موجودگی قاری کے لیے نہایت ہی دلچسپ ہے وہ افسانے کا شعریاتی نظام ہے ۔ کسی بیانیہ کے واقع میں چار عناصر کی موجودگی لازمی ہوتی ہے :

 ۱۔ فعل کی موجودگی                            ۲۔عمل کی تبدیلی

 ۳۔تبدیلی میں زمانے کی شرکت            ۴۔کردار کا متحرک تصور/کردار کا ارتقا

 ۱۔فعل کی موجودگی: جہاں تک فعل کی موجودگی کا سوال ہے ، مذکورہ واقعات میںلگ بھگ ہر جگہ فعلیت کا عنصر مرکزی اہمیت کا حامل ہے ۔ پہلے واقعہ مثلاً ’’مولانا افضال ملک کی اپنے بیٹے مظہر سے ٹیلی فون پر گفتگو‘‘ سے لے کر آخری واقعہ ’’مظہر کی اپنے ہم جنس مائکل ڈیسوزا کے ساتھ شادی رچانا‘‘ تک حرکت کا تصور رواں دواں ہے۔

 ۲۔ عمل کی تبدیلی : اس افسانے میں کرداروں کے تعامل سے جو صورتِ حال ابھر کر سامنے آتی ہے وہ تغیر و تبدل کی ہی منت پذیر ہے۔مولانا افضال ملک اور مظہر کی سرگرمیوں سے افسانے کی بافت نمو پذیر ہورہی ہے ۔ مظہر تلاشِ روزگار میں مکان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا اور یوںعمل کی تبدیلی کا پہلو ہر قدم پر نکل رہا ہے۔اس لیے عمل کی تبدیلی اس افسانے کے مختلف واقعات میں نمایاں ہے۔

 ۳۔ تبدیلی میں زمانے کی شرکت: تمام تحریریں یقینا ایک لمحۂ خاص میں معرضِ وجود میں آتی ہیں اور کسی نہ کسی واقعہ یا صورتِ حال کو بیان کرتی ہیں لیکن یہ لازماًوقت کے بہاؤ کا نظارہ کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں۔زیرِ تجزیہ افسانے کے کردار تبدیلی میں زمانے کی شرکت کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ واضح رہے وہ اپنے تفاعل میں زمانے کو شریک کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کرتے بلکہ وہ جو بھی تبدیلی لاتے ہیں وہ زمانے کے دوش پر ہی ممکن ہوپاتی ہے۔

 ۴۔کردار کا متحرک تصور/کردار کا ارتقا: ’’اہلِ کتاب ‘‘ میں کئی ایک کردار ہیں جن سے اس کی تعمیر و تشکیل ہوئی ہے۔ اگر چہ اس کا مرکزی کردار مولانا افضال ملک ہے اور اس کا بیٹا مظہر بھی سامنے آیا ہے جسے اہم کردار بننے کی کافی صلاحیت موجود ہے تاہم وہ مناسب طریقے سے ابھر نہیں پایا ہے۔اس طرح مظہرRound کردار نہیں بن پایا جسے ہم فن کار کی فنی اور موضوعی مجبوری پر محمول کر سکتے ہیں۔

 اس افسانے کا راوی صیغئہ واحد کے طور پر کہانی کے ارتقا میں اپنا کردار ادا کررہا ہے لیکن اُس نے کہیں کہیںپر Focaliserکا رول بھی نبھایا ہے بلکہ اکثر مقامت پر جہاں بنیادی کردار اور ذیلی کردار کے درمیان مکالموں سے افسانے کی حرکیاتی خصوصیت (Dynamics)میں اضافہ کیا جا سکتا تھا وہاں بھی راوی کی دخل اندازی کھٹکتی ہے ۔

 اس افسانے میں افسانہ نگار نے مروجہ ابتدا ، وسط اور اختتام کی تکنیک کو استعمال نہیں کرکے اپنی انفرادی صلاحیت اور فنی ارتکاز کا ثبوت دیا ہے۔ ما بعد جدیددور کی تخلیقات میں یہ افسانہ مروجہ تکنیک کے التزام سے یکسر عاری ہے بلکہ اختتام ، ابتدا اور وسط کی تکنیک کا تجربہ بھی قارئین کو متوجہ کرنے کے لیے کافی ہے۔چوں کہ ادب کا کام زندگی کی ترجمانی نہیں بلکہ عام زندگی کے حالات و واقعات کو defamaliarize یعنی اجنبیانیت کے عمل سے گزارنا ہے تاکہ قاری کسی مانوس شے کو نامانوس انداز میں پڑھ کر مسرت و احتظاظ حاصل کرسکے ورنہ اُس کے سامنے گزرے ہوئے واقعات کو متون کی شکل (Textual Form) میں دہرانا کیا مطلب رکھتا ہے ؟اس اعتبار سے ’’اہلِ کتاب ‘‘ کی تکنیک ایک منفرد اور اجنبی عنصر ہے۔

 بیانیات کی رو سے کہانی کا لسانی بیان ڈسکورس یا کلامیہ کہلاتا ہے ۔ بیانیات کے ایک اہم موئد ژرارژنیت کے مطابق بیانیہ میں کہانی اور کلامیہ کے علاوہ ایک تیسرا عنصر بھی کارفرما رہتا ہے جسے عملِ بیان (Narrative Action)کا نام دیا گیا ہے ۔’’عملِ بیان ‘‘ اُن نشانات ، علامات اور وقفوں کا نام ہے جو واقعہ کو لسانی ڈھانچے میں پیش کرنے کے دوران وقوع پذیر ہوتے ہیں اور جنہیں اُس مخصوص متن کی قرأت کے دوران بازیافت کیا جا سکتا ہے۔اس بازیابی کے تفاعل میں قاری کاتربیت یافتہ ہونا ، فن پارے کی ثقافتی شعریات سے واقف ہونا اور کہانی اور کلامیہ کے مابین ساختیاتی نظام کو گرفت میں لینے کی صلاحیت سے مزیّن ہونا از حد ضروری ہے ۔گو یا کہانی، کلامیہ اور عملِ بیان ایک ایسی تثلیث کا نام ہے جس سے بیانیات کا تار پود تیار ہوتا ہے۔زیرِ تجزیہ افسانے میں کہانی ، کلامیہ اور عملِ بیان کو اس طرح نشان زد کیا جا سکتا ہے :

 کہانی : ایک نچلے متوسط طبقے سے وابستہ مولانا افضال ملک کو کمزورمعاشی حالت، بیوی کی علالت اورروز بہ روز معیار زندگی کے گرنے نیز بیٹیوں کی شادی کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔

 کلامیہ : اپنے سفر زندگی کو خوشگوار طریقے پر گزارنے کے لیے مظہر پڑھائی ختم کرنے کے بعد تلاشِ معاش کی کوششوں میں مصروف ہوتا ہے اور اپنا موروثی مکان گرِوی رکھ کر ہالینڈ میں اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے چلا جاتا ہے لیکن اُس کے ساتھ جو واقعات پیش آتے ہیں وہ کلامیہ کا بنیادی حصہ تشکیل دیتے ہیں۔

 عملِ بیان : راقم نے بحیثیتِ قاری اس افسانے کی قرأت کے دوران جن وقفوں(Terraces) ، علامتوں اور نشانات کو محسوس کیا ہے وہ اس طرح ہیں :

 ۱۔جب افضال ملک نے بیٹے کی فون کال وصول کرنے کے بعد ٹوٹ کر رونا شروع کردیا تو کیا وہ اپنے بیٹے کی آخرت برباد ہونے پر رورہا تھا یا اُس کے تحصیلِ زر کے منصوبے کے ناکام ہونے پر، کیوں کہ مظہر نے باپ کے غیر معمولی اصرار کے باوجود بھی اپنا مکان گرِوی رکھاتھا۔

 ۲۔بیٹیوں سے زیادہ بیٹے کوعزیز رکھنا، کیا اُس فرسودہ روایت کے تابع نہیں ہے جس نے زن ومرد کے درمیان ثقافتی، لسانی، معاشرتی ، اقتصادی ، ادبی اورعلمی میدانوں میں خطِ امتیاز کھینچا ہے۔اس افسانے میں بیٹا سہارے کی علامت بھی ہے جسے Deconstructکرکے ہم ثقافتی محرکات اور نفسیاتی اجبار کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔

 ۳۔افضال ملک کی بیٹیوں کے حسن کا تذکرہ قاری کے نظریۂ جمال کوبرانگیخت کرتا ہے۔افسانہ کے راوی کا یہ جملہ کہ ’’بیٹیوں پر حسن ٹوٹ کر برسا تھا ‘‘بذاتِ خود معنی کی تکثیریت کا اہم مظہر ہے۔اگر وہ انتہائی حسین تھیں تو عمر کیا رہی ہوگی ؟ کیا وہ ابھی ابھی عنفوانِ شباب میں قدم رکھ چکی تھیں ؟ یا وہ شادی کی عمرسے متجاوز تھیں ؟اُن کے قد و قامت ، لب و لہجہ اورلسانی شعور کا کیا عالم ہوگا ؟

 ۴۔مظہر جب اپنے والد مولانا افضال ملک سے خواہش کرتا ہے کہ وہ مکان گرِوی رکھ کر اس کے یوروپ جانے کے لیے پیسوں کا انتظام کرے تو خیال فوراً اس بات کی طرف جاتا ہے کہ مظہر کا معاشی نکتہ نظر کیا ہے ؟ کیا وہ مسابقتی دوڑ میں اپنی ناآسودہ آرزوؤں اور امنگوں کا تکملہ چاہتا ہے یا زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیے ہاتھ پیر پھیلا رہاتھا؟

 ۵۔اگر افضال ملک بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حاکمیت کا سوال دیتا ہے تو بیٹا کیوں اس کے باوجود بھی اپنی زد پر قائم ہے ؟ کیا اُس کا تصور دین ابھی بچپنے کے دور سے گزر رہا ہے یا وہ مادّی ذہنیت کا حامل ہوگیا ہے ؟

 ۶۔جب مظہر مقرر کردہ شرائط پر ہالینڈ چلا گیا اور وہاں وہ غیر قانونی طور پر کام کرنے کے الزام میں پکڑا گیاتو قاری کا ذہن اُن شرائط کی خامیوں پر چلا جاتا ہے ،جن کو آخر اُس نے کیوں گھر کو گرِوی رکھ کر اتنا بڑا قدم اٹھا یا؟قاری کی توجہ مظہر کی غیرسنجیدگی کی طرف لوٹ جاتی ہے ۔یہاں پر اُ س کے تصورِ کائنات کا عکس بھی قاری کو نظر آتا ہے ۔

 ۷۔اگرافسانے کا مصنف صیغئہ واحد کے پردے میں مظہر کے نیک سیرت ہونے کی قسمیں کھاتا ہے تو اُس کا ہالینڈ کی عورتوں کے بارے میںاپنے باپ کو یہ بولنا کہ ’’ یہاں کہ عورتیں بڑی مکار ہیں۔ ایک دودن ساتھ رہ کر خرچہ کرواتی ہیں ، اور ساتھ چھوڑ دیتی ہیں‘‘ تو کیا یہ مظہر کے اپنے ذاتی تجربات و محسوسات ہیں ؟ یا وہ سنی سنائی باتوں کا خلاصہ کرہا ہے؟

 ۸۔ ’’مولانا‘‘ اس افسانے میں صدق و سچائی اور نیکی و خیرخواہی کی بہترین علامت ہے جسے آج کے صارفی اوربازار مرکز معاشرے میں بہ نظرِ حقارت دیکھا جارہا ہے ۔غرض افسانہ نگار نے اس علامت کے احیائے نو کی شعوری کوشش کی ہے۔اسی طرح ’’ہم جنس پرستی ‘‘ مغرب کے حیاسوز اور ایمان شکن ماحول کی علامت کے بطور اپنا تعارف کراتی ہے۔اگرچہ اس افسانے میں ہم جنس پرستی کا کہیں ذکر نہیں ہے لیکن اختتامی جملے میں مائکل ڈیسوزا اس کی علامت کے بطور اپنا تعارف کراتا ہے ۔ اس افسانے کا علامتی نظام بیانیہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

 مذکورہ آٹھ نکات میں ایک قاری اس افسانے کی اُن سوالات ، خاموشیوں (Gaps)اور وقفوں (terraces)کو بازیافت کرسکتا ہے جواس کے مختلف واقعات کی لسانی تشکیل کے دوران جنم لیتے ہیںاور جن کو قاری دورانِ قرأت موجود بناتا ہے۔اس طرح ان علامتوں ، وقفوں اور اشاروں سے ’’عملِ بیان ‘‘ وقوع پذیر ہوتے ہیں جو کلامیہ کا ناگزیر حصہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ غرض بیانیات کے تحت اس نظام کو منکشف کرنے کی ضرورت ہے جو کہانی، کلامیہ اور عملِ بیان کے باہمی تعامل سے معرضِ وجود میں آتا ہے۔

 زیرِ تجزیہ افسانے میں ’’پیسہ ‘‘ کو موتیف (Motif)کے طور پردیکھا جا سکتاہے جس کے حصول کے لیے مظہر نے انسانی اخلاق و اقدار کی بیخ کنی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔یہ موتیف افسانے کے ابتدا میں نہیں بلکہ وسط اور اختتام پر اپنی معنویت کو اُجاگر کرتا ہے۔

 اہلِ کتاب پر اپنے اس تجزیے کو سمیٹتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مابعد جدید تنقید کی حامل بیانیاتی تھیوری (Narratology)فکشن فہمی میں ایک کردار ادا کرسکتی ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ بیانیات فکشن شعریات کی تعمیروتشکیل کا بھر پور حوصلہ رکھتی ہے بشرطیہ کہ ناقدین ِ فن اپنی تنقیدی ترجیحات کا از سرِ نو تعین کریں۔ بیانیات فکشن کی سماجی ، سیاسی، تاریخی اور نفسیاتی جہتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کی ہیئت کو مرکزِ موضوع بناتی ہے اور اسطرح فکشن کے جمالیاتی اقدار کا پیمانہ بھی بدل جاتا ہے ۔یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ بیانیاتی نکتہ نظر سے ہم کہانی کا خلاصہ پیش نہیں کر سکے ، یہ صحیح ہے کہ خلاصہ پیش کرنا روایتی فکشن تنقید کا محبوب مشغلہ رہا ہے لیکن بیانیاتی تجزیہ کے دوران اُس کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیوں کہ بیانیاتی تنقید کا اپنا تعلاتی فریم ورک ہے جو روایتی تنقید سے ایک نئے فاصلے پر فکشن فہمی کا نیا طور قائم کررہا ہے۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 حوالہ جات

 ۱۔ واقعہ ، راوی اور بیانیہ از قاضی افضال حسین ، مشمولہ: بیانیات، مرتب قاضی افضال حسین ، معاون مرتب ڈاکٹر عبد الرحمٰن ، مسلم ایجوکیشنل پریس ، علی گڑھ ، طبع اول اکتوبر ۲۰۱۷ء ، ص۔ ۲۱۱

 ۲۔ چند کلمے بیانیہ کے بیان میں از شمس الرحمٰن فاروقی مشمولہ : افسانے کی حمایت میں ، مصنف شمس الرحمٰن فاروقی ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ، نئی دہلی ، اشاعتِ سوم مارچ ۲۰۰۳ء ، ص۔ ۱۹۴

 ۳۔ کچھ بیانیات کے بارے میں از شرجیل احمد خان مشمولہ :شش ماہی انتخاب ، مدیر پروفیسر علیم اللہ حالی ، شمارہ ۳۲، سال ۲۰۱۵ء ، ص۔ ۲۱

 ۴۔ اہلِ کتاب ، مشمولہ : افسانوی مجموعہ چنگاریاں ، مصنف بشیر مالیر کوٹلوی ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی ، طبع اول : ۲۰۰۷ء ، ص۔ ۱۳ تا ۲۲

 ٭٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.