عطر کافور : ایک تجزیاتی مطالعہ

پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی
خواجہ معین الدین چشتی لسان یونی ورسٹی، لکھنؤ

اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں نیّر مسعود اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔نیر مسعود کی اپنی تحریروں اور اردو اور انگریزی ادیبوں کے انٹر ویوسے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ انہوں نے افسانے کے آرٹ میں خوب تجربے کئے ہیں۔انگریزی رسائل نے ان کو اردو ادب کا کافکا کہا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے فن کے چراغ میں مغرب کے افسانوی ادب کا روغن بھی شامل ہے۔نیر مسعود کے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔سیمیا،عطر کافور،طاؤس چمن کی مینا اور گنجفہ۔ان مجموعوں کے علاوہ بھی رسائل میں شائع افسانوں کو جمع کر کے پاکستان سے مجموعہ کی شکل میں طبع کیا گیا ہے۔نیر صاحب کے یوں تو بہت سے افسانے مشہور ہیں مثال کے طور پر طاؤس چمن کی مینا لیکن یہ افسانہ اپنی طوالت کے سبب کسی انتخاب میں مشکل ہی سے شامل ہو سکتا ہے۔عطر کافور بھی ضخامت میں کافی توانا ہے لیکن اس کو نیرمسعود کے نمائدہ افسانوں میں شامل کیا جاتا ہے اسی لئے اس کو شامل کتاب کیا جا رہا ہے۔
افسانہ عطر کافور ایک طویل مدت کا احاطہ کرتا ہے۔یہ طفلی سے زندگی کے آخردور تک پر محیط ہے۔مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے۔
’’لڑکپن میں تو میں گنے چنے گھریلو پرندوں سے زیادہ کے نام بھی نہیں جانتا تھا۔‘‘
’’ میرے علم میں عطریات کے نایاب نسخے ہیںجنہیں میں اپنے سینے میں لیے ہوئے معدوم ہو جاؤں گا اور اسی لیے کبھی کبھی مجھ پر اصرار ہوتا ہے کہ ان نسخوں کو اپنے بعد کے لئے محفوظ کر جاؤں۔‘‘
یہ کہانی ایک مرحومہ لڑکی کے بے مثال تخلیقی پیکر کے گرد گردش کرتی ہے۔یہ تخلیقی پیکر اصل میں ایک تخیلی پرندے کی تصویر ہے جس کوکئی چیزوں سے ملا کر بنایا گیا ہے۔افسانہ اس کی یوں تصویر کشی کرتا ہے:۔
’’بنانے والی نے سیاہی مائل لکڑی کے تختے پر کسی درخت کی چھال ایک پتلی لمبی شاخ کی شکل میں تراش کر چپکائی تھی،اس کے اوپر روئی کے بے داغ سفید پہل جما کر پرندے کا بدن بنایا تھا۔کھلے ہوئے بازوؤں کے لئے روئی کے ساتھ اصلی سفید پر بھی چپکائے تھے۔آنکھ کی جگہ سرخ شیشے کا گول دانہ لگایا تھا اور نوکیلے پنجے کسی جھاڑی کے کانٹوں سے بنائے تھے لیکن پرندے کے پنجے شاخ پر ٹکے ہونے کے بجائے اس سے ذرا اوپر اٹھے ہوئے تھے،اس لئے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ پرندہ شاخ پر اتر رہا ہے یا اس پر سے اڑ کر جا رہا ہے۔‘‘
اس فنی شاہکار کو بڑے کمرے میں شہ نشین کے اوپر ایسے لگایا گیا تھا کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے نظر اسی تصویر پر پڑے۔کمرے میں آنے والا اس تصویر سے متاثر ضرور ہوتا تھا اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق تاثر کا اظہار کرتا۔نئی نسل کے لئے یہ تصویر ترغیب و تحریک کا مؤثر ذریعہ تھی۔افسانے کا متکلم ’’میں‘‘ بھی اس تصویر کے اثر کا ایسا اسیر ہوا کہ تمام عمر اس سے باہر نہیں آسکا۔اس تصویر کے سفید بازو دیکھ کر ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوتی تھی۔تصویر کے ان دو حاوی عنصر سفیدی اور ٹھنڈک کی ،مماثلت کافور میں نظر آئی کیوں کہ یہ بھی سفید اور ٹھنڈے پن کی تاثیر سے مملو ہوتا ہے۔اسی سبب سے یہ کافوری چڑیا کے نام سے موسوم ہو گئی۔پورے گھر نے بچے کے رکھے ہوئے نام کو تسلیم کر لیا۔اب تصویر کافوری چڑیا ہو گئی تھی جس میں سفیدی ،ٹھنڈک اور کافور منسلک ہو گیا تھا۔گھر میں کافور کا استعمال مرہم بنانے میں ہوتا تھا۔مرہم کے سبب کافور زخم اور علاج سے بھی منسلک ہو گیا۔کافور کی صفت یہ ہے کہ وہ اڑ بھی جاتا ہے اور اڑتے اڑتے ختم بھی ہوجاتا ہے۔اس طرح یہ زندگی کے گزرنے اور موت سے ہمکنار ہونے کی علامت بن جاتا ہے۔
’’بہت لوگوں کو اس سے ڈر لگتا ہے ۔‘‘
’’کافوری چڑیا سے؟‘‘میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’کافور سے ،‘‘ماہ رخ سلطان بولیں’’اس سے بہت لوگوں کو مرنے کا خیال آتا ہے۔‘‘
’’کافور سے ؟‘‘مجھے پھر حیرت ہوئی ،’’کافور تو بہت سی تکلیفوں کا علاج ہے۔‘‘
’’مرنا بھی تو بہت سی تکلیفوں کا علاج ہے۔‘‘
انسان کی صلاحیتیں اور اس کے کار نامے خوشبو کی مانند ہیں اور یہ خوشبوئیں موت کے بعد بھی قائم رہتی ہیں۔انسان پر ایسا بھی وقت آتا ہے جب پیری میں طفلی کا رنگ دوبارہ چڑھ جاتا ہے ساری صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں لیکن انسان زندہ ہوتا ہے۔دیکھئے اس کو کافور اور خوشبو کے استعاروں میں کس طرح بیان کیا ہے:۔
’’آخر ایک وقت ایسا آتا تھا کہ چیز باقی رہتی اور اسکی خوشبو اڑ جاتی تھی اور شناخت کے لیے چیز کو دیکھنا یا چھونا پڑتا تھا،لیکن کافور کو میں نے ان چیزوں سے مختلف پایا۔اس لئے کہ کافور اپنی خوشبو کے ساتھ ساتھ بھی اڑتا رہتا ہے۔یہ ممکن نہیں کہ کافور باقی رہے اور اس کی خوشبواڑ جائے ، یہ البتہ ممکن ہے کہ کافور اڑ چکا ہو مگر خوشبو باقی ہو۔ ‘‘
کافوری چڑیا ایک فن کا رکی تخلیق ہے ۔یہ نقل کی نقل نہیں ہے۔افلاطونی نظریہ فنون لطیفہ نقل کی نقل ہے یہ افسانہ اس خیال کے خلاف نظر آتا ہے۔تخلیق وہ ہے جس کی نقل نہ کی جا سکے۔نقل اس کی ہوتی ہے جس کے ٹکے بندھے اصول ہوتے ہیں۔نقل دائرۂ ہنر میں آتی ہے۔اسے سیکھا جا سکتا ہے یہ ایک مشینی سی چیز ہے۔ہنر پروڈکٹ بنانے کی اہلیت رکھتا ہے اور کاروبار میں ڈھل سکتا ہے جب کہ فن پارہ ایک ہی ہوتا ہے۔یہ بیش قیمت تو ہو سکتا ہے لیکن کوئی معین قیمت نہیں رکھتا ۔ایک بات اور قابل غور ہے کہ علم جب بھی منتقل ہوتا ہے تو علم کی صورت میں نہیں معلومات کی صورت میں ڈھلتا ہے ۔محصل معلومات کو اپنے مشاہدات ،خیالات ،نظریات ،تجربات وغیرہ کی روشنی اس کو علم کا روپ دیتا ہے اب یہ علم سابقہ رنگ سے الگ اور منفرد ہوتا ہے ،چاہے روح میں یکسانیت ہو لیکن جسم ضرور جدا ہو جاتا ہے۔یہی کیفیت کسی فن کے منتقل ہونے کی بھی ہے۔’’عطر بنانے کا وہ پیچیدہ اور نازک فن جو قدیم زمانہ سے چلا آرہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے سیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے تیار کئے ہوئے عطروں میں کوئی خاص بات نہیں سوا اس کے کہ میں عام خوشبوؤں کو عطر کافور کی زمین پر قائم کرتا ہوں۔‘‘فن ہنر میں ڈھلا اور اپنی صلاحیتوں سے تجربات کی سان پر کس کس کے اس کو ایک نیا فن بنا دیا جو اس سے قبل نہیں تھا۔فن جمالیاتی سطح پر پہلے اور تفہیم کی سطح پر بعد میں آتا ہے۔تفہیم کا اس میں دخل تو ہوتا لیکن اس پر مکمل قابو نہیں ہوتا۔’’میرے بنائے ہوئے عطر کسی کے سمجھ میں نہیں آتے اور اسی لیے ان کی نقل تیار کرنے میں بھی ابھی تک کسی کو کامیابی نہیں ہوئی ہے۔‘‘اصل چیزیں ذہن کو عالم اسباب میں رکھتی ہیں او ر جب کہ تخلیق انسانی فکر کواس سے ماورا لے جاتی ہے۔بچہ جب محنت کر کے گھڑی کی نقل تیار کرتا ہے تو اصلی معلوم ہوتی ہے اور ماہ رخ سلطان کو وقت یاد آجاتا ہے اور دیر ہوگئی ہے اس کا احساس بھی ہو تا ہے۔
’’یہ تو اصلی ہے۔‘‘
’’نہیں، یہ بھی۔‘‘
’’دیر ہو گئی ،‘‘ انھوں نے گھڑی کی سوئیوں کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا،‘‘
یہ گھڑی بچے نے اپنے ایک عزیز کو دے دی جو اس کو بہت چاہتے اور اس کا خیال رکھتے تھے۔ماہ رخ سلطان کو تحفہ میں دینے کے لئے اس نے جلدی جلدی ایک ۔ڈیڑھ دن میں گھڑی تیار کی ۔جلدی بنانے میں وہ سابقہ اصلی رنگ، اس گھڑی میں نہیں آیا بچہ سمجھ رہا ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتا ہے تو یہ جواب ملتا ہے:۔
’’نہیں،‘‘ ماہ رخ سلطان نے کہا اور گھڑی کو مختلف رخوں سے دیکھا ،پھر بولیں’’یہ زیادہ اچھی ہے ۔وہ تو اصلی معلوم ہوتی تھی۔‘‘
اگر کوئی انسان کو،اس کے وجود کو ،اس کے فن اور صلاحیتوں کو سمجھے اور سراہے تو اس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے۔فن کا اگر سمجھنے والا کوئی نہ ہو تو فنکار کا دنیا میں زندہ رہنا بہت مشکل ہے ۔کافوری چڑیا کی خالق اور ماہ رخ سلطان کی اموات کا المیہ یہی معلوم ہوتا ہے۔سماج نے مرد اور عورت کو جوڑوں کی شکل میں دیکھا ہے جس میں عمرایک اہم چیز ہے۔محبت جسموںکا نہیں روحوں کا معاملہ ہے لیکن روح رہتی تو جسم ہی میں ہے۔فن کار بھی سماجی بندھوں کی قید سے کیسے آزاد ہوسکتا ہے۔وہ ماہ رخ سلطان میں ایک کشش پاتا ہے لیکن وہ عمر میں بڑی ہے۔اس کا احساس ان کو دیکھ کر نہیں ہوتا ۔جب وہ سنجیدگی سے گفتگو کرتی ہیں تب احساس ہوتا ہے کہ وہ واقعی بڑی ہیں۔جب تک وہ عقل کی زبان نہیں بول رہی تھیں وہ سب ایک شاہکار تخلیق تھیں اوربچے کی نظر میں فن پارہ کافوری چڑیا ہے جو ایک مدت سے ہے مگر اس کی کوئی عمر نہیں۔بچہ ایک تخلیقی ذہن رکھتا ہے اس کی تربیت بھی اسی طرح سے ہوئی ہے ۔گھر کا ماحول بھی اس کی صلاحیت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ساز و سامان مہیا کرائے جا رہے ہیں۔آتش دان پرکھلونا نما تخلیقات کو سجایا جا رہا ہے۔یہ طریقہ ہماری اپنی مٹی کا نہیں ہے ۔ہم تو چاک پر سامان بنا کر کسگر بن جاتے ہیں۔یہ کسی دوسری تہذیب کا اکتساب ہے ۔شاید یہ انگریزوں کی دین ہے۔’’ یہاں یہ مٹی مل جاتی ہے؟‘‘ ’’ جی نہیں ،‘‘میں نے کہا ،کسی نے باہر سے لاکر احاطہ میں جمع کی تھی۔‘‘’’کس نے؟‘‘’’معلوم نہیں ،‘‘میں نے کہا ،’’وہ بہت پہلے تھا۔‘‘’’اب نہیں ہے؟‘‘ ’’شاید نہیں ،‘‘میں نے کہا اور پھر کہا ،’’وہ بہت پہلے تھا۔‘‘
جس کو چاہتے ہیں اس کو اس کی پسند کا سامان دیتے ہیں ،یہ طریقہ بچے نے اپنے عزیز سے سیکھ لیا تھا ۔ماہ رخ کو گھڑی پسند آئی تھی تو اس نے اس کے لئے دوسری گھڑی بنائی۔اس کے علاوہ اس نے اتنے چھوٹے گھر بنائے جو مٹھی میں آجائیں۔ماہ رخ نے بھی ایک نایاب تحفہ دیا ایک چھوٹا سا فانوس۔وہ اس کو بہت عزیز تھا بچپن سے اس کے پاس تھا۔اس کو وہ کسی کو نہیں دیتی تھی۔۔اس میں عطر کی شیشیاں بھی لگیں تھیں اور ان شیشیوں میں ایک خالی تھی ۔اس خالی شیشی کے لئے ماہ رخ نے کہا تھا:
’’ان شیشیوں میں عطر ہیں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’ایک خالی ہے ،‘‘ماہ رخ سلطان نے جواب دیا ۔پھر وہ کوشش کر کے مسکرائیںاور بولیں،’’اس میں آپ اپنی پسند کا عطر بھر لیجئے گا۔‘‘
اپنی اس حالت کو خود بچہ کچھ نہیں سمجھ سکا لیکن اس پر اس کارد عمل ضرورہوا۔’’
کئی دن تک میں ادھر ُادھر اپنے دوسرے رشتہ داروں کے یہاں وقت گزارتا رہا۔صرف رات کو کسی وقت گھر میں آکر سو جاتااور صبح اٹھنے کے تھوڑی ہی دیر بعد پھر نکل جاتا۔‘‘
گھر میں بالکل دل نہیں لگ رہا تھاوہ فانوس اس کے نگاہوں کے سامنے تھا۔اب اس نے یہ علاج نکالا کہ ویسا ہی فانوس بنانے کا ارادہ کیا وہ شیشیاں اور شیشے کا سامان بھی خرید لا یا۔اس کو معلوم تھا کہ شیشے کا کام کرنے کے اوزار اس کے پاس نہیں ہے۔پھر اس نے اپنے دل کو اس خیال سے لگایا کہ مٹی کا فانوس کیوں نہ بنا لیا جائے۔بچے کو خود نہیں معلوم تھا کہ لاشعوری سطح پر اس میں کیا ہو رہا ہے اور یہ کرب اس کے ساتھ پوری زندگی چلا۔ اس اطلاع پر کہ ماہ رخ سلطان نام کی لڑکی کوئی آ رہی ہے جو چیزیں بناتی ہے ،اس نے کافوری چڑیا کا نام بدل کر ماہ رخ سلطان رکھ دیا تھا۔
فنکار اپنی تخلیق میں ہوتا ہے۔وحدت الوجود ی رنگ میںفن میں فنکار کا وجود ہے۔کافوری چڑیا جب تک فن کار کے تصور سے نہیں جڑی تھی وہ یک رخی تھی۔نام رکھنے کا اسے شوق تھا۔کافوری چڑیاخاندان کی کسی لڑکی نے بنائی تھی جو دنیا میں نہیں ہے۔اس کا کیا نام تھا اس کا کوئی ذکر نہیں ۔انسان کسی شے ٔ کا ادراک اسم کے توسط سے کرتا ہے۔سوسیٔرکا نظریہ ہے کہ شیٔ اور نام کے درمیان مستقل رشتہ نہیں ہوتا یہ رشتہ خودساختہ (Arbitrary)ہوتا ہے۔فن پارے کو ماہ رخ سلطان سے منسلک کرنے سے نام اور تخلیق کار دونوں کی الجھن ایک ساتھ دور ہو سکتی تھی۔ننہا تخلیق کار کا دل کافوری چڑیا سے ہوتا ہوا ماہ رخ سلطان تک پہنچا تھا۔پہلے تو وہ تخلیق کو نقل مان کر اصلی پرندے کی تلاش میں لگ گیا۔اس کوایک بار مردہ اور ایک بار زندہ مگر اسیری کی نشانی ،پنجے میں ڈور ،کے ساتھ کچھ اُسی طرح کا پرندہ ملا تھا۔دونوں بار اس کے دوست نے قیاس کیا تھا۔ماہ رخ سلطان کے آنے کے بعد اب کافوری چڑیا ماہ رخ میںضم ہو گئی تھی۔اس کی محبت اس کے روح کی لاشعوری گہرائیوں میں اتر گئی ۔یہ محبت اس وقت ایک المیہ بن گئی جب ماہ رخ موت کی آغوش میں جانے کے لئے بار بار ہاتھ اٹھا رہی تھی۔اس نے ماہ رخ کو اپنے احساس سے اپنے اندر اتارا تو اس کی ایک پیچیدہ تصویر بن گئی :۔
’’اسی وقت ماہ رخ سلطان کا ہاتھ کچھ زیادہ اٹھا اورمیرے نتھنوں کے قریب آکر وہیں ٹھہر گیا۔میں سانس روک لی ۔لیکن ذرا ہی دیر میں میرا دم گھٹنے لگا میں نے پوری سانس کھینچی اور ایسا معلوم ہو ا کہ ماہ رخ سلطان کی ہتھیلی میری سانس کے ساتھ گھوم کر اور کھنچ کر میرے نتھنوں سے آلگی۔میری آنکھیں قریب قریب بند ہوگئیں اور مجھے مسہری پر ایک اجاڑ سی خوشبواترتی محسوس ہوئی ۔میں نے پھر سانس روک لی،پھر مرا دم گھٹا ،پھر میں نے پوری سانس کھینچی ۔مجھے ویرانی کا احساس ہوا ۔میں نے ایک اور سانس کھینچی اور مجھے اس ویرانی میں کچھ دکھائی دیا۔سب سے پہلے کافوری چڑیا،پھر کھوکھلا پرندہ اور میرے ہاتھ پر رینگتی چیونٹیاں،پھر سفید ڈورے والا پرندہ اور صحن میں سفید دھوئیں کی چادروں کی طرح اڑتی ہوئیں بارش کی پھواریں،پھر میرے کمرے میں میز کے پاس کھڑی ہوئی ماہ رخ سلطان ،پھر سائبان کے نیچے بیٹھی ہوئی ماہ رخ سلطان،پھر ماہ رخ سلطان کے اٹھے ہوئے ہاتھ کے نیچے گھومتا ہوا فانوس اور اس میں لٹکتی ہوئی شیشیاں جن میں ایک خالی تھی ۔میری آنکھیں پوری کھل گئیں۔‘‘
فانوس کی خالی شیشی میں عطر بھرنا ہی اس کی جذباتی زندگی کامرکز بن گیا ۔اسی کی خاطر اس نے عطر سازی کا قدیم فن سیکھا ۔یہ عطر بنانا اس کے زخموں کا مرہم تھا۔ماہ رخ نے تحفہ میں ایک چھوٹا سا چوکور مرتبان دیا تھا۔ عطر بنانے کا سفید مرتبان بچپن کی اسی لا شعوری صورت کا عکاس ہے۔ماہ رخ کی زندگی کا آخری منظر ہمیشہ اس کے لاشعور میں ایک نفساتی گتھی کے رنگ میں موجود رہا ۔اس سے وہ اپنے آپ کو الگ نہیں کر سکا۔افسانہ اسی نفسیاتی گتھی کو زندگی کے ہر موڑ پر اثر پذیر دکھانے کی ایک کامیاب سعی کرتا ہے۔ اس تجزیہ کو میں اس اقتباس پر اس ختم کرتا ہوں جو مذکوہ بالا کیفیت کا آئینہ دار ہے۔
’’یہ سفید چینی کے نیچے سے چوکور مرتبان میںبھرا ہوا ایک بے رنگ محلول ہے۔گول ڈھکنا ہٹانے پر مرتبان کے تنگ دہانے سے کسی قسم کی خوشبو نہیں نکلتی اور محلول کو سونگھنے سے کھالی ویرانی کا احساس ہوتا ہے ،لیکن دوبارہ پوری سانس کھینچ کر سونگھنے سے ویرانی میں کچھ دکھائی دیتا ہے ۔کم سے کم مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔‘‘
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.