میواتی سَنت شاعرہ سہجوبائی کی شاعری میں گرو بھکتی

عزیز سہسولہ میو
ریسرچ اسکالر ،جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، نئی دہلی
موبائل نمبر۔9868565081
ای میل آئی ڈی:azizsahsola@gmail.com

عہد وسطی میں نِرگن بھکتی کے علمبردار سنتوں میں میرا بائی کے بعد سہجو بائی سب سے زیادہ مشہور سنت شاعرہ ہیں۔ سہجو بائی کا تعلق سنت چرن داسی فرقے سے ہے۔ سنت چرن داس کے تقریبا پانچ ہزار شِشیوں(شاگردوں) میں ۱۰۸ اہم شِشیہ تھے جن کے نام پر گدّیاں چلیں۔ ان میں سہجو بائی سب سے زیادہ مشہور ہیں ۔ سہجو بائی کی گدّی آج بھی محلہ دسّان، حوض قاضی پرانی دہلی میں ہے۔
سہجو بائی کا تعلق میوات کے ڈہرا گاؤں سے تھا۔ ان کی پیدائش کے بارے میںمحققین میں اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق ان کی پیدائش ۱۸۰۰ وکرمی سَمّت میں ہوئی لیکن میرے خیال میں یہ تاریخ درست نہیں ہے کیونکہ خودسہجو بائی نے سہج پرکاش میں صاف طور پر لکھا ہے کہ انہوں نے اس کی تکمیل ۱۸۰۰ وکرمی سمّت میں کی جس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سہجو بائی کی پیدائش ۱۸۰۰ سے قبل ہی ہوئی :
پھاگ مہینہ اَشٹمی، سُکَل پاکھ بُدھوار
سَمّت اٹھارے میں ہُتے، سہجو کیا بِچار
گُر اَستُتی کے کرن کو‘، باڈھیو اَدھک ہُلاس
ہوتے ہوتے ہو گئی، پوتھی سہج پرکاس
دِلّی شہر سُہاؤنا، پری چھِت پور میںباس
تہاں سماپت ہی بھئی، نَوکا سہج پرکاس
سہج پرکاس پوتھی کہی، چرن داس پرتاپ
پڑھے سُنے جو پریٖت سو‘، بھاجے سب ہی پاپ
چرن داسی فرقے کی دلّی گدّی کے مہنت گھنشیام داس نے ۲۰۰۰ء؁ میں سہج پرکاش کو از سر نو شائع کرایا۔ اس میں انہوں نے سہجوبائی کی پیدائش وکرمی سمّت ۱۷۸۲ کے ساون مہینے میں شُکل پنچمی کو قرار دیا جو شمسی کلینڈر کے حساب سے ۲ اگست ۱۷۲۵ ہے۔ڈاکٹر شیام سُندر شُکل نے بھی اسی تاریخ کو سہجو بائی کی یوم پیدائش قرار دیا ہے۔
سہجو بائی کے والدین کا تعلق ’’ ڈھوسر‘‘ ذاتی سے تھا۔ سہجو بائی نے اپنے والد کا نام شری ہری پرساد اور والدہ کا نام انوپی دیوی لکھا ہے:
ہری پرساد کی سُتا ، نام ہے سہجو بائی
اس کا کہیں ثبوت نہیں ملتا کہ سہجو بائی نے کسی اسکول وغیرہ میں تعلیم حاصل کی ہو۔ اس لیے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے ہی حاصل کی تھی۔ سہجو بائی کے عہد میں لڑکی کی شادی کم عمری ہی میں کر دی جاتی تھی۔ سہجو بائی کی شادی بھی گیارہ بارہ سال کی عمر میں ہی طے کر دی گئی۔ شادی کی رسومات ادا کی جارہی تھیں جس میں ان کے ماموں زاد بھائی سنت چرن داس جی کو دعائیں دینے کے لیے بلایا گیا۔ سہجو بائی دلہن کے لباس میں سجی سنوری ہوئی تھی۔ چرن داس جی نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
چَلنو ہے رَہنو نہیں، چَلنو بِسوابیٖس
سہجو تَنَک سُہاگ پے، کہا گُندھاوے سیٖس
سہجو کے دل میں سنت چرن داس جی کے یہ الفاظ تیر کی طرح چبھ گئے۔ گہنے و زیورات اتار کر پھینک دیے اور شادی سے انکار کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا کہ میں تو پرمیشوَر کی بھکتی کروں گی۔اس زمانے کے سماجی نظام کو دیکھتے ہوئے یہ ایک تعجب خیز واقعہ تھا جس نے سبھی اعزاء و اقربا کو حیران کردیا۔خاندان میں ایک بھگ دڑ سی مچ گئی۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ سب خاندان والوں نے سہجو کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن ان پر کوئی اثر نہیںہوا۔
خداکا کرنا ایسا ہوا کہ دولہاکے خاندان کی طرف سے کی گئی آتش بازی کی وجہ سے دولہے کا گھوڑا بِدک کر دوڑتا ہوا ایک درخت سے جا ٹکرایا اور دولہے نے وہیں دم توڑدیا۔ جب دکھی دل سے باراتیوں نے سہجو کے والدین کو یہ اطلاع پہنچائی تو ان کے دل پر چرن داس کے ملفوظات کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ اپنے چاروں لڑکوں (رادھا کرشن، گنگا وِشنو، داس کنور، ہری ناراین) اور لڑکی سہجوبائی سمیت ان کے شِشیہ (شاگرد) ہو گئے۔ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنت چرن داس کے شاگرد جوگ جیٖت شری لالہ ساگر میں لکھتے ہیں:
سب شِشیہ بھئے مہاراج کے، مَن کرم لَئی شَرنائے
آگیاکاری ہی رَہیں، یہ تِنہہ کریں سَہائے
سہجو بائی کی روحانی ترقیوں سے متاثر ہوکر مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی نے ۱۷۶۹ میں انہیں ۱۱۰۰ سونے کے سکے اور میرٹھ کے علاقہ سمیت نََریلا، بادلی، مادی پور، دَہی پور، بھلسوا، جہانگیرپوری اور نِرنکاری کالونی وغیرہ گاؤوں کی جاگیر عطاکی۔ ۱۷۸۲ میں گرو چرن داس کے انتقال کے بعد تقریبا تیئیس سال تک سہجو بائی نے گرو گدّ ی کو اعزاز بخشا ۔اس دوران انہوں نے اپنے شاگردوں شیام وِلاس، کرتانند، اگم داس، گرو نِواس، رام پرساد، سنت حضور، ہرنام داس، رگھوناتھ اسنیہی اور سُمَت بائی وغیرہ کواپنے مسلک کی ترویج کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں بھیجا ۔ سہجو بائی نے اپنی زندگی میں مختلف مذہبی اسفار کے ذریعے لوگوں کو روحانیت کا درس دیا اور چرن داسی فرقے کو بلندی عطا کر کے سَمّت ۱۸۶۲ کی ماگھ شُکلا پنچمی بمطابق ۲۴ جنوری ۱۸۰۵ ء؁کو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ موجودہ وقت میں سہجو بائی کی مرکزی گدّی ۴۹۔۳۱۹۱ محلہ دَسّان، حوض قاضی دہلی میں ہے۔
سہجو بائی کے کلام کا ایک مجموعہ ہی مستند مانا جاتا ہے اور وہ ہے ’’ سہج پرکاش‘‘ ایسا مانا جاتاہے کہ سہجو بائی نے اس گرنتھ کی تخلیق اٹھارہ سال کی عمر میںکر لی تھی جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ شواہد کے مطابق سہج پرکاش کو پہلی بار سردار اُمراؤ سنگھ شیرگِل کے ذریعے ’’ میسرس کھیمراج شری کرشن داس، ممبئی ‘‘ سے ۱۸۳۸ء؁ میں چھاپا گیا۔بعد ازیں ۱۹۱۳ء؁ میں بیلویڈیَر اسٹیم پرنٹنگ ورکس الہ آبادسے چھاپا گیا اور آخری بار ۲۰۰۰ء؁ میں گدّی سہجو بائی کے مہنت گھنشیام داس جی نے چھپوایا۔ سہج پرکاش کل اَسّی صفحات پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے اڑتیس موضوعات پر گفتگو کی ہے۔اس گرنتھ کی تخلیق سَمّت ۱۸۰۰ بمطابق ۱۷۴۳ء؁ میں مکمل ہوئی۔
سہجو بائی کے دل میں اپنے گرو (استاذْپیر و مرشد) سنت چرن داس کے لیے بے تحاشہ عقیدت و احترام تھا۔ان کے نزدیک گرو کی بھکتی سے بڑھ کر کوئی اور بھکتی نہیں ہے۔ سہجو بائی کے خیال میں گرو سنجیونی بو‘ٹی(زندگی دینے والی بو‘ٹی) تھے۔ وہ اپنے گرو کو خدا کا روپ نہیں بلکہ خدا سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل مانتی تھیں۔دن رات گرو کے ذریعے بتائے گئے طریقوں کے مطابق جاپ اور سُمِرن کرتی تھیں۔ خود بھی گرو کی ہدایات پر صدق دل اور خوش دلی سے عمل کرتی تھیں اور دوسروں کو بھی یہی بات سمجھاتی تھیں۔سہجوبائی کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ گرو کے علاوہ کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔جس طرح سے کوئی بہادرجنگجو فتح حاصل کرنے کی نیت سے میدان جنگ میںاترتا ہے اسی طرح سہجوبائی بھی مکمل طور پر روحانیت حاصل کرنے کے لیے دل وجان سے گرو کی بھکتی میں لگ گئی تھیں۔سہجو بائی کا اپنے گرو پر اس قدر پختہ یقین دوسروں کے لیے ایک مثال بن گیا تھا۔ گرو کے ذریعے دیے گئے علم سے ان کا دل روشنی سے جگمگا اٹھا اور بھرم کا اندھیرا مِٹ گیا۔ سہجو بائی کو تینوں لوکوں(عالَم) کاپھرپور علم ہو گیا تھا:
سہجو گرو دیٖپک دِیو، نَینا بھَئے اَنَنت
آدی اَنْت مَدھ ایک ہی، سو‘جھی پڑے بھَگوَنت
ایک دن سہجو بائی اپنی کُٹیا کے دووازے پر بیٹھی تھی اس کی گرو بھکتی سے خوش ہوکر پرماتما ظاہر ہوئے لیکن سہجو بائی کے چہرے سے خوشی کے کوئی آثار نمایاں نہ ہوئے تو پرماتما نے کہا:
’’سہجو ہم خود چل کر آئے ہیںکیاتمہیں خوشی نہیںہوئی؟‘‘
سہجو نے کہا: ’’پرماتما آپنے یہ تو بہت بڑی مہربانی کی ہے لیکن مجھے آپ کے دیدار کی خواہش نہیں تھی ‘‘۔یہ سن کر پرماتما کو جھٹکا سا لگا اور پوچھاایسا تیرے پاس کیا ہے جو تو میری مہمان نوازی بھی نہیں کررہی ہے؟
سہجو بائی نے جواب دیا کہ میرے پاس میرا سَدگرو ہے۔ میں نے تمہیں اپنے سد گرو میں پا لیا ہے۔ میں ربّانی عناصر کا دیدار بھی کرنا چاہتی ہوں تو محض اپنے سَدگرو کے روپ میں۔ مجھے آپ کے دیدار کی کوئی تمنا نہیںہے۔ اگر میں اپنے گرو کو کہتی تو وہ کب کا تمہیں اٹھا کر میری گود میں ڈال دیتا۔یہ تاثر دیکھ کر پرماتمابھی پگھل گیا اوراس نے کہا : ’’کیا مجھے اندر آنے کے لیے نہیں کہو گی؟‘‘
سہجو کہتی ہیںـ: پرماتما میری کُٹیا میں ایک ہی آسَن ہے۔ اور اس پر میرے سَد گرو ہی وِراج مان(جلوہ افروز) ہوتے ہیں۔ کیا آپ زمین پر بیٹھ کر میری مہمان نوازی کو قبول فرمالیں گے؟
پرماتما نے کہا: تم جہاں کہوگی وہاں بیٹھ جاؤں گا۔ اندر تو آنے دو۔ اندر آنے کے بعد پرماتما نے دیکھا تو سچ مچ وہاں ایک ہی آسَن تھا ۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا اور سہجو بائی سے بولا:’’میں جہاں بھی جاتا ہوں کچھ نہ کچھ دیتا ہوں ۔ ایسا میرا اصول ہے۔ تم بھی کچھ مانگ لو۔‘‘
یہ سن کر سہجو نے کہا: میری زندگی میں کوئی تمنا نہیںہے۔تم مجھے کیا دوگے ؟ تم تو خود ایک دان ہو۔ جسے میرا داتا سَد گرو کسی کو بھی جب چاہے دان کر دیتا ہے۔اب بتاؤ دان بڑا یا داتا؟تم نے زندگی ، موت اور روگ بھوگ میں اُلجھایا لیکن میرے سَد گرو نے اپنی کِرپا کر کے یہ سب چھڑوایا۔
پرماتما نے کہا: سہجو آج میری مَریادا(لاج) رکھ لے۔کچھ خدمت کا ہی موقع دے دے۔
سہجو بائی نے کہا: پرماتما ایک خدمت ہے۔ میرے سَد گرو آنے والے ہیں۔ جب میں ان کو بھوجَن کراؤں(کھانا کھلاؤں) تو کیا تم ان کے پیچھے کھڑے ہوکر پنکھا جھل سکتے ہو؟ جب سہجو بائی نے اپنے سد گروکو کھانا کھلایا تو پرماتما نے ان کی بات مانی۔سہجو بائی نے رام(خدا) کے بالمقابل گرو کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ وہ رام کو تو چھوڑ سکتی ہیںلیکن گرو کو نہیں چھوڑ سکتیں کیونکہ رام نے ہمیں جس دنیاوی کشمکش میں ڈالا ہے اس سے باہر نکالنے کاکام گرو نے ہی کیا ہے:
رام تَجوں پہ گرو نہ بِساروں
گرو کے سَم ہَری کو نہ نِہاروں
ہَری نے جنم دِیو جگ ماہیٖں
گرو نے آوا گَوَن چھُٹاہیٖں
ہَری نے پانچ چور دیے ساتھا
گرو نے لَئی چُھٹائے آتھا
ہِری نے کُٹُمب جال میں گَیری
گرو نے کاٹی ممتا بَیری
ہَری نے روگ بھوگ اُرجھایو
گرو جوگی کر سَبے چُھٹایو
ہری نے کرْم بھرْم بھرمایو
گرو نے آتَم رو‘پ لَکھایو
ہری نے موسو‘ آپ چُھپایو
گرو دیٖپک تے تاہیٖں دکھایو
پھر ہری بندھ مکتی گتی لائے
گرو نے سب ہی بھرْم مٹائے
چرن داس پر تن من وارو‘ں
گرو نہ تَجوں ہَری کو‘ تَجِداروں
وہ کہتی ہیں کہ پرماتما کو تو چھوڑ سکتی ہوں لیکن اپنے گرو کو کبھی بھی نہیں چھوڑ سکتی۔ گرو اور پرماتما اگر ایک ساتھ کھڑے ہوں تو میں گرو کی اور دیکھتی رہوں گی پرماتما کی اور بالکل بھی نہیں دیکھوں گی کیونکہ پرماتما کا حصول گرو کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
سہجوبائی نے روحانی مراقبہ کے تحت بھکتی کو سب سے اونچا مقام دیا ہے۔ گرو چرن داس سے بھی انہیں یہی تعلیم ملتی ہے کہ تمام عبادت کے تمام طریقوں میں یہی بھکتی ہی اولین نمبر پر ہے۔:
چرن داس کہے سہجیا، بھکتی شِرومَنی جان
تن، من، چِت، بُد، پران کو‘، تامے دیٖجے آن
اسی لیے تمام مذہبی علمبرداروں سے سہجوبائی کا محض یہی مطالبہ ہے کہ وہ اسے بھکتی کا د ان دیںتاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ خدا میں رَم سکے اور اس سے لو لگا سکے:
سب سادھُن پرنام کری، کر جوروں سِر نائے کے
یہی دان موہے دیجیے، بھکتی کروں چِت لائے کے
سہجو بائی کا صاف ماننا ہے کہ جس سالک کے من میں بھکتی بھاؤ نہیںہے وہ کبھی بھی اپنے خدا کی طرف راغب نہیں ہو سکتا:
اَنَنیہ بھکتی اُپجی نہیں، گرو سو ناہیٖں سیٖر
سہجو ملے نہ سِندھو سے، جیوں تَلاب کو نیٖر
اگر انسان ایک بار چوک گیا تو یہ زندگی تو اکارت جائے گی اسے پھر سے چوراسی لاکھ یونیوں کے پھیر میں بھی پڑنا ہوگا۔ اس لیے ایک لمحہ بھی گنوائے بغیرخدا کی بھکتی میں ڈوب جانا چاہیے:
چوراسی یونی بُھگَت ، پایو مَنُش شریر
سہجو چو‘کے بھکتی بِن، پھِر چوراسی پیٖر
٭٭٭٭٭٭٭
ایک گھڑی کا مول نہ، دِن کا کہا بَکھان
سہجو واہی نہ کھوئیے، بِنا بھَجن بھگوان
سہجو پرکاش کا مطالعہ کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سہجو بائی نے پریم بھکتی کاسہارا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر وہ اس کا خود اعتراف بھی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں:
یوگی پاوے یوگ سو‘، گیانی لَہے وِچار
سہجو پایو بھکتی سو‘، جاکے پریم اَدھار
پریم بھکتی سے متصف ہونے کے بعد بھکت کا پورا جسم اس کے خداکے لیے وقف ہو جاتا ہے۔ ہاں ! یہ صورت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب بھکت پر خدا کی بھی رحمت ہوجاتی ہے:
پریم دیوانے جو بھَئے، سہجو ڈِگمِگ دَیہہ
پاؤں پڑے کِت کے کِتی،ہری سنبھاری جب لَیہہ
سہجو کی اس پریم بھکتی کا مقصد ہے دنیاکو خدائی اوصاف سے متصف ہوتے ہوئے دیکھنا، انسان کا ذاتی اور سماجی طور پر اخلاق حمیدہ سے متصف ہونا اور ایسے سماج کی تعمیر کرنا جہاں ذات پات اور طبقاتی نظام کی کوئی برائی موجود نہ ہو، کوئی چھوٹا بڑا نہ ہو نیز کوئی بھی مذہبی یا فرقہ وارانہ تنازعہ نہ کھڑا ہو۔ سہجو بائی کے مندرجہ ذیل کلام میں اسی کی اور اشارہ کیا گیا ہے:
پریم دیوانے جو بَھئے، جاتی وَرَن گئے چھو‘ٹ
سہجو جَگ بَورا کہیں، لوگ گئے سب پھو‘ٹ

پریم دیوانے جو بَھئے، پلٹ گیو سب رو‘پ
سہجو درشٹی نہ آوَہی، کہاں رَنک کہاں بھو‘پ

پریم دیوانے جو بَھئے، نَیم دھرم گیا کھوئے
سہجو نَر ناری ہنسے، وا مَن آنَند ہوئے
سہجو بائی نے بھکتی کادکھاوا کرنے والے ان تمام لوگوں کو پھٹکار لگائی ہے جو کتّوں کی طرح پیٹ بھر کر اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ نیک اعمال، تسبیح پڑھنا، جاپ کرنا، دان پنیہ کرنا اور اچھے چال چلن سے جن کو کوئی سروکار نہیں ہے نیز جو کایا یعنی جسم کو ہی سب کچھ مانے بیٹھے ہیں ۔ سہجو انہیں یاد دہانی کراتی ہے کہ انسانی زندگی پانی کے بلبلے کی مانند ہے جس کا لمحہ بھر کا بھی بھروسہ نہیں ہے۔ اس زندگی پر غرور کرنا بیکار ہے۔ اسی لیے انسان کو خدا کی عبادت کے راستے پر چل کر اپنا تحفظ یقینی کر لینا چاہیے:
جَگ میں کہا کِیو تَم آئے
سَوان کی جیوں پیٹ بھر کے، دِیو جنم گَنوائے
پہر پچھلے نہیں جاگو، کِیو نہ شُبھ کرم
آن مارگ جائے لاگیو، لِیو نہ گرو دھرم
جَپ نہ کِیو، تَپ نہ سادھیو، دِیا نہ تَیں دان
بہت اُلَجھیو موہ مَد میں، کِیو کایا مان
دیہہ گھر ہے موت رے، آن کاڑھے توہی
ایک چھَنْ نہیں رَہَن پاوے، پھر کِیے کا ہوہی
رَین دِن آرا بَنا، کاٹے جو‘ تیری آئے
سَت گرو کہے سُن سہجیا، اب کرو بھجن اُپائے
سہجو بائی کا صاف طور پر ماننا ہے کہ ہری (خدا) کی مہربانی ہو تو ہو، نہ ہو تو نہ سہی لیکن گُرو کی مہربانی اور دَیا نہ ہو تو ساری حکمت و دانشمندی بھی جاتی رہتی ہے:
ہری کِرپا جو ہوئے تو، ناہیٖں ہوئے تو ناہیٖں
پہ گُرو کِرپا دَیا بِن، سَکَلْ بُدھی نَسی جاہیٖں
سہجو بائی کہتی ہیںکہ دنیا میں بھیجتے وقت خدا نے جو پانچ چور میرے ساتھ بھیجے تھے ان سے تو مجھے گرو نے ہی چھڑایا ہے۔ خدا نے تو مجھے گھریلو مسائل میںالجھا دیا تھا لیکن گرو نے اس ممتا بیڑی کو کاٹ کر مجھے آزاد کرا دیا:
ہری نے پانچ چور دیے ساتھا
گرو نے لَئی چھُڑائے اَناتھا
ہری نے کُٹُمب جالْ میں گَیری
گرو نے کاٹی ممتا بیڑی
خدا تو ہر انسان کو روگ بھوگ میں الجھاتا ہے لیکن گرو یوگ یُکتی کی مدد سے ان تمام الجھنوں سے آزاد کرتا ہے۔ ہری جہاں ایک طرف انسان کوعالمِ خواب وخیال کی سیر کراتا ہے تو وہیں دوسری طرف گرو اسے اپنی ریاضت کی مدد سے حقیقی دنیا میں لے کر آتا ہے:
ہری نے روگ بھوگ اُرجھایو
گرو یوک کر سَبے چھُڑایو
ہری نے کرْم بھرْم بھرمایو
گرو نے آتم رو‘پ لَکھایو
سہجو بائی کہتی ہیں کہ جب ہری نے خود کو مجھ سے چھپا لیا تو گرو نے چراغ ِعلم روشن کرکے مجھے اس سے ملوایا۔اتنا ہی نہیں ہری نے تو مجھے مختلف قید وبند اور موہ مایا کے جنجالوں میں الجھائے رکھا لیکن گرو نے مجھے حیقیقت حال سے متعارف کرایا اور مجھے اس حقیقت کی دنیا میں جینا سکھایا۔
ہری نے موسو‘ آپ چھِپایو
گرو دیٖپک تے تاہی دکھایو
پھر ہری بندھ مُکتی گَت لائے
گرو نے سب ہی بھرم مٹائے
اس صورتحال میں میرا تو یہی فیصلہ ہے کہ میں گرو پر تن من نچھاور کردوں گی اور موقع آنے پر ہری کو چھوڑ دوں گی لیکن گرو کو کبھی نہیں چھوڑوں گی:
چرن داس پر تن من واروں
گرو نہ تجوں، ہری کو تَج ڈاروں
٭٭٭٭٭٭٭
سہجو گرو درشن دئے، پو‘ر رہے سب ٹھور
جہاں تَہاں گرو ای لَکھے، درشٹی نہ آوے اور
سہج پرکاش کا مطالعہ کرنے سے صاف طور پرظاہر ہوتا ہے کہ سہجو بائی گرو کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے نہیں تھکتیں۔ گرو کون ہوسکتا ہے؟ گرو کو کیسا ہونا چاہیے؟ گرو کی پہچان کیا ہے؟ گرو کا مذہب کیا ہے؟شِشیہ( شاگرد) کے اوصاف کون کون سے ہیں؟ گرو اور ششیہ کا تعلق کیسا ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ نکات پر بھی سہجو بائی کی نظر ایک دم صاف ہے۔ بلاشبہ گرو سے متعلق سہجو بائی کے افکار پر کبیرداس کا بڑا اثر پڑاہے :
سب پربت سیاہی کروں، گھولْو‘ں سَمَند مَجھائے
دھرتی کا کاغذ کروں، گرو اِستُتی نہ سمائے
٭٭٭٭٭
سہجو گرو دیٖپک دِیو، دَیکھو آتَم روپ
تِمَر گیو چاندن بھَیو، پایو پرگَٹ گوپ
٭٭٭٭٭
سہجو شِش ایسا بھلا، جیسے ماٹی موئے
آپا سونپ کمہار کو‘، جو کچھ ہوئے سو ہوئے
٭٭٭٭٭
چینٹی جہاں نہ چڑھ سکے، سرسوں نہ ٹھہرائے
سہجو کو‘ وا دیس میں، سَت گرو دیا بَسائے
سہجو نے اپنے مشاہدہ اور تجربات کی بنیاد پر یہ اچھی طرج جان لیا تھا کہ گرو کے بنا کسی بھی راستے پر چلنا آسان نہیں ہے۔ جب تک گرو کی شفقت و مہربانی نہ ہوگی منزل مقصود تک رسائی ممکن نہیں ہے :
گرو بِن مارگ نہ چلے، گرو بِن لَہے نہ گیان
گرو بِن سہجو دُھند ہے، گرو بِن پوری ہان
لیکن ہر وقت ان کے دل و دماغ میں یہ بات سمائی رہتی تھی کہ گرو کا مطلب ہے سچا گرو، قابل تقلید، مقدس روح، سب سے عظیم انسان، مؤثر اور سچا رہبر۔ اسی لیے وہ اپنے متبعین کو ہمیشہ آگاہ کرتی رہتی تھیں کہ ان لُٹیروں، لفنگوں ، ڈھونگی ، پاکھنڈی اور برائے نام باباؤں و گروؤں سے ہوشیار رہیںجو بھیڑکو اپنی اور کھینچنے کے ہنر میں تو ماہر ہیں لیکن گرو کے اوصاف سے پوری طرح عاری ہیں:
سہجو گرو بہت پھِرے، گیان دھیان سُدھی ناہیٖں
تاری سکے ناہیٖں ایک کو، گَہیں بہت ہی باہیٖں
٭٭٭٭٭
ایسے گرو تو بہت ہیں، دھو‘ ت دھو‘ت دھن لَیہِیں
سہجو ست گرو جو ملے، مُکتی پھل دام دَیہِیں
٭٭٭٭٭
سادھو کہاویں جگت میں، چلیں دُشٹ کی چال
ڈنبھ بھریں پھولے پھریں، بہت بجاویں گال
گرو کے حوالے سے ہی سہجوبائی نے ششیہ کے بھی اوصاف گنوائے ہیں۔ سب سے اہم بات یہی ہے کہ ششیہ کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو گرو کے قدموں میں بچھا دے۔ پھر چاہے گرو کتنا بھی ڈانٹے ڈپٹے اس کا دروازہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔سہجو بائی کہتی ہیں کہ گرو کے سامنے جھوٹ نہیںبولنا چاہیے بلکہ من میں جو کچھ بھی جھوٹ سچ ہے اسے نکال کر گرو کے سامنے رکھ دینا چاہیے۔ پھر دیکھیے نتائج کس قدر خوش کُن ہوتے ہیں:
شِش کا مانا سَت گرو، گرو جھِڑکے لَکھ بار
سہجو دوار نہ چھوڑیے، یہی دھارنا دھار
٭٭٭٭٭
گرو کا درشن کیجیے، گرو کا کیجیے دھیان
گرو کی سَیوا کیجیے، تَجِیے کُل اَبھیمان
٭٭٭٭٭
گرو سو‘ کچھ نہ دُرائیے، گرو سو‘ جھوٹ نہ بول
بُری بھلی کھوٹی کھری، گرو آگے سب کھول
٭٭٭٭٭
سہجو گرو پَرسنّ ہو، ایک کہیو پَرسَنگ
تن من سے پلٹی گئی، رنگی پریم کے رنگ
سہجو بائی کا پالا ایسے لوگوں سے ضرور پڑا ہوگا جو اپنے آپ کو ہی سب سے بڑا گرو گردانتے تھے۔ اپنے سامنے سب کو حقیر و ذلیل خیال کرتے تھے اور اسی اکڑ میں رہتے تھے کہ سب کچھ وہی ہیں۔ ایسے لوگوں سے آگاہ کرتے ہوئے سہجوبائی کہتی ہیںکہ گرو کی اطاعت نہ کرنے والوں، گرو پر ہی الزام تراشی کرنے والوں ، اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں، پرائی عورت پرنظر رکھنے والوں اور ہمیشہ کینہ و کپٹ اور حسد میں غرق رہنے والوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت موہ مایا میں ڈوبے رہتے ہیں، سماجی اقداران کے لیے کوئی معنی نہیںرکھتیں۔ ایسے لوگوںسے بات چیت تو بہت دور کی بات، ان کی شکل و صورت بھی نہیں دیکھنی چاہیے:
گرو آگیا مانے نہیں، گرو ہی لگاوے دوش
گرو نِندَک جَگ میں دُکھی، مُئے نہ پاویں موش
سہج پرکاش اور سہجو بائی کے نظریات افکار کو پڑھ کر یہ بات حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح گرو کی عظمت و محبت اور عقیدت سہجوبائی کے یہاں موجود ہے وہ کسی دیگر سنت کے یہاں نہیں ہے۔ سہجو بائی کے نزیک گرو بھکتی ہی بھکتی کی اولین و اعلیٰ شکل ہے اور سہجوبائی کی شاعرہ کا خلاصہ ہے:
پرمیشور سے گرو بڑے، گاوَت وید پُران
سہجو ہری کے مُکتی ہے، گرو کے گھر بھگوان
حوالہ جات
۱۔ سہجوبائی، سہج پرکاش، الہ آباد، بیلویڈیر پریس، ۱۹۲۶
۲۔ سورج بھان، ہریانہ کاسنت ساہتیہ، چنڈی گڑھ، ہریانہ ساہتیہ اکادمی، ۱۹۸۹
۳۔ گویل، سنگیتا، چرن داس اور ان کی پرمپرا میں نِرگن وادی مَہِلا سنت سہجو بائی اور دیابائی کی سادھنا کا ادھین، نئی دہلی ،آریہ پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۷
۴۔ شرما ، گیتا، ہندی نِرگن کاویہ کی لوک سانسکرتک پرمپر میں سہجو بائی کی بانی کا وِشِشٹ ادھین،پی ایچ ڈی مقالہ، امرتسر،گر ونانک دیو یونی ورسٹی ، ۱۹۹۰
۵۔ شُکل،ڈاکٹر شیام سندر، چرن داسی سمپردائے اور اس کا ساہتیہ،ورنداوَن، شری پریم سوروپ، ۱۹۹۵
۶۔ رانی، نیلم، چرن داسی سمپردائے کا ہندی کو اَودان، پی ایچ ڈی مقالہ، جون پور، ویر بہادر سنگھ پوروانچل یونی ورسٹی ، ۲۰۱۰
۷۔ مادھو، شری بھونیشورناتھ مشر، سنت ساہتیہ،باکی پور، انتھ مالا کاریالیہ، ۱۹۴۱
۸۔ شودھ شری،شمارہ نمبر سات، اپریل سے جون ۲۰۱۳، گورنمنٹ پی جی کالج ، بوندی
۹۔ دوبے، شری رمیش چند، ریداس اور سہجو بائی کی بانی میں اُپلبدھ روڑیاں، بھارتیہ ساہتیہ پتریکا، شمارہ دو، ۱۹۵۶
۱۰۔ T.R. Shingari, Sahjo Bai and Daya Bai: The form of love for the Lord, Radha Swami Satsang Byas, Amritsar, 2011
۱۱۔ R.K Gupta, Saints and Mahatmas of India, New Delhi, 2011

***

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.