کشمیر کی پنڈت برادری کی غیر افسانوی نثر ی خدمات
ڈاکٹرآزاد ایوب بٹ
گوسو، ضلع پلوامہ ، کشمیر
70067294**
کشمیر ایک باشعور اور باہمت طبقے کا خطہ ہے جہاں تہذیبی ،ثقافتی ،علمی اور ادبی ہر سطح پر کارہائے نمایاں انجام دئیے گئے۔ اس کے ثبوت میں وہ علمی و ادبی تصنیفات ہیں جو سنسکرت ،عربی ،فارسی ،اُردو اور کشمیری میں تخلیق کی گئیں ہیں۔ یہاں کے شعر وادب پر یہاں کے حالات وواقعات کے گہرے اثرات مرتسم ہوئے۔
کشمیر میں غیرافسانوی نثر کا آغاز پنڈت ادیبوں اور ڈوگرہ حکمرانوں کے دور حکومت ہی سے ہوتا دکھائی دیتا ہے۔حالانکہ کشمیر میں ۱۸۸۹ء میں اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ بھی ڈوگرہ حکمرانوں اور پنڈت ادیبوں کے بدولت ہی عطا ہوا۔ریاست میں غیر افسانوی نثر کے فروغ اور ترویج میںپنڈت قلم کاروں نے بھرپور حصّہ لیا ۔اس سلسلے میں لالہ بوٹامل کا مرتب کردہ ایک رپورٹ ہے جو ریاست میں غیر ادبی اُردو نثر کے استعمال کے ابتدائی نمونوں میں سے ایک ہے۔ رنبیرسنگھ کے دور حکومت میں غیر ادبی نثر کی پہلی کتاب مہتا شیر سنگھ نے بخارا کے سفر کے بارے میں لکھی جو سفر نامہ اولیت کا درجہ رکھتا ہے ۔انہوں نے ۶۵۔۱۹۶۴ء میں یہ سفر نامہ تالیف کیا۔عبدالقادرسروری اس کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:۔
’’اسی نوعیت کی ایک اور اہم دستاویز مہتہ شیر سنگھ کا سفر نامہ ہے جو ۶۷۔۱۸۶۶ء میں مرتب ہوا تھا ۔ مہتہ شیرسنگھ رام پور (کشمیر)کے رہنے والے تھے اور رنبیر سنگھ کی سرکار میں ملازم تھے ۔رنبیر سنگھ کو ریاست کی تجارت کو فروغ دینے کا بہت خیال تھا اس لئے انہوں نے مہتہ شیر سنگھ کو ریاست کے پڑوسی ملکوں اور مقامات کا سفراختیار کرنے اور مقامات اور راستوں کی کیفیت مرتب کرنے پرمامور کیا تھا ۔اسی کی اتباع میں مہتہ شیر سنگھ نے ۱۸۶۷ء میں کابل، بلخ ، بخارا وغیرہ کا سفر کیا اور منزلوں کی تفصیل اور ایک منزل سے دوسری منزل کے فاصلے ، راستے کی کیفیت مقامات اور شہروں کے حالات پر مشتمل یہ رپورٹ تیار کی تھی ، جو سفر نامہ کے نام سے موسوم ہے ‘‘۔ ۱؎
اسی طرح مہاراجہ رنبیر سنگھ نے بعض اہم اقدامات اُٹھائے جن میں بدیابلاس پریس اور بدیا بلاس اخبار کا اجراء خاص طور پر اہم ہیں۔اس کے علاوہ کشمیر میں غیر افسانوی نثرنگاری میں جن پنڈت ادیبوں اور قلم کا روںنے اہم رول ادا کیا ،اُن میں پنڈت ہرگوپال کول خستہ ؔ، سالگ رام سالک ؔ ، پنڈت ویر یشیشور سنگھ ، پنڈت نندلعل کول طالب ، پریم ناتھ پردیسی ، پنڈت کشپ بندھو ، پریم ناتھ بزاز ، تیرتھ کاشمیری ،گنگا دھر بٹ دیہاتی وغیرہ جیسے نام قابل ذکر ہیں ۔
پنڈٹ ہرگوپال کول خستہ:
پنڈت ہر گوپال کول خستہ اعلیٰ پایہ کے ادیب ہے ۔جو اصل میں کشمیری تھے لیکن وہ اکثر کشمیر سے باہر لاہور اور پٹیالہ میں رہے ۔ خستہ بہت اچھے شاعر اور نثرنگار گزرے ۔ ۱۸۷۶ء میں جب وہ کشمیر آئے تو آتے ہی اپنی بہترین صلاحیتوں کی وجہ سے اس کا وابستہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دربار کے ساتھ پڑا ۔خستہؔ نے کئی نثری تصانیف لکھیں لیکن ’’گلدستہ کشمیر ‘‘ان کا شہکار نثری کارنامہ ہے جو کشمیر میں اردو نثر کی پہلی تاریخ تصور کی جاتی ہے ۔ یہ کتاب لاہور سے ۱۸۸۳ء میں شائع کی گئی اور اس کتاب میں قدیم عہد سے لے کر مہاراجہ پرتاب سنگھ کے عہد تک کے واقعات مرتب کئے گئے ہیں۔
خستہؔ کا غیر ادبی نثری کارنامہ’’گلزارفوائد‘‘ہے ۔یہ ایک رسالہ ہے جو ادبی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک قصہ ہے جو ڈپٹی نذیر احمد کے ناول’’ مرا ۃالعروس‘‘ کی تقلید میں لکھا گیا۔اس کتاب کی زبان نہایت سادہ اور سلیس ہے اورکہیں کہیںپر عبارت مقفیٰ ومسجع ہے ۔ خستہؔ کی دوسری نثری تصانیف میں چہار گلزار ، شگفتہ بہار ، حزنِ اختر ،معروف بہ گل بہار اور سوانح عمری خستہ قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ خستہؔکے نثری کارناموں میں انشائیے بھی شامل ہیں۔
سالگ رام سالک :
ہرگوپال کول ـؔکے چھو ٹے بھائی سالک رام سالکؔ بھی اہم نثر نگاروں میں تصور کئے جاتے ہیں۔ خستہؔکی طرح سالک ؔکا ادبی ذوق بھی کافی حد تک بلند تھا ۔ سالکؔنے ابتدا میںاودھ اخبار لکھنو اور مراسلۂ لکھنو میں کافی مضامین اجر ا کیں۔ جب وہ اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر آئے تو اس کو اپنے بھائی خستہؔکی سفارش سے ملازمت ملی ۔لیکن انہیں اپنے بھائی کے ساتھ قلعہ بہو میں بند ہونا پڑا کیونکہ وہ کشمیر دربار کی سازشوں میں پھنس گئے تھے۔آخر کار وہ وہاں سے بھاگ گئے۔
سالکؔ صحافت کے ساتھ بے حد دلچسپی رکھتے تھے ۔۱۸۸۰ء میں انہوں نے اخبار جاری کرنے کی کوشش کی اور یہ کشمیر میں اخبار اجرا کرنے کی پہلی کوشش تھی۔لیکن انہیں حکومت کی طرف سے کوئی اجازت نہیں ملی۔لیکن بعد میں وہ لاہور چلے گئے اور وہاںاپنے بھائی خستہؔ کے ساتھ ایک ہفتہ روزہ اخبار ’’خیرخواہ کشمیر‘‘ نکالاجو۱۸۸۴ء میں شائع ہوا۔اس اخبار کو نکالنے کے ساتھ ہی وہ دوسرے اخباروں کے لئے بھی مضا مین لکھ رہے تھے۔اسی دور میں جب عیسائی اور مبلغوں کا آنا شروع ہوگیاتو عیسائیوں اور مغربی خیال کو روکنے کے لئے مختلف مذاہب کے دانشوروں نے بہت سی کتا بیں لکھیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں سالکؔ نے بھی کئی کتابچے اردونثر میںلکھے ان میںخاص طور پر ’’مورتی منڈن‘‘ــ،’’دھرم اُپدیش‘‘ اور شاسترارتھ قابل ذکر ہیں ۔ان کوششوں نے غیر ادبی اُردو نثر کے فروغ اور ارتقاء میں قابل ِ قدر کردار ادا کیا۔
سالکؔ نے نثری ادب میں بہت سے اہم تصانیف لکھیںجن میں خاص طور پر گنجینہ فطرت یا مناظر فطرت قابل ذکر ہیں ۔ یہ ان کی نہا یت سلیس اور آسان اسلوب کے طریقہ پر لکھی گئی انشائیوں کا مجموعہ ہیں اورا س مجموعہ میں کشمیر کے مناظر قدرت کی بھر پور عکا سی کی گئی ہے ۔اسی طرح سالکؔکا ایک سفر نامہ ’’تحفہ سالک ‘‘ کے نام سے مشہور ہے جس میں انہوں نے دوسرے ملکوں کی تاریخ اور جغرافیہ سے مدد لے کر وہاںکی ترقی کا حال بیان کیا ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اور بھی بہت ساری کتابوں کو تحریرکیا ، جن میں کچھ کتابیں شائع ہوئیںاور کچھ شائع ہونے سے قاصر رہیں۔ سالک ؔ کے ادبی کارناموں میں ایک بہترین نثری کارنامہ ’’سوانح عمری مہاراجہ گلاب سنگھ ‘‘ ہے۔ سالکؔ نے اس سوانح عمری میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی حالات زندگی اور اس کے خاندان کے متعلق عکاسی کی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ان کے اسلاف کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کی اولادوں کا اجمالی جائزہ بھی اس میںپیش کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ دربار لاہور کی معلومات کا اظہار بھی اس میں ملتا ہے ۔اصل میں یہ کتاب سالکؔنے ۱۹۱۰ ء میں انگریزی میں لکھی تھی۔بعد میں اس کتاب کو اُردو میں ترجمہ کرکے ۱۹۷۱ ء میں سالگ رام پریس کشمیرمیں شائع کی گئی تھی۔ یہ سالکؔ کا بہت ہی کار آمد نثری کارنامہ مانا جاتاہے۔اس کتاب کے بارے میں سالکؔ خود اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں:۔
’’میں نے اس کتاب کو دراصل انگریزی میں لکھ کر ۱۹۱۰ ء میں جناب دیوان بدری ناتھ صاحب بہادر دام اقبالہ وملکہ کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ تاکہ وہ مناسب موقعہ پر سرکار والا مدار کی نذر کریں۔ اس کی جب جو کچھ قدردانی ہوگی۔ اطلاع دی جا ئیگی ۔ لیکن اکثر یاردوستوںاور کتاب مذکور کے شایقین کو زیادہ انتظارکی طاقت نہیں ۔ اس لئے ان کے اصرار پر یہ اردو ترجمہ شائع کیا جاتا ہے ‘‘۔ ۲؎
پنڈت نند لعل کول طالب:
پنڈت نندلعل کول طالبؔ کشمیر کے ذی عزت ادیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔وہ ادبی حلقوں میں کافی مشہور اور بلند پایہ حیثیت رکھتے تھے۔نند لال کول طالب ؔ ۱۸۹۹ء میںکشمیر کے ایک پڑھے لکھے اور ذی شعور خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔جہاں تک طالبؔ کے ادبی ذوق و شوق کا تعلق تھا وہ نہ صرف شاعری تک محدود رہا بلکہ تنقید و تحقیق میں بھی اپنے بہترین ہنر کا ثبوت دیا ۔ ان کی تنقیدی بصیرت کا ثبوت ان کے مجموعہ ’’بہار گلشن کشمیر‘‘ کے دیباچے سے ملتا ہے۔اس میں طالبؔ شاعری کے بارے میں اپنی تنقیدی خیالات کا تصور اس طرح کرتے ہیں :۔
’’ شاعرانہ لطافت کا حظ اُٹھانے کے لئے شعر و سخن کا مذاق صحیح ہونا لازمی ہے ۔بلا اس قید کی شاعری بے تال اور ُسر کے گانے سے زیادہ دلکش نہیں ہو سکتی ۔ لیکن اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ محض روز مرہ اور محاورہ صفائی اور زبان کے مصنوعی تکلفات کا نام شاعری نہیں ہے ۔ شعر میں پاکیزگی ، لطافت کے علاوہ تاثیر بھی ہونی چاہیے‘‘۔ ۳؎
طالبؔکے تنقیدی کارناموں میں ایک اور کارنامہ ’’جائزہ کلام غالب‘‘ ہے ۔ ’’جائزہ کلام غالب ؔ ‘‘ طالبؔ کے مضامین کا ایک طویل سلسلہ ہے جو انہوں نے انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے رسالہ ’’نوائے ادب ‘‘ میں شائع کیا تھا ۔ اس رسالہ میں یہ مضامین کافی مدت تک شائع ہوتے رہے ۔ اس کتاب میں طالبؔ نے غالبؔ کے تمام ادبی صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے اوراس کے علاوہ غالب ؔ کے مختلف موضوعات کی عکاسی بھی کی گئی ۔ طالبؔ تشبیہ واستعارہ ، جدت تخیل وحسن ادا ، سوزو گداز اوردردوغم ، شوخی طبعیت و ظرافت اور معنی آفرینی مضامین سے غالبؔ کی شا عرانہ صلاحیت اور عظمت کی دلیل دیتے ہوئے اس طر ح لکھتے ہیں :۔
’’ان کی (غالب کی) تشبیہات اور استعارات کا ایک نمایاں رنگ ہے جو دلفریبی کی قابل رشک بہار دکھا رہا ہے اور جس نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دئے ہیں‘‘۔ ۴؎
غرض طالبؔاپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان کے کلام کو اردو داں طبقے میں قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے اُردو نثری ادب میں ان کا مقام عروج تک پہنچ گیا ۔ آخر کا ر۱۹۷۱ ء میں وہ اس دنیا سے رحلت کر گئے ۔
پنڈت کشپ بندھو:
اردو ادب کی خد مت کرنے والا ایک اور کشمیری ادیب اور دانشور پنڈت کشپ بندھو گزرے ہیں ۔ ان کا خاندانی نام تارا چند تھا ۔ پہلے پہل شاعری میں ان کا تخلص بُلبل ؔ تھا۔ان کی ولادت ۱۹۰۰ء میں گیرو ترال میں ہوئی اور وہی سے انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز بھی کیا ۔ کشپ بندھو نے اپنے ادبی کارناموں کا آغاز صحافت نگاری سے کیا۔ ان کی وجہ سے کشمیر میں صحافت نگاری کے روشن پہلو نمودار ہوئے اورانہوں نے صحافت نگاری کے میدان کو وسعت بخشنے کی پوری کوشش کی۔۱۹۳۱ ء میں کشمیر واپس لوٹنے کے بعد انہوں نے پہلے ’’سناتن دھرم یودک سبھا ‘‘ کا قیام عمل میں لایا اور اس کے بعد انہوں نے ایک روز نامہ ’’مارتنڈ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ ’’مارتنڈ‘‘ کشمیر کا پہلا روز نامہ تھا ۔ اس کے علاوہ کشپ بندھو بہت سے اخباروں کے مدیر اور بانی رہے ۔ ’’کیسری ‘‘اور’’ دیش‘‘ جیسے مشہور و معروف اخباروں کے ساتھ بھی ان کی وابستگی رہی ۔اس کے علاوہ کشپ بندھو نے ایک اور بہترین اخبار ’’سماج سدھار ‘‘ کے نام سے جاری کیا ۔ جب نیشنل کانفرنس شیح محمد عبداللہ کی قیادت میں منظر عام پر آئی تو کشپ بندھو نے’’ یودک سبھا‘‘ سے استفیٰ دے کر نیشنل کانفرنس میں شمولیت حاصل کی اور بعدمیں اس کے ایک اہم رکن بن گئے ۔ انہوں نے اب باقاعدہ طور پرسیاست کے میدان میں قدم رکھا تھا ۔تحریک آزادی کی جدوجہد کے دوران وہ بار بار جیل جاتے رہے ۔ ان کی آخری گرفتاری ۱۹۵۸ء میں ہوئی اور اس کے دو سال بعد وہ رہا کئے گئے ۔ آزادی کے بعد وہ محکمہ دیہات میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے ۔
کشپ بندھو نے صحا فت نگاری کے علاوہ فکاہیہ تحریریں ، مزاحیہ اور سنجید ہ مضامین پر بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ وہ ایک بہترین مزاح نگار کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی بنا پرانہیں بعض وقت کشمیر کا ’’پطرس‘‘بھی کہا گیا۔
ان کی تحریریںنہایت ہی صاف اور شگفتہ ہیں ۔
پریم ناتھ بزاز :
پریم ناتھ بزازؔ ایک قدآور ادیب اور صحافت نگار کی حیثیت سے بہترین اہمیت کے حامل ہے ۔ پریم ناتھ بزاز ؔکی پیدائش ۱۹۰۵ء میں سرینگر کے ایک برہمن خاندان میں ہوئی تھی ۔ بزازؔ نے کشمیر میں صحافت نگاری کی بنیاد ڈالی اور ۱۹۳۲ ء میں ’’وتستا‘‘ کے نام سے ایک روزنامہ جاری کیا ۔ اس روزنامہ اخبار سے کشمیر میں صحافت نگاری کے دروازے کھل گئے ۔ اس ا خبار کا مقصد ریاست میں غیر مذہبی ، آزادی اور جمہوری خیالات کو شائع کرنا تھا ۔ اس اخبار کو وہی اہمیت حاصل ہوئی جو ملک راج صراف کے اخبار ’’رنبیر‘‘ کو حاصل ہوئی تھی ۔’’وتستا‘‘ اخبار جاری کرنے سے کشمیر میں صحافت اور انشاپردازی کا ذوق و شوق بھی بڑھ گیا تھا ۔ وتستا‘‘ ایک ا ٓز اد اخبار تھا جس کی وجہ سے حکومت نے اس خبار کو کچھ وقت کے لئے بند بھی کردیا تھا ۔ بعد میں اس خبار کو پھر سے ۱۹۴۴ ء میں جاری کیا گیا مگر اس وقت اس کو ہندی زبان میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بزازؔ کی ملاقات شیخ محمد عبداللہ سے ہو ئی اور دونوں نے ایک بہترین کارنامہ اخبار ’’ہمدرد ‘‘ کے نام سے انجام دیا۔یہ اخبار کشمیر کا اصل اور حقیقی رہنما بن گیا ۔اس کے علاوہ بزازؔ نے ’’وائس آف کشمیر ‘‘ کے نام سے بھی ایک کارنامہ کشمیر کے لئے اجرا کیا تھا ۔ غرض یہ ان کے ابتدائی ادبی کارنامے تھے جن کی وجہ سے کشمیر میں اردو نثری ادب کو کافی تقویت حاصل ہو گئی ۔
بزازؔ کو اردو زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی کافی قدرت حاصل تھی جس کی بنا پر انہوں نے کئی انگریزی اور اردو کتابیں تصنیف کیں تھیں۔ان کی غیر افسانوی نثری اردو تصا نیف میں کشمیر کا گاندھی ، شاعر انسانیت (عبدالاحد آزاد کی سوانح حیات ) ، گاندھی ازم ، جناح ازم ، اور سوشلزم قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ انگریزی کتابوں میں وتستا کی بٹیاں ، اندرون کشمیر تحریک آزادی کی تواریخ، آزاد کشمیر ، ہندوستانی تواریخ میں بھگوت گیتا کا حصّہ وغیرہ شامل ہیں ۔ بزازؔ نے اردو تصنیف ’’کشمیر کا گاندھی ‘‘ ۱۹۳۵ ء میں شائع کی تھی۔ ان کی یہ تصنیف اصل میں شیخ محمد عبداللہ کی سوانح حیات ہے ۔اس کے بعد بزازؔ نے اور ایک تصنیف ’’شاعر انسانیت ‘‘ ۱۹۵۲ ء میں شائع کی تھی ۔ اس کتاب میں بزاز ؔ نے عبدالاحد آزاد ؔکی شاعری اور ان کے حالات و واقعات کا جائزہ لیا ہے اور بزاز ؔ اپنی تنقیدی نظریے سے آزادؔ کے تخلیقی ذہن تک پہنچنے کی سعی کرتا ہے۔ بزازؔ نے آزادؔ کی تصنیف ’’کشمیری زبان اور شاعری ‘‘کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہوئے اس طرح لکھا ہے:۔
’’ہم اس وقت ان کی شاعری کو ہی زیربحث لانا چاہتے ہیں ، نثرنگاری کو نہیں‘ شاعری میں بھی ہم اس حصّہ کو نظر انداز کرتے ہیں جو ان کی ابتدائی زندگی سے متعلق ہے ۔ جبکہ وہ قومی مسائل اور سماجی سوالات کی طرف زیاد ہ دھیان نہیں دیتے ہیں ۔ آزاد کی شاعری کا بیشتر حصہ ابھی شائع نہیں ہو ا ہے بلکہ جو کچھ اس وقت تک پبلک کی نظر سے گزرچکاہے ۔ اتنا ہی ہماری تنقید کا موضوع ہے‘‘۔ ۵؎
لیکن اس کتاب سے نہ بزازؔ کی تنقیدی بصیرت کا ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی کوئی واضح تنقیدی دلیل ملتی ہے۔ البتہ تاریخی اعتبار سے اس کتاب کی اہمیت مسلّم ہے ۔غرض بزازؔاپنے دور کے اولین ادیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔بزازؔ نے جو بھی نثری ادب کے کارنامے انجام دیئے ان کو اپنے زمانے میں اولین درجہ حاصل تھا ۔ گویا بزازؔ اپنے دور کے ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔
تیرتھ کاشمیری:
تیرتھ کاشمیری ؔ کو کشمیر کے اردو داں طبقے میں کافی شہرت حاصل تھی۔ انہوں نے اردو ادب کو اپنے ادبی کارناموں کی وجہ سے کافی وسعت بخشی۔تیرتھ کاشمیری ؔ ۱۹۰۳ ء میں سرینگر میںپیدا ہوئے ۔تیرتھ کاشمیریؔ کے ا ہم اور خاص ادبی کارناموں میں انشائیہ اور ادب لطیف ہے۔ اس زمانے میںکشمیر میں اس طرزاندازپر اکثر ادیبوں اور دانشوروں نے اپنا قلم اُٹھایا ۔ لیکن ان سب میں تیرتھ کاشمیری ؔ کو ایک خاص مقام حاصل ہوگیا۔ تیر تھ کا شمیریؔ کے انشائیوں میں ’’پارس کا پتھر ‘‘’’سنسان بستی ‘‘ ’’کتاب‘‘ ’’ہم ایک ہے‘‘ ’’میں نے کہا‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔ انہوں نے یہ تمام انشائیے ایک خاص اور دلچسپ اسلوب میں لکھے ہیں اور ان میں معنویت کی گہرائی بھی نظر آتی ہے ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے افکار میں بالیدگی اور تصوف بالکل عیاں ہے ۔اس کی بہترین مثال ان کے ایک انشائیہ ’’کتاب‘‘ کے عنوان سے اس طرح ملتی ہے :۔
’’ زندگی کی یہ کتاب میں نے لکھنا شروع کی اور اس میں لڑکپن ، جوانی اور ادھیڑ پن کے انوکھے تجربے بیاں کئے۔ خیال تھا کہ یہ مقبول ہوگی۔ لیکن دیکھا ۔۔ مقبول ہونے کی کوئی سبیل نہیں ۔ اس لئے جسم کے انگ انگ میں محسوسات ، وسووسات اور خواہشات، دردوکرب اور بے چینی کی نہ دیکھی جانے والی لہریں ۔۔۔۔روز آفزوں اُمڈنے لگیں ۔‘‘ ۶؎
غر ض تیرتھ کاشمیریؔ اپنے دور کے اعلیٰ پایہ ادیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے ہر میدان میں اپنے قلمی جوہر دکھانے کی کوشش کی ہے۔خاص طور پر انشائیہ نگاری کے میدان میں انہوں نے کافی وسعت پیدا کی۔
پریم ناتھ پر دیسی:
پریم ناتھ پردیسیؔ نے اردو ادب کے میدان میں اپنے قلم کی پوری توانائی کوآزمایا ہے ۔ انہوں نے فن کارانہ ہنر مندی سے ادبی دنیا میں ایک خاص مقام پایا۔ پردیسیؔ ۱۹۰۹ ء میں سرینگر کے ایک مشہور علاقے فتح کدل میں ایک پنڈت سادھو گھرانے میں پیداہوئے ۔ پردیسیؔکشمیر کے بہت بڑے افسانہ نگار تھے۔ انہوں نے افسانوں کے علاوہ ادب لطیف کے طرز پر انشائیے بھی لکھے تھے ۔ ان کے انشائیے اخباروں اور رسالوں میں شائع ہو جاتے تھے ۔ جب انہیں کبھی شوق ہوجاتا تھا تو وہ ادب لطیف کی طرز کے انشائیوں کی صورت میں نثری شاعری کرتے تھے ۔اس طرز کا پردیسیؔ کا ایک ترانہ جو بہت مقبول تھا ذیل میں درج ہے :۔
’’قدم قدم بڑے گے ہم محاز پر لڑیں گے ہم لڑیں گے ہم ، لیڈروں اور حملہ آوروں کے ساتھ لڑیں گے ہم ظالموں کے ساتھ اور جابروں کے ساتھ وطن فروش بے وفاؤں اور شاطروں کے ساتھ قدم قدم بڑے گے ہم محاز پر لڑیں گے ہم ۷؎
اس کے علاوہ پردیسیؔ نے مزاحیہ خاکے انشائیوں کے انداز میں ۳۵۔۱۹۳۴ ء سے لکھنے کی شروعات کی ۔ ان نثر پاروں کو وہ نثری نظم یا آزاد نظم کا نا م دیتے تھے ۔ جن میں سے بعض میں وزن بھی رکھا جاتا تھا ۔ لیکن ان میں سے اکثر خالص نثری پارے ہوتے ہیں ۔ پردیسیؔ نے’’ سپاہی کے خطوط ‘‘ کے علاوہ چند اور فن پارے جیسے ’’مت ڈھونڈا سے ‘‘ ’’نغمہ ازلی ‘‘’’ بھردے ‘‘ ’’جانے والی پریاں ‘‘’’ہم تین ‘‘’’ چھپائے رکھ ‘‘ دیکھ اے دل ‘‘لکھی ہیں،جو نہایت ہی دلکش اور دل چسپ ہے ۔ ان میں سب سے زیادہ اہمیت اور معنویت ’’مت ڈھونڈاسے ‘‘ رکھتا ہے۔غرض اس عظیم فن کار نے کشمیری لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے اپنی تمام ادبی کوششو ں کو بروئے کار لایا ہے۔
پنڈت ویر یشیشور سنگھ:
اسی طرح پنڈت ویر یشیشور سنگھ اپنی مختلف صلاحیتوں کی وجہ سے کشمیر کے ادیبوں میں اعلیٰ حیثیت کے مالک ہے۔ ان کو اردو اور ہندی پر بیک وقت دست رس حاصل تھی ۔ انہوں نے گیت ، نظمیں اور ادب لطیف کے طرز پر بہترین انشائیے لکھے ہیں ۔ اس کے علاوہ مضامین اور کچھ افسانے بھی لکھے ہیں۔ ویر یشیشور نے اپنے ہم عصروں کی طرح ادب لطیف کے انداز میں انشائیے قلبند کئے ہیں جن میں ’’دوآغازوں کی تصویر‘‘ ’’زندگی اور موت ‘‘ ’’مجھ سے نہ پوچھو‘‘ ’’گمنام قبر ‘‘ اور’’ گُنبد‘‘قابل ذکر ہیں۔ان کے آخری دو انشائیے ’’گمنام قبر ‘‘ اور ’’گُنبد‘‘ انگریزی میں ترجمہ کئے گئے ہیں۔ انشائیہ ’’زندگی اور موت ‘‘ میں ایک ماں اپنے بیٹے کو سمجھاتی ہے جس کا ایک اقتباس ذیل میں درج ہے :۔
’’یہ جیون کیا ہے ؟ یہ ایک سنگرام ہے ‘ میرے لال ‘ جہاں سب سے مضبوط نیزہ ناکام رہ جائے ، جہاں ہوشیار آنکھیں دھوکا کھا جا ئیں ‘ اور معصوم کچلے جائیں ۔۔۔۔۔ جہاں دشمن ہر دورسے رکھے ہوئے ہیں ‘ شب و روز آرام نہیں کرنے دیتے اورسنگرام کے درمیان کھڑے ہیں ‘‘۔ ۸؎
پنڈت نارائن جورینہ عنقاؔ:
پنڈت نارائن جورینہ عنقا ؔ بھی بڑے خوش فکر شاعر تھے ۔ انہوں نے مزاحیہ انداز میں کچھ مضامین اور نظمیں لکھی ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ مزاحیہ انداز پر بے حد اچھے انشائیے بھی لکھتے تھے ۔ ان کو مضامین ا ور انشائیوں پر بڑی دست رس حاصل تھی ۔ انہوں نے ایک تخیلی انشائیہ ’’شکستہ دل اور بلبل ‘‘ لکھا جو ’’مارتنڈ‘‘ میں شائع ہوا تھا ۔ اس انشائیہ میں بیان کیا گیا ہے کہ بُلبُل کے چہچہانے سے ایک غم زدہ اور مصیبت زدہ انسان کو ٹھیس اور صدمہ پہنچتا ہے ۔اس لئے وہ بُلبُل سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں :۔
’’مجھ مایوس محبت اور شکستہ دِل کے چھیڑ نے سے تجھے کیا ملے گا۔ کچھ نہیں ، حسرت و افسوس کے سِوا کچھ نہیں۔۔‘‘ ۹؎
پنڈت دینا ناتھ نادمؔ:
اس کے علاوہ پنڈت دیناناتھ نادم ؔ کی تخلیقات میں موضوعات کی وسعت پائی جاتی ہیں۔ وہ ایک بہت اچھے شاعر اور نثر نگار بھی تھے ۔ انہوں نے غزلوں اور نظموں کے ساتھ ساتھ کچھ منظوم کہانیاں بھی لکھی تھی اورکچھ مضامین ، ڈرامے اور انشائیے بھی لکھے تھے ۔وہ ایک اچھے انشائیہ نگار تھے اور انہوں نے ایک اچھا انشائیہ ’’کاغذ کے ٹکڑے ‘‘ کے عنوان سے قلمبند کیا تھا ۔ اس انشائیہ کا اقتباس ذیل میں اس طرح ہے :۔
’’جیون خود ایک حادثہ ہے۔۔۔۔ جیون یاترا ، حادثات کی یاترا ہے۔ جنم کا حادثہ ۔۔۔۔ لگاؤ اور اُنس کاحادثہ۔۔۔ناحق کے رشتوں کا حادثہ ۔۔۔۔کیا کیا جائے ‘ چھٹکا رے کی سعی لاحاصل ہے ۔۔۔۔ ’’آپے‘‘ سے کیسے بھا گا جائے ۔۔۔۔ڈبویا مجھ کو ہونے ‘نے نہ ہوتا میں تو کیاہوتا ‘‘۔ ۱۰؎
پنڈت دینا ناتھ واریکو :
پنڈت دینا ناتھ واریکو کا تخلص شاہد ؔکاشمیری تھا اور وہ اسی نام سے لکھتے تھے ۔ وہ بہت بڑے جو ش فکر شاعر اور نثر نگار تھے ۔ انہوں نے ادب لطیف کے طرز پر نثری پارے لکھے اور مزاحیہ نگاری میں بھی اپنے بہترین جوہر دکھائے ہیں ۔ اس کے علاوہ کافی تعداد میں افسانے بھی قلمبند کئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے انشاپرداز کی حیثیت بھی رکھتے تھے اوروہ اپنے دور میں بہترین انشائیے لکھتے تھے ۔ ان کے انشائیوں میں ایک اچھا انشائیہ ’’اظہار محبت ‘‘ ہے جو انہوںنے ادب لطیف کے طرز پر لکھا ہے ۔
پنڈت وشوناتھ درجوں:
پنڈت وشوناتھ درجو ں ماہ ؔ بہت اچھے صاحب ذوق ادیبوں میں سے تھے ۔ وہ بیک وقت شاعر، نثر نگار ، ڈراما نویس اور مزاح نگار بھی تھے ۔انہوں نے بہت اچھے مضامین اور انشائیے بھی لکھے ہیں ۔ انہوں نے انشائیے ادب لطیف کے انداز میںلکھے تھے ۔ ماہؔ کی انشائیوں میں زیادہ تر مذہبی موضوعات ملتے ہیں اور بحیثیت انشائیہ نگار انہیں کافی زیادہ شہرت حاصل ہوگئی ۔ اسی طرح پنڈت اومکار ناتھ کول بھی اچھے انشائیہ نگارتھے جو کہانیاں بھی لکھتے تھے ۔ نندلال واتل ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انشاپرداز بھی تھے ۔ ان کو طالب علمی کے زمانے ہی سے انشائیہ نگاری کا شوق پیدا ہوا تھا۔
ان کہنہ مشق غیرادبی نثر نگاروں کے علاوہ پنڈت آفتاب رام کاو بھی بہت اچھے شاعر اور انشاء پرداز تھے ۔اسی طرح پنڈت گنگا دھر بٹ دیہاتی کی تخلیقات کہانی ، مضمون ، ڈراما ، شاعری ، ادب لطیف اور انشائیہ پر مشتمل ہیں ۔ وہ اپنے دور کے بہترین انشائیہ نگاروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ پرتھوی ناتھ کول اچھے صحافی تھے اور انہوں نے ادب لطیف کے انداز میں فن پارے بھی لکھے ہیں ۔وہ مضامین اور انشائیے بھی لکھتے تھے ۔ پنڈت جیالال کول بھی انشاپردازی کا بے حد شوق رکھتے تھے ۔من جملہ ان تمام پنڈت ادیبوں اور قلم کاروں نے غیر افسانوی اردو نثر کے فروغ اور ترویج و اشاعت میں گراں قدر خدمات انجام دئیے ہیں۔
٭٭٭٭٭
{۔۔حواشی۔۔}
۱؎:’’جموں و کشمیر میں اردو نثر ‘‘۔پروفسر ظہور الدین ۔شیرازہ (جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز ) جلد:۵۱، شمارہ:۴ ، ص نمبر ۱۹
۲؎: سالگرام سالک ، مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر ( سالگرام پریس کشمیر ۔۱۹۷۱ء) ص نمبر ۳
۳؎۔ ڈاکٹر برج پریمی ، جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو ونما ( رچنا پبلی کیشنز نصیب نگر ، پمپوش کالونی جانی پورہ، جموں ۔ ۲۰۱۳ء)ص نمبر ۷۸۔
۴؎۔ نند لال کو طالب ، جایزہ کلام غالب (نئی دہلی سمت پرکاش ۔ ۱۹۸۰ء) ص نمبر ۵۲۔۵۳ ۔
۵؎۔ڈاکٹربرج پریمی ، جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو و نما ( رچنا پبلی کیشنز، نصیب نگر، پمپوش کالونی جا نی پورہ، جموں ۔ ۲۰۱۳ ء) ص نمبر ۱۷۳ ۔
۶؎۔حامدی کاشمیری ، ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب ( شیخ محمد عثمان اینڈ سنز ، ریذ یڈ نسی روڑ سرینگر ۔ ۲۰۱۰ء) ص نمبر ۸۱۔
۷؎: عبدالقادر سروری ، کشمیر میں اردو ۔ جلد دوم ( جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگو یجز ، سرینگر ۔ ۱۹۸۲ء)ص نمبر ۴۳۳
۸؎:عبدالقادر سروری ، کشمیر میں اردو ۔ جلد دوم ( جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگو یجز ، سرینگر ۔ ۱۹۸۲ء )ص نمبر ۳۹۹
۹؎:عبدالقادر سروری ، کشمیر میں اردو ۔ جلد دوم ( جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز ، سرینگر ۔ ۱۹۸۲ ء) ص نمبر ۴۸۲
۱۰؎: عبدالقادر سروری ، کشمیر میں اردو ۔ جلددوم ( جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز ، سرینگر ۔ ۱۹۸۲ ء) ص نمبر ۴۰۸
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!