اشرف صبوحی کے خاکوں کا سماجیاتی مطالعہ
عبدالبصیر
ٹی جی ٹی۔اردو،گورنمنٹ بوائز سینئر سیکنڈری اسکول،مدنپور کھادر،نئی دہلی
Abstract
اردو کی غیرافسانوی نثری اصناف میں خاکہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔معاشرے کی بنیاد افراد پر قائم ہے ،ہرشخص دوسرے سے نہ صرف رنگ ونسل بلکہ اوضاع و اطوار اور فکری و فنی لحاظ سے بھی مختلف ہوتا ہے ۔ادب سماج کا آئینہ ہے ،زندگی واقعات و حادثات کا مجموعہ ہے ،انھیں واقعات میں سے جب چند واقعات چن کر کوئی کردار تراشاجاتا ہے تو اسے خاکہ کہا جاتا ہے ۔اشرف صبوحی مخصوص دہلوی تہذیب و ثقافت کے نمائندے ہیں۔ـ’’دلی کی چند عجیب ہستیاں‘‘ ان کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ہے۔جوپندرہ خاکوں پر مشتمل ہے۔ اپنی زبان کی لطافت اور اسلوب کی طرحداری کی بنا پر کئی جامعات کے نصاب میں شامل بھی ہے۔۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کے پاداش میںہندوستانیوں خصوصاًمسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ،اس کے باوجود کچھ افراد بطور یادگار ماضی رہ گئے تھے، انھیں کو اس کتاب میں موضوع بنایا گیا ہے۔بظاہر تو وہ معمولی تھے لیکن ایک ثقافت پارینہ کی نمائندگی کرنے کی وجہ سے غیر معمولی اہمیت حاصل کر گئے تھے۔ان کی وضع داریاں ،خوبیاں اور اخلاق واوصاف ایسے تھے جو ان کے بعد کی نسل کے لیے قابل تقلید نہیں تو قابل رشک ضرور تھے۔اشرف صبوحی ڈاک خانے میں ملازم تھے جس کی وجہ سے عوام سے ان کا برابر کا رابطہ رہا۔دلی کی وضع داری کی حامل ثقافت کے ماحول میں اشرف صبوحی نے آنکھیں کھولیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے متن میں ان گم گشتہ افرادوثقافت کی یادیں بکھری ہوئیں ہیں۔
٭٭٭٭
زمانۂ قدیم سے دِلّی تہذیب وتمدن کا گہوارہ رہا ہے۔ اور اس تاریخی شہر کی تمدنی علامتوں کے خاکے لکھنے میں اشرف صبوحی نے اپنے مخصوص دہلوی اسلوب میں نیا آب ورنگ بھر دیا ہے۔ ’’دلی کی چند عجیب ہستیاں‘‘ ان کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ جس میں کل پندرہ خاکے ہیں اور یہ کتاب۱۹۴۳ء میں منظر عام پر آئی۔ دہلی کی تہذیب و معاشرت کے متعلق بہت لوگوں نے لکھا ہے تاہم اشرف صبوحی کا انداز جدا گانہ ہے۔ دلی کے ثقافتی منظر نامے میں رنگ آمیزی کرنے والے عام کرداروں کو خاکوں کے لیے منتخب کرنا ان کے مخصوص نقطہ نظر کی نشاندہی کرتا ہے اور انہوں نے اپنے خاکوں میں جن نقوش کو واضح کیا ہے ان سے کرداروں کی اہمیت و جامعیت کا ادراک ہوتا ہے۔ اشرف صبوحی نے کرداروں کے ایسے مرقعے پیش کیے ہیں جس سے دہلی کی مخصوص معاشرتی زندگی، ان کی سادہ لوحی اور ان کا رکھ رکھاؤ پوری طرح سے واضح ہو جاتا ہے۔
اشرف صبوحی کا پورا نام سید ولی اشرف اور صبوحیؔ تخلّص ہے ان کی پیدائش ۱۱مئی۱۹۰۵ء کو دہلی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اس کے بعد اینگلو عربک ہائی اسکول میں داخل ہوئے اور ۱۹۲۲ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اور پرائیوٹ طور پر ادیب فاضل منشی فاضل ، ایف، اے اور بی۔ اے۔ کے امتحانات پنجاب یونی ورسٹی سے پاس کیے۔ ۱۹۲۹ء میں محکمہ ڈاک وتار میں ملازمت اختیار کرلی۔ لکھنے پڑھنے کا شوق تھا ادب سے شغف رکھتے تھے اس لیے مختلف رسائل میں مضامین لکھ کر ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ انہوں نے خاکوں کے علاوہ افسانہ نگاری، ادب اطفال اور تراجم میں بھی طبع آزمائی کی تاہم خاکوں کی بدولت انہیں شہرت عام اور بقائے دوام حاصل ہوا۔ تقسیم وطن کے بعد یہ ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے اور وہا ں پر بھی محکمہ ڈاک سے ۱۹۶۲ء تک وابستہ رہے اور باقی ماندہ زندگی لاہور اور کراچی میں بسر کی۔ بالآخر ۲۲ اپریل۱۹۹۰ء کو ۸۵ سال کی عمر میں کراچی میں انتقال فرماگئے۔
اشرف صبوحی نے اپنے تمام خاکوں کا محور ومرکز دلی کے ان عجیب وغریب کرداروں کو بنایا ہے جو اپنی خاص ٹیکسالی زبان ، لب ولہجہ،رسوم وروایات کی پاسداری، نفسیاتی الجھنیں ، اقدار کی کشمکش اور تہذیب سے وابستگی کے سبب ایک منفرد شناخت رکھتے تھے۔اشرف صبوحی کو تاریخ، تہذیب ومعاشرت اور پرانی وضع داریوں سے بہت دلچسپی تھی۔ تہذیب کے مٹتے ہوئے نقوش اور معاشرتی قدروں کی پامالی ان کے لیے نا قابل برداشت تھی۔ اسی لیے انہوں نے ان مٹتے ہوئے کرداروں کی ایسی مرقع کشی کی جن کے ذریعے آنے والی نسلوں کے لیے تہذیبی نقوش کو محفوظ کردیا۔’’دلی کی چند عجیب ہستیاں‘‘ میں شامل خاکوں کے عنوان اس طرح سے ہیں۔ خواجہ انیس، مری باقر علی، میٹھو بٹھیارا، گھُمّی کبابی، ملّن نائی، مرزا چپاتی، گنجے نہاری والے، میر ٹوٹرو، پرجی کوے، مرزا اسفند یار بیگ، سیّدانی بی، نیازی خانم ، میاں حسنات، پرنانی اور بابو مٹکینا۔ یہ تمام خاکے ایک مخصوص طرز فکر اور طرز زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دلی کے تہذیب وتمدن میں رسم ورواج، مختلف مشاغل، انواع اقسام کے لذیذ کھانے، شعری محفلیں، کھیل کود، کھڑی بولی، نشست وبرخاست کے آداب لباس زیب تن کرنے کے اطوار اور ایک دوسرے کے تئیں سماجی رویّوں کے تحت احساس ذمہ داری کو خاص اہمیت حاصل ہے لیکن ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور اس کی پاداش میں ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ استعماری یا نوآبادیاتی نظام کی اجارہ داری تھی جس کا مقصد ہندوستانی عوام کے اذہان کو ایک خاص پرو پیگنڈہ کے تحت تبدیل کرنا تھا۔ دلی کی اس مٹتی ہوئی تہذیب کے نقوش کا نوحہ ان کے خاکوں میں جا بجا نظر آتا ہے۔ خواجہ انیس کے خاکے میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔
’’میر صاحب کیا پوچھتے ہو۔ دلی کو دیکھو گے تو پہچاننا مشکل ہو جائے گا۔ آپ کے وہاں سے تو صرف نوابی رخصت ہوئی، بہار گئی، چمن تو سلامت ہے۔ یہاں تو ایسے اولے پڑے کہ پھر پنپنے کی امید نہیں۔ جتنے آبرو دار تھے۔ ایک ایک کو چن چن کر پھانسی پر چڑھا دیا۔ میں تو کئی برس کے بعد آج گھر سے نکلا تھا۔ سر پیٹ پیٹ لیا۔ اگلی سی کوئی بات نظر نہ آئی۔ پھر حاکم ہیں تو عجیب نہ دربارنہ بات چیت میں سلیقہ۔ انعام نہ اکرام۔ گفتگو دیکھو تو پہاڑی کے پتھر لڑھک رہے ہیں۔‘‘(۱)
اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ خاکہ نگارنے مغلیہ عہد کی نہ صرف عکاسی کی ہے بلکہ اس کے زوال پذیر ہونے کے اسباب بھی بیان کیے ہیں۔ دلی کے دربار، سلطنت سب مٹ چکے تھے۔ اقتدار انگریز حکا م کے ہاتھوں میں آچکا تھا اور پرانی قدریں اور وضع داریاں ختم ہوگئی تھیں۔
یہ قول یحییٰ امجد:
’’درحقیقت اس کتاب کے ذریعے اس عہد کی تہذیب کے مختلف نقوش کو محفوظ کیا گیا ہے۔ اس زمانے کی رواداری، پاس وضـع، شرافت اور ان کے متوازن لہو ولعب، پتنگ بازی کے میلے، بٹیر بازی، مرغ بازی، پیرا کی اور پیرا کی میں عجیب وغریب ہز مندیاں، مختلف پکوانوں میں نئی اختراعیں اور مہارتیں، لباس کی جملہ اقسام، سماجی طبقوں کی تفاصیل اور ان کے احترام و وقار کی درجہ بندی، زبان اردو کے طبقاتی مدارج، شعرو شاعری کی حیثیت قلعہ معلی کی صد رنگ زندگی، ہنسی چہلیں، شہزادیوں کے عجیب عجیب نام رکھنا، نئے نئے الفاظ ایجاد کرنا، چھوٹی چھوٹی دلچسپیوں میں غلو کرنا الغرض اس مرحوم تہذیب کے تمام پھول اور کانٹے اس کتاب کے دامن میں محفوظ ہیں۔‘‘(۲)
اشرف صبوحی نے تہذیب وتمدن کی علامت کے طور پر ’’مٹھو بٹھیارا‘‘ کا خاکہ پیش کیا ہے جن کا اصل نام کریم بخش تھا لیکن آج تک اصل نام سے انہیں کسی نے نہیں جانا دلی کی تہذیب میں زبان کا چٹخارہ بھی بہت اہم ہے۔ زبان کے چٹخارے سے مراد وہ پکوان ہیں جو دلی اور دلی والوں کی منفرد شناخت ہے۔ مٹھو بٹھیارا بھی کھانوں کی لذت کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہ سالن، نہاری، شوربا، پائے اور نرم نرم پراٹھے بناتے تھے اور ان پراٹھوں میں گھی کی آمیزش اس قدر ہوتی تھی کہ غریب سے غریب آدمی بھی پراٹھا پکوا کر شرمندہ نہیں ہوتا تھا۔مٹھو بٹھیارا کوئی بارعب شخصیت کا حامل تھا نہ دکان کی شان و شوکت ایسی تھی کہ لوگ مرعوب ہو کر مال خرید تے ۔ وہ تو خود ہی جھاڑو دیتا، برتنوں کو دھلتا، صاف صفائی کرتا یہ سب اس کے روز کے معمولات تھے لیکن یہ وہ خصوصیات تھی جس نے خاکہ نگار کو خاکہ لکھنے پر مجبور کر دیا۔ اشرف صبوحی کو زبان پر اس حد تک قدر حاصل ہے کہ و تشبیہات واستعارات کی مدد سے اپنے مکالماتی اسلوب کے ذریعے تصویر کو اس طرح واضح کر دیتے ہیں کہ سیرت کے بہت سے نمونے جلوہ گر ہوجاتے ہیں۔ مٹھو بٹھیارا کا حلیہ ملا حظہ کریں۔
’’معمولی قد، چھریرا بدن، سرگھٹا ہوا، چند ی آنکھیں، پلکیں اڑی ہوئی شاید دھویں اور آگ نے آنکھوں اور پلکوں کا یہ درجہ بنا دیا تھا۔ ڈاڑھی کیا بتاؤں، جب کبھی ہوگی تو بالکل خصی بکرے کی سی۔ تندورمیں جھک کر روٹی لگائی جاتی ہے۔ کوئی کیسا ہی چھپا کرے آگے کی لپٹ کہا چھوڑے ، جھلستے جھلستے لہسن کی پیندی بن کر رہ گئی تھی۔ ڈاڑھی کا یہ حال تو موچھوں کا کیا ذکر؟۔‘‘(۳)
مذکورہ اقتباس سے اشرف صبوحی کے انداز بیان کا پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے تشبیہات کی مدد سے کس طرح مٹھو کی صورت کے نقوش اُبھارے ہیں خاص طور پر داڑھی کی جزئیات نگاری نہایت دلچسپ ہے۔ اسی طرح سے خاکہ نگار نے گھی کبابی، ملن نائی اور مرزا چپاتی کے بڑے خوبصورت قلمی مرقعے لکھے ہیں۔ گھمی کبابی جو ایک عام کردار ہے لیکن اس کا مرقع اس طرح پیش کیا ہے کہ پوری دہلویت اپنی وضع داری اور زبان وبیان کے برتاؤ کے ساتھ نکھر کر سامنے آئی ہے۔ کبابوں کی دنیا میں اس سے دلچسپ کوئی کبابی نہ تھا سارا شہر گھمی کبابی سے واقف تھا لیکن صبوحی نے اردو زبان کے جو محاورے زبان زد خاص وعام تھے گھمی کبابی کی تیز طرار زبان سے ایسے ادا کرائے ہیں کہ پڑھنے والا عش عش کرتا رہ جائے۔ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’خوب۔ دھوبی بیٹا چاند ساسیٹی اور پٹاخ۔ اجی وہ زمانے لد گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ آج کی کہو ۔ جس کو دیکھو بے نوا کا سونٹا بنا پھرتا ہے۔ نہ بڑوں کا ادب، نہ چھوٹوں کی لاج ۔ وہی مثل ہوگئی کہ باولے گاؤں اونٹ آیا لوگوں نے جانا پر میشور آئے۔ حضّت ہم نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ جھجّو جھونٹوں میں عمر نہیں گذاری۔ رانڈ کے سانڈ بن کر نہیں رہے۔ یہ بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے۔ کیا کہا بارہ برس دلی میں رہے اور بھاڑ جھونکا؟ ہاں صاحب اب تو جوکہو بجا ہے۔ آنکھ پھوٹی پیڑ گئی، دلی کا کوئی ہو تو اس کے پیٹ میں درد اُٹھے۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ پھر جیسا راجہ ویسی پرجا۔ جیسی گندی سیتلا ویسے پوجن ہار۔ میر کیا پوچھتے ہو۔ آٹے کا چراغ گھر رکھوں چوہا کھائے، باہر دھروں کوّا لے جائے۔‘‘(۴)
اشرف صبوحی کے خاکوں کے کردار اس حد تک عمومیت کے حامل ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں لیکن ان کی انداز نگارش اور طرز بیان کا کمال ہے کہ انہوں نے عام کرداروں کی زندگی میں بھی ایسے مراحل اور اوصاف کی شناخت میں کامیابی حاصل کی جو اسے مقبول بناتے ہیں۔ ان کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پس منظڑ میں دلی کی موجدہ صورت حال پر بھی طنز کیا ہے جہاں قدیم تہذیب نے جدید لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ خاکہ گنجے نہاری والے کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’آہ دلی مرحوم جب زندہ تھی اور اس کی جوانی کا عالم تھا، سہاگ بنا ہوا تھا اس پر کیا جو بن ہوگا اب تو نہ وہ وہی نہ اس کے دیکھنے والے رہے۔ کول بخشو کے تکیے میں ہوتے ہیں اگلی کہانیاں کہنے والا تو کیا کوئی سننے والا بھی نہ رہا۔ غدر نے ایسی بساط الٹی کہ سارے چہرے تتر بتر ہوگئے۔ دلی کا نقشہ بگڑ گیا آن گئی زبان دیوانی ہنڈیا ہوئی۔ لباس بدلا معاشرت کے ڈھنگ بدلے ،پرانے رسم ورواج اور پرانی لکیروں کونئی تعلیم نے مٹا دیا، قدیم ہنر مند دربدر کی ٹھوکر یں کھانے لگے….. کیسے کہوں وہی شہر ہے، وہی بازار، وہی گلی کوچے، لیکن وہ زندگی کہاں؟ نہ وہ آدمی نہ وہ باتیں نہ وہ اپنی دلی نہ وہ اپنا تمدن۔‘‘(۵)
مذکورہ بالا اقتباس میں اشرف صبوحی کے جذبات سمٹ آئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں اپنی پرانی اقدار اور تہذیب وتمدن کی تبدیلی پر افسوس ہے بلکہ ان کا نصب العین بہت واضح ہے وہ ان قدروں کی پامالی پر افسوس کر رہے ہیں جو مثبت ہونے کے باوجود فراموش کردی گئی اور ان کی جگہ صارفیت نے لے لی جو انسان کو نفع ونقصان تک محدود کردیا ۔
اشرف صبوحی نے ’’گنجے نہاری والے‘‘ کا خاکہ لکھ کر نہ صرف دلی کی تہذیب بلکہ ’’نہاری‘‘ ڈش کو بھی زندہ جاوید بنا دیا ہے۔ اس خاکے کے ذریعے نہاری پکانے اور کھانے کھلا نے کے ساتھ ان لوگوں پر طنز بھی کیا ہے جو اس کا اہتمام سلیقے سے نہیں کرتے۔ دلی اور اہل دلی کی پسند یدہ ڈش نہاری کے متلق لکھتے ہیں۔
’’نہاری کیا تھی بارہ مسالے کی چاٹ ہوتی تھی۔ امیر سے امیر اور غریب سے غریب اس کا عاشق تھا۔ نہاری اب بھی ہوتی ہے اور ٓج بھی دلی سوانہ کہیں اس کا رواج ہے نہ اس کی تیاری کا کسی کو سلیقہ۔ دلی کا ہر بٹھیارا نہاری پکانے لگا، ہر نان بائی نہاری والا بن بیٹھا۔ مگر نہ وہ ترکیب یاد ہے نہ وہ ہاتھ میں لذت۔ کھانے والے نہ رہیں تو پکانے والے کہاں سے آئیں۔‘‘(۶)
مذکورہ بالا اقتباس میں پوری بحث نہاری اور اس کی خصوصیات پر ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کا تعلق کسی دسترخوان سے ہے۔ اشرف صبوحی کی یہ کتاب ایک مخصوص جغرافیائی خطے کی مخصو ص زائیدہ ثقافت کی نمائندگی کرنے والے کرداروں سے ہیں۔ خاکہ نگارنے روز مرہ زندگی کے معاملات ومشاہدات کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے اور شخصیات کے پیشے سے متعلق جزئیات نگاری قابل تحسین ہے۔ اس کی بہترین مثال، میر ٹٹرو‘‘ ہے جن کا ذریعہ معاش پرندوں کا پنجرہ بنانا تھا جیسے وہ بڑی محنت ومشقت سے بنا کر بازار میں فروخت کرتے تھے۔ لیکن جب بارشیں شروع ہو جاتی تو ان کا گھر سے نکلنا محال ہو جاتا اور یہ کاروبار بھی بڑی طرح متاثر ہو جاتا ہے۔ اس بُرے وقت میں وہ اپنی مخلص دوست داروغہ جی سے مدد طلب کرنے کے بجائے فاقہ کشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ داروغہ نے کبھی’’میر ٹوٹرو‘‘ پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا لیکن میر صاحب نے غربت میں بھی اپنی دوستی کو نبھایا اور کھانے پکا کر کھلایا۔
’’پیر جی کوّے‘‘ کا شمار بھی بدمعاشوں اور ڈاکوؤں میں ہوتا ہے لیکن یہ ایسے ڈاکو تھے جنہوں نے ہر کا م شرافت سے کیا۔ ’’پیرجی کوّے‘‘ کا نام غالباً ان کی کالی رنگت کے سبب پڑا اور کوّے کے ساتھ پیرجی کا سابقہ اس لیے لگا کہ انہوں نے بدمعاشی چھوڑ کر نبی کریم کے قبرستان میں رہنا شروع کردیا تھا۔ یہ اصلی معنوں میں شریف ڈاکو تھے کبھی کسی کمزور پر طاقت آزمائی نہیں کی بلکہ جہاں رہے سارے محلے کی حفاظت کی، بے کسوں کے وارث بنے غرض امیروں سے لوٹا اور بھوکوں کا پیٹ بھرا۔ اس خاکے کو مکالماتی انداز میں پیش کیا گیا ہے ڈاکو کی صفات خود اس کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔
’’بیٹی تم بچہ ہو۔ اس بات کو نہیں سمجھ سکتیں(ٹھنڈا سانس لے کر) یادرکھو! ایک شریف ڈاکو ان سا ہو کاروں ، تلک دھاریوں ، تسبیح ہلانے والوں سے لاکھ درجے اچھا ہے جو یتیموں کا مال نگل کر ڈکارتک نہیں لیتے۔ غریبوں کا خون چوستے ہیں۔ کیا سود خور مہاجن اور کچہری کے ناخدا ترس حاکم ہماری برابری کرسکتے ہیں۔‘‘(۷)
مذکورہ بالا اقباس ان قانون دانوں پر طنز ہے جو قا نون کے نام پر غریبوں کا خون چوستے ہیں۔ اور اپنے آپ کو انصاف پرور کہتے ہیں یہ اقتباس ان تمام دین داروں، نمازیوں پر طنز کرتا ہے جو یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں اور انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ ڈاکو جیسے پیشہ ور لوگوں میں بھی انسانیت کا خمیر موجود ہے۔
خاکوں میں صورت نگاری کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ کرداروں کی حلیہ نگاری ، خدوخال، اور دیگر پہلوؤں کو جاذبیت کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر اشرف صبوحی کو خوب آتا ہے۔ مرزا چپاتی کے خاکہ میں ان کا حلیہ کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔
’’خدا بخشے مرزا چپاتی کو، نام لتے ہی صورت آنکھوں کے سامنے آگئی، گورا رنگ، بڑی بڑی ابلی ہوئی آنکھیں، لمباقد، شانوں پر سے ذرا جھکا ہوا، چوڑا شفاف ماتھا، تیموری داڑھی، چنگیری ناک، مغلئی ہاڑ، لڑکپن تو قلعے کے دور دیوارنے دیکھا ہوگا۔ جوانی دیکھنے والے بھی ٹھنڈا سانس لینے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ڈھلتا وقت اور بڑھاپا ہمارے سامنے گذرا ہے۔ لٹے ہوئے عیش کی ایک تصویر تھے۔ رنگ وروغن اترا ہوا محمد شاہی کھلونا تھا، جس کی کوئی قیمت نہیں رہی تھی۔‘‘(۸)
اشرف صبوحی کا دوسرا مجموعہ’’غبار کاروں‘‘ ہے جس میں ایسی شخصیات کو موضوع بنایا گیا ہے جو مصنف کے دیکھے بھالے ہیں اور خاکہ نگار کو ان سے عقیدت ہے۔ ان خاکوں میں انہوں نے شخصیات کی حرکات وسکنات نہایت باریکی سے مطالعہ کیا ہے۔ ان کے اوضاع و اطوار طرز بودوباش، انداز گفتگو اور مجلسی آداب وغیرہ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کی چلتی پھرتی تصاویر آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ اشرف صبوحی کے خاکوں کا مرکزی محور دہلی کی تہذیب وثقافت ہے۔ اس مجموعے میں انگریزوں کے زوال کا زمانہ سمٹ کر آ گیا ہے جبکہ پہلے مجموعے میں مغلوں کے زوال کے عہد کی مرقع کشی ملتی ہے۔ خاکہ نگار نے شخصیات کے مزاج اور ان کی نفسیاتی پردہ دری میں تہذیب وثقافت کے مناظر کو اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ کرداروں کا حصہ بن سامنے آجاتا ہے جس کا ایک سبب تو زبان وبیان کی شرینی، عذوبت اور شگفتگی ہے تو دوسری وجہ یہ ہے کہ معمولی کرداروں پر خاکے لکھے گئے ہیں جو صرف ایک تہذیب وتمدن کی علامت ہیں۔
حواشی
۱۔دلی کی چند عجیب ہستیاں،اشرف صبوحی،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،دہلی۱۹۸۹ ص۔۴۴
۲۔یحییٰ امجد،اردو میں خاکہ نگاری،مشمولہ:اردو نثر کا فنی ارتقا،فرمان فتح پوری ص۔۳۸۹
۳۔دلی کی چند عجیب ہستیاں، اشرف صبوحی،ص۶۸
۴۔دلی کی چند عجیب ہستیاں، اشرف صبوحی،ص۷۴
۵۔دلی کی چند عجیب ہستیاں، اشرف صبوحی،ص۱۰۵
۶۔دلی کی چند عجیب ہستیاں، اشرف صبوحی،ص۱۰۶
۷۔دلی کی چند عجیب ہستیاں، اشرف صبوحی،ص۱۱۵
۸۔دلی کی چند عجیب ہستیاں، اشرف صبوحی،ص۹۳
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!