اردو سفر ناموں میں تانیثی تھیوری کا اطلاق
ڈاکٹر عرش ؔکاشمیری
لکچرر اردو، کشمیر یونی ورسٹی(ساؤتھ کیمپس) ، سری نگر
cell:9797214***2
اردو ادب کے ذی شعور اور ذی فہم حضرات اس امر سے واقف ہیں کہ ۱۹۸۰ء کے بعد ما بعد جدید کا دور شروع ہوتا ہے۔اس سے قبل سر سید تحریک ، ترقی پسند ی اور جدیدیت اپنا کام کر چکے ہیں۔چونکہ ہر فکر اور نظریہ اپنے وقت کے لئے باعث فخر اور پرُ مقصد ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے نظریوں اور تھیوریوں کی جہاں ضرورت محسوس کی جاتی ہے وہیں پرانے نظریوں کی تنگ دامنی سے بھی اُکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔
ما بعد جدید یت حقیقتا کوئی نظریہ نہیں ہے۔بلکہ یہ ایک ایسا صورت حال ہے۔جس میں ایک ساتھ کئی نظریات یا تھیوریاں منجمد ہوکر ادب کی ما ہیت اور تخلیقیت کے لئے دریچے وا کرتے ہیں۔ادب تھیوری کے بطن سے پیدا ہوتا ہے۔اور ہر زمانے میں ادب کسی نہ کسی مخصوص تھیوری کے زیرِ اثر ہی وجود میں آیا۔بقول گوپی چند نارنگ :
’’ہر تخلیق تھیوری کے بطن سے اُبھرتی ہے،خواہ تخلیق کار کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو ،جب تخلیق کار حسن و خوبی کے کسی معیار کو پانے کی کوشش کرتا ہے،حسن ُ خوبی کا کوئی تصور رکھتا ہے یا زبان کے اظہار ی پیرایوں سے جمالیاتی وسائل میں کسی ایک کو دوسرے پر تر جیح دیتا ہے۔تو ایسا کسی نہ کسی تھیوری کے احساس کی رو سے کرتا ہے۔‘‘
( ساختیات پس ساختیات مشرقی شعریات:گوپی چند نارنگ)
ما بعد جدیدیت ایک ایسا صورت حال ہے جس میں نئی تھیوریاں مثلا ً ساختیات ،پسِ ساختیات ، قاری احساس اور تانیثیت موجود ہیں۔چونکہ مابعد جدید یت کوئی حتمی نظریہ نہیں ہے۔نہ ہی کوئی تحریک یا رجحان بلکہ مختلف نظریات و تفکرات کا ایسا نظام جس میں ادب کی ماہیت اور افادیت میں نئی روایت قائم ہوئی۔ادب کی تفہیم اور تشریح کے لئے ان نئی تھیوریز کا استعمال کیا گیا۔ادب کی معنویت اور افادیت میں بھی تبدیلی ہوئی۔ مابعد جدیدیت میں متن ،معنی ،مصنف ،قاری اور زبان کے حوالے سے متعدد سوالات وجود میں آگئے۔ ڈاکٹر الطاف انجم اس سلسلے میں رقمطراز ہیں:
’’ ما بعد جدیدیت ترقی پسندی کی طرح باضابطہ طور پر کوئی تحریک ہے اور نہ ہی جدیدیت کی طرح کوئی رجحان بلکہ یہ ایک ایسی ثقافتی صورت حال ہے جو بہ یک وقت مختلف ،متنوع اور متضاد تصورات اور تفکرات کی متحمل ہے۔مابعد جدیدیت کسی ایک نظریہ کا نام نہیں ہے ۔بلکہ اس میں بہت سارے تفکیری روییّ عیاں اور نہاں ہیں جو سماج میں موجود مختلف اذہان کی پیداوار ہیں اور جن کے پیدا ہونے کے اسباب کا تعلق براہ راست مقامی ،قومی اور بین الاقوامی سطح پررونما ہونے والی سیاسی ،سماجی ، ثقافتی ،معاشی اور سائنسی تبدیلیوں سے ہے اس کثرت کے اعتبار سے مابعد جدیدیت کو نظریات کی کہکشاں کا نام دیا جاسکتا ہے۔‘‘
(ما بعد جدید تنقید :اطلاقی مثالیں ،مسائل و ممکنات :پروفیسر ڈاکٹر الطاف انجم ۔ص۱۷۲۔۱۷۳)
مابعد جدیدیت صورت حال میں بلخصوص جن تھیوریز نے اردو ادب پر اپنا اثر ڈالا ان میں ساختیا ت ،پس ساختیات اور تانیثیت اہم ہیں۔میرا مقصد یہاں مابعد جدیدیت اور تانیثیت کے حوالے سے گفتگو کرنا ہیں۔تانیثیت ایک ایسی تھیوری کا نام ہے جس میں عورت کو مرکزیت حاصل ہے۔پروفیسر قدوس جاوید اس سلسلے میں رقمطراز :
’’ تانیثیت ایک طرزِ فکر سے عبارت ہے جو زندگی کے کسی بھی شعبے میں عورت اور مرد کے بیچ کسی بھی امتیاز یا جانبداری کو رد کرتی ہے۔دوسرے لفظوں میں تانیثیت وہ زاویہ نظر،طرزِ حیات ہے جو کسی بھی ماحول اور معاشرہ کے صحت مند ارتقاء کے لئے عورت اور مرد کو یکسان حقوق اور فرائض عطا کرنے پر اصرار کرتی ہے۔‘‘
(متن ،معنی اور تھیوری :قدوس جاوید،ص۱۵۲)
مغربی دنیا میں انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں مختلف فلاسفروں نے عورت ذات کو موضوع بنا کر دنیا کے دیگر قلم کاروں اور دانشوروں کی توجہ عورت ذات پر مر کوزکرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ مغربی دنیا کے ان قلم کاروں میں میری وال سٹون کرافٹ ،جان اسٹویٹ مل ،مار گریٹ فلر اور ورجینیا وولف قابلِ غور ہیں۔بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے تانیثیت نے تھیوری کا روپ اختیار کر لیا اور اد ب میں اس کا اطلاق ہونے لگا ۔ادب نے فروغ میں سب سے بڑا رول ادا کیا ۔تانیثیت کے حوالے سے ادب کا مقصد عورت کے شعور ِ ذات کی بیداری ، عورت کا سماج اور زندگی سے آزاد انہ رشتہ قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ تانیثی تھیوری کی تقلید جہاں ادب کے افسانوی ادب یعنی فکشن میں ہوا وہیں غیر افسانوی ادب میں سفر نامہ نگاروں نے بھی اس کی بھر پور اشاعت کی ۔ہمارے یہاں متعدد ایسے سفرنامہ نگار ہیں جنہوں نے عورت ذات کے مسائل اور بنیادی حقوق کے بارے میں کھل کر لکھا۔اس ضمن میں مظفر حنفی ،پروفیسر علی احمد ،قمر ریئس ،جاوید دانش ،کشور ناہیدہ ،ف۔س۔اعجاز اورابن ِ انشاء قابلِ ذکر ہیں ۔
سفر نامہ نگاروں نے سفر ناموں میں عورت کے کئی روپ پیش کیں۔ کہیں جنسی نفسیات کی پیاسی ، کلبوں او ر قبحہ خانوں کی نمائش ،رنگین جسموں کی رعنائیاں ، تو کہیں جبر و استحصال کی آڑ میں جکڑی ہوئی اور سسکتی ہوئی بے جان عورت کے حسین روپ ادب کے حوالے کیں۔ یہ عورتیں نفسیاتی الجھنوں میں پھنسی اور بے روح کروٹ لیتی ہوئی بے بس نظر آتی ہیں۔ ان کی خارجی چمک دمک اور رنگ و سجاوٹ تک ہر آدمی رسائی حاصل کر کے جسموں کی لذت سے سرشار ہوتا ہے لیکن ان کی داخلیت کے الم و پریشان مناظر ان کی ذات کو کوستے رہتے ہیں ۔ ان عورتوں کے خاص مسائل ، آزادی نسواں حقوق نسواں اور ایسے بے شمار مسائل ہیںجن کو بعض سفر نامہ نگاروں نے ہلکے سے پیش کی ہیں۔ اکثر سفر نامہ نگاروں نے ان کے نر لہجہ ، او ر گرم جسم کی مختلف خصوصیات پیش کی۔ کشور ناہید کا سفر نامہ ’’ آجا و افریقہ‘‘ اس ضمن میں اہمیت کا حامل ہے کہ انہوںنے اپنے سفرنامے میں افریقہ کی حسین و جمیل اور قدرتی مناظرات سے لیس جنگلات کی ہی بات نہیں کی۔ بلکہ عام لوگوں کے سماجی اور معاشی پریشانیوں کو بھی اُجاگر کیا ساتھ ہی یہاں کی عورت کے کچھ ایسے کرب ناک حادثات اور واقعات قلم بند کر دئے ہیں جو انسان کے ذہن میں طلاطم پیدا کرتے ہیں۔ کشور ناہیدہ کی تانیثی رویہ کا اعتراف سعید احمد اس الفاظ میں کرتے ہیں:
’’کشور ناہیدہ نے سفرنامے میں تانیثی رویہ شدت سے اختیار کیا ہے ،وہ عورتوں کے وجود اور حقو ق کو پوری دنیا تک پہنچانا چاہتی ہے ۔اس میں انھوں نے عورت کی محرومی اور مظلومی کی ایک طویل داستان سمو یا ہے ۔‘‘
(آزادی کے بعد اردو سفر نامہ :سعید احمد ،ص۲۵۹)
سفر نامے میں کشور ناہید نے کھل کر اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ کہ دُنیا میں ایک عورت کا استحصال مذہب، تہذیب اور فرسودہ رسم و رواج کے نام پر ہوتا رہا ہے۔ اس سفر نامے میں کشور ناہید نے فیمنزم کے سارے مسائل مختلف عنوانات کے تحت پیش کیں۔ اُن کے مطابق جنگ و جدال ہو یا امن و شانتی ہر موسم میں عورت کی عصمت کو قربان کیا جاتا ہے۔ دورِ جدید کے آزاد دُنیا میں بھی عورت چین کی سانس نہیں لے سکتی عورت سیاسی و سماجی اذیتوں کی داستان بن کر رہ گئی۔ آج کے دورمیں جدید اور روشن خیال سماجی ٹھیکاداروں نے عورتوں کی جسم فروشی کو مختلف ناموں نے منسوب کیا ہے۔ مصنفہ سفر نامہ میں اظہار خیال کچھ اس طرح کرتی ہے:
’’ ہمارے ملک میں تو طوائفیت کو مغلیہ تہذیب سے آمیز کر کے کلچر کا رنگ دے کر رومانوی ماحول کی عطاکردہ امراؤ جان ادا بنایا جاتا رہا مگر جنوبی مشرقی ایشیاء میں ڈالر ماحول نے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ایک نئے کلچر کو جنم دیا اور اس کو سیاحت ؛کا نام دیا گیا، سیاحت کے نام پرفلاپائن اور تھائی لینڈ میں ، جنسی سیاحت کے کاروبار کوخوب چمکایا گیا اور دوسری طرف نسل در نسل وہاں کے لوگوں کو سامراجی ہتھکنڈوں سے اپنے آؤں کے زیر نگین رہنے کے لئے ذہنی اور مالی بندشیں اور مضبوط کی گئیں۔‘‘
(سفر نامہ ’’آجاو افریقہ‘‘ ؛ کشور ناہید ، ص ۱۷۷)
تانیثیت کے حوالے سے قرۃ العین حیدر کا سفر نامہ قابل ِتحسین ہے۔انہوں نے اپنے سفر نامے ’ جہان دیگر ‘میں مختلف جگہوں پر عورت کے بنیادی مسائل بیان کئے ہیں ۔قراتہ العین نے مغربی ملکوں میں رہنے والی عورت کے در پیش مسائل کے سا تھ ساتھ وہاں کے کلچر پر بھی سوالیہ نشان لگایا جس میں یہ عورت برسوں سے اپنی نفسیاتی جنگ لڑ رہی ہے۔مغربی اور مشرقی کلچر پر موازنہ کر کے اپنے ہندوستانی کلچر پر فخر بھی کیا ہے ۔مغرب میں جس قسم کی آزادی عورت کو حاصل ہے اس سے وہاں عورت کے بے شمار مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔انہوں نے بہت جگہوں پر اسلام اور حقوق نسواں کے حوالے سے لکچر دیے ہیں۔
’’ جس وقت میں نے کہا مغربی عورتوں کو شوہر سے علٰیحدہ اپنی جائداد رکھنے کا حق اب جا کر ملا ہے قران نے یہ حق چودہ سو برس دیا تھا ،اس وقت سا معین میں ایک امریکن لڑکی بالکل ٹھیک با کل درست کہے جا رہی تھی ۔‘‘
(سفرنامہ ۔جہان دیگر:قرۃالعین، ص۱۴۱)
سفر نامہ ’سات سمندر پار‘ اختر ریاض الدین ایک ایسا سفر نامہ ہے جس میں ہم عورت کی کرب اورنفسیاتی الجھنون کو محسوس کر سکتے ہیں ۔مغربی دنیا میں جہاں ترقی کے مدارج طے کرنے میں عورت مرد کا بھر پور ساتھ دے رہی ہے وہیں یہ عورت اس قدر معاشی نطام میں گل مل گئی کہ اس نے اپنی پہچان اور شناخت کھو ہی دی ۔ ایسے ممالک میں جاپان کا نام آتا ہے جہا کی عورت مردوں کی بالا دستی سے بہت حد تک مجروح ہو چکی ہے۔جاپان میں مرد عورت پر سخت طرح سے حاوی ہو چکا ہے عورت نفسیاتی بیماری میں مبتلہ ہو کر اپنے خاوند کے لئے ہر حد تک جانے کے لئے تیار ہے ۔اس ملک میں عورتوں کے احساسات اور جذبات کا کوئی قدرداں ہی نہیں ہے۔عورت کی اس ذہنی کشمکش کا اندازہ اس اقتباس سے لگا یا جا سکتا ہے:
’’جاپان خاص الخاص مردوں کا ملک ہے اس میں خدا نہ کرے کہ میں کوئی عورت پیدا ہوتی ۔زندگی کے سارے عیش مرد ذات کے لئے مخصوص ہیں ۔اسلام نے مرد کو مجازی خدا کہ کے چھوڑ دیا جاپان میں اس خدائے مجاز کی پرستش ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاپانی مرد اپنی بیوی سے صرف غربت اور بے رونقی منسوب کرتا ہے اور تفریح کے لئے وہ کپڑے بدل کر سیدھے گیشا گھر پہنچتا ہے۔اور وہیں دن بھر کی تھکن اُتارتا ہے اور بیوی کا ضرف دیکھئے کہ وہ خاوند کو گیشا گھر جانے کے لئے کپڑے پہناتی ہے اور اگلے روز گیشا گھر کی بل ادا کرتی ہے۔‘‘
سفرنامہ،سات سمندر پار:اختر ریاض الدین ،ص۱۷)
جدیددور کی عورت فلسفہ جیسے خشک مضمون پر بات کرنے کی صلاحیت اور سائنسی تجربات میں کامیابی حاصل کرنے والا ہُنر بھی رکھتی ہے۔ یہ عورت برابر مرد کے ساتھ شانہ بہ شانہ کام کرتی ہیں زندگی کی دوڑ دھوپ کرتی ہے۔ محنت اور لگن کے ساتھ آگے بڑھتی ہے کامیاب ہو جاتی ہے۔ اپنے قوم اور ملک کی بہبودی کے لئے کچھ منفرد کرتی ہے۔ عورت کے ایسے مثبت پہلوؤں سے متعدد سفرناموں کے گوشیں بھرے پڑے ہوئے ہیں۔ بزنس کرنے والی عورتیں ۔ محنت اور مشقت سے کام کرنے والی عورتیں چند سفرناموں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ سفر نامہ’’ یورپ کا سفرنامہ‘‘ میں سفر نامہ نگار دوران سفر ایک پاکستانی عورت کو دیکھ کر تعجب کرتی ہیں یہ پاکستانی عورت یورپ میں اپنا بڑا بزنس سنبھالتی ہے۔ یہ مسلم خاتون بڑی تیزی کے ساتھ کمپیوٹر پر کام کرتی ہے۔ یورپ کے اس ماھول میں مشرقی عورت اس طرح کا کام کرتی ہے اس پر سفرنامہ نگار تعجب کرتا ہے۔ اقتباس ملاحظ ہو:
’’ دو چار دکانوں کے بعد پم پستہ خریدنے ایک اور بہت بڑے اسٹور میں داخل ہوئے۔ یہاں بہت بھیڑ تھی۔ لوگ پیمنٹ دینے کے لئے قطار میں کھڑے تھے اور ایک چاند جیسے گول چہرے والی پاکستانی خاتون ریشمی جمپر اور شلوار میں ملبوس کاؤنٹر پر سامان کی قیمتیں وصول کر رہی تھیں۔ اب تک کئی دکانوں میں مسلم خواتین کو بزنس سنبھالتے دیکھا اور اس پر مجھے حیر ت بھی ہوئی مگر اس خاتون میں بڑی پھرتی پائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرہ بچوں کی ما ہے یہ ‘‘ مسز پورنیما چاولہ نیجب مجھے بتایا تو جھے یقین نہیں آیا اور حیرت سے میرے قدم زمین پر چپک گئے۔ میں نے کہا ’’ کیا کہہ رہی ہیں آپ ؟ کیلکولیٹر اور کمپیوٹر پر فٹا فٹ حساب کرنے والی یہ عورت بمشکل تین چار بچوں کی ماں لگتی ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مسلم خاتون کامیاب دکاندار ہے۔‘‘
(یورپ کا سفر نامہ: ف ۔س۔ اعجاز، ص ۔، ۱۲۵)
ابنِ انشاء نے اپنے سفرنامہ ’’ چلتے ہو چین کو چلے‘‘ میں جہاں چین کی تاریخی و تمدنی وراثت پر تبصرہ کیا وہی چین کی معاشرت میں عورت کا جو کردار ہے اُسے اُجاگر کیا۔ چین کی عورت اپنے ملک اور قوم کی ترقی کے لئے برابر کوشاں ہے۔ چینی عورت کو یہاں کی معشیت میں اہم مقام حاصل ہے۔ دُنیا بھر میں چین ایک ایسا ملک ہے جو محنت کش قوم ہے اس سفرنامے میں عورت کا جو کردار نظر آتا ہے ۔ وہ محنت کش ، وفادار اور صاحب صلاحیت والی عورت ہے۔ چین کی خواتین قوم اور ملک کی ترقی میں برابر مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ چینی عورت میں فاحشہ برائے نام ہے ، ان کا سہارا زور نئے نئے تجربات اور ہنر مندی کی طرف ہے۔ سفرنامہ نگار چینی عورتوں کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر حیرت زدہ ہوتے ہیں اور اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں:
’’ عورتیں دوسرے بہت سے ملکوں میںکام کرتی ہیں لیکن چین کی طرح نہیں۔ کام کرنے میں عورت اور مرد کا کوئی فرق نہیں ۔ عورتیں بھاری مشینیں چلاتی ہیںکاریں اور سڑک چلاتی ہیں۔ دُکانیں اور کارخانے چلاتی ہیں۔ کھیتوں میں ہل چلاتی ہیں ، سڑکیں بناتی ہیں اور سب سے بڑی بات جو یہ کہ بڑے بڑے بوجھ اُٹھاتی اور کھینچتی ہیں۔ چین کی یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی یہ بھی ایک مرد یا عورت اتنا بوجھ کیسے کھینچ لیتی ہے جس کے لئے ہمارے یہاں گھوڑے کی ضرورت ہو‘‘
(چلتے ہو تو چین چلئے۔ ابن انشاء ، ص: ۶۸۔ ۷۶)
اس سفر نامے سے چینی عورت کا جو کردار سامنے آتا ہے جو مغربی ممالک کی عورت سے برعکس ہے۔ چینی عورت میں جنسی تشنگی اور فاحشہ خصلت سر بازار میں چھم چھم کر نہیں ابھرتی ہے اور نہ یہ عورت یورپی ممالک کی عورت کی طرح نائٹ کلبوں اور ڈانس پارٹیوں کی شان و شوکت کو بڑھاتی ہے۔ بلکہ وہ ایک باعزت اور شرم و حیا کی پیکر ہے۔ سفرنامہ نگار نے چینی عورت کا موازنہ دوسرے ملکوں کی عورتوں کے ساتھ کیا۔ چینی تہزیب و کلچر میں عورت کا اہم کردار ہے۔ چین کے تہذیب و ثقافت پر سفرنامہ نگار یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔
’’چین میں ایک بھی جسم فروش نہیں، ایک بھی قبحہ خانہ نہیں ۔ کوئی فلم خاص برائے بالفان نہیں۔۔۔۔۔۔عریانی تو ایک طرف بغیر آستین کا چست لباس نہ ہوگا اور نہ ٹخنوں سے اوپر کسی عورت کا ٹانگ نظر آئے گی۔ برکاری کم ، معاشی ضرورت کی زیادہ ہوتی ہے۔ سوداکسی کو نہیں سب کماتے ہیں ۔ شادی کی منزل آئی تو رفیق زندگی مل جائے گا۔ تفریح بہت سے تو تھیٹر جائے، سینما جائے، کلچر پیلس جائے ہمارے ایک رومانی ساتھی نے کہاچین بڑا بور ملک ہے‘‘
(چلتے ہو تو چین کو چلئے۔ ابن انشاء ۔ ص؛ ۱۰۴)
جدید دُنیا نے جہاں ایک عورت کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا وہاں تانیثی تحریک نے ان کے ذہنوں میں مادیت اور رومانویت کے زہریلے کپڑے بھی منتقل کئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورت ہر ایک میدان میں نمایا ں کار ہاے انجام دینا چاہتی ہے۔ اپنی من مرضی اور آزادی کا بھر پور استعمال کر کے بہت آگے نکل گئی ۔ا ب عورت جسم کی نمائش کو باعث فخر محسوس کرتی ہے ۔ سوج اور صلاحیت کے حدود ختم ہو کر تغیر زمانہ نے عورت کے سوچ کو بھی دوسری دِشا میں کھینچ لیا۔ جہاں عظمت اسی سوچ و بچار کو حاصل ہے کہ عورت کے چاہنے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں ہوں تو کامیاب ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جدید عورت نے سارے بندھن اور حدود بالا طاق رکھ کر اپنے جسم کو سر بازار نیلام کرنے میں کوئی ججھک محسوس نہ کی۔ تانیثیت کا یہ بھی ایک پہلو ہے جس سے عورت کا وقار سماج میں گر گیا۔ ہمارے متعدد سفرنامہ نگار ہیں جنہوں نے ایسے بے شمارشر م ناک واقعات سفرناموں میں پیش کیں جن سے ہمیں عورت کے اس روپ سے روبرو ہونا پڑتا ہے۔ قمر رئیس کا سفر نامہ ’’ازبکستان ’’ انقلاب سے انقلاب تک‘‘ میں ایسے کئی اشارے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ملا حظ ہیں:
’’لوسی نے ایک دن مجھ سے فاحشہ کے معنی پوچھے تو میں نے کہا ’’ایسی عورت جس کے بے شمار عاشق ہوتے ہیں‘‘ سُن کر خوش ہوئیںکبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ لوسی اپنے کسی نو جوان دوست کو لے کر اپنے فلیٹ میں آجائیں۔ ‘‘
(ازبکستان : انقلاب سے انقلاب تک، قمر رئیس ،ص ۶۰)
مغرب کی عورت جس رنگ و روپ اور مزاج کے لئے بدنام ہے۔ اس سے وہ فاحشہ اور جنسی بیماری میں مبتلہ ہو چکی ہے۔ یہ عورت سینما ، نائٹ کلب اور جنسی سنٹروں کی رونق بن کر رہ گئی۔ یہ عورت کبھی قحبہ خانوں کی زینت رہی اور کبھی سرِ عام اس کا جسم بھیجا جا رہا ہے۔ مغربی ممالکوں میں کھلے عام عورت کے جسم کی تجارت ہو رہی ہے۔ جس کو ان کے سماج میں معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ نائٹ کلبوں، بازاروں میں جسم فروش لڑکیاں وہاں کی یونی ورسٹی وں اور کالجوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے گھر والے بھی اس حرکت کو معیوب نہیں سمجھے۔ سفر نامہ ’’ مذید آوارگی ‘‘ کا مصنف جاپان کی عورتوں اور غیر شادی شدہ کمسن لڑکیوں کی جسم فروش کو یوں پیش کرتے ہیں:
’’ یہاں بھی فیشن ایبل بوتیک، ڈیپارٹمنٹل اسٹور ریستوران ، بار اور نائٹ کلب کی بہتات دکھائی دی۔ جب یہ تمام لوازمات ایک ساتھ یکجا ہوں تواسٹریٹ ۔۔۔۔ لڑکیاں کیسے نہ ہوں۔ ۔۔۔۔واقسام کی جنس سر عام سیل پر دستیاب ہے۔ سیکس شاپ اسٹرپ ٹیز کا بھی معقل انتظام ہے ۔۔۔۔مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ توکیو کے شبینہ کلب ڈانسر لڑ کیاں رات کے دھندے سے فارغ ہو کر دن میں یونی ورسٹی میں پڑھتی بھی ہیں۔ گھر والے
اسے معیوب نہیں سمجھتے ‘‘۔
(مزید آوارگی: جاوید دانش ، ص ۷۳)
درجہ بالا سفر ناموں میں عور ت کے مختلف روپ دکھائے گئے۔ یورپ ، ایشیا، جرمنی اور چین جیسے الگ الگ ملکوں میں عورت کا کلچر اور نظریہ الگ الگ ہے۔ ان سفر ناموں کے ذریعے قاری عورت کے مختلف پہلوؤں سے آشکار ہوتا ہے۔
زاہد کے لئے زہد کا تاوان ہے عورت
ملاّ کے لئے عیش و سامان ہے عورت
سلطانہ مہر ؔ
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!