ہندوستانی ادب میں مشترکہ تہذیبی و ثقافتی رجحان

عادل احسان
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی، دہلی
Mob.No-88021**589
Email-adilehsan1@gmail.com

ہندوستان شروع سے ہی امن اور انسانیت کا گہوارہ رہاہے ۔اس کی فضاؤں میں تہذیب وتمدن ا ور ثقافت کا مہتاب ہمیشہ اپنی روشنی سے سب کو شرابور کرتا رہا ہے۔یہ اس ملک کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ساتھ مختلف ثقافتوں کی ایک دنیا آباد ہے جن میں موہن جوداڑواورہڑپاکی قدیم تہذیب،اجنتا اور ایلوراکی خوبصورت نقاشی کے نشانات ،قطب مینارکی اونچائی اورتاج محل کی خوبصورتی اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ یہ ملک صدیوںسے اپنے چمن کو سیراب کرتا آرہا ہے اور آج بھی اس کی تازگی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔یہی اس ملک کی قومی یکجہتی کا سچا تصور ہے جو اپنی رنگا رنگی ثقافت سے ہندوستانی فضاؤں کو منو ر کررہا ہے۔ہندوستانی وراثت میں یہ سب چیزیں ایسے ضم ہیں کہ کوئی طاقت اسے الگ نہیں کر سکتی۔کیونکہ یہاں سبھی مذہبوں،تہذیبوںاور ثقافتوں کا خاص احترام کیا جاتا ہے اورسبھی تیوہارمل جل کر منائے جاتے ہیں جس سے آپسی بھائی چارہ بنا رہتا ہے۔یہ ساری تہذیبیں،وراثتیں اور ثقافتیںہر فاتح قوم اپنے ساتھ لاتی گئیںاور وہ سب یہیں مستقل طور پر سکونت پذیر ہوتی گئیں جن کو یہاں کے لوگوں نے اپنایا۔ ان رسم ورواج اور رہن سہن کا تعلق کسی مذہب یا کسی عقیدے سے کیوںنہ رہا ہو۔یہ سارے رسم ورواج رفتہ رفتہ ان میں گھل مل گئے اوران سے نئے ہندوستان کاجنم ہوا ۔اس نئے ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی و ثقافتی اساس کی دیوار اتنی مضبوط ہے کہ اسے کسی بھی طرح سے گرایا نہیں جا سکتا ہے بلکہ اسے ترقی دے کر نئی بلندی کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔

ہندوستانی ادب میںمشترکہ تہذیبی وثقافتی رجحان کواگرزبان و بیان کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں مختلف رسم ورواج، عقائد ، شکل و صورت ،ذہن و مزاج ،قومی اتحاد ، امن،محبت و اخوت اور رواد اری کی ایسی ایسی مثالیںدیکھنے کو ملیں گی جس کا تصور کرنا محال ہے۔ یہ ساری ایسی مثالیں ہیں جس کی روشنی میں یہ باتیں نکل کر سامنے آتی ہیں کہ اس طرح کی مشترکہ تہذیب وتمدن اورثقافت دوسرے ملکوںمیں دیکھنے کو نہیں ملیں گی۔اس مشترکہ تہذیب و ثقافت میں زبان وبیان کے حوالے سے بات کی جائے تواس کا رشتہ بہت قدیم ہے ، کیونکہ ہر زبان ادبی دنیا میں اپنا ایک معیار رکھتی ہے اور اسی معیارکے مطابق اپنے ادب کو عروج دیتی ہے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی اردو زبان بھی ہے جس کا رشتہ دوسری زبانوں سے بہت زیادہ رہا ہے۔اردو زبان نے اس رشتے کو برقرار رکھتے ہوئے ادبی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی جس کا ایک رشتہ آریائی قوم سے بھی تھا۔آریائی قوم جب فاتحانہ انداز میں ہندوستان میں داخل ہوئی تو اس نے رفتہ رفتہ سارے شمالی حصے کو اپنے قبضہ میں لے لیااور وہاں کے مقامی باشندوںکے تہذیب ورسم ورواج میں گھل مل گئے۔ ان کے اس میل ملاپ سے ایک نئی زبان وجود میں آئی جسے ہند آریائی زبان کہا جاتا ہے۔مگر ہندوستان میں آریوں کی آمد سے پہلے دراوڑی زبان کا بول بالا تھا۔آریوں کے آنے کے بعد دراوڑی زبان دھیرے دھیرے محدود ہوتی گئی اور اس کی جگہ آریائی بولیوں نے لے لی۔اس طرح ویدک تہذیب وجود میں آئی اور سنسکرت زبان کا عروج شروع ہوا۔جب سنسکرت زبان کا رشتہ عوام سے منقطع ہونے لگا تو اس کی جگہ پراکرت زبان نے لے لی۔ پراکرت زبان کے زوال کے بعد اپ بھرنش زبان کا جنم ہوا۔اپ بھرنشوں کانیاوجودشورسینی اپ بھرنش کی شکل میںنمودار ہوا۔مگرجب اس کا سورج غروب ہوا تو اس کی جگہ اردو کی شعائیں پھوٹیںجس کی روشنی سے مشترکہ تہذیب و ثقافت کی دیوار یں روشن ہوئیں۔اس ضمن میں گوپی چند نارنگ یو ں رقم طراز ہیں:

’’اردو ملی جلی ادبی اور تہذیبی روایتوں کے بطن سے ابھری ہے اور اپنی نقش گری خود بھی کرتی ہے۔اس ضمن میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اردو ایک’ ہند آریائی زبان ‘ہے۔ہندی و بنگالی و مراٹھی سے اس کا رشتہ اصلی و اساسی ہے۔اس کا ذہن و مزاج ہندوستانی ہے لیکن اس میں عربی وفارسی اثرات کا رنگ چوکھا ہے۔اس کی شعریات باقی تمام ہندوستانی زبانوں سے اس اعتبار سے الگ ہے کہ اس نے عربی فارسی اجزا کو انڈک سے ممزوج کر کے ایک نیا ہیولاخلق کیا ہے،جس کی بدولت یہ نہ عربی و فارسی کی کاربن کاپی ہے نہ سنسکرت کی۔اردو نہ عربی کی طرح سامی خاندان سے ہے نہ فارسی کی طرح ایرانی خاندان سے،اردو لسانی ساخت و اساس کے اعتبار سے ہند آریائی ہے،لیکن دو عظیم تہذیبوں کے درمیان ربط و ارتباط نے اسے ایسی امتیازی حیثیت عطا کی ہے جو برصغیر کی زبانوں میں کسی دوسری زبان کو حاصل نہیں۔اردو گویا زبانوں کی دنیا کا تاج محل ہے جو اپنے تہذیبی وجمالیاتی امتزاجی حسن و دلکشی اور طرحداری سے اپنی الگ انفرادیت اور امتیازی شناخت رکھتا ہے۔‘‘ ۱؎

اس اقتباس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اردوایک ہند آریائی زبان ہے جس کاتعلق دوسری قدیم زبانوں سے رہاہے۔ یہ زبان صدیوں سے گلی کوچوں،پہاڑوں،صحراؤں،جنگلوں،بازاروں، خانقاہوںاور درباروںسے گزرتے ہوئے آگے اپنی منزل کی طرف بڑھی ہے۔شروعاتی دور میں اسے ہر طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا،کبھی اسے حقیر سمجھ کر باہر کر دیا گیا تو کبھی تہذیبی دھاروں نے اپنے پاس آنے نہیں دیایہی اس کی سب بڑی بدنصیبی کہی جا سکتی ہے۔لیکن جب وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی تو اسے ہر جگہ پذیرائی ملی اوریہ زبان صدیوں کا سفر طے کرکے آج اپنی منزل مقصود پر قائم ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمان براعظم ہندمیں داخل ہوئے تو اپنی مادری زبان عربی، فارسی اور ترکی کو ساتھ لائے اور جب فاتح ہو ئے تو ان کے سامنے حکومت کرنے کے لیے سب سے بڑی دشواری زبان کولے کر تھی۔کیونکہ اس وقت ہندوستان میں دوسری زبان رائج تھی اور انھیں حکومت کرنے میں دشواری پیدا ہو رہی تھی۔اسی لیے انھوں نے ہندوستانی زبان سے کچھ الفاظ لے کر اوراپنی زبان کے کچھ الفاظ ملاکر ایک نئی زبان کو رواج جسے ریختہ یا گری پڑی زبا ن کا نام دیا گیا۔ یہی زبان آہستہ آہستہ ترقی کرکے ایک زندہ زبان بن گئی۔ایک زبان کے ٹوٹنے اور بگڑنے کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر فاتح قوم اپنے ساتھ زبان اور تہذیب کو ساتھ لاتی ہیں اور مفتوح قوم دھیرے دھیرے اپنی تہذیبی و ثقافتی قوتیں کھو تی چلی جاتی ہے۔ان دونوں قوموں کے باہمی ربط و اختلاط سے جو نئی زبان اور تہذیب پیدا ہوتی ہے وہی صحیح معنوں میں نئے شعور اور نئے احساس کو بیدار کرتی ہے۔ اس نئے تہذیبی احساس سے جونئے الفاظ وجود میں آتے ہیں وہی دونوں قوموں کو آپس میں ملانے کا کام کرتے ہیں۔اس طرح یہ لشکری زبان رفتہ رفتہ مختلف تہذیبوں کو قریب لائی اور چوتھی زبان اردو کا وجودادبی دنیا میں ہوا۔

تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب وثقافت کااپنا ایک اہم مقام ہے۔اس ضمن میں ہندو اورمسلمان اپنے اپنے علمی ، تاریخی ،مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی خیالات ورجحانات ایک دوسرے سے ساجھا کرتے رہے۔جس کی وجہ سے ان کے آپسی رشتوں میں مزید مضبوطی آتی گئی۔یہی مضبوطی آگے چل کر ان دونوں قوموں کے لیے ایک مشعلِ راہ ثابت ہوئی اور ان میں جو اختلافات تھے وہ رفتہ رفتہ ختم ہو تے گئے۔یہ اختلاف اس لیے بھی ختم ہوئے کہ ان دونوں مذاہب نے ایک دوسرے کے رسم ورواج اور رہن سہن کو اپنایا۔ہندوستان میں جہاں تک تہذیب کا سوال ہے مسلمانوں کے اپنے مذہبی اور معاشرتی اصول و قوانین ہیں جن کی روشنی میں یہ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔وہیں ہندو مت کے اپنے اصول وضوابط ہیں جس سے ان کے پرستار مستفید ہوتے ہیں۔اسلامی تہذیب میں جو مذہبی اور معاشرتی اصول وقوانین ہیں ان سب کی اصل بنیاد قرآن کریم ہے۔اسی طرح ہندو تہذیب میں جو مذہبی و معاشرتی اصول و ضوابط قائم کئے گئے ہیں ان میںوید،پران، اپ نشد اورگیتا کا خاص رول ہے۔ان دونوں مذاہب کی کتابوں میں جو اپدیش دیئے گئے ہیں وہ کہیں نہ کہیںمحبت، اخوت اور ملی جلی نوزائیدہ تہذیب کی جڑوں کو مضبوط کرنے پر زور دیتے ہیں۔اس طرح یہ دونوں قومیںالگ الگ مذہب کوماننے کے باوجود ایک دوسرے کے قریب آئیںاور ان میں جو اجنبیت اور تضاد تھا وہ دھیرے دھیرے ختم ہوا۔پروفیسر محمد حسن ان دونوں مذاہب کی خوبیوں کو اس طرح بیان کرتے ہیںجیسے ان میں جنم جنم کا رشتہ رہا ہو:

’’ایک طرف مذہب کی بنیاد پر قایم کردہ تفریق تھی۔ہندو اور مسلمان ان کے مختلف مذہبی فرقے الگ الگ معتقدات رکھتے تھے مگر اکبر کے دور میں انتظامی اور سیاسی ضرورتوں کی بنیاد پر جس یک جہتی کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔اس نے بھگتی اور اسلامی تصوف کے ذریعہ اس کی فکری بنیاد فراہم کر دی تھی مگر اسے جذباتی سطح پر استوار کرنے میں عشق نے بڑا کام کیا۔یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ عشقیہ کہانیوں اور مثنویوں میں معتقد ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں عاشق و معشوق دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔غزل کے مضامین میں دین و مذہب کو عشق پر نچھاور کرنے کا ذکر بار بار آیاہے۔‘‘ ۲؎

مذکورہ اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح کی مشترکہ وراثت ہندوستان میں دیکھنے کو مل رہی ہے ۔اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں مختلف مذہبی فرقہ کے لوگ رہتے تھے۔ ان فرقوں اور مذاہب کا اپنا اپنا عقیدہ تھااور یہ اسی عقیدہ کے مطابق اپنی زندگی گزارتے تھے۔انھیں جماعتوں میں کچھ کا تعلق تصوف سے تھا تو کچھ کا تعلق بھکتی تحریک سے تھا۔اسی تصوف اور بھکتی میں ایسے ایسے مجیدانسان پیدا ہوئے جن کا تعلق انسانیت سے تھا ۔یہ مجید انسان صرف ایک اللہ کی طرف لوگوں کو راغب کرتے تھے اور اسی اللہ کی بڑائی بیان کرتے تھے جس نے انھیں انسانیت جیسی نعمت سے نوازا تھا ۔انھیں نعمتوں کا ذکرصوفی لوگ تصوف میں بیان کرتے تھے اور اپنی بات دوسروں تک پہونچانے کے لیے اسی ذرائع کا استعمال کرتے تھے۔ان صوفیوںنے اپنا زیادہ تر پیغام غیر مسلموں تک پہنچانے کے لیے تصوف یا وحدت الوجود کا سہارا لیا۔صوفیوںکا یہ پیغام جب غیر مسلموں تک پہنچا توانھوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔اس پیغام کے اثر سے دوسری قوموںمیں نئی بیداری پیدا ہوئی ۔اس بیداری سے ان میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی جس نے انھیں حق اور باطل کا فرق بتا دیا۔ یہ اس فرق کا ہی اثر تھا کہ ان میںحقیقی باتیں سمجھنے کی قوت پیدا ہوئی اور یہ اس پروپگنڈے سے باہر نکل آئے جس نے انھیںحق اور باطل کی پہچان بتادی۔اس طرح دیکھا جائے تو صوفیوں نے اپنے خیالات،رواداری اور انسانی ہمدردی سے ان میں ایسا جوش پیدا کیا ہے جس سے یہ تصوف کی طرف مائل ہوگئے۔یہ اس تصوف کا ہی کمال تھا کہ اس نے ہندو ؤں اور مسلمانوں کے بیچ آپسی بھائی چارہ کو پیدا کیااور تصوف نے ان دونوںکے بیچ کی خلیج کو پاٹنے کا کام کیا۔اس طرح ہندوؤں اور مسلمانوں میں جو اختلاف تھا اسے تصوف نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔جس کی مثالیں خواجہ معین الدین چشتی،نظام الدین اولیا،امیر خسرو،داراشکوہ ،کبیر،گرو نانک، سور داس وغیرہ کے کلام سے لگائی جا سکتی ہے۔ جنھوں نے اپنے کلام کے ذریعہ ہندوؤں اور مسلمانوں کوانسانیت کا درس دیا اور ایک پلیٹ فارم پر لا کرکھڑا کر دیا ۔

ہندوستانی تہذیب و ثقافت میں امیر خسرو کو ایک بلند مقام حاصل ہے۔انھوں نے فارسی اور ہندوی شاعری کے ذریعہ دونوں قوموں کی اصلاح کی اور ساتھ ہی ساتھ گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ان کی اس کوشش کو محب وطن کا رویہ اس لیے قرار دیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ان دونوں مذاہب اور تہذیبوں کو بہت زیادہ قریب کیا۔جس کی وجہ سے ان دونوں مذاہب کے ماننے والوںنے آپس میں ادب ، آرٹ، تہذیب، لباس، رقص ، موسیقی اور فنون ِلطیفہ کو اپنا یا۔اس طرح فارسی کے اثرات سے ہندوستان کی تہذیب و تمدن اور ثقافت پر ترکوں اور ایرانیوں کے تہذیب و تمدن کی پرچھائیاں پڑیں۔انھیںتہذیب وتمدن اور ثقافت کے اثرات یہاںکے قلعوں،محلوں اور میناروں کے درودیوار پر بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔یہ ساری نقاشی آج بھی ہندوستانی عوام کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔ جس کا عالم یہ ہے کہ اسے دور دور سے لوگ دیکھنے آتے ہیں اور اسے دیکھ کر اس کی نقاشی پر حیرت زدہ رہ جا تے ہیں۔ دوسری جانب اگر تصوف ،مذہب ،معاشرت اور اخلاق کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ امیر خسروہندوستانی نظریات کے بہت بڑے شائق تھے۔یہ ہندوستان کی مٹی سے پیدا ہوئے اوراسی ملک کی خاک میں دفن بھی ہوئے۔اس طرح دیکھا جائے تو یہ باتیں نکل کر سامنے آتی ہیں کہ ان کے لہو میں دو قوموں کا خون شامل تھا جس نے ہندوستانی فضا کو خوشگوار بنایا۔اسی خوبصورت فضا نے آخر میںان کی قدروں میں چار چاند لگا دیاجس کی وجہ سے ان کی شخصیت میں بیش بہا اضافہ ہوا۔اگر امیر خسرو اور ہندوستان کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ اجنتا ،تاج محل اور دیوانِ غالب کی طرح صدیوں سے ہماری رہنمائی کرتے آ رہے ہیں اور مشترکہ تہذیب وثقافت کو زندہ کیے جا رہے ہیں۔

جس طرح صوفیوں نے اسلام کا مرکزی تصور عقیدۂ توحید پر رکھا۔ اسی طرح رامانج نے نظریۂ توحیدکی بنیاد ویدانت پر رکھی ۔ ان دونوںکے نظریات وخیالات سے جہاںہندوستانی عوام میں حقیقت پسندی، مذہبی عقیدت اورمحبت کی ایک شمع روشن ہوئی جس نے انھیں ایک ہی ڈور میں باندھ دیا ۔اس رجحان کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام توحید کی طرف مائل ہونے لگے اور انھیں اس میں اپنی زندگی کی حقیقی تصویر نظرآنے لگی۔عوام کے اس رجحان کو دیکھتے ہوئے بہت سے صوفی سنتوں نے اپنے اپنے پیغام وہاں کی مقامی زبانوں میں دینے شروع کر دیئے۔یہ پیغام جب ہر طبقہ کے بیچ پہنچا تو سبھی نے اس کو سراہا اور اس کی جانب مائل ہونے لگے۔ ان صوفی سنتوں کے نظریات و خیالات کا اثر یہ ہوا کہ یہ جلد ہی عوام میں مشہور و مقبول ہوگئے۔اس طرح بھکتی تحریک نے جلد ہی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔بھکتی تحریک کے صوفی سنتوں نے اپنے پیغامات کے ذریعہ دونوں قوموں کو قریب لانے اور دونوں مذاہب میں جو ثقافتیں رائج تھیں انھیں نئی بلندی عطا کی جس سے ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب وتمدن اورثقافت بنی رہے۔بھکتی تحریک کے جن صوفی سنتوںنے عوام میں نئی بیداری پیدا کی ان میںگرونانک ،کبیر داس،روی داس ،سور داس،ملک محمد جائسی،قطبن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، جنھوں نے اپنے کلام کے ذریعہ لوگوں میں محبت، یکسانیت اور اخوت کا پیغام دیا۔ بھکتی تحریک کے رجحانات کو فلسفہ کے طور پر استوار کرانے میں رامانج نے سب سے نمایاں کردار ادا کیااور اس تحریک کو ایک بلندی عطا کی۔ بھکتی تحریک کے دوران ان دونوں مذاہب میں جو زبان رائج تھیں ۔ اس کی وضاحت شمیم طارق کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’جن شاعروں کو بھکتی تحریک یا بھکتی کے رجحان کا نمائندہ شاعر تسلیم کیا جاتا ہے اگر وہ ہندو ہیں تو ان کی شاعری کی صورت گری میں اسلام کے توانا عقیدۂ توحید ،سماجی مساوات کے نظریے اور عربی ،فارسی،ترکی کے لفظوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔اور اگر وہ مسلمان ہیں تو انھوں نے فارسی کے متصوفانہ شعری روایت کو ہندوستانی ذہن و تہذیب اور بھکتی کی شعری روایت سے ہم آہنگ کر کے اس کو ایک نئی شکل دینے کی کوشش کی ہے اور اس طرح بھکتی کی شعری کائنات میں اتنی وسعت اور رنگا رنگی پیدا ہوتی گئی ہے کہ اس کی مثال مسلمانوں کے ہندو ستان آنے سے پہلے کی بھکتی کی شعری روایت میں ملتی ہے نہ ہندوستان پہنچنے سے پہلے کی فارسی کی متصوفانہ شعری روایت میں۔‘‘ ۳؎

کبیر داس نے اپنے دوہوں اور پدوں کے ذریعہ معبو د حقیقی کا جو تصور پیش کیا ۔اس میں ہندو اور مسلم دونوں مذاہب کی روح صاف طور پر جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔یہ روح کہیں آزاد نظرآتی تھی تو کہیںمقرر کی ہوئی معلوم پڑتی تھی۔ان کے خیال کے مطابق خدا ہر جگہ موجود ہے اسے صرف پہچاننے کی ضرورت ہے۔کبیر داس ہندو سنتوں اور مسلم صوفیوں سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کی نصیحت کو اپنے دوہوں اور پدوں کے ذریعہ عوام تک پہنچاناچاہتے تھے کہ مشترکہ تہذیب زندہ رہے اور ان میں جو ذات پات اور رسومات کا مسئلہ سامنے آرہا ہے اسے دور کیا جائے ۔ذات پات اور رسومات کو لے کرہندوستانی تہذیب وتمدن اور ثقافت میںجو دوریاں آگئیں تھی اس کی انھوں نے کھل کر مذمت کی۔ان کا خیال تھا کہ سب کا مالک ایک ہے لیکن مذہب کے رکھوالوں نے اپنے فائدے کے لیے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیاجس سے یہ ہندوستانی بھائی بھائی ہوتے ہوئے دو مذاہب کے پیروکار بن گئے۔ان کی بھکتی میں رام،رحیم،کرشن ،کریم ، سائیں ،صاحب وغیرہ کا جو تصور ہمیںدکھائی دیتا ہے۔ وہ در اصل لوگوں کے دلوں میںعشق و محبت کا جادو بھرنے اور انسانیت کا درس دینے کے لیے ہے۔اگر یہ جنون ان کی بھکتی میں نہیں ہوتا تو شاید ان کی اصل حیثیت صرف ایک آزاد انسان کی ہوتی۔کبیر داس کی اس کوشش سے بڑی حد تک دونوں قوموں میں آپسی اتحاد پیدا ہواجس نے ہندوستانی مشترکہ تہذیب و تمدن اورتقافت کوایک نیا مقام عطا کیا۔کبیر کاایک شعر ملاحظہ ہو ؎
وہی مہادیووہی محمدؐبرہما آدم کہیے
کوئی ہندو کوئی ترک کہاوے ایک جی پر رہیے
اسی طرح ان اشعارکے ذریعہ دونوں مذاہب پر بر ملا طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
کاکر پاتھر جوڑ کے مسجد لیابنائے
تا چڑی ملاّبانگ دے کا بہرا بھیا خدائے
پاتھر پوجے ہری ملے تو میں پوجوں پہاڑ
گھر کا چاکی کوؤ نا پوجے جاکا پیسا کھائے
پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا
پنڈت بھیا نہ کوئے
ڈھائی اچھر پریم کے
پڑھے تو پنڈت ہوئے

گرونانک بھی کبیر کے راستے پر چلتے ہوئے ہندو ؤ ں اور مسلمانوں کے باطنی عقائد کو بلند کر کے مذہب کی اصل روح کو عوام تک پہنچانا چاہتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ جیسی مشترکہ تہذیبی و ثقافتی قدریں ہندوستانیوں میں پائی جاتی ہیںویسی قدریں دوسری ممالک کی قوموں میں ناپید ہیں۔ان دونوں نظریات کے برعکس ہندوستانی قوموں میں جو خرابی دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ قوم بہت جلد کسی کے جال میں پھنس جاتی ہے اور ان پر اعتبار کرنے لگتی ہے۔انھیں عیوب کی وجہ سے ان میں برائیاں پیدا ہونے لگتی ہیں جنھیں دور کرنا وقت کی اسد ضرورت تھی۔ اگر یہ برائی دور نہیں کی جاتی تو ہندوستانی معاشرے میں نئی تہذیب کا رجحان پیدا ہو جاتا اور عوام اس طرف مائل ہو نے لگتے ہیں۔یہ بات بھی پوری طرح حقیقت پر مبنی ہے کہ ہندوستانی عوام بہت جلد دوسری تہذیب وثقافت کو اپناکر اس کی پیروی شروع کر دیتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ تک نہیں ہوتا ۔اوریہ ایک ایسی اندھری دنیا میں گم ہو جاتے ہیں جہاں انھیں صرف اندھرا ہی اندھیرا نظرآتا ہے۔ ایسی ہی بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے صوفی سنتوں نے انسانیت کا ر استہ اپنایاجہاں صرف انسانیت کی بات کہی جاتی ہو ۔ اسی پس منظر میںگرو نانک کے خیالات و نظریات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جنھوں نے مذہب کے روحانی پہلو کے دست بدست اخلاقی اور عملی پہلو پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ ان کے یہاں بھی اسلامی عقیدۂ توحید کی جھلک صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی عقیدۂ توحید کی بنا پر انھوں نے کبیر کی طرح ذات پات اور سماج میں ظاہری رسوم اور عبادات کی جم کر مخالفت کی ہے۔ اپنے کلام کے ذریعہ وہ دونوں قوموں کو یہ نصیحت کرنا چاہتے تھے کہ اصل میں عبادت سے بڑی چیز انسانیت ہوتی ہے جس پر زیادہ سے زیادہ زور دینا چاہیے ۔گرو نانک اپنے کلام میں ہندوستانی رسم و رواج، رہن سہن کے ساتھ زبان و بیان،نغمہ و آہنگ اوررقص و راگ کے ساتھ ایسی بے شمارباتوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ گرو نانک کے انھیں جمالیاتی شعور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر شکیل الرحمن لکھتے ہیں:
’’اس تک پہنچنے کے لئے زیست اور وجود میں پھوٹتے راگ راگنیوں اور گونجتے ہوئے تمام نغموں کو سمجھنے کی کوشش ضروری ہے۔تمہیں خاموشی کے آہنگ کو بھی سمجھنا ہوگااور اپنے باطن کے آہنگ کو بھی ، بابا گرونانک کا جمالیاتی شعور نکھرا ہوا ہے۔ان کے کلام میں حسن کا احساس انتہائی شدیدہے۔ہندوستانی جمالیات اور خصوصاًمشترکہ ہندوستانی تہذیب اورہند اسلامی جمالیات نے ان کے ذہن کی تشکیل میں نمایاں حصہ لیا ہے۔وہ روشنی،نغمہ آہنگ،رقص،راگ کے استعار وں میں گفتگو کرتے ہیں اور خالق اور حیات و کائنات کے حسن و جمال کو حد درجہ محسوس بناتے ہیں۔
بابا گرونانک کے تجربے کے مطابق نغمہ اور خوشگوار اور لطیف آہنگ زیست کا جو ہر زندگی کی روح اور آتما ہے ۔اس نغمے کے پیچھے خالق کائنات کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔اگر ہم دنیا اور کائنات کے نغموں اور ان کے آہنگ سے رشتہ قائم کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حسن مطلق تک پہنچ نہ ہو جائے ۔‘‘ ۴؎
ادب میںجس طرح کتھاؤں،داستانوں ،نوٹنکیوں، بھرت ملاپوںاورمیلوں ٹھیلوں کی اپنی اہمیت ہے۔اسی طرح یہاں کے تیوہاروں کا ادبی دنیا میں اپنا ایک مقام ہے۔یہ سارے تیوہار اور تہذیب جب آپس میںملتے ہیں تو اس سے ایک نئے ہندوستان کا جنم ہوتا ہے۔اس نئے ہندوستان میں سبھی مذاہب کے لوگوں کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری آزادی ہے۔اسی آزادی کا اثر ہے کہ سبھی مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے مذاہب کی عزت کرتے ہیں اور ان کے تیوہاروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔اس سے ان دونوں مذاہب کے بیچ جو اختلافات ہو تے ہیں وہ دور ہوجاتے ہیں ۔ ان میں صدیوں سے چلی آرہی نفرت محبت میں تبدیل جاتی ہے۔ان نفرت کو محبت کے قریب لانے والی اصل چیزہندوستانی تہذیب وتمدن اور ثقافت ہے جس نے انھیں آپس میں ملانے کا کام کیا۔ہر تہذیب وثقافت صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد اپنی اصل صورت میںوجود میں آتی ہے جو بعد میں اپنی ایک تاریخ مقررکرتی ہے۔ان تہذیب وتمدن اور ثقافت کی داستانوں میںایک طرف نجومی،سنیاسی،جوگی،پنڈت کا ذکر ملتاہے تو وہیں دوسری طرف شری رام چندر ،شری کرشن، مہا تما بدھ،،مہاویرسوامی،خواجہ معین الدین چشتی،حضرت نظام الدین اولیا،امیرخسرو،بابافرید شکر گنج،خواجہ بختیار کا کی وغیرہ کے ذکرسے پوری داستانیں بھری پڑی ہیں ۔اسی طرح مقدس کتابوں ،تھیرتھ استھانوں،دعاؤں اور منتروں کے جاپ کے ساتھ ویسالی،گیا ،مگہر، الہ آباد ، اودھ، متھرا ، ایودھیا،کاشی،اجمیر،دہلی وغیرہ کا تذکرہ خوب ملتاہے۔ اسی طرح ان جگہوں کی تفصیلات کے ساتھ مشترکہ لباس و زیورات کے ساتھ رسومات میں منڈن ، تیجا،عیدالفطر، عیدالضحی، محرم ، شب برات ، عید ملاد النبی ،نوروز،بسنت پنچمی،جنم اشٹمی،بڑا دن،قوالی ،بھجن اور کیرتن وغیرہ کا بھی تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ دیکھنے کو ملتاہے۔ اس طرح ہمیں ہندوستانی تہذیب میں منفرد ثقافت نظرا ٓتی ہے۔
ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے سب سے بڑے نمائندہ شاعر قلی قطب شاہ تھے۔انھوں نے مسلمانوں کے تہذیبی وراثت کونہ صرف سہارا دیا بلکہ دکن کی تہذیب کو مزید نکھارا۔ان کی کوششوں سے جہاں دوسرے مذاہب کو ترقی ملی وہیں دوسری تہذیب نے اپنے پنکھ پھیلائے ۔ یہ نئی تہذیبی وراثت جب عوام میں مقبول ہو ئی تو اس کو ہر خاص وعام نے سر اہااور اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جانے لگااوروہاں کے ماحول میں ایک نئی روایت شروع ہوئی۔اس روایت کا ہی اثر تھا کہ قلی قطب شاہ کے وہاں ہندومسلم رسم ورواج اور رہن سہن کی ساری ہندوستانی تہذیبیں اور ثقافتیں پروان چڑھیں۔ان کی صداقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دکن کی عوام نے انھیں قومی یکجہتی کا سب سے بڑا مسیحا قرار دیا جس کی حقیقت ان کے دیوان میں موجود ہے۔اگر قلی قطب شاہ کی مشترکہ تہذیب کو دیکھنا ہے تو ہمیں ان کی کلیات کا مطالعہ کرنا پڑے گا جس میں بہت سی ایسی نظمیں موجود ہیں جن کا تعلق کہیں نہ کہیں ہندو مذہب سے ہے۔ چونکہ یہ ہندو مذہب کے بہت بڑے شیدائی تھے۔ان کی شادی جس عورت سے ہوئی تھی وہ خود ایک ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھی ۔اسی عہد کے دوسرے بادشاہ ابراہیم عادل شاہ ثانی (جگت گرو)ہیں ۔ان کے موسیقی میں ہمیںسنسکرت تہذیب کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔یہ ’نورس ‘میں سرسوتی کو اپنی ماں کہتے ہیں اور اس سے زبردست عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی کے گیتوں میں زبان وبیان ، تلمیحات واستعارات ،رسم ورواج ،تہذیب وثقافت ہندو دیومالا ئی داستان کے رنگ میں رنگی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ جمیل جالبی اس ضمن میں رقم طراز ہیں:
’’اس خاندان کے بادشاہوں نے ایرانی تہذیب، زبان اورادب کو اتنی اہمیت دی کہ خود فارسی اسالیب ، آہنگ ، لہجہ ، اصناف اور مذاقِ سخن ابتدا ہی میں یہاں کی مشترکہ زبان(اردو)پر چھا گئے۔جس طرح بیجاپوری اسلوب گجری کے زیرِاثر پروان چڑھ کر ہندوی رنگ و آہنگ کا حامل ہو گیا،اسی طرح گولکنڈہ کا اسلوب فارسی کے زیر اثر پرورش پاکر فارسی رنگ و آہنگ سے قریب ہوگیا۔یہی ان دونوں علاقوں کے اسلوب کے مزاج کا بنیادی فرق ہے۔جانم اپنی زبان کو گجری کہتے ہیں اور ہندوی اصناف اور اوزان استعمال کرتے ہیں۔ابراہیم عادل شاہ ثانی کے گیتوں میں بھی ہندوی اسطور اور اوزان کا استعمال ملتا ہے،لیکن اس کے بر خلاف گولکنڈہ میں ان کے معاصر فیروز ،محمود اور خیالی پورے طور سے فارسی اسلوب ،بحور اور اصناف کی پیروی کررہے ہیں۔‘‘ ۵؎

مذکورہ اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دکنی ادب میں بھی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا اثر حاوی تھا۔اسی طرح کا نظارہ ہمیں شمالی ہند میں افضل پانی پتی کے وہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔افضل پانی پتی بھی کم عمر میںایک ہندو لڑکی پر عاشق ہوگئے۔عشق کے جنون نے ان کے اندرایسا جوش پیداکیاکہ یہ گھر بار چھوڑ کر دیوانوں کی طرح زندگی جینے کو مجبور ہوگئے ۔اس لڑکی کے گھر والوں نے بدنامی کے ڈر سے اسے متھرا بھیج دیا۔جب انھیں علم ہوا کہ وہ لڑکی متھرا میں ہے تو یہ بھی متھراپہنچ کر ایک مندر میں بھجن، کیرتن کرنے لگے۔افضل پانی پتی نے اس مندر میں قیام کے دوران اپنا نام بدل کرگوپال رکھ لیا اور پجاری کے شاگرد بن گئے۔اس مندر کا دستور تھا کہ سال میں ایک مرتبہ عورتیں اس مندر میں زیارت کے لیے آتی تھیں ۔زیارت کے دوران اس لڑکی نے افضل پانی پتی کا پیر چھوناچاہا توانھوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔لڑکی اس حرکت سے ڈر گئی پھر اس لڑکی نے جب دیکھا کہ وہ میرا عاشق ہے تو اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔اس طرح یہ عاشق ومعشوق ساری دشواریوں اور پریشانیوں کے بعد ایک ہو سکے ۔افضل کی شخصیت اورشاعری پر اس واقعہ کا بہت گہرا اثر پڑا۔چونکہ افضل پانی پتی کی تصنیف’بکٹ کہانی‘بارہ ماسہ کی روایت میں لکھی گئی جس میں فراق،ہجرجیسی گونا گوںکیفیات کا دلکش نقشہ کھینچا گیا ہے۔یہ کہانی دراصل ایک عورت کی اپنے پیا سے جدائی کے غم کی صورت حال کو بیان کرتی ہے۔جب اس عورت کا پیا پردیس میں ہوتا ہے تو وہ اس کے انتظار میں کیسے کیسے شب وروز بسر کرتی ہے۔ یہ اپنی جدائی کا واقعہ بڑے درد بھرے انداز میں بیان کرتی ہے اور کہتی کہ میں کیسے تمہارے بغیر دن رات گزاروں گی۔ان سارے واقعات کے باوجودافضل پانی پتی کے کلام میںہمیں مختلف بولیوں کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں عربی، فارسی اورترکی زبان کے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔یہ سارے الفاظ جب ایک زبان کا حصہ ہو جاتے ہیں تو وہ ادب کو اور خوبصورت بنا دیتے ہیں۔ان سارے نظریات کے باوجود ان کی زبان دکنی ادب کے مقابلے بہت سلیس،صاف اور منجھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔

نظیر اکبر آبادی کے کلام میں بھی ہمیں مشترکہ تہذیب وثقافت کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔وہ بسنت ،ہولی ،دیوالی، دشہرا، راکھی، کرشن جنم اشٹمی، بانسر ی،جوگی جوگن،میلہ ٹھیلہ وغیرہ جیسے ہندو رسم ورواج کو نہایت ہی باریک بینی کے ساتھ اپنی نظموں میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں ہندوستانی تہذیب وثقافت اور روایت کی ایک خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ انھوں نے روٹی نامہ،بنجارہ نامہ،جوگی نامہ،آدمی نامہ،کوڑی نامہ، فقیروں کی صدا،کلجگ،مفلسی وغیرہ جیسی نظمیںتحریر کی ہیں۔جس میں انسانی زندگی کی صداقت، تجربات و خیالات، حرکت و حرارت،متوسط طبقہ کی سماجی بصیرت جیسے بہت سے مسائل ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ان نظموں کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نظیر نے زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں چھوڑا جہاں انسانیت کی بات نہ کہی گئی ہو۔ان کی نظموںاور گیتوںمیںدیوی دیوتاؤں،انسانوں،تیوہاروں، چرند و پرند،موسموں ، میلوںٹھیلوںکا ذکر اس کثرت سے ملتاہے کہ اس سے عام انسانی زندگی کی حقیقت معلوم ہو سکے۔ یہ اپنی نظموں اور غزلوں میں ادنیٰ انسان کی باتیں کرتے ہیںجس کی زندگی جدوجہد میں گزری ہو۔ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ اپنا کلام ایسے لوگوں کو سنائیں جو انھیں عزت دیں اور ان کے کلام کو سراہیں۔اسی لیے اس دور کے شعرا نے ان کو وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے۔ مگرانھوں نے جس طرح کا کلام پیش کر دیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ان کے کلام کے مطالعوںسے یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اگر امیر خسرو کے گیتوں کا چرچا دور تک ہے تو نظیر کی نظمیں ہمیں ہندوستانی مشترکہ تہذیب وثقافت سے قریب لاتی ہیں ۔کیونکہ آج بھی بسنت پنچمی،جنم اشٹمی اور دوسرے تیوہاروں کے موقعوں پر ان کی نظموں کے پاٹھ مندروں میں کئے جاتے ہیں ۔تاج محل کے قریب واقع نظیر کی مزار پرہر سال بسنت پنچمی کے موقع پرعرس لگتا ہے جس میں بلا تفریق مذہب و ملت ہندو اور مسلمان سبھی شامل ہوتے ہیں اور ان کے کلام کو سناتے ہیں ۔نظیر اکبر آبادی کے کلام میں جس طرح کی تہذیب وثقافت نظرآتی ہے ۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر ملک زادہ منظور احمدیوں رقم طرازہیں:
’’ان کی تشکیل فکر میں اس تہذیب وتمدن، معیشت اور معاشرت ،مشاغل زندگی اور ضروریات انسانی کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے جو گردو پیش عالم محسوسات میں بکھری ہوئی تھیں۔نظیرکے کلام کا وہ حصہ جسے مادی زاویہ نگاہ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے اور جو خوش باش زندگی گزارنے اورجسم کے تقاضوں کو اہمیت دینے سے عبارت ہے ہماری سرزمین کی قدیم ترین ارضی تہذیب سے پھوٹتا ہے جس نے تن کی دنیا اور زمین کی خوشبو کو تمام تر اہمیت بخشی ہے مگر ان کے کلام کا وہ حصہ جس میں تصوف اور دنیا کی بے ثباتی پر زور دیا گیا ہے۔ان آوارہ خرام قبائل کے مخصوص میلانات کا آئینہ دار ہے جو تاریخ کی صبح کا ذب سے ہمارے ملک کی جانب سفر کرتے رہے اور یہاں کی زندگی تہذیب اور معاشرت کا ایک حصہ بن گئے۔‘‘ ۶؎

جدیدیت کے علمبرداروں نے مشرقی تہذیب کے قدیم روایتی علامتوںکو جس خوبی کے ساتھ اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے قدیم روایتوں کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ان کے اس قدم سے جہاںپرانی تہذیب کو نئی پہچان ملی وہیں دوسری طرف ان کے یہاں جو روایتیں پھر سے ابھریںاس کا تعلق کہیں نہ کہیں ہندو دیومالائی داستانوں سے ملتا ہے۔یہی دیومالائی عناصرجب نئے طرز میں آئے تو بہت سے جدید ناقدین نے انھیں اپنی تحریروں میںاپنایا۔اس کے بعد یہ سلسلہ لگاتار آگے بڑھتا گیاجس کی وجہ سے جدیدرجحان کو آگے بڑھنے میں بڑی حد تک کامیابی ملی۔اسی طرح مشترکہ تہذیب وثقافت کو فروغ دینے میں جدید شاعری نے بھی بہت اہم رول ادا کیا۔جدید شاعری کی اس ترقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری زبان کے لوگوں نے بھی اپنا رخ اس طرف موڑ دیا۔ان کے اس قدم سے جہاں دوسری زبانوں کو فروغ ملا وہیں ہمیں نئے نئے موضوعات کے روپ میں نئے تہذیب و کلچر دیکھنے کو ملنے لگے۔

بیسویں صدی کے آخری دہائی میں مشترکہ تہذیب وثقافت کو کچھ گہن لگ گیا۔اس گہن کی اصلی وجہ سیاست تھی جس نے دو مذاہب کے ساتھ دوتہذیبوںکو بڑی حد تک جدا کر دیا۔ان سیاست دانوں نے مذہب کے نام پر ان میں دوریاں پیدا کردیںجس کی وجہ سے قومی یکجہتی میں رفتہ رفتہ دراڑ آتی گئی۔اب ہندوستانی معاشرے میں ایسا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں دو مذاہب کے ساتھ دو تہذیبیںٹوٹتی اور بکھرتی ہوئی نظرآرہی ہیں۔اس کے ٹوٹنے سے جہاں صدیوں سے چلی آرہی وراثت ختم ہو جائے گی اور ان میں جو اتحاد تھا وہ بھی رفتہ رفتہ کمزور ہوتا چلاجا رہاہے۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اب نفرت کا ایسا بازار گرم ہو گیا ہے جس کی آنچ سے ہر کوئی اچھی طرح واقف ہے اورسیاست کے گندے کھیل کولوگ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔یہ کھیل صرف اس لیے کھیلا جارہا ہے کہ ہندو مسلم کے مابین جو قومی یکجہتی قائم ہے اسے توڑ دیا جائے۔مگر عوام ان کی اس چال سے بخوبی واقف ہے کہ انھیں ایک دوسرے سے لڑاکر دور کرنے کی ناپاک سازش رچی جا رہی ہے۔اسی لیے تو بعض موقعوں پر ہندو مسلم ایک ساتھ نظرآرہے ہیں اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنا رہے ہیں۔اس کا جیتا جاگتا نمونہ ہمیں سی اے اے،این آر سی اوراین پی آرکے دوران دیکھنے کو ملا۔ یہ حکومت ہند کی ایسی چال تھی کہ وطن عزیز کے ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوںکو ان کے انسانی حقوق سے دست بردار اور اس ملک سے بے دخل کر دیا جائے ۔لیکن ہندو بھائیوں نے جس طرح کی مشترکہ وراثت کو ساجھا کیا اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اب بھی ہندوستان میں مشترکہ تہذیب و ثقافت زندہ ہے ۔جو عوام کوسیاسی،سماجی اورمعاشی فائدے سے اوپر اٹھ کر سوچتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، جن کے دلوں میں انسانیت کا درد ہے۔یہ درد اس حد تک ہے کہ انھیں یہ کہنا پڑا کہ لہو تمہارے جسم میں ہو یا میرے جسم میں ،لہو کا رنگ ایک ہے،ہمارا ذہن ایک ہے،ہماری فکر ایک ہے ، ہماری راہ ایک ہے،ہماری وراثت ایک ہے۔اسی ساجھی وراثت کی نمائندگی مولانا الطاف حسین حالی کا یہ شعر کرتا ہوا نظرآتا ہے جس میں انسانیت کی بات کہی گئی ہے ؎
یہی ہے عبادت یہی دین وایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
اسی پس منظر میں پروفیسرملک زادہ منظور احمد کا یہ شعر ملاحظہ ہو ؎
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے
بشیر بدر کا شعر بھی انسانی محبت کی بات کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ؎
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انسان کو محبت کی ضرورت ہے بہت

نظیر اکبر آبادی کی مشترکہ تہذیبی وراثت کو آگے بڑھانے والوں میںغالب،واجد علی شاہ،پریم چند،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،منٹو،اقبال،برج نرائن چکبست،تلوک چند محروم،فراق گورکھپوری،جوش ملیح آبادی،درگاسہائے سرور جہاں ،محسن کاکوروی، میراجی،حسرت موہانی،ڈاکٹرسلام سندیلوی،عظمت اللہ خاں،جان نثار اختر،راہی معصوم رضا، انتظار حسین،سریندر پرکاش،جوگندر پال، بلراج مین را،نیر مسعود،اقبال مجید،عنبر بہرائچی وغیرہ نے ادب کے ذریعہ مشترکہ تہذیب کو زندہ رکھا ۔ ان لوگوں کے کلام میں ہمیں انسانیت کا درد صاف طور پر دکھائی دیتا ہے جس میں ہندوستانی مشترکہ وراثت کی بات بار بار کہی گئی ہے۔اگر یہ مشترکہ تہذیبی و ثقافتی رجحان ہندوستانی ادب میں نہیں ہوتا تو شاید ہم سب ایک دوسرے کی وراثت کو اچھی طرح سے سمجھ نہیں پاتے اور دوسرے ثقافت ہمارے گھروں میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اردوزبان و ادب میں مشترکہ تہذیب وثقافت کے بارے میں گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے شیرینی میں شکر کو تلاش کرنا۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردوزبان وادب اور مشترکہ تہذیب لازم و ملزوم ہیںیعنی یہ ایک ہی سکے کے دو پہلو ۔علامہ اقبال کی نظم کے چند ا شعاریہاں نقل کر رہے ہیںجس میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے ساتھ قومی یکجہتی کی بات کہی گئی ہے ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا
اے آب رود گنگاوہ دن ہے یاد تجھ کو
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیںہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

حواشی
۱۔اردو غزل اور ہندوستاانی ذہن وتہذیب۔گوپی چند نارنگ۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔نئی دہلی۔۲۰۰۲؁ء ص۔۲۰
۲۔دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی و فکری پس منظر(عہد میر تک)پروفیسر محمد حسن۔اردو اکادمی۔دہلی۔۲۰۰۹؁ء ص۔۷۱
۳۔ہندوستان میں اساطیر اور فکر و فلسفہ کا اثر اردو زبا ن و ادب پر۔ترتیب۔پروفیسر قمر رئیس۔اردو اکادمی۔دہلی۔۲۰۱۸؁ء ص۔۳۶
۴۔ہندوستان کا نظام ِجمالیات’بدھ جمالیات سے جمالیات غالب تک‘(جلد سوم)شکیل الرحمن۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔نئی دہلی۔۲۰۰۱؁ء۔ص ۔ ۴۶ ، ۴۷
۵۔۔تاریخ ِادب اردو۔(جلد اول)(قدیم دور)جمیل جالبی۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ۔دہلی۔۲۰۱۷؁ء ص۔۲۹۱
۶۔انتخاب غزلیات نظیر اکبر آبادی۔مرتب۔ملک زاد ہ منظور احمد۔اترپردیش اردو اکادمی۔لکھنؤ۔۱۹۹۴؁ء۔ ص۔۲۸،۲۹

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.