تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر زورؔکے اہم کارنامے
رشدہ شاہین
ریسرچ اسکالر، حیدرآبادسنٹرل یونی ورسٹی ،حیدرآباد
Mobile no.:- 8125931***
Email:- rushdashaheen25@gmail.come
اردو ادب کے صاحب طرز ادیب ،ماہر لسانیات،مورخ دکن،ممتاز محقق،بلند پایہ نقاد اور بانیٔ ادارۂ ادبیات اردو، اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر محی الدین قادری زور ادبی و علمی دنیا کے لیے محتاج تعارف نہیں ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی کے نصف صدی سے زیادہ علم و ادب کی خدمت میں گزا ر دی ۔اردو کی بنیاد جس شہر میں ہوئی اسی شہر یعنی حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور اردو زبان کی ریاست کشمیر میں وفات پائی۔اس تعلق سے دیکھا جائے تو ان کی حیات و موت دونوں کا سر چشمہ اردو ہی رہا اور ایسی سعادتیں کم لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ قدرت کو ان سے اردو کی خدمت کروانی تھی تو بجا نہ ہوگا کیوں کہ انہوں نے اردو کے لیے جو کام کیا ہے اسے دنیائے ادب کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔بشیرانساء بیگم بشیر اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر زور کو کوہ نورسے تشبیح دی ہے۔لکھتی ہیں کہ:
’’سر زمینِ دکن ہیروں کی زمین کہلاتی ہے یہاں سے’ کوہِ نور ‘جیسے ہیرے ہی نہیں بلکہ زندۂ جاوید’ کوہِ نور‘ بھی آفتاب کی طرح ابھرے ہیں جن کی تابناکیوں سے ہندوستان جگمگا اٹھا اور دکن کا نام روشن ہوا۔انہیں فرزندان وطن میں سے ایک نامور سپوت ڈاکٹر محی الدین قادری زور بھی ہیںجن کے نام اور کام سے دنیا واقف ہے۔‘‘ (بحوالہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور مرتبہ پروفیسر مغنی تبسم،ص: 72)
ڈاکٹر زورکو اپنی مٹی اور تہذیب و تمدن سے خاص لگاؤ تھا اور اپنی زبان کو جان و مال سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے، جن کی جھلک ان کے کارناموں میں صاف دکھائی دیتی ہے ۔ان کی تصنیفات کے بیشتر حصے دکن کی قدیم یادگاروں ،دکن کی زبان ، حیدرآبادی ثقافتوںاور روایتوں ،دکنی حکومتوں کے عروج و زوال کے تذکروں سے معمور ہیں۔مدتوں یہاں کی خاک چھانی اور یہاں کی مٹی کے ڈھیروں میں دفن ہیروں کو تلاش کر دنیائے ادب کے سامنے لایا،اس سلسلے میں پروفیسر رفیعہ سلطانہ لکھتی ہیں:
’’اگر زور صاحب اس طرف توجہ نہ کرتے تو ولی سے پہلے کا تقریباً ڈیڑھ سو برس کا وہ ادبی سرمایہ جو محمد قلی قطب شاہ ،وجہی،ابن نشاطی،غواصی ،رستمی،خوشنود،طبعی،فائز جیسے اساتذہ فن کے کارناموں سے درخشاں ہے آج گوشۂ گمنامی میں پڑا ہوتا ان معنوں میں وہ اسم با مسمیٰ ہیں۔‘‘
(بحوالہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور مرتبہ پروفیسر مغنی تبسم،ص: 77)
ڈاکٹر زورنے کئی کتابیں لکھیں او ر اردو زبان وادب کو بام عروج تک پہنچایااور ساتھ ہی بہت سے لوگوں میں بھی جزبۂ عمل پیدا کیا اور ان سے کئی کتابیں مرتب کروائیں۔انہوں نے قدیم دکنی ادب کو جو صفحہ قرطاس سے تقریباً مٹ چکاتھا اسے از سر نو زندہ کیا اس سلسلہ میں خود بھی کام کیا اور دوسرو ں سے بھی کام کروایا۔
ڈاکٹر زور نے الگ الگ میدان میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں چاہے وہ تحقیق کا میدان ہو یا تنقید کا،افسانہ ہو یا شاعری،تاریخ ہو یا سوانح نگاری غرض کہ ادب کے ہر شعبے سے متعلق کتابیں ان کی جنبش قلم کی شاہد ہیں۔روح تنقید،ہندوستانی لسانیات،اردو کے اسالیب بیان ،ہندوستانی صوتیات،داستان حیدرآباد،تذکرہ گلزار ابراہیم،متاع سخن،بادہ سخن،فیض سخن،رمز سخن ، سیر گولکنڈہ،گولکنڈہ کے ہیرے،حیات محمد قلی قطب شاہ،کلیات محمد قلی قطب شاہ،میر محمد مومن،اردو شہ پارے وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں ان کے علاوہ انہوں نے قدیم ہزاروںمخطوطات کا اشاریہ اور اس پر تذکرے لکھے جو پانچ جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔ان کی تصانیف کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے تحقیقی کام کو اولیت دی اور اپنی تحقیق کے ذریعے جن رازوں کو سامنے لایا وہ قابل تعریف ہے ان کی کاوشوں سے ہی اردو ادب کی عمر میں کافی اضافہ ہوا۔اس سلسلہ میں ان سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آپ نے ادب کی دوسری اصناف کو چھوڑ کر تحقیق کا ہی راستہ کیوں چنا؟تو ان کا جواب ملاحظہ ہو:
’’میں نے اسکول کے زمانے سے ہی شاعری شروع کر دی تھی جو کالج کے زمانے میں بھی جاری رہی۔اس وقت حیدرآباد شعر وسخن کا مرکز تھا۔۔۔حیدرآباد کے گلی کوچوں میں شعر وسخن کا چرچا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر شخص شاعر بن سکتا ہے لیکن ادیب ،نقاد اور محقق بننا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہ تھی۔ہمارے کالج کے استاد وحیدالدین سلیم ہمیشہ اردو کی جدید ضرورتوں کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے اس لیے میں نے بھی عام راستے سے ہٹ کر نئے نئے کام کرنے اور اپنی مادر جامعہ کا نام روشن کرنے کی خاطر شاعری کی جگہ نثر اور اس میں بھی تحقیق و تنقید کی طرف خاص توجہ کی۔‘‘
ڈاکٹر زور کے تمام پہلوئوں میں اگر کوئی نمایاں پہلو ہے تو وہ ان کی تحقیق ہے۔اپنے تحقیقی کارناموں کے لیے انہوں نے جس میدان کا انتخاب کیا تھا وہ ان کے لیے ہر طرح موزوں تھے۔گولکنڈہ کی تہذیبی تاریخ اور دکنی مخطوطات پر مسلسل کام کرکے انہوں نے اردو کی چار سو سالہ ادبی اور لسانی روایات کی بکھری ہوئی کڑیاں فراہم کر دی ہیں اور ان کے تاریخی تسلسل کو سمجھنا آسان بنا دیا۔اردو شہ پارے ،کلیات محمد قلی قطب شاہ،میر محمد مومن ،مخطوطات کی توضیحاتی فہرستوں کی ترتیب وغیرہ ان کے تحقیقی کام کی نمایاں مثالیں ہیں۔
ڈاکٹر زور سر زمین دکن کے وہ باشندے ہیںجنہوں نے اپنے مادر وطن کو دنیائے اردو ادب میں ایک اونچا مقام دیا۔ اپنی تحقیق سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ اردو کا سب سے پہلا صاحب دیوان شاعر سلطان محمد قلی قطب شاہ حیدرآباد کا ہے۔ قلعہ گولکنڈہ اور سلاطین قطب شاہیہ سے متعلق اس قدر معلومات تھی کہ ان کو اس کا انسائیکلو پیڈیا کہا جاتا تھا۔قطب شاہی دور کا ہر واقعہ ان کی نوک زبان پر تھا اور اس طرح سناتے تھے جیسے وہ ان کے مصاحب رہے ہوں انہیں قطب شاہی عمارتوں کے متعلق اتنی معلومات تھی کہ وہ ان کے طرز تعمیر سے یہ بتاتے تھے کہ کس بادشاہ کی بنائی ہوئی ہے۔اسی طرح انہیں شہرحیدرآبادکے بانی سلطان محمد قلی قطب شاہ اور اس کے اثر سے وجود میں آنے والی تہذیب و تمدن سے والہانہ عشق تھا۔ اس عہد کے مختلف پہلوئوں کا ذکر اس طرح کیا کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کی شخصیت غیر معمولی اور بے حد پر کشش تھی ،قدرت نے اس میں ایسی بہت سی خصوصیات جمع کر دی تھیں جو کسی میں مشکل سے یکجا ہوتی ہیں۔اس کی ذات دکنی ادب اور تہذیب کی ارتقا پذیر قدروں کی علامت بن گئی تھی ۔ڈاکٹر زور نے اس کی ان تمام خصوصیات کو اجاگر کیا اور ساتھ ہی دکن کے دوسرے شعرا اور ادیب کا تذکرہ بھی بر محل کیا ہے۔بلاشبہ ان کے تحقیقی کام نا قابل فراموش ہیں۔
ڈاکٹرزور بہ یک وقت کئی کتابوں کے مواد فراہم کرتے جاتے تھے ۔جس کے نتیجے میں کئی ایک کتابیں ایک ساتھ ترتیب پا جاتی تھیں۔جب وہ حیات محمد قلی قطب شاہ کے مواد فراہم کر رہے تھے تو انہیں میر محمد مومن کے متعلق کچھ معلومات بھی حاصل ہوتی گئیںاس طرح ایک کتاب کے ساتھ دوسری کتاب بھی مرتب کر ڈالی۔میں نے اس مضمون میںتحقیق کے میدان میں ڈاکٹر زور کے اہم کارناموںکو موضوع بحث بنایا ہے اس سلسلے میں پہلی کڑی ڈاکٹر زور کی سب سے اہم کتاب کلیات محمد قلی قطب شاہ ہے ۔گولکنڈہ کے پانچویں بادشاہ محمد قلی قطب شاہ کے کلیات کی تدوین جو قدیم دکنی زبان میں ہے ان کا بڑااہم،تاریخی نیز انمول کارنامہ ہے۔جس کے ذریعے انہوں نے اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کو اردو دنیا سے روشناس کرایا اور ان کے کلیات کو جو مخطوطہ کی شکل میں تھا ترتیب و تدوین کے بعد کتابی صورت میںشائع کی۔یہ کتاب مکتبہ ابراہیمیہ ،حیدرآباد سے 1940میںمنظر عام پر آئی۔کسی گمنام شاعر کے کلیات کو مرتب کرناکوئی معرکے کا کام نہیں لیکن اِس کتاب کی اہمیت کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس سے اردو ادب خصوصاً شاعری کی عمر میں ایک قابل قدر مدت کا اضافہ ہوا ،ورنہ اس سے پہلے ولی ؔ کو ہی اردو کا پہلا شاعر مانا جاتا تھا۔ڈاکٹر زور نے نہ صرف اس کلیات کے بکھرے اور چیدہ چیدہ کلام کو یکجا کیا بلکہ اس کے ساتھ ایک طویل اور پر مغز مقدمہ لکھا کلیات کے ابتدائی 300سے زائدصفحات میں قلی قطب شاہ کی زندگی اور ان کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔اس عہد کے سیاسی و سماجی حالات کا بھی ذکر کیا ہے اور قلی قطب شاہ کے کلام پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ انہوں نے قلی قطب شاہ کی زندگی کے حالات صرف اس کی شاعری سے اخذ کیے ہیںاس لحاظ سے یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اپنی اس کتاب میں تحقیق کر کے یہ ثابت کر دیا کہ قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے اور دکنی اردو کی ہی ایک قدیم شکل ہے ۔1068صفحات پر مشتمل اس کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر زور ایک مورخ اور سوانح نگاری کی حیثیت سے اتنا ہی بلند مقام رکھتے ہیں جتنا ایک ادیب ،نقاد اور محقق کی حیثیت سے رکھتے ہیں۔
اس ضخیم کتاب میں قلی قطب شاہ کی سیکڑوں نظمیں ،غزلیں اور کچھ قصائد ،رباعیات و مثنویات وغیرہ شامل ہیں۔یہ کتاب تین حصوں میں منقسم ہے پہلے حصے میں22نظمیںہزاروں اشعار میں لکھی گئی ہیں،دوسرے حصے میں 312غزلیں 2254اشعار میں ہیں اور تیسرے حصے میں دیگر اصناف سخن یعنی قصائد،رباعیات،مراثی،ریختی اور مثنویاں389اشعار میں ہیں۔ کتاب کے آخر میں قدیم نامانوس اور مشکل الفاظ کی فرہنگ شامل کر کے ڈاکٹرزور نے اپنی کوششوں کو اور بھی زیادہ وقیع بنادیا اس سے قلی قطب شاہ کے کلام کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمجید صدیقی لکھتے ہیں:
’’یہ کلیات دکنی زبان کا شاہکار ہے اس میں آندھرا پردیش کی سیاست و معاشرت کی حسین تصویریں موجود ہیںاور اگر ہم اس کلیات کو آندھرا پردیش کی زندگی کا مرقع کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔‘‘ (مشمولہ زور نمبر،ماہنامہ سب رس،1963)
اس کتاب کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ڈاکٹر زو رصرف ایک ادیب ،نقاد نہیں بلکہ ایک بلند پایہ کے مورخ و محقق بھی تھے ۔انہوں نے واقعات کی تحقیق اور جانچ میں ہر ممکن کوشش کی ہے اور بڑی چھان پھٹک کے بعد واقعات کو ترتیب دیا ہے ۔ اس وقت کے تمدن و معاشرت پر جو نظر ڈالی ہے اس سے قطب شاہی دور کی پوری تصویر سامنے آ جاتی ہے جس چابک دستی سے واقعات کی عکاسی کی ہے وہ اہمیت کی حامل ہے۔ قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا اس حیثیت سے اس کے کلام پر جو تنقیدی نظریہ پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ڈاکٹر زور نے اس کے کلام کی خوبیوں کو اجاگر کیا ہے اور اس پر تنقید کر کے یہ واضح کیا ہے کہ قلی قطب شاہ اپنے عہد کا زبردست اور قادرالکلام شاعر تھا۔ حالاں کہ ڈاکٹر زور نے دکنی زبان پر اور بھی کام کیے ہیں اور بہت سے قدیم شاعروں وادیبوںکے فن پارے کو تلاش کیا اور انہیں مرتب کر کے شائع بھی کیا مگر انہیں وہ مقا م و شہرت نہ مل سکی جو کلیات قطب شاہ کے حصے میں آئی ہے۔کلاسیکی کتابوں میں اس کی اہمیت ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔
ڈاکٹر زور کی دوسری اہم کتاب اردو شہ پارے کے نام سے ہے۔کم و بیش356صفحات کی یہ کتاب مکتبہ ابراہیمیہ حیدرآباد سے 1929میں شائع ہوئی۔اس میں تحقیق کی رو سے نثر ونظم کے ان کارناموں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو اردو کے آغاز سے ولی دکنی تک کے دور کا سرمایہ ہے۔اس کے علاوہ مختلف ادوار کے شعرا و ادباء کے شہ پاروں کا اہم انتخاب بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے جو اس کی اہمیت اور دلچسپی میں اضافہ کرتا ہے۔ بنیادی طور پر اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلے حصے میں نثر کا انتخاب ہے دوسرے میں نظم کا۔ابتدا میں اردو ادب کا عہد بہ عہد ارتقا کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور یہی حصہ کتاب کا اہم حصہ ہے۔اس حصے کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان ابواب کے عنوان کچھ اس طرح ہیں:
1۔ باب اول: اردو ادب کے ابتدائی نقوش
2۔ باب دوم: اردو ادب بیجاپور میں
3۔ باب سوم: اردوا دب گولکنڈہ میں
4۔ باب چہارم: اردو ا دب مغلوں کے دور میں
یہ تمام ابواب تقریباً 170صفحات پر مشتمل ہیں اس کے بعد مضامین کا اشاریہ ہے۔ان اشاریوں کے بعد نظم و نثر کا انتخاب ہے،پھر ضمیمے دیے گئے ہیں جن کی تعداد آٹھ ہیں۔آخر میں اہم تاریخوں کی جدول ہے جس کا عنوان سنین رکھا گیا ہے۔اختتامیہ کے طور پر ایک عمومی اشاریہ بھی شامل ہے۔ اس کتاب پر ڈاکٹر زور نے کتنی محنت و مشقت کی ہے اس کے اظہار کے لیے بس اتنا ذکر ہی کافی ہے کہ اس میں نثر و نظم کے جو اقتباسات اور انتخابات دیے گئے ہیں ان کے حصول کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے متعدد کتب خانوں میں محفوظ قلمی نسخوں سے مدد لی گئی ہے۔
میر محمد مومن ڈاکٹر زور کی ایک اہم کتاب ہے یہ کتاب متوسط سائز کی 311صفحات پر مشتمل ہے اس میں کل دس ابواب ہیں۔میر محمد مومن قطب شاہی عہد کے پیشوائے سلطنت اور وزیر اعظم ہونے کے علاوہ بہت بڑے عالم اور مصلح بھی تھے۔اس کتاب میں میر محمد مومن کی حالات زندگی نیز علمی و تعمیری کارناموں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔اس میں ان کے خاندانی حالات ،تعلیم وتربیت،ایران میں عروج اور پھر وہاں سے دکن میں آنے اور یہاں آکر ترقی کرکے اقتدار حاصل کرنے کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے اس کے علاوہ فن تعمیر کی مہارت ،شہر حیدرآباد کی تعمیر ،ان کی جاگیرات ،وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کے کارنامے،تصنیف و تالیفات میں ان کا مرتبہ غرض تمام امور کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے صفحات ڈاکٹر زور کی فن انشا پردازی کا بطور خاص پتہ دیتے ہیں ۔اب تک اس کتاب کے تین ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔پہلی بار یہ کتاب 1941میںادارۂ ادبیات اردو حیدرآبادسے شائع ہوئی۔
میر محمد مومن کے حالات لکھنے کے لیے ڈاکٹر زور نے جو تلاش اور جستجو کی ہے وہ ان کے بہترین محقق ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ان کے حالات جو منتشر تھے ان کو جمع کرنے کے لیے نہ صرف بیسیوں کتابوں سے مدد لی بلکہ ان کے آثار قدیمہ اور فن تعمیر پر روشنی ڈالنے کے لیے کئی قصبات اور دیہات کا دورہ کرکے حالات و واقعات کو جمع کیاکئی کتابوں کے مطالعے اور کوششوں کی بدولت یہ کتاب وجود میں آئی۔
تذکرہ اردو مخطوطات کی پہلی جلد ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد سے 1943میں شائع ہوئی جو 396 صفحات پر مشتمل ہیں جس میں کتب خانہ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد میں مخزونہ مخطوطات میں سے 275 اردو مخطوطات کا تفصیلی تذکرہ پیش کیا گیا ہے۔ مخطوطات کی دوسری جلد پہلی بار ادارہ ادبیات اردو سے 1951میں شائع ہوئی جس میں 176صفحات تھے۔ اس کی دوسری طباعت ترقی اردو بیورو نئی دہلی سے 1984میں ہوئی۔ جس میں کل 228صفحات ہیں۔ اس میں کتب خانہ ادارہ ادبیات اردو کے مخزونہ مخطوطات میں سے عربی، فارسی، اردو اور ہندی کے500 مخطوطات کا تفصیلی تذکرہ پیش کیا گیا ہے۔ مخطوطات کی جلد سوم کی پہلی اشاعت ادارہ ادبیات اردو سے 1957میں اور دوسری طباعت ترقی اردو بیورو دہلی سے عمل میں آئی۔ جس میں کل دوسو مخطوطات کا ذکر ملتا ہے۔ تذکرہ مخطوطات کی چوتھی جلد 1958 میں شائع ہوئی اس میں بھی دو سو مخطوطات کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح پانچویں جلد 1959میں شائع ہوئی جس میں 250عربی، فارسی، اردو اور ہندی مخطوطات کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو پانچوں جلدوں میں مجموعی طور پر 1150مخطوطات کی وضاحتی فہرست پیش کی گئی ہے۔ لیکن ان میں چند جلدیں ایسی بھی ہیں جن میں ایک سے زائد کتابیں شامل ہیںلہٰذا 1150جلدوں میں مجموعی طور پر 1246مخطوطات ہو جاتے ہیں ان میں 760اردو کے 421 فارسی کے،52عربی کے اور 13ہندی کے مخطوطات ہیں ان تمام مخطوطات کو موضوع کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ چھٹی جلد کی ترتیب و تکمیل میں مصروف تھے کہ ان کا قلم ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ ڈاکٹر زور نے ان مخطوطات کی فہرستوں کی صرف وضاحت پیش نہیں کی بلکہ مصنفین کے بارے میں بھی ضروری معلومات فراہم کی۔ یہ کام ڈاکٹر زور نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے کیا ہے۔
مخطوطات کے حصول کے لیے انہوں نے سیکڑوں میل کا سفر کیا۔ نیز سفر میں بے شمار پریشانیوں اور سختیوں سے دو چار ہوئے۔ یہ مرحلہ زیادہ تر روح فرسا اور حوصلہ شکن تھا لیکن چونکہ ڈاکٹر زور کے دل میں ایک سچے اور کھرے محقق کی لگن کا طوفان موجزن تھا لہٰذا وہ کبھی حوصلہ نہیں ہارے ۔وہ اس راہ میں ہر دکھ اور پریشانی کا استقبال کرتے ہوئے بیدر، گلبرگہ، اورنگ آباد، بیجاپور اور حیدرآباد کے مختلف مقامات کا دورہ کیا ، نیز ان کوششوں کی بدولت ان گنت قلمی نسخے حاصل کیے۔ ڈاکٹر زور کو زمانہ طالب علمی سے ہی مخطوطات کے مطالعے کا شوق تھا، جو انہیں ہر شام کو نہایت پابندی کے ساتھ حیدرآباد کی کسی نہ کسی لائبریری میں پہنچا دیتا جہاںوہ گھنٹوں مخطوطات کے مطالعے میں غرق رہتے ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پرانے مخطوطات کو اتنی روانی کے ساتھ پڑھتے تھے جیسے کوئی چھپی ہوئی کتاب ہو۔ یہ لگن اور کاوش ان کی تحقیقی صلاحیت اور مطالعہ کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سید حرمت الاکرام لکھتے ہیں:
’’یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ ان کی دوسری تصنیفا ت و تالیفات سے قطع نظر اگر حیدرآباد اور باقی پورے ہندوستان کے مخطوطات ایک دوسرے کے مقابلے میں رکھ دیے جائیں تو اس میں حیدرآباد سبقت لے جائے گا جس کا سہرہ ڈاکٹر زور کی ذات واحد کے سر ہے۔‘‘
(مشمولہ زور نمبر، ماہنامہ سب رس، 1963)
ڈاکٹر زور تنہا ایک ادارہ تھے اردو کے بہت بڑے مخدوم اور خادم تھے۔ ادیب، نقاد، مورخ، محقق کے علاوہ وہ بہت اچھے معلم بھی تھے ، غیر معمولی تنظیمی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ ان میں مختلف النوع کا م کرنے کی خوبیاں تھیں۔ ادب کے ہر میدان میں طبع آزمائی کی۔ دکنی ادب کی تحقیق میں عمر کا بڑا حصہ صرف کیا، علمی و تاریخی کتابیں تیار کیں،دواویں مرتب کیے، حواشی لکھے، انتخابات شائع کیے، بیانات دیے، کانفرنسوں میں شرکت کی، یونی ورسٹی وں میں اردو کی تعلیم و معیار کی فکر کی، ادارے قائم کیے، خود بھی کام کیا اور دوسرے کے اندر بھی کام کرنے کی لگن پیدا کی۔ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کا دسواں حصہ بھی بہت سے ادیبوں کے حصے میں نہیں آیا۔ بیسویں صدی میں ان کی شخصیت ایک روشن مینارۂ نور کی سی تھی جس سے نئے محققوں نے روشنی اور حرارت حاصل کی اور تحقیقی میدان میں اپنی بیش بہا خدمات سے قدیم اردو ادب کے باغ کو سرسبزوشاداب بنایا۔ آپ کی شخصیت ہی وہ سر چشمہ تھی جس سے دکنی ادب کی تحقیق کا چشمہ پھوٹا ۔ اردو زبان وادب کو اس کے چار سو سالہ قدیم اور عظیم تاریخ کی قدروقیمت کا احساس دلایا۔ دکنی کے بے شمار شاعروں اور ادیبوں کو دوبارہ زندگی بخشی جن کے کارنامے پردۂ خفا میں تھے۔ میں اپنی بات مسعود حسین خاں کے اس اقتباس سے ختم کرتی ہوں:
’’ڈاکٹر زور ادارہ ادبیات اردو کے بانی و معمار تھے۔ وہ خود بھی کام کرتے تھے اور اپنے ارد گرد کام کرنے والوں کا ایک گروہ پیدا کر لیا تھا۔ دکن کی زبان، دکنی ادب، دکنی تاریخ و تہذیب کو انہوں نے از سر نو زندہ کیا۔ سر زمین دکن سے انہیں عشق تھا لیکن مشیت کو یہ منظور نہ تھا کہ جس نے عمر بھر اس سر زمین کی خدمت کی وہ اسی سر زمین میں دفن ہو۔‘‘ (مشمولہ زور نمبر، ماہنامہ سب رس،1963)
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!