پریمی رومانی : محقق و نقاد

مشتاق احمد بٹ ،کشمیر
700**87407
email.mushtaqabdullah2018@gmail.com

اردو ادب میں لاتعدادادبی شخصیات ہیں ۔جو اردو ادب کے سرمایے میں وقتاً فوقتاً اپنی تخلیقات سے اضافہ کرتی رہی ہیں ۔ہر تخلیق کار اپنے دائرہ فکر کو اپنے انداز میں ایک منظم طریقہ کار کے تحت ادبی خدمات میں محو رہتا ہے۔شاعر شعری اصناف میں ،نثر نگار نثری اصناف میں اور ٹھیک اسی طرح شاعری اور نثر دونوں پر نہایت ہی سلیقے کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ پریمی رومانی کا شمار بھی ادب کے ان پرستاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے بیک وقت شعر و نثر دونوں میں اپنی جولانی طبع کے جوہر دکھائے ہیں۔ تحقیق و تنقید کے حوالے سے ان کی اٹھان ایسی ہے کہ ان سے یہ توقع کرنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ اس میدان میں بہت آگے جائیں گے اور تحقیق و انتقاد میں نئے افق روشن کریں گے۔پریمی رومانی نے دور جدید کے ممتاز شاعروں اور اعلیٰ پایہ محققوںونقادوں میںاپنا جگہ متعین کیا ہے۔
پریمی رومانی تحقیق و تنقید سے گہری وابستگی رکھتے ہیں ۔ تحقیق وتنقید میںان کے بہت سے تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ جنمیںخاص طور سے ’’جدید اردو شاعری۔۔۔ چند مطالعے‘‘، اوراق‘‘ ،’’رد عمل‘‘ ’’تاثرات‘‘ ،’’میزان‘‘ ،’’پیش رفت‘‘،’’ اقبال اور جدید اردو شاعری‘‘،’’ مظہر امام حیات اور فن‘‘،’’ تحریر وتقریر‘‘،’’ اعتراف اور توازن‘‘ وغیرہ خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ پریمی رومانی ہمہ جہت تخلیقی فنکار ہیں ۔جنہوں نے اردو ادب کے بیشتر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ تحقیق و تنقید میں ان کا کام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی تنقیدی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے زبیر رضوی لکھتے ہیں:
’’پریمی رومانی کے تنقیدی رویے اور احتساب کے بارے میں یہی کہاجاسکتاہے کہ وہ نئی تنقیدی جسے سلیم احمد، شمس الرحمٰن فاروقی، باقر مہدی ،وارث علوی اور وحید اختر وغیرہ کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔‘‘۱؎
پریمی رومانی کی تصانیف کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ایکبھرتے ہوئے ناقد اور محقق کے طوپر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ان مضامین میں مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ ان کا مطالعہ کافی گہرا اور وسیع ہے۔ انہوں نے علامہ اقبالؔ جیسی عظیم شخصیت پر ’’اقبالؔ اور جدید اردو شاعری کے عنوان سے ایک بہت بڑا تحقیقی وتنقیدی کام کیا ہے ا سکے ساتھ ساتھ انہوں نے خاص طورپر ریاست جموں کشمیر کے ان مایہ ناز ادیبوں شاعرں پر قلم اٹھایا ہے اور ان کے ادبی کارناموں سے لوگوں کو روشناس کرایاہے جو کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے۔
تنقید وتحقیق سے پریمی رومانی کی شروع سے ہی دلچسپی تھی۔ تحقیقی و تنقیدی مضامین پر مشتمل ان کی پہلی کتاب ــ’’جدید اردو شاعری چند مطالعے‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی جس میں انہوںنے زبیر رضوی، بمل کرشن اشک، حامدی کاشمیری اور ندا فاضلی کے ساتھ ساتھ بلراج کومل، مخمور سعیدی، کرشن موہن جیسے جدید شعراء کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔شروع میں ان کا ایک مضمون ’’اردو شاعری کی نئی جہتیں‘‘ بھی شامل ہے۔ پریمی نے اس کتاب میں اپنے پسند کے شعراء کا تذکرہ کیا ہے۔مظہر امام اس کتاب کے دیباچے میںایک جگہ رقم طراز ہیں:
مظہر’’جدید اردو شاعری…چند مطالعے‘‘ بلاشبہ ایک ایسی کتاب ہے جو آج کی شاعری کے خط وخال کواجاگر کرتی ہے۔نئی شاعری کے تعلق جو غلط فہمیاں راہ پاگئی ہیں ان کو دور کرنے میں بھی یہ کتاب بالواسطہ مدد دیتی ہے۔پریمی رومانی نے مفتی کا نہیں، ادب کے سنجیدہ طالب علم ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔اچھی تنقید کے لیے اسی کی ضرورت ہے۔‘‘۲؎
پروفیسر حامدی کشمیری نے بھی اس کتاب پر مختصر رائے دیتے ہوئے اس کی تصدیق ان لفظوں میں کی ہے:
’’نئے شعراء پر اس نوع کا یعنی انفرادی شعراء کا مطالعہ پہلی بار اشاعت پذیر ہوا ہے۔‘‘۳؎
پروفیسر اسد اللہ وانی لکھتے ہیں:
’’اگر وہ جدید اردو شاعری اور شاعروں کے اپنے مطالعہ کو اسی انداز پر جاری رکھیںگے تو وہ یقیناً ایک دن جدید شاعری کے بڑے اچھےپارکھ بن جائیںگے۔‘‘۴؎
جدید اردو شاعری پر اس طرح کی کوئی کتاب وجود میں نہیں آئی تھی جس میں کہ نئی شاعری کا تفصیلی جائزہ قاری تک پہنچ سکے۔ پریمی رومانی نے اس چیز کو محسوس کیا اور اس کے لیے انہوںنے شاعروں کے انفرادی مطالعوں کو گہرائی سے دلچسپی لے لی۔ پریمی رومانی نے اپنی شاعری کے فکر کو التواء میں ڈال کر اس مضمون پر کام کرلیا۔ جو اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہ کہ انہیں نئی شاعری کے مطالعے سے کس قدر شوق رہا ہے۔ اس کتاب میں دئے گئے مضامین کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ پریمی رومانی نے انفرادی سطح پر ان شاعروں کو بڑی گہرائی سے پڑھا ہے اور ان کی شاعری کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔زبیر رضوی پریمی رومانی کی اس تنقیدی کاوش کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’پریمی رومانی کی تنقیدی رویے اور احتیاط کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ وہ نئی تنقید جیسے سلیم احمد، شمس الرحمٰن فاروقی، باقر مہدی، وارث علوی اور وحیدااختر کے فروغ دیا اس کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔‘‘۵؎
پریمی رومانی کی ایک اور تنقیدی و تحقیقی مضامین پر مشتمل کتاب’’ردعمل‘‘ ہے ۔جس میں انہوںنے اختر الایمان ،خلیل الرحمٰن اعظمی، بلراج کومل، کرشن موہن، مخمور سعیدی، وزیر آغا۔ شہریار مظہر امام، اور آزاد غزل کے حوالے سے ان شاعروں کی نظموں اور غزلوں کا بڑی محنت سے جائزہ لیا ہے۔ مزید اس میں زبیر رضوی، بمل کرشن اشک، حامدی کاشمیری، محمد علوی، ندا فاضلی کے گیت وغیرہ کا بھی جائزہ لیا گیاہے۔ حامدی کاشمیری نے ’’حرف چند‘‘ کے تحت لکھا ہے:
’’اپنے معاصرین پرقلم اٹھاتے ہوئے ایک ناقد کے لئے جو غیر جانبدارانہ رویہ ، جرأت مندی اور تاثر پذیری ناگزیر ہے۔ پریمی نے اس کا حق ادا کیا ہے۔‘‘۶؎
غرض اس کتاب کو ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی اور بڑے اہل قلم نے پریمی کی اس کاوش کو سراہا اس طرح سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔
پریمی رومانی کا ایک اور تنقیدی کتاب ’’اوراق ‘‘ کے نام سے ۱۹۸۱؁ء میں شائع ہوئی۔ ان کے اس مجموعہ میں حیرت انگیز تنوع ملتا ہے۔ کیونکہ پریمی نے اس کتاب میں جوش ملیح آبادی سیلیکر احترالایمان، طالب کاشمیری، وزیر آغا خلیل الرحمٰن، بلراج کومل، راج نرائن راز اور شہریار شاعروں پر ذکر کیا ہے۔ حالانکہ پریمی رومانی کا محبوب شاعر تو اخترالایمان ہے لیکن انہوںنے جوش ملیح آبادی وزیر آغا اور محمد علوی ک یساتھ بھی انصاف کیا ہے۔ اس میں کتاب کے بارے میں پروفیسر مسعود حسین خان فرماتے ہیں:
’’پریمی رومانی کا قدم خوب سے خوب تر کی جانب اٹھ رہا ہے اگر وہ اسی طرح ترقی کرتے رہے اور اپنے مخصوص میدان تنقید یعنی جدید اردو شاعری سے باہر نہ بھٹکے تو یقیناً کچھ عرصے بعد اردو ادب میں ان کی آواز غور سے سنی جائے گی۔‘‘۷؎
پریمی رومانی کی ایک اور تنقیدی کتاب بعنوان ’’میزان‘‘ ۲۰۰۶؁ء میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں ان کی چھتیس ۳۶ تصانیف پرتبصرے شامل ہیں۔ ان تصانیف میں ناول افسانے ڈرامے تحقیق وتنقید اوراقبالیات سبھی کچھ شامل ہے۔ ان تبصروں کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں تنقیدی رجحان نظر آتا ہے۔ پریمی رومانی نے ان تصانیف کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے۔ اس کتاب ’’میزان ‘‘ میں انہوںنے خاص طور پراقبالیات سے متعلق چار کتابوں ’’اقبال اور مشاہیر کشمیر‘‘ سیاح اقبال ‘‘ ’’اقبالیاتِ آزاد ایک جائزہ‘‘ اور مقتاح اقبال پر تبصرے شامل کئے گئے ہیں۔ اس کتاب میں انہوںنے اقبال کے فکر وفن کے کئی گوشوں کوبے نقاب کیا ہے۔ انہوںنے اقبالؔ کے افکار کو گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے۔ پریمی رومانی کا قلم صحیح سمت کی اور جارہا ہے۔ وہ پوری توجہ اور احتیاط کے ساتھ اپنی بات کہتے ہیں۔ پروفیسر مسعود حسن خان نے ان کی تنقیدات کے مطالعے کے بعد نہایت ہی جچی تلی رائے یوں دی ہے۔
’’پریمی نے تنقید کرتے وقت نہایت عزم و احتیاط سے کام لیا ہے کیونکہ ان کا ذوقِ شعری بھی نفیس ہے اس لیے کمالِ فن کی اچھی پرکھ بھی کی ہے۔جہاں فن کی کسوٹی پر اسی نظم یا شاعر کو پورا نہیں پایا، وہاں بے باکی سے انگلی بھی دھری ہے۔‘‘۸؎
’’تاثرات‘‘ پریمی رومانی کی ایک اور کتاب ہے۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے دو بچوں میور اور کونپل کے نام کیا ہے۔ تاثرات تنقیدی اور تحقیقی مضامین کا ایک گلدستہ ہے۔ اس کتاب میں پندرہ مضامین اور آٹھ تبصرے شامل ہیں۔ کتاب میں شامل مضامین میں رومانی نے ریاست اور ریاست کے باہر کے ادیبوں کی تخلیقات، ان کی صلاحیتوں اور ان کے کام کی نہ صرفوضاحت کی ہے بلکہ ان کے کام کو اپنی تنقیدی نظریے سے جانچہ اور پرکھا ہے پھر نتیجہ اخذ کیا ہے۔
حفیظ جالندھری کی شاعری کا جائزہ لینے کے بعد پریمی رومانی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ حفیظ ایک سچے فنکار ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان کی شاعری میں ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی غنائیت ہے کہ پڑھنے والوں کو اس قدر متاثر کرتی ہے کہ انہیں بار بار پڑھنے کو جی کرتا ہے اور یہی امتزاج ان کو اہم شاعر بناتی ہے۔
پریمی رومانی چونکہ کشمیر میں پیدا ہوئے۔ اس لیے ان کی شاعری اور مضامین میں کشمیر کی مٹی کی خوشبو موجو ہے۔ ان کے تحقیق وتنقیدی مضامین کا جب بغور جائزہ لیتے ہیںتوان میں اکثر مضامین ایسے ادیبوں پر ہیں جو کشمیری نژاد ہیں یا کسی نہ کسی طرح سے جموں وکشمیر سے وابستہ ہیں۔ علامہ اقبال کشمیر کے ہی تو تھے اور مظہر امام بھی چودہ سال دور درشن سے جڑے رہے۔
تاثرات میں پریمی رومانی نے اثرصہبائی، امر چندولی، بلبل کا شمیری، عابد مناوری، محمد یوسف ٹینگ، اخترمحی الدین، خطہ لداخ کے ایک مشہور شاعر عبدل غنی شیخ اور منظر اعظمی پر تفصیل سے مضامین لکھے۔ اثر تنہائی نے اردو ادب کو ’’جام تنہائی ‘‘ ’’چمنستان‘‘ راحت کدہ ، روح صہبائی اور بام رخصت جیسے گراں قدر مجموعے دیے۔ جن میں غزلیں نظمیں رباعیات اور قطعات شامل ہیں۔ سیماب اقبال کی شخصیت فلسفہ اور شاعری سے بے حد متاثر ہیں بقول رومانی ’’اقبال کی طرح اثر صہبائی بھی حسن کی خصوصیت ساری کائنات میں دیکھ لیتے ہیں۔
’’پیش رفت‘‘ ڈاکٹر پریمی رومانی کی ایک اور اہم تنقیدی وتحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے جو ۲۰۰۴؁ء میں شائع ہوا۔ اس میں پریمی رومانی نے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کے شروع پریمی رومانی نے اپنے دادا جان پنڈت شیام لال ایمہ کی پنڈت جواہر لال نہرو اور خواجہ غلام السیدین کے ساتھ یادگار تصویریں بھی شامل کی ہے اور اس کے بعد ’’اپنی بات‘‘ کے تحت ’’پیش رفت‘ میں شامل مضامین کا تعارف کروایا ہے۔ پشکرناتھ یوں رقمطراز ہیں:
ڈاکٹر پریمی رومانی نے اردو اور کشمیری زبان کے بعض اہم تخلیقکاروں کی شخصیت اور فن کے بارے میں ہمیں روشناس کرایا ہے۔اس طرح سے نہ صرف وہ علم و ادب کی ہی خدمت کرتے ہیںبلکہ اپنی مٹّی کابھی حق بھی ادا کرتے ہیں۔‘‘۹؎
ڈاکٹر پریمی رومانی اردو کے ان محققوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوںنے تحقیق کے میدان میں اپنے کام سے ایک انفرادی مقام بنایا ہے۔ آپ نے تین درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ پریمی شاعری بھی کرتے ہیں اور تحقیق وتنقید میں بھی اپنی الگ شناخت قائم کرچکے ہیں۔ اُن کو یہ علمی و ادبی ماحول اپنے والد محترم اور ریاست جموں وکشمیر کے ایک بلند پایہ محقق و نقاد آنجہانی ڈاکٹر برج پریمی سے وراثت میں ملا ہے۔
اقبال اور جدید اردو شاعری ڈاکٹر پریمی کا وہ تحقیقی کارنامہ ہے جس کو اردو ادب کے حلقوں میں ایک خاص پذیرائی حاصل ہے۔ دراصل یہ موضوع پریمی کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جو انہوںنے ایم۔فل میں لیا تھا۔ یہ تحقیقی مقالہ ۲۰۰۴؁ء میں جے کے آفسیٹ پریس دہلی سے کتابی شکل میں منظر عام پر آیا ہے۔ ۲۸۳ صفحات پر مشتمل یہ مقالہ عظیم المرتب۔ شاعر مشرق۔ شاعر اسلام مردِ قلندر، فخر پاکستان، حکیم الامت ڈاکٹر شیخ محمد اقبالؒ کی حیات اور شخصیت فکروفن ، ان کے معاصرین شعراء اور شعرائے ماضی اقبال کے اثرات کی نشاندہی کرتا ہے۔دنیائے ادب میں اگرچہ اقبال جیسی عظیم شخصیت پر بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن پریمیؔ رومانی کی یہ کتاب اپنے طورپر ایک الگ حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ کتاب موضوع اسلوب اور مواد کے لحاظ جداگانہ حیثیت رکھتی ہے جو مسلسل وسیع مطالع اور گہرے تفکر کی نشاندہی کرتی ہے۔
’’مظہر امام حیات اور فن‘‘یہ پریمی رومانی کی ایک اور مایہ ناز تحقیق و تنقیدی کاوش ہے۔ دراصل مظہر امام حیات اور فن کے موضوع پر مصنف نے جموں یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کا یہ تحقیقی مقالہ پہلی بار کتابی صورت میں ۲۰۰۶؁ء میں شائع ہوا۔ اس تحقیقی مقالہ کو پریمی رومانی نے چھہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں انہوںنے مظہر امام کی حیات کا ذکر کیا ہے دوسرے باب میں مظہر امام کی شاعری پر روشنی ڈالی ہے۔ تیسرا باب مظہر امام کافن پر مشتمل ہے۔ چوتھے باب میں انہوںنے مظہر امام کو بحیثیت نقاد پیش کیا ہے۔ پانچویں باب میں مظہر امام کا تحقیقی اشاریہ اور مونوگراف کاجائزہ لیا ہے۔ چھٹے باب میں کتابیات اور حوالہ جات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کاانتساب انہوںنے اپنے استاد محترم پروفیسر آل احمد سرور کے نام کیا ہے۔پروفیسر حامدی کاشمیری نے پریمی رومانی کی کتاب ’’رد عمل‘‘ میں حرفے چند کے تحت بہت اچھی بات کہی ہے:
’’اپنے معاصرین پر قلم اٹھاتے ہوئے ایک ناقد کے لیے جو غیر جانبدارانہ رویہ ،جرأت مندی اور تاثیر پذیری ناگزیر ہے۔ پریمی نے اس کا حق ادا کیا ہے۔‘‘۱۰؎
مختصراً پریمی رومانی کا طرز تحریر دلکش ہے۔ وہ سادہ اور صاف زبان استعمال کرتے ہیں۔ بعض نقادوں کی طرح بات چھپا کر نہیں کرتے اور نہ لفاظی کرتے ہیں بلکہ ظاہر ی طورپر متاثر کرتے ہیں لیکن معنویت سے ان کی تحریر یں خالی نہیں ہوتی ہیں۔ پریمی رومانی کی تنقید نگاری مستند فنکار فن کی تفہیم میں معاونت کرتی ہے۔ موضوعات کے انتخاب ان کے تعلق سے اپنے رویہ اور طرز تحریر کی اپنائیت اور دلکش کے باعث پریمی کی تحریریں پڑی جاتی ہیں۔ ان کا ادبی سفر صحیح سمت میں رواں دواں ہے۔آنے والے وقت میںنئی نسل کے اچھے اور سچے ناقدین میں ان کی جگہ ممتاز ہوگی۔
حواشی:
نام کتاب مصنف صفحہ نمر
۱۔پریمی رومانی۔ فکر و فن۔۔۔۔۔پروفیسر اسداللہ وانی ص ۳۶
۲۔پریمی رومانی۔ فکر و فن۔۔۔۔۔پروفیسر اسداللہ وانی ص ۶۰
۳۔پریمی رومانی۔فکر و فن۔۔۔۔۔پروفیسر اسداللہ وانی ص ۵۸
۴۔پریمی رومانی۔فکر و فن۔۔۔۔۔پروفیسر اسداللہ وانی ص ۵۴
۵۔پریمی رومانی۔ فکر و فن۔۔۔۔۔پروفیسر اسداللہ وانی ص ۵۴
۶۔ ردعمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پریمی رومانی ص ۷
۷۔اوراق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پریمی رومانی ص ۴۵
۸ردعمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پریمی رومانی ص ۴۰
۸۔پریمی رومانی۔ فکر و فن۔۔۔۔۔پروفیسر اسداللہ وانی ص ۸۹
۹۔پیش رفت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پریمی رومانی ص ۹۰
۱۰۔ ردعمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پریمی رومانی ص ۱۳
***

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.