معین اشرف کی کہانیوں میں مشرق ومغرب
شبانہ خاتون
ریسرچ اسکالر، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی ، نئی دہلی
اردو ادب میں مہجری ادب کی روایت اب رفتہ رفتہ کافی توانا ہوگئی ہے۔ اردو کے مہجری ادب کے سلسلے کو اگرتاریخ ادب کی روشنی میں دیکھا جائے تو میرتقی میرؔ کے سفر لکھنؤ کو ایک پڑائو کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس کے بعد تو ملک کے اندر ہی مختلف اغراض ومقاصد کے پیش نظر نقل مکانی کی صورت میں لوگ اپنے اپنے وطن سے باہر نکلتے رہے، اور نتیجتاً ایک ایسا ادب ظہور پذیر ہوا جس میں وطن کے چھوٹنے کی کسک، اور مٹی کی خوشبو رچی بسی تھی۔ ایک زاویہ یہ بھی تھا کہ نئی سرزمینوں میں جو لوگ سفر کرکے پہنچے تھے، وہاں کی آب وہوا اور تہذیب کو بھی ادب میں شامل کرنے کی شعوری کوشش کی۔ اس کا فائدہ اس صورت میں سامنے آیا کہ ادب کا دامن مزید وسیع ہونے لگا۔ ملک کے باہر جب سفر کی ضرورت پیش آئی تو بے وطنی کا یہ احساس مزید تیز ہوگیا، اور کچھ دیگر مظاہر بھی ادب میں نظر آنے لگے۔
ہندوستان سے براہِ راست جن لوگوں نے کناڈا کے لیے رخت سفر باندھا تھا، ان میں معین اشرف ایک اہم نام ہے۔ معین اشرف تعلیمی سلسلے سے کناڈا گئے تھے، اور پھر وہیں مستقل طور پر سکونت پذیر ہوگئے۔ ان کا تعلق اترپردیش کے ضلع اکبرپور (اب امبیڈکرنگر)کے گائوں تاج پور سے ہے۔ ان کا سلسلۂ نسب حضرت مخدوم سید اشرف جہاںگیر سمنانی سے ملتا ہے۔
معین اشرف نے اپنی پیدائش اور تعلیم کا احوال اپنی کتاب ’’ترچھے راستے‘‘ میں قلم بند کردیا ہے۔ انھیں اطلاعات کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ضلع اکبرپور کے موضع تاج پور میں ان کی پیدائش 3 جولائی سنہ 1926ء کو ہوئی تھی۔ [پہلے یہ علاقہ ضلع فیض آباد کا حصہ تھا، لیکن حکومت اترپردیش نے اب امبیڈکرنگر کو مستقل ضلع کی حیثیت دے دی ہے، اس لیے فی الوقت اب یہ علاقہ ضلع امبیڈکرنگر کے تحت آتا ہے، جس کا ضلع ہیڈکوارٹر اکبرپور ہے۔]
تعلیم کے مختلف مراحل معین اشرف نے اپنے آبائی گائوں، فیض آباد، کان پور اور لکھنؤ یونی ورسٹی میں طے کیے۔ لکھنؤ یونی ورسٹی سے گریجویٹ مکمل کرنے کے بعد سنہ 1954ء میں آٹوا یونی ورسٹی ، کناڈا سے علم سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں وہیں کنیڈین سول سروس میں ملازمت اختیار کرلی، اور تقریباً ستائیس برس تک اس شعبے میں ماہر معاشیات، چیف اور پرنسپل کنسلٹنٹ کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں:
27سال کنیڈین سول سروس میں اکانمسٹ، چیف اور پرنسپل کنسلٹنٹ رہے۔ سنہ 1981-83ء میں کل کناڈا پبلک سروس اکانمسٹ، سوشیالوجسٹ اور اسٹیٹشین کی ایسوسی ایشن کے صدر اور چیرمین بورڈ آف ڈائرکٹرس رہے۔ پبلک سروس کناڈا کی نیشنل جوائنٹ کونسل کے ممبر رہے اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جوائنٹ کانسلٹیٹیو کمیٹی کے ممبر رہے۔ دیگر پالیسی کمیٹیوں کے چیرمین اور ممبر بھی رہے۔
سنہ 1982-85ء گورنر جنرل ان کاونسل نے کینڈین پبلک سروس سپر اینویشن (پنشن) ایکٹ کی ایڈوائزری کمیٹی کا ممبر بنایا۔ … کناڈا کے علاوہ اور بہت سے ملکوں میں کام کیا، گھومے ، مٹرگشتی کی اور مصائب بھی خوب اٹھائے۔ [ترچھے راستے، معین اشرف، ص 5-6]
دوران ملازمت معین اشرف کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں کناڈا کے ایک وزیراعظم سے سروس پلیک ملی اور دوسرے وزیر اعظم سے سروس سرٹیفکٹ ملا۔ کینڈین پبلک سروس یونین سے اعلا خدمات کی پلیک ملی۔
بنیادی طور پر معین اشرف ایک ایڈمنسٹریٹر رہے۔ انھوں نے ساری زندگی حکومت کناڈا کے مختلف انتظامی شعبوں میں اپنی خدمات انجام دیں۔ لیکن اس مصروفیت کے باوجود انھوں نے لکھنے پڑھنے کا شغل جاری رکھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی اپنی موجودہ مصروفیات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پنشن لینا، کھانا پکانا، سونا، رائے مشورے دینا، گپ بازی اور تقریر کرنا، کہانی پڑھنا اور خود نوشت وغیرہ لکھنا۔‘‘ [ترچھے راستے، ص 6]
معین اشرف کی اطلاع کے مطابق ترچھے راستے ان کی پہلی کتاب ہے جو بارہ افسانوں اور ایک خاکے پر مشتمل ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں ’دوسری کے تانے بانے بن رہا ہوں۔ ‘دوسری کتاب کے بارے میں باوجود کوشش کے کوئی نئی بات معلوم نہ ہوسکی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد معین اشرف ملکوں ملکوں گھومے پھرے۔ سال میں ایک دو بار ہندوستان بھی آنا ہوتا تھا۔ ہندوستان میں زیادہ تر ان کا قیام علی گڑھ، دہلی، لکھنؤ اور وطن عزیز کچھوچھا شریف میں رہتا تھا۔ پروفیسر سید شفیق اشرفی کی اطلاع کے مطابق سنہ2006ء میں معین اشرف کا انتقال ہوگیا۔
معین اشرف ایک زندہ دل اور باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت کی جھلک ان کی کہانیوں میں بہت واضح طور سے سامنے آتی ہے۔ ان کا انداز بیان بہت شگفتہ اور مزاح سے بھرپور ہے۔ اس میں زندگی کی تازگی اور توانائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود مختصر سرمایہ ادب کے ان کی تحریر نے ناقدین ادب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ چنانچہ ان کے بارے میں گوپی چند نارنگ کا بیان ہے:
’’اس دنیا میں بہت کم لوگ رہ گئے ہیں… آپ میں کہانیاں لکھنے کی خداداد صلاحیت ہے۔ آپ کی کہانیاں حسن بیان، تہذیب وشائستگی کی مظہر ہیں۔ آپ کے قلم میں بڑی جان ہے۔ اگر آپ نہیں لکھیں گے تو خود پر ظلم کریں گے۔‘‘ [ترچھے راستے، سرورق]
مشہورافسانہ نگار رام لعل کا بیان ملاحظہ کیجیے:
’’خوب صورت زبان وبیان اور منفرد اسلوب ان افسانوں کے بنیادی وصف ہیں۔ افسانہ نگار نے کرداروں کی نفسیاتی پیچیدگی اور ان کے ماحول کو بڑے لطیف اور نازک اشاروں میں پیش کیا ہے۔‘‘ [ترچھے راستے، سرورق]
عابدسہیل رقم طراز ہیں:
’’یہ افسانے اس ملک کے متعلق ہیں جہاں کی صورت حال سے نہ ہم واقف ہیں اور نہ ان تجربات سے آشنا ہیں، لیکن ان افسانوں میں واقعات جس خوب صورت انداز میں پیش کیے گئے ہیں، اس سے وہاں کی ایک واضح تصویر ہمارے سامنے آگئی۔‘‘ [ترچھے راستے، سرورق]
ترچھے راستے کی کہانیوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے معین اشرف لکھتے ہیں:
ان کہانیوں میں زیادہ تر اس زمانے کی باتیں ہیں (1960ء کے پہلے کی) جب آٹوا (کناڈا) کی ایک دوکان میں ایک شیشی میں ایک مرچا رکھا ہوا تھا اور اس پر لفظ وارننگ لکھا ہوا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مقامی کینڈین باہر کے لوگوں سے بالکل ناآشنا تھا۔ [ترچھے راستے، ص 8-9]
اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ یہ کہانیاں جس دور کی ترجمانی کرتی ہیں، وہ کناڈائی باشندوں اور باہر کے ملکوں سے وہاں جاکر آباد ہونے والوں کے درمیان اجنبیت کا دور تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی تہذیب وثقافت سے بیگانہ تھا۔ ان کے درمیان میل جول ، محبت اور دوستی کا رشتہ ابھی قائم نہیں ہوا تھا۔ وہاں کے باشندے خود میں مگن تھے، اور باقی مہاجرین اپنے اپنے خول میں محصور؛
ہندوستان اور پاکستان سے جن لوگوں نے ہجرت کے بعد اس ملک میں سکونت اختیار کی وہ درحقیقت شرفا کا طبقہ تھا۔ جو اپنی تہذیب کو سینے سے لگائے وہاں پہنچے تھے۔ انھیں وہ قدریں عزیز تھیں جس کے دامن تربیت میں انھوں نے پرورش پائی تھی۔ اس طبقے کی عکاسی معین اشرف نے بہت دل چسپ انداز میں کی ہے:
اس وقت یہاں چند دیسی حضرات بھی تھے جو زمیندار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں اخلاق، اخلاص، تکلف اور وفاداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ہر اچھی بری بات پر ’جی ہاں! جی ہاں! بجا فرمایا آپ نے‘ کہتے رہتے تھے۔ ایک ہی شام اور ایک ہی وقت پر کئی دعوتیں قبول کرلیتے تھے، صرف اس وجہ سے کہ کسی میزبان کی دل شکنی نہ ہو۔ یہی درگت وہ اپنی محبوبائوں کی بھی بناتے رہتے تھے۔ [ترچھے راستے، ص 9]
غرض یہ کہ کناڈا ابتدا میں مختلف ثقافتوں کا مرکز بنتا رہا لیکن ان میں آپس میں کوئی تعلق اور ربط نہیں تھا۔ سبھی لوگ آزادانہ طور پر رہتے تھے۔ معین اشرف ان حالات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
حکومت کناڈا نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اور مقامی وغیرمقامی کا آپس میں میل جول بڑھانے کے لیے وزارت ملٹی کلچرزم اور دیگر ادارے قائم کردیے۔ اب آپ چاہے کولھے مٹکاکر ناچیے یا قزاقوں کی طرح کودپھاند کر ناچیے۔ اردو ہندی یا کسی دوسری اپنی زبان میں نظم یا نثر لکھیے، حکومت آپ کی ہر طرح سے مدد کرے گی۔ اب یہ ملک کالے گورے، نیلے پیلے، ایشین افریقن؛ ہر قوم وملک کے لوگوں کا ایک سنگم بن گیا ہے۔ … اب سب کشل منگل ہے۔ یہ کہانیاں کچھ انھیں کراس کلچرل حالات پر مبنی ہیں۔‘‘ [ترچھے راستے، ص 10)
معین اشرف کی کہانیاں سیدھے سادے انداز میں مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے فرق کو واضح کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں۔ قدم قدم پر انھوں نے مشرق کے جاگیردارانہ اور زمیندارانہ معاشرت کی خامیوں اور اس کی بے عمل ذہنیت کا موازنہ مغربی ملک اور خاص طور سے کناڈا کی تہذیب سے کیا ہے، جہاں انسان سے زیادہ انسانیت اہمیت رکھتی ہے، اور جس ملک میں رنگ ونسل، مذہب وعقیدے کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔
معین اشرف کی کہانیوں میں ایک معروف کردار جعفری ہے جو مشرقی ذہنیت کا حامل اور مشرقی اقدار کا نگہبان ہے۔ اس کی شخصیت جاگیردارانہ ذہنیت کی عکاس ہے، اور قدم قدم پر اسے اس بات کا احساس رہتا ہے کہ وہ ایک عظیم الشان تہذیب کا پروردہ ہے۔ یہ ایک خاص قسم کا ناسٹلجیا ہے۔ معین اشرف کی کہانی میں یہ کردار الگ الگ مشرقی تہذیب کی ترجمانی کرتا ہے۔ چوں کہ ان کا انداز بیان بہت شوخ اور شگفتہ ہے، اور طنزومزاح کی بدولت اس میں دل کشی کا بھی ایک خاص رنگ شامل ہوگیا ہے، اس لیے بعض اوقات ہماری نگاہیں اس موازنے پر اور پھر مصنف کی ترجیحات تک پہنچ نہیں پاتیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ معین اشرف کی کہانیاں اسی تضاد کو پیش کرتی ہیں۔ وہ مشرق ومغرب کی صالح اور توانا قدروں کو اپنانے اور ازکار رفتہ روایات سے لاتعلق ہونے کی وکالت کرتے ہیں۔ وہ زندگی کی مثبت اقدار کو خواہ وہ مشرق کی ہوں یا مغرب سے آئی ہوں، اپنانے میں دریغ نہیں کرتے۔ یہ زندگی کا رجائی اور مثبت انداز ہے۔ ان کی کہانی ’اسٹوپڈ مہاراجا‘ میں یہی تضاد دکھانے کی کوشش ہے۔
مشرقی تہذیب کا پروردہ شخص جب مغربی ملک میں جاتا ہے تو اسے کس طرح قدم قدم پر اپنی اقدار کی شکست وریخت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لباس، رہن سہن، طور طریقہ، محبت کے ادب آداب، زندگی کی قدریں، خواتین کے تئیں رویہ؛ غرض کہ ہر قدم پر ایک تضاد کی کیفیت ہے۔ ان تضادات کو تسلیم کرتے ہوئے معین اشرف کی کہانیاں مثبت انداز میں آگے بڑھتی ہیں۔
مثال کے طور پر رہن سہن کا انداز:
’’ جیف! تم نے میرے کتے کو مارا۔ لعنت ہو تم پر، میرے ماں باپ کو اس سے دلی تکلیف ہوئی ہے۔ کتا انسان کا سب سے عزیز دوست ہے اور آپ اسے مارتے ہیں۔‘‘
’’انسان کے دوست انسان ہوتے ہیں، مجھے جانوروں سے دوستی کا کوئی شوق نہیں ہے‘‘ جعفری نے ترش روئی سے کہا۔ ’’جانور پھر جانور ہوتا ہے۔ کہیں کاٹ لے تو؟ ویسے کہا جاتا ہے کہ جس گھر میں کتے ہوتے ہیں اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔‘‘ [ترچھے راستے، پہلی ڈیٹ، ص 31]
ایک کہانی ’پنڈت ٹروڈو تیواری‘ میں دونوں ملکوں ہندوستان اور کناڈا کی شہری سہولیات کا موازنہ کیا گیا ہے، اور یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان میں رشتوں اور رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دیگر متعارفین کی سماجی طور سے بہت اہمیت ہے۔ رشتوں کی ڈور بہت مضبوطی سے ایک دوسرے کو باندھے رکھتی ہے، جب کہ کناڈا میں معاشرے کی ساخت اس طرح کی نہیں ہے۔ وہاں فرد کی اہمیت ہے، فرد کی پسند ناپسند، تحفظ، صحت، تندرستی، اظہار رائے کی آزادی وغیرہ کا بہت سنجیدگی سے خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کہانی میں ایک مریض اسپتال میں داخل ہوتا ہے اور وہاں کا اسٹاف اس کی تیمارداری میں کس حد تک منہمک ہوتا ہے، ایک اقتباس سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے پیشہ میں ہم اکثر اس قسم کے الٹے سیدھے سانحات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ ہاں میں اتنا ضرور کہوں گی کہ ہم نرس ، ڈاکٹر اور ہمارے کناڈا کے سب اسپتال انسان اور انسان کی زندگی کو بچانا، اس کی دیکھ بھال کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ لہٰذا آپ بالکل نہ گھبرائیے، یہاں آپ لوگوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘ [ترچھے راستے، ص 51]
جب انسان ایک ملک سے کسی دوسرے ملک میں جاکر آباد ہوتا ہے یا ایک معاشرے سے نکل کر جب کسی نئے معاشرے کا فرد ہوتا ہے تو اسے نت نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ معاشرت کی سطح پر ، رہن سہن، رسم ورواج، ادب آداب ، تہذیب کی سطح وہ ایک نئی صورت حال سے دوچار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کی شخصیت شکست وریخت کے عمل سے گزرتی رہتی ہے۔ نتیجے کے طور پر دو صورتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ دونوں معاشروں کے درمیان ایک پل بنانے میں کامیاب ہوتا ہے اور دونوں معاشرتوں کی مثبت اقدار کو اپنی شخصیت میں تحلیل کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر آگے بڑھ جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اس کی شخصیت میں ایک ناسٹلجیائی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اسے ہر نئی چیز سے وحشت معلوم ہوتی ہے اور وہ پیچھے کی طرف لوٹ جانا چاہتا ہے۔ اس صورت میں وہ کئی دوسری طرح کے نفسیاتی مسائل سے گھرجاتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کی شخصیت پارہ پارہ ہونے لگتی ہے۔ معین اشرف کی بیش تر کہانیاں زندگی کی مثبت اقدار کو شخصیت میں ضم کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ ان کے کردار دو متضاد معاشروں کے درمیان افہام وتفہیم کا راستہ نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں، نیز روشن خیالی کا استعارہ ہیں۔ یہ کردار بہت بے تکلفی سے مختلف عنوانات پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ ان کے مرد اور عورت کردار مختلف سنجیدہ اور نازک موضوعات پر گفتگو کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتے۔ ان کرداروں کی مدد سے معین اشرف کناڈائی معاشرت کی بہت ساری اصطلاحوں سے ہمیں متعارف کراتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ بین السطور میں ان کا نقطۂ نظر بھی واضح ہوتا جاتا ہے۔ ’پنڈت ٹروڈو تیواری‘ میں ایک مکالمے سے اس کی وضاحت کی جاسکتی ہے:
’یہ ہینکی پینکی Hanky Panky کیا ہوتا ہے؟‘
’اب میں آپ کو کس طرح سے سمجھائوں۔ اس کو اس طرح سے دیکھیے کہ جیسے آپ کسی سے بہت قریب ہوجائیں اور بغیر نکال کے دولھا دلھن کا کھیل کھیلتے رہیں۔ آپ میری بات سمجھ گئے نہ؟‘ [ترچھے راستے، ص 53]
مشرقی اور مغربی معاشرتوں میں خاندان اور کنبے کا تصور بھی جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ مشرق میں خاندان کا عمومی تصور مشترکہ نظام خاندان کا تصور ہے، جہاں کنبے کے تمام افراد یکجائی میں رہتے ہیں۔ دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں۔ والدین، چچا، دادی دادا، رشتے دار، خالہ ماموں؛ یہ تمام کے تمام رشتے بہت مضبوط ڈور سے بندھے رہتے ہیں۔ گائوں محلے کے ایسے افراد بھی جن سے خون کا رشتہ نہیں ہوتا انھیں بھی چچا، ماموں، دادا، دادی وغیرہ ناموں سے ہی مخاطب کیا جاتا ہے۔ مغربی طرز زندگی میں یہ رشتہ تصور خیال میں نہیں آسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر عام طور سے نیوکلیر یعنی وحدانی خاندان کا تصور ہے، جس میں ماں باپ، اور بال بچوں کے علاوہ کوئی دوسرا شریک نہیں ہوتا۔ یہ دو تہذیبوں کا بہت نمایاں فرق ہے۔ ایک مکالمے میں اس کی ترجمانی اس طرح کی گئی ہے:
’اب میں ان ساری باتوں کا خلاصہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے ابھی کہا ہے کہ آپ غیرشادی شدہ ہیں۔ پھر آپ نے کہا ہے کہ جو باہر حاملہ لڑکی بیٹھی ہے، وہ آپ کی بہن ہے۔ پھر آپ نے کہا کہ آپ کی بہن کی شادی آپ کے بھائی سے ہوئی ہے۔ اور آپ کا آخری نام جعفری ہے، اور آپ کے بھائی کا خاندانی نام تیواری ہے۔ کیا میں یہ سب صحیح کہہ رہا ہوں۔‘
’ڈاکٹر صاحب! آپ بالکل صحیح فرمارہے ہیں۔‘ جعفری آہستہ سے بولے۔
’اور آپ نے یہ بھی کہا کہ آپ باہر بیٹھی ہوئی لڑکی اور اس کی دونوں بہنوں سے محبت کرتے ہیں۔ صحیح ہے کہ نہیں؟ آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ کے بیس ماں، سولہ دادیاں، اور خداجانے سو باپ اور دو سو بھائی بھی ہیں۔ صحیح ہے کہ نہیں؟ ڈاکٹر کانٹ میز پر گھونسا مارکر بولے۔
معین اشرف اسی کہانی میں دونوں معاشروں میں افہام وتفہیم کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہندوستانی معاشرے کا فرد اپنے رشتوں کے جواز کو ثابت کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو پھر وہ مغربی معاشرے کی رشتوں کی بحث کو چھیڑکر ایک درمیانی راستے کی تلاش کرتا ہے۔ یہ مسئلہ در اصل ایک دوسرے کی تہذیب کو نہ سمجھ پانے اور تعصب کی کارگزاری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جو رویے ہماری معاشرت کے مستحسن رویے ہیں وہی اجنبیوں کے لیے تختۂ مشق بن جاتے ہیں۔ ایک مکالمہ اس طرح ہے:
ڈاکٹر! ہندوستان کے گائوں میں ہم سب ایک دوسرے کے بھائی بہن ہوتے ہیں اور سارے بزرگ ہمارے باپ ہوتے ہیں۔میرا گھر ان کا گھر ہوتا ہے اور ان کا گھر میرا گھر ہوتا ہے۔ ہماری بہن جو باہر بیٹھی ہے اس کے بچہ ہونے والا ہے اور یہ سنکی ڈاکٹر اور نرس یہ سمجھتے ہیں کہ میں اس کے بچے کا باپ ہوں اور بقول ان کے کچھ ہینکی پینکی ہے۔ دیکھیے اگر میں دوسروں کی مصیبت میں کام نہ آیا تو میں لغو قسم کا انسان ہوا کہ نہیں؟ …… ڈاکٹرنی صاحبہ! اب آپ بتائیے کہ آپ ایک نرس کو بہن کہہ کر بلاتی ہیں کہ نہیں؟ لیکن وہ آپ کی بہن نہیں ہے، اور پوپ صاحب جن کی شادی نہیں ہوئی ہے، ان کو سب فادر (باپ) کہہ کر بلاتے ہیں کہ نہیں؟ اگر یہ سب صحیح سمجھا جاتا ہے تو پھر میں اپنے گائوں والوں کو بھائی بہن، ماں باپ کیوں نہیں کہہ سکتا ہوں۔
معین اشرف کی ایک کہانی ہے جس کا عنوان ہے ’شہ بالا‘۔ بیانیہ اور مکالماتی تکنیک کے سہارے اس کہانی میں افسانہ نگار نے مغربی تہذیب کی ایک رسم اور اس کے نتائج پر روشنی ڈالی ہے۔ کہانی کا ہیرو آگس ٹینو بڑی عجلت میں رہتا ہے اور چند ہی مہینوں میں چار چار شادیاں کرنے کا ناقابل تسخیر کارنامہ انجام دیتا ہے۔ شادی بیاہ کا مشرقی تصور جس کا ایک مقدس پہلو بھی ہے، وہ مغربی تہذیب میں موجود نہیں۔ آزادیِ فکر وخیال کے نام پر شادی کرنے اور رشتوں کے جلد بکھرنے اور اپنی اپنی الگ راہ لگنے کی وارداتیں عام ہیں، اور وہ معیوب بھی نہیں۔
معین اشرف نے اس کہانی کے ذریعہ مغربی طرزِ ماندوبود کی جھلک دکھاکر اور اس کے نتائج سے قاری کو مطلع کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشرقی ممالک کا قاری اس افسانے کی مدد سے وہاں کی زندگی اور نشیب وفراز سے بہتر طور پر واقف ہوتا ہے۔ دراصل اس کہانی کا انداز بیانیہ اور مکالماتی تکنیک کے سہارے آگے بڑھتا ہے، لیکن اس میں بین السطور میں طنز ومزاح کی لہروں کو بہت آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ چوں کہ معین اشرف کا عام انداز شگفتگی کا حامل ہوتا ہے اسی اسلوب سے انھوں نے اس سنجیدہ موضوع کو بیان کیا ہے۔
تہذیبوں کے تصادم اور نسلوں کے درمیان روزبروز حائل ہوتے ذہنی اور تہذیبی فاصلوں کی کہانی ’نثار میں تری گلیوںکے…‘ میں بیان کی گئی ہے۔ مشرقی ممالک کے والدین بہتر معیار ِ زندگی کی تلاش میں جب ہجرت کا کرب اٹھاتے ہیں تو انھیں بہت ساری آزمائشوں اور قربانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ذہنی طور پر ایک قسم کا Transformation ہوتا ہے۔ ایک تہذیب سے دامن کش ہونا اور نئی تہذیب کے چیلنج کو قبول کرنا؛ لیکن بہتر زندگی کی تلاش کا دبائو اس قدر ہوتا ہے کہ مہاجر اپنی تمام پسند وناپسند کے باوجود اس نئے چیلنج کے سامنے سپر ڈال دیتا ہے، اور اس قدیم تہذیب کو جس کے سایے تلے اس کی تربیت ہوئی تھی، پس پشت ڈال کر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب ظاہری طور پر وہ سارے آرام اور چین وسکون تو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن نئی نسل کا فاصلہ اس قدر زیادہ ہوجاتا ہے کہ اس خلیج کو پاٹنا اس کے بس میں نہیں رہ جاتا۔ زیر نظر کہانی میں اس بڑھتے ہوئے فاصلے کو ایک المیے کے طور پر اس طرح دکھایا گیا ہے کہ مشرقی ماحول کا پروردہ ایک باپ جب اپنے بیٹے سے مکالمہ کرتا ہے اور اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تو لڑکا الٹے باپ پر انگشت نمائی کرنے سے نہیں ہچکچاتا:
اب رہا ہمیں پیدا کرنا تو اس کا احسان مجھ پر نہ جتائیے۔ اس کو ایسے سمجھیے کہ ہم لوگ آپ کے لطف اور عیاشی کا نتیجہ ہیں۔ [ترچھے راستے، ص 94]
جب یہ مکالمہ آگے بڑھتا ہے اور ماحول میں مزید تلخی گھلنے لگتی ہے تو باپ اپنے بچے کو تنبیہ کی غرض سے ایک طمانچہ رسید کرتا ہے۔ لڑکا چونک جاتا ہے۔ وہ خاموشی سے تہ خانے میں جاکر پولیس کو فون کردیتا ہے۔ پولیس آتی ہے ، ڈاکٹر گرفتار ہوتا ہے اور عدالت کا سامنا کرنے کے بعد ہی اس کی گلوخلاصی ہوتی ہے۔ اس بے عزتی کے بعد باپ نے پاکستان کا فوری ٹکٹ خریدا اور پاکستان ایرپورٹ پر پہنچتے ہی اپنے بیٹے کی پٹائی شروع کردی۔ بیٹے نے پولیس تو بلائی، مگر یہ پاکستانی پولیس تھی۔ لڑکے کی ایک نہ سنی گئی اور اسے اپنے باپ اور پولیس دونوں کی مار اور ڈانٹ سہنی پڑی۔ پولیس والوں نے بچے کو ڈانٹتے ہوئے کہا چلے جائو اور جاکر اپنے باپ سے معافی مانگو ورنہ ہنٹر سے کاٹ کر رکھ دوںگا۔
افسانہ یہاں مکمل ہوگیا لیکن جو بات معین اشرف روشن کرنا چاہتے تھے وہ یہ کہ تہذیبوں کے تصادم، اور زندگی کے بدلتے رویوں کی وجہ سے نفسیات میں کس قدر تبدیلی ہوتی ہے۔ مغربی اور مشرقی ممالک کے تہذیبی رویوں کا فرق اس صورت میں سامنے آتا ہے کہ مغرب میں فرد کی آزادی کی بہت اہمیت ہے۔ معاشرہ، سماج اور تہذیبی رویے اس کے تابع ہیں، جب کہ مشرقی طرزِ زندگی میں معاشرہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے، اس کے سامنے فرد کا کوئی وجود نہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہاں چھوٹے بڑے کے حفظ مراتب بہت اہمیت رکھتے ہیں جب کہ مغرب میں افراد کے بنیادی حقوق کو کسی بھی صورت میں پامال کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی۔
معین اشرف کی ایک دلچسپ کہانی ہے: ’کرسمس کا مشاعرہ‘۔ یہ مہاجرین کی نفسیات کا ایک لازمی پہلو بن جاتا ہے کہ جس معاشرت سے ہجرت کرکے وہ نئی سرزمین اور نئی ثقافت میں پہنچے ہیں، وہاں اپنی قدیم ثقافت کے نقوش کو زندہ رکھیں۔ یہ عمل ماضی کی بازیافت یا ناسٹلجیا کا حصہ ہوتا ہے۔ وطن عزیز کی ایک ایک شے سے ان کو ایک خاص قسم کا لگائو اور انس ہوتا ہے، اور اس کلچر کی راہ ورسم سے پوری طرح واقفیت کے بغیر بھی مہاجر ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ یہ عمل اس کی شناخت کا ایک لازمی جز بن جاتا ہے۔
برصغیر سے ہجرت کرکے بہت سارے لوگ کنیڈا میں آباد ہوگئے ہیں، اور اس ملک کے قوانین کی روشنی میں انھیں اپنی تہذیب وثقافت کے فروغ کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ ایسی صورت میں مشاعروں کے انعقاد سے تہذیبی ترجمانی اور اس کی جلوہ گری سے ایک صورت بنتی ہے۔ جب ہم برصغیر اور کناڈائی مشاعروں کے خدوخال کا موازنہ کرتے ہیں تو بہت دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔ معمولی علمی صلاحیت کے حامل مہاجرین حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہوکر جب اپنے بل بوتے مشاعرے کا انعقاد کرتے ہیں تو کیسی مضحکہ خیز صورت سامنے آتی ہے، ایک اقتباس سے اس کا اندازہ ہوگا:
خواتین وحضرات! اب ہم اپنا مشاعرہ اپنے بل بوتے پر ہی کریں گے اور زوروشور سے کریں گے۔ ہمت مرداں مددِ خدا… اب یہ سب پٹھے اپنے ہی اکھاڑے کے ہیں۔ اسی شہر ٹورنٹو اور اس کی وادیوں اور گھاٹیوں کے باسی ہیں۔ اب آ! چل بیٹا، الفریڈ آجا اور جھونک دے دھرکے۔ کچھ ایسی چیز سنا
جو قلب کو گرمادے اور روح کو تڑپا دے
سترہ سالہ الفریڈ صاحب پھٹی ہوئی جین، بغیر بٹن کی کالی قمیص، ایک کان میں چاندی کا بندا، گلے میں سونے کی لاکٹ جس پر اللہ کندہ تھا، سے آراستہ وپیراستہ تشریف لائے اور تخت پر بیٹھ گئے۔ اپنے جوڑے کا ربڑبینڈ کھولا اور کاکل کو جھٹکا، اور پھر جیب سے انگریزی میں لکھا ہوا ایک پرزہ نکالا اور بڑے ترنم سے چیخے:
وہ نبیوں میں رحمٹ لکھب پانے والا
مراڈیں گاڑیبوں کی بڑ لانے والا
یہاں یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اس نئی سرزمین پر مشرق کے اس تہذیبی مظہر کی قیادت معمولی علم کے حامل افراد کے ہاتھوں میں ہے، جو اس کے حقیقی پس منظر سے کماحقہٗ واقفیت نہیں رکھتے۔ البتہ ایک فطری جذبہ ہے وطن سے محبت کا، اور اس کی ہر چیز سے تعلق خاطر کا، جس کی بدولت وہ مشاعرے کا انعقاد کرتے ہیں۔ وطن کی ہر چیز سے انھیں محبت ہے، خواہ وہ اس کے نتائج اور اس کی اہمیت سے کم واقف ہی کیوں نہ ہوں؟ یہ بات معلوم ہے کہ اردو مشاعروں کی ایک تہذیب رہی ہے، لیکن یہ نئے لوگ اس سے بھی بیگانۂ محض ہیں۔ لباس، وضع قطع، اندازِ گفتار، بیٹھنے بٹھانے کے ادب آداب؛ ہر عمل میں اجنبیت کا عکس نظر آتا ہے۔ یہ مہاجرین کا خلوص ہے جو اس خام شکل میں بھی اپنی ثقافتی سرگرمیوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ایک کہانی ’گروجی‘ ہے جس میں مغربی ممالک میں اندھی عقیدتوں کے ہاتھ پائوں پھیلانے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مغربی ممالک میں آباد مہاجرین اگرچہ ظاہری طور سے ترقی پسند اور آزادخیال ہونے کا دم بھرتے ہیں، لیکن حقیقت حال بعض اوقات اس کے برعکس ہوتی ہے، یعنی مشرقی ممالک کی اندھی عقیدتیں وہاں بھی اپنے اثرات مرتب کرتی رہتی ہیں۔ صارفیت بھرے سماج میں سادھوسنتوں کی موجودگی اور مادہ پرست دنیا میں ان کے اپدیشوں کی بازارکاری ایک نئی طرح کی صورت حال پیدا کررہی ہے۔ ان سادھو سنتوں کے قول وفعل کے تضاد کو بھی روشن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دنیاداری کے بکھیڑوں سے آزاد لیکن لاکھوں کروڑوں کے سرمایہ دار؛ اس تضاد کے سہارے معین اشرف نے اس کہانی کا تانابانا تیار کیا ہے، اور یہ تاثر دیا ہے کہ مغربی ممالک اور ان ممالک میں آباد مشرق ومغرب کے باشندے لاکھ ترقی پسندی کا مظاہرہ کیوں نہ کریں ، ان کے اندر اندھی عقیدتوں کی ایک دنیا آباد رہتی ہے۔
کناڈا کی زندگی کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ رٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی جو عام طور پر بہت بوجھل، بے رونق اور خشک ہوجاتی ہے، وہاں حکومت کی طرف سے اس قدر مراعات حاصل ہیں کہ رٹائرمنٹ اس معاشرے میں ایک نعمت سے کم نہیں معلوم ہوتا۔ مشرقی ممالک میں رٹائرمنٹ کے بعد زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔ زندگی بھر ملازمت کرنے والا فرد نئی قسم کی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے، وہیں اس مغربی ملک میں رٹائرمنٹ کے بعد آدمی اپنی نئی قسم کی زندگی کی ابتدا بہت جوش وخروش کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے معاشرے میں اس قبیل کے افراد کو فاضل شخص نہیں سمجھا جاتا۔ اس موضوع پر معین اشرف کی ایک کہانی ’بوڑھے شہری‘ کے عنوان سے ہے جس میں افسانہ نگار نے اپنے مثالی کردار جعفری اور مسٹر سمیع کے سہارے کہانی کا تانابانا تیار کیا ہے۔ سمیع بوڑھے اور رٹائرڈ ہونے کے فوائد پر روشنی ڈالتے ہیںاور جعفری ان مراعات کو سوالیہ نشان کی طرح منہ کھولے سن رہے ہیں۔ سمیع نے مکالماتی انداز میں کناڈائی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر بے لاگ تبصرہ کیا ہے، وہاں کی خوبیوں اور خامیوں پر ذاتی نقطۂ نظر سے روشنی ڈالی ہے۔ جعفری اس مغربی ملک کی خامیوں سے نالاں اور شاکی ہے، جب کہ سمیع مشرق ومغرب کا موازنہ کرتے ہوئے جعفری کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
دیکھیے نا! مجھے تین پنشن ملتی ہے۔ ایک اپنے کام کی، ایک ساٹھ برس والی اور ایک بڑھاپے کی۔ یہ سب ملاکر میری ضروریات کے لیے کافی ہیں۔ میری ٹیکس رٹرن بے چارے انکم ٹیکس والے خود بھرتے ہیں۔ اب کون سا ایسا ملک ہے جس میں انکم ٹیکس والے آپ کو بٹھاکر کم سے کم انکم ٹیکس دینے کے گر سکھائیں گے۔ [ترچھے راستے، ص 133]
بڑھاپے کی زندگی کی مصروفیات ، ملازمت سے رٹائرمنٹ کا بیان سمیع نے اس انداز سے کیا کہ جعفری کو اپنی جوانی اور ملازمت ہیچ معلوم ہونے لگی۔ سمیع نے جاتے جاتے کناڈا کی ایک دلچسپ حقیقت سے پردہ بھی اٹھایا:
اب میں چلا۔ ویسے میری ایک یہ بات یاد رکھیے گا کہ اس ملک میں صرف تین قومیں یعنی بچے، بوڑھے اور کتے مزے کرتے ہیں اور آپ ان میں فٹ نہیں ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ اب اپنے مقام غلامی پر چل دیے اور میں اپنی منزل مقصود کی جانب چلا۔ [ترچھے راستے، ص134]
کناڈا کی زندگی اور معاشرت میں بچوں، بوڑھوں اور کتوں کو جو اعزاز واحترام حاصل ہے، انھیں جس طرح کے آرام وآسائش کی سہولتیں حاصل ہیں، سمیع نے طنزیہ انداز میں اس کا ذکر کردیا ہے۔ ان کا نقطۂ نظر یہاں غیرجانب دارانہ نظر آتا ہے۔
غرض کہ معین اشرف کی بیشتر کہانیاں کناڈائی معاشرت کے گوناگوں پہلوئوں کو پیش کرتی ہے۔ مہاجرین کے تہذیبی اور ذاتی مسائل کو انھوں نے شگفتہ انداز میں بیانیہ طور سے برتنے میں کامیابی پائی ہے۔ وہ مشرق ومغرب میں کسی ایک دنیا کے گرویدہ یا نقاد نہیں بلکہ ایک ایسے متوازن فرد کے طور پر سامنے آتے ہیں جہاں مشرق ومغرب کے کلچر کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ملک زادہ منظور احمد کی رائے اس ضمن میں بہت متوازن ہے:
انھوں نے مشرق ومغرب کے تہذیبی اور اخلاقی اقدار میں پروردہ کرداروں کی ملاقات کرواکر دونوں کی نفسیات، عادات اور خصائل، پسند ناپسند کی کش مکش کو بڑی کامیابی کے ساتھ ابھارا ہے اور زبان وبیان کی معصوم لطافتوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ [ترچھے راستے، سرورق]
مختصر طور سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ معین اشرف نے اپنے افسانوں میں مشرقی اور مغربی ثقافتی رشتوں کا نہایت ڈرامائی انداز میں تضاد پیش کیا ہے۔ بہ ایں ہمہ انھوں نے ایک نئی آفاقی ثقافت کا تصور پیش کیا ہے۔ ان کی کہانیاں نہ تو مشرقی روایات کو ہتک آمیز نظروں سے دیکھتی ہیں، اور نہ معین اشرف مغربی معاشرے اور اس کی شان وشوکت اور تجمل کے سامنے سپرانداز نظر آتے ہیں، بلکہ ان کی کہانیاں شگفتہ انداز میں دونوں معاشرتوں سے مثبت اور صالح اقدار کا عطر کشید کرتی ہوئی ہمارے احساسات میں ڈھل جاتی ہیں۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!