جموں کشمیر کے عصری اُردو افسانے میں تانیثیت کے اثرات

سمیرا بانو
ریسرچ اسکالرمولانا آزاد نیشنل اُردو یونی ورسٹی حیدر آباد ۔سیٹلائٹ کیمپس(سری نگر)
ای۔میل gulsameera.rs@manuu.edu.in

تانیثیت نے ادب کے ذریعہ سے زندگی کی رعنائیوں اور توانائیوں میں اضافہ کرنے کی راہ دکھائی،تانیثی نصب العین کے مطابق ادب میں جذبات تخیلات اور احساسات کو اس طرح الفاظ کے قالب میں ڈھالا جائے کہ اظہار کی پاگیزگی اور اسلوب کی ندرت کے معجزہ نما اثر سے خواتین کو قوت ارادی سے مالا مال کر دیا جائے اور اس طرح انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اہداف تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔تانیثی اسلوب کی ابتداء میری والسٹون کرافٹ کی تصنیف A vindication of the rights of womenسے ہوئی۔کرافٹ نے پہلی بار مساوات کی مانگ کی اور اِن کی یہ تصنیف مرد مرکز معاشرے پر پہلا وار تھا۔کرافٹ کے ساتھ ہی مرد ادیبوں میں جان اسٹوارٹ مل نے تانیثی اُسلوب پر مبنی اپنی تصنیف The subjection of womenمنظر عام پر لائی۔اس کتاب میں بھی خواتین کے مسائل کو اُبھرا گیا۔مل کی یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں مل نے جامع اور پُر اثر انداز میں خواتین کے حقوق کی بازیافت ،عورت کی شناخت،اس کے سماجی اور معاشی رُتبے،اس کے استحصال اور جبر و استبداد کے حوالے سے خواتین کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔گویا تانیثی اُسلوب کو پیش کرنے میں خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات نے بھی عورتوں کے حقوق کی بحالی پر آواز اُٹھائی۔اس کے بعد تانیثی اُسلوب کی بہترین عکاسی ورجنیا وولف کی تصنیفA room of ones ownمیں ملتی ہے۔اس کا موضوع عورت اور فکشن تھا،وولف نے استحصال کی طرف توجہ دلائی اور یہ ثابت کیا کہ عورت عقلی،فکری اور تخلیقی سطح پر کمتر نہیں ہے بلکہ اس کی صلاحیتوں کو ہمیشہ جھٹلایا گیا ہے اور اسے کبھی وہ مراعات اور ماحول ہی میسر نہیں آیا کہ وہ پورے شدومد اور اعتماد کے ساتھ اپنے آپ کو ادب کے لیے وقف کرسکے۔مغرب میں تانیثی اُسلوب کو خواتین نے شدومد سے پیش کرنے میں پہل کی،ان میں سمودی بورا کی تصنیف The second sexاور ایلن شوالٹر کی تصنیف A literature of their ownخاص طور پر شامل ہیں۔ان خواتین کی قلمی و انقلابی کوششوں نے عورت کی اہمیت کو سماج و معاشرے میں مقام دیا اور اس کی آزادی کے ضابطے متعین کیے۔اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں خالص تانیثی اسلوب پر اس قدر اصرار کیا گیا کہ جذبات،احساسات اور خیالات کا اظہار خلوص اور دردمندی سے کیا جانے لگا۔
اُردو ادب میں تانیثی اسلوب کی شروعات انیسویں صدی کی آخر میں ہوئی۔اس دور میں خواتین کے مسائل کو سب سے پہلے موضوع بنانے والی کوئی خاتون قلم کار نہیں تھی بلکہ مرد قلمکار کی مرہونِ منت ہیں۔جس نے سب سے پہلے اپنی ناولوں میں تانیثی اُسلوب کی داغ بیل ڈالی۔یہ معتبر شخصیت ڈپٹی نذیر احمد کی ہے جنہوں نے خواتین کے مسائل کو پیش کرکے اِن کی تعلیم و تربیت پر زور دیا۔اس کے بعد تانیثی اُسلوب کو اردو کے نامور ادیبوں نے اپنی تحریروں میں جگہ دی۔اُردو ادب میں تانیثی اسلوب کی باضابط ابتداء رشیدجہاں اور عصمت چغتائی کی تحریروں سے ہوتی ہیں۔انہوں نے عورتوں اور مردوں کے لیے مروجہ دو الگ الگ معیاروں اور اخلاقی اصولوں پر سوال اُٹھائیں۔ان کا لب و لہجہ اور اندازِتحریرخالص تانیثی اور جارحانہ تھا۔۱۹۳۶؁ء سے تاحال تانیثیت ایک رُجحان اور پھر ایک تحریک کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھی ہوئی ہے۔اس میں جہاں خواتین کے مسائل کو پیش کیا گیا وہیں خواتین اپنے حقوق کو پانے کے لیے بھی آواز بلند کرتی رہی ۔تانیثی فکر و شعور کا پرتو خواتین قلمکاروں کی تحریروں سے ہی نہیں ملتا ہے بلکہ مرد قلمکاروں کی تحریروں سے بھی اخذ کیا جاسکتا ہے۔خواتین کے ساتھ ساتھ مرد ادیبوں نے بھی تانیثی فکروشعور کو اپنی نگارشات میں پیش کیا ہے ۔انہوںنے خواتین کے مسائل کو پیش کرنے کے علاوہ انہیں سماجی،معاشی ،معاشرتی برابری کا درجہ دیا جانے کی مانگ کی۔ان قلمکاروں نے عورت کو دوسری جنس The otherسمجھ کر اس کی نفسیات ،جذبات و احساسات کو پیش نہیں کیا ہے بلکہ عورت کو مردکی طرح ایک انسان سمجھ کر اس کے ساتھ ہوئی زیادتیوں ،ناانصافیوں پر مرد غالب معاشرے کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس کی مذاحمت کی۔اردوادب میں نذیر احمد سے لے کر عصر حاضر کے فنکاروں مشرف عالم ذوقی،غضنفر،سیدمحمد اشرف،حسین الحق،بیگ احساس وغیرہ کے یہاں عورت موضوعِ بحث رہی ہے۔خواتین نے اپنے طریقے اور اپنے لب و لہجے میں عورت کے مسائل کو پیش کیا اور مرد فنکاروں نے اپنے طریقے سے اس کی نفسیات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کے مسائل کو پیش کیا ۔اس مضمون میں جموں کشمیر کے عصری افسانے میں تانیثیت کے اثرات کا جائزہ لیا جایئے گا۔ریاست میں اردو افسانہ ایک ایسی صنف ہے جو غزل کی طرح ہر دور میں مقبول رہی،اس صنف کی آبیاری کرنے والوں میں ہر دور میں اضافہ ہی ہوتا رہاہیں۔ ریاست میں عصرحاضر کے کئی افسانہ نگاروں میں تانیثی فکر و شعور کے اثرات ملتے ہیں۔ان میں خواتین افسانہ نگاروں کے ساتھ ساتھ کئی مرد افسانہ نگاروں کے یہاں اس تحریک کی حمایت ملتی ہے۔جن میں ترنم ریاض،نیلوفر ناز نحوی،زنفر کھوکھر ،حامدی کاشمیری،دیپک بُدکی،آنند لہر،مشتاق احمد وانی وغیرہ افسانہ نگار شامل ہیں۔
ملک کے جانے مانے تانیثی ادیباؤں میں ترنم ریاض کا نام کافی اہمیت کا حامل ہیں۔مردوں کی مخالفت کیے بغیر اُنہوں نے خواتین کے حقوق کی بات کی ہے،اور ان حقوق کو پانے کے لیے عورتوں کو اپنی تحریروں کے ذریعے بیدار کرنے کی بھی بھر پور کوشش کی ہے۔ریاست جموں کشمیر کے افسانہ نگاروں میں اِن کی تانیثی آواز بہت جاندار ہے۔انہوں نے صحت مندمعاشرے کے لیے دونوں جنسوں کی برابری پہ زور دیا ہے۔لبرل فیمنیزم (Liberal Feminism) کے تحت ان کے افسانے نہ صرف عورتوں کو حوصلہ بخشتے ہیں بلکہ مردوں کو بھی ان کے فرسودہ روایتوں کو بدلنے کی سوچ فراہم کرتے ہیں۔نانیثی فکر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے افسانوں میں ریاست کے افسانہ نگاروں کے مقابلے میں مثبت تانیثی روّیے زیادہ ملتا ہے۔ریاست کے افسانہ نگاروں نے عورت کو اُس کے حقوق دلانے کے لیے کئی کئی جارحانہ روّیے اختیار کیا ہے ۔جنسی استحصال کرنا مرد مرکز معاشرے کی طرف ایک طرح سے عورت کو نیچا دکھانے کے لیے کیا جاتا ہے دوسری طرف مرد کی ہوس اُسے اندھا کرتی ہے اس ہوس میں معاشرے میں وہ رشتوں کی پاسداری کرنا تک بھول جاتا ہے،عصر حاضر میں کئی سارے ایسے واقعیات پیش آتے رہتے ہیں جہاں بیٹی اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہوتی ہے۔باپ کے ہاتھوں بیٹی کا جنسی استحصال آئے دن اخباروں میں دیکھنے کو ملتا ہے ،اسی موضوع کو ترنم نے افسانہ ’باپ‘ میں پیش کیا ہے جہاں بے بس ماں اپنی بیٹی کو اپنے ہی باپ سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھتی ہے۔
’’امی کے پٹی سے لگ جانے کے بعد وہ صرف ناظمہ کو ہی ہر کام کے لیے بلاتا۔وقت بے وقت وہ باپ کے کمرے میں ہوتی۔امی کٹھیا پر پڑی کراہتیں ۔نحیف آواز میں ناظمہ ناظمہ پکارتیں ۔۔۔۔۔۔اور ناظمہ دیر بعد سسکتی ،لڑکھڑاتی آتی۔امی کی چارپائی کے پانتی پکڑ کر گر پڑتی‘‘۔ ابابیلیں لوٹ آئیں گے،ص۔۴۴
باپ کی جانب سے کیا جانے والا جنسی استحصال کو ترنم نے المیہ کے طور پر دکھایا ہے۔مردانہ نظام کی عورتوں کے تئیں بے حسی اور خود غرضی اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ جو بیٹی ان کا اپنا خون ہوتا ہے اُس کو بھی ہوس کا شکار بناتے ہیں۔ترنم ریاض کی تانیثی فکر ریاست کے باقی افسانہ نگاروں کی طرح مثبت روّیہ رکھتی ہے۔جہاں نہ کسی نعرہ بازی سے کام لیا گیا ہے اور نہ ہی مردوں کی مخالفت کی گئی ہے۔انہوں نے اپنے افسانوں میں عورت کے مسائل کی طرف قاری کی توجہ دلائی ہے اور عورت کو اُس کے جائز حقوق یاد دلائے ہیںکہ اُس کی اپنی ذاتی زندگی ہے،وہ سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی زندگی کو بھی ترجیح دے۔مردانہ نظام کے جنسی استحصال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ،ان کے فرسودہ اور بھونڈے رسموں کو ختم کرنے کی تلقین کی ہے جن کی وجہ سے عورت کا استحصال ہوتا ہے اور ان کی جہالت کی وجہ سے وہ عورت کی عزت نہیں کرتے ہیں اس کے لیے مرد حضرات کو تعلیم کی ضرورت ہے تاکہ ان کی سوچ کو تبدیل کیا جاسکے۔
تانیثی فکر کے حوالے سے نیلوفرنازنحوی نے اپنے افسانوں میں ’عورت‘ کو بطور خاص موضوع بنایا ہے۔ان کے افسانے مختصر ہونے کے علاوہ سیدھی سادھی زبان میں ہونے کے باوجود قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ان کے افسانوں میں تانیثی فکر کا لب و لہجہ مثبت انداز میں ملتا ہے۔مردانہ نظام کی خرابیاں اور سختیاں ان کے افسانوں میں پیش کی گئی ہے ۔سماجی اور گھریلو مسائل ہندوستان کے باقی ریاستوں کے ساتھ ساتھ ریاست جموں کشمیر میں بھی ایک جیسے ہیں ان مسئلوں میں ’جہیز‘ کا مسئلہ تقریباً ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے لڑکیوں پر طرح طرح کا ظلم و جبر اور استحصال کیا جاتا ہے۔نیلوفر نے اپنے کئی افسانوں میں ’جہیز‘ لینے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ان کے افسانوں میں خواتین کو جہیز کے خلاف بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ان افسانوں میں ’ایک دن کی حکومت،تلاش ،آگ وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن میں جہیز کی وجہ سے لڑکیوں کا استحصال کیا گیا ہے۔اقتباس
’’صاحب ایک لڑکے والے تو تیار ہوگئے تھے مگر جب انہوں نے سنا کہ آپ ریٹائیر ہوگئے تو انہوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ باپ ریٹائر ہوگیا ہے تو وہ بیٹی کو کیا دے گا۔(چنار کے برفیلے سائے،ص۔۴۰)
ریاست کے جموں صوبۂ سے زنفر کھوکھر نے تانیثی فکر کی آبیاری میں اپنے کئی سارے افسانے تخلیق کیں۔زنفر کھوکھر کے افسانوں میں پدرانہ نظام کی عکاسی ہو بہو کی گئی ہیں۔اُنہوں نے سماج کے دونوں طبقوں کو افسانوں میں بڑی ہنرمندی سے پیش کیا ہے۔جہاں مرد اساس معاشرہ ہر طرح سے اپنی اجراداری کو قائم رکھنا چاہتا ہے وہیں مدرانہ نظام اس کا جواب روایت سے ہٹ کر استحصال نہ سہہ کر دیتا ہے۔ان کے افسانوی فن میں عورت ہر طرح سے کامیاب نظر آتی ہے۔وہ تھوڑی دیر کے لیے مردانہ نظام کے ظلم و جبر کا شکار ہوتی ہے،لیکن جلد ہی وہ اس طبقے سے انتقام بھی لیتی ہے۔جس کی مثال اُن کے کئی افسانوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔جیسے سکینڈ ہینڈ،کانچ کی سلاخ،انجام ،تلقین،اگلی کاروائی،عبرت وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن کی ہیروین آخر میں کامیاب ہوتی ہے۔
زنفر کھوکھر کا تانیثی لب و لہجہ دیگر افسانوں میں جارہانہ رُخ اختیار کر جاتا ہے۔جہاں عورت اپنے حقوق کوپانے کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہے۔بے خوف اور نڈر پن تب عورت میں در آتا ہے جب مرد غالب معاشرہ اپنی زیادتیوںکی سزا بھی بے قصور عورت کوہی دیتے ہیں۔وہ بھی اس لیے کہ یہ بے سہارا ہے،لاچار ہے اس کی طرف سے بات کرنے ولالا کوئی نہیں ہے۔یا اس لیے کہ دستور کے مطابق مردانہ نظام کی ہر غلطی کی سزاکی بھی وہ مستحق ہوتی ہے۔پدری نظام کے استحصال کی آخری حد جنسی زیادتی ہوتی ہے ۔جہاں مرد اپنی ہوس کا نشانہ ایک مظلوم اور بے سہارا عورت کو بناتا ہے۔اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ معاشرہ بُرا بھلا عورت کو ہی کہتا ہے اور اُسے دُھتکار کر ظالم شخص کے لیے راہے ہموار کرتے ہیں کہ وہ کسی اور مظلوم عورت کو نشانہ بنا سکے۔زنفر نے ایک مظلوم لڑکی کے ذریعے مرداساس معاشرے کو زبردست جھٹکا دیا،وہ اپنے گناہ گار ،جس نے اِسے جنسی زیادتی کرکے اس کی عصمت اور عفت کو داغدار کیا تھا۔اس لایٔق نہیں چھوڑتی کہ وہ کسی اور عورت کا شکار کرسکے،اور ساتھ ہی مردغالب معاشرے کے فیصلے کو ٹھکرا کر اپنی اور اپنے جیسی دوسری عورتوں کے لیے آزادی کا پرچم لہراتی ہوئی نظر آتی ہے۔اس نے اپنی بہادری کو مردانہ نظام پر آشکار کردیا کہ تم اگر استحصال کرکے ہمیں غلام بنانا جانتے ہو،ہم غلام ہوکر جان لینا جانتے ہیں۔اقتباس
’’رات کے آخری پہر نورے کے گھر والے دِلخراش چیخیں سُن کر اُس کمرے کی طرف لپکے جہاں رات کو دُولہا اور دُلہن کو سُلایا گیا تھا اور دروازہ پیٹنے لگے۔’’بھیٔ دروازہ کھولو۔دروازہ کھولو!‘‘ مگر دونوں میں سے کسی نے بھی دروازہ نہیں کھولا تو اُسے توڑا گیا۔اندر کا منظر دِل دہلا دینے والا تھا۔دُولہا سر سے پاؤں تک خون میں لت پت پڑا تھا۔اُس کی ناک کٹی ہوئی تھی اور زیرِ ناف بھی ۔۔۔۔اور دُولہن غائب تھی۔وہ پچھلی کھڑکی کے راستے بھاگ نکلی تھی،اپنی امّاں کو خبر سُنانے !کچھ دیر بعد وہ اپنی امّاں کے سامنے کھڑی تھی۔اب وہ دھاڑیں مار مار کر رو نہیں رہی تھی۔نورے کے بیٹے کی زیادتی کی شکایت نہیں کر رہی تھی بلکہ ایک اعتماد کے ساتھ کہہ رہی تھی۔ ’’امّاں ! میں نے اپنی تذلیل اور اذیت کا بدلہ لے لیا ہے ۔آگے کے لیے پنچایت ذمہ دار ہوگی‘‘۔(عبرت،ص۔۳۷)
نڈر اور باغی کرداروں کو پیش کرکے زنفر نے تانیثی ادب کو بے مثال کرداروں سے واقف کرایا۔اُن کے افسانوں کی عورت ہر لحاظ سے کامیاب عورت ہے،وہ نفسیاتی طور پر اتنی مضبوط ہے کہ عصر حاضر کی دوہری زندگی کو چلینج سمجھ کر قبول کرسکے،وہ خوددار ہے کہ جب اُسے اپنی عزت کا دشمن سامنے آئیںتو وہ اُس کی جان بھی لے سکے،زنفر عورت کو ہر حال میں کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔
حامدی کاشمیری کے افسانوں میں تانیثی فکر واضح انداز میں ملتی ہے،ان کے ابتدائی دور کے افسانوں میں ’عورت‘ روایتی انداز میں ملتی ہے جس پر مرد اساس معاشرہ ظلم و جبر اور استحصال کرتا ہے ،یا عورت حسن و جمال کا پیکر،بدچلن،لاچار،مجبور ہوتی ہے۔ان کے افسانوں میں مقامی رنگ زیادہ جھلکتا ہے جس میں انہوں نے کشمیر کی تہذیبی،اقتصادی،معاشرتی حالات کا باغور جائزہ لیا ہے۔کشمیر میں پُر تناؤ ماحول کی وجہ سے آئیں دن حالات خراب ہوتے رہتے ہیں جس کا اثر یہاں کی سیاحت پر بھی پڑتا ہے اور اس وجہ سے سیاحت سے جڑے لوگوں کو بھوک،افلاس اور کسمپرسی کی زندگی گذارنی پڑتی ہے جس کا سیدھا اثر خواتین پر بھی پڑتا ہے،ان خواتین کو اپنی بھوک مٹانے کے لیے سرمایہ دارانہ طبقے کا جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سیاحت سے جڑے اس خاص طبقے کی ترجمانی حامدی کاشمیری کے ابتدائی دور کے افسانوں میں باخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔عورت کا دوسرا روپ اِن کے آخری دور کے افسانوں میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں وہ ایک آزاد خیال ،باشعور عورت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ان افسانوں کی عورت سرمایہ دارانہ نظام اور مردانہ نظام کے استحصال کا شکار نہیں ہوتی ہے۔بلکہ اپنی زندگی کو بھر پور انداز میں جیتی ہے جہاں اُسے فرسودہ رسموں اور روایتوں کا سامنانہیں کرنا پڑتا ہے وہ اپنے لیے ایک الگ اور منفرد رہ نکالتی ہے۔جس کی واضح مثال اُن کے افسانوں عورت،سائے،جلتا صحرا،وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ان افسانوں کی عورت اکیسویں صدی کی عورت ہے جو اپنے مسائل کو باخوبی سمجھتی ہے اور ان کو اپنے بل بوتے پر سُلجھاتی بھی ہے۔افسانہ’عورت‘ کی کملیش ایک ایسی عورت ہے جو مغربی خیالات کی پیکر ہے جو ڈیجٹل ورلڈ (Digital world) کی پیداوار ہے ۔اس افسانے میں حامدی عورت کی آزادی کے اس قدر قائل ہے کہ مردانہ نظام کی طرف سے عورت کو ’’صنفِ نازک‘‘ سمجھنے کو نظرِثانی کا محتاج قرار دیتے ہے۔
’’میں بار بار اُن کی غیر موجودگی میں اُن کے بارے میں سوچتا رہا۔واقعی اس صدی میں عورت کے بارے میں یہ عقیدہ کہ وہ کمزور صنف ہے،نظر ثانی کا محتاج ہے۔البتہ کبھی کبھی اس احساس سے کوفت ضرور ہوتی کہ کملیش کے استدلال کے سامنے میں بے بس ہو کر رہ جاتا ہوں۔میں سوچ سوچ کر تھک گیا تھا کہ اُن سے کسی طرح اپنی برتری منوالوں‘‘۔(شہر افسوں ،ص۔۹۳)
افسانہ ’سائے‘ عورت کی نفسیات کو سمجھنے کا ایک شاہکار افسانہ ہے۔اس افسانے میں نبلہ اور عائشہ مردانہ نظام کا استحصال سہہ کر اُن کی بھی تذلیل کا سامان بنتی ہے دونوں عورتیں پدرانہ نظام کے پس پردہ غلاظت کو پیش کرتی ہے،اور مرد اساس معاشرے کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔افسانہ’جلتا صحرا‘ میں کہانی کی مرکزی کردار ’مسز سہائے‘ ہر دوسرے مرد سے متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ چار بار شادی کرتی ہے اور ہردوسرے مرد سے خلاصی پاکر دوسرے مرد کی ہوجاتی ہے۔حامدی کاشمیری نے تانیثیت کے حامیوں میں خود کو کبھی شمار نہیں کیا ہے ،لیکن ان کی تحریروں سے واضح طور پر اندازہوتا ہے کہ وہ عورتوں کی آزادی،ان کے جائزہ حقوق دینے کے حق میں نظر آتے ہیں۔
دیپک بُدکی کے افسانے نفسیات بلکہ جنسی نفسیات کے حامل ہیں۔وہ سماجی تناظر میں انسان کے جنسی رجحانات و جذبات کا تجزیہ اس کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے حوالے سے کرتے ہیں۔اس کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی انسان جن نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوتا ہے اور حالات میں ہونے والی تبدیلیوں کا اثر جس طرح اس کا ذہن اور کردار پر ہوتے ہیں وہ اپنے افسانوں میں ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں دیگر موضوعات کے علاوہ ’عورت‘بھی خاص موضوع رہا ہے۔انہوں نے عورت کے لاشعوری محرکات،اس کی جذباتی گھٹن اور اس کی اندرونی دنیا کی نفسیاتی بازیافت کی ہے۔اس کی کشش اور نسائیت کو پیش کیا ہے ۔تانیثی فکر کے پیش نظر ان کے افسانوں کی عورت صدیوں سے چلے آرہے استحصال سے نکلتی ہوئی نظر آتی ہے۔اب وہ مرد اساس معاشرے کے استحصال کا رونا نہیں روتی ہے بلکہ یہ اتنی بے باک اور مڈر ہے کہ اپنے عاشق سے بچے کا تقاضا کرتی ہے۔افسانہ ’مانگے کا اُجالا‘ کی میناکشی اس طرح ایک مرد سے بچے کا مطالبہ کرتی ہے۔اقتباس۔
’’مجھے آپ کی نشانی چائیے‘‘۔ اس کا چہرہ تمتماہٹ سے انگارہ ہوگیا۔ میں سمجھا نہیں۔۔۔۔۔۔۔ مجھے آپ کا بچہ چائیے‘‘۔(چنار کے پنجے،ص۔۳۰)
یہ وہ عورت ہے جو پہلی ہی ملاقات میں جسمانی تعلق قائم کرنے میں ذرا بھی نہیں جھجکتی ہے۔ان کے افسانوں کی عورتیں متضاد روّیوں کی مالک ہیں ان میں جرات اور بے باکی ہے جو مادی اور جسمانی آسائشات کے حصول کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔دیپک بدکی عورت کو آزاد دیکھنے کے متمنی ہے۔ان کے نسائی کردار مردوں کی طرح زندگی گزارتے ہوئیں نظر آتیں ہیں۔جو فرسودہ اور بھونڈے رسموں اور روایتوں کے پابند نہیں ہیں۔یہ نسائی کردار مشرق میں رہ کر مشرقی پاسداری سے کوسوں دور ہے۔مغربی طرز زندگی اپنا کر انہوں نے ہر لحاظ سے جیت حاصل کی ہیں۔
تانیثی تحریک کے حامیوں میں ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کا نام لیا جاسکتا ہے۔انہوں نے اپنی تحقیق اور تخلیق کے ذریعے اُردو ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل کی ہے۔’’اُردو ادب میں تانیثیت‘‘ اُردو تحقیق میں بیش بہا اضافہ ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کی اُردو ادب میں پہچان ہوئے۔تحقیق کے علاوہ انہوں نے افسانہ نگاری کے ذریعے بھی تانیثی فکر کو برتا ہے۔وہ دورِ حاضر میں خواتین پر ہورہے ظلم و استحصال کو پیش کرتے ہے اور ساتھ ہی خواتین کے مضبوط کرداروں کو پیش کر کے انہیں مردوں کے برابر لا کھڑا کرتے ہوئے نظر آتیں ہیں۔ان کے مطابق خواتین بھی مردوں کے برابر حقوق کی دعویدار ہیں۔انہیں بھی اپنے حقوق کو جاننا چاہئے اور انہیں حاصل کرنے کی ہر ممکن سعی کرنی چائیں۔ان کے افسانوں کے نسائی کردار مردوں کے شانہ بشانہ چلتی ہوئے نظر آتی ہے۔مردانہ نظام کی فرسودہ روّیوں اور جکڑی ہوئی سوچ کو بدلنے کی کارفرمائی ان کے افسانوں میں بجا طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔وانی کے افسانوں کی عورت ،آزاد خیال ہے،اسے کام کرنے کا جذبہ ہے،وہ محنت اور لگن سے ہر فیلڈ میں کامیاب ہو کرآتی ہے۔وہ مشکل سے مشکل کام کو باخوبی انجام دے کر اپنی صلاحیتوں سے قاری کو چونکاتی ہے۔
’’اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ روشنی چاند کی ہو یا سورج کی اندھیرے کی دشمن ہوتی ہے۔اسی طرح جس طرح سچ جھوٹ کا دشمن ہوتا ہے۔وہ کچھ دیر تک سوچ کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زنی کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ دنیا کے تمام مذاہب، عقیدے، دھرم، فکر و فلسفے،پیغمبر،اوتار،رشی منی،صوفی سنتوںکی تعلیم،تمام علوم و فنون اور دانش گاہوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آدمی کو اس دنیا میں انسان بنایا جائے‘‘۔ (اندر کی باتیں،ص۔۱۵۲)
یہ اقتباس وانی کی مثالی عورت کے خیالات کی عکاسی ہے۔جہاں آج کے مادیت پرست دور میں ہر انسان اپنے فائدے کے لیے جیتا ہے،اور اس دوڑ میں ہر دوسرا انسان پہلے آنے کی چاہ میں کچھ کر گذرتا ہے وہیں وانی نے ایسی عورت کا کردار پیش کر کے انسانی زندگی کو صیح معنوں میں راستہ دکھایا ہے۔
ریاست کے جدید افسانہ نگاروں نے بھی عورت کے مسائل کو پیش کیا ہے۔ان کے افسانوں میں تانیثی فکر واضح انداز میں دیکھنے کو ملتی ہے۔وہ ریاست میں آمرانہ نظام کے استحصال سے پریشان عورت کے درد و کرب،دکھ و درد کو اپنے افسانوں میں جگہ دے رہے ہیں۔اُن میں ڈاکٹر ریاض توحیدی،ناصر ضمیر،زاہد مختار،جان محمد آزاد،طارق شبنم،دیپک کنول،حسن ساہو،پرویز مانوس،مشتاق مہدی، واجدہ تبسم گورکو،نکہت فاروق ،رفعیہ ولی،رفعت حجازی ،بلقیس مظفر وغیرہ ۔ان کے افسانوں میں تانیثی فکر و شعور دھیمے لہجے میں ملتا ہے۔ان لوگوں نے کسی نعرہ بازی کے تحت اپنے افسانوں کا مواد تیار نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی کی مخالفت کرکے خود کو تانیثی مفکروں میں شامل کیا ہیں۔
***

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.