ترقی پسند افسانہ اورحیات اللہ انصاری
شافعہ بانو
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، کشمیریونی ورسٹی ،سری نگر
فون نمبر:7780801**6
ای۔میل: khurooshafia208@gmail.com
ترقی پسندافسانے کا آغاز منشی پریم چندسے ہوتا ہے ۔پریم چند کے زمانے میں جتنی بھی کہانیاں لکھی گئیں تھیں ان میں ترقی پسند خیالات جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ترقی پسند افسانے کا بنیادی مقصد سماجی مسائل کو اجاگر کرناتھا۔ترقی پسندافسانہ نگاروںنے زیادہ زور ان باتوں پر دیا کہ ہر ایک انسان کو یکسان حق ملے،لوگوں میں محبت، اخوت اور انسانیت کا جذبہ پیداہو، روح اور ذہن کو بیدار کیا، انسانی قدروں کو آگے لے گئے وغیرہ ۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ترقی پسند افسانے سے پہلے جو افسانے لکھے گئے اُن میں ان چیزوں کو نظر انداز کیا گیا تھا۔مثال کے طور پر ایک غریب طبقے کے حالات، ان کے احساسات و جذبات کو یکسر نظرانداز کیا گیا تھا۔ لیکن پریم چند نے ترقی پسند ادیبوں کے اندر ایسا جوش بھر دیا کہ اس پسماندہ طبقے کی روداد پیش کی جانے لگی،غریبوں اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم کو دکھایا گیا،سرمایہ داروں کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ غرض غریبوں ، کسانوںاور دکھی انسانوں کے دکھ درد کو ترقی پسند افسانہ میں پیش کیا گیا۔ الغرض ترقی پسند افسانے لکھنے کا پہلا اور آخری مقصد طبقاتی کشمکش اور عصری مسائل کی طرف توجہ دلانا تھا۔ یہ وہ موضوعات ہیں جو پریم چند کے بعد آنے والے افسانہ نگاروں نے بھی اپنائے ۔ جن افسانہ نگاروں نے ترقی پسندی سے اپنا رشتہ جوڑ لیااور اسے مضبوط کیا اُن میںاختر حسین رائے پوری،علی عباس حسینی،رشید جہاں، سہیل عظیم آبادی، حیات اللہ انصاری، کرشن چندر، اپندر ناتھ اشک، منٹو، بیدی، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، خواجہ احمد عباس، اختر انصاری، اختراورنیوی، بلونت سنگھ،عزیز احمد وغیرہ کا تعاون قابل ذکر ہے۔
مذکورہ افسانہ نگاروں کی فہرست میں حیات اللہ انصاری کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ حیات اللہ انصاری کی افسانہ نگاری کا آغاز ترقی پسند تحریک کے قیام سے قبل ہو چکا تھا۔ ان کا پہلا افسانہ ــــ’’بڈھا سود خوارـــ‘‘ جامعہ دہلی کے اکتو بر ۱۹۳۰ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔فطری طورپر اس افسانے میں بھی متعلقہ عہد کے سماجی شعور کا انعکاس موجود تھاجو ترقی پسند خیالات کی غمازی کرتا ہے۔ ان کے اس افسانے کے بارے میں ڈاکٹر محمد صادق رقمطراز ہیں:
’’حیات اللہ انصاری کا پہلا ہی افسانہ انسان اور انسان کے استحصال کی جو درد ناک تصویر پیش کر تا ہے وہ بے لاگ حقیقت نگاری کی ایک مثال ہے‘‘ ۱؎
حیات اللہ انصاری نے ’’بڈھا سود خوار ‘‘ لکھ کر تر قی پسندی کا مظاہرہ کیا۔ آگے آپ پریم چند اور انگارے کے مصنفین سے اس قدر متاثرہوئے کہ آپ ترقی پسند تحریک میں شریک ہوئے۔ آپ نے شاہکار افسانے اُردو ادب کو دیے جیسے ’’بھرے بازار امیں ،آخری کوشش، انوکھی مصیبت، موزوں کا کارخانہ، پرواز، ڈھائی سیر آٹا،شکستہ کنگورے وغیرہ ۔ حیات اللہ انصاری کی افسانہ نگاری کی خوبی آپ کی حقیقت نگاری ہے اور آپ پریم چند کے بعد ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ پریم چند نے جو حقیقت نگاری کا اسلوب اختیار کیا تھا اسے آپ نے مزید فنی چابکدستیوں کے ساتھ اُبھارا اور اپنی الگ راہ بنائی۔ آپ نے غریب طبقے کے لوگوں کی معاشی، سماجی اور نفسیاتی مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنا کر زندگی کی وہ تصویر دکھائی جس تک آپ کے ہم عصروں کی رسائی نہیں ہو سکی تھی۔ آپ کے یہاں فکر کی گہرائی،مشاہدے کا حاصل اور فن پر جو دسترس ہے، جس سے معمولی سا واقعہ بھی افسانہ کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس سلسلے میں وقار عظیم لکھتے ہیں:
’’ان کے افسانوں میں مشاہدہ، تخیل اور فکر تینوں کی برابر جگہ ہے۔ان میں سے صرف ایک چیز کے سہارے پر چلنا انہوں نے نہیں سیکھا ، جہاں مشاہدہ ہے، وہاں تخیل بھی ہے اور فکر بھی ، ان کا کوئی افسانہ ان تینوں چیزوں کی مدد کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا، اپنے فن کے ساتھ اس درجہ انہماک اور خلوص کی مثال ہمیں اردو کے افسانہ نگاروں میں حیات اللہ انصاری سے زیادہ کہیں اور نہیں ملتی۔‘‘ ۲؎
حیات اللہ انصاری کا مشاہدہ بہت گہرا ہے ۔ مشاہدہ کسی بھی فنِ لطیف کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی سے کسی واقعے کو شاہکار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ چونکہ حیات اللہ انصاری نے اپنے عہد کی سنگیں معاشرتی، سیاسی، قومی، اخلاقی اور اقتصادی صورتِ حال کا مشاہدہ کیا اور آپ نے محکومی، جہالت بیماری اور افلاس و غربت کی تاریکیوںمیں محصور ہندوسانی زندگی کو قریب سے دیکھا ۔ ان کے دکھ سکھ میں شریکِ حال رہے اور قومی زندگی کی تمام محرومیوں اور مسرتوں کو اپنے تخلیقی شعور میں جذب کر کے نہایت انہماک و اخلاص اور انسان دوستی کے جذبے کے ساتھ اپنے تاثراتی ردِعمل کو افسانوں کے وسیلہ سے پیش کیا۔ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں:
’’حیات اللہ انصاری نے اپنے افسانوں میں سماج کے کچلے ہوئے طبقے کو اسکے صحیح سباق حقیقی خدوخال کے ساتھ بڑی کامیابی سے پیش کیا ہے۔ ان کے اکثر کردار شروع میں اپنی فطری خواہشات اور بنیادی ضروریات کی تکمیل کے ضمن میں سماج کی خشمگیں نگاہوں سے دبتے بچتے نظر آتے ہیں۔ ان کی داخلی کشمکش ، انھیں بڑی مضحکہ انگیز صورتِ حال سے دوچار کراتی ہے لیکن جلد یا بد یر وہ اپنی بے جا سماجی خشیت پر پوری طرح قابو پالیتے ہیں۔ اس طرح اپنی خواہشات و ضروریات کے معالے میں سماج کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کر لینے کے بجائے نہ صرف اس کے مقابل آکھڑے ہوتے ہیں بلکہ وقت آنے پر اس کے چہرے پر چڑھا مکھوٹا نوچ ڈالنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔‘‘ ۳؎
یہاں پرحیات انصاری کے افسانے ’’آخری کوشش ‘‘ کا مختصر جائزہ لیں تو حقیقت نگاری کی ایک واضع مثال سامنے آتی ہے۔ پریم چند کا ’’کفن‘‘ جسے ترقی پسند افسانے کا آغاز تصور کیا جاتا ہے۔ ’’آخری کوشش‘‘ اسی کے زیرِ اثر لکھا گیا ایک کامیاب افسانہ ہے۔ آپ نے اس افسانے میں حقیقت نگاری کا عروج دکھایا ہے۔’’ آخری کوشش ‘‘میں انتہائی افلاس اور فاقوں کی ماری زندگی سے تنگ آکر بوڑھی ہڈیوں پنجر ماں کو شہر لے جاتے ہیں، اس کی نمائش کر کے بھیگ مانگتے ہیں۔ پیسوں کی بارش ہوتی ہے گھسیٹا ایک بار پھر فاقوں سے نجات پاکر بہتر زندگی کے خواب دیکھتا ہے۔ حرص و ہوس کے جذبات اسے وحشی بناتے ہیں۔
’’آخری کوشش‘‘ میں جہاں ایک طرف شہر اور دیہات کی کشمکش کو دکھایا گیا ہے، وہیں ’’شکستہ کنگورے‘‘ میں جاگیردارانہ ماحول کو پیش کیا گیا ہے۔ جو آزادی کے آس پاس اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ یہ افسانہ ۱۹۴۷ء سے قبل تحریک آزادی کے پس ِ منظر میں لکھا گیا ہے۔ ’’شکستہ کنگورے‘‘ کے متعلق عظیم الشان صدیقی بجا فرماتے ہیں:
’’ پریم چند نے بھی عوام میں تعلیم کے فقدان کے باعث اس متوسط اعلیٰ طبقہ کے افراد کو عوامی تحریک کا رہنما بنایا تھا۔ لیکن وہ اس کی بورژواذہنیت سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ لیکن حیات اللہ انصاری کی حقیقت پسندی اس ذہنیت کا پردہ فاش کر دیتی ہے۔ ‘‘ ۴؎
حیات اللہ انصاری نے تقسیم ِ ہنداور فسادات جیسے موضوعات کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ اس سلسلے میں ’’ماں بیٹا‘‘ اور ’’شکر گزار آنکھیں‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ حیات اللہ انصاری نے جذباتی کشمکش اور نفرتوں کو انسان دوستا نہ نقطئہ نظر سے پیش کرکے وسیع النظری کی دلیل بھی فراہم کر دی ہے اور تقسیم ِ ملک کے سانحہ نے انسانی سماج کو جو گہرا زخم دیا تھا اس کی نشان دہی بھی اپنے افسانوں میں کی ہے۔
اسی طرح’’بھرے بازار میں‘‘حیات اللہ انصاری کا ایک عمدہ افسانہ ہے۔ جس میںا ٓپ نے ایک عورت کی نفسیات کو بڑی فنکارانہ مہارت سے پیش کیا ہے اوریہ افسانہ حقیقت نگاری کا ایک اچھا نمونہ بھی پیش کرتا ہے۔کہانی ایک طوائف ’رکھی‘ کی ہے جو کئی دنوں سے بیمار ہوتی ہے ۔ بچے کی ولادت پر چیچک کا حملہ ’رکھی‘ کو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔اس کا سارا بدن میل و گندگی کا ٹھکانہ بن جاتا ہے۔کھجلی سے تنگ آکر وہ نہانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ نہانے کے لئے محفوظ جگہ اور دوسری ساڑی کے فقدان میں نہانا اس کے لئے مسئلہ بن جاتا ہے۔ ندی پر وہ ایک ساڑی ہونے کی وجہ سے نہیں جاسکتی۔ کچھ دیر کے غوروفکر کے بعد وہ کارپوریشن کے ’’نل گھٹ‘‘ پر جاتی ہے۔ وہاں پہلے ہی سے عورتیں نہا رہی ہیں، رکھی کی وہاں لڑائی ہو جاتی ہے اور مجبوراً وہ بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔بازار میں اسے ایک نل نظر آتا ہے۔ نہانے کی شدید ضرورت اور خواہش نے اسے اتنا مجبور کر دیا کہ وہ بھرے بازار میں لوگوں کی موجودگی کا خیال ترک کر کے نہانے بیٹھ جاتی ہے۔ نام نہاد شریف لوگ بھیڑ کی شکل میں جمع ہوجاتے ہیں اور اسے بھگانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اس کے ساتھ کبھی وقت گزار چکے ہیں۔ خون کا گھونٹ پیتے ہوئے اپنے نہانے کی ضرورت اور خواہش کا گلا گھونٹتے ہوئے وہ وہا ں سے ہٹ جاتی ہے۔ راستے بھر طرح طرح کے خیالات اسے گھیرے رہتے ہیں کہ شاید کوئی اسے بلائے اور اپنے گھر کے غسل خانے میں نہانے کو کہے، وہ بیچاری نئے نئے خواب بنتے ہوئے نہانے کے نئے ٹھکانے کی تلاش میں ایک طرف کو چل پڑتی ہے۔
پارک جہاں لوگ شام کو مختلف خوش گپیوں اور خرمستیوں میں مصروف ہیں، پارک کے بیچ میں ایک تال ہے’ رکھی‘ وہاں جاتی ہے۔چاروں طرف ایک نظر دوڈاتے ہوئے وہ تال میں کود جاتی ہے۔ جب کہ سپاہی اسے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ پارک کے لوگوں کی نظریں اس پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ سپاہی کے سبھی جتن، رکھی کو باہر نکالنے میں ناکام ہوجاتے ہیں، رکھی پوری مستی میں اپنا بدن مل مل کر نہاتی ہے۔ بظاہر سفید پوش لوگوں کے سر جھکے ہوئے ہیں۔ قانون بے بس و مجبور کھڑا ہے۔ یہی پر کہانی ختم ہو جاتی ہے۔
حیات اللہ انصاری نے بڑی مہارت سے ’رکھی‘ کے کردار کی نفسیات کی گر ہیں کھولیں ہیں۔ اپنی بے عزّتی کا بدلہ رکھی تال میں نہا کر لیتی ہے۔ بظاہر سفید پوش اور شرافت کا لباس اوڑھے لوگ ، باطن میں ہوس پرست ہوتے ہیں، یہی کہانی کا مرکز ی خیال ہے اور سماج کی تلخ حقیقت بھی۔حیات اللہ انصاری ایک سماجی مسلح اور صحافی بھی تھے اس لیے آپ کی نگاہیں کسی بھی سماجی برائی کو بہت جلد دیکھ لیتی تھیں۔
الغرض حیات اللہ انصاری نے حقیقت نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے ۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں میں آپ ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ بحیثیت ترقی پسند افسانہ نگار حیات اللہ انصاری کو اُردو ادب کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔
حوالہ جات:
(۱)حیات اللہ انصاری کی افسانہ نگار (ڈاکٹر محمد صادق، روز نامہ آگ لکھنو، ۲۰۱۰ء)
(۲)نیا افسانہ(وقار عظیم ، مطبوعہ ۱۹۹۶ء)ص ۱۵۶
(۳) ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ،( محمدصادق، اردو مجلس دہلی، ۱۹۸۱) ص ۱۷۰
(۴)شکستہ کنگورے ایک تجزیہ( عظیم الشان صدیقی، معلم اردو، لکھنو، انصاری نمبر)ص ۸۳
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!