ادب ، سماج اورکلچر
شاہد حسین ڈار
ریسرچ اسکالر، سنٹرل یونی ورسٹی کشمیر، سری نگر
انسانی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب دنیا میں آیا ہے تو سب سے پہلے اسے تین مادی ضرورتیں در پیش ہوئیں، پہلے کھانے کی، دوسری سر چھپانے کے ٹھکانے کی،تیسری تن ڈھانکنے کی۔ ابتدامیں اس نے جنگلی پھلوں سے اپنی بھوک مٹائی،درختوں کے پتوں سے اپنے جسم کی حفاظت کی اور جنگلی جانوروں کے شکار سے اپنی اپنی غذا کا انتظام کرتے تھے ایک دوسرے سے کوئی وابستہ نہیں تھا اور نہ ہی ان میں ہمددردی کا جذبہ پیدا ہوا تھا۔دوسرے لفظوں میں یعنی انسان کا وجود تھا اور اس کی زندگی کا وجود بے معنی نظر آتا ہے۔انسان نے اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے جانوروں کے شکار سے اپنا پیٹ بھرا اور مختلف مختلف موسموں کی سختیوں سے بچنے کے لئے غاروں میں رہنا شروع کیا۔دھیرے دھیرے انسان نے جب پتھروں کے ذریعہ بڑے جانوروں کا شکار کیا اور شکار کو اپنی رہائش گاہ تک لانے کی فکر ہوئی،اس فکر اور دوسری ضرورتوں کے نتیجے میں سب کو ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑی،دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے سماج کی ضرورت محسوس ہوئی۔زندگی بسر کرنے کے لئے اس کو دوسرے انسان کی مدد پڑی۔انسان ایک دوسرے کے قریب ہوتا گیا۔اس کے اندد ہمدردی پیدا ہوگئی۔تو اس نے ایک دوسرے کی مدد شروع کی جس سے سب کی ضرورتیں پوری ہونے لگیں،اس میں ہمددری اور ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ پیدا ہوا۔پہلے ایک انسان خود شکار کرتا تھا اور اکیلے ہی کھاتا تھا۔اس کے اندر ہمدری اور مدد کا جذبہ نہیں تھا۔یہ صرف خود کے لئے زندگی بسر کرتا تھا۔کسی اور سے اس کا کوئی واسطہ نہیںتھا۔ہمدری اور مدد کے جذبے کے نتیجے میںانسان نے مل جھل کر رہنے لگا۔ یعنی اس نے قبیلے ،خاندان،کی شکل میں رہنا شروع کیا۔اس نے پتھروں سے آگ،حیوانوں کے چمڑے کو لباس،پتھروں اور لکڑیوں سے ہتھیار بنائے۔غرض انسان نے مختلف ضروریات زندگی کو پورا کرنے اور زندگی گزارنے کے لئے باہمی میل جول قائم کرکے سماج کی بنیاد رکھی اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی مادی ضروریات کی بنا پر سماج کا وجود ہوا۔انسان نے سماج کی تشکیل کی دیکر زندگی بسر کرنے میں آسانی حاصل کی۔سماج کے بدولت سے ہی انسان کی شناخت ثابت ہونے لگی۔سماج کے زریعہ ہی انسان نے زندگی گزارنے کے مختلف زرائع تلاش کیں۔
سماج لفظ سنسکرت زبان کے دو لفظوںسے مل کر بنا ہیں’’سم‘‘اور ’’آج‘‘ سم کے معنی ہیں اکھٹا یا ایک ساتھ اور آج کے معنی ہیں رہنا۔یعنی سماج کے لغوی معنی ہیں ایک ساتھ رہنا۔اس خیال سے جہاں افراد ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں وہیں سماج بن جاتا ہے۔
سماج کیا ہے؟ اور سماج کی اصل تعریف کیا ہو سکتی ہے۔یہ بہت وسیع موضوع ہے۔جس کی تفصیل میں جانا یہاں مناسب نہیں۔پھر بھی چند ماہرین سماجات کی مثالیں دی جارہی ہیں۔جنھوں نے اپنے اپنے انداز سے سماج کی یوں تعریف کی ہے۔۔۔
’جارح سمبل‘ (GEORGE SIMMELL) نے کہا ہے ۔
’’سماج کو ان لوگوں کا گروہ ہے جو آپس میں باطنی طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہوں۔ ‘‘
فیر چائلڈ نے سماج کی ڈھنگ سے اس کی تعریف کی ہے ۔
’’سماج انسان کا ایسا گروہ ہے۔ جو اپنے بہت سے ضروری مقاصد جن میں لازمی طور سے خود کی حفاظت یا پیٹ بھرنا کپڑا ہے۔ اور ان سب چیزوں کو پورا کرنے میں مدد کرتا ہے۔‘‘
مورس گنیں برگ(MORRIS GINS BERG)
’’سماج انسان کا وہ گروہ ہے۔جو کچھ تعلقات یا رشتوں، اخلاق کے کچھ طریقوں کے زریعے یکجا ہے۔ جو انھیں اُن لوگوں سے الگ رکھتے ہیں۔ جو ان رشتوں سے وابستہ نہیں ہوتے۔اوراخلاقی طور پر ان سے الگ ہوتے ہیں۔‘‘
میکالئور(MACLVER) کے خیال میں
’’سماج سماجی رشتوںکا ایک جال ہے۔‘‘
سماج افراد کا ایسا گروہ ہے جس میں افراد کچھ روایتوںاوراصولوں سے بندھے ہوتے ہیں۔سماج افراد کا مجموعہ ہے جب کبھی سماج کا خیال ہمارے ذہن میں آتا ہے تو افراد اور اس کی بہتری کا خیال بھی ابھر تا ہے یہ ممکن نہیں کہ فرد کی حالت بدتر ہو اور سماج بہتر ہو،سماج کو بہتر بنانے کی جدوجہد فرد کی آذاد نشوونشما اور ترقی کے لئے ہوتی ہے اس میں یہ بات مضمر ہے کہ فرد کی آذادی ایک انصاف پرور معاشرے کی تشکیل کے بغیر بر قرار نہیں رہ سکتی۔بلکہ اس کا وجود ہی نا مکمن ہے۔سماج ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور وقت کے تقاضوں کے تحت تغیر پذیر ہوتا ہے۔
ادب سماج ایک حصہ ہے سما ج کی ترقی میں ادب نے نمایا رول ادا کرتا ہے۔ادب سماج کی بہتری کا کام کرتا ہے۔جب سے سماج کاوجود ہوا تب سے لیکر آج تک ادب نے سماج کی بہتری کا کام کیا ہے۔جہاں سماج ہے وہاں ادب ہے۔یعنی سماج کے وجود سے ہی ادب کا وجود ہوا۔جو انسان سماج کی تشکیل میں نمایا کردار نبھاتا ہے وہ انسان ادب میں بھی نمایا کردار نبھاتا ہے۔وہی سے اس کے مسائل نے بھی جنم لینا شروع کیا۔ادب انسان کی زندگی سے وابستہ ہے۔یعنی ادب سماج سے وابستہ ہے۔ادب اور زندگی کے مسائل جہاں ایک طرف بڑے لطیف، باریک اور گریز پا ہیں وہان دوسری طرف ان کے باہمی رشتے بڑے پیچیدہ،پہلودار اور وسیع بھی ہیں۔ ادب اور زندگی کے باہمی تعلق کی بات چھڑتے ہی بے شمار مسائل سر اٹھاتے ہیں۔مثلاً سب سے پہلے یہی کہ ادب کیا ہے؟ کیا یہ خود کوئی مقصد کے حصول کا ذریعہ؟ کیا ادب محض انفرادی جذبات اور احساسات کا ترجمان ہے یا سماجی شعور کا عکاس بھی؟ ادب میں بنیادی اہمیت ہیت کو حاصل ہے یا مو ضوع اور مواد کو؟ان تمام سوالات کے جوابات میں دراصل ادب اور زندگی کے باہمی رشتے کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔
ادب کے مقصد اور منصب کے سلسلے میں مختلف ادوار میں مختلف نظریات کا اظہار کیا گیا ہے۔مگر ان تمام خیالات کی تہ میں جو مفہوم ادب کے بارے میں ہمیں مشترک نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ ادب اور انسانی زندگی آپس میں اس قدر مربوط ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرے کا تصوـر مکمن نہیں۔ادب نہ صرف زندگی کا ترجمان اور ناقد ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ ہمارے رہن سہن کا ایک لازمی جز بھی ہے۔اسی لئے ایک نقاد نے کہا ہے کہ (It is a social Manifestation of Human Life) مختصر یہ کہ ادب کا تعلق زندگی کے ساتھ بہت گہرا اور اٹوٹ ہے اور ادب دراصل زندگی سے ہی عبارت ہے۔
زندگی کیا ہے؟ زندگی ارتقاء اور مسلسل کا دوسرا نام ہے جس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلو شانہ بشانہ چلتے ہیں۔انفرادیت اجتماعیت کے بغیر کو ئی وجود نہیں رکھتی اور اجتماعیت انفرادیت سے علٰیحدہ کوئی چیز نہیں۔دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں اور دونوں کو ارتقاء حیات میں ایک دوسرے کا ممدومعاون ہونا چاہیے۔اسی کا نام حیات انسانی کا ارتقاء ہے۔ادب اسی حیات انسانی کا عکاس اور ترجمان ہے۔ بلکہ اگر یوں کیا جائے کہ ادب زندگی کا مقتضیات میں سے ہے تو بے جانہ ہوگا۔زندگی کے چند بنیادی مطالبات ایسے ہیں جن کی تکمیل ادبی تخلیقات کی صورت میں رونما ہوتی ہے اور یہ تقاضے اُن فطری جبلــتوں کے سرچشمے سے نکلے ہیں جو قدرت کی طرف سے انسان کو ودیعت کی گئی ہیں۔مثلاً انسان فطرتاً اپنی داخلی واردات کو دوسرے انسان پر ظاہر کرنے پر مجبور ہے اور یہی جذبہ اسے ہمیشہ مائل رکھتا ہے پھر انسان ایک معاشرتی حیوان کی حیثیت سے دوسرے انسانوں کے فعال و عمال سے گہرا کگائو بھی رکھتا ہے۔اس گرو ہی جبلت کے تحت جب اسے اپنی نوع کے ساتھ ذہنی اور جذباتی طور پر مربوط ہونا پڑتا ہے تو وہ لامحالہ ان کے افعال و اعمال کی داستان سرائی الفاظ کے پس پردہ کرتا ہے اس کے علاوہ اسے اپنے ماحول، گردوپیش اور مناظرفطرت سے جو گہرا ربط ہے وہ بھی ان محرکات میں شامل ہے۔ لیکن اس کی تخلیقات میں رنگِ ثباتِ دوام تب پیدا ہوتا ہے جب ان میں زندگی کی مروجہ قدروں کے ساتھ ساتھ فنی اور جمالیاتی اقداد کا بھر پور رنگ بھی موجود ہو۔ورنہ اس کا انجام ظاہر ہے موت اور خاتمے کے سوا کچھ نہیں۔رومی سعدؔی،میرؔ،غالبؔ اور اقبالؔ وغیرہ کی ہمیشگی اور بقائے دوام اس حقیقت کی شاہد ہیں کہ انھوں نے جہاں زندگی کی بنیادی قدروں اور انسانی مسائل کو اپنے ادب میں سمویا ہے وہاں اپنے خلوص اور جذبے کی رنگ آمیزی بھی کی ہے اور یہی امتزاج ان کی عظمت ہوا۔غالبؔ نے اس حقیقت کا انکشاف یوں کیا تھا کہا ؎
حُسنِ فروغِ شمع دور ہے اسدؔ
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی
اور اقبال نے کہا ؎
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
چنانچہ چمن ادب کی آبیاری خونِ جگر سے کی جائے تو اس میں پھوٹنے والے گل بُوٹے سدا بہار ہوتے ہیں۔رسکن نے ایک موقع پر کہا تھا کہ
“”NO NOBLE OR SIGHT ART WAS OVER YET
FOUNDED BUT OUT OF A SINCERE HEAR
اس قسم کے حسنِ خلوص سے یہی مراد ہے کہ ادب اپنے تجربات اور جذبات و احساسات کا صحیح صحیح اظہار کرے،اور عظیم ادب تب ہی معرض وجود میں آتا ہے جب اُس میں زندگی کی صداقتوں کے ساتھ ساتھ ادیب کی وارداتِ قلبی کی سچی ترجمانی بھی موجود ہو۔
ادبیات کی تاریخ پر نظر دوڑایئے تو ایک بات بہت واضح ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ تاریخ کے بعض موڑوں پر نقادوں،ادیبوں اور شاعروں نے ادب اور زندگی کے باہمی رشتے کو سمجھنے میں غلطی کی اور غلط قسم کی ادبی تحریکات نے جنم لیا۔لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ ادبی تحریکیں جنہوں نے زندگی اور ادب یعنی سماج اور ادب کو دور دور رکھنے کی کوشش کی ب ہت کم عمر پاکر اپنی موت آپ مر گئیں۔مثلاً بعض لوگوں نے کہا کہ ادب کی دو مختلف حیثیتیں ہیں۔ایک سماجی اور دوسری فنی۔اور ان کے نزدیک ان دونوں میں اتنا بُعد ہے کہ اگر ادب میں زندگی کے سنگین مسائل و حقائق کو پیش کیا جائے گا تو ادب کے فنی معیار نازک آبگینوں کی طرح چُور چُور ہو جائیں گے۔ادب اور زندگی کے بارے میں اس نظریے نے مختلف مدارسِ فکر کی بنیاد ڈالی۔
ادب جس کا تعلق سماج سے ہوتا ہے ایک ادیب اسی سماج میں پیدا ہوتا ہے اوراسی سماج میں زندگی بسر کرتا ہے۔ایک ادیب سماج سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود وہ سماج کے اثرات سے دور نہیں بھاگ سکتاہے۔ایک ادیب ہی سماج کا ترجمان ہوتا ہے۔اس لئے کہا جاتا ہے ایک ادیب اپنی زمانے کی تاریخ لکھتا ہے۔جب بھی ہم کسی ادیب کے تخلیقات کا مطالعہ کرتے ہیں گویا ہم اس زمانے کا مطالعہ کرتے ہیں جس زمانے میں وہ ادب تحریر کیا گیا ہو۔شروع سے موجودہ دور تک ادب کے بے شمار مسائل ہیں زمانے کے ساتھ ساتھ ان مسائل میں کمی ہونے کے باوجود روزبہ روز اضافہ ہی ہوتا گیا۔ کبھی ادب ادب برائے زندگی کے دائرے کے مسائل میں الجھ کر رہ گیا۔جس سے ادب میں طرح طرح کے مسائل نے جنم لیا۔کبھی یہی ادب برائے فن کے مسائل میںالجھ کر رہ گیا۔ادب کو کبھی سماج سے دور رکھا،کبھی سماج کے مد مقابل رکھا گیا۔کبھی اسی ادب کو ادب تصور کیاجانے لگا جس میں سماج کی عکاسی ہو جو سماج کے دکھ درد کو بیان کر سکیں۔الغرض ادب کے مسائل شروع سے ہی جنم لیتے گئے۔اور جدید دور تک آتے آتے ادب کے مسائل پر بحث کرنا یا اس کے بارے میں کچھ کہنامشکل ہو گیا ہے۔آج یہ موضوع ہی ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
انسان جب دنیا میں آتا ہے تو سماجی و معاشرتی آداب اپنے ساتھ لے کر نہیں بلکہ ایک دوسرے کے طرزِ عمل کے ٹکرائو سے تہذیبی عناصر کی تشکیل کرتا ہے۔یہ عناصر اُس کو خوبصورت زندگی کی تعمیر میں تخلیقی صفات کے ساتھ شریکِ کا ر رکھتے ہیں۔انسان کا حواسِ خمسہ کے ذریعے ادراک، اُس کی خواہشات، احساسات، ضروریات اور خیالات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ پتھر کے بُت تراشتا اور اپنے اعمال کو کسی ماورائی قوت سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔طرح طرح کے رسم و رواج اور طور طریقے برت کر زندگی کے معیارات قائم کرتا ہے جن پر پورا اترنے کی کوشش میں وہ اپنے کردار کی تشکیل کرتا ہے۔اپنی جبلی ضرورتوں میں انفرادیت پیدا کرتا،بھوک مٹانے کے لیے صرف کھانا کھانے ہی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ خوردونوش کی اشیاء میں تنوع پیدا کرکے اپنے ذوق کو بھی تسکین فراہم کرتا ہے۔وہ اپنے احساسات کو اظہار کے سانچوں میں ڈھالتا ہے۔ لفظ تراشتا ہے،تصویر بناتا ہیِ مجسمے کاٹتا ہے، خیالوں کی جولاں گاہ میں قیام کرتا ہے۔اخلاق و فلسفہ، معیشت و سیاست اور عقائد و آداب کے گھروندے تعمیر کرتا ہے۔ یہ سارا طرز عمل اُس ’’ تخلیقیت‘‘ کے جذبے کا مرہونِ منت ہے جو جانوروں میں نہیں ہوتا ۔ طرزِ زندگی کے اسی عمل کے لئے ہمارے ہاں کئی الفاظ رائج ہیں جن میں تہذیب،اخلاق، ثقافت اور کلچر شامل ہیں۔
کلچر نے انسانی سماج،سماجی زندگی کے مختلف طور طریقے، انسانی اخلاق اور برتائو، اصولوں، آدرشوںِ انسانی ترقی کی تاریخ نیز علمی،ادبی،ثقافتی،سائنسی معاشی، معاشرتی،تمدنی ارتقاء وغیرہ کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔تہذیب انسانی برتائو، اخلاق اور تمدنی ترقی کا نام ہے۔کلچر کی دو قسمیں ہیں
۱۔ اخلاقی تہذیب۔۲۔ تمدنی تہذیب۔
۱۔ اخلاقی کلچر اس تہذیب کا نام ہے جسے انسان اپنے گھر اور سماج میں رہ کر سیکھتا ہے یایوں کہہ لیں کہ گھر اور سماج کی ایک مخصوص تہذیب سے اثر قبول کرتا ہے اس میں گھر کے افراد اور سماج کے خیالات، زبان رسم و رواج اصول و نظریات ۔روایت،برتائو۔عمل،علم و ادب،مذہب و سیاست، سائنس، آرٹ اور مو سیقی وغیرہ شامل ہے۔
۲۔تمدنی کلچروہ کلچر ہے جو انسان کی نظروں کے سامنے ظاہر ہو اور دیکھائی دے جسے انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہو، جیسے مکان،سڑک، پل، ریل گاڑی،موٹرکار، جہاز ،پریس۔گھڑی، ریڈیو،ٹیلیویژن، مشین وغیرہ۔
تمدن جب قدیم ہو جاتا ہے تو کلچر بن جاتا ہے۔کلچر ہمیشہ تغیر پذیر ہوتا ہے یہ سماج کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔کسی انسان کے طور طریقوں سے اس کی تہذیب کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ تہذیب ذاتی نہیں ہوتی بلکہ اجتماعی ہوتی ہے اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ تہذیب یا کلچر زندگی بسر کرنے کے مکمل طریقے کا نام ہے۔(Total way of life) جو انسان کی جسمانی،عقلی، اور دوسری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ماہرین سماجیات نے تہذیب کو سماجی واراثت کہا ہے جس میں ہم زندگی گزارنے یا عمل و فکر کے ان سبھی طریقوں کو شامل کرتے ہیں۔ جو ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتے ہیں اور سماج قبول کر چکا ہے۔کلچر کا وجود سماج کیذریعہ ہو اس لئے ان دونوں میں گہرا تعلق ہے دونوں ایک دوسرے کے ذریعہ پہچانے جاتے ہیں۔ تہذیب انسان کا سب سے عظیم سرمایا ہے جس کی مدد سے انسان نسل در نسل آگے بڑھتا ہے اور ترقی کرتا ہے۔
آخر پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں ادب،سماج،کلچر، انسانی زندگی کی ترقی میں نمایا کردار ادا کرتے ہیں۔ انساں کی ترقی میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔اگر انسان کی ترقی یافتہ زندگی کا مطالعہ کرنا ہوگا تو ہم ادب،سماج،اور کلچر کی بات کرتے ہیں۔ادبی لحاظ سے کتنا ترقیافتہ ہے،سماجی لحاظ سے کتنا تہذیب یافتہ،اور کلچر کے اعتبار سے کتنا پرانہ ہے۔ جہاں ادب نے ترقی کی،وہاں سماج میں بھی اس سائنسی دور میں تبدیلیاں آنے لگی،اور کلچر نے بھی نئے انداز سے اپنا رابطہ کروایا۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!