تکنیک کا تنوع:انتظار حسین کے افسانوں میں

مشرف فیاض
ریسرچ اسکالر،سنٹرل یونی ورسٹی کشمیر، سری نگر

بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اردو افسانے کی تاریخ کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ابتدا سے ہی اردو افسانے کو ایسے باکمال افسانہ نگار نصیب ہوئے جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے اردو افسانے کو بین الاقوامی ادب کے مد مقابل کھڑا کر دیا۔انہی افسانہ نگاروں میں ایک نام انتظار حسین کا بھی ہے۔جنہوں نے اپنے انوکھے انداز سے اردو افسانے کو ایک نئی سمت عطاکی۔انتظار حسین نے اپنے افسانوں میں نت نئے تجربات بھی کیے اور مشرقی تہذیب و تمدن کابھی خیال رکھا۔انہوں نے اپنے افسانوں کے موضوعات بر صغیر ہند و پاک کی قدیم مذہبی روایتوںسے اخذکیے۔بچپن میں اپنی نانی سے الف لیلیٰ کے قصّے سُنا کرتا تھا،جب افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھا تو انہی قصّوں کو حقیقت کا روپ دے کرپیش کیا۔انتظار حسین کہیں ہندی دیومالا،کہیںجاتک کتھائیں اور کھبی قرآن مجید،بائبل،مہا بھارت اور رامائن جیسی مذہبی کتابوں سے استفادہ کر کے اپنے افسانوں کے موضوعات بڑے ہی فلسفیانہ انداز سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔انتظار حسین کو اگر جدید افسانے کا موجد کہا جائے تو بیجانہ ہو گا کیونکہ انہوں نے افسانے کی روایت کوتوڑکر اسے ایک نیا وژن دیا۔اپنے اساطیری اسلوب سے اردو افسانے کا رُخ موڑ دیا۔اس حوالے سے ڈاکٹر نعیم انیس رقم ٖطراز ہیں:
’’ان کی پہچان داستانی اسلوب،تمثیلی پیرائے بیان،اساطیر،زمین سے گہری وابستگی، ہندو اساطیر،اسلامی عناصر،ماضی کی باز یافت،علامتوں کا خوب صورت اظہار اورجدیدیت کے حسین امتزاج کے ذریعہ ہوتی ہے۔انہوں نے ناول اور افسانے کی کڑیوں کو داستانوں،حکایتوں،مذہبی روایتوں اور دیو ما لائی حوالوں سے جوڑ کر اردوفکشن کی تاریخ میں اظہار کے نئے راستے دکھائے‘‘۔ ۱؎
انتظار حسین نے جس دور میں لکھنا شروع کیا تھا اس دور میں ان کے دیگر ہمعصر افسانہ نگار اور ان کے ماقبل افسانہ نگاروں نے افسانہ نگاری کے مختلف اسلوب اور تکنیک و ہیئت میں افسانے لکھ رہے تھے مثلاً حقیقت پسندی،مارکسی،نفسیاتی وغیرہ موضوع و اسلوب اپنائے جا رہے تھے اور اس کے بعد کی تکنیک میں بھی طرح طرح کے تجربات ہوئے مثلاً شعور کی رو،فلیش بیک کی تکنیک،بین المتونیت ،آزاد تلازمہ خیال کی تکنیک،خود کلامی وغیرہ وغیرہ۔انتظار حسین نے ان تمام تکنیکوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کامیاب افسانے پیش کیے۔اپنے ابتدائی دور کے افسانے انتظار حسین نے بیانیہ تکنیک میں پیش کیے چند افسانے خطوط،ڈائری،رپورتاژ جیسی تکنیکوں میں بھی پیش کیے ہیں۔سب سے پہلے بات کرتے ہیں بیانیہ تکنیک میں لکھے گیے افسانوں کی۔
بیانیہ:
کسی بھی خیال ،واقعہ یا واقعات کو موضوع الفاظ اور جملوںمیں پرو کر ان واقعات کو سلسلہ وار پیش کرنا بیانیہ ہے۔اس میں تسلسل وروانی کے ساتھ ساتھ موضوع اور مناسب فکر وخیال کی پیش کش بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔افسانوی نثر خاص کر داستانوں،ناولوں ،افسانوں اور ڈراموں وغیرہ میں بیانیہ کا استعمال ہوتا ہے اور اسی بیانیہ کے ذریعے مصنف اپنی تخلیاقات میں ایسا تاثیر اور حسن پیدا کر دیتا ہے کہ قاری اس میں گم ہو کر لطف اندوز ہو جاتا ہے۔دوسری اصنافِ سخن کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کی تاریخ کی شروعات میں بیانیہ کی تکنیک بہت مقبول تھی اور اسی تکنیک میں اردو کے بہت سے لازوال افسانے وجود میں آئیں۔بیانیہ تکنیک میں ایک افسانہ نگار افسانے میں پیش ہونے والے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے ساتھ ہر کردار اور واقعات کا یکے بعد دیگرے بیان کرتا ہے۔بقولِ ممتاز شریں:
’’بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے علی الترتیب بیان ہوتی ہیں‘‘۔۲؎
یہ داستان کسی ایک شخص یا کسی شہر یا کسی بھی شئے کی ہو سکتی ہیں اور اس داستان کو انجام تک پہنچانے کے لیے افسانہ نگار ،اس شخص یا شئے سے جڑے بہت سے واقعات کو موزوں انداز اور تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
افسانہ ’’قیوما کی دکان ‘‘ بیانیہ تکنیک کی ایک مثال ہے۔بظاہر اس افسانے میںتقسیم ہندسے پہلے اور ہجرت کے بعد کے واقعات بیان کیے گیے ہیں ۔انتظار حسین نے تقسیم ہندسے پہلے اور ہجرت کی داستان میں پیش آنے والے مختلف واقعات کی کڑیوں کو بہت عمدہ گی کے ساتھ بیان کیا ہے۔افسانے کی شروعات اس کے راوی کے ساتھ ہوتی ہے جس کو ہر روز ’’بدھن‘‘ سے دودھ خریدناہوتا ہے۔انتظار حسین نے دودھ خریدنے کے اس واقعہ کو پیش کرتے ہویے اصل موضوع کے ساتھ جوڑ دیا ہے یعنی قیوما کی وہ دکان جہاں پر اس محلے کے سب لوگ بیٹھ کر باتوں میں محو ہو جا تیں ہیں:
’’صبح ہی جب میں لحاف میں منہ لپیٹے پڑا ہوتا اور نیم غنودگی کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی تو بدھن کی ’’دودھ لو دودھ لو‘‘کی دلآویز صدا دور کی کسی دوسری دنیا سے خواب میں لپٹی ہوئی آتی معلوم ہوتی۔ادھر اس نے آواز لگائی اور ادھر میں کروٹ لینے نہیں پاتا تھا کہ پھر ایک وار ہوتا۔۔۔خیر صاحب دودھ لانا میرے ذمے تھا اور میں لادیتا تھا۔لیکن بات یہاں آکر ختم تھوڑی ہی ہوتی تھی۔میں نے دودھ کا گلاس آپا کے ہاتھ میں تھما یا۔انہوں نے اسے غور سے دیکھا،ایک دو جھٹکے دئیے اور پھر چلّانا شروع کر دیا۔اے لومٹے کی باتیں۔یہ دودھ دیا ہے کم بخت نے نرا پانی ۔جا اسے اس کے منہ پہ مار یا۔بدھن ایسا کوئی گیا گزرا تو تھا نہیں۔اسے تو اس کی پرواہ بھی نہیں تھی کہ کون اس کا دودھ خریدتا ہے،کون نہیں خریدتا۔۔۔اس نظریاتی اختلاف سے قطع نظر بدھن اپنی قسم کا ایک ہی آدمی تھا۔لمبا تڑنگا،کالا رنگ،گھٹا ہوا جسم،ہاتھ میں ہر وقت لاٹھی رہتی تھی۔۔ دور دور کے گائوں میں اس کی لٹھیا کی دھوم تھی۔بڑے بڑوں کے اس نے سر توڑے تھے۔۔۔اسے تو اپنی لٹھیا پہ بھروسہ تھا ۔پٹھا بے کھٹکے رات بیرات کو جہاں جی چاہے گھومتا تھا۔رات کو قیوماکی دکان پہ آکے اس کی باتیں سنو‘‘۔ ۳؎
اس اقتباس میں ایک کے بعد ایک واقعہ تسلسل کے ساتھ بیان ہوا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بدھن اور آپا کے کرداروں کو اُن کی نفسیات کے ذریعے بیان کیا گیا ہیں۔اس اقتباس میں انتظار حسین نے مختلف واقعات کو تسلسل کے ساتھ بیان کر کے اصل موضوع کی طرف لے جانے تک ان واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کر کے قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھا ہے۔
’’مجمع‘‘ میں انتظارحسین نے ایک نوخیز لڑکے کے اندر اٹھنے والے جنسی جذبے کو بیان کیا ہے۔اس جنسی جذبہ کو بیان کرنے کے لیے انتظار حسین نے اس نوخیز لڑکے ’’پنن‘‘ کے وہ تمام واقعات سلسلہ وار پیش کیے ہیں جن سے وہ اس افسانے میں گزرا ہے۔ابتدا میں پنن کی اماں پنن کو ڈانٹ پٹھکار کے باذار ہلدی لانے کے لیے بیجتی ہیں۔گھر سے نکل کر پنن بازار پہنچ کر وہاں کی رونق دیکھ کر پھنس جاتا ہے۔یہاں پر انتظار حسین نے ایک بازار کے مختلف پہلوئوں کو بھی دیکھا یا ہے خاص کر اُس عطار کو جو اپنی دوائیاں بیچنے کے لیے بازار میں مجمع لگا دیتا ہے اور پنن اس مجمعے کو دیکھ کر گھر واپس جانا ہی بھول جاتا ہے۔اس کے بعد انتظار حسین ،پنن کے دوسرے مشاغل کاذکر کرتے ہویے اس افسانے کو آگے بڑھاتاہے جیسے پنن کا دوسرے لڑکوں کے ساتھ لڑنا،مجلس میں شریک ہونا اور بازار میں مختلف سیا ست دانوں کے تقاریر سننا ان سب واقعات کو انتظار حسین نے سلسلہ وار پیش کر کے پنن کے کردار کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
’’پنن نے طے یہی کیا تھا کہ فی الحال باہر کھیلا جائے۔جب ماتم کا تاشہ بجے گا تو لپک کر اندر چلے جائیں گے لیکن مفت میںلڑائی گلے پڑ گئی۔چھوٹا ڈیڑھ پسلی کا تو لونڈا ہے لیکن سمجھتا ہے اپنے آپ کو گاماں۔۔۔پنن نے اگر چہ چھوٹے کو پٹخی دے دی تھی لیکن پھر وہ کچھ اس انداز سے چوپال میں داخل ہوا گویا میدان ہار کر آیا ہے۔مجلس پورے عروج پر تھی۔۔۔فخر الواعظین سید تقن صاحب نے بھی وہ مجلس پڑھی کہ مجمع بچھ بچھ گیا اور صلواۃ کے نعرے بلند کرتے کرتے لوگوں کے گلے پڑگئے۔۔۔لیکن اس صلواۃ سے پنن کا دھیان پھر بٹ گیا ۔ جانے کتنی دیر اس کا تصور طیش اور غصے سے بھر ے ہوئے جذبات کی دنیا میں سرپٹ دوڑتا رہا‘‘۔ ۴؎
انتظار حسین نے اس افسانے کو بیانیہ تکنیک میں پیش کرتے ہویے اُن تمام واقعات کو پیش کیا ہے جن سے پنن گزرا ہے۔
اصل میں انتظار حسین نے اس میں ان واقعات جن سے پنن کے جنسی جذبات اُٹھنے لگتے ہیں،کے علاوہ دوسرے کئی واقعات بھی پیش کیے ہیں جن سے قاری کا ذہن پنن کے کردار کے مختلف پہلوئو ں سے آشنا ہو جاتا ہے۔
’’کایا کلپ‘‘ بھی اسی تکنیک میں لکھا گیا ایک اور افسانہ ہے۔اس افسانے کا انداز بلکل ویسا ہی ہے جیسے داستانوںکا ہوتا ہے۔بظاہر یہ افسانہ ایک علامتی افسانہ ہے لیکن انتظار حسین نے اس کو بیانیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ملاحظہ کیجیے ایک اقتباس:
’’جب تین راتیں اسی طور گزریں تو شہزادے کو تشویش ہوئی کہ الہٰی یہ کیا ماجرا ہے کہ شام ہوتے ہوتے میں اپنے آپ کو بھول جاتا ہوں۔مقرر کسی نے سحر باندھا ہے۔یہ سوچ کر اُس نے اپنے تئیں ملامت کی اے غافل تو شہزادی کو سفید دیو کی قید سے رہائی دلانے آیا تھا،اوور خود سحر میں گرفتار ہوا۔تب اس نے تلوار سونتی اور شام کا منتظر رہا ۔جب شام ہوئی اور دیو کی دھمک سے قلعہ کے در و دیوار ہلنے لگے تو وہ چوکنّا ہوا۔مگر اس نے دیکھا کہ شہزادی نے اُس کی طرف منہ کر کے پھونک ماری اور وہ سمٹنا شروع ہو گیا‘‘۔۵؎
اس افسانے کے بیان کرنے کا طریقہ بالکل داستانوں جیسا ہے اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی داستان سُنا رہا ہے۔اس افسانے کے شروع میںہی آزاد بخت کے کردار کو پیش کیا گیا ہے اور اسی کردار پر گزرنے والے ہر لمحے اور واقعے کو انتظار حسین نے ایک ایک کر کے پیش کیا ہے۔
’’آخری آدمی ‘‘بھی انتظار حسین کا بیانیہ تکنیک میں لکھا گیا افسانہ ہے۔اس افسانے میں ایک واقعہ الیاسف کا آتا ہے جب وہ دوسرے لوگوں کے ہمراہ اُس شخص کے پاس جاتا ہے جو انہیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھالیکن وہاں کسی کو نہ پا کرالیاسف مایوس اور دوسرے لوگ خوف میں مبتلا ہو کر اپنی صورتوں کو بدلتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔اس پورے واقعہ کو انتظار حسین نے بڑی ہنر مندی سے بیان کیا ہے۔ملاحظہ کیجیے اس واقعہ سے جڑا ایک اقتباس:
’’پھر الیاسف لوگوں کو ہمراہ لے کر اس شخص کے گھر گیا اور حلقہ زن ہو کے دیر تک پکاراکیا۔تب وہ وہاں سے مایوس پھرا اور بڑی آواز سے بولا کہ اے لوگو وہ شخص جو ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اگر سوچو تو اس میں ہمارے لئے خرابی ہے۔لوگوں نے یہ سنا اور دہل گئے۔ ایک بڑے خوف نے انہیں آلیا،وحشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں اور خد و خال مسخ ہوتے چلے گئے اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور سکتہ میں آگیا۔اس کے پچھلے چلنے والے بندر بن گئے تھے‘‘۔ ۶؎
انتظار حسین بہت سے افسانوں میں حکایتوں اور جاتک کتھائوں کو بھی الگ الگ موضوعات کے اندر سمو دیا ہے اور ان حکایتوں اور جاتک کتھائوں میں بہت سے واقعات بیانیہ اندازمیںپیش کیے ہیں۔اب سوال یہ ہیں کہ کیا ان حکایتوںاور جاتک کتھائوں کو بیانیہ تکنیک کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہیں کہ نہیں؟اس ضمن میں رضی شہاب نے اپنی کتاب ’’افسانے کی شعریات‘‘ میں پروفیسر معین الدین جینا بڑے کا یہ قول درج کیا ہے۔
’’کہانی جو نظم یا نثر میں کہی/سنائی جائے جو مبنی بر واقعات وکردار ہو، ان واقعات کا اپنا ایک تسلسل ہو اور وہ کردار گفتار وعمل کے متحمل ہوں، پھر چاہے وہ حکایت،قصے یا داستان کی شکل میں ہو،افسانے،ناول اور مثنوی کے روپ میں ہو یا پھر ڈرامےاور فلم کے بہروپ میں’’بیانیہ‘‘ کہلاتی ہے‘‘۔۷؎
اس اقتباس میں پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے واقعات کے تسلسل اور کرداروں کے عمل کو بیانیہ کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔یعنی کسی بھی فن پارے میں واقعات اور ان واقعات کا تسلسل ضروری ہونا چاہیے۔پروفیسر معین الدین جینا بڑے کے اس قول کو اگر مدِ نظر رکھا جا یے تو انتظار حسین کے ایسے افسانے بہت ہیں جن میں حکایتیں اور کتھائیں شامل ہیں اور ان حکایتوں اور کتھاوئوںمیںواقعات بھی ہیں،کردار بھی ہیں اور واقعات کا تسلسل بھی ۔افسانہ ’’زرد کتّا‘‘میںانتظار حسین نے بہت سی حکایتں پیش کی ہیں۔ملاحظہ کیجیے ابو سعید رحمتہ اﷲ علیہ کا واقعہ۔
’’شیخ ابو سعید رحمتہ ا ﷲ کے گھر میں تیسرا فاقہ تھا،ان کی زوجہ سے ضبط نہ ہو سکا اور انہوں نے شکاہت کی۔تب شیخ ابو سیعد باہر نکلے اور سوال کیا۔سوال پر جو انہوں نے پایا وہ لے کر اٹھتے تھے کہ توالی والوں نے انہیں جیب تراشی کے جرم میں گرفتار کر لیااور سزا کے طور پر ایک ہاتھ قلم کر دیا۔آپ وہ ترشا ہوا ہاتھ اٹھا کر گھر لے آئے۔اسے سامنے رکھ کررویا کرتے تھے کہ اے ہاتھ تو نے طمع کی اور تو نے سوال کیا،سو تو نے اپنا انجام دیکھا‘‘۔ ۸؎
افسانہ ’’کچھوے‘‘ میں انتظار حسین نے بہت سی جاتک کتھا یں بیان کی ہے۔ان کتھا و ئوں میں کہانی پن بھی ہے اور تسلسل بھی۔
’’تو سن !اگلے جنم کی بات ہے کہ بنارس میں راجہ برہم دت براجتاتھا اور ہمارے بودھ دیو جی ،مینا کے جنم میں جنگل میں باس کرتے تھے ایک پیڑ کی گھنی ٹہنی میں ایک سندر گھونسلہ بنایا اور اس میںرہنے سہنے لگے۔ایک بار بہت درشا ہوئی۔ایک بندر بھیگتا ہوا کہیں سے آیا اور اسی پیڑ پرمینا کے گھونسلہ کے برابر بیٹھ گیا،پر یہاں بھی وہ بوندوں سے بھیگ رہا تھا۔مینا بولی کہ ہے باندر!ویسے تو آدمی ،کی بہت نقالی کرتا ہے مگر گھر بنانے میں اس کی نقالی کیوں نہیں کرتا؟آج تیرا گھر ہوتا تو درشا سے یہ تیری دُردشا کیوں ہوتی؟بندر بولا کہ میناری مینا! میں نقل کرتا ہوں پر عقل نہیں۔مگر پھر بندر نے یہ کہنے کے بعد سوچا کہ مینا اپنے گھر میںبیٹھی باتیں بنا رہی ہے۔اس کا گھر نہ ہو اور میری طرح بھیگے،پھر دیکھوں کیسے باتیں بناتی ہے۔یہ سوچ کے اس نے مینا کے گھونسلے کو کھوسٹ ڈالا۔بدھیستو جی اس موسلا دھار مینہ میںگھر سے بے گھر ہو گئے۔انھوں نے ایک گا تھا پڑھی جس کا تت یہ ہے کہ ہر ایرا غیرا کو نصیحت کرنا مفت میں مصیبت معول لینا ہے‘‘۔ ۹؎
غرض کہ اس پوری جاتک کتھا میں ایک کہانی ہیں اور اس کہانی میں پیش آیے واقعات کا تسلسل بھی ہے۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی انتظار حسین نے حکایتیں اور کتھائیں پیش کی ہیں اُن سب میں بیانیہ تکنیک کا انداز اپنایا گیا ہے۔ان افسانوں کے علاوہ چوک،محل والے،پرچھائیں،سکنڈ راونڈ،بگڑی گھڑی،دوسرا گناہ،اندھی گلی،پتے،واپس وغیرہ میں بیانیہ تکنیک کو ہی اپنایا گیا ہے۔
ڈائری کی تکنیک میں انتظار حسین نے ایک افسانہ ’’ایک بن لکھی رزمیہ‘‘پیش کیا ہے۔یہ افسانہ فسادات اور ہجرت پر مبنی ہے۔اس افسانے میں انتظار حسین نے اُن لوگوں کے والہانہ محبت اور لگائو کوبیان کیا ہے جو ایک نئے ملک پاکستان کے لیے رکھتے تھیں اور جب یہی لوگ پاکستان پہنچتے ہیں تو معاشی لحاظ سے انہیں بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہیں۔اسی صورتِ حال کو انتظار حسین نے ایک لافانی کردار پچھوا کے ذریعے بیان کی ہے۔اس افسانے کے دو حصّے ہیں۔پہلے حصّے میں فسادات کو بیان کیا گیا ہے جس کو انتظار حسین نے بیانیہ تکنیک میں پیش کیا ہے اوردوسرا حصّہ پاکستان میں مہاجرین کی صورتِ حال بیان کرتا ہے جس کو انتظار حسین نے ڈائری کی تکنیک میں پیش کیا ہے۔ انتظار حسین نے اس ڈائری میں ۱۳/ اپریل ۱۹۵۰ ؁ ء سے لے کر یکم جون ۱۹۵۰ ؁ ء تک کے واقعات کو خاس کرپچھوا پر گزرنے والے واقعات کوتاریخواردرج کیا ہیں ۔
’’یکم جون
آج میںآخری مرتبہ ڈائری لکھ رہا ہوں۔کل سے مجھے اتنی فرصت کہاں ملے گی۔ڈائری لکھنا تو ٹھالی کی بیگار ہے۔چکی کا انتظام درست ہو چکا ہے۔ا ﷲ نے چاہا تو کل سے باقاعدہ چلنی شروع ہو جائے گی‘‘۔ ۱۰؎
یہ افسانہ واحد متکلم کے صیغے میں لکھا گیا ہے اور افسانہ نگار خود یہ واقعات دیکھ کر انہیںدرج کرتاجارہا ہے۔اس افسانے کا راوی بھی دوسرے محاجرین کی طرح پاکستان جاتا ہے اور پاکستان پہنچ کر وہ مہاجرین کی معاشی صورتِ حال دیکھ کر انہیں اپنی ڈائری میں رقم کرتا جاتا ہیںاور آخر پر جب راوی کی معاشی صورت ِ حال بہتر ہونے لگتی ہیں تو وہ ڈائری لکھنا بند کر دیتاہے۔
اردو افسانہ میں شروع ہی سے تکنیک کا تنوع رہا ہے۔ایک کے بعد ایک نئی تکنیک اردو افسانے کی زینت بنی انہی تکنیکوں میں ایک تکنیک خطوط کی ہیں اس تکنیک میں لکھے جانے والے افسانے بالکل عام خطوط کی طرح شروع ہوتے ہیں۔اس تکنیک کے متعلق ممتاز شریں کا خیال ہے۔
’’ایک اور تکنیک خطوط کی ہے۔اگر ان افسانوں میں یہ ظاہر نہ کیا جائے کہ یہ خط ہیں تو مانو لاگ بن جاتے ہیں۔ایک آدمی اپنی باتیں اور دوسروں سے کہی جانیں والی باتیں تفصیل سے سناتا ہے۔اگر یہ باتیں کہی جائیں تو افسانہ مانولاگ بن جاتا ہے،لکھی جائیں توخط۔مانو لاگ میںبیان کرنا یا خط کی صورت میں لکھنا بڑی آسان تکنیک ہے لیکن اس سے افسانہ بڑا اثر انگیز ہو جاتا ہے‘‘ ۔ ۱۱؎
ممتاز شریں کے مطابق خطوط اور مانولاگ میں فرق صرف اتنا ہے کہ خطوط کو نمایاں کرنے کے لیے آداب و القاب کے جملے لکھے جاتے ہیں اور اگر یہ سب خطوط میں ظاہر نہ کیا جایے تو خطوط اور مانو لاگ میں کوئی فرق باقی نہیں رہ پایے گی کیونکہ دونوں صورتوں میں داخلی خود کلامی سے کام لیا جاتا ہے۔انتظار حسین کا اس تکنیک میں ایک افسانہ ’’ہندوستان سے ایک خط‘‘قابلِ دید ہے۔یہ افسانہ ہجرت کے موضوع پر لکھا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ہجرت سے کس طرح پورے کا پورا خاندانی شجرہ بکھر جاتا ہے۔اس افسانے کا مکتوب نگار قربان علی جو ہندوستان میں رہ کر اپنے بھتیجے کو خط لکھ کربتاتا ہے کہ ہمارے خاندان کے لوگ ہجرت کے بعد بکھر گیے ہیں اور ہمارے اجدا کی قبریں ہندوستان میں پڑی ہیں ایسے میںہمارے آنے والی نسلوں کو کیسے پتا چلے گا کہ ہمارا خاندان اصل میں کہاں تھا اور ہمارے جد امجد کون تھے اس لیے قربان علی اپنے بھتیجے سے التماس کرتا ہے کہ پاکستان میں ہمارے خاندان کے جو لوگ ہیں ان کے متعلق لکھ کے بھیجو تاکہ میں اپنے خاندان کا شجرہ نصب بنا سکوں۔اس افسانے کو انتظار حسین نے اس طرح شروع کیا ہے۔
’’عزیز از جان!سعادت و اقبال نشان!برخور دار کامران طولعمرہ!بعد دعا اور تمنائے دیدار کے واضح ہو کہ یہ زمانہ ،خیرت تمھاری نہ معلوم ہونے کی وجہ سے،بہت بے چینی میں گزرا۔میں نے مختلف ذرائع سے خیرت بھیجنے اور خیریت منگانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ایک چھٹی لکھ کر ابراہیم کے بیٹے یوسف کو بھیجی اور تاکید کی کہ اسے فوراً کراچی کے پتے پر بھیجو!اور ادھر سے جو چھٹی آئے مجھے بواپسی ڈاک روانہ کرو!‘‘ ۔ ۱۲؎
اس افسانے کی شروعات عام خطوط کی طرح کی گئی ہیں اور اس کے بعد اصل مقصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ افسانے کے خدوخال کو بھی برقرار رکھا گیا ہے۔
رپورتاژ کی تکنیک:
رپورتاژ کو انگریزی میںREPORTکہتے ہیں جس کے معنیٰ ہیں کسی چیز کے متعلق اطلاع یا خبر دینا یا مشاہدات کو بیان کرنا۔اس تکنیک کے تحت بھی اردو میں افسانے لکھے گئے ہیں۔اس طرح کے افسانوں میں افسانہ نگاراُن باتوں کو بیان کرتا ہے جن سے وہ گزرا ہو یا کسی سے سنی ہو۔اس طرح کے افسانے واحد متکلم کے صیغئہ میں بیان کیے جاتے ہیں۔اس ضمن میں انتظار حسین نے ’’سانجھ بھئی چوندیس‘‘ اور ’’استاد‘‘ لکھا ہے۔استاد میں انتظار حسین نے تقسیم ہند سے پہلے ایک شخص کے حالات و کوائف کو بیان کیا ہیں۔افسانے کے ابتدا میں ہی انتظار حسین نے ’’استاد ‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہویے لکھا ہے کہ اس کے متعلق ہمارے گھر والے بھی کہتے تھیں،یعنی اس کے متعلق راوی نے اپنے گھر والوں سے جو بھی سنا اس کو ہو بہو بیان کر کے استاد کی شخصیت کو پیش کیا ہیں۔
’’سگا کی بات کا تو خیر کیا اعتبار۔وہ تو ہمیشہ دون کی لیتا تھا۔مگر ہمارے سب گھر والے بھی یہی کہتے ہیں کہ استاد کا زمانہ بس دیکھنے کے لائق تھا۔سارے شہر میں ان کی دھاک تھی۔بڑے بڑے تیس خانوں کا ان کے نام سے دم خشک ہوتا تھااور رئیسوں کی تو انہوں نے کبھی کوئی ہستی ہی نہ سمجھی۔جس کسی نے ذرا اکڑ تکڑ کی اس کو بیچ بازار میں جوتے لگوادئیے۔۔۔یہ باتیں ہمارے ہوش سے پہلے کی ہیں۔اس زمانے میںاستاد نہ جانے کہاں ہوں گے مگر اتنا تو ہم نے بھی دیکھاہے کہ بڑی حویلی کے مردانے میںپانچ چھ پٹھے ہمہشہ رہتے تھے‘‘۔ ۱۳؎
اس اقتباس سے اس افسانے کی رپورتاژ نگاری کی تکنیک کا پتا چلتا ہے۔اس میں نہ صرف انتظار حسین نے استاد کے متعلق دوسروں سے سناہے بلکہ خود بھی دیکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فسادات کی وجہ سے جس طرح استاد کی حویلی خالی اور سونی پڑھ جاتی ہے اسی طرح انتظار حسین نے اپنی آنکھوں سے اُجڑتے اور جھلتے گھروں کو دیکھا تھا،یعنی وہ سب جو انتظار حسین نے اس افسانے میں بیان کیا ہے وہ ان سب حادثوں سے گزر چکے تھے اور اسی صورتِ حال کو انہوں نے استاد کے حوالے سے دیکھانے کی کوشش کی ہے۔
شعور کی رو:
شعور کی رو کانظریہ،امریکی ماہرِ نفسیات ولیم جیمس نے پہلی بار اپنی کتابPrinciples of psychology 1890میں پیش کر کے یہ اصطلاع وضع کی ۔انگریزی میں اس کو Stream of consciousnessکہتے ہیں۔ولیم جیمس کا ماننا ہے کہ انسان کے شعور میں جو خیالات بسے ہوتے ہیں وہ ایک ندی کے دھارے کی طرح ہر دم رواں دواں رہتے ہیں۔اردو فکشن میں شعور کی رو کو ایک تکنیک کے طور پر پیش کیا گیا ہے اوراسی تکنیک کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ادیب اپنے ذہن میںاُٹھنے والے خیالات کو جوں کا توں پیش کرتا ہے ان خیالات میں کوئی تسلسل نہیں ہوتاہیں اس طرح ایک ادیب بیک وقت ماضی،حال اور مستقبل میں سفر کرتا نظر آتا ہے ۔
افسانہ ’’ کیلا‘‘ میں انتظار حسین نے شعور کی رو کی تکنیک استعمال کرتے ہویے حال اور ماضی کے بہت سے واقعات کو بنا کسی تسلسل اوربنا تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔یعنی حال اور ماضی میں بنا کوئی حد مقرر کیے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔
’’دیوالی پر تو یہ معمول تھا کہ ایک دن پہلے مکان کے اندر،باہر سفیدی ہوتی۔ کواڑوں پر روغن ملا جاتا،کوڑے کچرے کے پرانت کے پرانت دروازے کے سامنے پھینکے جاتے اور پھر کیلا ایک کٹوری میں گیرو گھول کر دروازے پر آتی اور چوکی سے اوپر سفید دیوار پر بڑی نفاست سے مربع کی شکل میں لال چار خانہ سا بنا دیتی۔مگر اب تو وہ بیاہ کر سسرال جاچکی تھی۔اس خیال سے اسے بڑی تسکین ہوئی۔سب کچھ کیا دھرا کیلا ہی کا تو تھا۔دیولا پاس سے گیا تھا تو چلا جاتا آخر دیوالی پر بھی وہ ہر مکان سے تو دیوے چرانے میں کامیاب نہیں ہوتا تھا۔۔۔اسے تعجب ہوا کہ کیلا کے دروازے کے طاق میں ابھی تک دیولانہیں جلا ہے اور ڈیوڈھی جو اس وقت ننگے پیروں کی شیریں آہٹ سے جاگ اٹھا کرتی تھی سنسان ہے۔بنائو سنگھار سے کوسوں دور،اُجلا چہرہ،میلی ساڑھی، چال ڈھال میں عجلت کی کیفیت، گویابڑی مصروف ہے اور اس کی زرا سی چوک سے گھر کا انتظام درہم برہم ہو جائے گا‘‘۔۱۴؎
اس اقتباس میں انتظار حسین نے پہلے ماضی کا واقعہ بیان کیا ہے اور اس واقعے کی پوری تفصیل دیے بغیر ایک اور ماضی کا واقعہ بیان کیا ہے۔ان دونوں واقعات کو اگر غور سے دیکھا جایے تو دونوں واقعات میں کوئی تسلسل نظر نہیں آتا ہے۔پہلے واقعے میں انتظار حسین نے ایک مکان کی سفائی اورا س کے رنگ و روغن کی تصویر پیش کی ہے اور دوسرے واقعے میں واحدِ غائب کے دیولا چرانے کو پیش کیا گیاہے۔ان دونوںواقعات میں ماضی کا نقشہ اتارا گیا ہے اور پھر اچانک سے حال کا ایک واقعہ پیش کیا گیا ہے اور حال کے اس واقعے میں چند باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہویے پھر سے ماضی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے گو کہ اس افسانے میں انتظار حسین نے شعور کی رو کی تکنیک کے بنیادی پہلوئوں کوپوری طرح سے اُبھارتے ہویے ماضی اور حال کے واقعات کو گڈ مڈ طریقے سے بیان کیا ہے۔
آزاد تلازمہ خیال:
تلازمہ خیال کی اصطلاح لاک کے فلسفے سے مستعار ہے۔لاک نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ کوئی خیال یا کوئی تصور اپنے آپ میں اکہرا نہیں ہوتا بلکہ ایک خیال سے دوسرا خیال،دوسرے سے تیسرا خیال روشن ہو جاتا ہے۔اگر چہ ان خیالات میں بے ربطی ہوتی ہیں لیکن غور سے دیکھنے پر ان میں ایک تسلسل نظرآتا ہے۔چونکہ ایک خیال کا کوئی حصّہ دوسرے خیال کی طرف انسانی ذہن کو لے کے جاتا ہے اس طرح یہ سلسلہ چلتا جاتا ہے اور یوں کئی منتشر خیالات ذہن میں ابھرنے لگتے ہیں۔خیالات کی اس دوڑ میں نہ کوئی پلاٹ ہوتا ہے اور نہ کوئی کردار بلکہ صرف سوچنے والا یا خود امصنف اپنے خیالات کی زنجیر یا تلازمہ خیال پیش کرتا ہے۔انتظار حسین نے اس تکنیک میں بہت سے افسانے لکھے ہیں۔
’’اجو دھیا‘‘ انتظار حسین نے آزاد تلازمہ خیال کی تکنیک میں بیان کیا ہے۔یہ افسانہ واحدِ غائب کے صیغہ میں پیش کیا گیا ہیں۔اس میں ایک شخص ہجرت کے بعد جب پاکستان پہنچتا ہے تو وہاں کی ریوڑیاں کھاتے کھاتے اس کے ذہن میں پرانے خیالات آنے لگتے ہیں پہلے تو اس کا ذہن رامچندریوڑی والے کی دکان کی طرف جاتا ہے اور اسی دکان کے خیال سے اس کے ذہن میں ایک اور خیال آ جاتا ہے اور یوں ان خیالات کی زنجیر بڑھتی چلی جاتی ہے اوروہ ایک کے بعد دوسرے خیالوں میں کھو جاتا ہے۔
’’اس کے دل میں ایک گدگدی سی اُٹھی کہ وہ آلھا اودل کے شعر گنگنائے۔وہ شعر یاد کرنے لگا ۔لیکن اس کے حافظہ کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی تھی۔کسی مصرعہ کا کوئی ٹکڑا یاد آتا تھا وہ بھی ادھا پونا۔اس نے بہت زور مارالیکن دورا مصرعہ یاد ہی نہیںآیا۔۔۔رفتہ رفتہ اس کا ذہن پھر اپنے کام سے لگ گیا۔اسے خیال آیا کہ آلھا اودل کے پڑھے جانے کا زمانہ برسات کا ہوا کرتا تھا اور برسات کے خیال کے ساتھ ساتھ اس کے کانوں میں ایک سریلی آواز گونجنے لگی ۔۔۔باغ میں پپیہا بولا۔میں جانوں میرا بھیا بولا۔پپیہا کو وہ ہمہشہ پپیا کہتی تھی اور خود بھی وہ کچھ پپیا سی ہی تھی۔جب دیکھو پٹ پٹ کرتی رہتی تھی‘‘۔ ۱۵؎
اس اقتباس میں انتظار حسین نے ایک خیال کے بعد دوسرا خیال پیش کیا ہے۔ان خیالات میں کوئی تسلسل نہیں ہیں البتہ اگر دیکھا جایے تو ایک خیال سے دوسرے خیال کی طرف بڑھنے میں ایک کڑی ضرور ہیں جیسے پہلے اس کے ذہن میں رام چند ریوڑی والے کی دکان یاد آتی ہے اور اس دکان کے ساتھ ہی وہ محفل یاد آجاتی ہے جہاں وہ بیٹھ کر آلھا اودل کے شعر گنگناتا تھا اوراسی شعرکے ساتھ اس کو برسات کے دن یاد آجاتیں ہیںاور برسات کے ساتھ ہی اس کو اپنا بچپن یاد آجاتا ہے جب وہ برسات کے دنوں پپیہا بجاتا تھا۔
داخلی خود کلامی:
یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس میں ایک کردار اپنے آپ سے محو گفتگو ہوتا ہے۔اس تکنیک کے ذریعے کردار کی پوری شخصیت نمایاں ہو جاتی ہے۔داخلی خود کلامی میں عموماً ’’میں‘‘ یعنی واحد متکلم کا کردار پیش کیا جاتا ہے۔یہ کردار خود کلامی کے ذریعے اپنے ذہن کے منتشر خیالات پیش کرتا جاتا ہے اور اس طرح اس کی داخلی زندگی کی تصویرابھرتی جاتی ہے۔اس تکنیک میں انتظار حسین نے بہت سے افسانے بیان کیے ہیں۔ملاحظہ کیجیے چند اقتباسات:
’’میں تو میا ںاس وخت گھر پہ تھا۔اس سالی ہماری لگائی نے تو ہمارا لئو پی رکھا ہے۔ اجی بات بے بات پیچھے پڑ جاوے ہے۔میں نے اس روز اسے گیتادیا۔بس جی اس چکرمیں بہت دیر تک تو مجھے خبر ہی نہ ہوئی۔بنچ نے سارا گھر سر پہ اٹھا لیا اور لگی منہ زوری کرنے میں اور بھن گیا‘‘۔۱۶؎
’’پھر ایک اور واقعہ ہوا ۔ننھا مگر نیا۔کوٹھی کے عین سامنے سڑک پر چلتے ہوئے میرے قدم رک گئے،جیسے ایک ساتھ سامنے دیوار ہو یا جیسے سامنے ریل کی پٹری رستہ کاٹ رہی ہو اور چوکیدارں نے اچانک پھاٹک بند کر دیا ہو۔چکنی کالی سڑک پر سفید چاک سے بڑے بڑے حرفوں میں لکھا ہوا تھا ’’فراموش‘‘۔ چاہے میں پھر چل پڑا لیکن ایک مرتبہ تو میں ٹھٹھک ہی گیا اور وسوسے میں پڑ گیا کہ اس رستے کو کاٹتی اس لکیر کو پھلانگوں ہا نہ پھلانگوں‘‘۔۱۷؎
’’ہاں آخر میں ہنسنا کیوں چاہتا ہوں؟لیکن کیا ہنسنے کے لیے کسی سبب کا ہونا ضروری ہے۔اسے یاد آیا کہ صبح جب اس کی بیوی نے اس سے پوچھا تھا کہ کیوں ہنس رہے ہو؟اسے اس سوال سے کتنی گھبراہٹ ہوئی تھی۔زندگی کے مرحلے میں ہر فعل پر یہ سوال کھڑا کرنا کہ کیوں کر رہے ہو؟کتنی فضول بات ہے۔آدمی کو کچھ کام ایسے بھی تو کرنے چاہئیں جن کا کوئی مقصد نہ ہو،تو مجھے اپنے آپ سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ میں کیوں ہنسنا چاہتا ہوں۔بس ہنسنا چاہتا ہوں،محض اور صرف ہنسنا،کسی وجہ کے بغیر۔سبب اور مقصد کے بغیر‘‘۔۱۸؎
ان تمام اقتباسات میں انتظار حسین نے داخلی خود کلامی کی تکنیک کو پوری کامیابی سے برتا ہے۔کہیں پے یہ خود کلامی ماضی کی یادوں کے ذریعے پیش کی گئی ہیں تو کہیں پر کوئی کردار اپنے حال میں جانک کر اپنے آپ سے گفتگو کرنے لگتا ہے۔پہلا اقتباس افسانہ ’’فجا کی آپبیتی‘‘ سے لیا گیا ہے۔اس پورے افسانے میں انتظار حسین نے داخلی خود کلامی کے ذریعے فجا کی پوری شخصیت ظاہر کی ہے۔اسی طرح افسانہ ’’فراموش‘‘ میں ماضی اور حال کو ایک ساتھ جوڑ کر واحدِ متکلم کے ذریعے داخلی خود کلامی کو پیش کیا گیا ہے۔افسانہ ’’بے سبب‘‘ میں انتظار حسین نے ایک شخص کی نفسیات کو داخلی خود کلامی کے ذریعے بیان کی ہے۔
فلیش بیک تکنیک:
جب انسانی ذہن حال کے حالات و خیالات سے ماضی کے خیالات کی طرف پلٹ جاتا ہے تو اس کو پلیش بیک کہتے ہیں۔اردو افسانوں میں اس تکنیک کو بروئے کار لانے کی وجہ وقت کی سرحد کو تھوڑنا تھا۔اس طرح اس تکنیک سے ایک کردار بیک وقت ماضی اور حال میں سفر کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اگر کردار حال سے مستقبل کی طرف سفر کرتا ہوا نظر آیے تو اس کو فلیش فاروڑ کہتے ہیں۔ان تکنیکوں کی مدد سے افسانہ نگار حال کے واقعات کو کرداروںکے زریعے ماضی کی یادوں سے وابستہ کرتا ہیں یا پھر افسانہ نگار آنے والے مستقبل کے واقعات کی طرف اشارہ یا پیش گوئی کرتا ہے۔اس طرح ماضی ،حال اور مستقبل کے واقعات میں ربط اور تعلق قائم کر کے زماں اور مکاں کی پابندیوں سے آزادی حاصل کی جاتی ہیں۔انتظار حسین نے اپنے افسانوں میں فلیش بیک تکنیک کا استعمال اپنے ماضی کے واقعات کو یاد کرنے کے لیے کیا ہے۔اجو دھیا،کیلا،آخری موم بتی،ہڈیوں کا ڈانچ،دہلیز،اجنبی پرندے اور صبح کے خوش نصیب وغیرہ جیسے افسانوں میںاس تکنیک کا استعمال ہوا ہے۔
’’اجودھیا‘‘ واحدِ غائب کے صیغے میں لکھا گیا افسانہ ہے۔اس افسانے میں انتطار حسین کے ماضی کا عکس دیکھائی دیتا ہے۔اس افسانے کا کردار پاکستان میں رہ کر اپنے آبائی وطن کو یاد کرنے لگتا ہے۔ایک کے بعد ایک نیا واقعہ اس کے ذہن میں ابھرنے لگتا ہے۔
’’برسات بھی خوب موسم ہوتا ہے ۔چیزوں کا رنگ روپ ہی بدل جاتا ہے۔پھر روز سرپر ایک تیوہار کھڑا رہتا ہے۔آج چھڑیوں کا میلہ ہے کل رکھشا بندھن ہے پرسوں جنم اشٹمی ہے اور ہر تیوہارپہ بارش ہونی ضروری ۔جنم اشٹمی پہ اگر مینہ نہ برسا کرتا تو کھنیا جی کے پوتڑے کیسے دھلا کرتے اور رکھشا بندھن پہ مینہ پڑے اور پھر پڑے خواہ ایک ہی بوند ہی پڑے۔رکھشا بندھن کے ساتھ ساتھ اسے پھر رمیش کا خیال آگیا۔رکھشا بندھن پہ وہ رمیش کو ضرور ڈیڑھ دو پیسہ سے کٹوا دیا کرتا تھا‘‘۔۱۹؎
اس اقتباس میں انتظار حسین نے زمانہ حال کا واقعہ پیش کر کے بڑی ہنر مندی کے ساتھ اس کو ماضی کے واقعہ کے ساتھ جوڑا ہے ۔پہلے برسات کا ذکر چھیڑ کر ہندوستان کے مختلف مذہبی تیو ہاروں کو بیان کیا ہے اور پھر انہی تیوہاروں میں رکھشا بندھن کے سہارے اپنے ماضی کی یادوں کو پیش کیا ہے۔
علامت نگاری:
انگریزی اصطلاح symbolکو اردو میں علامت کہتے ہیں۔انگریزی زبان کا یہ لفظ،یونانی زبان کے الفاظ symballienبمعنیٰto throw togetherیعنی ایک ساتھ پھینکنا اور symbollonبمعنیٰ نشان سے لیا گیا ہے۔علامت سے مراد وہ لفظ یا الفاظ جو اپنے ظاہری معنیٰ کے بجائے کوئی اور معنیٰ پیش کریں۔گویا علامت کی خوبی یہ ہیں کہ یہ اپنے اصل معنیٰ کو ظاہر نہ کر کے پوشیدہ رکھتی ہیں۔علامت کی ایک اور خوبی یہ بھی ہیں کہ یہ معنیٰ کی مختلف جہیتں اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ظاہر کرتی ہیں۔علامت دراصل کسی بھی فن پارے کے اظہار کا ایک اضافی وسیلہ ہے۔ایک ادیب اپنے خیال کو وسیع تر مفہوم میں پیش کرنے کے لیے علامت کا استعمال کرتا ہے۔انتظار حسین نے اپنے علامتی طرزِ فکر کا سفر افسانہ ’’آخری آدمی‘‘ سے شروع کیا اور یوں انہوں نے بہت سے کامیاب علامتی افسانے پیش کیے جن میں زرد کتّا،وہ جو دیوار کو نہ چا ٹ سکے،بندر کہانی،صبح کے خوش نصیب،کشتی،چیلیں وغیرہ بہت ہی اہم ہیں۔
’’آخری آدمی انتظار حسین کا ہی نہیں بلکہ اردو افسانے کی تاریخ کا مشہور افسانہ ہے۔اس افسانے میں انتظار حسین نے اسلامی اسطور کا سہارا لیتے ہویے انسانوں کو بندروں کی جُون میں تبدیل ہوتے ہویے دیکھایا ہے۔لالچ،ہوس اور خدا سے مکر وفریب کر کے اس بستی کے تمام لوگ بندر بن جاتے ہیں۔انتظار حسین نے موجودہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو علامتی انداز میں بیان کیا ہیں۔انتظار حسین نے موجودہ دور کے انسانوں کو بندر وں سے تعبیرکیا ہیں کہ جس طرح پچھلے زمانے کے لوگ لالچ اور مکر وفریب کی وجہ سے بندر بن گئے تھے اسی طرح آج کے انسان لالچ،ہوس اور اپنی اخلاقی اور روہانی گراوٹ کی وجہ سے بندر بن چکے ہیں۔اگر چہ ظاہری طور پر آج کا انسان ،انسانی شکل و صورت میں نظر آتا ہے لیکن اس کا باطن ہوس،لالچ،فریب،حرام خوری اور سود خوری کی وجہ سے ایک جانور بن چکا ہے۔ اس افسانے میں انتظار حسین نے پچھلے زمانے کے لوگوں کا حال بیان کر کے موجودہ دور کے انسانوں پر طنز کے نشتر چلایے ہیں۔
’’اور اس قرئیے سے تین دن پہلے بندر غائب ہو گئے تھے لوگ پہلے حیران ہوئے پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے۔نابود ہو گئے۔پر اس شخص نے،جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا یہ کہا کہ بندر تو تمہارے درمیان موجود ہیں۔مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں‘‘۔۲۰؎
ان تکنیکوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ انتظار حسین نے ہر نئی تکنیک کو اپنے افسانوں میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہیں۔
حواشی:
۱؎ انتظار حسین حیات و فن،ترتیب،ڈاکٹر نعیم انیس،مغربی بنگال اردو اکاڑمی،۲۰۱۷ ؁ ء،ص۱۰
۲؎ گوپی چند نارنگ،اردو افسانہ روایت اور مسائل،مشمولہ مضمون،ناول اور افسانے میں تکنیک کا تنوع،ممتاز شریں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی،۲۰۱۶ ؁ ء،ص ۷۴
۳؎ انتظار حسین ،گلی کوچے،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۷ ؁ ء، ص۱۳۔۱۴
۴؎ انتظار حسین،کنکری،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۷ ؁ ء،ص ۲۲۔۲۵
۵؎ انتظار حسین آخری آدمی،ایجو کیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی،۲۰۱۷ ؁ ء ،ص ۸۹
۶؎ ایضاً، ص ۲۲۔۲۳
۷؎ رضی شہاب،افسانے کی شعریات،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۲۰۱۶ ؁ ء ،ص ۴۹
۸؎ انتظار حسین آخری آدمی،ایجو کیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی،۲۰۱۷ ؁ ء ،ص۳۰۔۳۱
۹؎ انتظار حسین ،کچھوے،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۱ ؁ ء، ص۷۴۔۷۵
۱۰؎ انتظار حسین ،گلی کوچے،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۷ ؁ ء، ص۱۵۴
۱۱؎ گوپی چند نارنگ،اردو افسانہ روایت اور مسائل،مشمولہ مضمون،ناول اور افسانے میں تکنیک کا تنوع،ممتاز شریں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی،۲۰۱۶ ؁ ء،ص ۷۲
۱۲؎ انتظار حسین ،کچھوے،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۱ ؁ ء، ص۵۳
۱۳؎ انتظار حسین ،گلی کوچے،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۷ ؁ ء، ص۱۷۹
۱۴؎ انتظار حسین،کنکری،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۷ ؁ ء،ص۱۰۳۔۱۰۴
۱۵؎ انتظار حسین ،گلی کوچے،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۷ ؁ ء، ص۶۳۔۶۴
۱۶؎ ایضاً،ص ۵۰
۱۷؎ انتظار حسین ،کچھوے،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۱ ؁ ء، ص۳۱
۱۸؎ ایضاً،ص ۱۵۴
۱۹؎ انتظار حسین،گلی کوچے،سنگ میل پبل کیشنز،لاہور ۲۰۰۷ ؁ ء،ص۶۴۔۶۵
۲۰؎ انتظار حسین آخری آدمی،ایجو کیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی،۲۰۱۷ ؁ ء ،ص۲۱
٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.