اردو غزل میں گہن کی ترجمانی

انجینئر محمد عادل
ہلال ہائوس4/114، نگلہ ملّاح سول لائن علی گڑھ، علی گڑھ ، یوپی
موبائل:0935885**06

جب سے انسان نے اس کرۂ ارض پر قدم رکھا ہے تب سے وہ طرح طرح کے مشاہدات کرتا رہاہے۔کیوں کہ وہ قدرتی طور پر تجسس رکھتا تھا ،اس لئے اس نے اپنے اطراف میں رونما ہونے والے ہر واقعے اور گرد و پیش میں پائی جانے والی ہر چیز پر غور و فکر کیا اورہر چیز کا سبب تلاش کرنے کی کوشش کی۔بہت سے قدرتی واقعات جو اس کی عقل میں نہیں آتے تھے ان کے مطابق اس نے خود کہانیاں گڑھ لیںاورمفروضات اخذ کر لئے۔اس لئے دنیا کے مختلف ممالک اور مذہب میں بہت سے قصے کہانیاں اور توہمات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہندو مذہب کے شاستروں میںبھی بہت سی کہانیاںاسی کا نتیجہ ہیں۔ مثلاًان کا عقیدہ ہے کہ چاندگہن انسانوں کو طاقت اور توانائی دیتا ہے۔گہن کے وقت پوجا پاٹ کر کے اپنی شکتی بڑھائی جاسکتی ہے۔جادوگر اور تانترک اس وقت کالے جادو کا علم حاصل کرنے کے لئے کوششیں کرتے ہیں۔یونان کا ایک مشہور فلسفی ہیپوکریٹس (Hippocrates) جس کو جدید طب اور ادویات کا بانی تصور کیا جاتا ہے کہتا تھا کہ انسان کے پاگل پن کا تعلق چاند کی طاقت سے ہوتا ہے۔کئی دوسرے تصورات میں سورج کے متعلق بھی کہانیاں موجود ہیں۔Norse مائیتھالوجی میں چاند اور سورج کو بہن بھائی مانا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دونوں نے مل کر رات دن بنائے۔چین کی لوک کہانیوںمیں چاند کو دیوی تسلیم کیا گیا ہے جس نے اپنے شوہر سورج سے روشنی چوری کرکے خوبصورت شکل اختیار کر لی ہے۔مذہب اسلام میںبھی گہن لگنے کے حوالے سے بہت کچھ بتایا گیا ہے کہ سورج اور چاند اللہ کے متعین کردہ راستے پر گردش کر رہے ہیں۔دور حاضر میںسائنس بھی دین اسلام کی ان باتوں کو تسلیم کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔سائنسدانوں نے گہن لگنے کے عمل پرریسرچ کرکے اس عمل کی اصل وجہ تلاش کی ہے۔ اگر یہ بات کہی جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا کہ دنیاکی ہر زبان میں شاعروں اور ادیبوں نے ’گہن ‘ کے موضوع کو بڑے دلکش انداز سے پیش کیا ہے۔کیوں کہ شاعر یا ادیب اسی چیز کو پیش کرتا ہے جس کا وہ مسلسل مشاہدہ کرتا چلا آرہا ہو۔ہمارے شعرائے کرام نے بھی اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہے اور گہن سے متعلق بہت سے اشعار بڑے ہی پر اثر انداز میںپیش کئے ہیں۔آئیے اس مختصر سے مضمون میںاردو غزل میںآئے گہن(Eclipse) سے متعلق کچھ اشعار کو سائنسی نقطۂ نظر سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

در اصل اردو غزل شاعری کی ایسی صنف ہے جو تمام اصناف میںبے حد مقبول تصور کی جاتی ہے۔کلاسیکی شاعری سے لے کر جدید اور مابعد جدید شعرائے کرام نے علامتوں،تشبیہات اور استعارات کاسہارا لے کر اس کے دامن کو سجایا ہے۔شاعروں نے غزلوں کے پیرائے میں اجرام فلک مثلاً مہ وانجم،خورشید،زمین و آسمان وغیرہ کے موضوعات بڑے دلکش انداز میں پیش کیے ہیں۔اشعار میںجہاں سورج ،چاند کی چمک اور تابانی کا ذکر کیا گیا ہے۔وہی گہن لگنے کا بھی ذکر بڑے ہی دلکش انداز میں ملتاہے۔

شاہ مبارک آبروؔ اردو شمالی ہند کے اردو کے ابتدائی شعراء میں شعر و سخن میں ایک اہم خاص مقام رکھتے ہیں اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
کیا خط نیں ترے مکھ کوں خراب آہستہ آہستہ
گہن جوں ماہ کوں لیتا ہے داب آہستہ آہستہ

یہاں آبروؔاپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ اے میرے محبوب جس طرح گہن ماہ کو آہستہ آہستہ داب لیتا ہے اور اس کی چاندنی پوشیدہ ہوجاتی ہے اسی طرح تیرے چہرے کے خط نے تیری رونق چھین لی ہے۔ آبر وؔ یہاں پر اس طرف بھی توجہ مرکوز کرانا چاہتے ہیں کہ چاند گہن ہوتے وقت کیا کیا مراحل پیش آتے ہیں اور کس طرح چاند کو آہستہ آہستہ گہن لگتا ہے۔آبروؔ اپنے شعر کے ذریعہ غور و فکر کرنے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ سائنسی فکر کو جلا بخشتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح حیدر علی آتشؔ اپنے ایک شعر میں محبوب کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں:
رخسار یار پر نہیں آغاز خط ابھی
دیکھا نہیں ان آنکھوں نے سورج گہن ہنوز

آئیے اب علامہ اقبالؔکی غزل کا یہ شعر دیکھیں کتنی خوب صورتی کے ساتھ چاند گہن کو پیش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں:
چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی گہن میں

علامہ اقبال ؔنے اپنے اس شعر میں چاند گہن اور سورج گہن دونوں کی ترجمانی کر دی ہے۔مصرع ’’نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی گہن میں‘‘ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ کس طرح چاند کے سبب سورج گہن وجود میں آتاہے اور کس طرح چاند کو گہن لگتا ہے۔

افتخار بخاری کایہ شعر دیکھیں جو اس موضوع کو مزید جلا بخشتا ہوا نظر آتا ہے:
ہوتے ہیں سبھی خوف زدہ چاند گہن سے
خود اپنے ہی سائے سے بھی ڈرجاتی ہے دنیا

افتخار بخاری کہتے ہیںکہ لوگ کس وجہ سے چاند گہن کو دیکھ کرخوف زدہ ہوتے ہیں۔جب کہ یہ ایک قدرتی عمل ہے ۔ان کو غور و فکر کرنا چاہئے کہ اس کا سبب کیا ہے۔دنیا کیوںخود اپنے ہی سائے سے خوف زدہ ہوتی ہے۔دراصل افتخار بخاری اپنے اس شعر میںچاند گہن کی سائنسی توجہیہ پیش کررہے ہیں۔چاند گہن اس وقت وجود میں آتا ہے جب زمین چاند اور سورج کے درمیان میں آجاتی ہے ،اور اس کا سایا چاند پر پڑتا ہے۔’’خود اپنے ہی سائے سے بھی ڈرجاتی ہے دنیا‘‘ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ مصرع چاند گہن کی اسی سائنسی حقیقت سے پردہ اُٹھارہا ہے۔

اسی طرح چاند کے گہن کے بعد کیا صورتِ حال ہوتی ہے اس کی ترجمانی میںیاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر پیش کیا جاسکتا ہے:
حجاب اُٹھا زمیں سے آسماں تک چاندنی چھٹکی
گہن میںچاند تھا جب تک چھپے بیٹھے تھے چلمن میں

کبھی کبھی شاعر غزل میںمحبوب پرطنز کرتے ہوئے اس طرح بھی شعر کہتا ہے:
چاندنی حسن کی اچھی ہے مگر ناز نہ کر
تجھ کو اس چاند کا تاریک گہن یاد نہیں
ثاقب لکھنوی

چاند گہن اور سورج گہن کو شاعروں نے عبرت کی نگاہ سے بھی دیکھاہے۔کیوں کہ ان کے نذدیک یہ امتحان کا بھی لمحہ ہوتا ہے۔اورچاند ،سورج گہن لگنا اس بات کی بھی علامت ہے کہ یہ دنیا خاکی ہے اور ایک دن اس کو فنا ہونا ہے۔اس لئے ہمیںکبھی اپنے حسن پر ناز نہیں کرنا چاہیے۔اپنے اس شعر میں ثاقب لکھنوی اپنے محبوب کو غیرت دلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب اپنے حسن پر ہرگز ناز نہ کرنا کیوں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب تیرے حسین چاند سے چہرے کو بھی گہن لگے گا۔یعنی جب بھی تم چاند کا دیدار کرناتو اس کے گہن لگنے کے عمل کو بھی یاد رکھنا اور اس پر غور و فکر کرنا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔یہا ں شاعر تدبّر اور غور و فکر پر زور دیتا ہوا نظر آتا ہے جو کہ ایک سائنسی طریقۂ کار ہے۔
آئیے اب پروین شاکر کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ کریں :
اتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایا چاند

پروین شاکراپنے اس شعر میں سورج کے روشن چہرے پر چاند کے سایا ہونے کی بات کر رہی ہیں یعنی وہ سورج گہن کی ترجمانی بڑے ہی منفرد انداز میں کر تی نظر آرہی ہیں۔ ماہرین فلکیات کے مطابق زمین اور چاند دونوں سورج سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔زمین سورج کے گرد اپنے مدار پر گھومتی ہے اور چاند زمین کے گرد اپنے مدار پر گھومتا ہے۔یہ سال میں دو مرتبہ ایک دوسرے کے سامنے آجاتے ہیں۔جس سے ایک کا سایا دوسرے پر پڑتا ہے۔چاند پر سایہ پڑتا ہے تو چاند گہن اور اگر سورج پر پڑتا ہے تو سورج گہن کہلاتا ہے۔ اسی سائنسی عمل کو پروین شاکر بڑی ہی مہارت کے ساتھ اپنے اس شعر کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔

سورج گہن کئی اقسام کا ہوتا ہے ۔جس میں مکمل سورج گہن،حلقی سورج گہن،مخلوط سورج گہن،جزوی سورج گہن قابل ذکر ہیں۔مکمل سورج گہن اس وقت لگتا ہے جب چاند کا فاصلہ زمین سے اتنا کم ہو جاتا ہے کہ جب چاند سورج کے سامنے آتا ہے تو وہ سورج کومکمل طور اپنے پیچھے چھپا لیتاہے۔کیوں کہ چاند اور زمین کے مدار بیضوی ہیں اس لئے اس کا زمین سے فاصلہ بدلتا رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر بار مکمل سورج گہن نہیں لگتا ہے۔ مکمل سورج گہن کی ترجمانی میں یہ شعر دیکھیں:
وقت طلوع آیا گہن آفتاب پر
دن چڑھ رہا تھا رات میں تبدیل ہوگیا
ہیرا نند سو زؔ

شاعر اپنے اس شعر میں مکمل سورج گہن کے عکاسی کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔کہ کس طرح جب مکمل سورج گہن لگتا ہے تو دن میں بھی اندھیرا چھا جاتا ہے اور وہ رات کی طرح سیاہ دکھائی دیتا ہے۔اس وقت سورج کی روشنی زمین تک نہیں آپاتی ہے ۔اس دوران سورج گہن اتنا شدید ہوسکتا ہے کہ سورج کا تقریباً 80% حصہّ چھپ جاتا ہے اور دن میں رات کا گمان ہوتا ہے۔

شاعروں نے سورج گہن کے بعد کے منظر کو بھی اپنے اشعار میں پیش کیا ہے جب سورج گہن سے باہر نکل آتا ہے تو شاعر اس طرح شعر کہتا ہے:
گردش وقت کٹ گئی آخر
لو گہن سے نکل گیا سورج
اطہر نادر

شاعر اپنے اس شعر کے ذریعے قاری کا ذہن اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے کہ سورج گہن وقت کی گردش کے سبب وجو دمیں آیا ہے۔اور وقت کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ کبھی نہیں رکتا ۔اس لئے یہ گردش کا وقت بھی گزر گیااور سورج گہن سے باہر نکل آیا۔یعنی وہ وقت نکل چکا ہے جب سورج،چاند، اور زمین ایک قطار میں تھے۔اب چاند کی جگہ بدل چکی ہے اوروہ زمین اور سورج کے درمیان حائل نہیں ہے۔اطہر نادر نے بڑے ہی منفرد انداز میں سورج گہن لگنے اور اس کے باہر آنے کے طریقہ

کار کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ان کایہ شعر گردش وقت میں سورج گہن کی کیا اہمیت ہے اور کیوں یہ ایک مخصوص وقت تک دکھائی دیتا ہے اس بات پر بھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔

جب سورج گہن لگتا ہے تو اس دوران سورج کی روشنی برائے راست زمین تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔بلکہ چاند سے ٹکرا کر زمین تک آتی ہے۔اس وقت بہت سی خطرناک ریڈیائی شعائیں جو عام دنوں میں ہم تک نہیں پہنچ پاتی تھیں سورج گہن کے وقت با آسانی ہمارے زمین تک آجاتی ہیں۔جو ہماری صحت کے لئے مضر ہوتی ہیں اور جن کے برے اثرات ہم پر پڑ سکتے ہیں۔اگر اس دوران کوئی سورج کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس کی آنکھوں پر بھی اس کے برے نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔در اصل اس عمل کے دوران سورج سے نکلنے والی مضر شعائیں آنکھ کے پردے کو بری طرح جلا دیتی ہیں۔جس کے سبب Solar Eclipse Retinopathy جیسی بیماری ہو سکتی ہے۔آنکھوں سے دھندلا دکھائی دینا لگتا ہے اور بصارت جانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں یا پھر آنکھیں Color Blindness کی بیماری میں بھی مبتلا ہو سکتی ہیں یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں
آنکھیں مختلف رنگوں میں فرق کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہیں۔ غزل کے شعراء نے اس موضوع کو بھی اپنی غزل میں پیش کیا ہے۔اس موضوع کے ترجمانی میں ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کے یہ اشعار دیکھیں:
ہے بینائی کیا لے کے آنکھوں کی نادم
عجب کشمکش میں ہے کیوں آج سورج
گھورتا ہوں میں اسے چاند سمجھ کر اپنا
ڈر ہے بینائی نہ لے جائے یہ سورج گرہن
غرض کہ اردو غزل میں گہن کی ترجمانی ایک دلچسپ موضوع ہے جس پر شاعر باربار قلم اُٹھاتے رہیں گے اور اسی طرح نئے نئے انداز اور مفاہیم اس موضوع کو وسعت عطا کرتے رہیں گے۔آخر میں غالبؔ کے اس شعر پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکایہ بازیگر کھلا
****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.