اقبال مجیدکی افسانہ نگاری
ڈاکٹر محمد شاہد
A2 ۔کیمپس ویو اپارٹمنٹ ، شمشاد مارکیٹ۔ علی گڑھ۔۲۰۰۲۰۲
اقبال مجید ۱۲؍جولائی ۱۹۳۴ء کو مرادآباد میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ۔ بعد ازاں ۱۹۵۱ء میں ہائی اسکول، ۱۹۵۳ء میں انٹر میڈیٹ اور ۱۹۵۶ء میں لکھنؤ یونی ورسٹی سے بی اے کی ڈگری لی۔گریجویشن کے بعد ۱۹۵۸ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی ایڈ کیا۔ ۱۹۵۸ء میں ہی اُن کی تقرری آل انڈیا ریڈیو بھوپال میں ہوگئی۔ اُسی اثنا کانپور سے ۱۹۶۹ء میں سیاسیات سے ایم اے بھی کرلیا۔ ملازمت کے سلسلے میں ان کا تبادلہ مختلف مقامات پر ہوتارہا جن میں سیتاپور ، لکھنؤ اور بھوپال خاص طور سے اہمیت کے حامل ہیں ۔بالآخر ۱۹۹۲ء میں آل انڈیا ریڈیو سے نائب ڈائریکٹر کی حیثیت سے سبک دوش ہوئے ۔ مستقل قیام بھوپال میں ہے ۔
اقبال مجید کاپہلا افسانہ ’’عدّو چاچا‘‘ ۱۹۵۶ء کے شاہراہ(دہلی) میں چھپا۔ اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا۔ اقبال مجید نے اُرد و افسانہ کی فہرست میں کئی لازوال افسانوں کا اضافہ کیا جن میں ’’دوبھیگے ہوئے لوگ‘‘، ’’پیٹ کا کیچوا‘‘، ’’پوشاک‘‘، ’’پیشاب گھر آگے ہے‘‘،’’ صغریٰ کا بلّا‘‘،’’ آگ کے پاس بیٹھی عورت‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ اب تک اُن کے پانچ افسانوی مجموعے شائع ہوکر مقبول ہوچکے ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱۔دو بھیگے ہوئے لوگ ۱۹۷۰ء (پندرہ افسانے)
۲۔ایک حلفیہ بیان ۱۹۸۰ء (سولہ افسانے)
۳۔شہربدنصیب ۱۹۹۷ء (پندرہ افسانے)
۴۔تماشاگھر ۲۰۰۳ء (بارہ افسانے)
۵۔آگ کے پاس بیٹھی عورت ۲۰۱۰ء (تیرہ افسانے)
ساٹھ کی دہائی میں جن افسانہ نگاروں نے اپنی شناخت قائم کی اُن میں اقبال مجید کا نام کافی اہم ہے ۔ اُن کا پہلا افسانہ’’عدوچچا‘‘ یوں تو کسی شخص کاخاکہ نظر آتاہے لیکن اس میں کہانی کا جوہر بھرپور ہے اور اس میں کہیں بھی کجی نہیں آتی ہے ۔انہوں نے افسانہ نگاری کے میدان میں ایک الگ شناخت بنائی ہے ۔ وہ کسی اصول و قواعد کے پابند نہیں بل کہ کھلے ذہن اور آزاد قلم کے مالک ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے ترقی پسندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے افسانے لکھے ہیں ۔ سماجی و سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ حالات و واقعات کی منظر کشی نہایت دل کش انداز میں کرتے ہیں ۔ افسانے کا کردار ہمارے ہی عہد اور ماحول میں سانس لیتا محسوس ہوتاہے ۔اقبال مجید ان کرداروں کے احساسات و جذبات کی ترجمانی اس انداز سے کرتے ہیں کہ قاری اسے اپنی کہانی محسوس کرنے لگتاہے ۔
اقبال مجید کے ابتدائی افسانوں میں ہی زبان و بیان کی خامی کم کم ہی نظر آتی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ ابتداہی سے منجھے ہوئے افسانہ نگار تسلیم کیے گئے ۔ اس کی ابتدا اُس وقت سے ہی ہوتی ہے جب ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوا۔ اُردو افسانے میں جو کمی محسوس کی جارہی تھی اُس خلا کو اِس مجموعے نے پُر کیا۔ اس کے بعد جب دوسرا مجموعہ ’’ایک حلفیہ بیان‘‘ آیاتو قارئین کو اقبال مجید سے زیادہ اُمیدیں وابستہ ہوگئیں اور ’’شہر بدنصیب‘‘ تک آتے آتے وہ اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوگئے ۔انہوں نے ان مجموعوں میں کہانی کے جوہر کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ یہ بات الگ ہے کہ وہ علامت ، استعارے اور حکایتی اسلوب کو بھی نہایت چابک دستی سے برتتے ہیں ۔ بہ قول ِمہدی جعفر :
’’شہر بدنصیب‘‘ والے افسانے اپنے اسلوب کے لحاظ سے اور مختلف ہوجاتے ہیں۔ ان میں استعارہ سازی علامتی سطح کو چھوتی نظر آتی ہے ۔ حکایتی اور داستانی اسلوب ’’سکون کی نیند‘‘، ’’حکایت ایک نیزے کی ‘‘اور ’’شہر بدنصیب ‘‘میں موجودہے مگر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کے منظر نامے میں دراصل آج کے ماحول پر طنز ہے۔ غم و غصہ ،وسوسے، اندیشے، واہمے اور شک و شبہ کی بنا پر لکھے گئے افسانے اقبال مجید کے پچھلے افسانوں سے مختلف ہیں ‘‘ ۔(مہدی جعفر۔ اقبال مجید اور ان کی افسانوی منزلیں(مضمون)مشمولہ نیا ورق، بمبئی ۔ستمبر۔جنوری ۲۰۰۳ء۔صفحہ نمبر ۲۳)
اقبال مجید نے جس دور میں لکھنا شروع کیا اُس دور میں لکھنؤ میں موجود افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعدادتھی جن میں رام لعل،حیات اللہ انصاری، رتن سنگھ اور عابد سہیل وغیرہ تھے ۔ ان کی تحریروں میں ترقی پسندی کے خاصے اثرات ہیں لیکن جدیدیت کے اثرات سے بھی انکا رممکن نہیں ۔ اُن کی بہت سی تحریریں ’’شب خون‘‘ میں تواتر کے ساتھ شائع ہوئی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی ذہنی نشوونما ترقی پسندی کے عروج کے زمانے میں ہوئی اور اقبال مجید کا تعلق تو اس تحریک سے باقاعدہ رہاہے ۔ اس لیے اُن کی کہانیوں میں انسان دوستی اور دردمندی کی شدیدخواہش کے عناصر کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں اور یہ خوبیاں ان کے ابتدائی افسانوں میں محسوس کی جاسکتی ہیں ۔ انہوں نے اردو فکشن کی روایت سے بھرپور استفادہ کیاہے۔ انہوں نے سماجی و عصری مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی مسائل کو بھی بڑی خوب صورتی سے اپنی تخلیقات میں پیش کیاہے ۔موجودہ عہدمیں مصروف ترین زندگی اوراس سے پیدا ہونے والے مسائل ،ٹوٹے ہوئے رشتے اور قدروں کے زوال کو اقبال مجید نے بالخصوص اپنا موضوع بنایاہے ۔ ان کے افسانوں کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ سیاسی موضوعات سے انہیں خاص لگاؤ ہے ۔اس لیے اس سے وابستہ کہانیاں زیادہ موثر ہوتی ہیں۔ انہوں نے سماجی نا انصافیوں اور معاشی ناہمواریوں کے خلاف بھی خوب لکھاہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات ہوں یااس سے پیدا شدہ مسائل، ان کے نظروں سے کچھ بھی اوجھل نہیں ۔ نیّر حسن نے اقبال مجید کی انفرادیت پرگفت گوکرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اقبال مجیدنئے کی تلاش میں اپنی مشرقی شناخت کو ختم ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔وہ علامتی کہانیاں لکھتے ہیں مگر چیستاںنہیں بننے دیتے ۔ عام طور پر کہانی اختتام کو پہنچ کر خود ایک علامت بن جاتی ہے ۔اقبال مجید کا یہ انداز انہیں ہم عصر افسانہ نگاروں سے جدا کرتاہے ۔ ان کے افسانوں میںڈرامائیت کی چاشنی جابہ جا دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ان کے کردار معاشرے کے عام انسان ہوتے ہیں اور وہ اس قدر حقیقی ہوتے ہیں کہ قاری کو ان کرداروں سے گہری رغبت اور انسیت ہوجاتی ہے ۔اقبال مجید کا یہی کمال انہیں باکمال اور ممتاز افسانہ نگار تصور کراتاہے۔‘‘ (نیّر حسین۔ہندوستان میں اُردو افسانہ ۔گل بوٹے پبلی کیشنز ، بمبئی ۔۲۰۱۰ء۔صفحہ نمبر ۱۷۸)
اقبال مجید کا تاریخی شعور کافی نکھرا ہوا ہے ۔ ان کے پاس تاریخی معلومات کا خزانہ ہے جس کے سبب ان کے موضوعات میں تنوع پیدا ہوگیاہے۔ ان کے افسانوں کی موضوعیت نئی فکر سے جلاپاتی ہے ۔ موضوع جو بھی ہو ، اس کی پیش کش میں اقبال مجید کسی قسم کی لفاظی اور چرب زبانی سے کام نہیں لیتے بل کہ اپنے مخصوص نرم، رواں، ملائم اور لطیف انداز سے اُسے پیش کردیتے ہیں ۔ افسانہ کی اکائی کے روایتی تصور کو مجروح کے بغیر ممکنہ حد تک وہ اس میں نئی جہتیں تلاش کر لیتے ہیں ۔ جدیدیت کی تحریک نے نئے افسانے میں جو یکسانیت اور تعطل کی کیفیت پیدا کردی تھی ، اقبال مجیدنے اپنی کہانیوں سے اس فضا کو توڑا ہے اور نئی راہیں دکھائی ہیں۔
اقبال مجید کو کردار نگاری پر پوری مہارت حاصل ہے ۔ وہ اپنے افسانوں اور ناولوں میں کردار کے خد و خال کو بہت خوب صورتی کے ساتھ نمایاں کیاہے ۔وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیںکہ کون سے کردار کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی مناسبت سے مکالمے کا انتخاب بھی کرتے ہیں ۔ زبان کا روایتی استعمال اُن کے افسانوں کو نئی سمت عطا کرتاہے ۔ ضرورت پڑنے پر وہ عبارت میں انگریزی الفاظ بھی استعمال کرلیتے ہیں ۔ ان کے ذو معنی الفاظ و جملے عبارت میں تہ داری پیدا کردیتے ہیں نیزجملوں اور پیراگرافوں کی تکرار سے وہ اپنی بات کو ٹھوس اور وزن داربنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تلخ حقائق کا اعتراف کرنے میں کسی قسم کی ہچ کچاہٹ کا اظہار نہیں کرتے ۔ اس طرح اُن کے بیش تر افسانوں میں اعترافConfession کی کیفیت پائی جاتی ہے جو کہانی میں فن کارکے مکمل Involmentکی مظہر ہے ۔ تلخ حقائق کے بیان میں ترش روئی و طنزیہ انداز کی سہولیت ناگزیرہے لہٰذااُن کے یہاں بھی جابہ جا طنز کی اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ تلخ حقائق کے بیان میں وہ کہیں کہیں حدسے تجاوز بھی کرجاتے ہیں اور احمد ہمیش کی طرح ایسی گھناؤنی باتوں کا تفصیل سے بار بار ذکر کرتے ہیں جس سے قاری کی طبیعت مکدر ہوسکتی ہے ۔ کچھ حقائق ایسے ہوتے ہیں جن کاپردۂ خفا میں رہنا ہی بہتر ہے ۔ان کی طرف اشارہ کردینا ہی کافی ہوتاہے ۔
اقبال مجید کے اکثر افسانوں میں حشرات الارض ، جانور، پرندے وغیرہ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ سب استعاراتی، تمثیلی اور علامتی کردار ہوتے ہیں ۔جدید افسانہ نگاروں کی طرح اُن کے یہاں بھی بے نام کردار موجود ہیں ۔ اکثر کردار ایک بے نام خوف کے شکنجے میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ وہ اس شکنجے سے نکلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن کام یاب نہیں ہوپاتے ۔ اگر آدمی ڈر کر اپنے آپ میں سمٹ جائے تو ’’ایک حلفیہ بیان‘‘ کے کیڑے کی مانند حصولِ مقصد سے محروم ہوجائے گا۔ خوف کو صرف قبول کرکے بیٹھ رہنا ہی کافی نہیں ہے ۔ اس کی آنچ کواپنے اندر اور بڑھاتے رہنا چاہیے کیوں کہ جب خوف Aggressive ہوجاتاہے تو ایک بڑی قوت بن جاتاہے ۔ غرض خوف کی نفسیات کے مختلف تعمیری و تخریبی پہلو کو اقبال مجید نے اپنے افسانوں میں فنی چابک دستی سے پیش کیاہے ۔ کبھی کبھی یہ خوف آدمی کو اندھیرے میں بھی ڈھکیل دیتاہے ۔ موت کی مختلف کیفیات کو اقبال مجیدنے موثر پیرایے میں بیان کیاہے ۔ ان کے اکثر کرداروں کے سروں پر موت کے سایے منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ انجام کار وہ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں ۔ افسانہ ’’ہائی وے پر ایک درخت‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے ۔ اس کی جزئیات نگاری کی مثال ملاحظہ ہو :
’’جسم کے بوجھ سے اُس کی گردن کی ہڈی ، ریڑھ کی ہڈی سے ٹوٹ کر الگ ہونے جارہی تھی ۔ اس کی موت تیزی سے سرکتی ہوئی گلے کی شریانوں کے اندر سے گزرتی ہوئی اس کی آنکھوں کے حلقوں میں پہنچ کر انہیں ٹھیل رہی تھی ۔ اس کی زبان دانتوں سے قدرے باہر آگئی تھی ۔ چہر ہ پہلے نیلا اور پھر کالا ہوچلاتھا۔ جھولتی ہوئی شاخ اب لگ بھگ ساکت ہوچلی تھی ۔ ‘‘ (اقبال مجید ۔ افسانہ’’ہائے وے پر ایک درخت ۔ مشمولہ’’ایک حلفیہ بیان‘‘۔نصرت پبلشرز، لکھنؤ۔ ۱۹۷۰ء ۔ ص ۵۵)
یہ افسانہ پڑھ کر قاری کا ہاتھ بے اختیار اپنی گردن تک پہنچ جاتاہے اور وہ اس رسّی کے کھنچاؤ کو اپنی گردن پر محسوس کرنے لگتاہے ۔ موت برحق ہے،زندگی بے ثبات ہے اور ثبات صر ف وقت کو ہے ۔اقبال مجید نے وقت کو کئی سطحوں پر اپنے افسانوں میں پیش کیاہے ۔ان کے ہاں تاریخی تسلسل والے وقت کے ساتھ وقت کا ذہنی تصور بھی موجود ہے ۔ جس کی تازہ مثال یہ افسانہ ہے ۔اس افسانے کے علاوہ بہت سے ایسے ہیں جن کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ان افسانوں میں’’پیشاب گھر آگے ہے‘‘،’’ دوبھیگے ہوئے لوگ ‘‘،’’ ایک حلفیہ بیان‘‘ خاص طور سے اہم ہیں ۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!