اُردو کے ارتقا میں دیگر زبانوں کے لیے وُسعت نظری کا کرداراُردو کے ارتقا میں دیگر زبانوں کے لیے وُسعت نظری کا کردار

شاہد رضا

لیکچرار ،اُردو ،شریعہ کالج ،منہاج یونی ورسٹی  ،365ایم ، ماڈل ٹاون لاہور،پاکستان

0321-4**5250

shahidrazapak@gmail.com

Abstract

اردو زبان اپنی حلاوت اور چاشنی کی وجہ سے ابھی تک اپنے آپ کو منوائے ہوئے ہے۔ اردو رسم الخط دنیا کی مختلف زبانوں کے درمیان ایک امتیازی اور جمالیاتی انفرادیت رکھتا ہے ،چونکہ اردو میں کئی زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں لہذا اس زبان کا رسم الخط بھی ایک عجب شانِ دلربائی لئے ہوئے ہے ۔اُردو دراصل ترکی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں شاہی کیمپ یا لشکر گاہ کے ہیں ۔دہلی کے جس علاقہ یا بازار کو مغل فوجیوں نے شاہی کیمپ یا چھاؤنی بنا یا اس کا نام ــ ’’اردو بازار ’’یعنی لشکر گاہ پڑ گیا۔اردو ایک مستقل زبان ہے ۔ دوسری زبانوں سے الفاظ قبول کرنے میں اس نے کبھی تنگ دلی کا اظہار نہیں کیا ۔اردو زبان میں سنسکرت ،ہندی ،عربی، اور فارسی کے علاوہ ترکی ،پرتگالی، انگریزی ،حتی کہ چینی زبان کے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں اسی لیے تو اردو رسم الخط کو ایک جامع رسم الخط کہا جاتا ہے ۔

اس تحقیق کا مقصد دوسری زبانوں کے لیے وسعت نظری کو اُجاگر کرنا ہے ۔اور اردو زبان کے ارتقاء میں ان کی وسعت نظری کے اہمیت کا جائزہ لینا ہے۔اس تحقیق کی نوعیت بیانیہ ہے۔اس تحقیق کے لیے ثانوی نوعیت کے مواد سے استفادہ کیا جائے گا ۔ جس کے لیے تحقیقی مجلے،کتب،اور انسائیکلو پیڈیا سے مدد لی جائے گی۔تجزیہ کی بنیاد پر اس تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ اُردو زبان کی دوسری زبانوں کے لیے وسعت نظری اس کی انفرادی خصوصیت ہے ۔جس کہ وجہ سے یہ زبان عالمگیریت کے دور میں ترقی کی منازل کی طرف رداں دواں ہے۔

بنیادی الفاظ: وسعت نظری ، عالمگیریت ، رسم الخط ،انفرادیت

٭٭٭٭

 ہماری زبان اُردو اپنی حلاوت اور چاشنی کی وجہ سے ابھی تک اپنے آپ کو منوائے ہوئے ہے، اُردو نے ہماری بے اعتنائی اور بے توجہی کے باوجو دنیا بھر میں اپنے آپ کوزندہ رکھا ہوا ہے، بی بی سی لندن، وائس آف جرمنی اور اذاعۃ القاہرہ مصر کے ساتھ ساتھ نہ جانے دنیا کے کن شہروں سے اُردو زبان میں خبریں نشر ہوتی ہیں۔

رسم الخط کا معنٰی مفہوم

 رسم الخط سے مراد وہ نقوش و علامات ہیں جنہیں حروف کا نام دیا جاتا ہے اور جن کی مدد سے کسی زبان کی تحریری صورت متعین ہوتی ہے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ زبا ن کی تحریری صو رت کا نام رسم الخط ہے۔

 اردو رسم الخط دنیا کی مختلف زبانوں کے درمیان ایک امتیازی اور جمالیاتی انفرادیت رکھتا ہے ،چونکہ اردو میں کئی زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں لہذا اس زبان کا رسم الخط بھی ایک عجب شانِ دلربائی لئے ہوئے ہے ۔

 اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ زبان کس کو کہتے ہیں ؟ ہاں زبان نام ہے مجموعہء الفاظ کا ۔الفاظ مرکب ہیں اصوات سے اور اصوات نام ہے اُن تصاویر ،خطوط ،اور نشانات کا جو ارتقا کی منزلیں طے کر کے آج حروف کے نام سے ہمارے سامنے ہیں ۔

اردو رسم الخط کا بنیادی خط

 پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں نے اردو رسم الخط کو بنیادی طور پر عربی خط میں لکھا۔جبکہ عربی رسم الخط بنیادی طور پر سامی زبان کے لیے وضع ہوا تھاکیونکہ عربی بھی سامی زبانوں میں سے ایک ہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے ان تمام اصطلاحات اور اضافوں کو اسی طرح قبول کر لیا جیسے اہل عجم اس سے قبل عربی خط میں کر چکے تھے۔ چونکہ اس خطہ میں عربی اور فارسی دونوں زبانیں موجود تھیں ۔اس لئے یہاں کے باشندوں کو اتنی زیادہ دشواری پیش نہ آئی ۔

اردو زبان کی وجہ تسمیہ

 اردو دراصل ترکی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں شاہی کیمپ یا لشکر گاہ کے ہیں ۔دہلی کے جس علاقہ یا بازار کو مغل فوجیوں نے شاہی کیمپ یا چھائونی بنا یا اس کا نام ــ’’اردو بازار‘‘یعنی لشکر گاہ پڑ گیا۔

 شاہجہان نے اس اہمیت کی بنا پر اردوئے معلی کا خطاب دیا اردو کو زبان کے معنوں میں محمد عطا حسین خان تحسین نے ’’نو طرز مرصع‘‘ میں استعمال کیا جو ۱۲۱۳ھ میں تالیف ہوئی۔بعد ازاں میرامن نے ’’باغ و بہار‘‘ میں اس کو زبان کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ علاوہ ازیں مراد شاہ لاہوری اور میر محمدی مائل دہلوی نے بھی لفظِ اردو کو زبان کے معنوں میں استعمال کیا ہے مختلف علاقوں میں اس کو دیگر ناموں سے پکارا جاتا تھا۔عہد اورنگ زیب میں جعفرزٹلی شاعر نے اس کو ہندی کا نام دیا اہل دکن نے دکنی اور اہل گجرات نے اس کو گوجری زبان سے کہا۔ دلی میں چونکہ یہ زبان پختہ و مضبوط ہوئی اس کا نام ریختہ رکھا گیا (لفظ ریختہ صرف کلام منظوم کے لیے استعمال ہوتا تھا) لہٰذا میر تقی میر میرزا سودا اور غالب نے اس کو اُردو کے معنوں میں بھی استعمال کیا ہے ۔شیخ بہائو الدین باجن رحمۃللہ علیہ نے اُردو کو زبان دہلوی اور ملاوجہی نے ’’سب رس ‘‘ میں زبانِ ہندوستانی کا نام دیا ۔

 ڈھانچے اور ساخت کے اعتبار سے اردو زبان دراصل ہندی ہے ۔اس کے بنیادی الفاظ کا ذخیرہ ہندی الفاظ پر مشتمل ہے ۔عجم کے طریقہ کا رپر عمل پیرا ہوتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کے اہل علم مسلمانوں نے تین نئے حروف وضع کیے۔

تؔ کی ہم شکل ٹؔ بنائی گئی — اس پر چھوٹی سی طؔ بنا دی

دؔ کی ہم شکل ڈ بنا ئی گئی — اس پر چھوٹی سی طؔ بنا دی

رؔ کی ہم شکل ڑ بنائی گئی —– اس پر چھوٹی سی طؔ بنا دی

 ہندی حروف کوعربی حروف سے ممیز کرنے کیلئے قدیم زمانہ میں عموماً چار نقطے استعمال کیے جاتے تھے ۔مثلاً ت،د ،ر بعد میں چھوٹی ط استعمال کی جانے لگی۔انیسویں صدی کے آغاز میں جب طباعت کی آسانیاں میسّر آ گئیں تو چھوٹی ط استعمال کرنے کا طریقہ غلبہ اختیار کر گیا ۔

 اردو رسم الخط میں فارسی اور عربی کے مخصوص حروف اضافہ کر دینے کے بعد اردو حروف تہجی کی تعداد ۳۶ہو گئی۔

ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش

ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ (ھ)ء ی (ے )

 اردو ایک مستقل زبان ہے ۔ دوسری زبانوں سے الفاظ قبول کرنے میں اس نے کبھی تنگ دلی کا اظہار نہیں کیا ۔اردو زبان میں سنسکرت ،ہندی ،عربی، اور فارسی کے علاوہ ترکی ،پرتگالی، انگریزی ،حتی کہ چینی زبان کے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں اسی لیے تو اردو رسم الخط کو ایک جامع رسم الخط کہا جاتا ہے ۔

 کیونکہ اردومختلف زبانوں کے رسم الخط پر مشتمل ہے ۔دیگر زبانوں کے حروف قلم بند کرنے کے بعد دیگر زبانوں کے خطوط کے ساتھ موازنہ پیش کریں گے۔

دیگر زبانوں سے حروف

 مختلف زبانوں سے کون کون سے حروف لئے گئے اب ذرا ان کا جائزہ لیں گے۔

 عربی زبان سے انتیس حروف کو لیا گیا۔

ت ث د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ل ن

 ان حروف کو شمسی حروف کہتے ہیں ۔ ان حروف سے پہلے اگر الف لام لکھا جائے تو پڑھا نہیں جائے گا ۔جیسے :ناظم الدین ۔

ا ب ج ح خ ع غ ف ق ک م و ہ ی

 ان حروف کو قمری حرو ف کہتے ہیں کیونکہ بعض حروف کے ساتھ الف لام لکھا جاتا ہے اور وہ پڑھا بھی جاتا ہے جیسے: شق القمر ۔

 اس کے علاوہ ایک حرف ء ہے ز ف غ خ کی آوازیں ہندی میں نہیں بلکہ عربی فارسی دونوں زبانوں میں ہیں ۔

فارسی زبان سے چار حروف کو لیا گیا ۔

ژ چ گ پ

لیکن ’’ ذ ‘‘ قدیم فارسی زبان میں پائی جاتی ہے اور اب بھی بعض فارسی الفاظ میں ذ لکھی جاتی ہے ۔

ہندی زبان سے دس حروف کو لیا گیا ۔

بھ پھ تھ ٹھ جھ چھ د ھ ڈھ کھ گھ

 اردو خط میں ان کو مرکب قرار دے کر ان کو ادا کرنے کا ایک عام قاعدہ وضع کر لیا اس قاعدے کے مطابق یہ دس آوازیں بھی ادا کی جا سکتی ہیں ۔ ان کے علاوہ اردو میں رھ ،لھ، مھ، نھ جبکہ ہندی میں ان آوازوں کے لیے کوئی حروف نہیں ہیں ۔جیسے کہ تیرھواں ،کولھو، ملھو ،تمھارا

مقامی زبان (ہندی )سے تین حروف لیے گئے ۔جو کہ عربی فارسی میں نہیں آتے ہیں

ٹ ڑ ڈ

دیگر زبانوں سے اردو میں جوالفاظ لئے گئے:

۱)-اُردو ۔بیگم ۔توپ ۔اتالیق۔قلی ۔قورمہ۔ خاتون وغیرہ ترکی زبان کے الفاظ ہیں ۔

۲)-صندوق۔ کرسی۔ قلم۔ کتاب۔ دوا۔ علاج ۔عربی زبان سے آئے ہیں ۔

۳-(گل وغنچہ۔ برگ و بار اور آب و خاک وغیرہ فارسی زبان کا عطیہ ہیں ۔

۴)-پیپا۔ بالٹی۔ تولیہ۔ نیلام۔ فیتہ۔ وغیرہ پرتگالیوں کے ساتھ برصغیر میں داخل ہوئے۔

۵)-کمرہ اطالوی زبان کا لفظ ہے۔

۶)-کاغذ ۔چائے۔تام جھام ۔چوں چوں (چوں چوں کا مربہ)چین سے آئے۔

۷)-فیلسوف اور اصطرلاب یونانی زبان سے آئے۔

۸)-پنڈت ۔رشی۔ برکھارت سنسکرت سے آئے ہیں ۔

۹)-کھانا۔ اٹھنا۔بیٹھنا۔ لکھنا۔ پڑھنا۔قدیم مقامی بولیوں اور بھاشا یا ہندی سے لئے گئے۔

۱۰)-ناول۔ ڈراما۔ گلاس۔ راشن۔ ریل۔ اسٹیشن۔ موٹر۔ کالج۔ جونئیر۔ سینیئر وغیرہ انگریزی زبان سے لئے گئے۔

ان الفاذ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو ایک بین الاقوامی مزاج کی زبان ہے ۔جہاں تک اردو زبان میں دیگر زبانوں کے الفاظکا تعلق ہے اس میں اردو زبان نے دوسری زبانوں سے استفادہ کیا ہے لیکن کسی کی تقلید کو اپنا شعار نہیں بنایا ہے بلکہ اپنے ساخت ،مزاج اور سیرت کو کبھی دوسری زبانوں کے تابع نہیں کیا ہے ،جیسے کہ:

ترکی زبان میں ’’بیگُم‘‘ ہے لیکن اردو زبان میں’’ بیگَم‘‘ ہے ۔                             عربی زبان میں ’’حِلیہ‘‘ ہے لیکن اردو زبان میں’’ حُلیہ‘‘ ہے ۔

عربی زبان میں ’’ حَرَکت‘‘ ہے لیکن اردو زبان میں’’ حَرکَت‘‘ ہے ۔    فارسی زبان میں ’’ مُزدَور‘‘ ہے لیکن اردو زبان میں’’ مَزدُور‘‘ ہے ۔

ہندی زبان میں ’’آچار‘‘ ہے لیکن اردو زبان میں’’ اَچار‘‘ ہے ۔              سنسکرت زبان میں ’’کرشنڑ‘‘ ہے لیکن اردو زبان میں’’ کرشن‘‘ ہے ۔

اردوخط اور عربی خط کا موازنہ

 اگرچہ اردو خط عربی ہی سے ماخوذ ہے ۔مگر حقیقت میں یہ بہت ترقی یافتہ ہے عربی خط کے حروف کو اردو خط میں آسانی کے ساتھ لکھا جاتا ہے ۔اس کے برعکس اردومیں بعض ایسے حروف ہیں جو عربی خط میں موجود نہیں ہیں ۔اگر ان کو لکھنا پڑے تو اردو خط کا حلیہ بگڑ جاتا ہے، مثلاً: عرب حضرات جٹ کو زط لکھتے ہیں ،گجرات کو غجرات لکھتے ہیں ، کراچی کو کراتشی لکھتے ہیں۔

اردوخط اور فارسی خط کا موازنہ

 فارسی خط کے تمام حروف اردو خط میں موجود ہیں ۔اس لیے فارسی الفاظ آسانی سے لکھے جا سکتے ہیں جبکہ فارسی کے مخصوص الفاظ بھی اردو میں لکھے جا سکتے ہیں مثلاًمژگان ،ژندپازند وغیرہ وغیرہ۔مگر اردو رسم الخط کے حروف فارسی میں لکھنا مشکل ہیں ۔اور ان کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے ۔مثلاًجھکڑ کو جکر لکھتے ہیں ، چھتر کو چتر لکھتے ہیں۔اور پہاڑ کو لکھنا بہت ہی دشوار ہے ۔

اردوخط اور ہندی خط کا موازنہ

 اردو آریائی زبان ہے ۔اور ہندوستان میں پیدا ہوئی ہے لیکن اس کا رسم الخط سامی عربی ہے اردو خط ایک ترقی یافتہ خط ہے ۔ہندی بھی آریائی زبان ہے اور اس کا رسم الخط بھی آریائی ہے ۔ہندی کا رسم الخط اس خطہ کا پرانا خط ہے جس کو اردو رسم الخط سے بہتر ہونا چاہیے تھالیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔

 سنسکرت کے تین چار حروف کے علاوہ ہندی زبان کے تمام حروف اردو خط میں آسانی سے ادا کیے جا سکتے ہیں۔اردو زبان کے وہ حروف جو عربی زبان کے ساتھ مختص ہیں ہندی زبان میں نہیں پائے جاتے ہیں۔ وہ آٹھ حروف ہیں۔ ث ،ح، ص،ض،ط،ظ، ع،ق ۔

 موجودہ صدی کے آغاز میں ہندی والوں نے بعض حروف پر نقطے لگا کر نئے حروف وضع کئے ہیں اور اس طرح ہندی خط کو وسعت دی ہے ۔مزید برآں انگریزی میں وائو کی مخلوط آواز استعمال ہوتی ہے ۔اردو میں اس کو بھی ادا کیا جا سکتا ہے ۔ جیسے : وھاٹ what وھیٹ wheat مگر ہندی زبان میں اس کیلئے کوئی حرف موجود نہیں ہے ۔ہندی زبان کا ہر حرف متحرک ہوتا ہے کیونکہ اس کے نظام اعراب میں کوئی حرف ساکن نہیں ہے۔ مثلاً درپن (آئینہ)کو دَ رَ پَ نَ لکھتے ہیں:عربی خط(اردو خط)کی برتری ایک امر واقعہ ہے جس کا اعتراف بعض انگریز بھی کرتے ہیں ۔

 مسٹر فرتھ لکھتے ہیں : ’’ہمارے انگریزی حروف ِتہجی اور ہمارا املا مضحکہ خیز ہے اور رسوا کُن حد تک ناقص ہے ۔ذرا عربی حروف تہجی کی خصوصیات پر غور کرو ۔میرا خیال ہے کہ عربی حروف ہی صحیح معنوں میں ابجدی حروف کہلانے کے مستحق ہیں۔‘‘

اردو رسم الخط کی خوبیاں

 اردو حروف جگہ کم لیتے ہیں، وقت کم لیتے ہیں سادگی اور حُسن پیدا ہوتا ہے جیسا کہ اساتذہ فن کی لکھی ہوئی خط نسخ اور خط نستعلیق کی بعض تحریریں فن کا مرقع ہیں ساری دنیا ان فن پاروں کی قدر کرتی ہے اردو خط بیک وقت مفصل بھی ہے اور مختصر بھی ۔اگر زیر زبر کے ساتھ لکھا جائے تو مفصل جیسا کہ بچوں کے لیے لکھتے ہیں ورنہ اردو تحریریںعام طور پر تو مختصر ہوتی ہیں۔

اردو رسم الخط پر اعتراض

 اب اس رسم الخط پرایک اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں ۔اعتراض یہ ہے کہ اس رسم الخط کے حروف کی تعدادزیادہ ہے ۔اس لیے اس کے لکھنے اور سکھانے میں دِقت ہوتی ہے ۔اردو رسم الخط میں حروف کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ رسم الخط کی زبانیں ہیں ۔

 رومن حروف ۲۶حروف ’’ اردوحروف ۳۶حروف”ہندی حروف ۴۸حروف” سندھی حروف ۵۲حروف۔

نوٹ:رومن حروف بہت سی آوازیں ادا کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے حروف کی کمی اس کے لیے کوئی خوبی نہیں ہے ۔

 اردو رسم الخط کی طباعت

پہلا تجارتی سرکاری مطبع

 ۱۸۰۲ء میں فارسی اور اردو زبانوں کا پہلا تجارتی سرکاری مطبع ڈاکٹر جان گلگرائسٹ Dr. John Gilchristنے قائم کیا اس کا نام ’’ہندوستانی پریس ‘‘ تھا.انہوں نے قواعد ِ زبان اور لغت پر اعلی درجے کی کتابیں لکھیں اردو کی خدمت کا کام انہوں نے ۱۷۸۷ء سے شروع کیا ۔قواعد اردو پر ان کی پہلی کتاب ۱۸۰۹ء میں شائع ہوئی

 اردو نثر کی پہلی کتاب

 ۱۸۰۲ء میں اردو نثر کی پہلی کتاب ’’باغ و بہار‘‘ فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے سرکاری مطبع سے شائع ہوئی ۔۱۸۰۳ء جب لارڈ لیک نے آگرہ فتح کیا تو وہاں قلعہ میں ایک مطبع موجود تھا جس میں قرآن مجید طبع ہو رہا تھا۔

قرآن مجید کا ترجمہ

 شاہ رفیع الدین دہلوی (۱۱۶۳ھ تا ۱۲۲۳ھ)اور ان کے بھائی شاہ عبدالقادر (۱۱۶۷ھ تا ۱۲۲۳ھ)نے قرآن مجید کے ترجمے اردو میں کیے لیکن یہ ترجمے بالکل لفظی ہیں ۔شاہ عبدالقادر کو اس ترجمے پر اٹھارہ سال لگے ۔اس طرح یہ ترجمہ ۱۷۹۰ء میں مکمل ہوا۔ اسی زمانے میں حکیم شریف خان دہلوی نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا جن کا انتقال ۱۲۱۶ھ میں ہوا ۔

جدید اردو نثر کی بنیاد

 جدید اردو نثر کی بنیاد دراصل فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں پڑی ۔یہ کالج لارڈ ولزلی نے ۴ مئی ۱۸۰۰ء میں قائم کیا ۔اسی طرح ایک اور ادارہ ،جس نے اردو زبان اور اس وقت کے نظام تعلیم میں انقلاب پیدا کیا ،مرحوم دہلی کالج ہے ۔اس کالج میں مشرق و مغرب کے علوم و ادب ساتھ ساتھ پڑھائے جاتے تھے ۔

اردو رسم الخط میں عبارت کے ابتدائی نمونے

 شیخ بہائو الدین باجن اپنی کتاب خزائن رحمت میں درج کرتے ہیں کہ:

ساجن دعا خدا اس کی قبولے

 کھلاوے حلال اور ساچ بولے

 نظام شاہی حکومت کا بانی ملک احمد بحری الملقب بہ نظام الملک(۸۹۵ تا ۹۱۴ھ) ہے اس کے زمانے میں ایک شاعر کا پتا لگا ہے ۔جس کا تخلص اشرف ہے ۔ اس کتاب کا سن تصنیف ۹۰۹ھ ہے :

بازان جو تھی تاریخ سال

 بعد ازنبی ہجرت حال

 نو سو ہوئے اگلے نویہ دکھ لکھیا اشرف تو

ماخذو مراجع

۱ آب حیات محمد حسین آزاد سنگ میل اردو بازار ،لاہور

۲ اخبار اردو (ماہنامہ) افتخار عارف مقتدر ہ قومی زبان ،اسلام آباد

۳ اردو تحقیق(مقالات) ڈاکٹر عطش درانی مقتدرہ قومی زبان ،اسلام آباد

۴ اردو تدریس ڈاکٹر فرمان فتح پوری الوقار پبلی کیشنز ، لاہور، ۲۰۰۵ء

۵ اردو دائرہ معارف اسلامیہ انسائیکلوپیڈیا ڈاکٹر محمد وحید مرزا جامعہ پنجاب لاہور ،۱۹۸۰ء

۶ اردو رسم الخط محمدسلیم احمد مقتدر ہ قومی زبان ،اسلام آباد

۷ فتوح البلدان البلاذری قاہرہ ۱۳۵۰ھ

۸ فن تحریر کی تاریخ محمد اسحاق صدیقی انجمن ترقی اردو ہند ،علی گڑھ، ۱۹۶۲ء

۹ باغ و بہار میر امّن سنگ میل اردو بازار، لاہور

۱۰ قواعد اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو ،کراچی، پاکستان

۱۱ نئے تناظر ڈاکٹروزیر آغا آئینہ ادب چوک مینار ،انار کلی، لاہور

۱۲ paper on linguistics. K.R linguistics. firthoxfordpress london 1957

***

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.