اردو تنقید کے سرچشمے
ڈاکٹر ثوبان سعید
اسسٹنٹ پروفیسر ، خواجہ معین الدین چشتی، لسان یونی ورسٹی ،لکھنؤ
عربی زبان میں نقدِ شعر کے اوّلین نمونے جاہلی عہد کی شاعری میں ملتے ہیں۔ اُس زمانے کی زندگی بڑی سادہ ہوتی تھی۔ سماج بہت زیادہ پیچیدہ نہیں ہوا تھا، نہ حاکم تھے نہ حاکموں کی عمل داریاں؛ افراد قبائل میں تقسیم تھے اور چارے پانی کی تلاش میں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ قبائل میں تقسیم ہونے کی وجہ سے ان میں باہمی چشمک رہا کرتی تھی، اور یہ چشمک بسااوقات گرم جنگ میں تبدیل ہوکر مدتوں خوںریزی کرتی۔ جنگ میں قبائل کے جنگ جوئوں کی حوصلہ افزائی کے لیے شعرا موجود رہتے تھے۔ اس دور میں خاندان اور قبیلوں میںشعرا کی موجودگی نشانِ امتیاز تصور کی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ معرکہ آرائی ادب کے میدان میں بھی ظاہر ہونے لگی اور مختلف قبیلوں کے شاعر سوقِ عکاظ میں جمع ہوتے، میلے میں آئے تماشائیوں کو اپنے اپنے اشعار سناتے اور دادوتحسین پاتے۔ یہیں سے نقدِ شعر کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔
جاہلی عہد میں بھی نقدِ شعر کے کچھ اصول وضوابط مقرر تھے جن کی رعایت اس زمانے میں لازمی تصور کی جاتی تھی۔ جس شاعر کا کلام ان ضوابط کی روشنی میں کھرا اترتا، قبولِ عام کی سند حاصل کرلیتا۔ اُس وقت تنقید کا جو انداز تھا وہ بہت زیادہ مربوط اور سلجھا ہوا نہیں تھا، بلکہ مختلف بنیادوں پر شعر کے حسن وقبح کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔ کبھی شاعر کی شخصیت ان کے لیے معیار بنتی، کبھی خاندان، کبھی قصیدے کے اجزا اور کبھی کبھی اشعار کے جزئی حصے وغیرہ وغیرہ؛ اور اسی کی بنیاد پر پوری تخلیق کے لیے ایک عمومی حکم صادر کردیا جاتا لیکن پھر بھی اس امر کا بہت زیادہ دارومدار فطری ذوق اور لگائو پر ہوتا تھا ’’جو معنی اور فکر کی سطح پر ناقد کی رہنمائی کرتا تھا۔‘‘ [الدکتور محمد ابراہیم نصر: النقدالادبی، ص 82)
ذوقِ فطری کا ہی نتیجہ ہوتا تھا کہ تخلیقات پر فی البدیہہ احکام صادر کردیے جاتے۔ ساتھ ہی وہ ایجازواختصار کے قائل تھے۔ پورے قصیدے پر اپنی رائے ایک یا چند الفاظ میں ظاہر کردیتے۔
جاہلی نقد میں مناسب الفاظ کے استعمال پر سب سے زیادہ زور ملتا ہے۔ عرب لغت کے تعلق سے بڑی حساس قوم تھے۔ لفظ ومعنی میں اگر مطابقت نہ ہوتی یا لفظ اپنے معنی پر کماحقہٗ دلالت نہ کرتا تو اسے عجزِ کلام تصور کیا جاتا۔ اسی طرح وضاحت وصراحت بھی شعر کی عمدگی کی شرط ہوتی تھی۔ مبالغے کا وہ انداز جو روزمرہ کی زندگی سے قریب تر ہو، اس میں جھوٹ کی بہت زیادہ آمیزش نہ ہو، تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
جاہلی دور کی شاعری کے تعلق سے یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں فخرومباہات کا پہلو امتیازی حد تک روا رکھا جاتا تھا۔ چوںکہ عرب فطرت کی کھلی فضائوں میں زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔ ان کی زندگی کا انداز صحرائی تھا،اور ان کی صبح وشام خوف ناک اور چٹیل میدانوں میں بسر ہوتی تھیں، چناںچہ ان سب حالات نے انھیں شجاع اور بہادر بنادیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ لوگ اپنی شاعری میں کسی چیز یا صفت پر انتہائی حد تک فخر کرتے اور اپنی قوم کی برتری اور فضیلت پر نازاں رہتے، لیکن ساتھ ساتھ یہ کمال بھی ان میں پایا جاتا تھا کہ وہ صفات اور خصوصیات غیرفطری بالکل نہیں ہوتی تھیں، بلکہ ان میں اصلیت اور حقیقت کی شان جلوہ گر ضرور رہتی تھی۔
مختصر طور سے اگر جاہلی دور کے اصولِ نقد ترتیب دیے جائیں تو کم وبیش مندرجہ ذیل نکات سے ان کا احاطہ کیا جاسکتا ہے:
.1 ’’شاعر کا اپنے مافی الضمیر کو بغیر عجز اور کوتاہی کے ادا کرنے پر قادر ہونا۔
.2 تشبیہ اور تصویرکشی پر شاعر کی ماہرانہ قدرت، ان اصولوں کی روشنی میں جن کو عرب نے معیاری تسلیم کیا ہے۔
.3 لفظ ومعنی میں ہم آہنگی اور مفہوم کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال جو مناسب ترین اور خوب صورت ترین ہوں۔
.4 معنی اور فکر کی وضاحت، اس طور پر کہ ان کی وضاحت کرنے میں الفاظ کا جمالیاتی پہلو بھی باقی رہے۔
.5 مبالغہ سے احتراز
.6 قافیہ کی رعایت کا التزام‘‘ [عربی سے ترجمہ، الدکتور محمد ابراہیم نصر: النقدالادبی، ص 91-92]
اسلام کی آمد کے بعد عرب کی سماجی زندگی میں زبردست انقلاب رونما ہوا۔ پورا تہذیبی اور تمدنی نظام درہم برہم ہوگیا اور ایک نئے قسم کے سماج کی داغ بیل پڑی۔ چوں کہ ہر ادب اپنے عہد اور سماج کا زائیدہ ہوتا ہے، اس لیے ادب بھی اس انقلاب سے بے گانۂ محض نہیں رہ سکا بلکہ زندگی کے تمام شعبہ جات پر اس کے اثرات مرتب ہونے لگے۔ قرآن کے بے مثل اور منفرد اسلوب نے نثری ادب کو نہ صرف ایک نئی راہ دکھائی بلکہ نثر کے امکانات کو بھی واضح اور روشن کرنے کا کام سرانجام دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاعری نسبتاً پس منظر میں چلی گئی۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا مناسب نہیں ہوگا کہ اسلامی عہد میں شاعری کی ترقی رک سی گئی اور اس کا ایک طرح سے زوال شروع ہوگیا، جیسا کہ بعض مستشرقین کا دعویٰ ہے بلکہ درست صورت حال یہ ہے کہ بعض اخلاقی، شرعی اور سماجی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے شاعری کی پشت پناہی کی اور اسے فروغ دینے کا کام کیا، جس کی وجہ سے بعض نئے تنقیدی نظریات شاعری میں فروغ پذیر ہوئے۔ اسلام نے دورِ جاہلی کے اصولِ نقد اور عرب کے فطری مذاق کو بدلنے کا کام کیا اور تنقید کے لیے کچھ منفرد اصول اور ضابطے وضع کیے۔
جیسا کہ ابھی ذکر ہوا کہ اسلام نے بعض اخلاقی، شرعی اور سماجی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شاعری کی پشت پناہی کی۔ انھیں اصولوں کی وجہ سے اسلام میں نئے تنقیدی رویے فروغ پاسکے۔ دین کی ترویج واشاعت ان کا اوّلین فریضہ تھا، اس لیے شاعری میں اس قسم کے مضامین وخیالات نظم کیے گئے جن کا تعلق تبلیغ اور اشاعتِ دین سے تھا۔ قرآن کریم کے معانی کی موافقت، اصولِ عقیدہ اور اسلامی امثال ان کی شاعری کی خاص بنیادیں تھیں، نیز تکلف اور تصنع سے احتراز بھی نقدِ شعر کا ایک اہم رجحان تھا (اس رجحان نے اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ آج تک نقدِ شعروادب میں اسے ایک اہم معیار تسلیم کیا جاتا ہے) حسنِ لطافت، سوزوگداز کی موجودگی، مکرِ شاعرانہ اور ناپسندیدہ مبالغے سے اجتناب درحقیقت اس عہد کا مزاج بن گئے تھے۔
یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ جاہلی اصولِ نقد کو اسلام نے بیک جنبشِ قلم مسترد کردیا تھا، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اس زمانے کے بعض اصول عہدِ اسلام میں بھی رائج رہے۔ مثال کے طور پر ایجاز واختصار کی خوبی، لغوی تنقید کے اصول اور نقدِ معنی کے اصول بدستور باقی رہے، البتہ اسلوب کے تعلق سے اسلام نے اسلوبِ ادبی کو فروغ دیا، جس کی نمایاں خصوصیات الفاظ کی ہم آہنگی، عبارت کا ربطِ باہمی اور نامانوس الفاظ کے استعمال سے اجتناب وغیرہ ہیں۔
اسلام اور قرآن کے زیراثر جس قسم کے تنقیدی شعری نظریات رواج پذیر رہے تھے، ان کا اگر احاطہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل اصول ترتیب پائیںگے اور انھیں اصولوں کی روشنی میں ادب کی بلندی وپستی اور ان کے حسن وقبح کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔اس سلسلے میں دکتور محمد ابراہیم نصر لکھتے ہیں:
.1 ’’ان دینی اور اخلاقی اصولوں کی رعایت، جن کی اسلام نے دعوت دی تھی۔
.2 زندگی کے تئیں ایسی صداقت کا رویہ جو عقلِ سلیم سے متضاد نہ ہو۔
.3 شعر میں سادگی اور فن کاری کے عناصر کی موجودگی،
.4 ایسی تعقید سے اجتناب جس سے کلام میں ژولیدگی پیدا ہوجائے۔
.5 قوتِ تاثیر اور حسنِ ادائیگی‘‘ [عربی سے ترجمہ، الدکتور محمد ابراہیم نصر، النقدالادبی، ص 171]
یہ بات نشانِ خاطر رہے کہ اسلامی دور کی حدبندی کے سلسلے میں مورخین کے دو مسالک ہیں۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ اسلامی دور کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ظہورِ اسلام سے لے کر خلفائے راشدین تک مکمل ہوجاتا ہے، اور دوسرا دور اموی عہدِ حکومت کا احاطہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر شوقی ضیف کا خیال ہے کہ ’’اسلامی عہد ظہورِ اسلام سے دولتِ عباسیہ کے قیام تک پھیلا ہوا ہے۔‘‘ [ڈاکٹر شوقی ضیف، النقد، ص 28]
تاریخ کا مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اموی دور میں حکومت کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا تھا اور مختلف ممالک سے تہذیب وتمدن کی ہوائیں عرب تمدن کو متاثر کررہی تھیں۔ اب مزاجوں میں وہ سادگی باقی نہیں رہ گئی تھی جو بدوی طرزِ زندگی کی خصوصیت تھی۔ جب زمانہ بدلا، اور رہن سہن کے اطوار بدلے تو ان کے مذاق میں بھی تبدیلی پیدا ہونے لگی۔ طرزِ حیات میں نمایاں تبدیلی کے باوجود تنقید کے سلسلے میں ایسا کوئی رجحان سامنے نہیں آسکا جو اپنی انفرادیت اور شناخت قائم کرسکے۔ اموی دور دراصل جاہلی نقدِ شعر کا احیائی دور تھا جس میں شعرا مخصوص قسم کا تنقیدی رویہ رکھتے تھے جو دورِ جاہلی سے بہت حد تک مماثلت رکھتا تھا۔ ان کی تنقید میں تحقیق وجستجو اور تجربہ وتجزیہ کے عناصر مفقود ہوتے تھے۔ وہ زیادہ تر ذوقِ سلیم پر ہی انحصار کرتے اور دو شاعروں کے مابین موازنہ کرکے کسی ایک کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے۔ اس کے لیے ان کے پاس کوئی وجہِ ترجیح نہیں ہوتی تھی اور نہ دقیق اور فنی معیار ان کی رہنمائی کرتے تھے۔
مختلف قوموں اور ملکوں کے تہذیبی اختلاط اور لین دین کے نتیجے میں کچھ نئے تنقیدی رویے بھی واضح ہوئے۔ یہ زمانہ عباسی دورِ حکومت کا تھا جب ادب میں نئے رجحانات، نئے نظریات اور نئے رویے داخل ہورہے تھے، بقول محمدحسن:
’’ان ابتدائی تصورات میں نئی کونپلیں اس وقت پھوٹیں جب اسلامی مفکرین یونان کے فلسفیانہ افکار سے دوچار ہوئے۔‘‘ [مشرقی تنقید، محمد حسن، ص 38]
اس کے نتیجے میں الفاظ واسالیب، تخیل اور افکار ومعانی کی سطح پر زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ یہیں سے لفظ ومعنی کی ترجیح کا تنازع پیدا ہوا اور ہر گروہ نے اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دلائل پیش کیے، لیکن یہ تاریخی اعتبار سے متحقق بات ہے کہ صناعتِ لفظی اور بدیعانہ اسلوب عباسی دور کی پیداوار ہیں۔ مرأۃالشعر میں لکھا ہے:
’’عرب کی تمام تر شاعری کو محض الفاظ کی صناعی سے تعبیر کرنا ظلم ہے۔ جاہلی، مخضرمی، اموی عہد کے شعرا کو لفظی صناعی سے گویا واسطہ ہی نہ تھا، ابتدائی عہد کے عباسی شعرا کا بھی فی الجملہ یہی انداز رہا۔‘‘ [مرأۃ الشعر، عبدالرحمن، ص 89]
ترجیح الفاظ ومعانی کے سلسلے میں ابن رشیق لکھتا ہے کہ:
’’اکثر کی رائے یہ ہے کہ شاعری میں الفاظ وصناعتِ الفاظ کو معانی پر ترجیح ہے… چناںچہ دیکھ لو کہ شعر کی تنقید ہمیشہ الفاظ سے متعلق ہوتی ہے کہ فلاں لفظ بدنما ہے، وہ بے محل استعمال ہوا، یہ غلط بندھا ہے، یہ ترکیب سست ہے اور وہ چست۔‘‘ [مرأۃالشعر، عبدالرحمن، ص 99]
الفاظ کو ترجیح دینے کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ طرزِ بیان اور جدتِ ادا کو اس زمانے میں بڑی اہمیت حاصل ہوئی اور تنقید کی جتنی کتابیں اس دور میں تصنیف وتالیف ہوئیں ان میں طرزِ بیان کو ہی مقدم سمجھا گیا اور انھیں اصولوں کی روشنی میں پوری عرب شاعری پر تنقیدیں کی گئیں۔ قدامہ ابن جعفر رقم طراز ہیں:
’’طرزِ بیان شعر کا اصلی جزو ہے۔ مضمون وتخیل کا بجائے خود فاحش ہونا شعر کی خوبی کو زائل نہیں کرتا۔ شاعر ایک بڑھئی ہے، لکڑی کی اچھائی یا برائی اس کے فن پر اثرانداز نہیں ہوتی۔‘‘ [نقدالشعر، قدامہ بن جعفر بحوالہ اردو تنقید کی تاریخ، مسیح الزماں، ص 10]
ابن رشیق نے بھی کتاب العمدہ میں ابن خلدون کے حوالے سے یہی مفہوم نقل کیا ہے کہ:
’’ادائے معنی کے لیے نئے نئے انداز نکالنا اور ایک ایک بات کو کئی کئی طرح ادا کرنا شاعرانہ کمال ہے۔‘‘ [مرأۃالشعر، عبدالرحمن، ص 101]
طرزِ بیان اور جدتِ ادا کے علاوہ غلو اور مبالغہ بھی اس دور کے خاص تنقیدی رویے ہیں۔ مبالغہ جاہلی ادب میں بھی موجود تھا مگر ایک محدود دائرے میں ہی اسے پسند کیا جاتا تھا، برخلاف اس کے عباسی دور میں اس رجحان نے سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرلی۔ نقدالشعر میں قدامہ بن جعفر نے لکھا ہے:
’’بہترین مذہب غلو ومبالغہ ہے، اور یہی وہ طریقہ ہے جس کی طرف ہمیشہ سے سخن شناس اور بافہم شعرا کا میلان رہا اور بعضوں کا خیال تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ ان کا قول یہ ہے کہ سب سے بہتر وہ شعر ہے جس میں سب سے زیادہ کذب استعمال کیا گیا ہو۔‘‘ [عقدالسحر فی شرح نقدالشعر، ص 55بحوالہ اردو تنقید کی تاریخ، مسیح الزماں، ص 12]
ایک اور مقام پر قدامہ بن جعفر مزید لکھتے ہیں:
’’مبالغہ کرنا حدِ اوسط پر اکتفا کرنے کے بہ نسبت زیادہ بہتر ہوتا ہے۔‘‘ [ایضاً، 65]
قدامہ بن جعفر کی مایہ ناز کتاب کے علاوہ جتنی بھی کتابیں اس دور میں تنقیدی نقطۂ نظر سے تصنیف ہوئیں، ان سب میں شاعری کی تنقید کا معیار ظاہری ہیئت اور ساخت کے اصولوں پر مبنی تھا۔ ابن المعتز نے اپنی کتاب ’’البدیع‘‘ میں شعر کی اچھائی یا برائی کے لیے جو معیار قائم کیا ہے اس میں تجاہلِ عارفانہ، حسنِ تضمین، کنایہ، حسن تشبیہ، مدح بمایشبہ الذم وغیرہ شامل ہیں۔ ظاہر ہے ان جملہ صفات کا تعلق ظاہری شکل اور ہیئت سے ہے۔ عقدالسحر میں لکھا ہے:
’’ابوالعباس محمد بن یزید النحوی کا بیان ہے وہ کہتا ہے کہ مجھ سے ثوری نے بیان کیا کہ میں نے اصمعی سے دریافت کیا کہ اشعرالناس کون ہے؟ تو اس نے جواب میں کہا کہ جو معمولی اور مبتذل مضمون کو اپنے لفظوں میں مہتم بالشان اور وقیع بنادے، یا بلند سے بلند مطلب کو اپنے الفاظ کے زور سے پست کر دکھائے۔‘‘ [ایضاً، ص 185]
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ عباسی دور میں زیادہ تر زور شعرکی ظاہری شکل وصورت پر ہی رہا اور تنقید کے اصول صرف ہیئت کے چند نکات کے دائرے میں محدود ومحصور رہے۔ لیکن یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ایسا بھی نہیں ہوا تھا کہ اس دور میں معنی کی اہمیت بالکل ہی ختم ہوگئی تھی بلکہ غالب رجحان یہ تھا کہ طرزِ بیان اور ظاہری محاسن ومعائب نے بڑی اہمیت اختیار کرلی تھی۔ اس کے بھی اسباب تھے۔ شاعری اب فنی محاسن کے اظہار کے علاوہ کسبِ زر اور حصولِ معاش کا ذریعہ بننے لگی تھی۔ اب خاندانوں اور قبیلوں کی مدح سرائی کے بجائے بادشاہوں، امیروں اور وزیروں کی شان میں قصیدے کہے جانے لگے اور حد سے گزرے ہوئے مبالغے کے استعمال کو بہتر تسلیم کیا جانے لگا۔ ان حالات میں اگر تمام تر ذہنی کاوشیں لفظی صناعی اور بازی گری تک محدود ہوجائیں تو چنداں تعجب کی بات نہیں۔
عربی زبان کے برخلاف فارسی میں اسلام سے قبل کسی ایسی قابلِ ذکر شعری روایت کا پتا نہیں چلتا جس سے نقدِ شعر کے اصولوں پر کچھ روشنی پڑسکے یا تنقیدِ شعر کے اصول وضوابط کا کوئی سراغ لگ پائے، حالاںکہ عبدالحسین زریںکوب رقم طراز ہیں:
’’اسلام سے قبل ایران میں شعر کا وجود تھا جو اپنی گہرائی نیز لطف وعظمت کے لحاظ سے قابل توجہ ہے۔‘‘ [عبدالحسین زریںکوب، تاریخ نقدِ ادب، ص 268]
اس کے باوجود کسی ایسے تنقیدی رسالے یا کتاب کا ذکر پھر بھی نہیں ملتا جس کی روشنی میں نقدِ شعر کے کچھ اصول مرتب کیے جاسکیں۔ البتہ بعض واقعات جو تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں، یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایران میں اسلام سے قبل فنونِ بلاغت اور سخن وری کی روایت موجود تھی۔ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے فارسی ادب میں بھی ادبی ذوقِ نقد موجود تھا، مگر زمانے کی ستم ظریفی کے باعث وہ کتابی صورت میں ہمارے سامنے نہیں آسکا۔
جب ایران میںاسلام پہنچا تو اس نے زندگی کے ہر شعبے پر اثرانداز ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی متاثر کیا اور ان ادبی رجحانات کو عام کیا جو اس وقت کی عربی شاعری میں رواج پذیر تھے، یا فروغ پارہے تھے۔ نتیجے کے طور پر اس وقت کے شعرا کے بہت سے ایسے اقوال ملتے ہیں جو اشعار کی ماہیت، غرض وغایت اور اصول وضوابط پر روشنی ڈالتے ہیں۔ شہید بلخی کی رائے ہے:
’’رونق ومعنی، تعلیم حکمت نیز تلقینِ لذت کا لازمی طور پر قائل تھا۔ یہ خیال کہ شعر سے تعلیم مقصود ہے یا تفریحِ طبع؛ حکمائے یونان اور قدیم مغربی ناقدوں کی طرح یہ بھی کش مکشِ فکر میں تھا۔‘‘ [عبدالحسین زریں کوب، تاریخ نقدِ ادب، ص 274]
’’فرخی نے شعر کو ’’دیبا وپرنیاں‘‘ سے تشبیہ دیا ہے اور اس تشبیہ میں صنعتِ شعر کا بھی ذکر کیا ہے مگر آسان اور معنوی لحاظ سے سہل شعر کو اکثر پسندیدہ قرار دیا ہے۔‘‘ [عبدالحسین زریں کوب، تاریخ نقدِ ادب، ص 274]
عنصری کی نظر میں:
’’شعر کی اساس معنی پر ہے کہ جب معانی بہم ہوتے ہیں تو شاعری آسان ہوجاتی ہے۔‘‘ [ایضاً]
اور رودکیؔ کا خیال ہے کہ:
’’شعر کی فنی خوبیوں میں سے اپنے مدحی قصیدوں میں اکثر آسان معانی اور لفظی محاسن کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ اس سے زیادہ کو لازمۂ شاعری خیال نہیں کرتا۔‘‘ [ایضاً]
اس کے علاوہ ابوالحسن بہرامی نے عروض وقافیہ کے فن میں اہم کتابیں (کنزالقافیہ، غایت العروضیین، رسالہ خجستہ) تصنیف کی ہیں، جن کے مطالعہ کا مشورہ صاحبِ چہارمقالہ نوجوان شعرا کو دیتا ہے تاکہ اس سے ان کا ذوقِ نقد مزید لطیف ہوسکے۔
مذکورہ بالا جملہ متفرق اقوال وخیالات کے علاوہ تاریخی اعتبار سے سب سے پہلی تنقیدی کتاب جو فارسی زبان میں دست یاب ہے، وہ قابوس نامہ ہے جس کا مولف امیر کیکائوس بن اسکندر بن قابوس ہے۔ یہ کتاب سنہ 457-62ھ کے درمیان تالیف ہوئی تھی۔ کتاب کی تالیف کا مقصد مولف کا اپنے بیٹے کو تربیت دینا تھا جس کے بموجب اس کا ذوقِ شعروادب سنور اور نکھرسکے۔ اس غرض سے جو ہدایتیں اس میں دی گئی ہیں ان سے فارسی تنقید کے نقوشِ اوّل ضرور واضح ہوجاتے ہیں۔ یہ ہدایات اس طرح ہیں:
.1 ’’کوشش کرو تاکہ تمھاری بات سہل ممتنع ہوجائے۔
.2 غیرواضح اور پیچیدہ کلام سے اجتناب کرو۔
.3 ایسی چیز جو تمھیں معلوم ہے اور دوسرے نہیں جانتے اس انداز میں مت کہو کہ اس کی وضاحت کی ضرورت پڑے۔
.4 شعر دوسروں کے لیے کہا جاتا ہے نہ کہ خود کے واسطے۔
.5 وزن اور قافیہ پر قناعت نہ کرو بلکہ شعر میں صنائع کا بھی استعمال کرو۔
.6 اگر تم چاہتے ہو کہ تمھاری شاعری بلند رہے تو استعارے کی شاعری کرو مگر اس کا انتخاب ممکنات سے ہو … مدح میں استعارے کا استعمال کرو۔
.7 اگر غزل یا ترانہ کہنا ہے تو آسان اور لطیف انداز میں کہو اور معروف قافیوں کا استعمال کرو۔
.8 عربی کے غیرمستعمل اور نامانوس الفاظ نہ استعمال کرو۔
.9 عاشقانہ موضوعات پر لطیف انداز میں شعر کہو۔
.10 عمدہ مثالوں کا استعمال کرو تاکہ خاص وعام کو بھلا معلوم ہو۔
.11 بوجھل اشعار اور عروضی ہتھکنڈوں سے پرہیز کرو کیوںکہ عروض اور ثقیل اوزان طبیعت میں ناگواری پیدا کرتے ہیں اور عمدہ الفاظ اور بہترین معانی سے عاجز کردیتے ہیں… لیکن عروض سیکھو اور علمِ شاعری، القاب اور نقدِ شعر کا علم سمجھو تاکہ کبھی اگر شعرا کے درمیان مناظرہ ہو تو تمھیں بالادستی حاصل رہے اور اگر وہ تمھیں کسی امتحان میں ڈالیں تو کامیاب رہو۔‘‘ [فارسی سے ترجمہ، امیرکیکائوس بن اسکندر بن قابوس، قابوس نامہ بحوالہ مسیح الزماں، اردو تنقید کی تاریخ، ص 30]
بظاہر یہ چند بکھرے بکھرے اور متضاد خیالات معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں منطقی طور پر ربط وضبط بھی موجود ہے اور ان کی روشنی میں نقدِ شعر کے کچھ اصول ضرور مقرر کیے جاسکتے ہیں، مثال کے طور پر شعر کی اوّلین شرط یہ ہے کہ سہل ممتنع کا حامل ہو اور پیچیدہ کلام سے مبرا ہو۔ شعر اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے کہا جاتا ہے، اس سے شعر کا ترسیلی پہلو بھی ظاہر ہوتا ہے۔ کیکائوس کا خیال ہے کہ وزن وقافیہ کے علاوہ شعر کی عمدگی کے لیے صنعت گری بھی شرط ہے۔ وہ قصیدہ اور غزل کے معیار اور اصول میں فرق کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مدح میں ایسے استعارات اور تشبیہات کا شعوری طور پر استعمال کرنا چاہیے جو ممکنات میں ہوں جب کہ غزل سہل انداز اور مانوس قافیے میں کہی جانی چاہیے۔
مزید ایک مقام پر شاعری کے بارے میں صاحبِ قابوس نامہ رقم طراز ہے:
’’شعر کا پورا پورا حق ادا ہونا چاہیے۔ کبھی ناتمام بات نہیں کہنی چاہیے۔ غزل اور ترانہ شان دار کہو، اور مدح میں قوی، دلیر اور بلندہمت کی طرح بات کرو، مگر لوگوں کے مقام ومرتبے کا لحاظ ضروری ہے۔ جو مدح کرو ممدوح کے منصب کے مطابق کہو۔‘‘ [عبدالحسین زریں کوب، تاریخ نقدِ ادب، ص 293]
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قابوس نامہ کا مولف مبالغے کو پسند نہیں کرتا بلکہ اسے شاعری کا عیب شمار کرتا ہے۔ حالاںکہ وہ صناعی اور شاعرانہ فن کاری کی ترجیح کی بات بھی کرتا ہے۔ اس کے اس رویے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عربی اصولِ نقد سے نہ صرف بخوبی واقف تھا بلکہ اس سے متاثر بھی تھا اور انھیں اصول وضوابط اور معیار کو فارسی شاعری کی میزان تصور کرتا تھا۔
قابوس نامہ کے بعد، تقدمِ زمانی کے اعتبار سے فارسی تنقید کی دوسری اہم کتاب ترجمان البلاغہ مولفۂ محمد بن عمر رادویانی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ تنقیدِ شعر کے سلسلے میں کوئی نتیجہ خیز رہنمائی نہیں کرتی تاہم اس عہد کے تنقیدی ذوق کو اگر مدنظر رکھ کر اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نقدِ شعر کے اصول وضوابط کے سلسلے میں ترجمان البلاغہ کے مصنف کا غالب رجحان صنعت گری اور لفاظی برتنے میں ہے۔ مصنف موصوف نے مذکورہ کتاب میں بلاغت کی معروف ترین، معلوم ترین اور روشن ترین اقسام کو پیش کیا ہے، نیز اشعار کا انتخاب اس انداز سے کیا ہے کہ ’’شعر کی صنعت ظاہر ہوجائے اور شاگردی کے مقام سے قدم باہر بھی نہ ہوں۔‘‘ [عبدالحسین زریں کوب، تاریخ نقدِ ادب، ص 291]
یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے کہ فارسی شاعری کے اوّلین اصولِ نقد زیادہ تر لفظی بازی گری اور صناعی کے اردگرد گھومتے رہے اور معانی کو ثانوی حیثیت حاصل رہی۔ اس کی وجہ بہت صاف اور واضح ہے کہ ابتدا میں فارسی تنقید عربی تنقید کے زیراثر پروان چڑھ رہی تھی اور جو فارسی نقاد تھے وہ عربی ادب سے بڑی حد تک متاثر تھے۔ بعض تو ایسے تھا جو عربی زبان کو فارسی پر ترجیح دیتے تھے۔ ایک دوسری دلیل اس اثرپذیری کی یہ ہے کہ فارسی تنقید کی جو کتابیں اس عہد میں لکھی جارہی تھیں، ان میں سے بعض ایسی ہیں جو اوّل اوّل عربی زبان میں تصنیف ہوئی تھیں اور بعد میں ان کا فارسی ترجمہ خود اس کتاب کے مصنفین نے کیا ہے۔
نظامی عروضی سمرقندی کی چہارمقالہ نے فارسی ادب کے تنقیدی تصورات کے تعین میں بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ مصنف نے اس کتاب میں مختلف موضوعات کے تعلق سے ابواب قائم کیے ہیں، مگر ان میں ایک باب ’’مقالۂ دوم در بابِ علمِ شعر وصلاحیتِ شاعر‘‘ ایسا ہے جو تنقیدِ شعر اور آدابِ شعرگوئی پر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے۔ اس مقالے سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ نظامی شعر کو ایک صناعت خیال کرتا ہے جو قوتِ موہومہ اور متخیلہ کو متحرک کرتی ہے اور اس کے سبب معمولی باتیں عظیم اور غیرمعمولی باتیں حقیر اور بے وقعت بناکر پیش کی جاسکتی ہیں، اس کے علاوہ اس انداز سے کہی گئی باتیں دنیا میں اہم اور غیرمعمولی کارناموں کا موجب بھی بنتی ہیں۔
ایک اور مقام پر جہاں نظامی نے آدابِ شعرگوئی کی بابت اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ گفتگو کی مجلس میں شاعر کو خوش گفتار اور معاشرت کی مجلس میں خوش رو ہونا چاہیے اور شعر اس درجہ کے ہوں کہ مستقبل میں بھی زندہ رہ سکیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان میں تاثیر ہوگی۔ اثرآفرینی کے لیے لازمی ہے کہ عنفوانِ شباب میں متقدمین کے بیس ہزار اشعار نظروں سے گزرجائیں اور اساتذہ کے دواوین زیرمطالعہ رہیں۔
نظامی عروضی کے تنقیدی تصورات کی نشان دہی مذکورہ اقوال کی روشنی میں بخوبی کی جاسکتی ہے۔نظامی کی نظر میں شاعری چوںکہ ایک صنعت ہے اس لیے یہ بات ظاہر ہے کہ اس نے لفظی بازی گری اور شعبدہ بازی کو شاعری کی بنیاد تصور کیا ہے اور اس اعتراف کے سبب اس کا تمام تر زور بیان اور اظہار کی قوت پر ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی نظامی شعر کی افادیت اور اس کی تعمیری اہمیت کا بھی قائل ہے جو دنیا میں بڑے بڑے انقلابات برپا کرسکتا ہے۔ زورِ بیان اور طرزِ اظہار کو ترجیح دینے کے باب میں نظامی قدامہ بن جعفر کا ہم مسلک معلوم ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ قدامہ کے ’’اصولِ کذب‘‘ سے بخوبی واقفیت رکھتا تھا نیز شاعری میں اسے معیوب تصور نہیں کرتا تھا۔ شعر کے لیے اثرآفرینی کو وہ ضروری خیال کرتا ہے مگر شعر کی صورت گری کے لیے وزن اور قافیے کی پابندی کو لازم نہیں خیال کرتا۔
نظامی کے علاوہ دور سلجوقیان میں بعض شعرا بھی ایسے ہیں جن کے ہاں تنقیدی تصورات موجود ہیں اور ان کے مذاق میں تنقیدی معیار ومیزان کی چنگاریاں روشن ہیں۔ مسعود سعد کے نزدیک ’’اچھا شعر وہ ہے جن میں گھٹیا الفاظ اور معنی کی تکرار نہ ہو بلکہ اس میں ندرت، پرواز اور عقل کی اصلاح وتنقیح سے متعلق تجربات کا نچوڑ رکھ دیا گیا ہو۔‘‘ [عبدالحسین زریںکوب، تاریخ نقدِ ادب، ص 298]
خاقانی کے نزدیک ’’اچھا شعر وہ ہے جو معانی اور تعبیرات کی ندرت سے بھرا ہو، اس لیے وہ حکمت واخلاق کے مضامین کو شعر میں زیادہ اہمیت دیتا ہے۔‘‘ [ایضاً، ص 299]
نظامی، مسعود سعد اور خاقانی کے تصوراتِ نقد اس بات کے غماز ہیں کہ اُس دور کا غالب رجحان یہی تھا کہ شعر ایک قسم کی صنعت، آرٹ اور فن ہے جو فکر وبیان کا محتاج ہوتا ہے۔ ان نقادوں اور شعرا کے یہاں بھی کوئی ایسی مابہ الامتیاز خصوصیت نظر نہیں آتی جو متقدمین سے ممتاز ہو۔ البتہ نظامی کے خیالات اس حد تک ممتاز ضرور ہیں کہ اس نے بعض ایسی صفات کا اضافہ کیا ہے جو اس سے قبل ناپید تھیں، یعنی شاعری کی سماجی، افادی اور تعمیری اہمیت کا پہلو؛ اور ساتھ ساتھ شعر کے لیے اثرآفرینی کی شرط۔ بصورتِ دیگر ان دو خصوصیات کے سوا باقی اوصاف اس کے پیش رَو عربی نقادوں اور فارسی مصنفین کی صدائے بازگشت معلوم ہوتی ہیں۔
نظامی کے بعد فارسی تنقیدنگاروں میں سب سے اہم نام رشیدالدین وطواط کا ہے۔ اس کی کتاب ’’حدائق السحر فی دقائق الشعر‘‘ فن بدیع اور نقدِ ادب کے باب میں بہت اہم کتاب تسلیم کی گئی ہے۔ ابوالکلام قاسمی لکھتے ہیں:
’’اس کتاب کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں وطواط نے صنائع معنوی کو بھی بڑی اہمیت دی ہے جس سے صرف بیان اور زورِ کلام کے مقابلے میں وطواط کے اس تصور کا پتا چلتا ہے کہ اس کے نزدیک معنوی مسائلِ شعر بھی غیر اہم نہیں ہیں۔‘‘ [ابوالکلام قاسمی، مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت، ص 91]
یوں تو بنیادی طور پر یہ کتاب فن بدیع کے موضوع پر لکھی گئی ہے لیکن وطواط کے خیالات اپنے آپ میں ایسی چنگاریاں بھی ضرور رکھتے ہیں جو موجِ تہ نشیںکی طرح بہ ظاہر غیر اہم مگر بہ باطن پراثر ہیں اور جن کی مدد سے اس تصورِ نقد کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے جو اس زمانے میں علما اور اُدبا کے درمیان رواج پذیر تھا۔
رشیدوطواط کی تنقید کو اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا جس پس منظر میں ہم انیسویں صدی کے اردو تذکروں کو دیکھتے ہیں۔ مسعود سعد سلمان کے سلسلے میں وطواط نے جو رائے دی ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مسعود سعد کے اشعار کلامِ جامع، حسن معنی اور لطفِ الفاظ سے مزین ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس کے اندر شعر کے جملہ ظاہری وباطنی محاسن بدرجۂ اتم موجود ہیں اور اس سے وطواط کے نظریے کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ لفظ اور معنی دونوں کو اہمیت دیتا ہے، پھر بھی صنعتوں کے استعمال پر اس نے جس قدر زور دیا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شعر کی ظاہری ہیئت اور ساخت کو زیادہ اہم تصور کرتا ہے۔ اگرچہ اس نے غیر حقیقی تشبیہات کو معیوب ٹھہرایا ہے، وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ صنائع کی کثرت کی وجہ سے شعری لطف زائل ہوجاتا ہے۔
فارسی زبان میں تنقیدی سلسلے کی اگلی تصنیف ’’لباب الالباب‘‘ ہے جس کے مصنف محمدعوفی ہیں۔ اس کتاب کو فارسی زبان کا اوّلین تذکرہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ بادشاہ، امرا اور شرفا کے لیے مخصوص ہے جب کہ دوسرے حصے میں عام شعرا کا ذکر اور ان کا انتخابِ کلام ملتا ہے۔ چوںکہ ’’لباب الالباب‘‘ میں عوفی نے تذکرہ نگاری کا انداز برتا ہے اور زیادہ توجہ انشاپردازی کرنے، پرصنعت اور مسجع عبارت لکھنے میں صرف کی ہے، اس لیے تنقید اور اظہارِ خیال کے پیرایے کا وہ انداز سامنے نہیں آسکا، تنقید جس کا تقاضا کرتی ہے۔ پھر بھی مختلف مقامات سے جو تنقیدی نظریے سامنے آتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوفی کی نظر میں اچھا شاعر وہ ہوسکتا ہے جو کائنات کے مسائل پر نظر رکھتا ہو، نیز یہ کہ لالچ کی غرض سے شعر گوئی اچھا شغل نہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ عوفی ’’کذب کو شاعری کے لیے ممنوع قرار نہیں دیتا۔‘‘ [ابوالکلام قاسمی، مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت، ص 98] اس طرح اس تنقید کی روایت نظامی عروضی سمرقندی سے ہوتی ہوئی عربی تنقید میں قدامہ بن جعفر تک پہنچتی ہے جہاں بہترین شعر وہ تصور کیا جاتا تھا جس میں جھوٹ کی آمیزش سب سے زیادہ ہوتی تھی۔
تاریخی ترتیب کے اعتبار سے فارسی کی تنقیدی روایت کا اگلا سنگ میل شمس الدین محمد بن قیس رازی کی کتاب ’’المعجم فی معاییر اشعارالعجم‘‘ ہے۔ اوّل اوّل یہ کتاب عربی میں تصنیف کی گئی، بعدہٗ خود مصنف نے اس کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا۔ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب پر عربی تنقید کے اثرات لامحالہ طور پر مرتب ہوئے ہوںگے۔ ’’المعجم‘‘ کی قدروقیمت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ اس فن پر فارسی زبان میں شرح وبسط کے ساتھ اَور کوئی کتاب اس سے قبل نہیں لکھی گئی تھی۔ جو کتابیں موجود تھیں وہ مخصوص طرز میں مخصوص موضوعات کا احاطہ کرتی تھیں، جب کہ اس کے برخلاف ’المعجم‘ شاعری کے بیش تر موضوعات کا احاطہ کرتی اور ان پر تفصیل سے بحث کرتی ہے۔
نقدِ شعر کے تعلق سے ’المعجم‘ میں جو خیالات پیش کیے گئے ہیں یا شاعری کے لیے جن شرائط کی پابندی کو لازمی قرار دیا گیا ہے، وہ یہ ہیں کہ شعر کو مرتب، بامعنی، موزوں، متکرر، متساوی اور اس کے آخری حروف کو ایک دوسرے سے مماثل ہونا چاہیے۔ صاحب ’المعجم‘ رقم طراز ہیں:
’’شعر کے محاسن کی بنیاد اچھے اوزان، شیریں الفاظ، متین عبارت، صحیح قوافی، آسان تراکیب اور لطیف معانی پر قائم ہے، تاکہ وہ عام فہم ہوں اور اس سے محظوظ ہونے کے لیے غیرضروری غوروفکر کی ضرورت نہ پڑے۔ ساتھ ہی ساتھ دور ازکار استعارات، شاذونادر مجازات، جھوٹی تشبیہات اور مکرر تجنیسات سے خالی ہو … اور نامانوس الفاظ کا استعمال نہ کیا گیا ہو نہ ہی فارسی زبان کے متروک الفاظ کام میں لائے گئے ہوں۔ البتہ عربی کے وہ الفاظ جو فارسی زبان اور محاورات کا حصہ بن چکے ہیں، ان کا استعمال جائز ہے۔‘‘ [فارسی سے ترجمہ، رازی، المعجم بحوالہ مسیح الزماں، اردو تنقید کی تاریخ، ص 34-35]
جس طرح نظامی نے نقدِ شعر یا عمدہ شاعری کے لیے شاعر کے علم اور اطلاع کو ایک لازمی جزو قرار دیا تھا، اسی طرح شمس قیس رازی نے بھی ’المعجم‘ میں شاعر کی صلاحیت اور واقفیت کو محاسنِ شعر کا جزو قرار دیا ہے کہ ’’شاعر کو لغت پر عبورِ کامل حاصل ہو، کچھ تاریخ بھی جانتا ہو۔ علم عروض وقوافی سے بھی واقف ہو اور اپنے طریقِ اظہار واسلوبِ ابلاغ میں مشہور شعرا کے طریقوں سے انحراف نہ کرے۔‘‘ [ابوالکلام قاسمی، مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت، ص 104]
رازی کے تنقیدی خیالات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کا زیادہ زور لفظی محاسن اور ظاہری اوصاف پر تھا۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ رازی کے خیالات کی نشوونما بھی عربی تنقید کے زیر اثر ہوئی تھی، جہاں ہیئت پر زور زیادہ تھا اور موضوع کی حیثیت ثانوی تھی اور لفظی محاسن اور ظاہری اوصاف ہی بہترین شاعری کے عناصر تسلیم کیے جاتے تھے۔
’المعجم‘ میں شمس قیس رازی نے شعر اور نقدِ شعر کے جملہ پہلوئوں کا اس قدر تفصیلی مطالعہ پیش کردیا ہے کہ اس کے بعد جو بھی کتابیں تصنیف یا تالیف ہوئیں ان میں کسی جدت یا نئے پن کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ یا تو ’المعجم‘ کی صدائے بازگشت معلوم ہوتی ہیں یا ان میں اکثر نکات حوالے کے طور پر اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔ ساتویں صدی ہجری کے تنقیدنگار مشہور فلسفی اور متکلم خواجہ نصیرالدین طوسی کی کتاب ’معیارالاشعار‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ آٹھویں صدی ہجری میں خواجہ شرف الدین رامی تبریزی نے رشیدالدین وطواط کی کتاب ’حدائق السحر فی دقائق الشعر‘ کی شرح ’حدائق الحدائق‘ کے نام سے لکھی۔ اس کتاب میں جہاں جہاں مصنف کی ذاتی رائے ، مشورے اور ترجیح کا انداز جھلکتا ہے، صاف معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کا زیادہ تر زور صنائع لفظی اور معنوی جیسی شعری محاسن پیدا کرنے تک محدود ہے۔
ایران میں صفویوں کے برسراقتدار آجانے کے باعث اس طویل شعری روایت میں زبردست ردّوبدل ہوا۔ یہ کہنا نامناسب نہیں ہوگا کہ اب ایران میں مذہبی نوعیت کی شاعری تخلیق ہورہی تھی، عین اسی وقت ہندوستان میں فارسی زبان وادب اور اس کی ترویج وترقی کے واضح امکانات موجود تھے۔ ہندوستان میں مغلوں کی فرماںروائی تھی اور جاگیرداری نظام کے باعث قصائد اور مدحیہ شاعری کے لیے زرخیز زمین تیار تھی۔ ایران کے بیش تر شعرا کے ذہن میں ہندوستان کے سفر کی خواہش سراٹھاتی تھی اور دماغ میں سفر ہندوستان کا سودا سمایا ہوا تھا۔ حالات کے اسی جبر کے پیش نظر ہجرت کرکے بہت سارے شعر ا ہندوستان آگئے اور یہیں بس گئے۔ نتیجتاً یہاں شاعری اور نقدِ شاعری کے لیے عمدہ میدان ملا۔ بادشاہوں اور فرماںروائوں نے شعرا کی پشت پناہی کی اور ایک خاص طرزواسلوب کی بنیاد پڑی۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے جن شعرا نے بھی شاعری کی انھوں نے دلیل اور حوالے کے طور پر فارسی کے قدیم شعرا کو ہی معیار ومیزان ٹھہرایا۔
اکبر کے زمانے میں ابوالفضل بڑا تنقید نگار پیدا ہوا۔ اس نے پہلی مرتبہ عام اصولِ نقد کی شاہ راہ سے الگ ہٹ کر ایک نئی ڈگر تلاش کی۔ ڈاکٹر وحید قریشی کے الفاظ میں:
’’ابوالفضل کے نظریۂ فن کے تین بنیادی نکات ہیں:
(الف) الفاظ ومعانی کا رابطہ
(ب)صوفیانہ اقدار کی اہمیت
(ج) تقلید وانفرادیت
اگر کسی نے باقاعدہ الفاظ ومعانی کی برابری اور گہرے رابطے کو تسلیم کیا ہے تو وہ ابوالفضل اور فیضی کا دور ہے۔‘‘ [ابوالکلام قاسمی، مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت، ص 110]
فارسی زبان کی اس طویل تنقیدی روایت کے مطالعے سے جو نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ فارسی زبان میں بھی اصولِ نقدِ شعر عربی زبان وادب کے زیراثر رواج پذیر ہوتے رہے، اور یہ نظریات عربی ادب کے چھتنار درخت کے سایے میں ہی پھلتے پھولتے رہے اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوکر آنے والے نظریات وخیالات معمولی تبدیلی اور ردّوبدل کے بعد زمانے کا معیار بنتے رہے۔ ان نظریات کا زیادہ زور شعر کے ظاہری محاسن، لفظی خوبیوں، تزئینِ شعر اور تحسینِ کلام ہی پر رہتا تھا۔ اظہار اور اسلوب کے جتنے پیرایے اور انداز ہوسکتے تھے وہ سب انھوں نے اپنائے اور اصولِ نقد کے طور پر انھیں سے روشنی حاصل کی۔ تنقید کا جدید تصور (جسے مغربی تصورات سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب ہوگا) عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں مفقود تھا۔ اس کی وجہ بہت واضح طور سے یہی ہوسکتی ہے کہ زندگی کے گہرے شعر سے وہ لوگ ابھی آشنا نہیں ہوئے تھے، چناںچہ ان کی تنقیدی آرا بھی اکہری زندگی کی مظہر تھیں، اور اکہرے تنقیدی شعور کی غمازی کرتی تھیں۔
عربی اور فارسی تنقیدی اصولوں کا یہ ایک مختصر جائزہ تھا۔ اس سے ہماری غرض یہ تھی کہ اجمالی طور سے ان دونوں زبانوں کے اصولِ نقد کا عمومی تعارف پیش کیا جاسکے اور ایک ایسی ذہنی فضا اور ماحول تیار کرنے کی راہ ہموار ہوسکے جن کے بارے میں جمیل جالبی لکھتے ہیں:
ــ’’یہ وہی معیار ہیں جن پر اردو شاعری داغؔ تک چلتی رہی۔‘‘ [جمیل جالبی، تاریخ ادب اردو، جلد دوم، حصہ دوم، ص 667]
اور یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے ہی کہ عربی اور فارسی کے تنقیدی معیاروں کی روشنی میں ہی اردو تنقید کے تخلیقی سوتے پھوٹے ہیں اور وہ انھیں راہوں سے ہوتی ہوئی آج کی موجودہ اردو تنقید تک پہنچی ہے۔
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!