شاہد جمالی کی کتابوں میں سلیم جعفر کی سوانح اور شاعری
ڈاکٹر معین الدین شاہین
ایسو سی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو،سمراٹ پرتھوی راج چوہان گورنمنٹ کالج،اجمیر
دنیا ئے ادب میں سلیم جعفر کو محقق،ناقد، ماہر لسانیات، اور مورخ وغیرہ جیسی حیثیتوں سے پہچانا جاتا ہے۔لیکن بہت کم حضرات اس حقیقت سے واقف ہیں کہ سلیم جعفر پختہ کار شاعر بھی تھے۔آ پ کا کلام ماہنامہ ’ زمانہ ‘ کانپور کے اکثر شماروں میں شائع ہو کر ہدیہ ناظرین ہو چکا ہے۔اس سے پہلے کہ آ پ کے شا عرانہ کمالات واضح کئے جا ئیں ،موصوف کی زندگی کے ان پہلو وں پر نظر ڈال لیجئے جو بمشکل تمام مو صول ہو تے ہیں۔شاہد احمد جمالی،صدر،راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیڈمی،جے پور نے بڑی محنت و مشقت کے بعد سلیم جعفر کے سوانحی حالات جمع کئے ہیں جو اور دوسرے حوالوں سے اس قدر موصول نہیں ہو تے ،اس لئے یہاں ان کے حوالے سے راقم یہ واضح کر دینا چا ہتا ہے ۔سلیم جعفر جنھیں قصدا ً ان کے معاصرین نے نظر انداز کیا ،ایک ایسی نابغہ روز گار شخصیت کے مالک تھے ،جس کے نقوش ہندو پاک میں کبھی نہیں مٹنے والی پہچان چھوڑ گئے۔
سلیم جعفر کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہو ئے شاہد احمد جمالی رقم طراز ہیں۔۔۔
’’آ پ کا اصل نام محمد حسیب اللہ تھا۔۱۸۹۳ ء میں بارہ بنکی میں پیدا ہو ئے۔ادب میں سلیم جعفر کے نام سے مشہور ہیں۔آ پ کے والد محمد نور اللہ ریاست جے پور میں ملازم تھے۔اس لئے بچپن میں ہی جے پور آ گئے تھے۔اور یہیں پر منشی عالم کی ڈگری حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا۔عربی ،فارسی،اردو کے علاوہ ہندی اور سنسکرت میں بھی عالم و فاضل تھے۔ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں میں رہنا پڑا۔آ پ بلند پائے کے نثر نگار ہو نے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر بھی تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلیم جعفر جے پور کی ادبی انجمنوں سے منسلک تھے۔جے پور لٹریری کارپوریشن(اردو) جس کے سیکریٹری سید سرفرا حسین رضوی تھے،نے ۱۷؍ فروری ۱۹۳۷ ء کو جے پور میں شمس العلما ڈاکٹر نذیر احمد کی صد سالہ برسی کا جشن منایا تھا۔اسی فنکشن میں سلیم جعفر نے بھی اپنی خد مات انجام دی تھیں۔‘‘ ۱ ؎
(۱۔تذکرہ شعرا ئے راجپوتانہ،۱۹۵۰ ء تک۔(پہلی جلد)مرتبہ۔شاہد احمد جمالی۔ ص۔۴۶۸۔۴۶۷۔ناشر۔راجپوتانہاردو ریسرچ اکیڈمی،جے پور۔۲۰۱۸۔)
اپنی دوسری کتاب میں شاہد احمد جمالی نے ڈپٹی نذیر احمد سے متعلق منعقد ہو نے والی تقریب کے سلسلے میں مزید وضاحت کر تے ہو ئے تحریر فرمایا ہے کہ ۔۔۔۔
’’ اس جشن میں نذیر احمد کی ادبی خد مات پر مقالات پیش کئے گئے تھے۔اس پروگرام میں مو لانا رزی جے پوری نے نذیر احمد کی تعریف و توصیف میں ایک طویل نظم بھی پڑھی تھی۔اس کے چند مصرعے یہاں لکھے جا نا معلومات میں اضافہ کا سبب ہو گا۔
اک بہار ابدی باغ ادب میں آئی
جان فردوس ہے اب اس کی ہوا کا جھونکا
گلشنِ حضرتِ چکبست، شگفتہ، شاداب
روضہ حضرت سرشار معطر رعنا
سید و شبلی و آزاد و جناب حالی
ان میں ایک ایک ہے اخلاق نئی دنیا کا
گو کہ ان میں ہر اک استاد ہے معمار زباں
معنی ارضِ ادب ہیں تو نذیر احمد ہیں ۲ ؎
(۲؎۔راجستھان کے منتخب تحقیقی و تنقیدی مضامین۔(۹۱۱ سے ۱۹۵۴ تک)۔پہلی جلد۔مرتبہ۔شاہد احمد جمالی۔ص۔۱۲۹۔۱۲۸۔ناشر ۔راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیڈمی،جے پور۔۲۰۱۶ )
واضح ہو کہ اس بزم میں سلیم جعفر نے بحیثیت شاعر شر کت نہیں کی تھی بلکہ ایک منتظم کی جو ذمہ داری ہو تی ہے وہ اس سے عہدہ بر آ ہو ئے تھے۔اس پروگرام کی کامیابی میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔
ماضی قریب میں سلیم جعفر سے متعلق ایک اہم اور معلوماتی مضمون ’’ داغ کے انگریز رشتہ دار ‘‘ماہ نامہ نئی کتاب،(نئی دہلی)میں شائع ہوا تھا۔جس کے مصنف خالد حسن قادری (لندن)ہیں۔شاہد احمد جمالی نے اپنی محولہ بالا کتاب میں اس سے ایک کار آ مد اقتباس نقل کیا ہے جو اس طرح ہے،
’’ سلیم جعفر ان کا اصلی نام نہیں ہے۔اصل نام حسیب اللہ قریشی تھا۔دہلی میں مر کزی حکو مت پولیٹکل محکمہ میں افسر تھے۔چونکہ سر کاری محکمہ بھی کافی حساس نو عیت کا تھا۔اس لئے وہ اپنے نام سے کسی طرح کی کو ئی چیز شائع نہیں کرا سکتے تھے۔اس لئے انھوں نے سلیم جعفر نام اختیار کیا۔اور تمام مضامین میں نہایت التزام سے مسٹر کا لفظ ضرور لکھا جاتا تھا۔تو یہ مسٹر سلیم جعفر اصل میں حسیب اللہ قریشی تھے۔ان کے دادا کا نام محمد امیر یا امیر اللہ تھا۔ان کی اہلیہ یعنی سلیم جعفر کی دادی باد شاہ بیگم خفی تھیں۔جن کا اصل نام سوفیہ تھا۔سوفیہ کے والد کا نام مسٹر بلیک تھا۔جو ریاست جے پور میں اسسٹینٹ پولیٹکل ایجنٹ تھے۔اور ایک مقامی بلوے میں قتل ہو ئے۔مسٹر بلیک ،چھو ٹی بیگم (والدہ داغ ) کے پہلے شو ہر تھے۔اس طرح مسٹر بلیک داغ کے سوتیلے والد اور سوفیہ (باد شاہ بیگم خفی ) کے پہلے شو ہر مسٹر اسکنر تھے۔ان کی اولاد در اولاد و اخفا اب تک ہندوستان میں موجود ہیں۔مسٹر سلیم جعفر سر کاری نوکری سے سبکدوش ہو نے کے بعد پاکستان چلے گئے۔‘‘
(ماہنامہ نئی کتاب،(۸)بابت جنوری،مارچ۔۲۰۰۹ ء۔ص۲۱بحوالہ تذکرہ شعرا ئے راجپوتانہ ۔ص۔۴۶۹)
مذکورہ اقتباس میں صاحب مضمون خالد حسن قادری نے جو تحقیقی معلومات فراہم کی ہیں وہ سلیم جعفر کی سوانح کے سلسلے میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔مضمون نگار نے سلیم جعفر کی ملازمت کا ذکر کیا اس میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اپنی ملازمت کے دوران انھیں جے پور،اجمیر،اور آ بو وغیرہ میں قیام پذیر ہو نے کا موقع فراہم ہوا۔دوسرے یہ کہ ان کا تعلق خانوادہ داغ دہلوی سے تھا۔علاوہ ازیں منشی پریم چند اور بعض دیگر سر کاری ملازمین کی طرح انھیں بھی اپنا اصل نام پردہ خفا میں رکھ کر اپنے قلمی نام سے علم و ادب کی خد مت کر نی پڑی۔سلیم جعفر کی پاکستان ہجرت کے بارے میں پروفیسر فیروز احمد نے سلیم جعفر کے انتقال کے متعلق لکھا ہے کہ ’’ سلیم جعفر کا انتقال ۱۹۶۱ ء میں دسمبر میں ہوا۔اس وقت وہ پاکستان کے شہری تھے۔لیکن جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں کہ ان کی ادبی زندگی کا آ غاز ہندوستان ہی میں ہوا تھا۔‘‘
(راجستھان میں اردو۔ںاکٹر فیروز احمد۔برائون بک ڈپو،دہلی ۔۲۰۱۳۔ص۔۵۲۸)
واضح ہو کہ سلیم جعفر نے بغیر کسی عجلت کے ۵۲۔۱۹۵۱ میں ترک وطن کر نے کا فیصلہ کیا تھا۔خالد حسن قادری کے محولہ مضمون کے بارے میں شاہد جمالی نے یہ صراحت بھی کی ہے کہ ’’ فاضل مضمون نگار نے ایک شجرہ بھی اپنے اس تحقیقی مضمون میں پیش کیا ہے،اس شجرے میں سلیم جعفر کی دادی کے حوالے سے سلیم جعفر کا داغ کے رشتہ دار ہونا ثابت ہو تا ہے۔‘‘
(تذکرہ شعوا ئے راجپوتانہ۔(۔۴۷۰)
سلیم جعفر کی توجہ کا اصل مر کز میدان تحقیق و تنقید رہا۔لیکن اس کے با وجود ان کی شعرو سخن میں دل چسپی رہی۔و ہ غزل پر نظم نگاری کو ترجیح دیتے تھے۔جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ ’’ ملازمت کے سلسلے میں کچھ عرصہ آ پ آ بو میں رہے۔وہاں کے پہاڑ اور عال شان مندروں سے متاثر ہو کر سلیم جعفر نے ایک طویل نظم لکھی تھی۔‘‘
(تذکرہ شعرا ئے راجپوتانہ۔ص۔۴۶۸)
آ بو پہاڑ کو راجستھان کا کشمیر اور ہماچل ،تو کبھی اترا کھنڈ وغیرہ ناموں سے مشابہ کیا جاتا ہے۔اکثر شاعروں نے یہاں کے پر فضا ما حول میں ایسی تخلیقات پیش کی ہیں جنھیں آ گے چل کر شاہکار کی حیثیت حاصل ہو ئی۔سلیم جعفر نے جو نظم آ بو کی فضا میں تخلیق کی وہ اس لئے قابل تعریف ہے کہ تنقید و تحقیق جیسے خشک موضوعات میں سرگرداں رہنے والا فنکار ایک دھڑکتا ہوا دل بھی رکھتا ہے۔وہ تحقیق کی دشوار گزار اور خار زار راہوں سے ہو کر ہی نہیں بلکہ شاداب وادیوں سے بھی علاقہ رکھتا ہے۔خطہ آ بو میں جو نظم انھوں نے تخلیق کی ،اس کے چند بند ملاحظہ فر مائیں۔
کوہِ طورِ راجپوتانہ مقدس سر زمیں
بن رہا ہے صدیوں سے مرجعِ اہلِ یقیں
فخر اس کا ہے تجھے کب سے،پتا چلتا نہیں
تیرے غاروں ،جنگلوں میں تھے رشی عزلت گزیں
دیوتا اور عابد و عارف بھی رہتے تھے یہیں
زلزلے کا شور سننے میں جو آتا ہے کبھی
سو ئے گر دوں نالہ کہسار جاتا ہے کبھی
فکر سے مطلب جو اس کا کو ئی پاتا ہے کبھی
بس وہ اتنا ہے کہ شا ید طیش کھاتا ہے کبھی
دیوتا کو ئی کہ اگلی سی پرستش اب نہیں
اس عقیدت کے ذرا دیکھو کرشمے تو سہی
وعدہ و تہدیہ سے صدیوں حکو مت جس نے کی
کھینچ لاتا ہر برس اب بھی ہے لا کھوں جاتری
ویر دلواڑہ میں اللہ اللہ وہ کاریگری
غرق حیرت دیکھ کر جس کو کہ ہے ارژنگ چیں
جینیوں نے اس کو بنوایا عبادت کے لئے
ہم خیال اب ہند میں جن کے بہت کم رہ گئے
جن کو ہے لاتا رہا شوق زیارت کھینچ کے
باعث تعمیر مندر خوب وہ ہیں جانتے
ذکر اس کا رو برو ان کے عبث ہے با لیقیں
(تذکرہ شعرا ئے راجپوتانہ۔ص۔۴۶۸)
سلیم جعفر کی مذکورہ نظم پڑھنے کے بعد ہمارا دھیان اردو کے عوامی شاعر نظیر اکبر آ بادی کی طرف منتقل ہو تا ہے۔جنھوں نے اس قبیل کی متعدد نظمیں تخلیق کر کے اپنی فراخدلی اورقومی یکجہتی کی نظیر پیش کی۔واضح ہو کہ نظیر اکبر آ بادی سلیم جعفر کے پسندیدہ شاعروں میں تھے۔اس لئے انھوں نے سب سے زیادہ مضامین نظیر اکبر آ بادی پر سپرد قلم کئے ہیں۔حتیٰ کہ ۱۹۵۱ میں ’’ گلزار نظیر ‘‘ جیسی معرکتہ الآ را کتاب ترتیب دے کر نظیر شناسی کی راہیں ہموار کیں۔سلیم جعفر کی مذکو رہ نظم مخمس کی ہیئت میں تخلیق ہو ئی جو نظیر کی مر غوب اور پسندیدہ ہیئت رہی ہے۔سلیم جعفر کا انداز سخن بھی نظیر اکبر آ بادی سے بڑی حد تک ملتا جلتا نظر آ تا ہے۔اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ انھیں نظیر اکبر آ بادی سے دیوانگی کی حد تک عقیدت و محبت تھی۔
سلیم جعفر کی دیگر تخلیقات میں حالی،شبلی،مولانا محمد حسین آ زاد،اکبر الٰہ آ بادی، اور ان کے معاصرین شعرا ء کے انداز سخن کے دیدار بھی ہو تے ہیں۔جس سے یہ نتیجہ بر آ مد ہو تا ہے ،گو یا جہاں اور جس شخص میں انھیں اوصاف دکھائی دئے ،وہاں انھوں نے ہمنوائی کر تے ہو ئے پرانے چراغوں سے اپنا چراغ روشن کر نے کی کو شش کی۔
ایک اور مرصع نظم کے حوالے سے اس امر کی بخوبی وضاحت ہو جاتی ہے۔یہ نظم بھی مذکرہ نظم کی طرح شاہد احمد جمالی کی تلاش و جستجو اور تفتیش کا نتیجہ ہے۔ اس نظم میں مذکورہ شعرا ء کرام کا لب و لہجہ اور متعلقہ موضوع کے سلسلے میں بہترین ادائیگی تصورات اور ترتیب الفاظ و اصطلاحات جیسے اوصاف ِ شاعرانہ بے نقاب ہو کر جلوہ نما ہو تے ہیں۔ملاحظہ فرمائیے۔
ایک انگریز ایک مسلم سے مخاطب یوں ہوا
ہے عقیدہ مسلموں کا میں نے یہ حضرت سنا
جس نے یہ سمجھا کہ رندی زیست کا مقصود ہے
شک نہیں اس میں ذرا وہ کندئہ دوزخ بنا
عمر بھر جس شخص کا شیوہ رہا کار ثواب
داخل جنت ہوا لاریب وہ مرد خدا
میں نے مانا کافر و بد کیش میری قوم ہے
اور اس میں نیک لوگوں کا نہیں لگتا پتا
ہاتھ دل پر ہاں مگر رکھ کر یہ فر مائیں جناب
کیا نہیں ہے ہم میں کوئی متقی و پارسا
قوم بھر میں ایک بھی گر آپ کے نزدیک ہے
قابل بخشش کہ جنت جس کو ہو جائے عطا
قوم کی کشتی کا پھر تو غم نہیں مطلق مجھے
ساحل ِ مقصود پر لے جائے گا یہ نا خدا
لطف ِ جنت چھوڑ کر پڑ جائیگا اس فکر میں
گلشن رضواں پہ کیونکر ہو گا قبضہ قوم کا
قوم ساری جب پہنچ جائیگی جنت میں جناب
چین سے بیٹھے گا تب جاکر فدائی قوم کا
دیکھ غافل،اتحادِ قوم اس کا نام ہے
کھول آنکھیں اعتماد ِ قوم اس کا نام ہے
(تذکرہ شعرا ئے راجپوتانہ۔ص۔۴۶۹)
سلیم جعفر کے کلام کا مطالعہ کر نے کے بعد ہمارے ذہن میں جو تاثر ابھر تا ہے،وہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو کے بعض اعلیٰ پائے کے محققین و ناقدین اور ماہرین لسانیات و انشا پرداز حضرات کی طرح خشک اور لطافت و شیرینی سے عاری و خالی قسم کی شاعری کر کے اپنی آ برو کر کری نہیں کرائی۔بلکہ انھوں نے کم اور بہتر کہہ کر بھی بہ حیثیت شاعر اپنی پہچان قائم رکھی۔وہ ان لوگوں میں ہر گز شامل نہیں کئے جا سکتے جو محض موزوں طبع ہو نے کے باعث محض مصرع پیمائی کا فریضہ انجام دے کر خود کو بطور شاعر منوانے کا دبائو ڈالتے ہیں۔یہ ضروری نہیں کہ ایک اچھا نقاد،محقق،مورخ،اور ماہر لسانیات بہترین شاعر بھی ہو،ہمارے سامنے کچھ ایسے حضرات کی مثالیں بھی ہیں جو میرانِ شاعری میں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں کر سکے جو بطور نثر نگار انھیں حاصل ہوا۔مثلا ً سر سید احمد خاں(متخلص بہ آ ہی)،با با ئے اردو مولوی عبد الحق،محی الدین قادری زور،پروفیسر مسعود حسن خاں،گیان چند جین،(متخلص بہ غافل )پروفیسر شیام لال کالڑا(عابد پیشاوری)پروفیسر فیروز احمد(متخلص بہ گمنام )وغیرہ۔
ناقدین و محققین سے قطع نظر اب یہ فیشن چل پڑا ہے کہ اردو کے وہ مدرسین حضرات جو مختلف درجوں کی تعلیم سے وابستہ ہیں ،گھس پیٹھ کے ذریعہ اپنی مٹھی بھر غیرمعیاری غزلیں ادھر ادھر کے مشاعروں اور تقریبات میں سنا کر خود کو شاعر وقت ثابت کر نے کی ناکام کو شش کر تے ہیں۔کسی مدرس شا عر کو کسی مشاعرہ یا تقریب میں مدعو کرنا اس کی کامیابی کی دلیل نہیں ہو تی،یہ کام تو گھس پیٹھ اور اغراض کی وابستگی کے پیش نظر بھی ہو جاتا ہے۔یہ ایک نازک ترین پہلو ہے۔جس کے متعلق آنجہانی کمار پاشی نے بہت پہلے فر مایا تھا،
جب ادب اپنے ختم پر آ ئے ہر مدرس ادیب کہلا ئے
راقم کے مذکورہ کلمات کا مقصد یہ ہے کہ سلیم جعفر شاعرانہ اوصاف سے اس قدرمالامال تھے کہ انھیں تنقید،تحقیق،لسانیات، تاریخ،اور علم عروض و بلاغت کے ساتھ ساتھ شعر گو ئی پر بھی عبور حاصل تھا۔لیکن انھوں نے کبھی خود کو شا عر منوانے کے لئے ہنگامہ آ رائی نہیں کی۔آ پ خاموشی سے خد مات ادب میں بہ صد انکساری مصروف رہے۔سلیم جعفر نے جو شعری سر مایہ چھو ڑا ہے ،اسے یکجا کیا جا ئے تاکہ اہل علم ادب ان کی شاعرانہ حیثیت و عظمت سے بھی واقف ہو سکیں۔شاہد احمد جمالی نے تو اس کار خیر کے لئے پہلا قدم اٹھا لیا ہے اب ہماری ذمہ داری ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے لبیک کہیں۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!