جگر مرادآبادی کی شاعری میں محبت او رانسانیت

ڈاکٹر چمن آرا خان
ایسوسی ایٹ پروفیسر، این سی ای آرٹی ، نئی دہلی

جگر مرادآبادی بنیادی طور پر ایک رومانی شاعر تھے، انھوں نے جب شاعری شروع کی اس وقت کم و بیش سبھی شعراداغؔ کی تقلید کر رہے تھے۔ عزیزؔ ، جوشؔ اور ثاقبؔ کا سکہ چلتا تھا۔ جگر کی طبیعت میں حد درجہ سادگی تھی، انسان دوستی ان کی سرشست میں موجود تھی، محبت اور خلوص کا مجسمہ تھے۔ بامروت اور بے غرض انسان تھے۔ قلب کشادہ تھا۔ چھوٹوں کا لحاظ اور بڑوں کا ادب کرتے تھے۔ ذہن متوازن اور طبیعت حسّاس تھی، غرض ان کی شخصیت صاف اور کھری تھی۔ انھو ں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ یوپی کے مشاعروں میں گزارا۔ ان کی ابتدائی شاعری پر سب سے زیادہ داغ کا اثر تھا۔ شوخی ، معاملہ بندی، لفظوں کی تکرار، معشوق کا سراپا انھوں نے نہایت موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے دنیاوی حسن و عشق کے واقعات کو بیان کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ حقائق و معارف کو بھی کیف آور اور پُر معنی انداز میں بیان کردیا ہے۔ جس سے ان کے کلام میں تاثرپیدا ہوگیا ہے۔ پہلے دور کی شاعری میں کیف و سرمستی اور بے خودی کا عالم دکھائی دیتا ہے۔ وہ حسن و عشق کے پرستار تھے۔ ان کی کلام کی دلکشی اور والہانہ پن پڑھنے والے پر ایک وجد کی کیفیت طاری کردیتا ہے۔ زبان میں فارسیت کا رنگ شامل ہے۔ ان کے بیشتر اشعار عشقیہ ہیں۔ انھوں نے زندگی بھر حسن و عشق کے نغمے گائے۔ مگر ان کا حسن وعشق روایتی ہے۔
بقول آل احمد سرور:
’’جگر کے حسن و عشق میں روایت کا احترام موجود ہے‘‘۔ مگر یہ تصور محض نہیں ہے، ان کی زندگی ہے۔ یہ شوخ ہوتے ہوئے بازاری کی نہیں ہے۔ یہ اخلاقی قدرں کو سمیٹ لیتا ہے. یہ لطیف بھی ہے اور جاندار بھی۔ اس میں مفکرانہ سنجیدگی کم ہے، مگر جذبا ت کی گہرائی نے اسے وہ تیز نشتر عطا کیا ہے کہ اس کا اثر دیر تک زائل نہیں ہوتا۔
(جگر مرادآبادی ایک مطالعہ مع انتخاب مرتبہ مضامین ضامن علی خاں ص 24 )
جگر نے غزلیں زیادہ لکھیں کیونکہ ان کی افتاد طبع غزل کے لیے ہی مناسب تھی۔ 1920 سے لے کر 1938 تک کا زمانہ جگر کے شبراب و شباب کا زمانہ ہے انھوں نے یہ دور شعر گوئی اور شعر خوانی میں ہی بسر کیا۔ سبھی ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ کلاسیکی انتخاب الفاظ، روزمرہ زندگی کے سادہ تجربوں کا بے تکلف اظہار بھی ان کی شاعری میں نہیں پایاجاتاہے۔ ان کا انداز شعر خوانی بہت عمدہ تھا، وہ ترنم سے مشاعروں میں غزلیں پڑھتے تھے۔ ان کی پسندیدہ غزلیں، ان کی لہک اور والہانہ ترنم میں سب ہی ایک کیف میں ڈوبے نظر آتے ہیں، انھوں نے بیس برس تک بے حساب شراب نوشی کی۔ اس طرح ٹوٹ کر عشق بھی کیے۔ 1939 میں شراب ترک کردی۔ شعر کہنا ان کی زندگی کا مشغلہ بھی تھا اور پیشہ بھی۔ عشق ان کی زندگی کا سب سے اہم موضوع تھا۔ انھوں نے رات ، ساقی، مے خانہ آئینہ خانہ، جلوہ، شمع، قفس، آشیاں، بجلی، تبسم خرد دیوانگی، کانٹا، پھول خزاں، بہار، غم اور پیارے وغیرہ لفظوں کا استعمال خوب کیا ہے۔ کچھ اشعار دیکھیے:
عشق ہی کاش میرے عشق کا حاصل ہوجائے
یہی رہبر، یہی جادہ، یہی منزل ہوجائے
میرا جو حال ہو، سو ہو، برق نظر گرائے جا
میں یوں ہی نالہ کش ہوں، تو یوں ہی مسکرائے جا
یوں زندگی گزار رہا ہوں تیرے بغیر
جیسے کوئی گناہ کیے جا رہا ہوں میں
دنیا کے ستم یا د نہ اپنی ہی وفایاد
اب مجھ کو نہیں کچھ محبت کے سوا یاد
قدم ڈگمگائے نظر بہکی بہکی
جوانی کا عالم ہے، سرشاریاں ہیں
جان کر منجملہ خاصاں میں خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا

جگر نے اپنی شاعری میں متبذل اور سوقیانہ مضامین کبھی نہیں برتے۔ انھوں نے غزل کو ایک نیا رنگ، روپ، تازگی، دل کشی اور تابناکی عطا کی۔ اُسے محویت ، سرشاری اور پاکیزگی و پرکاری بخشی، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے احساسات کو بیان کرنے میں جھجھکتے نہیں ہیں۔ اپنے کلام کے بارے میں خود کہتے ہیں:
’’آپ میرے کلام میں بظاہر درد کا عنصر بہت کم پائیں گے۔ لیکن ذرا ٹھہر کر آپ گر جذبات اور شعر کا جائزہ لیں گے تو ایک بہت نازک سی موج درد ضرور محسوس کریں گے۔’’ا
(شعلہ طور ص 7)
جگر نے روایتی طور پر حسن کے گن نہیں گائے۔ عشقیہ تجربے کو بہت قریب سے دیکھا اور آزمایا۔ ان کا عشق مجازی ہی نہیں حقیقی بھی ہے۔ ان کے یہاں رومانی درد مندی ہے۔ انداز بیان میں شعریت زیادہ ہے۔ عشق میں سوز و گداز پنہاں ہے۔ ان کی بعض غزلیں خیالات کی رنگینی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ مگر ان کی رنگینی طبیعت پر گراں نہیں گزرتی۔ ان کے خیالات میں وحدت اور یکسانی ہے۔ انھیں اسی وجہ سے ’’رئیس المتغزلین اور شہنشاہِ غزل کہا گیا ہے۔ جگر کی شاعری میں کوئی الجھاؤ نہیں ہے۔ حسن و عشق کی واردات و کیفیات کا اظہار جگر نے بڑی عمدگی کے ساتھ کیا ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:
دل تھا تیرے خیال سے پہلے چمن چمن
اب بھی روش روش ہے مگر پائمال ہے
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق پھیے تو زمانہ ہے
دل گیا رونق حیات گئی

غم گیا ساری کائنات گئی
ہم کو مٹا سکےیہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہےزمانہ سے ہم نہیں
سبھی انداز حسن کے پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں
کس کا خیال کون سی منزل نظر میں ہے
صدیاں گزر گئیں کہ زمانہ سفر میں ہے
وہ ادائے دلبری ہوکہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ

جگر نے حسن و عشق کے موضوعات سے قطع نظر وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ بھی دیا۔ بعد کے ادوار میں ان کی شاعری کا انداز بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں سیاسی، سماجی مسائل اور مصائب کی گونج سا ئی دیتی ہے۔ بنگال کی تقسیم اور تقسیم ہند کی تباہیوں پر انھوں نے دل کھول کر اپنے خیالات کااظہار کیا ہے:
بنگال کی میں شام و سحر دیکھ رہا ہوں
ہر چند کہ ہوں دور مگر دیکھ رہا ہوں
اور اس کی ماری ہوئی مخلوق سرراہ
بے گورو کفن خاک بسر دیکھ رہا ہوں

فکِر جمیل خوابِ پریشاں ہیں آج کل
شاعر ہیں وہ جو غزل خواں ہیں آج کل
انسانیت کہ جس سے عبارت ہے زندگی
انسان کے سائے سے بھی گریزاں ہے آج کل
تقسیم ہند کے بعد ملک میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور بے گناہ اور معصوم عوام پر جو مصیبتیں ٹوٹیں، اس سے جگر بہت متاثر ہوئے او ران کے دل پر المیے کا گہرا اثر پڑا۔ ان اشعار میں اسی کیفیت کا اظہار کیا ہے:
ہندوستان میں خیر سے ان کی کمی نہیں
لب پر جو ہیں خلوص کا دفتر لیے ہوئے
چہرہ جنونِ حب وطن سے دھوئیں دھوئیں
سینے خباثتوں کا سمندر لیے ہوئے
کہتے ہیں بھائی بھائی ہیں اہل وطن تمام
پھرتے ہیں آستینوں میں خنجر لیے ہوئے
جگر نے خارجی واقعات کو اپنی غزلوں میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انھوں نے حسن و عشق کے ساتھ ساتھ زمانے میں جو سیاسی ، سماجی حالات و واقعات رونما ہورہے تھے ان کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ انھیں شعر کا جامہ بھی پہنایا۔ جگر ایک حسّاس طبیعت کے انسان تھے۔ انھوں نے نہ صرف حسن و عشق کی واردات و کیفیات کو بیان کردینے تک اپنے کو محدود نہیں رکھا بلکہ دنیاوی حالات سے بھی وہ باخبر رہے۔ انھوں نے آزادی کو ادھوری آزادی قرار دیا:
کام ادھورا اور آزادی
نام بڑے اور تھوڑے درشن
شمع ہے لیکن دھندلی دھندلی
سایہ ہے لیکن روشن روشن
تقسیم ہند کے بعد کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران جگر نے انسانی پستی او رہر طرف پھیلی ہوئی بربریت کے خلاف آواز بلند کی۔ ہجرت کرنے والے ہم وطنوں کی شکایت کی اور حکومت کے مظالم کا بیان کیا:
حکومت کے مظالم جب سے آنکھوں نے دیکھے ہیں
جگر ؔ ہم بمبئی کو کوچۂ قاتل سمجھتے ہیں
***
آنکھیں ابھی کچھ اور بھی منتظر جگرؔ
چھپرا کی قتل گاہ کا منظر لیے ہوئے
***
نازِ جس خاکِ وطن پر تھا تجھے آہ جگر
اسی جنت میں جہنم کا گمان ہوتا ہے
جگر کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مگر ان میں سیاسی شعوربلاکا تھا۔ انھوں نے روز مرہ آنے والے حقائق سے کبھی چشم پوشی نہیں کی اور یہ کہا:
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جگر ایک وطن دوست اور بیدار ضمیر رکھنے والےانسان تھے۔ انھوں نے کبھی بھی اپنے وطن کو چوںڑنا گوارا نہیں کیا۔ ان کی طبیعت میں انسان دوستی کے عناصر تھے۔ انھوں نے انسانیت، محبت اور خلوص کا پیغام دیا۔ چند اشعار دیکھیے:
بازیچۂ اربابِ سیاست سے گزر جا
اس کار گہہ مکر و ضلالت سے گزر جا
انسان بن انسان یہی ہے تیری معراج
رنگ ووطن قوم کی لعنت سے گزر جا
***
وطن ہی جب نہیں اپنا تو کہاں کا چمن
چمن اجاڑ رہا ہوں مگر برائے چمن
جگر نے آدمیت اورانسانیت کا پیغام اپنی شاعری میں دیا اور آزاد ی کے بعد اپنی شاعری میں اس کاگِلہ بھی کیا:
آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
***
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
***
کیا قیامت ہے اس دورِ ترقی میں جگر
آدمی سے آدمی کا حق ادا ہوتا نہیں
***
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے
جگر نے اپنی شاعری میں انسانی مستقبل کی بہتری کی امید بھی ظاہر کی ہے۔ کوئی کیفیت ان کی طبیعت میں قنوطیت کو بڑھاوا نہیں دیتی۔ جب ہندوستان میں جمہوری نظام قائم ہوا اور دستورنافذ کیا گیا تو جگر نے اس توقع کا اظہار کیا:
خدا کرے یہ دستور سازگار آئے
جو بے قرار ہیں اب تک انھیں قرار آئے
بہار آئے اور اس شان کی بہار آئے
کہ پھول ہی نہیں کانٹوں پر بھی نکھار آئے
نمائشی ہی نہ ہو، یہ نظام جمہوری
حقیقتاً بھی زمانے کو سازگار آئے
جگر کی شخصیت اور شاعری دونوں آپس میں ہم آہنگ ہیں۔ان کے مجموعے داغِ جگر، شعلۂ طور اور آتش گل ہیں۔داغِ جگرمیں انھوں نے رعایت لفظی کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا ہے۔ شعلۂ طور میں انداز بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس میں پہلے سے زیادہ متانت، زور اور پختگی ہے۔ تخیّل بھی پہلے سے بلند نظر آتا ہے۔ حقائق اور معارف کے مسائل بھی بڑی خوبی سے بیان کیے گئے ہیں۔ آتش گل میں انھوں نے سنجیدہ موضوعات کو لیا، گہرے مضامین بھی بیان کیے۔ جگر نے عوام میں مقبولیت اپنی زندگی ہی میں حاصل کرلی تھی۔ وہ عوام کے ہر دل عزیز اور محبوب ترین شاعر بن گئے۔مقبولیت اس حد تک رہی کہ مشاعرہ ہی ان کی واحد ذریعۂ آمدنی بن گیا۔ تھوڑی بہت کتابوں کی رائلٹی بھی مل جاتی تھی۔ اچھے کپڑے پہنتے تھے۔ اچھا کھانا کھاتے تھے۔ زندگی آسودہ حال گزاری۔ اصغر گونڈوی سے انھیں گہری عقیدت تھی۔ شاگردی اور استادی کے قائل نہیں تھے۔ انھوں نے کسی کو نہ شاگرد بنایا اور نہ مانا۔ دل جوئی بہت کی۔ انھوں نے فلم چورنگی میں داغ دہلوی کا پارٹ ادا کیا۔’آتش گل‘ پر انھیں ساہتیہ اکیڈمی انعام ملا تھا۔ یوپی حکومت نے دوسو روپے ماہوار کا وظیفہ مقرر کیا تھا، علاج معالجے کے لیے دورانِ علالت بھی کچھ رقم منظور کی گئی تھی۔ جگر دو سال تک بہت سخت بیمار رہے پھر اس دنیا سے چلے گئے۔ جگر کا سوگ ملک بھر میں منایا گیا۔ محبت کا پیامبر، انسانیت کا عاشق ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ مگراس کی شاعری اس کا پیغامِ محبت آج بھی زندہ ہے۔
٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.