اپنی بات
رواں سال کے آغاز سے ہی پوری دنیا کرونا وائرس کی تباہکاریوں سے پریشان ہے۔ اس بیماری نے امیر و غریب ممالک کے فرق کو مٹا دیا ہے۔امریکہ اور روس جیسی عالمی طاقتیں اس کے سامنے سرنگوں ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالی کوئی ایسی بیماری نہیں بھیجتا جس کی دوا نہ ہو۔ اس بیماری کی بھی کوئی نہ کوئی دوا ہوگی جو ابھی تک ہمارےسائنس دانوں کی دسترس میں نہیں آسکی ہے۔ ہم اللہ کی ذات سے خیر کی امید رکھتے ہیں۔ اور اس بیماری کے خاتمے کے لیے دعا گو ہیں۔
اس بیماری سے یوں تو زندگی کے سبھی شعبے متاثر ہوئے مگر سب سے زیادہ متاثر شعبہ تعلیم و تعلم کا ہے۔ اسکول کالج اور یونی ورسٹیاں بند ہیں۔ حکومت نے بغیر امتحان لیے طلبا کو ترقی دے دی ہے۔ دسویں اور بارہویں کے جو پیپر نہیں ہوسکے ان کا امتحان نہ لینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ طلبا اور اساتذہ کی صحت کو خیال میں رکھتے ہوئے کئے گئے اس فیصلے کو سب نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔
تعلیمی اداروں کے بند ہونے کی وجہ سے زیادہ تر اداروں نے آن لائن کلاسز کا سہارا لیا ہے۔ بہت سارے مفت آن لائن ایپس نے اساتذہ اور طلبا کی راہوں کو آسان بنا دیا۔ سیمینار کی جگہ اب ویبینار ہونے لگے۔ چونکہ صحت کا خیال رکھتے ہوئے تعلیم و تعلم کا عمل اور علمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا بھی ضروری تھا اس وجہ سے یہسب ایک حد تک ضروری بھی ہیں۔ لیکن اس لاک ڈاؤن میں آن لائن درسی مواد کی تیاری کے نام پر جس قسم کا مواد یوٹیوب پر ویڈیو کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے اس کی کوالٹی پر کم ہی توجہ دی جارہی ہے۔ مواد کی صحت کا مسئلہ بہت بعد میں آئے گا، تلفظ کی بے شمار غلطیاں ان ویڈیوز کی افادیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ ان تعلیمی ویڈیوز کو دیکھ کر طلبا غلط تلفظ کو ہی صحیح مان لیں۔ پریشانی یہ ہے کہ آج کل یوٹیوب پر ایسی ویڈیوز کا سیلاب آگیا ہے۔اس کے تدارک کے لیے اساتذہ کو آگے آکر اپنے اپنے موضوع پر ویڈیو لکچر تیار کرنے ہوں گے۔ حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی کےمطابق زیاد ہ سے زیادہ آن لائن درسی مواد کو پیش کرنا ہے۔ حکومت نے پچھلے کئی سالوں سے اس سلسلے میں کوشش کی ہے۔ ای پاٹھ شالہ، ای بستہ، پی جی پاٹھ شالہ اور سویم جیسے آن لائن پورٹل بنائے گئے ہیںجن پر آن لائن درسی مواد موجود ہے۔ بدقسمتی سے “سویم” کو چھوڑ کر باقی پورٹل پر موجود اردو کے درسی مواد کا معیارنہایت پست ہے۔ یہ لاک ڈاؤن ہمارے لیے خود احتسابی کا موقع بھی فراہم کرتاہے کہ ہم دیکھیں کہ آن لائن درسی مواد ہمارے طلبا کے لیے کس حد تک اردو میں دستیاب ہے۔ کمیاں کہاں ہیں؟ دوسرے موضوعات پرآن لائن مواد کس حد تک موجود ہیں، ان کا بھی جائزہ لیں۔ کوشش کریں کہ اردو میں پیش کیا جانے والا مواد پیشکش اور معیار کے اعتبار سے دوسری زبانوں سے کسی لحاظ سے کمتر نہ ہو۔
آن لائن درسی مواد ہی کی طرح آج کل ویمینار کی بھی بھرمار ہوگئی ہے۔ ان کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا یہ سمیناروں کی جگہ لے سکتے ہیں؟ ایک دو گھنٹے کی میٹنگ کی حد تک آن لائن میڈیم درست ہے لیکن کئی کئی گھنٹوں تک چلنے والے ویبیناروں کےسامعین اور مقالہ نگاروں دونوں کی حالت قابل رحم ہوجاتی ہے۔اگر ویبینار کی جگہ کسی موضوع کے ماہر کا خصوصی لکچر کرایا جائے جو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کا ہو تو میری رائے میں زیادہ بہتر ہوگا۔ ویسے اس لاک ڈاؤن میں نئے نئے تجربے کئے جارہے ہیں یہ ویبینار بھی اسی تجربے کا حصہ ہیں۔
اردو ریسرچ جرنل نے 6 سال کا سفر مکمل کرلیا۔ ملک اور بیرون ملک قلم کاروں اور قارئین کی محبتوں نے ہمارے حوصلے کو بلند رکھا ہے۔ ہم اس جرنل کے ذریعہ آن لائن مواد کی فراہمی کا کام کررہے ہیں۔ اسی وجہ سےپہلے شمارے سے ہی اس جرنل کو یونی کوڈ اور پی ڈی ایف دونوں شکل میں نکالا جارہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس جرنل میں اردو کے اہم قلم کاروں کے مضامین شامل ہیں جو یقینا آپ کو پسند آئیں گے۔ ہمیں آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
شکریہ
ڈاکٹر عزیر اسرائیل
(مدیر)
Leave a Reply
Be the First to Comment!