اخترالایمان اور ان کی نظمیہ شاعری
عمران احمد
لکچرر ڈائٹ شراوستی، یو پی
موبائل نمبر9652559916
میل۔imranhcu13@gmail.com
اخترالایمان بیسویں صدی کی جدید اردو شاعری کا ایک معتبر نام ہے ۔ان کی پیدائش 13 نومبر1915کو بمقام سہنی قلع پتھر گڑھ نجیب آباد ضلع بجنور میں ہوئی۔انھوں نے ابتدائی تعلیم آبائی وطن میں حاصل کی۔ حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ اردو ،فارسی اور عربی کی تعلیم بھی حاصل کی۔1937 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1944 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔اسی دوران انھیں رسالہ ــ’’ ایشیاء‘‘میں ملازمت مل گئی۔اس کے بعد وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔کچھ عرصہ ملازمت کرنے کے بعد انھوں نے ممبئی کو اپنا مسکن بنایا۔اخترالایمان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ گرداب‘‘ جس کی اشاعت 1943 میں ہوئی۔اس کے علاوہ ان کے دوسرے شعری مجموعوں میں ’’سب رنگ‘‘ ، ’’تاریک سیارہ‘‘ ، ’’آب جو ‘‘ ، ’’یادیں ‘‘ ، ’’بنت لمحات‘‘، ’’نیا آہنگ‘‘ ، ’’سروساماں‘‘،’’ زمین زمین‘‘ اور ’’زمستاں سرد مہری کا‘‘اہم ہیں۔اخترالایمان کو ان کے ادبی کارناموں کے اعتراف میں بہت سے انعامات و اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔شعری مجموعہ ’’ یادیں‘‘ پر انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ’’ بنت لمحات‘‘ پر اتر پردیش اردو اکادمی اور میرؔ اکادمی نے انعامات سے نوازا ہے۔’’ نیا آہنگ ‘‘ پر مہاراشٹراردو اکادمی نے انعامات سے نواز کر ان کی عزت افزائی کی۔ان کے ایک اور شعری مجموعہ’’ سروساماں‘‘ پر اقبال سمّان اور دہلی اردو اکادمی کی جانب سے انعامات دیے گئے۔جدید اردو شاعری کا یہ روشن چراغ 9 مارچ 1996 میں داعی اجل کو لبیک کہا۔اور باندرہ(ممبئی) کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا ہے۔
جدید شاعری کے معمار وںمیں اخترالایمان ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ان کی شاعری کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ وہ بیک وقت اقدار و روایات،مشاہدات و تجربات اور مختلف النوع مسائل و موضوعات کے شاعر ہیں۔انھوں نے قدیم روایت کی پاسداری بھی کی ہے اور نئے تجربے بھی کیے ہیں۔جن دنوں اختر الایمان نے اپنی شاعری کی ابتداء کی اس وقت ترقی پسند اور جدیدیت کے علمبرداروں کی ایک جماعت موجود تھی جو اپنے اپنے رنگ میں شاعری کر رہے تھے ۔ مگر اختر الایمان نے ان کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی ایک الگ راہ ہموار کی۔
’’گرداب‘‘ اخترالایمان کے نظموں کا پہلا مجموعہ ہے۔جس میں انھوں نے اپنی قلبی پریشانیوںکی داستان اور زندگی کے تلخ حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔غم اور کرب کی کیفیت ان کی چند نظموں میں نہیں بلکہ ’’ گرداب‘‘ کے ہر نظم میں دیکھنے کو ملتی ہے۔اکثر ابتدائی دور کے شعراء کے کلام میں پہلے محبت کی عکاسی ملتی ہے پھر بعد میںزندگی کے کرب اور تلخ حقائق کا احوال پیش کیا جاتا ہے۔ مگراختر الایمان کے یہاں اس کے بر عکس پایا جاتا ہے۔اردو نظم گو شاعر کے یہاں روح کا کرب اس شدت کے ساتھ اُبھر نہ سکا جس شدت کے ساتھ اختر الایمان کے اس مجموعہ کلام میں دیکھنے کو ملتا ہے۔اختر الایمان کا بچپن افلاس، تنگ دستی، مایوسی و محرومی کے سایے میں گزری ہے۔وہ کبھی اس طرح کے ناگفتہ حالات سے نجات نہ پاسکے۔یہ درد و غم ان کی زندگی کا حصہ بن گئے جس کا عکس ہمیں ان کے کلام میں بجا طور پر نظر آتا ہے۔
کارواں لوٹ گیا مل نہ سکی منزل شوق
اک اُمید تھی سو خاک بسر بیٹھ گئی
دل پہ انبار ہے خوں گشتہ تمنائوں کا
آج ٹوٹے ہوئے تاروں کا خیال آیا ہے
اخترالایمان ’’ نیا آہنگ‘‘ کے دیپاچے میں اس تعلق سے وضاحت کرتے ہوئے خود ہی لکھا ہے کہ:
’’میں آج شاعر کو ٹوٹا ہوا آدمی سمجھتا ہوں اور میری شاعری اسی ٹوٹے ہوئے آدمی کی شاعری ہے۔۔۔میری شاعری کیا ہے اگر ایک جملے میں کہنا چاہوں تو میں اسے انسان کی روح کا کرب کہوںگایہ کرب مختلف اوقات میں، مختلف محرقات کے تحت الگ الگ لفظوں میں ظاہر ہوتا ہے‘‘(نیا آہنگ ص 4,5 )
اختر الایمان کی شاعری اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ان کے یہاںمحرومیت شدت سے ابھر تی نظر آتی ہے۔ ’’گرداب ‘‘کی نظموں میں انھوںنے اپنی الجھنوںکو بڑی نفاست سے بیان کیا ہے۔ بالخصوص نظم ’’پگڈنڈی‘‘ میں یہ کیفیت پوری طرح ابھر کر سامنے آتی ہے۔’’تاریک سیارہ‘‘سے قبل کی نظموں میں افسردگی نظر آتی ہے۔’’تاریک سیارہ‘‘ کا پس میں منظر دوسری جنگ عظیم کے آخری دورکی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔اس نظم میں دو کردار ہیں جو مکالمہ کے انداز میں لکھی گئی ہیں۔
آسماں خود ہی نگوں سر ہے اسے کیا دیکھوں
رات کے پاس کیا ہے مرگ تبسم کے سوا
جس کے ذروں میں ہے اب تک میرے ماضی کا لہو
میں نے باندھا ہے اسی خاک سے پیمان وفا
شعری مجموعہ ’’ تاریک سیارہ ‘‘میں اختر الایمان کے جذبے کی شدت اور احساس کی قوت نظر نہیں آتی ہے۔وہ بہت حد تک مایوس ہو چکے ہیں مگر ان کے دل کے گوشے میں امید کی کرن باقی ہے۔جہاں ایک طرف ان کی شاعری میں کرب کا احساس ہوتا ہے تو دوسری جانب ان کے یہاں رومانی رنگ بھی نمایاں ہے۔اس دور میں ان کی شاعری میں رومانیت کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے مسائل کی مختلف پر چھائیاں بھی نظر آتی ہیں۔گویا یہ دور ان کے لیے کشمکش کا دور تھا۔ انھوں نے اپنے جذبات و احساسات اور اپنی داخلی وجدان کی توسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔اب ان کی رسائی نازک اور لطیف شے پربھی ہونے لگی۔ اب ان کی شخصیت کا دائری وسیع ہوا،اور ان کے کلام میں ایک نئی فضا کا احساس ہوتا ہے۔ان کے کلام میں بھی دوسرے شاعروں کی طرح رومانی انداز پایا جاتا ہے۔
’’ ایک لڑکا‘‘ اخترالایمان کی بہت ہی مشہور نظم ہے جو نسبتاََ طویل ہے۔ اس نظم کو بجا طور پر ان کا ایک اہم کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔اس نظم میں ان کا ادبی فن بھر پور طریقے سے ابھر کر سامنا آیا ہے۔ اس نظم کا موضوع ضمیر ہے اور اس کو ایک علامت کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اخترا لایمان نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میری نظموں میں علامتوں کا استعمال بکسرت ہوتا ہے اور اگر میری نظم کو غور سے نہ پڑھا جائے تو اس کے معنی واضح نہیں ہونگے۔اس سلسلے میں ان کی نظم ’’قلو پطرہ‘‘ بہترین مثال ہے جس میں انھوں نے علامتوں کو ایک الگ طریقہ سے استعمال کیا ۔ان کی نظم ’’ ایک لڑکا ‘‘میں بچے کی معصومیت ،جوانی کی بغاوت اور مفکر کی پختہ کاری کا بڑا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے۔
ہوا میں تیرتا خوابوں میں بادل کی طرح اڑتا
پرندوں کی طرح شاخوں میںچھپ کر جھولتا مڑتا
اسے ہمراہ پاتا ہوں ،یہ سایے کی طرح میرا
تعاقب کر رہا ہے جیسے میں مفرورملزم ہوں
اخترالایمان کی دوسری رومانی نظموں میں’’ آخری ملاقات‘‘ ، ’’ شکست خواب‘‘ اور ’’آخری شب‘‘اردو کی بہترین نظموں میں شمار کی جاتی ہیں۔اخترالایمان کی نظموں کی خصوصیات کے تعلق سے سجاد ظہیر لکھتے ہیں کہ:
’’ تمہاری شاعری کی ایک انفرادی خصوصیات یہ ہے کہ وہ فوراََ ایک بار سننے اور پڑھنے سے اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اس کا اثر آہستہ آہستہ ذہن اور نفس پر سرایت کرتا ہے۔جوں جوں مدت گزرتی جاتی ہے لذت بڑھتی جاتی ہے۔نئے نئے گوشے اور پہلو سامنے آتے جاتے ہیں اور پھر ایک دائمی کیفیت اختیار کر لیتے ہیں۔باسی پن کا نہیں،نئی نفسیات اور ذہنی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔‘‘(اردو دنیا نومبر 2015 ء ص 14 )
اخترالایمان کی شاعری کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے یہاں شاعرانہ خلوص پایا جاتا ہے۔وہ اپنے جذبات اور تجربات کی بنیاد پر اپنی شاعری کی عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی ایک شاہکار نظم ’’ مسجد‘‘ ہے۔ اس نظم میں انہوںنے مسجد کے حسن کی تصویر کشی کی ہے۔ ان کی اس نظم میں منظر کشی،جذبات نگاری کا بہترین عکس نظر آتا ہے۔ان کی ایک اور اہم نظم ’’ عہد وفا ‘‘ ہے جس کو انھوں نے نثر و نظم میں پہلی بار شعوری طور پر لکھنے کی کوشش کی ہے۔
اختر الایمان ان چند اہم شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں جن کی نظموں میںپہلے مصرعے کو عنوان بنا کر بقیہ اشعار اس کی تشریح کرنے کے لئے ہوتی ہے۔یعنی ایک مرکزی تصور کے تحت مختلف زایوں کی تصویروں کو یکجا کر کے اس کو ایک معنوی وحدت بخش دیتے ہیں۔اس کی مثال ان کی نظم ’’ یادیں ‘‘ کو پیش کی جا سکتی ہیں۔اختر الایمان نے اپنے عہد میں تصور حسن عشق کی تبدیلی کو سب سے زیادہ خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔چنانچہ ان کا شعر ہے۔
میرے شانوں پہ ترا سر تھا نگاہیں نمناک
اب تو اک یاد سی باقی ہے سو وہ بھی کیا
جیون کی اس دوڑ میں ناداں یاد اگر کچھ رہتا ہے
دو آنسوں اک دبی ہنسی دو روحوں کی پہل پہچان
اخترالایمان کی شاعری کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے نسل کے لوگوں کے خصوصاََ نوجوانوں کے جذبات و احساسات کی عمدہ ترجمانی کی ہے۔عموماََ ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس کوئی خواب نہیں لیکن اگر ان کے کلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پوری شاعری اپنے خوابوں کی شکست و ریخت کا احوال بیان کرتا ہے۔معروف ناقد آل احمد سرور ان کی شعری خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’اختر الایمان نے خود بھی زندگی سے آنکھیں چارکی ہیںاور اپنے پڑھنے والوں کو بھی یہ حوصلہ دیا ہے ۔ان کے ہاں یہ احساس نہیں ہوتا کہ اپنے آپ کو دہرا رہے ہیں۔وہ اور شعراء کی طرح صرف اپنی ذات سے محبت میںگرفتار نہیں۔زندگی کے ہر رنگ سے محبت کرتے ہیں اور سب دل اور نظر والوں کے شاعر ہیں۔‘‘ (اردو دنیا نومبر 2015 ء ص 14 )
اختر الایمان اپنے دور کے دوسرے شاعروں کی طرح رومانی انداز میں نظر آتے ہیں۔ان کے اسلوب اورانداز میں سادگی پائی جاتی ہے۔ ان کا انداز بیان ، ان کا لہجہ ان کے لفظوں کا انتخاب بالکل منفرد ہے۔ہئیت اورساخت کے اعتبار انھوں نے قدیم طرز سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار نہیں کی ہے ۔البتہ قافیہ اور ہم قافیہ کا استعمال اور مصرعوں کی ترتیب میں کہیں کہیں الگ طریقہ اپنایاہے۔ دو حیثیتوں سے ان کی نظم کو خاص توجہ حاصل ہے۔ایک یہ کہ انھوں نے نظم کو نئی نئی ترتیب اور زیادہ مربوط آہنگ سے آشنا کیا۔دوسرا یہ کہ انھوں نے مصرعے کے تصور کو بدل دیا۔
مجموعی طور پر اخترالایمان کی نظمیں رمزیت، ایمائیت، ابہام، اشارہ ، کنایہ، مجاز مرسل، استعارہ علامت اور پیکر تراشی کی عکاسی کرتی ہیں۔ان کے کلام میں اسلوب کا انوکھا پن ،احساس کی ندرت شگفتگی اورفکر انگیزی کی وجہ سے انھیں اپنے عہد کے اہم شعراء میں شمار کیا جاتا ہے ۔یقیناََ ان کی تخلیقات عہد جدید کے ادبی سرمایے میں ایک اہم اضافہ ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!