اشفاق محمدخاں کی خودنوشت ’’اپنی بیتی‘‘ کا تنقیدی جائزہ
شاہدحبیب
ریسرچ اسکالر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی۔ حیدرآباد
Mobile: 8539054888, Email: shahidhabib10@gmail.com
خودشناسی اورخودنمائی انسانی فطرت بھی ہے اوراس کا جوہربھی۔ یہی وہ قوت ہے جس کی وجہ سے انسان کارہائے نمایاں انجام دیتا ہے اوراسی سے ترقی کی منزلیں طے کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ اسی قوت کے سبب ہی اس نے ساڑھے چارلاکھ ارب سال قبل کے برف پوش کرہ ارض کونہ صرف بودوباش کے قابل بنالیا بلکہ اس میںنت نئے تجربات کے ذریعہ سہولت اورآسانی کے بے شمار ذرائع بھی پیدا کرلیے۔ کائنات کے دیگر ستارے اورسیارے بھی اب اس سے دور نہیں رہے۔ چنانچہ اپنی کامیابیوں وکامرانیوں کی داستان جب کوئی باکمال شخصیت بیان کرتی ہے توزمانہ اسے بڑے غور سے سن رہا ہوتا ہے اوراس سے سننے والے کے دل میں بھی کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ خودنوشتوں کا نمایاں وصف یہی ہے کہ اس کے مطالعے سے صرف دوسروں کی زندگی کے نشیب وفراز کا ہی پتا نہیںچلتا بلکہ ہمارے لیے وہ سبق آموز اوررہنما کے طورپربھی کام آتی ہے۔
خودنوشت چونکہ انسان کی اپنی انا کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے، اس لیے ایسے تخلیقی فن پارے کوخودنوشت کا نام دیا گیا ہے جس میں تخلیق کار نے خوداپنی زندگی کوموضوع سخن بنایا ہے۔ اس میں تاریخی صداقت، جمالیاتی کیفیت کے عناصر اورنفسیات کی تثلیث کے سہارے فنکار اپنی زندگی کوفن پارے میںتبدیل کردیتا ہے۔ خودنوشت کی بنیادی ضرورت وہ سچائی ہے جس کا محورومرکز خوداس کی اپنی ذات ہے۔ ان اجزائے ترکیبی کے بغیرخودنوشت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
خودنوشت کی روایت کے اولین نقوش ہمیں سنٹ آگسٹائن کی تصنیف”Confessions”(۳۵۴ء) میں نظرآتی ہے۔ اس کے بعد لاطینی زبانوں کے ساتھ ساتھ دیگریوروپی زبانوں میں کسی نہ کسی شکل میںیہ روایت مستحکم ہوتی رہی لیکن جب سترہویں صدی میں سیمویل پیپس(Semuel Pepus)نامی ایک معمولی برطانوی رکن پارلیمان نے اپنی دلچسپ خودنوشت لکھ کر مقبولیت حاصل کرلی توہرکس وناکس نے یوروپ میں اپنی اپنی آپ بیتیاں لکھنا شروع کردیں۔ نتیجتاً آج یوروپ مختلف النوع آپ بیتیوں کے معاملے میںبھی مالامال ہے اوررشک وحسد کا باعث بنا ہوا ہے۔ ہماری زبان کے سرمائے پر نظر ڈالنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک اس روایت کے مزید مستحکم ہونے کے کافی امکانات موجود ہیں۔ حالانکہ آج کے سوشل نیٹ ورکنگ کے عہدمیں جب کہ ہرشخص اپنی کارگزاریوں کودوستوں کے ساتھ شیئرکرنے کواپنا خوشگوار فریضہ سمجھتا ہے، ایسے میں اگراسی فکرکوباضابطگی کارنگ دے دیا جائے توراقم کے خیال میںاسے ایک اہم ادبی کارنامہ کہا جائے گا جس کے توسط سے ہمارا ادب بھی خود نوشت کے حوالے سے مالامال ہوسکتا ہے۔
خودنوشت ایک اہم اورمشکل صنف ادب ہے مگریہ بھی حقیقت ہے کہ یہ انسانی زندگی کی ترجمانی کا ایک اثرانگیز وسیلہ ہے۔ اس میںانسانی زندگی کی تہ داریاں اورمختلف النوع تجربات کا آنا فطری ہے۔ اسی خوبی نے خود نوشت کودیگراصناف سخن سے ممتازوممیز کردیا ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے کسی بھی زبان کے الفاظ کے سرمائے میںقابل قدراضافہ توہوتا ہی ہے نیزاسالیب کی بوقلمونی اوررنگارنگی کے سبب قدرے مختلف اسلوب نگارش بھی فروغ پاتا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ہمارے ادب میں دانشوری کی روایت کواسی صنف سخن نے استحکام بخشا ہے۔ مذہبی، سیاسی اور سماجی تجربات نے ادب کے دائرے کوبے پناہ وسعت اورفراخی عطا کی ہے۔ خودنوشت پرزوراس لیے بھی دے رہا ہوں کہ ہرفرد کوملک وملت کے مقدر کا ستارہ کہاگیا ہے تواگرکوئی شخص اس میدان میںسرگرم عمل ہے تواس کے پاس تجربات وحوادث کا ایک سیل رواں موجود ہونا ایک فطری امر ہے۔ چونکہ آزادیٔ فکروعمل کے اس عہدمیںانسان کی تہ داریت اورپہلوداری میںکئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، جیسا کہ ندافاضلی نے کہا کہ:
ہرآدمی میںہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کوبھی دیکھنا ہو، کئی بار دیکھنا
ایسے میںسماج کا ہرباشعور فرد اگراپنے اپنے نکتہ نظر کے مطابق کسی مسئلے کی تفہیم وتشریح کی ذمہ داری قبول کرے توامید ہے کہ زبان وادب کونئی نئی جہتیں عطاہوںگی اورفکر کے نئے دریچے بھی واہوںگے۔ جوبالآخر انسانیت کے وسیع ترمفاد کا ایک عمل ہوگا۔
راقم نے جب اشفاق محمدخاں کی خودنوشت ’’اپنی بیتی‘‘ کا مطالعہ کیا تواس میں کئی بیش قیمت چیزیں نظر آئیں۔ اس خودنوشت کا جب ہم تنقیدی نظر سے جائزہ لیتے ہیں توپاتے ہیں ایک معولی پولیس انسپکٹر کے گھرمیںپیدا ہونے والے ایک اوسط طالب علم نے کیسے ملک کی مؤقردانشگاہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی میںتدریس کے عہدے تک کے سفر کوطے کیا۔ اس کا بغیرکسی مبالغہ کے اس میں بیان ملتا ہے اورہراوسط طالب علم کوایک حوصلہ دیتا ہے۔
اشفاق محمدخاں ولدعلی محمدخاں ضلع فرخ آباد کے قصبے قائم گنج میں ۱۹۲۵ء کے آس پاس پیدا ہوئے۔ گائوںکے مکتب میںہی ابتدائی تعلیم حاصل کی اورپاس کے اسکول سے آٹھویں تک کی تعلیم حاصل کرہی رہے تھے کہ با با جان علی محمدخاں جو ۱۹۳۲ء میں سب انسپکٹر کے عہدے تک پہنچ کر ۴۰؍روپے وظیفہ لے کر سبکدوش ہوچکے تھے۔ ۱۹۳۶ء میں اللہ کے پیارے ہوگئے۔ چھ افراد پرمشتمل خاندان کے لیے یہی چالیس روپے سہارا تھے۔ لیکن اچانک اکلوتے باروزگار فرد کی وفات نے سارا سہارا چھین لیا۔ ماں نے اپنے جگرکے ٹکڑوں کوکام پرلگادیا اوراخراجات میںکمی کی ترکیبیں بھی ڈھونڈھنے لگیں۔ اشفاق محمدخاں ۱۹۴۰ء میںگھرگھراخبار پہنچانے لگے اورایک سال کے بعد ۱۹۴۱ء میں محلے کے مکتب میںبچوں کوپڑھانے لگے، ۱۹۴۳ء میں گائوں کے ایک خیرخواہ کے توسط سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر ڈاکٹرذاکرحسین صاحب کی خاص سرپرستی میں جامعہ کے مدرسہ ثانوی میںبطور کلرک تقرری حاصل کرنے میںکامیاب ہوئے۔ ۱۹۴۳ء سے ۱۹۵۶ء تک کازمانہ جامعہ کے مختلف شعبوں میں گزارا ساتھ ہی ہائی اسکول، انٹر اوربی اے کے امتحانات پرائیوٹ امیدوار کے طور پہ دیتے رہے۔ پھرایک ناخوشگوار واقعہ کے نتیجے میں جامعہ کوخیرآبادکہہ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میںآئے، ڈاکٹرعبدالعلیم صاحب کی سربراہی میں یونیورسٹی پبلیکیشن سے وابستہ ہوکر پانچ سال خدمات انجام دیں۔ ۱۹۶۵ء میں شعبۂ اردو اے ایم یو سے ایم اے فرسٹ ڈیویژن پاس کیا اورپروفیسر خورشید الاسلام کی نگرانی میں پی ایچ ڈی میںداخلہ لیا۔ موضوع تھا ’’نذیراحمد کے ناول کا تنقیدی مطالعہ‘‘ ۱۹۷۸ء میں ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے شعبۂ اردو جے این یو سے وابستہ ہوئے اورایسوسئیٹ پروفیسر کی حیثیت سے دسمبر ۱۹۹۵ء میںسبکدوش ہوئے۔ اس کے بعد لکھنؤ میںمستقل سکونت اختیارکرلی۔ ان کی یہ خودنوشت ۲۰۰۹میں مکتبہ جامعہ سے پہلی بار منظرعام پرآئی۔ اس درمیان سات کتابیں بھی ان کی شائع ہوئیں جن میں’’عوامی ذرائع ترسیل‘‘ اورپی ایچ ڈی کے مقالے’’ نذیراحمد کے ناول کا تنقیدی مطالعہ‘‘ کوغیرمعمولی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ دونوں کتابیں ملک کی اہم یونیورسٹیوں کے نصاب میںشامل ہیں۔
خودنوشت اپنی حیات کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کا آئینہ بھی ہوتی ہے ۔ اس حیثیت سے جب ہم دیکھتے ہیں تواشفاق محمدخاں کی اس خود نوشت’’ اپنی بیتی‘‘سے غلام ہندوستان کے حالات پربھی روشنی پڑتی ہے۔ اگرکسی کوانگریزوں کے عہدمیںریکروٹمنٹ کے طریقۂ کار کوجاننے کی خواہش ہوتواس کتاب میںاس ضمن کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے، جس سے اس کے طریقۂ کار کوجانا جاسکتا ہے۔ اپنے بابا جان علی محمدخاں کے پولیس میںجانے کے واقعہ کوبیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ابا جان ابھی ۱۶ہی برس کے تھے لیکن چونکہ وہ کھاتے پیتے ایک چھوٹے زمیندار گھرانے کے فرد تھے اس لیے ڈیل ڈول کے اعتبار سے ۲۵کے دکھتے تھے۔ ایک دن ایک انگریز پولیس افسر نے ان کودیکھ کرپولیس کی نوکری کی پیشکش کرڈالی۔ باباجان نے کہا کہ جب تک میںاپنے والدین سے پوچھ نہ لوں اس وقت تک ہاں نہیںکہہ سکتا۔ جب والدین سے انہوں نے پوچھا توجواب ملا کہ:
تم ضرور نوکری قبول کرلو مگرہماری ایک شرط ہے کہ تم کبھی بھی کسی سے رشوت یا کمیشن نہیں لوگے اورنہ ہی کسی کا دل دکھائوگے اورہمیشہ نماز کے پابند رہوگے۔ (ص:۱۶)
علی محمدخاں نے ان شرائط کوبخوشی قبول کیا اوراس پر کاربند رہنے کے عہد کے ساتھ پولیس میںنوکری کے لیے انگریز افسر کوہاں کہہ دی۔ ٹریننگ کے بعد بہت جلد قیصر باغ کوتوالی کے سب انسپکٹر بنادیے گئے لیکن ہمیشہ اپنے عہد پرکاربند رہے۔ جب ان کواحساس ہوا کہ رشوت یا کمیشن کے بغیربہت دنوں تک پولیس کی نوکری نہیں کی جاسکتی توانہوں نے نوکری کوخیرآباد کہا اور ۱۹۳۲میںوظیفہ لے کراپنے وطن قائم گنج واپس ہوگئے۔ اس واقعے میںجہاں پولیس کے ریکروٹمنٹ کے نظام پر روشنی پڑتی ہے وہیں اس زمانے میںچل رہی رشوت اورکمیشن کے بول بالے کا پتہ چلتا ہے اس کے ساتھ ہی اس کا بھی علم ہوتا ہے کہ انھیں کراہیت وخدشے کی وجہ سے مسلمان اپنے بچوں کوپولیس کی نوکری سے دوررکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے جیسا کہ آج بھی ہوتا ہے۔
اسی طرح اس کتاب سے اس عہد کے سماجی حالات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اشفاق محمدخاں نے اپنے والدعلی محمدخاں کی پہلی شادی کا ذکر کیا ہے کہ ان کی دادی نے پیسے کی لالچ میںایک بے میل کی لڑکی سے اپنے بیٹے کی شادی بغیردیکھے کردی تھی۔ اس کے باوجود بیٹے نے ماں کے جذبات کا خیال رکھا اوربارہ سال تک ساتھ رہے لیکن جب نباہ ممکن نہ ہوا توان کوساری ضروریات سے آراستہ گھردے کر خودکنارہ کشی اختیارکرلی اور دوسری شادی کی۔ لیکن دوسری بیوی چندسالوں میں ہی کینسر کے عارضے میں مبتلا ہوکر اللہ کوپیاری ہوگئیں توتیسری شادی قائم گنج میںاشفاق محمدخاں کی والدہ سے ہوئی۔
اشفاق محمدخاں نے لکھا ہے کہ والدمحترم علی محمدخاں کے ڈاکٹرذاکرحسین سے بہت گہرے مراسم تھے۔ اسی وجہ سے والدصاحب کے انتقال کے بعد جب خاندان کی معاشی حالات کا ذاکرصاحب کوعلم ہوا توانہوں نے اشفاق محمدخاں کو جامعہ بلاکر مدرسہ ثانوی کے کلرک کی حیثیت سے تقرری کردی۔ اشفاق محمدخاںدوراندیش کلرک ثابت ہوئے اس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے کلرکی کے ساتھ ہی جامعہ سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے تک کے امتحانات بھی پاس کرلیے۔ جامعہ کا یہ ابتدائی زمانہ تھا، قرول باغ سے جامعہ اسی دوران جامعہ نگرمنتقل ہوا تھا۔ اس عہد کے جامعہ کوسمجھنے کے لیے اشفاق محمدخاں کی یہ کتاب ’’اپنی بیتی ‘‘انتہائی کارآمدثابت ہوگی۔ یہاں پردوواقعات کا ذکرکرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
(۱) علی گڑھ کے برخلاف جامعہ میںشروع سے مخلوط تعلیمی کانظام (Co-Education) رائج تھا۔ اس کی وجہ سے جامعہ کے طلبہ وطالبات میںایک طرح کا کھلا ذہن پنپ رہا تھا۔ اس کے باوجود موسیقی وغیرہ کے پروگرام جامعہ میں شجرممنوعہ کی مانند تھے۔ ۱۹۴۵میںشانتی نکیتن سے ایک خاتون آئیں جومشہور ومعروف موسیقار تھیں۔ انہوں نے جامعہ کی تاریخ میںپہلی بار اپنے فن کا مظاہرہ کیا اوردرخواست گزارہوئیں کہ یہاں کے فنکار سے بھی ہمیں لطف اندوز ہونے کا موقع دیا جائے۔ اس کے جواب میںذاکرصاحب معذرت توکرنہیں سکتے تھے۔ فوراً اشفاق محمدخاں کوجن کی آوازِسریلی کا علم ان کوپہلے سے تھا، ان کوتیارکرکے اسٹیج پر لاکھڑا کیا۔ اشفاق محمدخاں نے اپنی سی کوشش توضرورکی لیکن اس کے بعدجامعہ کے لیے موسیقی شجرممنوعہ نہ رہی۔ ہزارمخالفتوں کے باوجود ذاکرصاحب ڈٹے رہے اورجامعہ میںموسیقی کا ماحول پروان چڑھنے لگا۔(ص:۳۷)
(۲)جامعہ میںہربچے کوکسی نہ کسی ہنر کے سیکھنے پر ابھارا جاتا تھا اسی کے ساتھ ہرسال تعلیمی میلہ بھی لگتاتھا اورطلبہ مختلف قسم کے مظاہرے پیش کرکے حاضرین کا دل جیتنے کی کوشش کرتے۔ جمنا نہر میں تیراکی کا مظاہرہ ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں طلبہ کا ایک گروپ نہرمیںکود کر مختلف طرح کے کرتب دکھا تے۔ اس اثنا میں ایک طالب علم ڈوبنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری خوشیاں غم میںبدل گئیں۔ اس صورت حال کودیکھ کرجامعہ کے ایک استاذ محمدحسین صاحب اپنی شیروانی سمیت ڈوبنے والے طالب علم کوبچانے کے لیے کودپڑے اوران کونکال لانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے اس کارنامہ پر سبھی کے چہرے فرط مسرت سے چمک ہی رہے تھے کہ تیراکی ٹیم کے کوچ جناب اخلاص احمد صدیقی صاحب ایک اونچی دیوار پرچڑھتے نظرآئے اوراعلان کرنے لگے کہ:
’’ حضرات! ڈوبنے والے طالب علم نے ہمارے طے شدہ پروگرام کے مطابق ایکٹنگ کی تھی۔ یہ جانچنے کے لیے کہ ہمارے اندر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا کتنا جذبہ باقی ہے۔ چنانچہ اس امتحان میںمحمدحسین صاحب نے بازی ماری اس لیے ان کواس مقابلے کا ونرڈکلیئر کیا جاتا ہے اورانعام کا مستحق بھی‘‘۔(ص:۶۲)
۱۹۴۸ میں دہلی میں مہاجرین کی تعداد میںکئی گنااضافہ ہوگیاتھا ایسے میںکچھ یتیم طلبہ کی کفالت کا مسئلہ حکومت کے سامنے کھڑا تھا۔ جامعہ نے آگے بڑھ کر ان بچوں کوگود لے کر ان کی پرورش شروع کردی۔ ذاکرصاحب کی سرکردگی میںجامعہ کے سارے ہی اساتذہ نے ان بچوں کی ہرممکن مدد کی اوران کوگھرجیسا احساس کرایا۔ اس پرہرسطح پرجامعہ کی کشادہ دلی کی تعریف کی گئی۔ اس درمیان ذاکرصاحب کے لیے ریاست رامپور کے چیف منسٹر کرنل بشیرحسین زیدی نے ایک کارتحفے میںبھیجی اورعارضی طورسے سال بھر کے لیے ایک ڈرائیوربھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جامعہ کے محسنین ملک کے گوشے گوشے میںپھیلے ہوئے تھے۔ جوجامعہ کی ترقی کے خواہاں تھے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج جامعہ کوایک تناوردرخت کی شکل میںدیکھ کر ان سب کی روح کوکس قدرسکون مل رہاہوگا۔
کچھ سالوں کے بعدذاکرصاحب وائس چانسلر بناکرعلی گڑھ بھیج دیے گئے تومجیب صاحب شیخ الجامعہ ہوئے۔ لیکن اشفاق محمد خاں صاحب کا کہنا ہے کہ ذاکرصاحب نے جس بلندی پرجامعہ کوپہنچایاتھا اس سے ایک انچ بھی مجیب صاحب اپنی تنک مزاجی کی وجہ سے جامعہ کو اونچائی پر نہ لے جاسکے۔ اشفاق محمدخاں ذاکرصاحب کا حددرجہ احترام کرتے تھے لیکن اس احترام کے باوجود انہوں نے ذاکرصاحب کے تعلق سے ایک ایسی بات کہی جویقینا قابل غور ہے اوراس پرتوجہ دی گئی توہمارے ملکی معاملات کے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ذاکرصاحب جامعہ کے بے حد خیرخواہ تھے اس کے باوجود ان کی ایک کمزوری نے جامعہ کوبے حد نقصان پہنچایا۔ وہ ہے مالی بدعنوانیوں کے ملزمین کومعافی دے دینا۔ جامعہ کے انٹرنل آڈیٹر نے لگاتار کئی سال ایک فائنانس آفیسر اورجامعہ کی کینٹین کے سربراہ کی مالی بدعنوانیوں کا پردہ فاش کیا لیکن ہمیشہ ذاکرصاحب یہ کہہ کرآڈیٹر کوخاموش کرنے کی کوشش کرتے کہ:
’’ تم ان سے بہترآدمی لادوتومیںانہیں ہٹادوںگا۔ اورکیا ضروری ہے کہ جونیاآدمی آئے وہ مالی بدعنوانیوں کا شکار نہ ہو‘‘۔(ص:۵۰)
ظاہر ہے ذاکرصاحب کے اس عذر کو عذر لنگ ہی کہاجائے گا۔ جس کے راستے سے وہ جامعہ کے لٹیروں کوتحفظ فراہم کرتے رہے۔ یہی وہ سوچ ہے جس نے نہ صرف جامعہ کوبلکہ ملک کے ہرادارے کواورملک کے پورے نظام کوگھن کی طرح کھوکھلا کردیاہے۔موجودہ منظر نامہ اس عکاس ہے ۔
اشفاق محمدخاں کی اس خود نوشت سے ہمیںہندوستانی جامعات کے شعبۂ اردو کے احوال کا بھی علم ہوتا ہے۔ شعبۂ اردو میںایک زمانے میںکیا کچھ ہوتا رہا ہے۔ اس کی زبانی بیانیے توآئے دن سننے میںآتے رہے ہیں لیکن ایک خود نوشت میںشایدپہلی بار اشفاق محمدخاں نے ان چیزوں سے پردہ اٹھایاہے۔ علی گڑھ میںجب اشفاق محمدخاں نے پی ایچ ڈی میںداخلہ لیا توان پرایک ایک چیزمنکشف ہوتی چلی گئی۔ صدرشعبہ تھے آل احمدسرور اورسپروائزر تھے مشہورنقاد خورشیدالاسلام۔ دونوں میںمعاصرانہ چشمک عروج پر تھی۔ان کی آپسی چپقلش کا شکار ایک ریسرچ اسکالرکو کس طرح ہونا پڑتا ہے اس کوتفصیل سے اشفاق محمد خاں نے بیان کیا ہے۔ چونکہ وہ خود اس چپقلش کے شکار ہوئے اوراب تک ان الزامات کی تردید نہیںکی گئی ہے اس لیے ان کے صحیح ہونے میںشک نہیں ہونا چاہئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’اس طریقۂ کار سے حسب خواہش سپروائزر صاحب کوایک ریسرچ اسکالر کم از کم چارسال کے لیے ایک بندھوامزدور مل جاتا تھا۔ چنانچہ ہم بھی ایک سینئرریڈر کے تابع مہمل بندھوا مزدوربن گئے یعنی وہ تھے ہمارے سپروائزر خورشید الاسلام صاحب اوران کے اوپر جناب صدرشعبہ اردوپروفیسر آل احمدسرور۔ گویااب ہم چکی کے دوپاٹوں کے درمیان کچھ علمی وادبی کارنامہ انجام دیںگے‘‘۔(ص:۷۴)
ان ہی حالات میں اشفاق محمدخاں اپنے ریسرچ ورک میںلگے رہتے ہیں، دن کے دوسرے حصے میںہردن سپروائزر صاحب کے گھرپہنچ کر ان کے گھر کے ذاتی کام انجام دیتے ہیں۔ اس کے باوجود کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا جاتا کہ تمہارا ریسرچ کا کام کہاںتک پہنچاکیسے کررہے ہووغیرہ۔ اشفاق محمدخاں کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی طورسے اپنا مقالہ لکھتے رہے کہ اچانک خورشیدالاسلام صاحب فرماتے ہیں کہ کل میںدوسال کے لیے لندن جارہاہوں۔ تم نے اپنا کام کیا یا نہیںبتایا نہیں۔ جب بلاتاخیر اشفاق محمدخاںنے اپنا مقالہ لاکران کے سامنے کردیاتووہ پندرہ منٹ میںمقالے پرپوری نظرڈال کردوچارجگہوں پہ نشان لگادیتے ہیں۔ اللہ اللہ کرکے ان مراحل سے گزرتے ہیں توان کا کہنا ہے کہ آل احمدسرور اپنی کسی مصلحت یاغرض کی بنا پر مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے میںکچھ تاخیر کردینا چاہتے تھے(ص:۷۵) ان کے مقالے کے لیے ممتحن کے طورپرچناجاتا ہے کلیم الدین احمد کو۔ جوکہ اردوکے نہیں بلکہ انگریزی کے پروفیسر تھے اورخودآل احمدسرور کوایک آنکھ نہیںبھاتے تھے۔ وہ آگے فرماتے ہیں: نوماہ بعدرجسٹرار کی باربار یاددہانی کے بعدہمارا مقالہ ان کے یہاںسے تولد ہوا‘‘۔(ص:۷۵)
اس طرح کے واقعات سے اس کتاب کا پورا ایک باب بھرا ہوا ہے۔ جس میں پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر کے مسائل کا بیان ہوا ہے۔ امید ہے واقعات کوپڑھنے کے بعدہمارے سپروائزر صاحبان اورصدور شعبہ نے کچھ مثبت تبدیلیاں اپنے اندر لائی ہوں۔
کتاب کے آخری دوباب جے این یو اورلکھنؤ کی یادداشتوں پرمشتمل ہے۔ جے این یو سے متعلق ایک واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جب ۱۹۸۸میںاشفاق محمدخاں کو ایسوسی ایٹ پروفیسر کے بطورترقی ملنے والی تھی توایکسپرٹ کی حیثیت سے آل احمدسرور کومدعوکیاگیاتھا۔ سرورصاحب نے سوالات کا سلسلہ شروع کیاتواشفاق محمدخاں نے کہا ہے کہ مجھے لگ رہا تھا کہ میںآل احمدسرور کوانٹرویو دینے نہیں خودان کا انٹرویو لینے آیاہوں۔ ظاہرہے یہ خوداعتمادی کا کمال تھا۔ سرورصاحب نے سوال کیا:
’’ناقد کوکیسا ہونا چاہئے‘‘
اشفاق محمدخاں کا جواب تھا،’’ سرآپ نے ہمیں پڑھایاتھا اورآپ نے اپنی ایک کتاب میںبھی لکھا ہے کہ ناقد کوکوتوال نہیں جج ہوناچاہیے۔اس کے بعد اب میںکیا اضافہ کرسکتا ہوں؟‘‘
ظاہر ہے جواب بہت تیکھا تھا اس طرح کے کچھ اورسوال ہوئے جس کا اسی اندازسے تیکھے جواب اشفاق محمدخاں نے دئیے اورانٹرویوختم ہوگیا۔ انٹرویو کے بعدسرورصاحب کا کہنا تھا کہ اشفاق محمدخاں بہت شارپ انسان ہیں۔ اشفاق محمدخاں کا کہنا ہے کہ انٹرویو کے بعد انھوں نے کافی ہلکا پن محسوس کیا اوربہت گہری نیندسوئے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ برسوں سے آل احمدسرور کے ستائے ہوئے تھے،اس لئے اس طرح کا تیکھا بدلہ لینے کی وجہ سے ہی شاید میںاپنے آپ کو گہری نیندمیںلاسکاتھا۔
ایک اوردلچسپ واقعہ قابل ذکر ہے۔ شمیم حنفی صاحب کی کتاب ’’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘‘ جب ۱۹۷۸میں شائع ہوئی تو اشفاق محمدخاں تلاش روزگار میںدردر بھٹک رہے تھے۔ ان کا یہ غم شمیم حنفی صاحب سے دیکھا نہیں جاتا تھا توانہوں نے ایک ترکیب یہ نکالی کہ اشفاق محمدخاں ان کی کتاب پربھرپور تبصرہ کردیں۔ ان کا تبصرہ پڑھ کر ان کی صلاحیت کا لوگوں کوعلم ہوگا اوران کوایک باوقار ملازمت مل جائے گی۔ لیکن اشفاق محمد خاں نے اس طرح کا تبصرہ کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ میری صلاحیت ایسی نہیں ہے کہ میں تبصرہ لکھ سکوں۔ توشمیم حنفی صاحب نے کہا کہ میںآپ کی طرف سے تبصرہ لکھ دیتا ہوں۔ اس پروہ راضی ہوگئے اوریہ تبصرہ جولائی ۱۹۷۸ء میںکتاب نما میںشائع ہوگیا۔(ص:۲۵)
آخری باب لکھنؤ سے متعلق ہے۔ آج کے دور میںلکھنؤ کی تہذیب کا متلاشی ہرشخص ہے۔ اشفاق محمدخاں بھی تھے وہ فرماتے ہیں:
’’میں نے گزشتہ ۵۰سال میںکئی چکرلکھنؤ کے لگائے مگرافسوس کہ مجھے ’’شام اودھ‘‘ کہیں نہیں ملی۔ شاید یہ شام اب ہندوستان کے دوسرے بڑے بڑے شہروں میں منتقل ہوچکی ہے‘‘۔(ص:۱۵۶)
آگے لکھتے ہیں کہ:
’’یہ شہرموسیقی، رقص اورتھیٹر کامرکز سمجھاجاتا تھا‘‘۔(ص:۱۰۵)
ظاہرہے ان کے اس طرح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لکھنؤ اپنی معنویت کھوچکا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی بھی شہر کی تہذیب اسی وقت تک باقی رہتی ہے جب تک اس میںباہرسے آکربسنے والوں کی تعداد کم رہتی ہے۔ اگریہ تعداد بڑھ جائے توپھرکسی بھی شہر کی اپنی تصویر دھندلی ہوجاتی ہے۔ جس پرافسوس کرنے سے بہت کچھ حاصل نہیںہوسکتا۔بلکہ دانش مندی کا تقاضہ ہے کہ ان تبدیلیوں کو کھلے دل سے قبول کیا جائے اور تہذیبِ قدیم کوتہذیب جدید سے بدل کر آگے کا سفر طے کیا جائے کیونکہ تہذیبی تبدیلی ایک فطری عمل ہے اسکے بغیر انسان کی ترقی کا سفر تھم جائے گا۔
لکھنؤ کی تہذیب پر گفتگو کرتے ہوئے اشفاق محمد خاں نے مرزا جعفر حسین کی تصنیف ’’قدیم لکھنؤ کی آخری بہار‘‘ کے حوالے سے ایک ایسی بات کہی ہے جس سے اتفاق آج شاید ہی کیا جائے۔وہ کہتے ہیں کہ:
’’ ایک زمانے میں لکھنؤ میں تین قسموں کی طوائفیں رہتی تھیں۔ زنان خانگی، زنان بازاری اورڈیرے دار طوائفیں۔ اس میں دوسری اورتیسری قسم کی طوائفیں تواب خال خال ہی ملیںگی البتہ زنان خانگی کے نمونے کچھ کچھ ضرورمل جائیںگے۔ یہ زنانِ خانگی اپنی معاشی زبوں حالی کی بنا پر اندرون خانہ کمائی کرکے اپنے خاندان کوروٹی فراہم کرتی رہتی ہیں۔ بعض پوشیدہ رہنا پسندکرتی ہیں اوربعض بے نقاب ہوکر سیاسی اورسماجی کارکن کی حیثیت سے بھی اس پیشے میںداخل ہوجاتی ہیں‘‘۔(ص:۱۱۲)
راقم کا خیال ہے کہ مرداساس سماج کی اس سوچ کو بدلنا چاہیے کیونکہ انکی سوچ بن گئی ہے کہ اگرکوئی عورت سیاست ومعیشت میںآگے بڑھ کر کچھ کرپارہی ہے تواس کے پیچھے اس کا زنان خانگی ہونے کا عمل ضرور پوشیدہ ہوگا۔ یہ ایک ایسی خطرناک سوچ ہے جس کا جتنی جلدی ممکن ہوخاتمہ ہوجانا ہی بہتر ہے۔ یہ بہت آسان ہے کہنا لیکن اس کے نتائج انتہائی سنگین ہوںگے۔
تکثیری سماج میں مشترکہ تہذیب کی داغ بیل کیسے ڈالی جائے اس کا تجربہ سب سے پہلے بیگم حضرت محل نے کیاتھا۔ اس کا علم بھی ہمیں اس کتاب سے حاصل ہوتا ہے۔اشفاق محمد خان لکھتے ہیں کہ:
’’ بیگم حضرت محل نے اپنے زمانے میںبیشتر نئے محلے اس لیے آباد کئے تھے کہ ہندومسلمان ساتھ ساتھ ایک ماحول میں میل جول سے رہنا سیکھیں‘‘۔(ص:۱۱۲)
اگراس طرح کا تجربہ پھرسے کیا جائے اورمسلم محلہ اورہندومحلہ کی تفریق ختم ہوجائے توامید کی جاتی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات نہ کے برابرہوںگے۔
مولاناآزاد کی پسندیدہ جاسمین ٹی کا علم سبھی کوہوگا۔ اس کے بالمقابل آج گرین ٹی کاچلن عام ہوتا جارہا ہے۔ ہم میںسے اکثرلوگوں کا خیال ہوگا کہ گرین ٹی جدیددور کی پیداوار ہے لیکن اس کتاب کے ایک اقتباس سے علم ہوتا ہے کہ گرین ٹی کا وجود بہت پہلے سے ہے۔ اشفاق محمد خاں لکھتے ہیں کہ:
’’ملک زادہ منظور احمدصاحب کوگرین چائے بہت پسند ہے اورمیںگرین چائے سے گزشتہ ۵۰سالوں سے مستفید ہورہا ہوں۔اس کی افادیت کا اندازہ آج کل اخبارات سے ہورہا ہے۔ یعنی یہ چائے قلب ماہیت کا سبب بھی بن رہی ہے اورہم محفوظ بھی رہ سکتے ہیں‘‘۔(ص:۱۰۸)
معلومات کے نقطۂ نظر سے دیکھیںتواس مختصرسی خودنوشت میںایک دنیاآباد ہے۔ آزادی سے قبل کے لکھنؤ، قائم گنج اوردیگرعلاقے کی تہذیب و معاشرت کوسمجھنے میںاس سے یقینا مددملے گی۔ اس کے ساتھ ہی اگرکسی کوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے ابتدائی ایام کی معلومات حاصل کرنی ہوتوبھی اس کتاب سے بہت سارا موادحاصل کیاجاسکتا ہے، اسی کے ساتھ جے این یو اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے احوال اورطرز تدریس میںفرق کوجاننے کے لیے بھی یہ کتاب معاون ثابت ہوگی۔
کتاب کے اسلوب نگارش پربات کریں تو بہت زیادہ دل پذیر زبان کا استعمال تونہیںہوا ہے البتہ اسلوب ایسا ہے کہ قاری کواکتاہٹ بھی نہیںہوگی۔ کتاب جن مقاصد کے تحت لکھی گئی تھی اس میںبہت حدتک کامیاب نظرآتی ہے البتہ اس کا اختصار ہی اس کی سب سے بڑی کمی ہے کیونکہ اختصار بعض جگہوں پہ قارئین کوگراں گزرتا ہے۔ کل ۱۲۰ صفحات کی کتاب ہے اس کے باوجود کئی صفحوں میں صرف چندہی سطریں تحریر ہیں۔ اس اختصار کی وجہ سے کتاب میںبیان کردہ واقعات کہیں کہیں تشنہ رہ گئے ہیں جوظاہر ہے قاری کے لیے سوہان روح کا ہی سبب بنتا ہے۔ مجموعی طورسے کتاب کوقابل مطالعہ کہا جائے گا۔خاص کرریسرچ اسکالرز کوبطورخاص مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کتاب کا ضرورہی مطالعہ کریں تاکہ ان کوراہ میںآنے والی مشکلات کا پہلے سے علم ہوجائے۔
حواشی:
۱۔ اپنی بیتی ،از: اشفاق محمد خاں،مطبع اپکس آرٹ،سن اشاعت ۲۰۰۹
۲۔ اردو خودنوشت فن اور تجزیہ ،از : ڈاکٹر وہاج الدین علوی، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ،سن اشاعت ۱۹۸۹
۳۔ اردو میں خودنوشت سوانح نگاری،از: ڈاکٹر صبیحہ انور ،نامی پریس لکھنو،سن اشاعت ۱۹۸۲
٭٭٭
SHAHID HABIB
Research Scholar, Maulana Azad National Urdu University, Lucknow Campus.
Leave a Reply
Be the First to Comment!