منفرد لہجے کا شاعر : بشیر بدر
مسرت حمزہ لون
رحمت آباد رفیع آباد بارہمولہ کشمیر
فون نمبر : 7780952٭٭٭
اُردو ادب کی دنیا میں ڈاکٹر بشیر بدرؔ کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ بشیر بدرؔ جہاں ایک استقامت آشنا، صاحب اسلوب تخلیق کار ہیں وہیں بحیثیت شاعر دنیا میں ان کا اعتبار، وقار اور افتخار قائم ہوچکا ہے۔ شعری، فنی، جمالیاتی، عشقیہ اور نئی غزل کی حقائق وحقانیت کا جو منظر نامہ وہ گذشتہ ربیع صدی سے سپرد تحریر کرتے رہے ہیں وہ جدید غزل اور اس سے وابستہ دوسرے علائم ور موزنیز قدیم تہذیب کے ساتھ ان کے داخلی و باطنی رشتے کی شہادت و صداقت کے لیے کافی ہے۔ بشیر بدرؔ کے چہرے میں ہندآریائی نقوش کی دلکش و دل ربائی صاف جھلکتی ہے۔ بشیر بدرؔ کا ظاہری سراپا، ان کی پرکشش شخصیت اور ان کی دلچسپ و دل افروز شبنمی گفتگو اپنے مخاطب کو اولین ملاقات میں ہی اپنا گرویدہ بنالیتی ہے۔
بشیر بدرؔ کا جنم ۱۹۳۵ء میںکانپور میںہوا۔ حلیم کالج کانپور اوراسلامیہ کالج اٹاوہ میں تعلیم حاصل کی ۔ والد کے انتقال کے بعد کم عمری ہی میں ملازمت کرلی کیونکہ معاشی اعتبار سے ان کاخاندان کمزور تھا۔ پرائیویٹ طور پر گریجویشن کیا اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ ا ے۔کیاامتیازی کامیابی کی وجہ سے ان کو یونیورسٹی کامیڈل اور رادھا کر شنن انعامات ملے۔ زمانہ طالب علمی میں ہی علی گڑھ میگزین کے مدیر رہے۔ مسلم یونیورسٹی سے جدید غزل پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ درس و تدریس اور شعروشاعری ان کے خاص مشاغل ہیں۔ ان کی تصانیف اکائی ۱۹۶۹ء (شعری مجموعہ) ۱۹۷۲ء میں امیج (شعری مجموعہ) ۱۹۷۴ء میں بیسویں صدی میں غزل، آزادی کے بعد اردو غزل کاتنقیدی مطالعہ ۱۹۸۲ء میں اور آمد (شعری مجموعہ) ۱۹۸۶ء میںشائع ہوئے۔ شاعری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ وہ ایک فطری شاعر ہیں، انہوںنے بڑے گہرائی سے زندگی کا مطالعہ کیا ہے۔
بشیر بدرؔ نے زندگی کے اچھے اور بُرے دونوں رخ قریب سے دیکھے ہیں۔ وہ ایک حساس انسان ہیں۔ ان کے اشعار میں دردمندی، کسک اور ملال کی جو دبیز لہر پوشیدہ ہے، وہ ان کے د رد بھرے تجربوں کی دین ہے۔ درد و کسک کے اسی احساس نے ان سے روح و دل میں اترجانے والے ایسے پُر اثر اشعار کہلوائے ہیں جوہر حساس دل کو متاثر کرتے اور اپنا ہم نوا اور معترف بنالیتے ہیں۔ مثال کے طورپر یہ اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
اُداسی کا یہ پتھر آنسوئوں سے نم نہیں ہوتا
ہزاروں جگنوئوں سے بھی اندھیرا کم نہیں ہوتا
کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں
ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بشیر بدرؔ کے اشعار میں آنسو، غم، خوشبو، پھول سورج، پتھر اور محبت وغیرہ لفظوں نے پیکریت، ڈرامائیت اور جمالیاتی تجسیم میںجو کلیدی رول اداکیا ہے اس کے سبب پیداہونے والی تازہ کاری نے ان کے غزلیہ اسلوب کو ایک نئی پہچان عطا کردی ہے۔
بشیر بدرؔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر آج اردو کا سب سے بڑا شاعر ماناجاتا ہے۔ان کی شہرت اور مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اردو زبان کے علاوہ ہندی زبان کے جاننے والے لوگ بھی بشیر بدرؔ کی شاعری سے بخوبی واقف ہیں۔ ہندی رسم الخط میں ان کی تقریباً ۱۵، کتابیں ان کی مقبولیت کا ثبوت ہیں۔ موضوعات کا تنوع، ڈکشن کی ندرت، علامات کی تازگی، امیجری کاحسن، اظہار خیال پر فنکارانہ دسترس اور سہل ممتنع نے ان کو اپنے عہد کا منفردو ممتاز شاعر بنا دیا ہے۔ بشیر بدرؔ نے اپنے ابتدائی مجموعوں امیج اور اکائی سے فنکارانہ صلاحیتوں کالوہا منوالیا تھا مگر آمد تک آتے آتے ان کے اندر کامصور شاعر اس طرح ابھر کر سامنے آگیا کہ اردو کے سب سے سخت ناقد ڈاکٹر محمد حسن کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ’’غزل گو کی حیثیت سے بشیر بدرؔ کی صلاحیتوں پر ایمان نہ لانا کفر ہے‘‘۔ بشیر بدرؔ احساسات اور نازک جذبات کے شاعر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا شعری سرمایہ غزلوں پر مشتمل ہے۔
آج دنیا جس افراط اور تفریط میں گھری ہوئی ہے اس سے یہ قوی امکان ہے کہ تمام مذاہب اور تہذیبیں اپنی قدریں کھودیں گئی اور بے راہ روی کی فاحشہ مچھلی ہر جگہ حکمراں ہوگی اس واضح مستقبل کی عکاسی بشیر بدرؔ نے یوں کی ہے ؎
سمندر سوکھ جائیں گے اور اک فاحشہ مچھلی
ہمارے ساحلوں اور جنگلوں کی حکمران ہوگی
بشیر بدرؔ کی غزلوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ عصری مسائل کتنے ہی کرخت ہوں اور چاہے کسی بھی نوعیت کے ہوں وہ جمالیاتی لباس میں خوش اسلوبی سے ڈھالے ہوتے ہیں۔ بشیربدرؔ نے زندگی کی دھوپ بھی دیکھی اور چاندنی بھی ۔ ان کا دامن آگ سے بھی آشنا ہے اور پھولوں سے بھی، اس کا اظہار ان کی غزلوں میں غیر معمولی شدت اور کثرت سے ملتا ہے۔ اس لیے بجاطورپر انہیں زندگی کی دھوپ اور احساسات کے پھولوں کا شاعر کہاجاسکتا ہے:
سلگتی دھوپ، گھنی چاندنی سی ہوتی ہے
تمہارے ساتھ یہ دنیا نئی سی ہوتی ہے
یہاں سورج ہنسیںگے آنسوئوں کو کون دیکھے گا
میں یہاں دھوپ میںتپ رہا ہوں مگر
زندگی کی دھوپ، احساسات کے پھول، نئی غزل کے اسلوب و آہنگ اور اس کے حسن کی چاندنی کا یہ شاعر دراصل منفرد رنگ کا، یادوں کے اجالوں کا بھی شاعر ہے۔
؎ اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
بشیر بدرؔ کے اس خوبصورت شعر نے مقبولیت اور پسندیدگی کا ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بشیر بدرؔ نے محبت کوساری دنیا میں عام کرنے کے لیے محبت کا پیغام گھر گھر پہونچانے کے لیے غزل کو وسیلہ اظہار بنایا ہے اورگھوم پھر کر زندگی کے سارے تجربات سے گذرنے کے بعد بھی انہوںنے محبت کا دامن نہیں چھوڑا ہے، بشیر بدرؔ کی شاعری پر یوں تودنیا کے بڑے نقادوں نے اور ان کے چاہنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ مثلاً پروفیسر شمیم حنفی، آل احمد سرور، گوپی چندنارنگ، محمد حسن، نظام صدیقی شارب ردولوی، ڈاکٹر جمیل جالبی، شہریار، ندا فاضلی، مخمور سعیدی اور دیگر بہت سے۔
بشیر بدرؔ کے اشعار میں سادگی کا حسن ہے ان کی لفظیات اور اسلوب و ادا روایت سے گہرے طورپر منسلک ہونے کے باوصف تازہ کاری پر دلالت کرتا ہے۔
بشیر بدرؔ نے غزل کومقبولیت کے نئے دائروں تک پہپچانے اور خود اس کے دامن کو کشادگیوں سے متصف کرنے کے لیے جہاں اور تجربے اور اجتہاداد کہتے ہیں وہیں یہ کوشش بھی کی ہے کہ اسے ہندی اور انگریزی بلکہ انگریزی سے زیادہ ہندی الفاظ کے سروں کی تغزل کی مقبولیت سے جوڑا جائے ۔
پانی سب کا راستہ روکے اپنے ساجن بھی اس پار
سارا ساگر طے کرنا ہے کاغذ کی اس کشتی سے
بشیر بدرؔ اپنی ذات سے ایک دل نواز شخصیت کے مالک بھی ہیں خلوص محبت اور سادہ لوحی ان کے کردار کاحصہ ہیں مگر جہاں تک فنی مہارتوں کا تقاضہ ہے وہ ایک ذہین فنکار ہیں ان کی اس قابل رشک شہرت اور مقبولیت کے تانے بانے میں ان کی اس ذہانت کے ریشمی دھاگوں کوبھی دیکھا جاسکتا ہے جو بنیادی طورپر عوامی نفسیات کے تاروں کواس طرح چھیڑتے ہیں کہ کسی جلترنگ کی سی کیفیت پیداہوجاتی ہے ؎
دیکھ کرپھول کے اوراق پہ شبنم کچھ لوگ
تیرا اشکوں بھرا مکتوب سمجھتے ہوںگے
اس طرح بشیر بدرؔ کی شاعری کے کئی رخ اور کئی العباد ہیں جن میں فکر کی تابش بھی ہے اور تازگی بھی فن کی جدت بھی ہے اور ندرت بھی اور ایک بات یہاں یقیناً قابل ذکر ہے وہ یہ کہ بشیر بدرؔ بات کو خوبصورتی سے اور نئے انداز سے کہنے کے عادی ہین اس پر ان کا تجربہ مشاہدہ اور احساس کا نیاپن دو آتشہ کاکام کرجاتا ہے مثال کے طورپر ؎
کس کے آنسو چھپے ہیں پھولوں میں
چومتا ہوں تو ہونٹ جلتے ہیں
غزل کو نیا خون عطا کرنے میں وہ اپنے دور کے تمام شعراء کے پیش رو ہیں اور بھی وہ صنف سخن ہے جس میں ان کے ذوق ادب کی عظمت کا راز پنہاں ہے اور ان کی انفرادیت کی شان نمایاں طورپر نظر آتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بشیر بدرؔ اپنے رنگ کے منفرد نقاد بھی ہیں۔ اس طرح ان کی شخصیت بڑی تہہ دار ہے۔ بشیر بدرؔ بنیادی طورپر حسن اور کیفیت کے شاعر ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جوانہیں شعراء اردو میں نمایاں کرتی ہیں۔ بشیر بدرؔ کی شاعری ان کی شخصیت کا اظہار ہے ان کے اشعار ان کی ذہنی پیکار کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں۔ کیونکہ انہوںنے اپنے جذبات تجربات اور احساسات کو نہایت کامیابی اور خوش اسلوبی کے ساتھ شعری پیکر عطا کئے ہیں۔
الغرض بشیر بدرؔ تخلیقیت شناس شاعر ہیں وہ اور سنجیدہ سائنسی ذہن رکھتے ہیں، اسی لئے ان کی غزلوں میں بھر پور اعتماد ملتا ہے۔ انہوںنے الفاظ کی سونے کی صلیب کے ذریعہ مشاہدے اورتجربے کو فن کا ہنر عطا کیا ہے۔
Masrat Hamzah Lone
R/O : Rehmatabad Rafiabad Baramulla
Contact : 7780952197
Post Office : Chatloora
Pin Code: 193301
Leave a Reply
Be the First to Comment!