اردو ادب میں تازہ وارد کردار : صالحہ صالحہ

 دائم محمدانصاری

گیسٹ لکچرر، شعبہ اردو، کلکتہ گرلس کالج
مٹیابرج ، کلکتہ

(Ph:8777834566)

’’ٹھوکر کھانا اور گرنا اور اٹھنا
اور ایک خاموش انسان بن کر جینا
اور اپنے تھکے ماندے قدموں سے
اس زمین کو پیچھے کی طرف ڈھکیلتے جانا اور سوچنا
میرے خدا ، یہ سب کچھ اتنی بے ترتیبی سے کیوں پیش آتا ہے؟
اور اس طرح تم خود تک پہنچنے کے سارے راستے
اپنی لاعلمی میں دھیرے دھیرے بند کرتے جاتے ہو ۔‘‘ ( نظم ’’ہچ کا اشتہار‘‘ ، مجموعہ ’’پتھر میں کھدی ہوئی کشتی‘‘۔۔ صدیق عالم )

عموماً ایسے مضامین لکھتے وقت کوشش یہ کی جاتی ہے کہ ابتدائیہ ملفوظات یا شعر کسی دوسرے مستند فنکار کا ہو اور اگر ایسا فنکار بیرونی ہو تو مضمون کی وقعت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے مگر میرے سا منے ایک مسئلہ درپیش ہے اور وہ ہے صدیق عالم جیسے کہانی کار کی تحریر کو سمجھنے کی سعی کرنا ۔ اب ایسا شخص جس نے ہمیشہ اپنی تحریرکو دوسرے تمام قلمکاروں سے جدا رکھنے کی کوشش کی ہو اور اردو ادب میں قرۃالعین حیدر، انتظار حسین کی طرح کہانی کہنے کے ایک نئے اور منفرد انداز کو پیش کیا ہو،اس کے لئے مناسب ہے کہ میں اپنے مضمون کی ابتدا بھی اسی کی ہی تحریر سے کروں تاکہ اس کے فن کو تھوڑا بہت سمجھنے میں ہمیں مدد مل سکے ۔
اس غیر ضروری گفتگو کے بعد اب اصل مدعا کی طرف آتے ہیں۔ صدیق عالم کی تما م تحریروں سے قطع نظر ہمارے سامنے انکی تازہ ترین تخلیق ’’صالحہ صالحہ ‘‘ ہے جو رسالہ ’امروز‘ کے حالیہ دو قسطوں (شمارہ نمبر ۱۰ : اپریل تا جون 2019 اور شمارہ نمبر ۱۱: جولائی تا ستمبر 2019) میں شائع ہوئی ہے اور اغلب ہے کہ جلد ہی یہ کتابی شکل میں منظر عام پر آجائے ۔ ’’صالحہ صالحہ ‘‘ سو صفحات پر مشتمل ایک ناولٹ ہے جسے ہم طویل افسانہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس ناولٹ میں دو عورتوں کی کہانی ہے جنکا نام مصنف نے قصداً صالحہ ہی رکھا ہے ۔ کہانی کو سمجھنے سے پہلے ہم اپنی سہولت کے لئے ان دونوں صالحہ کے نام کو ایک دوسرے سے ممیز کر تے ہیں۔ پہلی والی صالحہ جو ایک یتیم خانہ کی پرورش کردہ ہے اس کا نام صالحہ خاتون اور دوسری صالحہ جو ایک بڑے سے مکان میں خاموش زندگی گذارتی ہے اس کا نام صالحہ بیگم رکھ لیتے ہیں۔ اور میری اس تحریر میں ہم صالحہ خاتون کے کردار کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ دونوں عورتیں شادی شدہ ہیں۔ صالحہ خاتون ۲۷ سال کی ایک یتیم لڑکی ہے جسکی ولدیت کا علم نہیں (اغلب ہے کہ وہ ناجائز اولاد ہو ) جسکی ماں اسکی پیدائش کے فوراً بعد ہی اسے ایک یتیم خانے کے دروازے کے باہر چھوڑ جاتی ہے جہاں سات سال گذارنے کے بعد اسے گود لیا جاتا ہے اور اس کے پوس پالک والدین سولہ سال تک کی عمر کو پہنچتے پہنچتے عجلت میں اس کی شادی ایک بارہویں پاس نوجوان سے کرادیتے ہیں جو آگے چل کر بیروزگاری اور تنگدستی سے عاجز آکر شراب اور جوئے میں اپنا سکون تلاش کرتا ہے مگر باوجود ان برائیوں کے وہ تین اولادوں کو جنم دیتا ہے اور اپنی بیوی کے ساتھ بھی کافی حد تک حسن سلوک کا معاملہ رکھتا ہے ۔ معاشی زبوں حالی سے تھک کر صالحہ خاتون ایک گھر میں کام تلاش کرلیتی ہے جسکی مالکن کا نام صالحہ بیگم ہے ۔ اور صرف نام ہی نہیں بلکہ اس عورت کا چہرہ مہرہ بھی کافی حد تک صالحہ خاتون سے مماثلت رکھتا ہے ۔ ملازمت کے کچھ ہی دن کے بعد صالحہ خاتون کے شوہر کی لاپرواہی کی وجہ سے اسکا نوزائیدہ بچہ چوری ہو جا تا ہے اور تلاش کے باوجود نہیں ملتا ہے ۔ یہ خبر ایک بجلی کی طرح اس پر گرتی ہے اور ابھی اس صدمے سے صالحہ خاتون باہر نکل بھی نہیں پاتی ہے کہ کچھ دنوں بعد اسکا شوہر ان غنڈوں سے ہاتھا پائی میں مارا جاتا ہے جو اس کے پاس قرض کا پیسہ وصول کرنے کے لئے آئے تھے ۔ ابھی ان دونوں سانحات کا اثر اس کے ذہن پر باقی تھا کہ اس کے دونوں لڑکوں کو وہی غنڈے اغوا کرلیتے ہیں جنہوں نے اس کے شوہر کو مارا تھا اور تاوان کے طور پر اس کے گھر کے کاغذات کا مطالبہ کرتے ہیں جنہیں صالحہ خاتون دے نہیں پاتی ہے ۔کچھ روز کے بعد ان دونوں معصوم بچوں کی لاش ایک درخت سے لٹکتی ہوئی پائی جاتی ہے ۔ صالحہ خاتون ان تمام سانحات کو اپنے اندر جذب کرتی ہے اور باوجود ان دلدوز حادثات کے جس میں اسکا پورا خاندان ختم ہو جاتا ہے، وہ زندہ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے ۔
دوسری جانب صالحہ بیگم کی زندگی ایک عام عورت کی سی زندگی ہے جسے کبھی یتیم خانے کا دروازہ نہیں دیکھنا پڑ ااور نہ ہی اس پہ کبھی کسی نے دست درازی کی کوشش کی ۔ اسکا ایک شوہر ہے جو کام کے سلسلے میں اکثر اوقات گھر سے باہر رہتا ہے۔ ایک بڑا گھر ، آسائش کی زندگی اور بچوں (جو کہانی میں اکثر غیر موجود رہتے ہیں) کے ساتھ وہ دمے کے مرض کا شکار بھی ہے ۔ لیکن اندر ہی اندر وہ ایک کمزور اور ناتواں عورت ہے جو اپنی زندگی کی بے ثباتی کے غم میں گھلی جارہی ہے اور بالآخر مر جاتی ہے ۔
اب سیدھے سیدھے دیکھا جائے تو کہانی بس یہی ہے لیکن اگر مصنف کے پاس کہنے کے لئے بس یہی تھا تو ایسی کہانی لکھنی کوئی بڑی بات نہیں اور پھر صدیق عالم کی تحریر کی تخصیص کیا باقی رہ جاتی ہے۔لیکن اوپر تو محض ڈھانچہ بتایا گیا ہے جسے کہانی کار اپنے مخصوص لب و لہجہ، طرز بیان اور فنی چابکدستی کے ساتھ ایک نیا جسم اور روح عطا کرتا ہے ۔ صدیق عالم کے فن کا ارتقا ء جو انکے پہلے منظوم ناول ’چارنک کی کشتی ‘ سے شروع ہو کر ’چینی کوٹھی‘ تک جاتا ہے ، ’صالحہ صالحہ ‘ میں اپنے اوج پہ نظر آتا ہے ۔ اس ناولٹ میں سچ پوچھئے تو مرکزی کردار ’صالحہ خاتون ‘ ہی ہے جسکی زندگی ابتدا تا انتہا مصائب کا شکار رہی مگر باوجود اس کے بقول ناول نگار وہ ’’کسی سہارے کی عدم موجودگی میں ایک طرف ایک مضبوط ارادوں والی عورت بن گئی تھی ‘‘۔ درحقیقت صالحہ خاتون کا کردار ایک انفرادی کردار نہیں ہے بلکہ وہ عورتوں کے اس طبقہ کی نمائندگی کرتا ہے ’’جسے ہم سماجی جانور ایک ہی نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں یعنی وہ ہمیں نظر ہی نہیں آتے جب تک وہ اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر نہ نکل آئی ہو ۔ ‘‘اور غالباً یہی وجہ ہے کہ صالحہ خاتون کو چونکہ کہانی کار نے روزی روٹی کی تلاش میں گھر کی چار دیواری سے باہر نکالا ہے اس لئے کہانی کا پورا تانا بانا اسی کے گرد بنا گیا ہے ۔
ایک ایسی عورت جو شادی کے دس سال تک گھر میں امور خانہ دارکے ساتھ تین افراد پہ مشتمل ایک کنبہ سنبھالتی رہی ہو اس کے لئے اچانک ایک روز گھر سے کام کی تلاش میں نکل جانا یقینا ایک بڑا قدم تھا۔ صالحہ خاتون ایک گھریلو عورت ہے جسے ایک بہتر زندگی حاصل ہو سکتی تھی اگر اسکا تعلیمی سفر قبل از وقت ختم نہ ہو گیا ہوتا ۔ کم عمر ی میں لڑکی کے ہاتھ سے قلم چھڑا کر باورچی خانہ کی ذمہ داری سونپنا آج بھی ہمارے سماج کی ایک فرسودہ ذہنیت ہے جس پر ناول نگار نے نشتر کیا ہے لیکن چونکہ اس مختصر سی تحریر میں صدیق عالم کو اور بھی کئی ضروری باتیں کہنی ہیں اس لئے وہ آگے بڑھ گئے۔ سولہ سال کی عمر میں شادی اور پھر اس کے بعد اگلے دس برسوں تک بچوں کی پیدائش اور انکی پرورش و پرداخت نے صالحہ کو باہری دنیا کے طور طریقوں کو سمجھنے کا موقعہ نہیں دیا اور یوں بھی ہمارے سما ج میںجہاں مرد اپنی برتری برقرا ر رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، عام طور پر عورتو ں کو ضرورت نہیںہوتی کہ وہ ایسے کسی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں ۔ لیکن جس گھر میں مرد اپنی مردانگی محض بستر تک محدود رکھے (اور وہاں بھی ناکام ثابت ہو) وہاں عورت مرد کا کردار ادا کرنے اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ اور جب عورت مرد کے حصے کی ذمہ داریاں ادا کرنے نکلتی ہے تو وہ مرد سے کہیں زیادہ بہتر کردار ادا کرتی ہے۔ اسکی جھلکیاں ہمیںشکسپئیر کے ان کئی ڈراموں میں نظر آسکتی ہے جہاں لڑکی جب بھی مرد کے بھیس میں سامنے آتی ہے وہ مرد سے زیادہ مضبوط کردار پیش کرتی ہے۔ صنف نازک کی خصوصیات اس کے اندر سے یکسر غائب ہو جاتی ہیں اور اسکا کردار ایکا ایکی تبدیل ہوجاتا ہے ۔ صالحہ گرچہ پہلی بار کام تلاش کرنے نکلتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ا س کے اند ر جس طرح کی خود اعتمادی شامل ہو جاتی ہے وہ حیرت انگیز ہے ۔ اسے کتنے پیسے ملتے ہیں اس سے ناول نگار کو مطلب ہے اور نہ ہمیں ، لیکن پیسے آنے کے باوجو د صالحہ کو کبھی اپنی ضرورتوں کا خیال نہیں آیا بلکہ اسکی سوچ کا محور اسکا خاندان ہی رہا ۔ گھر میں ایک کمائو بیوی کے ہونے سے ایک آلسی شوہر کو کھل کر جینے کا موقع مل جاتا ہے کیونکہ اسے اس بات کا ہمیشہ سے یقین رہتا ہے کہ عورت اس کے مقابلے اپنی ذمہ داریاں کہیں زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہے ۔ یہاںصالحہ کے شوہر کو دیکھ کر ایک لمحے کے لئے ہمیں پریم چندکے گھیسو اور مادھو کا کردار یا د آجا تا ہے جو اپنے گھر میں ایک عورت کے آنے کے بعد مکمل طور پر بے فکر ے ہوگئے تھے اور انکی حسیت اس حد تک ختم ہوگئی تھی کہ وہ بدھیا کے وجود سے بیگانہ ہو گئے تھے، اب وہ جئے یا مرے انکی بلا سے بس ان کے عیش میں کوئی خلل نہ واقع ہو ۔ بدھیا کا درد زہ سے تڑپنا اور اس کی دلخراش چیخیں سننے کے باوجود آلو چھیل چھیل کر کھاتے رہنا اس بات کا بین ثبوت ہے کے ایک بے حس مرد کے نزدیک عورت کی حیثیت سوائے گوشت کے ایک لوتھڑے کے اور کچھ نہیں ۔ صالحہ کا چھوٹا بچہ اس کے شوہر کی لاپرواہی سے گم ہوا لیکن باوجود اس کے اس کے شوہر کو اس بات کا کوئی خاص ملال نہیں ہوتا ہے اور وہ اپنی جنسی لذت پوری کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔ اندر سے شکستہ حال ہونے کے باوجود صالحہ اپنا جسم اسے پیش کرتی ہے لیکن وہ بہت زیادہ خود پہ قابو نہیں رکھ پاتی ہے اور جذبات سے مغلوب ہو کر چیخ پڑتی ہے جسکی وجہ سے اس کے شوہر کی جنسی خواہش کی تکمیل نہیں ہو پاتی ہے اور وہ بستر چھوڑ کر اس سے الگ ہو جاتا ہے ۔
اور اس کے کچھ ہی روز بعد اس کے شوہر کا بہیمانہ طریقے سے قتل ہو جاتا ہے ۔
شاید صالحہ اپنے شوہر کے غم کو بھلا کر آگے بڑھ جاتی اور اس نے کوشش بھی شرو ع کردی تھی لیکن کہانی کار کو صالحہ کا کردارLarger than life پیش کرنا تھا۔ اور اس کے لئے ضروری تھا ایک اور سانحہ۔ صالحہ کے دونوں بچوں کو کچھ دن کے بعد وہی غنڈے جنہوں نے اس کے شوہر کا قتل کیا تھا ، اٹھا کر لے جاتے ہیں اور بطور تاوان اس کے گھر کے کاغذات مانگتے ہیں۔ یہاں پر ہمیں صالحہ کا کردار بہت سادہ لوح نظر آتا ہے جو بجائے اپنے والدین کے گھر کاغذات جانے کے بجائے (تاکہ ان سے گھر کے کاغذات لے سکے) اس امید میں رہتی ہے کہ پولس اسکی مدد کرے گی۔ اسکے والدین کا گھر محض تیس میل دور تھا اور بذریعہ بس بمشکل تین گھنٹوں میں سفر طے کیا جا سکتا تھا ۔ لیکن صالحہ کو اس بات کی امید نہیں رہتی ہے کہ اس کے پوس پالک والدین اسکی مدد کریں گے اور نتیجتاً کچھ روز کے بعد جب غنڈوں کا مطالبہ پورا نہیں ہوتا ہے تو وہ دس سال کے دونوں معصو م بچوں کو مار کر انکی لاش درخت سے لٹکا دیتے ہیں ۔
ناول نگار کے مطابق صرف چھ مہینے کے اندر صالحہ کا پورا خاندان ختم ہو گیا لیکن ایک بار بھی صالحہ نے خود کشی کی کوشش تو دور ، اس کے بارے میںسوچا بھی نہیں (جبکہ ایسا خیال آنا ایک فطری امر تھا )۔ اس کے پیچھے غالباً یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ ناولٹ میں تین مقامات پر صالحہ کے حوالے سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ ’ایک مضبوط ارادوں والی عورت‘ اور’ہمیشہ سے ایک طاقتور ارادوں والی لڑکی‘ رہی ہے ۔ اب صالحہ، جس کے متعلق یہ کہا جا چکا ہو کہ ’’تم میں صحیح فیصلہ لینے کی طاقت ہے جسے لینے میں تم دیر بھی نہیں لگاتیں‘‘، اس کا کردار بلند تر دکھانا کہیںنہ کہیں ایک مجبوری بھی بن جاتی ہے ۔ بچوں کے مرنے کے بعد صالحہ اپنے والدین کے گھر جاتی ہے اور راستے میں وہ دیکھتی ہے اسکا آبائی قصبہ پوری طرح بد ل گیا۔ زندگی اپنے محور سے ہٹ چکی تھی اور حالات پہلے جیسے نہیں تھے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ سانحات صرف اسکی زندگی میں ہی نہیں پیش آئے ہیں بلکہ پوری خلقت مصائب سے دوچار ہے صرف انکی نوعیت مختلف ہے ۔ ریلوے کھنڈروں سے گذرتے وقت گھروں کی شکستہ حالی اس کے لئے تعجب کا سامان کرتی ہے اور اس کی ملاقات ایک ایسے زخمی شخص سے ہوتی ہے جو کچھ کہنے سے قاصر ہے۔ جسکا چہرہ پٹیوں میں بندھا ہوتا ہے اورایک آنکھ غائب ۔ صالحہ اس سے کھنڈروں کی بے بسی کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر پھر اسے خیال آتا ہے کہ ’’میرے اپنے دکھ کیا کم ہیں کہ دوسروں کے بٹورتی پھروں ۔‘‘ مگر یہ کہنے کے باوجود صالحہ اپنے باپ سے لئے گئے سارے پیسے اس زخمی شخص کی کھڑکی کے پاس رکھدیتی ہے اور جاتے جاتے اسے حوصلہ دیتی ہے کہ ’’اپنے آنسو بچا کر رکھئے ۔ وہ لوگ پھر آئیں گے اور آتے رہیں گے ۔‘‘ جسکا مطلب بقول غالبؔ یہ ہے کہ ’مو ت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں ۔‘ انسان جب تک زندہ ہے ، کسی نہ کسی شکل میں مصائب میں گرفتار ہوتا رہے گا اور سچ پوچھئے تو انسان کو اسکا غم ہی زندہ رکھتا ہے ورنہ خوشی میں اتنی حرارت اور توانا ئی نہیں جو انسان کو چند لمحوں سے زیادہ کی زندگی عطا کرسکے۔
اپنی زندگی میں ایسے دلدوز سانحات سے گذرنے کے بعد ناولٹ کے اختتام میں صالحہ کو اس بات کاعرفان ہو جا تا ہے کہ ’’ان چیزو ں سے باہر بھی کوئی دنیا ہے ۔‘‘ اور وہ اپنے اس گھر کو آگ لگا کر ، جو کبھی اس کا نہیں تھا، شہر سے نکل جاتی ہے ۔
زندگی اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ صالحہ پر وار کرتی ہے اور صالحہ مشاقی کے ساتھ اسکا مقابلہ کرتی ہے ۔ اگر اس ناولٹ کا مرکزی کردار کوئی مرد ہوتا تو شاید اسکے کردار میں اتنی پختگی کا امکان کم ہوتا جتنا کہ ایک عورت کے کردار میں مصنف نے پیش کیا ہے ۔ بغاوت اسی وقت ہوتی ہے جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچے ۔ زندگی کا ظلم جب اپنے عروج تک پہنچتا ہے تو صالحہ بھی ایک باغی کی طرح عزائم اور ارادوں کی تلوار لئے اسکا مقابلہ کرنے کھڑی ہوجاتی ہے ۔ اب اس میں جیت کسکی ہو گی ، یہ خارج از بحث ہے ۔ اس ناولٹ میں صدیق عالم نے فرد کی ذات کو ایسی طاقت دینے کی کوشش کی ہے جسکی مدد سے وہ اپنے تمام مصائب کا مقابلہ تنہا کرسکتا ہے اور اسے کسی خارجی امداد کی ضرورت نہیں۔ گرچہ ناولٹ میں خدا کا ذکر کہیں کہیں ضمناً کیا گیا ہے مگروہ خدا کو اپنے مصائب میں شامل نہیں کرتی ہے ۔ پوری کہانی میں صالحہ ایک مرتبہ بھی نہ مسکراتی ہے اور نہ ہی دعائیں مانگتی ہے۔ چاندنی رات کی تنہائی میں اکیلی بیٹھی صالحہ کو ایک پل کے لئے یہ خیال آتاہے کہ ’’کیا پروردگار اوپر بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے ؟ کیا اسے پتہ ہے کہ ہم انسان کتنی مصیبت بھری زندگی جی رہے ہیں ؟‘‘ اور اپنے بچہ کی گمشدگی کے بعد اسکا یہ سوچنا کہ ’’وہ کیسا خدا ہوگا جسے غریبوں کے آنسووں پر ذرا بھی ترس نہیں آتا ‘‘ اس بات کی بین دلیل ہیں کہ اسکا وجود خدا سے بیزار نہیں ہے لیکن وہ اپنی خودی کو زیادہ عزیز رکھتی ہے ۔ تمام حادثات کے باوجود وہ نمازیں بھی ادا کرتی ہے لیکن کبھی کچھ مانگتی نہیں ۔ سچ پوچھئے تو صدیق عالم نے اپنے اس کردار کو خودی کے ایک ایسے مقام پر فائز کردیا ہے جہاں بقول اقبالؔ ’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ‘‘۔ صالحہ کا یہ کردار اردو ادب کے لافانی کرداروں کے خانوادے میں ایک تازہ وارد کردار ہے جو اپنے اندر انسانی حیات کی ایک ایسی کائنات سموئے ہوئے ہے جسکو بیان کرنے کے لئے طوالت درکار ہے اور اس مختصر مضمون میں اپنی کم علمی کے سبب اس کا ایک غیر مکمل احاطہ ہی ممکن ہوسکا ہے لیکن اس پہ مزید تفصیلی گفتگو ابھی باقی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Dayem Mohammad Ansari
(Guest Lecturer, Deptt. of Urdu, Calcutta Girls’ College)
Q-596/E, Gulab Rab Lane, Garden Reach, Kolkata-700024
Mobile: 8777834566
E-Mail: dayemansari68@gmail.com

صدیق عالم کے ناول اور افسانے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.