سرسید کے انشائیوں میں بیانیہ اور وضاحت کی کارفرمائی
افسانوی نثر کے جس انداز کی نشاندہی کرتے ہوئے قصہ‘ کہانی اور کردار کے علاوہ خیالی یا قیاسی ہی نہیں‘ بلکہ ماورائی چیزوں کی نمائندگی ہوتی ہے بلاشبہ اسے فکشن کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں اگر سرسیداحمد خاںکا لکھا ہوا انشائیہ ’’عمررفتہ‘‘ یا ’’گزرا ہوا زمانہ‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اس انشائیہ کی حقیقت اس طرح ظاہر ہوگی کہ سرسیداحمدخاں نے باضابطہ تخلیقی انداز سے نہ صرف کردار پیش کیا ہے بلکہ کردار کو کہانی کے روپ میں ڈھالنے کے لئے بچپن‘ لڑکپن‘ جوانی اور بڑھاپے کی نمائندگی پر بھی توج دی ہے۔ افسانوی حقیقت کے لئے برس کی اخیررات میں پچھتاوے کی زحمت سے گزرتے ہوئے ایک ضعیف کو اس کی حقیقتوں سے وابستہ کرکے کہانی پن کی بنیاد کو حددرجہ مستحکم کیا گیا ہے۔ انشائیہ کے انداز میں سرسید نے افسانوی نثر کے بیشتر اجزاء کی نمائندگی تواتر کے ساتھ اس انشائیے میں شامل کی ہے۔ اسی طرح سرسیدکے ایک اور انشائیے ’’بحث و تکرار‘‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہانی کی علامتی خصوصیت اور انسانوں کی باہمی لڑائی کو پیش کرنے کے لئے سرسید نے اس انشائیے میں تخلیقی انداز اور کہانی کی خصوصیت کو شامل کرتے ہوئے انسانوں کے علاوہ جانوروں میں ایک دوسرے سے ٹکراؤ کو کہانی کے انداز سے پیش کیاہے۔ ان حوالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید کے بعض انشائیوں میں تخلیق کے حسن اور افسانوی نثرمیں ضرورت کے انداز سے تخلیقی حسیت کا جوہر بنایا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سرسید نے باضابطہ طور پر تخلیقی ادب یا پھر افسانوی نثر Fiction کی سب سے اہم ضرورت یعنی بیانیہ Narration کو اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔ چونکہ ان انشائیوں میں سرسید نے افسانوی نثر کی خصوصیت یعنی قصہ‘ کہانی اور کردار کے علاوہ ماوروائی اور خیالی انداز سے کیفیت کو بیان کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے‘ جو افسانوی نثر کی خصوصیت ہے‘ اس لئے سرسید کے ان انشائیوں کو افسانوی نثر Fiction کی نمائندگی کرنے والوںمیںشمارکیاجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سرسید کے ناقدین نے ان کے انشائیے ’’عمررفتہ‘‘ یا ’’گزرا ہوا زمانہ‘‘ کو انشائیے کے بجائے اردو کے پہلے افسانے کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ تاریخی پس منظر میں اگر انشائیے کو فنی اور ادبی اعتبار سے صرف اور صرف افسانوی نثر کی حیثیت سے قبول کرلیا جائے‘ تو انشائیہ نویس کے لئے میدان کھلا ہے کہ وہ انشائیہ نگاری کے دوران اگر چاہے تو غیرافسانوی نثر کی خصوصیت یعنی وضاحت Description کو استعمال کرے یا پھر اپنی مرضی کے مطابق افسانوی نثر کی خصوصیت یعنی بیانیہ Narration کے طریقہ کو فروغ دے۔ اس مباحث کے دوران یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انشائیہ نگاری میں تخلیقی عمل کی کارسازی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرجاوید وششٹ نے اردو کے اولین داستاں نویس ملاوجہی کی لکھی ہوئی 1635ء کی یادگار اور اردو کی پہلی داستاں ’’سب رس‘‘ کے مشاہدہ کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ دکنی میں لکھی ہوئی اردو کی پہلی تمثیلی کتاب اور رمزیہ ادب کی نمائندہ داستاں ’’سب رس‘‘ قرار دی جاتی ہے‘ لیکن ’’سب رس‘‘ بلاشبہ داستانوی نثر کی نمائندہ ہونے کے باوجود بھی اس داستانوی نثر کے ہمراہ غیرافسانوی انداز یعنی ’’انشائیہ‘‘ کا انداز شامل ہوجانا خود ثابت کرتا ہے کہ انشائیے کو صرف غیرافسانوی نثر کی حیثیت سے اہمیت دینا مناسب نہیں‘ بلکہ اس صنف نثر میں افسانوی نثر کی خصوصیت بھی شامل کی جاسکتی ہے‘ جس طرح سرسید کے انشائیوں میں ان دونوں خصوصیات جیسے بیانیہ اور وضاحت کا انداز موجود ہے۔ سرسید سے پہلے ملاوجہی کی لکھی ہوئی داستاں ’’سب رس‘‘ میں بھی داستاں ہونے کے باوجود غیرافسانوی نثر کا انداز ’’انشائیہ‘‘ کی جلوہ گری بھی واضح ہے۔ اس طرح قدیم دور سے لے کر جدید دور تک اردو میں انشائیہ نگاری کی خصوصیت یہی محسوس کی جاتی رہی کہ اس کے توسط سے افسانوی نثر کی نمائندگی بھی ہوتی رہی اور اس صنف کو غیرافسانوی نثر کی حیثیت سے بھی پیش کیا جاتارہا۔ جسے مثالوں کے ذریعے ثابت کیا جاچکا ہے۔ غرض ملاوجہی اور سرسید احمد خاں کے تخلیقی کارناموں میں افسانوی خصوصیات کے ساتھ ساتھ غیرافسانوی خصوصیات بھی جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ جس طرح افسانوی نثر کی تعریف و توصیف کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہے کہ انشائیہ میں Fiction کا انداز بھی نمایاں ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی Non Fiction کا طریقہ بھی۔ موجودہ دور میں لکھے جانے والے انشائیوں کے پس منظر میں یہی حقیقت واضح کی جاتی ہے کہ حالیہ انشائیہ نگاروں نے غیرافسانوی نثر کا انداز اختیار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں غیرافسانوی نثر کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے مجیدبیدار نے اس انداز سے تعریف کی ہے۔
’’قصہ کہانی کے برعکس دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی حقیقتوں اور انسانی زندگی کے رویوں کو جس نثر میں پیش کیا جاتا ہے ‘ اسے غیرافسانوی نثر یا Non Fiction کہا جاتا ہے۔ طویل عرصہ تک اردو نثر میں افسانوی اور غیرافسانوی نثر کا تصور موجود نہیں تھا۔ اگرچہ شعری اصناف پر کئی کتابیں لکھی گئیں اورشاعری سے متعلق تمام اصناف کا احاطہ کیا گیا ‘ لیکن نثری اصناف پر کوئی اہم کتاب عالم وجود میں نہیں آئی۔ گیان چندجین نے مربوط و مبسوط کتاب ’’ادبی اصناف‘‘ تحریر کی‘ اس کتاب میں بھی نثر کی اصناف کی توضیح کے لئے افسانوی اور غیرافسانوی نثر کا اندراج دکھائی نہیں دیتا۔ غرض اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسی تحریریں جن میں قصہ‘ کہانی‘ پلاٹ اور کردار کا وجود نہ ہو‘ بلکہ دنیا میں پیش آنے والی بے شمار حقیقتوں کو الگ الگ انداز سے نثر کے توسط سے ظاہر کیا جائے تو اسے غیرافسانوی نثر قرار دیا جائے گا۔ غیرافسانوی نثر کی اصناف کی تعداد حددرجہ زیادہ ہے اور دن بہ دن ان اصناف میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اردو نثر میں چونکہ قدیم دور سے ہی افسانوی نثر کا چلن رہا ہے‘ اس لئے غیرافسانوی نثر کا آغازکافی بعد میں ہوا‘‘(1)
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افسانوی نثر کے تمام اظہارات میں یکسانیت اور بیانیہ کی کارفرمائی موجود ہوتی ہے‘ جبکہ غیرافسانوی نثر میں بیانیہ کے بجائے وضاحت کا انداز کارفرما ہوتاہے‘ اس لئے ہر غیرافسانوی صنف کا انداز ایک جیسا نہیں ہوتا‘ بلکہ غیرافسانوی نثری اصناف میں شامل خصوصیات کو ان کی صنف کی حیثیت سے مختلف قرار دیا جاتا ہے‘ جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے۔
’’غرض غیرافسانوی اصناف کے توسط سے نثرکا ایک ایسا رجحان پروان چڑھ رہا ہے‘ جس کی وجہ سے مختلف طرز اظہار اور مختلف انداز کی نثر فروغ پارہی ہے کیونکہ ہر غیرافسانوی نثر اصناف میں اس کی ضرورت کے اعتبار سے اظہار کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے‘ جو انداز سفرنامے میں استعمال کیا جاتا ہے‘ وہی انداز سوانح نگاری کا حصہ نہیں بن سکتا۔ اسی طرح خودنوشت لکھنے کا طرز جداگانہ ہے‘ تو آپ بیتی اور تذکرہ نویسی کے تحریری انداز مختلف ہوں گے۔ خاکہ نگاری کا طرز‘ مقالہ نویسی کی نثر سے جداگانہ ہوگا۔ اسی طرح مراسلہ نویسی اور دیباچہ نویسی کے انداز کو دوسری غیرافسانوی اصناف نثر سے مربوط نہیںکیا جاسکتا۔ اس طرح افسانوی نثر کا انداز اور اس کی اصناف کے رویہ سے مختلف ہوجائے گا۔ اس طرح غیرافسانوی نثر کی اصناف میں ہر صنف اپنے انفرادی اسلوب کا تقاضہ رکھتی ہے۔ غرض ہر غیرافسانوی صنف کے اظہار کی جداگانہ انداز کی وجہ سے غیرافسانوی نثر اپنی اہمیت اور افادیت کا ثبوت فراہم کرتی ہے‘‘(2)
اس حوالہ کے ذریعہ واضح ہوجاتا ہے کہ غیرافسانوی نثری اصناف کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے۔ جس کے ساتھ ہی غیرافسانوی نثر کی مختلف قسموں کے نام اور تعارف کے ساتھ نہ صرف ان اصناف کی درجہ بندی انجام دی گئی ہے‘ بلکہ ان کی وضاحت کے ساتھ ساتھ مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔ چونکہ پیش کردہ مضـمون کے ذریعے انشائیہ کی نمائندگی مقصود ہے‘ اس لئے غیرافسانوی نثر میں شامل تمام اصناف کے بارے میں بھی نمائندگی ضروری ہے۔ ممکن ہے کہ انشائیہ میں بیانیہ کی خصوصیت شامل ہو‘ لیکن کوئی بھی انشائیہ نگار قصہ‘ کہانی‘ پلاٹ او رکردار کونمائندگ نہیں دیتا‘ بلکہ زندگی کی حقیقتوں اور دنیا کی نیرنگیوں کو پیش کرنے کا کارنامہ انجام دیتا ہے‘ چنانچہ انشائیہ نگاری میں وضاحت کا عمل کارفرما ہوتا ہے۔ انشائیہ کو غیرافسانوی نثر میں شامل کرنے کی بے شمار وجوہات ہیں ۔چنانچہ انشائیہ ہی نہیں بلکہ دیگر غیرافسانوی اصناف نثر میں بھی کہانی‘ کردار‘ پلاٹ اور زماں و مکاں کا تصور واضح نہیں ہوتا۔ ’’اردو کی دوسری نثری اصناف‘‘ میں شامل غیرافسانوی طرز کو ذیل کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔
’’-1 تذکرہ نویسی‘ -2 مضمون نگاری‘ -3سفرنامہ نگاری‘ -4خطوط نویسی‘ -5سوانح نگاری‘ -6خودنوشت سوانح‘ -7انشائیہ‘ -8آپ بیتی‘ -9دیباچہ نگاری‘ -10خاکہ نگاری‘ -11مقالہ نویسی‘ -12مراسلہ نگاری‘ -13رپورتاژ نگاری‘ -14روزنامچہ‘‘
سرسیداحمدخاں کے دور تک اردو میں بہت کم غیرافسانوی نثری اصناف کا آغاز ہوا تھا۔ تاہم تذکرہ نویسی کو میرتقی میر نے 1752ء میں ’’نکات الشعراء‘‘ کے ذریعے فروغ دیا۔ مضمون نگاری کو ماسٹررام چندر نے دہلی کالج کے توسط سے فروغ دیا۔ جبکہ 1847ء میں محمد یوسف کمبل پوش کے سفرنامہ ’’عجائبات فرنگ‘‘ سے اس غیرافسانوی نثر کو اہمیت حاصل ہوئی جبکہ مرزاغالب کے ’’خطوط‘‘ کے ذریعے مکتوب نگاری کا آغاز ہوا جبکہ سرسید نے اردو میں ’’انشائیہ نگاری‘‘ کی استرداد انگریزی اخبارات اسپیکنیٹر اور ٹیٹلر کے مضامین کے توسط سے جاری رکھی۔ اس دور تک افسانوی نثر کے بیانیہ اور غیرافسانوی نثر کے لئے وضاحت کی نمائندگی موجود نہیں تھی۔ اسی لئے سرسید کے ا نشائیوں میں بیانیہ کا انداز اور وضاحت کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔
٭٭٭
محمد علی عالم
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو یونیورسٹی آ ف میسور۔ کرناٹکا
فون نمبر : 8521437849
Leave a Reply
Be the First to Comment!