اسلامی تانیثیت کاپس منظر اور معاصر کلامیہ

 تعارف

تانیثیت سے متعلق گذشتہ تین دہائیوں کے دانشورانہ کلامیوں میں  ایک نئے رجحان نے مقبولیت حاصل کی ہے جس کا تعلق اسلام کے مقدس متون (قرآن و سنت) کی تفاسیر و تشریحات (احادیث، شریعت، فقہ وفتاوی وغیرہ) کی تشکیل نوسے ہے۔ اس کا بنیادی مقصداسلام کے مذہبی ادب اور مسلم معاشرے میں رائج صنفی امتیازات کو ختم کرتے ہوئے صنفی مساوات کی تلاش و جستجو، معاشرتی تشکیل نو، اور اس کے پس منظر میں شرعی امور کے ساتھ ہی ادبی تخلیق  کے زاویوں کو پیش کرنا ہے۔تانیثی کلامیوں کی یہ درجہ بندی اسلامی تانیثیت کے زمرے میں آتی ہے۔ اس سے متعلق دانشورانہ کلامیوں کو فروغ دینے والی دانشوروں نے اپنے مطالعات میں یہ واضح کرنے کی کوششیں کی ہیں کہ اسلام کے مقدس متون ،قرآن کریم اور احادیث ،کی جو بھی تفسیریں اور تشریحیں زمانوں سے مسلمانوںکے زیر مطالعہ رہی ہیں وہ پدر سری نقطۂ نظر پر مبنی ہیں (Barlas 2002; Mernissi 1991) ۔ معروف تانیثی مورخ اور صنفی مطالعات کی ماہر مارگوٹ بَدران کا خیال ہے(2008, 31)کہ 2002 میں اسما بَرلاس کی کتاب Believing Women in Islam: Un-reading Patriarchal Interpretations of the Qur’an  کی اشاعت تک اسلامی تانیثیت علم کی ایک شاخ کی حیثیت سے مستحکم ہو چکی تھی۔ اسلامی تانیثیت کی    معروف دانشوراور ماہر دینیات اسما برلاس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ متذکرہ تصنیف میں اس نے یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح قرآن کریم کی چھ ہزار سے زائد آیات میں سے صرف چھ آیات کی بنیاد پر خواتین کے ساتھ نا انصافی کی جاتی رہی ہے۔

سیکولر تانیثیت معاشرتی تحریک کی حیثیت سے مقبولیت ہوئی تھی جبکہ اسلامی تانیثیت بیسویں صدی کے اواخر میں عالمی پیمانے پر ایک دانشورانہ کلامیہ کی شکل میں نمایاں ہوئی جس کا مقصد صنفی مساوات کے کلامیوں کامذہب سے انسلاک ہے (Badran 2011, 81)۔ تانیثیت کے اس نئے کلامیہ نے سیکولر تانیثیت کی بعض اصطلاحات کو اپنا کر انھیں ’صنفی جہاد‘کا نام بھی  دیا ہے۔ اس کے مد نظر جنسی مساوات، مرد سالاریت، مردوں کے تئیں عورتوں کی خود سپردگی، خواتین بطور نائبۂ خدا، خانگی امور اور ذاتی معاملات، پردہ؍ حجاب، جسم کی آزادی، ترقی پسند قانون سازی مینڈیٹ، جماعتوں ؍ نمازوںمیں ان کی بطورخطیبہ و امامہ شمولیت ، مسائل طلاق، وراثت ، فقہ و فتاوی میں ان کی نمائندگی وغیرہ جیسیمعاملات شامل ہیں۔ ان کا تصور ہے کہ علم کلام اور علم حدیث مردعالموں کے لیے ہی مختص نہیں ہے کیونکہ حضور ﷺ کے زمانے میں اور اس کے بعد کے بھی عرصوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ان علوم پردسترس رکھتی تھی اور مختلف شرعی معاملات میں ان کی رائیں مستند مانی جاتی تھیں۔  2005کی بارسلونا میں منعقد اسلامی تانیثیت کی بین الاقوامی کانفرنس کے بعد تانیثیت کی یہ تحریک مزید تند ہو گئی۔سال 2020 میں منائے گئے بین الاقوامی یوم حقوق نسواں کے موقعے پر کئی مسلم ممالک، بشمول پاکستان، میں خواتین کے مظاہروں میں تکریم نسواں کی غرض سے جن موضوعات کو نمایاں طور پہ پیش کیا گیا ان میں خواتین کی جنسی آزادی، خواتین مخالف شرعی قوانین سے پہلو تہی،شرعی معاملات میں ان کی شمولیت کی مانگیں بھی نمایاں تھیں۔انھیں خواتین سے تعلق رکھنے والی اسلامی علمی روایتوں کی ’اندھی تقلید‘ منظور نہیںاور ان میں سے زیادہ تر قرآنیات اورعلوم قرآن کے کسی نہ کسی پہلو پر علمی دسترس بھی رکھتی ہیں۔

 مسلم تانیثیت پسندی بنام اسلامی تانیثیت پسندی

جن مسلم خاتون دانشوروں میں تانیثیت پسندی کا عمومی رجحان رہا ہے انھیں بنیادی طور پہ چار گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلا گروہ انیسویں صدی کے اواخر سے بیسویں صدی کے وسط تک فعال ان خواتین کا ہے جن پہ تانیثیت کی عالمی تحریک کی پہلی اوردوسری   لہر کے واضح اثرات موجود ہیں۔ ان کا اصل مقصد عورتوں کو تعلیمیافتہ بناناتھاتا کہ وہ اپنے معاشرتی حقوق سے آشنا ہو سکیں، خانگی اور معاشرتی امور میں مردوں کی برابری کر سکیں۔ اس مرحلے سے گذرنے کے بعد نمودار ہونے والی دوسری جماعت ان خواتین کی ہے جنھوںنے اپنے ممالک کے حکومتی یا معاشرتی معاملات اور مذہب (قرآن و سنت) کے احکامات کے نام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم ، صنفی امتیازات سے کبیدہ خاطر ہو کرآزادیٔ نسواں کی تحریک کی بذات خود ابتدا کی یا عالمی تانیثی تحریکوں سے فیضیاب ہو کر اس جانب مائل ہوئیں۔خواتین دانشوروں کی اس جماعت میں مذہب بیزار بھی ہیں، مذہبی روایات و تعلیمات کی پاسدار بھی،سیکولر بھی ہیں، مارکسی اور آزاد خیال بھی۔ ان میں سے زیادہ ترپدر سری معاشرے کی تکذیب کرنے کے باوجود شرعی پابندیوں کا لحاظ رکھتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پدر سری معاشرہ دہری یا دوغلی ذہنیت کا پروردہ ہے۔ وہ مذہبی احکام کو اپنے فائدے اور خواتین کے استحصال کے لیے استعمال کرتا ہے۔ان کے مذہبی اور معاشرتی حقوق اس مرد اساس معاشرے نے  سلب کر لیے ہیں۔ان خواتین کی سرگرمیاںبیسویں صدی کے اوائل سے چھٹے دہے تک رہیں۔ اردو کے تخلیقی تانیثی ادب کا بڑا حصہ ان کی ہی دین ہے۔ تیسری جماعت کا تعلق ان خواتین سے ہے جو متذکرہ گروہوں سے وابستگی کے باوجود یہ مانتی ہیں کہ ان کے دور یا عہد کے علما، فقہا یا مفتیان کرام شرعی تعلیمات و احکامات کی تشریح و تعبیر یوں کرتے ہیں کہ ان کی ذہنیت کا ’مردانہ پن‘ ان پہ حاوی نظر آتا ہے۔ گویا وہ شریعت کی روشنی میں ہی پدر سری مزاج کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان خواتین دانشوروں کا تمام زور اس پہلو پہ ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات و احکامات کاصنفی مساوات کے ساتھ غیر جانبدارانہ اطلاق ہونا چاہئے۔مسلم خواتین دانشوروں کی یہ جماعت ’مسلم تانیثیت پسند‘ کہلاتی ہے۔ان میں زیادہ تر خواتین دانشور وہ ہیں جن کا تعلق سیکولر تانیثیت سے تھا۔یہ تمام خواتین بیسویں صدی کے وسط میں نمایاں ہوئیں اوران میں سے کئی آج بھی فعال ہیں۔

مسلم تانیثیت پسندی کی ہی چند علمبرداریہ باور کرتی ہیں کہ حقوق نسواں، صنفی آزادی ، یا تانیثیت سے وابستہ عوامل کے سلسلے میں قرآن پاک میں وافر احکامات یا اشارے موجود ہیںاس لیے اس کے سلسلے میں کہیں اور سے خیالات مستعار لینے کی ضرورت نہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں اپنی آوازیں بلند کرنے والی اس گروہ کی دانشور خواتین کے لیے علمی اور عملی اعتبار سے اسلام اقدار حیات کا بے نظیر نمونہ ہے۔ وہ شرعی اور معاشرتی معاملات میںان اسلامی تعلیمات کی پاسداری کو اہم تصورکرتی ہیںجو نبی کریم ﷺ کے زمانے میں رائج تھیں۔ گرچہ ان کے یہاں خلفائے راشدین کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا، ان کا تصور ہے کہ اسلام کی جو نامیاتی صورت تھی وہی دراصل خالص تھی۔ اول الذکر تینوںگروہوں میںمذہبی، سیکولر ،حریت پسنداور ملحدتانیثائیں بھی ہیں اور ایسی خواتین بھی جو پدر سری نظام کے خلاف اسلامی تعلیمات کو ایک اسلحہ کی شکل میں استعمال کرتی ہیں۔موخرالذکر گروہ کی تانیثاؤں کے یہاں سیکولرزم اور حریت پسندی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے نزدیک افہام و تفہیم کے لیے مقدس اسلامی متون، بطور خاص قرآن کریم ہی واحد مآخذ ہے۔ وہ یہ مانتی ہیں کہ قرآن کی بعض آیات کی غلط تفسیریں پیش کی جاتی رہی ہیں، ایسی تفسیریں جن پہ مرد اساس ذہنیت کی نشانیاں نظر آتی ہیں۔ قرآن پاک، احادیث ، فقہ وغیرہ کی تانیثی باز قرات کو وہ خاندانی اور معاشرتی نظام کی بہتری کے لیے اہم تصور کرتی ہیں۔ اس  لحاظ سے یہ قطعی ضروری نہیں کہ مسلم تانیثاؤں کے یہاں اسلامی متون ہی مرکزی اہمیت رکھیں، لیکن اسلامی تانیثاؤں کے یہاں دینیات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، انھوں نے علم تفسیر و حدیث کو ہی اپنی دلچسپیوں کاموضوع بنایا ہے۔

مصر میں اسلامی تانیثیت کو موثر بنانے والیوں میں مسلکی اعتبار سے سُنی، مارگوٹ بدران اور امیمہ ابو بکر کے نام سر فہرست ہیں۔ اوکسفرڈ اور الازہرسے تعلیمیافتہ بدران نے سیکولر اور اسلامی تانیثیت کے تعلقات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دونوں انتہا پسند نظریات کے حامل ہیں۔ ان میں سے اول الذکر قوم پرست کلامیوں کو اہمیت دیتا ہے جبکہ موخرالذکر مرد سالاریت کی مخالفت کرتے ہوئے قرآن کریم کی اخلاقیات کی بنیاد پر صنفی مساوات  (Badran, 2013) کی حمایت کرتا ہے۔ بَدران نے Feminist, Islam and Gender: The Making of Modern Egypt (2000)  میںمصر جدید کی تاریخ میں تانیثیت پسندی کے رجحانات کا بھرپور جائزہ پیش کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلامی تانیثیت مسلموں اور غیر مسلموں دونوں ہی کے لیے عالمی طور پہ رجحان ساز ہے۔اس نے مسلمانوں کے اقلیتی اوراکثریتی طبقوں پر اس کے اطلاق کی حمایت کی ہے ۔قرآنیات کی ماہرہ امیمہ ابو بکر بھی اسے عالمی رجحان تصور کرتی ہے لیکن یہ بھی کہتی ہے کہ مغرب کے لیے عیسائی تانیثیت نسبتا ً زیادہ موثر ہے۔ بَدران نے الاحرام میں شائع اپنے مضامین میں بھی اسلامی تناظر میں اسلامی تانیثیت کی ضرورت و اہمیت کو نمایاں کیا ہے۔ امیمہ ابو بکر (2012) کا خیال ہے کہ اسلامی تانیثیت کو صنفی جدودجہد کہا جانا اس کی روح کے بر خلاف ہے۔

تانیثیت کے وسیع مفہوم میں صنفوں کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مساوات کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔یہ کہنا بھی نا مناسب ہے کہ اسلامی تانیثیت کسی غیر ملکی (بمعنی مغربی) ایجنڈے کے زیر اثر عورتوں کو مردوں کی مخالفت پر آمادہ کرتی ہے۔ بقول ابوبکر، اس کی اصل منشا یہ ہے کہ عورت اور مرد کے مابین توازن قائم رہے، ان کے تعلقات محفوظ رہیں اور عورتوں کی تعلیم و تربیت ایسی ہو کہ وہ خود مختار بن سکیں۔مردوں کے تئیں ان کی وفا شعاری ’مذہبی خود سپردگی‘ نہ ہو بلکہ وہ ربانی تعلیمات کے حوالے سے اپنے لیے جائز حترام و حقوق کا فہم حاصل کر سکیں۔

 اسلامی تانیثیت کے کلامیوں کا پس منظر

کم و بیش ایک صدی قبل سے ہی ایران، ترکی، لبنان اورمصر میں مسلم تانیثیت پسندی کی تحریکوں کی روایتیں ملتی ہیںجن سے وہ خواتین و حضرات وابستہ تھے جنھوں نے قرآن پاک کی بعض آیتوںکی پدرسری تفسیر کا برملا انکار کرتے ہوئے دین و شریعت کے نام پر عورتوں پہ مردوں کی بالادستی کی سخت مذمت اورمخالفت کی تھی۔ان میں مصر کے سعد زغلول پاشا، احمد لطفی السیدپاشا، محمدرشید رضا   ، محمد علی، ہدیٰ شعراوی، سیزا نَبراوی، ملک حِفنی نصیف، نبویۃ موسی، زینب الغزالی الجبیلی  کے علاوہ قاسم امین   وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے انیسویں صدی کے اواخر سے بیسویں صدی کے اولین دہوں تک اپنی تحریکی سرگرمیوں اور تصانیف کے ذریعہ دعوت دین، خواتین میں دین کے تئیں علمی اور شعوری بیداری، پردہ، کثرت ازواج، حقوق نسواں اور مساوات زن و مرد، ریاستی امور میں خواتین کی حصہ داری وغیرہ کے لیے آوازیں بلند کی تھیں۔

مصر میں عموما ً قاسم امین کو تانیثیت کا اولین امام سمجھا جاتا ہے۔یہ تصور بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ مصر میں آزادی ٔ نسواں کے لیے پہلے مصری مردوں نے یاغیر ملکی خواتین نے آوازیں بلند کی تھیں۔ مارگوٹ بَدران نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 1890 سے ہی مقامی مصری خواتین عورتوں سے متعلق مسائل اور تانیثی ضرورتوں پر اظہار خیال کرتی رہی ہیں۔تاہم قاسم امین وہ پہلا شخص تھا جس نے تانیثیت سے اپنی وابستگی کا برملا اعلان کیا تھا۔ اس کی 1899 کی تصنیف ’تحریرالمراۃ‘ (آزادی ٔ نسواں)کو پہلی تانیثی تصنیف ہونے کا مرتبہ حاصل ہے۔وہاں ابتداء ً آزادی ٔ نسواںکی تحریک اور قوم پرست تحریکیں شانہ بہ شانہ چل رہی تھیں۔قاسم امین نے قوم پرست تحریک کی کامیابی کے لیے عورتوں کو مساوی حقوق دئیے جانے کی مانگ کی اور اپنے مطالبات پیش کرنے کے لیے قرآن کریم کی بعض آیات کی نئی تفسیر بھی لکھی۔ اس زمانہ کے دقیانوسی معاشرہ نے اس کے دلائل کو ماننے سے انکار کر دیا، اس پہ حملے بھی ہوئے اور وہ سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کے عتاب کا شکار بھی ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنی دوسری تصنیف ’المرا ۃ الجدیدۃ‘ (جدید عورت)میں اسلامی متون سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے آزادی ٔ نسواں کے مغربی نظریات کا سہارا لے کر اپنے مطالبات پیش کرنے لگا۔ امین کے قوم پرست نظریات کو تانیثیت پسندی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ بنیادی طور پہ عورتوں کے روایتی صنفی کردار کا ہی حامی تھا۔ اس نے عورتوں کے حقوق کی باتیں محض اس لیے کیں تاکہ وہ اپنے نظریات کو مقبول عام بنا سکے۔یہی وجہ ہے کہ معاصر اسلامی تانیثائیں اسے تانیثی کلامیوں میں زیادہ اہمیت نہیں دیتیں۔ شروع میں ہدیٰ شعراوی اور ملک حفنی نصیف اس سے ہی متاثر تھیں اور اس کے ہی زیر اثر انھوں نے عورتوں کے حقوق کے لیے آوازیں بلند کیں۔  دونوںہی نے ابتداء ً مرد قوم پرستوں کے سیاسی نظریات کے اثر ات قبول کیے تھے۔ ہدیٰ قوم پرست نظریات کی حامی ہونے کے باوجود پہلی خاتون ہے جسے تانیثیت پسند کی حیثیت سے شناخت حاصل ہوئی ۔ اس کے ہی زیر ادارت 1937 میں عربی رسالہ المصریہ کی اشاعت بھی عمل میں آئی جس کے ذریعہحریت پسند تانیثیت کو فروغ دیتے ہوئے مصر کے مذہبی اداروں کو نشانہ بنایا گیا اور عورتوں کو مغربی طرز زندگی کی طرف آمادہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ہدیٰ کے یہاں بھی قوم پرستانہ عوامل موجود ہیں۔ اس نے اپنے تانیثی کلامیوں کو مغربی نظریات اور آزاد خیالی کی روشنی میں پیش کیاہے۔ اس نے 1923 میںالاتحاد النسائی المصری (Egyptian Feminist Union) کا بھی قیام کیا تھا ۔قاسم امین اور شعراوی دونوں کا اصل مقصد صنفی امتیازات ختم کرتے ہوئے عورتوں کو وہ حقوق فراہم کرنا تھا جس کا حکم اور اجازت قرآن کریم میں موجود ہے۔ ان کے کلامیوں میں سیاسی آہنگ یا سیاسی اسلام کی واضح نشانیاں بھی ملتی ہیں۔ اسی طرح نصیف کے تانیثی کلامیوں میں بھی پدر سری معاشرہ کے اثرات موجود ہیں۔ ان سب کے باوجود آزادی کے بعد مصر میں ان کی حمایت کرنے والیاں مرد قوم پرستوں کے ظلم کا شکار ہوتی رہیں۔ان میں ہی شعراوی کی رفیقۂ کاراور طالبات میںکچھ خواتین ایسی تھیں جنھوں نے مغربی حریت پسندی کی جگہ اسلامی قوانین کی حمایت میں آوازیں بلند کیں اور حکومت کو بھی نشانہ بنانے لگیں۔ جمال عبدالناصر کے دور حکومت میں ایسی دانشوروں کو سخت مظالم اور بربریت کا سامنا کرنا پڑا۔ان میں ہی ایک مصری دانشور دریۃ شفیق(1908-1976) تھی جس نے 1945 میں ماہانہ تانیثی جریدہ  بنت النیل کی اشاعت شروع کی اور اسی نام سے ایک سیاسی پارٹی کی تشکیل بھی کی جس میں صرف خواتین کی شمولیت ہوتی تھی۔ اس نے مروجہ اسلامی عقائد کی شدید مخالفت کی جس کے نتیجے میں الازہرکے علما اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ہی حکومت اور پدر سری معاشرہ کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑا۔ امینۃ السعید (1914-1995) بھی اسی روایت سے جڑی ہوئی تھی۔شفیق اور السعید دونوں ہی بے لاگ تبصروں اور صاف گوئی کے لیے مشہور تھیں۔ السعید نے 1954 میں خواتین کے لیے ماہنامہ حواکی اشاعت شروع کی تھی۔شعراوی اور اس سے متاثر یہ خواتین بنیادی طور پہ سیکولر تانیثیت کے دائرے میں رہ کر اپنے کام کر رہی تھیں۔

ہدیٰ شعراوی سے ہی متاثر ایک مفسرہ زینب الغزالی بھی تھی جس نے اسلامی روایات کی مشروعیت کے پہلو بہ پہلو طبقۂ اناث سے مفسرات کے ہونے کو لازمی قرار دیا تھا۔اس نے سیکولر تانیثیت کی مخالفت کی اور اس ضمن میں خالص اسلامی نقطۂ نظر کو فروغ دیا۔ اس نے خود دوجلدوں میںتفسیر قرآن بعنوان نظرات فی کتاب اللہ لکھی تھی۔  رضی الاسلام ندوی کا خیال ہے کہ زینب نے بطور خاص تفسیر ابن کثیر سے اپنے گہرے تاثر کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ دیگر تفسیروں کے مقابلے میں اس تفسیر کا ایک امتیاز یہ ہے کہ یہ ایک خاتون کی تحریر کردہ ہے۔ اس لیے اس میں حقوق نسواں سے تعلق رکھنے والی آیات کی عمدہ تفسیرملتی ہے اور قاری کے سامنے نسائی اپروچ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے(2013) ۔  زینب نے قدیم تفاسیر سے کما حقہ حوالے پیش کیے ہیںاور اختلافات سے گریز کیاہے۔ اس پہل کا ہی اثر تھا کہ اسلامی تانیثاؤں نے بعد ازاں صحابیات کی روایتوں کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ قرآن پاک کی تفسیر میں قدیم قاموسوں اور لغات سے معنی و مفہوم اخذ کرنے کا جو سلسلہ اس نے شروع کیا تھا، اسلامی تانیثیت کے موجودہ کلامیہ میں اس رویہ پہ بھی اصرار کیا جاتا ہے، اور اسی کی بنیاد پر بعض ان آیات کی نئی تفسیریں لکھی گئیں جن کی قدیم تفاسیر مرد اساسی ٹھیرائی گئی تھیں۔اپنی تنظیم کی ابتدا سے قبل زینب بذات خود ہدیٰ شعراوی کے ذریعہ قائم کی گئی تنظیم الاتحاد النسائی المصری سے بھی جڑی تھی۔شعراوی سیکولر نقطۂ نظر کی حامل مسلم تانیثیت پسندتھی ۔مسلم خواتین کے درمیان سیکولرزم کے بڑھتے رجحان کو دیکھتے ہوئے زینب نے اسلامی تانیثیت پسندی کے فروغ پر اپنی تمام محنت صرف کر دی۔ تمام تر سرگرمیوں کے با وجودصنفی حقوق کی بازیابی کے معاملے میںوہ بنیادی طور پہ پدرسری نقطۂ نظر کی ہی حمایت کرتی ہے (Al-Sharmani, 2014, p. 89) ۔ اس کے خیال میں مسلم خاتون کا بنیادی کردار بیوی اور ماں کا ہونا چاہیے۔ اس نے امور خانہ داری اور خانگی و خاندانی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے داعیانہ کاموں کو انجام دینے کی حمایت کی۔ خود اس نے اپنے پہلے شوہر سے اس لیے علاحدگی اختیار کر لی تھی کہ وہ اس کی تحریکی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا کرتا تھا۔ اس کے باجود اس کی تحریکی سرگرمیوں کی وجہ سے اسے اسلامی تانیثیت کی پاسدا ر (El Guindi, 2005, p. 53-78) تصور کیا جاتا ہے۔مشہور مصری ادیبہ اور علم بشریات کی پروفیسر فدوی الجندی کا خیال ہے کہ زینب الغزالی کی اسلام پسند تحریکوں نے بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے مصر میںاس وقت اسلامی تانیثیت کی بنیادوں کے لیے راہیں ہموار کیں جب مصری خواتین نے حجاب کا استعمال شروع کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کی ادا ئیگی کے ساتھ ہی انھیں اس کا حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کے قوانین پر بھی عمل کرتی رہیں۔بقول فدوی، اس ’علاقائی اسلامی تانیثیت‘کا اصل مقصد خواتین کو اسلامی مطالعات میں اس طرح شامل کرنا تھا کہ وہ مذہبی علوم سے بہرہ ور بھی ہوں اور ان سے متعلق ذخیرے میں اضافہ بھی کر سکیں۔زینب نے اٹھارہ برس کی عمر میں 1935 میں مصر میں جماعت سیدات المسلمات  (Muslim Women’s Association) کی بنا ڈالی تھی۔ اس جماعت کے قیام کا مقصد اسلامی احکامات کا صحیح نفاذ ، نو آبادیات مخالف نقطۂ نظر کا فروغ اور عربی خواتین کو اسلامی مطالعات کی جانب راغب کرنا تھا۔عربی خواتین میں شرعی معاملات میں بیداری پیدا کرنے والی عالمہ زینب الغزالی نے قرآن کریم کی تفسیر لکھ کر دینی امور میں علمی دلچسپی رکھنے والی خواتین کے لیے ایک مثال پیش کر دی اوریہ بھی واضح کر دیا کہ یہ میدان علم مردوں کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے۔

کِنسلٹومصر میں اسلامی تانیثیت سے وابستہ تحریک کو تانیثیت اور اسلام پسندی کا میل تصور کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اسلامی تانیثیت مسلمانوں سے متعلق مسائل کا تانیثیت کے اہم اصول کی ہی روشنی میں اسلامی متون کی باز قرات سے عبارت ہے۔مصر کی بنیادی سیکولر تانیثیت نے قرآن کریم کے ذریعہ دیئے گئے حقوق نسواں کی روشنی میں اسے فروغ دیا۔ تفسیر اور فقہی مسائل پر خواتین کی بڑھتی ہوئی گرفت کی وجہ سے اسے ترقی پسند اسلام کی ایک صورت بھی قرار دیا گیا۔اس کا خیال ہے (2008, 29) کہ تفسیر اور احادیث میں ان کے حامیوں کی دلچسپیوں اسے صنفی جہاد کی ایک صورت عطا کر دی ہے۔

زینب الغزالی کے علاوہ ابتداء ً سبھی بنیادی طور پہ سیکولر یا مسلم تانیثیت پسند تھیں۔ان کے مباحثوں میں سیکولر قوم پرستی، حقوق انسانی، جمہوری اور تجدید پسند اسلامی معاشرہ کی تشکیل جیسے عوامل شامل تھے۔ اس کے بعد عرب سے تعلق رکھنے والی اسلامی تانیثیت پسندوں، مثلا ً، مراقش کی فاطمہ مرنیسی، الجیریا کی آسیا جبار اورمصر کی نَوال السعداوی نے تمام تر عالمی اسلامی اداروں اور حکومتوں ؍ مملکتوں کو بے ایمان اورخواتین کے لیے جابر قرار دیا۔ انھوں نے اسلامی اصول و نظریات کی جا مدفطرت پہ سخت تنقیدیں کیںاور یہ اعلان کیا کہ بظاہر جو برحق ہے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے، اسے ترقی آشنا بھی ہونا ہے اور یہ ایسا موضوع ہے جس پہ عالمانہ بحث کی ضرورت ہے۔ نَوال السعداوی کا یہ بیان اس صورتحال کی بہترین نمائندگی کرتا ہے کہ ایک عہد کا مقدس حق دوسرے عہد میں ایسا حق بن جاتا ہے جو غیر مقدس یا بالکل غیرحق ہے(El Saadawi, 1985, p. 10)۔ان دانشوروں کا خیال ہے کہ اسلام کے اولین مرحلے میںہی عورتوں کو وہ تمام حقوق عطا کر دیئے گئے جن سے دور جاہلیت کی خواتین محروم تھیں۔ حضور ﷺ کی حیات مبارکہ کے دوران جس خاندانی اور معاشرتی نظام کی نشو ونما ہوئی اسے وہ حقیقی اسلام کہتی ہیں جس میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔اخلاقیات کی ایسی کوئی بھی صورت انھیں منظور نہیںجو اس زمانے میں موجود نہ تھی۔ عرب کی ہی اسلامی تانیثاؤں میں نظیرۃ زین الدین  (1982, 221-226) اور عزیزہ الحبری  (1982, 207-219)نے یہ تاویلیں پیش کیں کہ دور جاہلیت کے پدر سری معاشرے میں عورتوں کی بدحالی،اوران پر بپا کیے جانے والے مظالم کی تکذیب کرتے ہوئے پیغمبر اسلام ﷺ نے انھیں معاشرے میں ایک بلند مرتبہ اور وقار عطا کیا تھا جس کی رو سے عورتوں کو مساوی حقوق اور آزادی حاصل ہوئی تھی۔لیکن محمد ﷺ کے ذریعہ دی گئی تعلیم اور بعد کی اسلامی روایتوں میں فرق ہے کیونکہ موخرالذکر میں جا بجاپھر مرد اساس ذہنیت کے مظاہرہے ملتے ہیں۔

ایران میں مسلم تانیثیت کی تحریکوں کی موثر روایت رہی ہے۔ یہ تصور بھی عام ہے کہ اسلامی تانیثیت کی ابتدا دراصل ایران کی اہل تشع خاتون دانشوروں نے ہی کی۔ لیکن اکیسویں صدی کے آغاز تک یہ تحریک اتنی شدت اختیار کر چکی تھی اس میں بلا تفریق مسلک خواتین دانشوروں کی ایک بڑی جماعت دلچسپی کا اظہار کرنے لگی۔ ان میں اہل تشع (جعفری، زیدی)کے ساتھ ہی حنفی ، شافعی، مالکی اور حنبلی مسلکوںکی خواتین شامل ہیں۔ ان میں بعض نو مسلم بھی ہیں اور کچھ ملحد بھی۔مجموعی طور پہ ان سب کا اس امر پہ اتفاق ہے کہ مسلکوں سے قطع نظر، جتنی بھی روایتی تفسیریں، فقہ وغیرہ کی تصانیف ہیں ان میں بڑے پیمانے پر پدر سری ذہنیت کی وجہ سے خواتین کو مردوں سے کمتر یا کم مرتبہ دکھا یا گیا ہے۔ یہ طریقۂ کار یا انداز فکر اسلام کی تعلیمات کی اصل روح کے منافی ہے۔ ایران میں اس تحریک کے زیادہ پرزور ہونے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہاں خواتین نے رضا شاہ پہلوی کے دور بادشاہت میں جو آزادیاں حاصل کر لی تھیں ان پہ1979 کے انقلاب ایران کے بعد پابندیاں عائد ہو گئیں۔

مُغیدم   (2002, 1135)  کا خیال ہے کہ ایران میںخواتین کے زیر انتظام پریس نے اسلامی تانیثیت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ان سے وابستہ زیادہ تر خواتین صدر محمد خاتمی کے ذریعہ شروع کی گئی اصلاحی تحریک سے وابستہ تھیں۔ ان میں ’زنان‘ کی مدیر شہلا شرکت، ’پیام ہاجر‘ کی مدیر اعظم طالقانی، صدر ہاشمی رفسنجانی کی صاحبزادی اور اخبار ’زن‘ کی مدیرہ فائزہ ہاشمی رفسنجانی، ’زنِ روز‘ میں مسلسل شائع ہونے والی سابق وزیر اعظم میر حسینی موسوی کی اہلیہ زہرارہنورد، ایرانی پارلیمنٹ کی سابق رکن مریم بہروزی، ’فرزانہ‘ کی مدیر معصومہ ابتکار (فی الحال ایران کی نائب صدر برائے خواتین و عائلی امور)اور محبوبہ اُمی جیسی اعلا تعلیم یافتہ اور طاقتور خواتین شامل تھیں۔ ان کی کوششوں سے ہی بیسویں صدی کی آخری دہائی سے ایران میں تانیثیت نے ایک طاقتور تحریک کی صورت اختیار کر لی تھی۔ چونکہ اس کا تعلق مذہب و شریعت سے تھا اور یہ تانیثی تحریک شریعت کے نام پہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت کے بعض خواتین مخالف فیصلوں کے رد عمل میں نمودار ہوئی تھی، اس لیے ماہرین نے اسے بھی اسلامی تانیثیت کا نام دیا ہے۔ اس تحریک سے وابستہ ادیبائیں قرآن و احادیث کی روایتی تفسیر وتشریح کی بجائے ایسی تفسیروں اور تشریحوں کی ضرورت محسوس کرتی ہیں جو خواتین کے ذریعہ لکھی گئی ہوں۔اسلامی تانیثیت کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ اپنے تاریخی تناظر میں اسلام ترقی پسند مذہب رہا ہے جس میں عورتوں کے حقوق کبھی بھی نظر انداز نہیں کیے گئے ۔ لیکن اس کی تعلیمات کی تفسیر و تعبیر بنیادی طور پہ پدر سری رہی ہے۔ اسلامی تانیثیت کی نظریہ ساز یہ کہتی ہیں کہ قرآن پاک کی تفاسیر ، اور احادیث و شریعت کے معاملات پہ وہ نقطۂ نظر حاوی رہا ہے جسے مرد اساسی کہا جاتا ہے۔اس فکری انقلاب کا ہی نتیجہ تھا کہ ایران کی پارلیمنٹ کی ایک خاتون رکن مریم بہروزی نے یہ برملا اعلان کیا کہ معاشرے میں تغیر و تبدیلی نقصاندہ نہیں ہے لہذا ہمیں ان روایتوں کی پاسداری کی ضرورت نہیں جن کا تعلق مرد سالاریت، زن ستیزی، اور تحقیر زناں سے ہو۔ یہ وہ منفی قدریں ہیں جو اسلام کے نام پر ہمارے ملک کے باشندوں کو سکھائی گئی ہیں (1994)۔

شہلا شرکت اور اعظم طالقانی جیسی سیاسی مدبروں نے جب ایران میں عورتوں کے حقوق کے لیے اپنی آوازیں بلند کیں تو آیت اللہ خمینی اور ہاشمی رفسنجانی کی حکومتوں سے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انقلاب ایران کے بعد اسلامی قوانین کا جس سختی کے ساتھ نفاذ ہوا، اسی سرعت سے وہاںاسلامی تانیثیت کی لہریں موجزن ہونے لگیں، اور ہر ایسے قانون کی مخالفت کی جانے لگی جس کا تعلق خواتین کے حقوق کے سلب کر لیے جانے سے تھا۔ گویا ایران کی اسلامی تانیثاؤں کے مد مقابل براہ راست وہاں کی حکومت تھی جس نے اسلامی شریعت کے نفاذ میں خواتین کو وہ حقوق نہیںدیے جن کی اجازت دین و شریعت نے دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ان مذہبی سیاسی رہنماؤں کے خلاف اپنی آوازیں بلند کیں جو مذہب کی آڑ میں ایران میں پدر سری معاشرے کی تعمیر میں منہمک تھے۔

حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے حقوق کی بازیافت کرنے والی یہ خواتین1979 کے اس انقلاب میں بھی شامل تھیں جس نے رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کو ختم کرتے ہوئے اسلامی جمہوریۂ ایران کے لیے راہیں ہموار کی تھیں۔ ایران میں  خانم لیلیٰ، ہما زرابی، پروین خلعت باری اور مہر انگیز جیسی خواتین تھیں جو ملکی ہی نہیں، بین الاقوامی معاملات کی نگراں بھی تھیں۔  خانم مستورہ افشاری، خانم صدیقہ اصفہانی،خانم طوبیٰ آزمودہ اور پروین اعتصامی وغیرہ  نے ایران میں تعلیم نسواں اور تانیثیت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ملکہ شہبانو نے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے جو اقدامات کیے ان کی ہی بنیاد پہ انقلاب کے بعد ایران میں اسلامی تانیثیت کو عروج حاصل ہوا۔شہبانو کی کوششوں سے ایران میں نافذ کیے گئے Family Protection Act 1967, 1973 کو اسلامی جمہوریۂ ایران نے کالعدم قرار دیا۔ ان قوانین کے ذریعہ کثرت ازواج پر روک لگائی گئی تھی، لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھائی گئی تھی اور عورتوں کو طلاق دینے کا حق دیا گیا تھا۔ ان قوانین کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ حجاب کے استعمال کو ضروری ٹھیرایا گیا۔ ان کے علاوہ کئی ایسے قوانین بنائے گئے جن کی رو سے عورت، خاندان اور جنسی رشتوں کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

 قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان نے پاکستانی حکومت میں حقوق نسواں کی بحالی کے لیے یادگار کارنامے انجام دیئے تھے۔ پاکستان بنیادی طور پہ ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے قائم ہوا تھا جہاں ابتداء ً خواتین کو کئی سیاسی حقوق بھی حاصل تھے لیکن 1970 کی دہائی میں ضیاء الحق کی حکومت کے دوران وہاں سیاسی اسلام کی جڑیں مضبوت ہونے لگی تھیںجس کی وجہ سے رفتہ رفتہ دائیں بازو کے حامیوں اور دقیانوسی گروہوں نے پاکستان میں شریعہ قانون کے نفاذ کے لیے آوازیں بلند کیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ 1979 میں پاکستان میں زنا، ڈکیتی، چوری  جیسے معاملات پر بدنام زمانہزن بیزار حدودقانون کا نفاذ ہو گیا  (Jamal, 2005, p.51) ۔ 1984 میں قانون شہادت کے ذریعہ کسی ایک مرد کی شہادت کو چیلنج کرنے کے لیے دو خواتین کی شہادت کو لازمی قرار دیا گیا  (Gardezi, 1990, p. 18)۔ 1980 تک پاکستان میں عورتوں کو دوئم درجے کے شہری جیسا مرتبہ دیا جانے لگا اور معاشرے پر پدر سری خیالات کے حاوی ہونے کی وجہ سے خواتین کئی بنیادی حقوق سے محروم ہو گئیں۔ اس دوران ان قوانین کی مخالفت میں حقوق نسواں کی بازیابی کے لیے کچھ انجمنیں قائم ہو چکی تھیں۔ بے نظیر بھٹو  کے ہٹنے کے بعد پاکستان کی کاؤنسل فار اسلامک آئیڈیولاجی نے خواتین کی تحریکوں کی پر زور مخالفت کی اور عوامی مقامات پر ان کے مظاہروں پر پابندی لگا دی  (Cheema, 2012) ۔

پاکستان میں تانیثیت کی دو اہم دھارائیں ہیں، سیکولر آزاد خیال اور اسلامی۔ اول الذکر نے تانیثیت کو عالمی اقدار انسانی کی توسیعی صورت تصور کرتے ہوئے مرد و زن کے مساوی حقوق کی وکالت کی ہے۔ پاکستان کے سیکولر تانیثی کلامیوں میں جن دانشوروں یا تحریکی مزاج کی حامل خواتین کی نمایاں خدمات ہیں ان میں  شہناز روز، فوزیہ سعید، فریدہ شہید، خاور ممتاز اور نگہت سعید خان کے نام اہم ہیں (Serez, 2017, p.64)  ۔ ان کا اصرار ہے کہ ریاستی امور کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی نگاہ میں اسلام بذات خود ایک مسئلہ ہے ۔ سیریز نے فوزیہ سعید کے سلسلے میں لکھا ہے کہ وہ ملازمت یا کاروبار کی جگہوں پر اپنے خلاف ہونے والی جنسی زیادتیوں کا بر سرعام اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ سب مردوں نے محض اسلام و شریعت کی آڑ میں کیا تاکہ وہ ملازمت نہ کرے  (Serez, 2017, p.64) ۔کشور ناہید ور ان جیسی دیگر ادیباؤں  کے معاملات سے اردو آبادی اچھی طرح واقف ہے جنھوں نے قول و عمل کے اعتبار سے اسلام کے ماننے والوں کی دوغلی ذہنیت کا پردہ فاش کیا ہے۔ بقول زہرہ عابد، جنسی زیادتیوں نے ہی فوزیہ کو سیکولر تانیثیت کی جانب مائل کیا  (2011)۔ اسلام یا شریعت کے نام پر کی گئی جنسی زیادتیوں کا ہی اثر ہے کہ فوزیہ اسلام اور جنسی مساوات میں بعد مشرقین کا ذکر کرتی ہے۔ تقریبا ً تمام ہی پاکستانی سیکولر تانیثائیں پاکستانی عورتوں کے لیے غیر اسلامی تصور مساوات کا درس دیتی ہیں۔ان جنسی زیادتیوں کا ذکر اسلامی تانیثاؤں کے یہاں بھی ہوتا ہے لیکن سیکولر تانیثاؤںکے بر خلاف ان کے یہاں دائرۂ اسلام میں رہتے ہوئے اس کی مخالفت پر آمادگی ملتی ہے۔ ان کا تصور ہے کہ مرد حضرات بھی خواتین کے حقوق کا فہم رکھیں اور خواتین اسلام کا اس طرح مطالعہ کریں کہ ان حقوق کی کما حقہ واقفیت حاصل کر سکیں جو انھیں دین و شریعت نے عطا کی ہیں۔ وہ پاکستان کے شریعہ قوانین کے لیے اسلام کو مورد الزام نہیں ٹھیراتیں بلکہ ان نام نہادعلما کو ذمہ دار تصور کرتی ہیں جنھوں نے مرد سالاریت کے زعم میںاسلامی تعلیمات کی ایسی تشریح کی جس کی وجہ سے عورتیں حقوق سے محروم ہی نہیںہوئیں، مظلوم بن کر رہ گئی ہیں۔ وہ دین کے ذریعہ دیے گئے حقوق کو موجودہ پاکستانی کلچر سے ہم بست کرتے ہوئے یہ کہتی ہیں کہ انھیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ مغربی تانیثیت نے مغربی خواتین کو کیا حقوق عطا کر دیے، ان کا تعلق اس سے ہے کہ انھیں وہ حاصل ہو جائے جس کی اجازت قرآن کریم نے انھیں دی ہے (Hebert, 1998, p. 1)  ۔ مغربی تصورات کو رد کرتے ہوئے قرآن کی تعلیمات کو اپنانے کی وجہ سے اسلامی تانیثیت معاشرے کے نچلے، درمیانی اور اعلی اوسط طبقے کے لیے موثر ثابت ہوئی ہے (Cheema, 2012) ۔ گویا اس تحریک کی بنیادپرست دینیات اشرافیہ اور بائیں بازوکی سیکولر تانیثاؤں کے بمقابلہ زیادہ مقبول ہوئی  (Serez, 2016, p. 65)۔ دیگر ممالک کے بمقابلہ پاکستان میں سیکولر اور اسلامی تانیثاؤں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہے کہ ان کے مابین کسی مثبت مکالمہ کی گنجائش نہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ پاکستان میں طبقاتی ناہمواری سے پیدا ہونے والا وہ وسیع خلا ہے جو اعلا، اوسط اور نچلے طبقوں کے درمیان موجود ہے۔ تانیثیت کی تعریف اس امر پہ منحصر کرتی ہے کہ اس خاتون کا تعلق کس طبقے سے ہے  (Serez, 2016, 65)۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کے تئیں جو رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس کا تعین اس پہ ہوتا ہے کہ وہ کس معاشرتی طبقہ سے تعلق رکھتی ہیںاور اس لیے پاکستان کا اسلامی قانون بھی ان پہ اسی طرح اثر انداز ہوتا ہے (Akhtar and Metraux, 2013, p. 35 ) ۔ پاکستان میں 2018 اور 2019  کے بین الاقوامی یوم خواتین کے دوران ’عورت مارچ‘ میں ’میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ دیا گیا تھا ۔ 2020 کے مارچ کے دوران ’اسلام نے تو حقوق دیئے، مرد کب دیگا‘، ’مجھے آزادی نہیں، تحفظ چاہیے‘، ’گالی نہیں، خود مختاری دو‘ جیسے نعرے لگائے گئے تو پاکستان کے مرد ہی نہیں، خواتین نے بھی ان تانیثی رہنماؤں کو یہ یاد دلانے میں تاخیر نہیں کی کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے اور جو خواتین  اس قسم کی مانگیں کررہی ہیں ان  کی کردار سازی کی ضرورت ہے۔

   اسلامی تانیثیت کی اقسام

  سویڈن کے ایک ماہر دینیات ، ہارپے (1995) ،نے اسلامی تانیثیت کے زمانۂ آغاز میں ہی یہ واضح کر دیا تھاکہ اسلامی ممالک میں تانیثیت کی چار صورتیں ملتی ہیں، لادینی تانیثیت، سیکولر تانیثیت،مسلم تانیثیت اور اسلامی تانیثیت۔ لادینی تانیثیت پسندوں کی نگاہوںمیں اسلام خاتون مخالف ہے۔ سیکولر تانیثیت پسند اسلام کے تئیں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرتی ہیں۔ ان کا اصرار اس پہلو پہ  ہے کہ وہ جس ملک میں مقیم ہیں وہاں کے معاشرے میں اسلام کا پدر سری نظام بالادستی رکھتی ہے یا آحریت پسند اسلامی نظام۔ وہ یہ تو مانتی ہیں کہ مذہبی تحریکوں یا مذہبی حکومتوں میں خواتین کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے لیکن اس کی مخالفت کے لیے وہ اسلامی عقائد کی مخالفت پہ کمر بستہ نہیں ہوتیں ۔مسلم تانیثیت پسند مذہبی (اسلامی)حریت پسندی یا روشن خیالی کی حمایت کرتے ہوئے اسے عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہیں۔ قرآن کریم کویہاں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہے جبکہ تفاسیر اور احادیث کو وہ پدرسری مانتی ہیں۔ان کی نگاہ میں ام الکتاب کا تانیثی مطالعہ اس لیے اہم ہے کہ اس  سے مردوں کے نقطۂ نظر سے الگ ایک غیر جانبدارانہ تفسیر و تشریح منظر عام پر آسکے جو مردانہ ذہنیت کے بر خلاف لیکن خواتین کے مفاد میں ہو۔  اسلامی تانیثیت پسندوں نے مطالعہ کے اس انداز کو وسعت عطا کرتے ہوئے احادیث کی نئی تشریح، فقہی مسائل اور شرعی معاملات میں خواتین کو بااختیار بنانے پر زور دیا۔امامت، دارالقضا اور فقہ و فتاوی کے معاملے میں خواتین کی شمولیت ان کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تفسیری ادب کے ساتھ ہی اسلامی قوانین کے وہ تمام اجزا جن سے خواتین کا تعلق ہے، ان کے روایتی مفاہیم کی تشکیل و تعبیر نو پر اصرار کیا جانے لگا۔

تانیثیت کے مباحث جس طرح مختلف شقوں میں منقسم ہوتے گئے اسی طرح اسلامی تانیثیت کا ذخیرۂ ادب بڑھنے کے ساتھ ہی اسے بھی چند حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ المانی – مصری ادیبہ اور سیاسی امور کی مشیر ہدیٰ صلاح  (2010) نے تین مصری اسلامی تانیثیت پسندوں کے حوالے سے اسلامی تانیثیت کے کلامیوں میں فعال نظریہ سازوںکو تین حصوں میں منقسم کیا ہے: دقیانوسی،آزاد خیال اورانتہا پسند۔اول الذکر کے ضمن میں صلاح نے الازہرمیںفقہ کی پروفیسر سعاد صالح کا ذکر کیا ہے جس نے ان خواتین کو فتوی دینے کی حمایت کی ہے جو عالمہ ہیں اور اس علم پہ دسترس رکھتی ہیں۔ آزاد خیال اسلامی تانیثیت پسند کی حیثیت سے اس نے استنبول کی ابن خلدون یونیورسٹی میں سیاسی نظریات اور ثقافتی مطالعات کی پروفیسرہِبہ رؤف عزت کی مثال پیش کی ہے جو اسلامی مفکر، سیاسی علوم کی ماہرہ ہونے کے ساتھ ہی مغربی تانیثی روایت کی سخت نکتہ چیں بھی ہے۔ وہ صنفی بنیاد پر قانونی اصلاحات کی وکالت کرتی ہے۔ اس نے، بالفاظ الشرمانی (2014, 25) ، ان کلاسیکی اور معاصر مذہبی تشریحات کا تنقیدی مطالعہ بھی پیش کیا ہے جو خواتین کو کم ترمرتبہ یا درجہ عطا کرتے ہیں۔ موخرالذکرکی حیثیت سے مصر کے نصر حامد ابو زیدکا ذکر کیا گیا ہے جو قاہرہ یونیورسٹی میں اسلامی مطالعات کا پروفیسر تھا۔ابو زید نے قرآن کریم کی تفسیر کا ایک نیا نظریہ پیش کیا تھا جس کے مطابق قرآن متن نہیں بلکہ تاریخی ڈسکورس ہے، اس لیے اس میں معانی کی کئی سطحیں ہیںجن کی جستجو کی جانی چاہیے۔

  یہ تینوں اپنے طریقۂ کار میں اس قدر مختلف ہیںاور ان کے مقاصد بھی اتنے غیر متعلق ہیں کہ انھیں اس تقسیم کے مطابق قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں الشرمانی کا یہ خیال (86) مناسب ہے کہ اسلامی تانیثیت کو اس کے کلامیوں کے تناسب سے دو بنیادی اور دوذیلی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: پہلا حصہ ان علمی کاوشوں کا ہے جن میں قرآن کریم اور اس کی تفسیر کی روایتوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس کی مثال کے طور پہ امریکی نومسلمہ مفکر امینہ ودود، پاکستانی امریکی دانشوراسما برلاس، جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں دینیات کی پروفیسرمیسم الفاروقی  ،یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ایمینوئل کالج میں مسلم مطالعات کی پروفیسر نوین ردا، اور قاہرہ یونیورسٹی میں انگریزی اور تقابلی ادب کی پروفیسراور مو سسۃ المراۃ والذاکرۃ (Women and Memory Forum) کی موسس  امیمہ ابو بکر   کے نام اہم ہیں۔ دوسری قسم ان کلامیوںکی ہے جن کی دلچسپی کا موضوع اسلامی فقہ ہے۔یونیورسٹی آف لنڈن کے مرکز برائے مشرق وسطی و اسلامی قوانین سے وابستہ ایران کی زیبا میر حسینی اوربوسٹن یونیورسٹی میں مذہبیات اور فقہ کی امریکی پروفیسر کیسیا علی  اس کی بہترین نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے علاوہ اسلامی تانیثیت کا پہلا ذیلی حصہ ان کلامیوں پر قائم ہے جن کا تعلق احادیث کی روایتوں کے مطالعہ سے ہے۔ اس کی نمائندگی جنوبی افریقہ کی کیپ ٹاؤن یونیورسٹی کے شعبۂ مذہبی مطالعات میں سعدیہ شیخ اورمغربی جاوا، انڈونیشیا کے The State Institute for Islamic Studies, Cirebon  میں فقہ کے پروفیسر اور ’ فہمینہ انسٹی چیوٹ‘، انڈونیشیا کے موسس فقیہ الدین عبدالقادر  کرتے ہیں۔ دوسرے ذیلی حصے میں اسلام کے اخلاقی، دینیاتی اور بطور خاص فقہی معاملات میں پدر سری اصول ونظریات کے اطلاق میں صوفیانہ روایات اورمتصوفانہ فکر کے اثرات کا مطالعہ شامل ہے۔ اس کی نمائندگی سعدیہ شیخ   کرتی ہے۔

اسلامی تانیثیت کے بنیادی کلامیے

ایران میں1992  میں شہلا شرکت کے رسالہ’ زنان‘  میں لکھنے والی ایرانی اسلامی تانیثیت پسندوں کے ساتھ ہی ترکی کی گل نیلوفر، یسیم آرات، فریدہ عکاراورسعودی عرب کی می یمانی نے بھی اسلامی تانیثیت کے  مباحث کو معروف و مقبول بنانے کے لیے نظریاتی خدمات انجام دی ہیں۔ می یمانی نے  Women in Islam (1996) ، ترکی کی نیلوفر گل نے 1996 میں ہی شائع  The Forbidden Modern  میں، جنوبی افریقہ کی شمیمہ شیخ نے اپنے مقالات میں، اسما برلاس اور امینہ ودود نے اپنی تصانیف میں اس اصطلاح  کے بنیادی کلامیوں اور نظریاتی مباحث کو  مغربی زبانوں میں پیش کرتے ہوئے بڑے پیمانے پرمعاصر تانیثی کلامیہ کا حصہ بنایا ہے۔ زیبا میر حسینی (1996, 285) نے یہ سوال قائم کیا تھا  کہ شریعہ متون کے ذریعہ خواتین پر عائد کی گئی پابندیوں پر کس وسیلے سے اور کس حد تک مکرر گفت و شنید کی جا سکتی ہے؟اس نے شریعہ کی تشریح نو کوشدت پسند اسلامیت (سیاسی اسلام) کے خلاف ایک موثر تدبیر کی شکل میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ امیمہ ابو بکر کے لفظوں (2011, 1)میں یہ محض تشریح نو نہیں، نفی ٔ تشریح بھی ہے۔ لیلی احمد (1992) نے اسلامی قوانین کے نفاذ میں عورتوں کی حق تلفی پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ کئی ممالک میں قانون خانوادہ پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔امیمہ ابو بکر، رفعت حسن، امینہ ودود، اسما برلاس وغیرہ نے تفصیل کے ساتھ یہ وضاحت پیش کی ہے کہ اسلام کے تصور توحید میں مرد سالاریت کی گنجائش ہی نہیں ہے۔رفعت حسن قرآن کریم کو حقوق انسانی کا منشور عظیم مانتی ہیں۔میر حسینی (2003) اور کیسیا علی (2006) صنفی امتیازات پر مبنی اسلامی فقہ کی ردتشکیل پر اصرار کرتی ہیںتو حسن کا خیال ہے کہ ایک عربی لفظ کئی معانی رکھتا ہے تو اس صورت میں ایسے معنی کو کیوں ترجیح دی جاتی رہی ہے جس کا تعلق تحقیر زناں سے ہے۔ سورۃ نسا کی 34 ویں آیت کے معانی، تفسیر وتشریح پر ان میں سے کئی اسلامی تانیثیت پسندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

 بقول بدران  (2002, 17) ،  پچھلے ہزارے کی آخری دہائی کے نصف تک دنیا کے کئی گوشوںمیں مسلم خواتین دانشوروںکے یہاں اصطلاح اسلامی تانیثیت کے ا ستعمال کی مثالیں ملتی ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں فاطمہ مرنیسی کی تصنیف Women and Islam: A Historical and Theological Enquiry (1991) ، امینہ ودود کی تصنیف Qura’n and Women:  Reading the Sacred Text from a Woman’s Perspective (1992)   اوراکیسویں صدی کے آغاز میں 2002 میں منظر عام پر آنے والی اسما بَرلاس کی کتابBelieving Women in Islam: Un-Reading Patriarchal Interpretations of the Qur’an کی اشاعت کے ساتھ ہی اسلامی تانیثیت کے مباحث اور کلامیوں نے نہ صرف یہ کہ ایک مستحکم دانشورانہ روایت کے فروغ پر مہر تصدیق ثبت کر دی، تانیثیت کے مکمل کلامیوں میں اس کی حیثیت و انفرادیت بھی متعین کر دی۔ اسلامی تانیثیت کی اولین نظریہ سازوں میں شامل مصر کی اُمیمہ ابو بکرکا خیال ہے کہ تانیثیت کی مختلف صورتوں میں چند ایسی بھی ہیں جن کی جڑیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پہ مذہب میں پیوست ہیں۔ اس لحاظ سے اسلامی تانیثیت اسی روایت کی توسیع ہے جس کے  بطن میں ہی ان مباحث، کلامیوں اور طریقۂ کار کے جنین موجود ہیں جو جنسی بیداری اور غیر متعصب جنسی مباحث کے فروغ  کے لیے مستعمل ہو سکتے ہیں۔ یہی نہیں ،ان کے ذریعہ اسلامی قوانین کی روشنی میں ان حقوق کی بازیابی بھی کی جا سکتی ہے جن سے متبوع جنسی شعور کے مباحث بروئے کار لائے جا سکیں  (1999, 4) ۔ اُمیمہ اسے تانیثیت کی اسلامی اخلاقیات کہتی ہے۔ اسلامی تانیثیت ماضی میں فقہاکی’ جنسی تعصب پر مبنی تفسیر و تشریح‘  (Abou-Bakr, 2011, p.1)کی رد تشکیل سے عبارت ہے جس کے سہارے مرد سالاریت کی کاوشیں کالعدم قرار دی جا سکیں۔ مقدس اسلامی متون کی بازخوانی اسلامی تانیثیت کا محور فکر وعمل ہے۔اپنے مذہبی عقیدہ کی بنیاد پر شہلا شرکت، بہروزی، گورجی وغیرہم نے فقہ و فتاوی کے روایتی مکتبوں کو خارج کرتے ہوئے نئے اصول وضع کرنے کی ضرورت پہ زور دیا۔

امیمہ ابوبکر اوراسما بَرلاس دین کے مطالعات میں اجتہادکو نا گزیر تصور کرتی ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اس کا حق صرف انھیں نہیں ہے جو معاشرے کے ذریعہ متعین کیے گئے پیمانوں پہ حصول علم کرتے ہیں، یعنی مدرسوں یا اسلامی دانش گاہوں کے فارغین ہی اس کام کو انجام دیتے رہیں، یہ ضروری نہیں۔ یسمین مَول نے ان کے طریقۂ کار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے  (2009)کہ یہ روایتی اصول و ضوابط سے انحراف کرتے ہوئے اپنے مطالعوں میں معاصر علوم کی شاخوں سے استفادہ کرتی ہیں۔ان کے یہاں تاریخیت، ادبیت اور ردساختیات کے رویے ملتے ہیں۔ بعض معاصرین، مثلا ً،ابوبکر ،  بَرلاس،  بَدران، افسانہ نجم آبادی اور میر حسینی کا خیال ہے کہ اسلامی تانیثیت محض مسلم خواتین کے لیے ہی نہیںبلکہ مجموعی طور پر مذہبی روایات کے ریفارم کے لیے بھی اپنے کلامیوںاورسیاسی قدروں کی وجہ سے اہمیت رکھتی ہے(Al-Sharmani, 2014. p. 83)  ۔ وہیںبعض دانشوروں کی نگاہوں میں اسلامی تانیثیت سے تعلق ذخیرۂ ادب غیر منظم ہے اور متباین بھی۔ ان میں ویلنٹائن مُغیدم، ہیدا مُغیسی اور نیّرہ توحیدی کے نام اہم ہیں۔  تانیثاؤں کا ایک گروہ یہ باور کرتا ہے کہ اسلام کا تانیثیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مُغیدم نے واشنگٹن میں مقیم ایران کی آزاد خیال تانیثیت پسند مہناز اَفخمی  (ایران کی سابقہ وزیر برائے امور خواتین) کا یہ بیان پیش کیاہے کہ:

ہمارے اور اسلامی تانیثیت پسندوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہم تانیثیت کو قرآن میں فٹ نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ خواتین کے چند غیر قابل نفوذحقوق ہیں۔ اسلامی نظریۂ علم حقوق نسواں کے خلاف ہے۔ میں خود کو مسلم بھی مانتی ہوں اور تانیثیت پسند بھی۔ میں اسلامی تانیثیت پسند نہیں ہوں… یہ تضاد اصطلاحات ہے (2002, 1152) ۔

فاطمہ مرنیسی، عزیزہ الحبری اور رفعت حسن نے اسلامی متون کی ردتشکیل اور ان کی نئی تشریح کے لیے ’تانیثی دینیات‘ کے فروغ کو اہم تصور کیا ہے۔ایران کی شہلا شرکت ، افسانہ نجم آبادی اور ان جیسی دیگر دانشور جو قرآنیات کی ماہر ہیںاور اپنی تمام تحریروں میں قرآن کریم سے ہی حوالے پیش کرتی ہیں، اس خیال پہ متفق ہیں کہ خواتین کو اجتہاد کا حق حاصل ہے اور یہ حق بھی کہ وہ اسلامی قوانین کی از سر نو تشریح پیش کریں۔امیمہ ابو بکر اپنی تحریروں کو اجتہاد ہی کہتی ہے۔مصر کے مو سسۃ المراۃ والذاکرۃسے وابستہ خاتون دانشوروں نے بطور خاص عربی مطالعات کے ضمن میں اسلامی اور عربی دانشورانہ روایتوں کی باز قرات کے ذریعہ ایسی تصانیف پیش کی ہیں جن میں ’متبادل قرات‘ کے تحت صنفی مساوات اور ان کے قیام میں خواتین کے کرداروں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔سعودی عرب کی امیمہ ابوبکر اور نوال السعداوی نے کلاسیکی اسلامی مذہبی علوم اور اسلام کی تاریخ میں سماجی اداروں کے قیام میں خواتین کے کرداروں کو اجاگر کرتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ خواتین کے لیے یہ قطعی ضروری نہیں کہ وہ پدر سری احکامات کی اطاعت کرتی رہیں۔انھوں نے فقہ کی مکمل تاریخ کو اپنا موضوع بنایا، اس میں پائے جانے والے تضادات کی نشاندہی کی اور ’حقیقی اسلام‘ کی اپنی تعریف کے مطابق ان کی توضیح بھی کی۔

جمہوریہ تونسیہ(تِیو نِس)کی لطیفہ لَخضَرنے اپنی تصنیف المرا ۃ الاجماع میںیہ دلیل پیش کی ہے(2002, 8) کہ عالمی سطح پر مذہبی بنیاد پرستی کے فروغ کی وجہ سے اور خاص طور پہ 9/11 کے بعد مسلم اکثریت والے ممالک اور مسلمانوں کی اقلیتی آبادی والے ممالک میں تانیثی تنقید کے لیے مذہب پر از سرنو غور کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کی ہی لغزشوں کی وجہ سے مغرب میں ’اسلام کے خوف‘  (اسلامو فوبیا) نے سر ابھارا ہے جس نے اسلام دشمنی یا اسلام اور مسلم بیزاری کی خطرناک شکل اختیار کر لی ہے۔اسلامی ممالک یا جن ممالک میں مسلمان آباد ہیں وہاں ان کے درمیان مغربی تفکیر کے عام یا مقبول ہونے کی بنیادی وجہ یہ تصور رہا ہے کہ اجتہاد کے دروازے بند ہو چکے ہیں اور یہ کہ اسلام اور منطقی فکر کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔مارٹینا کِگلر عابدی نے لکھا ہے کہ

9/11 کے بعد اسلام کو خواتین کے استحصال سے یوں منسلک کر دیا گیا ہے کہ صنف اور مذہب پوری طرح مسمار ہو کر صرف ایک حقیقت، حجاب میں لپٹی ہوئی مظلوم مسلم عورت، میں تبدیل ہو گئے ہیں  (10)۔

 تانیثیت کی اس نئی قسم کے کلامیوں کا مقصود یہ ہے کہ مسلم عورت کے سلسلے میں جو عام خیال ہے اس کی رد تشکیل کی جائے اور اس کی شناخت سے وابستہ علائم کی تشکیل نو کی جائے۔مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ حکومت اور مذہب کے روابط نے کئی اسلامی ممالک میں عورتوں کے بنیادی حقوق بھی چھین لیے ۔ ایسے ملکوں میں ایران، پاکستان، طالبانی افغانستان، سعودی عرب، ترکی سر فہرست ہیں۔اسلامی تانیثیت متن اور اس کے تناظرکے تعلقات ،اور تفسیری یا تشریحی عمل کے مختلف ابعاد پہ اس طرح نظر رکھتی ہے کہ ان کی مدد سے کلاسیکی تفسیری روایات اور فقہی  تشریحات کا فہم حاصل ہو سکے۔ یہ کام ماضی میں علمائے کرام نے بھی کیا ہے لیکن اسلامی تانیثائیں ان میںموجود خواتین سے متعلق متذکرہ عوامل کی تشریحوں یا تعبیروں کو یہ کہہ کر رد کر دیتی ہیں کہ ان کا بنیادی پس منظر مرد اساسی ہے۔اس لیے انھوں نے دینیات کے سلسلے میں ایسے مذہبی ادب کی تخلیق کی ضرورت محسوس کی جو اسلام کی بنیادی روح کی نمائندگی بھی کرے اور عورتوں کے جملہ امور میں ان کے حقوق کو بھی نمایاں کرے۔مُغیسی (1999) ، موجاب (2001)، بدران (2011)، اور میر حسینی (2011) نے اس مکمل کلامیے کو ایسا ما بعد جدید، ڈائسپرک دانشورانہ پروجکٹ کہا ہے جو مرد کے ذریعہ پیش کی گئی کسی بھی تفسیر ؍ تشریح یا اسلام کے غالب بیانیہ کا انکاری ہے۔ بقول عافیہ ضیا (2008, 20)، اسلامی تانیثیت کا علمی نظریہ ایسی تحقیق میں یقین رکھتا ہے جو اسلامی بیانیہ میں خواتین کے حقوق کی تلاش کے لیے بہت سی آرا کے ساتھ ہی تاریخی مباحث کو بھی پیش نظر رکھے۔

مقامی اسلامی تانیثی تحریکوں میں ملیشیا کی تنظیم  Sisters in Islam ، مراقش میں 2004 کی مدونۃ اصلاحی تحریک،اورزیبا میر حسینی اور زائنہ انور (ملیشیا کی جماعت برائے دفاع حقوق نسواں،  Sisters in Islam کی سابق ڈائرکٹر) کے ذریعہبارہممالک کی تانیثی کارکنوں اوردانشوروں کے تعاون سے مُساوۃ کے نام سے شروع کی گئی عالمی تحریک نے اس کے نظریاتی ذخیرے کو مزید جلا دی ہے۔   مُساوۃکومسلم خواتین کے درمیان مسلم خواتین کے ذریعہ معماریٔ دانش کی تحریک کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا مقصد اسلامی تعلیمات، بین الاقوامی قرارداد برائے انسانی حقوق ، قومی آئین و قوانین اور مسلمانوں کی عصری سچائیوںکی آمیزش سے ایسا ذخیرۂ علم تیار کرنا ہے جو اسلام کی تفسیری ؍ تشریحی روایتوں کو نئے تناظر میں پیش کرتے ہوئے صنفی مساوات اور انصاف کے داعیوں کو بنیاد فراہم کر  سکے(Al-Sharmani, 2014, 84) ۔اس سے وابستہ دانشوروں میں امینہ ودود، قرآن کے مطالعوں پر ہی اپنی دانشوری کو مرکوز رکھنے والی مراقش کی دانشور، النساء والاسلام رویۃ اصلاحیۃ اور Women in rhe Qur’an: An Emancipatory Reading  کی مصنفہ اسماء المرابط، سعدیہ شیخ، فقہی مطالعات کے پاکستانی ماہر محمد خالد مسعود، امیمہ ابو بکر کے نام اہم ہیں۔

 گرچہ امینہ ودود مرد و زن کی مخلوط جماعت میںنماز کی امامت کی وجہ سے بد نام ہو چکی ہے، اس نے  توحید کے الوہی تصور کی بنیاد پر خدا- انسان اور انسان – انسان کے رشتوں کو قرآن کریم کی روشنی میں بہت ہی موثر طریقے سے پیش کیا ہے۔  میر حسینی اور کیسیا علی نے بھی اسلامی فقہ کے مطالعہ کے دوران ان رشتوں پہ غور کرتے ہوئے نکاح، ازدواجی ذمہ داریوں، مرد، عورت، مرد و زن کے تعلقات، خانگی تشدد، طلاق، حق وراثت وغیرہ کے سلسلے میں کلاسیکی فقہا کے اصول و طریقۂ کارکی ردتشکیل کی ہے۔نماز جمعہ میںخواتین کی خطابت و امامت، صرف خواتین کے لیے مساجد کا قیام اور عام مساجد میں نماز کے لیے خواتین کا شامل ہونا جیسے معاملا ت پچھلی دہائی میںدنیا کے کئی مقامات، بشمول ہندوستان و پاکستان، پر رونما ہو چکے ہیںجو واضح طور پہ اسلامی تانیثیت سے وابستہ تحریکوں کا ہی اثر ہے۔ ان کے شرعی اعتبار سے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ علمائے کرام کریں گے۔ ان اشاروں کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ کس طرح یہ کلامیے اب رفتہ رفتہ مکمل اسلامی نظام پر حاوی ہونے کے درپے ہیں۔

 درحقیقت صورت حال ایسی نہیں کہ اس کا تعلق صرف خطابت و امامت تک محدود ہو۔  اسلامی تانیثیت سے بڑھتی ہوئے دلچسپی اور اس کے اثرات کا دائرہ پھیلنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے متعلق تمام براہین و دلائل کے قرآن اور دینیات پر مرکوز ہونے کے باوجود تانیثیت پسندی کے عالمی معیاروںاورخواتین سے جڑے ہوئے علاقائی مذہبی معاشرتی مسائل کی آمیزش بھی اس میںموجود ہے۔ تاہم، یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ تانیثیت کے نظریوں اور کلامیوں کا مرکز مذہب نہیں بلکہ صرف عورت کو ہونا چاہیے۔ مُغیدم (2002, 1165) کہتی ہے کہ تانیثی نقطۂ نظر سے اس نظریے کی حمایت مشکل ہے کہ صرف اسلام کے دائرے میں ہی عورتوں کو ان کے حقوق حاصل ہو سکتے ہیں، یہ ایک بنیاد پرست نظریہ ہے۔ جبکہ الشرمانی کے لفظوں (2014, 92) میں، اسلامی تانیثیت کوعلمی کلامیوں یا سیاسی تحریک کی حیثیت سے  اتنی جلد قبول یا رد کر دیناممکن نہیں ہے۔عام تانیثیت پسندوں اور مسلمانوں کے درمیان اسلامی تانیثیت اپنی ابتدا سے ہی بحث و مباحثہ کا موضوع بنی رہی ہے (Tonnessen, 2014, 2) اور دونوں ہی نے اسے دو متضاد نظریات کی شکل میں بھی دیکھا  ہے۔

حوالے ؍ کتابیات

بہروزی، مریم۔(1994) ۔زن روز۔ تہران۔

ندوی، رضی لاسلام۔(2013)۔ زینب الغزالی: مفسرۂ قرآن۔ ماہنامہ زندگی نو،  نومبر  2013۔ جلد :39 ، شمارہ :11

  Abid, Zehra. (2011). Book Launch: Fouzia Saeed Tells Every Woman’s Story. The Express Tribune. n.p., 24 December 2011.

Abirafeh, Lina. (2003). The Role of Religion in the Lives of Women in the New Afghanistan,1 Critical Half 36, 36 (2003).

Abou-Bakr, Omaima. (1999). ‘A Muslim Woman’s Reflections on gender’, http://islam21.net

…           (2011). What’s Done Can be Un-Done: Un-Interpreting Gender-Hierarchy in Quranic

12th Exegesis. Paper presented at the Mediterranean research Meeting, Florence, Italy, pp. Quoted from Tonnessen (2014).

…           (2012). Le feminisme Islamique et la production de la connaisanc: Perspectives dans l’Egypte postrevolutionnare. Feminismes Islamiques, (Ed.). Zahra Ali. Paris: Le Fabrique Editions, pp. 1-10.

Ahmed, Leila. (1992). Women and Gender in Islam: Historical Roots of a Modern Debate. New Haven: Yale University Press.

Akhtar, Nasreen, and Daniel A. Metraux. (2013). Pakistan is a dangerous and insecure place for women.” International Journal on World Peace 30.2 (2013): 35-36. Web. 14 March           2020.

Al-Hibri, Aziza. (1982). A study of Islamic herstory: Or how did we ever get into the mess? Women’s Studies International Forum, 5/2. 207-219.

Al-Sharmani, Mulki. (2014). Islamic Feminism: Transnational and national reflections.Approaching Religion Vol.4, No.2. December 2014

Ali, Kecia. (2006). Sexual Ethics & Islam: Feminist Reflections on Qur’an, Hadith, and Jurisprudence. One World: Oxford.

Badran, Margot. (1996). Feminists, Islam, and Nation: Gender and the Making of Modern Egypt.The American University in Cairo. 2000 (trans. Ali Badran,) al-Matabic al-       Amiriyyah, Cairo.

Badran, Margot. (2000). Exploring Islamic Feminism. Talk at Wilson Center, Washington DC, November, 30. http://www.wilsoncenter.org/index.cfm/

…           (2002). Islamic Feminism: what’s in a name?  On 17-23 January, Al-Ahram Weekly Google Online.10:21pm18/10/2011. http://weekly.ahram.org.eg/2002/569 /cu1.htm.

…           (2008). Feminism in Islam: Secular and Religious Convergence. Oxford: OUP.

…           (2011). Women and Gender in Africa: Rights, Sexuality and Law. Stanford University Press.

…           (2013). Political Islam and Gender. The Oxford Handbook of Islam and Politics (Ed.) (John L. Esposito and Emad El-Din Shahin). DOI:              1093/oxfordhb/9780195395891.013.003

 Barlas, Asma. (2002). Believing Women in Islam: Unreading Patriarchal Interpretations of the Qur’an. Austin, TX: University of Texas Press

Choudhary, Nusrat. (2007). Constrained Spaces for Islamic Feminism: Women’s Rights and the 2004 Constitution of Afghanistan. Yale Journal of Law & Feminism: vol. 19, Iss, 1, Article 5. Pp. 155-199.

Cheema, H. Moeen. (2012). Beyond Beliefs: Deconstructing the Dominant Narratives

                of the Islamization of Pakistan’s Law. The American Journal of Comparative Law 60.4 (2012): 875-917

El Guindi, Fadwa. (2005). Gendered Resistance, feminist veiling, Islamic feminism. The   Ahfad Journal    22 (1), pp. 53-78.El Saadawi, Nawal. (1985). Woman is the origin. Cairo: Madbuli Publishing House.Gardezi, Fauzia. (1990). Islam, Feminism, and the Women’s Movement in Pakistan:1981-1991. South Asia Bulletin 10. 2 (1990): 18-24. Web. 16 March 2020.

Gole, Nilufer. (1996). The Forbidden Modern: Civilization and Veiling. Ann Arbor, Mich: University of Michigan Press.

Hébert, Lisa. (1998). A Look at the Status of Women in Pakistan: Conflict Over the Islamic Path. Diss. Carleton University.

Hjarpe, Jan. (1995). Islamisk Feminism. Kvinnor och Fundamentalism. 10.

Jamal, Amina. (2005). Feminist ‘Selves’ and Feminism’s ‘Others’: Feminist Representations of Jamaat-e-Islamic Women in Pakistan. Feminist Review 81 (2005).

Kalia, Ravi. (2011). Pakistan: From the Rhetoric of Democracy to the Rise of Militancy. New Delhi: Routledge.

Koegeler-Abidi, Martina. (2017). Muslim Feminist Agency and Arab American Literature. Gender Forum, 65, pp. 8-27.

Kynsilehto, Anitta. (2008). (Ed). Islamic Feminism: Current Perspectives. Finland: Tampere Peace Research Institute, University of Tampere.

Lakhdar, Latifa. (2002) Imra’atu -l’ijma. Tunis: Cérès Éditions.

Mernissi, Fatima. (1991). Women and Islam: A Historical and Theological Enquiry. Oxford: Blackwell.

Mir-Hosseini, Ziba. (1996). Stretching the Limits: A Feminist Reading of the Sharia in Post-Khomeini Iran in Mai Yamani (ed.) Feminism and Islam; Legal and Literary Perspectives, Reading: Ithaca Press, pp. 285-286.

…           (2003). The Construction of Gender in Islamic Legal Thought and Strategies for Reform. Hawwa: Journal of Women in the Middle East and the Islamic World 1(1), pp. 1-28.

Moghadam, Valentine M. (2002). Islamic Feminism and its Discontents: Toward a Resolution of the Debate. Signs: Journal of Women in Culture and Society, 2002, vol. 27, no. 4. Pp. 1135-1171

Moghissi, Haideh. (1999). Feminism and Islamic Fundamentalism: The Limits of Postmodern Analysis. London: Zed.

Mojab, Shahrzad. (1999). Women Undertaking Ijtehad: hoping for a Feminizing Democracy. Arash 70, Khordad 1378 (June): 48-52 (in Persian).

Moll, Yasmin. (2009). People like us in pursuit of God and rights: Islamic discourse and    sisters in Islam in Malaysia. Journal of Women’s Studies, 11 (1), pp. 40-55

Reda, Nevin. (2013). From where do we derive God’s Law? Feminist and Islamic Perspectives: New Horizons of Knowledge and Reform. (Ed.). Omaima Abou-Bakr. Cairo: Women and Memory Forum. Pp, 119-135.

Salah, Hoda. (2010). From ijtihad to gender ijtihad: Islamic feminists between regional activism and transnationalism. Gender Heft 1, pp. 47-64.

Serez, Annie. (2017). Feminism in Pakistan: Dialogues between Pakistani Feminists.Laurier Undergraduate Journal of the Arts 3 (2017). Pp. 62-79.

Tonnessen, Liv. (2014). Islamic Feminism: A Public Lecture. Sudan: University of Bergen.

Uthman, Ibrahin Olatunde. (2010). A Triadic Re-Reading of Zaynab al-Ghazali and the Feminist Movement in Islam. Islamic Studies 49, 1.

Wadud, Amina.   (1992).  Qur’an and Women: Rereading the Sacred Text from a Woman’s Perspective. Kuala Lumpur: Penerbit Fajar Bakti

…           (1999). Qur’an and Woman: Rereading the Sacred Text from a Woman’s Perspective. NY: OUP.

Yamani, Mai. (1996). (Ed.). Feminism and Islam: Legal and Literary Perspectives. Reading: Ithaca Press.

Zein Ed-din. (1982). Removing the veil and veiling. Women’s Studies International Forum, 5/2. 221-226

Zia, Afiya, S. (2018). Faith and Feminism in Pakistan: Religious Agency or Secular Autonomy. Brighton: Sussex Academic Press.

***

نور فاطمہ

ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، جے پرکاش یونیورسٹی، چھپرہ (بہار)۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.