انتظار حسین کے افسانوں میں علامت نگاری (گلی کوچے، کنکری،آخری آدمی
ABSTRACT
Urdu Literature has rich tradition regarding use fo symbols to make it more meaningfull. Symbolic or abstract short stories became popular in Pakistan in the decades of sixties & seventies while sensorship was imposed. Intizar Hussain also wrote stories like Zard Kuta (Yellow Dog), Akhri Admi (The Last Man), etc. in that form but generally he used “Symbols” accoss his fiction. In this article efforts have been made to explore & define the symbols used in first three short story books of Intizar Hussain.
Key Words: Susan Langer, Spy, Ali Bin Abu Talib, Ameer Khusro, Humanism
سوزین لینگر(Susane Langer)نے کہہ رکھا ہے کہ ہر ذہن میں علامتی مواد کا ایک بڑا ذخیرہ ہوتا ہے جس کے مختلف استعمال ہوتے ہیں(۱)
سب سے مقدم سوال یہ بنتا ہے کہ علامت (Symbol)کا استعمال عمداً کن کتابوں میں ہے تو اس کا جواب ہے الہامی کتب۔ عہد نامہ عتیق اور جدید اور قرآن میں علامتیں، وسیع تر مفہوم کے ساتھ موجود ہیں۔ معانی اور مفاہیم کی مختلف سطحیں تحریر کو دیرپا اور زمان و مکان سے بلند کرتی ہیں۔ عصائے موسوی ؑ سے فقط بیان واقع مراد لیا جائے تو بکریوں کے لیے پتے جھاڑنا سمیت چرواہے کے ہتھیار کا خیال ذہن میں ابھرتا ہے مگر یہی عصا اگر نہ ہو تو کلیمی کارِ بے بنیاد ٹھہرتی ہے۔ یہ علامتی حیثیت ہے جس کا منتہا سامری سحر کا توڑ اور فرعونی دعوے کا رد ہے۔ یہ لاٹھی بکریوں کو درندوں سے ہی نہیں محفوظ رکھتی بلکہ بحر قلزم کو چیر کر بنی اسرائیل کو مامون بھی بناتی ہے۔
انسان نے جب نطق کی منزلیں طے کیں تو اس کی ابتدا اشاروں کنائیوں(Symblolic Language)سے کی۔ معلوم تاریخِ آثارِ قدیمہ اس کی شاہد ہے۔ جوں جوں ارتقائی منازل طے ہوئیں، انسان نے ان علامتوں کومع مفاہیم وسعت دی۔ خود ادائیگی حروف (Vocal Through Cards) اور لکھت (ابجد) سمبل کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ مذاہب اور اساطیر کی ایجاد میں کتنے ہی قدرتی مظاہر اور تخیلاتی مواد علامتی پیراہن میں نمودار ہوئے اور آج تک اپنا اثبات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
علم و حکمت اور فنون میں علامت نگاری انسانیت(Humanism)کا کلاسیک دور ہے جس میں فلسفہ اور صنم تراشی و مصوری خصوصیت کے حامل ہیں۔ خدا زمان و مکان میں سما نہیں سکتا لہذا مظاہر فطرت اس کے وجود کی نشانیاں ہیں۔ پس ہر جزو میں وہ بطور نشانی ظہور کر رہا ہے(وحدت الوجودی اور ہندو فلسفہ) ۔ فن کار نے مورت اور صورت سے حسن اور قبح کو ہی نہیں بلکہ محبت اور نفرت جیسے جذبات کو بھی علامتوں سے متشکل کر کے کائنات کی تعبیر و تفسیر میں عام لوگوں کی مدد کی۔
فنون میں ادب (Literature)ایسا پیمانہ ہے جو قوموں اور معاشروں کے مہذب ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ہومر، شیکسپیئر، حافظ اور غالب کے نام آتے ہی ذہن میں ایک پوری تہذیب دمکتی سامنے آتی ہے۔ یہ اوّلیت بھی شاعروں کو حاصل ہے کہ انھوں نے شعوری طور پر علامتوں کو فن میں برتا۔
اردو شاعری میں میر(۱۷۲۳ء۔۱۸۱۰ء)، غالب(۱۷۹۷ء۔۱۸۶۹ء)، انیس(۱۸۰۳ء۔۱۸۷۴ء)، نظیر اکبر آبادی(۱۷۴۰ء۔۱۸۳۰ء)، اقبال(۱۸۷۷ء۔۱۹۳۸ء) اور فیض(۱۹۱۱ء۔۱۹۸۴ء) سمیت بیشتر اہل تخلیق نے علامت کے روایتی خزینے سے استفادہ بھی کیا اور جدید علامتوں کو فروغ بھی دیا۔ کہانی کاروں کے سامنے الہامی کتابوں کے قصص کے علاوہ قدیم اساطیر کی روایت بھی موجود تھی لہذا انہیں قدرے آسانی میسر رہی۔ یہ الگ بحث ہے کہ علامتوں کا استعمال کن فن کاروں نے کامیابی سے کیا۔
انتظار حسین کی افسانہ نگاری کو سامنے رکھیں تو یہ بات بلا خوف تردیدکہی جاسکتی ہے کہ وہ ابتداء سے ہی علامت نگاری کی طرف مائل تھے اور شعوری طور پر اس کو برت بھی رہے تھے۔ ان کا اوّلین افسانہ ’’قیوما کی دکان‘‘ ۱۹۴۸ء کی تخلیق ہے جو ہجرت کرنے سے قبل ہی میرٹھ میں لکھا گیا تھا۔ قیوما کی دکان خود مجلس اور بیٹھک کی قائم مقام ہے۔ ان مجلسوں میں رمضانی قصائی، الطاف پہلوان، حسینی گدی، کمرجی، ببو وغیرہ عام دیہاتی لوگ ہیں جو اپنی بستی کے نمائندہ ہیں۔ اس دکان میں سجنے والی سبھا اور لال قلعہ والی محفلوں سمیت ہر دور کی ہر محفل کی یاد دلاتی ہے۔ جہاں قصے کہانیاں، حکایات اور شعر و سخن پرورش پاتے تھے۔ خود افسانہ نگار کا اپنا مسکن اس روایت کا امین بھی تھا۔
’’کہانیوں اور قصوں میں تو ہندوستان بہت ہی بڑھا چڑھا ہواہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ کل تاریخی اور مذہبی لٹریچر انھی قصوں اور حکایتوں سے بھرا ہوا ہے۔‘‘(۲)
قیوما کا اپنا وجود شمع محفل کی علامت کے طور پر یادگار ہے۔ یہ کہانی بھری محفل کے منتشر ہونے کا بیان لیے ہوئے ہے۔ اس میں حویلی کو مسلمانوں کی عظمت کا نشان سمجھنا چاہیے۔ حویلی بیک وقت حصار، پردہ، ثقافت اور روایت کا استعارہ ہے۔ اس کی بناوٹ میں حرم (زنان خانہ)، بیٹھک (مردانہ)، باغیچہ(لان)، تالاب، ممٹی، دریچے، کنگنی وغیرہ ہندوستانی طرز تعمیر کا نمونہ پیش کرتے ہیں،جو قلعہ نما تھی۔ اسی لیے ہجرت کے بعد کوارٹر اور کوٹھی وغیرہ جیسے مغربی طرز تعمیرکے نمونوں کو وہ خاطر میں نہیں لاتے ۔ اسی کہانی میں مسجد بھی مذکور ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہ، کمیونٹی سنر، وحدانیت کا مرکز، مگر یہ ویران ہے، حالات کی سنگینی کا شکار ہے۔ شاید ہمیشہ ویرانی کا شکار ہونے والی کہ سب نمازی کوچ کے قریب۔سپاہی کی ذات سے کرفیو، ہنگامی صورتحال اور سرکار کی مداخلت مترشح ہو رہی ہے۔ ایک اور علامت لٹھ کی ہے۔ یہ لاٹھی الطاف پہلوان کی ہے جو ہمیشہ اس نے جنگلوں میں چوروں، ڈاکوؤں کے خلاف استعمال کی مگر اب فرقہ وارانہ دنگے شروع ہونے والے ہیں اور یہ لٹھ بے دریغ اپنوں کے خلاف چلے گی۔ الطاف پہلوان کا استقلال اور عزم لٹھ سے عیاں ہے۔ ایک اور علامت’’کتا‘‘ہے۔ یہ زرد کتا نہیں ہے مگر پھر بھی انتظار حسین کی اوّلین کہانی کا ایک اہم جزو ہے۔ پوری بستی میں کرفیو ہے۔ ہو کا عالم ہے۔ ہر طرف سناٹا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار آج قیوما کی دکان بھی بند ہے:
’’چاروں طرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔ بھگت جی کی دکان بھی بند تھی۔ بنّا عطار کی دکان بھی بند تھی۔ پھر میں نے غور سے دیکھا۔ چندو پنواڑی اور فقیرا حلوائی اور نتھو سنار کی دکانیں بھی بند تھیں۔ اور قیوما کی دکان بھی بند تھی۔ میں نے پھر غور سے دیکھا۔ قیوما کی دکان واقعی بند پڑی تھی۔ اس کے پٹرے پر ایک کتا نیم غنودگی کے عالم میں لیٹا تھا۔‘‘(۳)
یہ کتا کون ہے جو آگ لگا کر بستی کے باسیوں کو بے آرام کر کے محفل کو اجاڑ کے خود دکان کے سامنے محو استراحت ہے۔انتطار حسین عموماً جانوروں سے انس کا رویہ رکھتے ہیں اور یہ امید کرنی چاہیے کہ کتا اپنی ذاتی حیثیت میں ان کو ناپسندیدہ جانور نہیں لگنا چاہیے۔ یقینا یہ علامت ہی ہے جو اس کو قابل نفرین بناتی ہے:
’’کتوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے میں نے ان (لطیفی صاحب) کے جانے پر اس علاقے کے کتوں کا ردعمل معلوم کرنے کا تردد نہیں کیا۔ ہاں چڑیوں پر جو ان کے جانے کا اثر ہوا۔ وہ میرے ذہن پر نقش ہے۔‘‘(۴)
کبوتر کو کہانی کار نے تواتر کے ساتھ اپنے فن میں جگہ دی ہے۔مقامی تہذیب میں پتنگ کے ساتھ کبوتر بھی خوشیوں کا رنگینیوں کا استعارہ ہے۔ جب چوک پر گلی ڈنڈا نہیں کھیلا جارہا تھا، جب چھوٹے بازار میں چہل پہل نہیں رہی تھی، جب لوگ مغموم تھے تو ایسے میں شمی، حبیب اور مجی اور بنیاد کے کبوتر بھلا کیوں کر اڑتے۔
دوسرے افسانے ’’خریدو حلوا بیسن کا‘‘میں بھی ہجرت اور فسادات کا بیان ہے۔ اس میں حلوہ، چوک، چیل، تالا وغیرہ کو آسانی سے علامتیں قرار دیا جاسکتا ہے مگر اس میں حلوہ بیچنے والے شخص کا شعر:
پڑھو کلمہ محمدﷺ کا، خریدو حلوہ بیسن کا
طبیبوں نے کیا ہے پاس، ہمارا حلوہ بیسن کا
بار بار سامنے آتا ہے اور خاص طور پر مصرع اولیٰ تو ترانہ سا محسوس ہوتا ہے۔ کلمہ پڑھ لینا جہاں جنت کا مژدۂ جاں فزا نظر آتا ہے وہیں حلوہ بھی توجہ کا طالب ہے اور حلوہ بھی وہ جس کو طبیبوں نے سند بھی دے دی ہو۔ پھیری والے کی آواز کو محلے کی فضا میں پراسرار قسم کا تاثر پیدا کرنے والی آواز کہا گیا ہے۔ راقم کے خیال میں یہ مسلمانوں میں خوش فہمی اور بے عملی کا بیک وقت درس دینے والی آواز ہے۔ اور شاید حالات کی نبض کو نہ پہچان سکنا بھی بے عملی اور تعیش پرستی کا نتیجہ تھا۔ یہ افسانہ بہت کم توجہ پانے والے افسانوں میں شامل ہے مگر حقیقت میں یہ انتہائی اہم ہے۔
اسی افسانے کی تفہیم کے لیے ہم انتظار حسین کے ۱۹۵۹ء میں لکھے گئے ایک اخباری مضمون سے رجوع کرتے ہیں۔ شاہ جہان کو جب قید ہوئی تو اس کو خوراک میں فقط ایک اناج کے انتخاب کی اجازت دی گئی۔ شاہ جہان کے باورچی نے چنے کا انتخاب کیا:
’’اس انتخاب کے حق میں استدلال یہ تھا کہ وہ اس ایک جنس سے ساٹھ قسم کے کھانے تیار کر سکتا ہے۔ تاج محل اسی باورچی کے زمانے میں تعمیر ہواتھا…… وہ (خریدو حلوہ بیسن کا) میں شکر زیادہ ڈالتا تھا اور بیسن میں ملاوٹ ہوتی تھی۔ اس لیے ہمیں تاج محل بالآخر چھوڑنا پڑا۔‘‘(۵)
کھوٹ، جھوٹ اور حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی نے ہجرت پر مجبور کیا اور اپنے ہاتھوں سے تراشی ہوئی اپنی جنت سے اذن سفر لینا پڑا۔ ایسی علامتیں شعوری گھٹن کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔
حلوہ بیچنے والا کون تھا، یہ کس شخصیت یا چیز یا طاقت کا علامتی پیکر تھا، اس پر غور ضروری ہے۔ افسانہ ’’چوک‘‘ کا عنوان بطور خود ہماہمی، رنگا رنگی اور زندگی کی بوقلمونی کا پتا دیتا ہے۔ کاہی آلود منڈیر پر چیل کا بسیرا اس بات کا غماز ہے کہ اب حویلی کی آن قصۂ پارینہ چکی ۔ املی اور آم کے درخت کا ذکر انتظار حسین نے ایسے کیا ہے جیسے قرآن نے زیتون اور انجیر کا۔ مؤخر الذکر اگر عرب کی سرزمین کی شان ہیں تو اوّل الذکر خاکِ ہند کی عظمتوں کے امین ہیں۔ یہاں املی کا پیڑ اپنے پتوں سے تہی ہو چکا۔ حویلی کی دیوار، نوابن بوا کی دیوار کے برابر والا ٹیلا ہر چیز اداس اور دل گرفتہ ہے۔ املی کے درخت کی ویرانی زوال کی آندھیوں کی لپیٹ میں ہے۔ تہذیب کے خال و خد نکھارنے اور ابھارنے میں انتظار حسین نے جہاں انسانوں، پرندوں، جانوروں اور درختوں کو وسیلہ بنایا وہیں درودیوار ، گلی کوچے، دریچے و دروازے، کنگرے اور صحن بھی درخورِ اعتنا سمجھے گئے۔ مجید امجد نے جو کہا تھا:
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم، تری روح سے عبارت ہے(۶)
مگر انتظار حسین کے نزدیک محبوب سے نسبت رکھنے والی ہر چیز وطن ہے۔ اپنی ایک آپ بیتی میں اپنے مسلک کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
’’اس کی برجیاں اس کی منڈیریں کتنی بلند و بالا تھیں۔ جب ہی تو بلندی میں اڑنے والے کبوتر جب تھک جاتے تو سانس لینے کے لیے ان منڈیروں پر اترتے تھے۔ لگتا تھا اب جو یہ کبوتر منڈیر پر پھڑ پھڑا کر اڑے گا تو پھر آسمان ہی کے کسی کنگرے پر جا کر دم لے گا۔‘‘(۷)
چوک میں چیزوں کی اضداد اور موازنے (Comparison)سے بھی کچھ حقائق سے پردہ کشائی کی گئی مثلاً رستم و سہراب کامعرکہ، میگھ ناد اور لچھمن جی کی لڑائی، امام حسین اور یزید کا معاملہ وغیرہ ان قضیوں کے اسباب و علل اور اگر مگر پر بحث ہو رہی ہے۔ افسانہ نگار ان شخصیات کے ذکر سے شجاعت کا ایک معیار قائم رہے ہیں۔ ایک کردار منّا کہتا ہے سب سے بڑا پہلوان تو حضرت علی ؓ تھے۔حضرت علی ؓ کے مقابل ایک شخص آیا جس کا نام کالا کافر تھا:
’’پریار وہ سالا پٹ کے بھی حضرت علیؓ سے چار سو بیس کھیل ہی گیا…… مزے سے قیامت تک زندہ رہے گا…… کابل کے ایک پہاڑ میں ہوئے اے۔‘‘(۸)
حضرت علی ؓ کے مقابل کالا کافر ہے اور اس کا فتنہ قیامت تک جاری رہے گا وہ قیامت کے بوریے سمیٹ کر مرے گا۔ یہ علامت گویا طاغوت کی ہے جس کی چالیں اور سیاست بڑے بڑے پہلوانوں کو مات دے دیتی ہیں۔ شدو،رفیا اور مُنّا تاریخ کے ان عجائبات پر ششدر ہیں۔ وہ مباحث کر رہے ہیں اگر کیکاوس رستم کو بوٹی دے دیتا تو؟
ایسے ہی موڑوں میں ایک موڑ بدنصیب مغل شہزادے داراشکوہ کی شکست بھی ہے۔ یہاں بھی کالا کافر دارا کو چت کرنے میں کامیاب ہوا جس کا نتیجہ کیاہوا:
’’ہندو راجاؤں اور سرداروں کی واضح اکثریت داراشکوہ کے حق میں تھی۔ دارا کی شکست کے بعد ہندوؤں میں عموماً مایوسی پھیل گئی اور یہ مایوسی پورے ملک میں پھیل گئی۔‘‘(۹)
’’فجا کی آپ بیتی‘‘میں سنہ ۱۸۵۷ء ، بغیا (باغیچہ) بگھی، فرنگی اور تاج محل جیسی علامتوں کا بیان ہے۔ ۱۹۴۷ء کو ۱۸۵۷ء سے کئی مواقع پر انتظار حسین نے تشبیہ دی ہے۔ فرقہ ورانہ فسادات میں بظاہر ہندومسلم سکھ شریک ہیں مگر یہاں فرنگی کہیں دکھائی نہ دیتے ہوئے بھی اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے۔ معنویت گویا بیانیے کا جزوِ لاینفک ہو۔
اجودھیا میں رام چندرجی کا ذکر ہے جو بن باس سے اپنی شہرت رکھتے ہیں۔ راجہ دسترتھ نے سوتیلی ماں کے کہنے پر رام چندر جی کو بن باس دیا۔ بھائی کا رشتہ بڑا عجیب ہے۔ یہاں برادرانِ یوسف ؑ کا ذکر بھی ہے۔ قابیل اور ہابیل بھی بھائی تھے۔ اب ہندو مسلم بھائی تھے اور دونوں میں جدائی ہوئی تو کون سی ان ہونی بات تھی۔ اجودھیا سے اپنی بستی کو ملا کر ہجرت کے کرب کو متشکل کیا گیا ہے:
’’یہ ہجرت کا لفظ اس کے حلق سے اتر نہ سکا، پھر وہ کون ہے؟مہاجر، مفرور، بھگوڑا، پناہ گزین۔ اسے ہلکا پھلکا سیدھا سچا لفظ بھگوڑا بہت پسند آیا ویسے بھی وہ ٹھیٹھ اردو لفظ۔ لیکن ان مترادفات میں بھٹکتے بھٹکتے اس کا ذہن ایک اور لفظ کی طرف لپکا……بن باس‘‘(۱۰)
زمین ماں تھی اور بیٹوں نے بے وفائی کی تو اس نے بددعا دی اور بن باس بھی۔ مہاجر کو میرٹھ کی ریوڑیاں نہیں بھولتیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسے میرٹھ کی ریوڑیاں مدینہ کی عجوہ کھجوریں لگتی ہیں تو بے جانہ ہو گا۔ آخر خواجہ فرید نے بھی کہا تھا:
’’نور حقیقی گھونگھٹ کھولے
اٹھ گئے اولے بھج پئے بھولے
ہر جا ایمن ہر جا طور‘‘(۱۱)
ترجمہ:جب حقیقت کا نور ظاہر ہوا تو تمام حجاب اٹھ گئے۔ سب راز کھل گئے اور ہر جگہ وادی ایمن و طور بن گئے۔
’’رہ گیا شوق منزل مقصود‘‘میں تاج محل، قطب صاحب کی لاٹھ اور تاج بی بی کے روضہ کا ذکر ہے۔ یہ علامتیں جہاں ہندوستان کی پہچان ہیں وہاں مسلمانوں کے شاندار ماضی کے گواہ بھی ہیں۔ یہ علامتیں اتنی عظیم ہیں کہ کسی بھی شخص کی پاؤں کی زنجیر بن سکتی ہیں۔ مشن کا (خام) خیال ہے کہ نیا ملک جو مسلمانوں کے لیے حاصل کر لیا گیا یہ چیزیں بھی وہیں ہوں گی۔پتا چلنے پر کہ یہ تو ساری چیزیں ہندوستان میں ہیں(یہاں لامحالہ منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ یاد آتا ہے جو پوچھتا ہے کہ ہندوستان پاکستان بن گئے ہیں تو ٹوبہ ٹیک سنگھ (شہر) کس ملک کے حصے میں آیا ہے) مشن پوچھتاہے پھر پاکستان میں کیا ہے۔ جواب ملتا ہے قائد اعظم …جواب طنز اورحقیقت دونوں پہلو لیے ہوئے ہے۔ (فاطمہ جناح کی کتاب ’’میرا بھائی‘‘ اس سوال کے جواب کا دوسرا پہلو واضح کرتی ہے)
’’پھر آئے گی‘‘ میں تعزیہ ایک بڑی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یہ شیعہ مسلک میں عقیدت کا بلند استعارہ ہے جو علم کے بعد بہت اہم ہے۔کہانی میں تعزیے کے بنانے والے خالص مذہبی فریضے کو بھی خلوص کے ساتھ نہیں نبھاتے۔ تعزیہ کا محرم میں تیار ہونا اب محض رسم بن کر رہ گیا اور اس میں سے روح خارج ہو گئی۔
’’روپ نگر کی سواریاں‘‘علامتوں سے بھرپور کہانی ہے۔ گدھے، گھوڑے، اکّے، تالاب، روپ نگر، حقہ، کوئل، آم، جامن، تحصیل، نمبرداری وغیرہ سے ہم ہجرت کے بعد کی صورت حال سے آگاہ ہوتے ہیں۔ گھوڑے ٹانگوں کے آگے جوت دیے گئے ہیں۔ الکساہٹ سے گھاس کھاتے اونگھتے رہتے۔ جبکہ ساتھ ہی خشک تالاب کی سیڑھیوں پر گدھے اینڈتے اور بیدار نظر آتے۔ اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد رینگتے گدھوں کی گھوڑوں پر فضیلت (Post Migration)کا طرہ امتیاز ہے۔ گھوڑے اہل اور گدھے نااہلوں کے قائم مقام ہیں۔ حقّہ محفل اور مجلس کی علامت ہے۔ اس بارے میں مہیشور دیال نے لکھا:
’’حقہ سب برادری کے لوگ آپس میں مل کر پیتے تھے۔ ایک حقہ ہو اور دس آدمی ہوں تو سب باری باری کش لگاتے ہیں اور حقے کی نے کھسکا کر ایک دوسرے کی طرف موڑتے رہتے ہیں۔ اس سے برادری مضبوط ہوتی ہے اور جذبۂ یگانگت بڑھتا ہے۔‘‘(۱۲)
آم اور کوئل کا ذکر انتظار حسین کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ فارسی روایت سے انحراف کے وقت ہندوستانی شعرا نے بلبل کی جگہ کوئل کو شعر میں باندھا اور آم اور کوئل کا جنم جنم کا ساتھ ہے۔ کوئل کا نہ کوکنا انھیں پریشان کرتا (حجاب امتیاز علی کے استفسار پر انھوں نے لاہور میں کوئل کے نہ کوکنے پر کالم بھی لکھا) اور اس کی کُو کُو مایوسیوں سے نکلنے اور امید کی کرن بھی لگتی (آگے سمندر ہے میں جواد کو یہ آواز آئی تو اس نے زندگی سے پھر امید لگالی) تحصیل، تھانہ، کچہری، بینک وغیرہ انگریزوں کی نشانیاں ہیں۔ دیہاتیوں کا صبح سویرے مقدمات کے لیے نکلنا اور پھر برسوں اس کا گھن چکر بننا انھیں وہ گزرے زمانے یاد دلاتے جب ہر فیصلہ گاؤں ہی میں ہو جاتا تھا، بغیر فیس کے۔ نمبرداری نظام کی دونمبری کو بھی جدید نظام کی برائی کے طور پر دکھایا گیاہے۔ اس مجموعے کا سب سے پرتاثیر افسانہ ’’ایک بن لکھی رزمیہ‘‘ ہے۔ قادر پور کا رہنے والا پچھوا دراصل مہا بھارت کا ارجن ہے جو زمانے کی چکی میں پس چکا ہے۔ فسادات کے دنوں میں یہ قادر پور کا سپوت اپنی دھرتی کے لیے خم ٹھونک کر کھڑا ہوگیا۔ اس کی لاٹھی بھی تھی۔ جب سب لوگوں نے لاٹھیوں کے آگے بلم لگا دیے تو تب بھی پچھوا نے اپنی لاٹھی کو سابقہ حالت پر قائم رکھا کہ بلم لگنے سے لاٹھی لاٹھی نہیں رہتی، بلم بن جاتی ہے۔ پچھوا کی لاٹھی کو عصائے موسیٰ سے تشبیہ دینا تو غلط ہو گا:
’’عصائے موسیٰ کی تو حضرت موسیٰ ؑ سے الگ اپنی حیثیت تھی۔ حضرت موسیٰ ؑایک معنوں میں عصائے موسیٰ کے دست نگر تھے۔ عصائے موسیٰ ، حضرت موسیٰ ؑ کا دست نگر نہیں تھا۔ لیکن پچھوا کی لاٹھی پچھوا کی لاٹھی تھی۔ ‘‘(۱۳)
پچھوا کی لاٹھی نے بھی کئی معجزے دکھائے تھے لیکن اعجاز لاٹھی میں نہیں پچھوا کے بازو میں تھا۔یہاں انتظار حسین کی سادگی پہ گاندھی جی یاد آئے۔ایک میٹنگ میں گاندھی جی نے مہاتما بدھ کو حضرت مسیح سے بڑا آدمی قرار دیا۔ جس پر انگریز حکمران ناراض ہوئے۔ اس لڑائی کو رزمیہ کہنا اور مہا بھارت سے تقابل زرخیز ذہن سے ہی متوقع تھا۔ مور اور قاز جیسے پرندوں کو جہاں امن اور شانتی کے طور پر استعمال کیا وہیں بارود اور بندوق کی علامتوں سے تخریب کی قوت کو بھی ظاہر کیا گیا۔ پچھوا کا پاکستان آنا اور رسوا ہو کر واپس چلے جانا اور پھندا قبول کر لینا۔ وہ پیپل کا درخت جو عیدگاہ میں تھا اور جس کی شاخ پر کلوا اور ممد نے اپنی پارٹی کا جھنڈا باندھا تھا اب وہاں ان کے سردار (پچھوا) کا سر لٹک رہا ہے۔ عید گاہ اور اس کے احاطے میں پیپل کا درخت اور اس پر جھنڈے کا لہرانا،یہ سب علامتیں ہیں۔ انھی کے درمیان کٹے ہوئے سر کا لٹکنا بہت کچھ کہہ رہا ہے۔یہاں حیرت انگیز طور پر لاش کی جگہ سر لٹک رہا ہے۔ گویا مر کر بھی پچھوا کا سر بلند رہا۔امام حسینؓ کے سر کا نیزے پر بلند ہونا ذہن میں ابھرتا ہے۔ تو اب ارجن کہیں یا حسینؓ؟مہا بھارت یا کربلا؟
’’سانجھ بھئی چوندیس‘‘انتظار حسین کے سفر ہاپوڑ کی رپورتاژ ہے۔ افسانے کا عنوان امیر خسرو کے شعر سے مستعار ہے۔
گوری سووے سیج پہ اور مکھ پہ ڈارو کیس
چل خسرو گھر اپنے سانجھ بھئی چوندیس
امیر خسرو(۱۲۵۳ء۔۱۳۲۵ء) ہند اسلامی تہذیب کے فرزند ہیں ان کے دوہے، کہ مکرنیاں اور دیگر تحریریں سرزمینِ ہند سے ان کی والہانہ محبت کا ثبوت ہیں۔ اس کہانی میں کہانی کار نے برسات کو محض مینْہ ماننے سے انکار کیا ہے۔ بلکہ کہا یہ روایت ہے، فضا ہے۔ ایرانیوں کے ہاں جو اہمیت بہار کو ہے اس سے انحراف کرتے ہوئے یہاں کے سخن وروں نے برسات کو اہمیت دی ہے۔غزنوی دور کے عظیم حبسیہ نگار شاعر مسعود سعد سلمان(۱۰۴۶ء۔۱۱۲۱ء)نے تو واضح کہا :
برشگال ای بہار ہندوستان
ای نجات از بلای تابستان
دادی از تیرمہ بشارتہا
باز ریستم از آن حرارتہا(۱۴)
رکشا اور ٹانگہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ رکشا کا آنا اور ٹانگے کا رخصت ہونا جدت اور روایت کے پس منظر میں ہوا۔ سواری کا فقط مقصد سفر کاٹنا ہی نہیں ہوتا۔ جدت شور شرابا، آلودگی، مہنگائی، حادثات لیے ہوئے ہے۔ روایت میں سکون، حسن، ارزانی اور محفوظ ہونے کا احساس تھا۔ خسرو کا ذکر خواجہ نظام الدین اولیاء (۱۲۳۸ء۔۱۳۲۵ء)کے بغیر ادھورا ہے اور مرشد کی رحلت پر مندرجہ بالا دوہا دونوں کے گہرے روحانی تعلق پر دال ہے۔امیر خسرو اور دوسری مذکور علامتوں سے تہذیب سے وابستگی کی شدت کا اظہار مقصود ہے۔
فارسی شعری روایت اکبر کے زمانے میں ہندوستان میںپنپی اور اردو کے کلاسک اور ابتدائی ادوار کے بیشتر شعرا نے قواعد کے علاوہ علامتی نظام بھی ایرانی ہی برقرار رکھا۔ جن میں بلبل بھی تھا۔ ہندوستان میں جس بلبل کو بلبل سمجھا گیا وہ تو کوئی اور پرندہ تھا یا کم از کم ایرانی بلبل نہ تھا۔ چنانچہ کوئل کو منتخب کیا گیا جس کی سریلی چہک اور شیریں تان بلبل کے ترنم سے کسی بھی صورت کم نہیں۔ بلبل اگر بہار میں سخت سرد علاقوں میں پھولوں کے کھلنے پر چہکتا ہے تو برسات میں آموں کے باغات میں کوئل نغمہ سرا ہوتی ہے۔ علامت سے لکھاری قاری تک اپنی بات موثر طریقے سے پہنچاتا ہے۔ قاری کا شعور معانی کی گرہیں کھولتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک ردعمل پیدا ہوتا ہے جس سے فن کار اور پڑھنے والا ایک صفحے پر آجاتے ہیں۔ دونوں میں تعلق کا اندازہ قاری کے سبق اندوز ہونے سے کیا جاتا ہے۔ تہہ داری میں چھپے مفاہیم تک رسائی قاری کی لیاقت پر منحصر ہے۔ انیس اشفاق لکھتے ہیں:
’’علامتی بیان کے سامنے بیان واقع کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اور قاری کا اخذ کردہ مفہوم ہی اہم اور بامعانی ہوتا ہے۔ علامت اپنے متعلقات اور تلازمات کے وسیلے سے تمام ممکنہ معانی کو متحرک کرتی ہے اور اس طرح معنی کی مختلف سطحوں پر عمل کرتی ہے اور ہر معنوی عمل سے ہم کسی ذہنی ردعمل تک پہنچتے ہیں۔‘‘(۱۵)
امین راحت چغتائی نے قرآن کی ایک سورۃ نحل(سورۃ نمبر۱۶) میں بیان کردہ شہد کی مکھی کے حوالے سے بڑی پتے کی بات کی ہے:
’’اب اس علامت (مکھی) کو وہی افسانہ نگار یا شاعر استعمال کرے گا جس نے سورۃ نحل کے اسباب نزول سے لے کر اس کے علامتی پیرایۂ اظہار تک سب باتوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کر لی ہو۔‘‘(۱۶)
انتظار صاحب نے اللہ جانے اس چیلنج کو قبول کیا یا نہیں لیکن ایک اور مکھی ’’اجنہاری‘‘ کی علامتی حیثیت کو موضوع بنایا۔ اپنے دوسرے مجموعہ کنکری کا پہلا افسانہ ’’اجن ہاری کی گھریا‘‘ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مکھی کا موازنہ شہد کی مکھی اور بئے (چڑیا) سے کیا ہے۔ شہد کی مکھی میں لفظ شہد خواہ مخواہ افادیت کا دم چھلا لگتا ہے۔ اس کا چھتا پنچایتی آرٹ کا نمونہ سہی۔ بئے کا گھونسلا بھی بئے کو ماہر تعمیرات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ مگر یہ دونوں اجن ہاری کی ہمسری اس لیے نہیں کر سکتے کہ آخرالذکر ایک افسانہ نگار ہے۔ گندھی ہوئی گیلی مٹی سے نفاست سے گھر بنانا گویا افسانہ تخلیق کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا ایمان ہے، سندملے نہ ملے کہ اجن ہاری پر وحی نازل ہوتی ہے۔ اصل میں انتظار حسین کی اجن ہاری سے عقیدت مٹی کی وجہ سے ہے۔ بارش کے بعد گیلی زمین میں سے شکرپارے تراشنا، چکنی مٹی سے غلّے تیار کرنا، دیوالی کے دیوے، بستی کے باہر بے آباد مندروں کی ٹوٹی مورتیاں، کچی صراحیاں ساتویں محرم کی شب سوندھی خوشبو والے کوزے، بائیس رجب کے کونڈوں کی قطاریں، خاک شفا کی خاکِ کربلا(سجدہ گاہ)،تسبیح، غرض تہواروں اور مٹی کا سمبھند انھیں رہ رہ کر یاد آیا ہے۔ سجدہ مٹی پر جو مزا دیتا ہے وہ جبین کہیں اور محسوس نہیں کر سکتی۔ رسالت مآب ﷺ کے ہاتھوں کنکریوں کا کلمہ پڑھنا، علی ابن ابی طالب کو خطاب عطا ہوا تو ابوتراب۔ افسانہ نگار جاننا چاہتے ہیں یہ مٹی کیا ہے؟مٹی سے قدم اکھڑ جائے تو دیو پسلیاں توڑنے کے لیے تیار۔ مٹی افسانہ نگار کے لیے چکر ہی نہیں حصار بھی ہے۔
’’افسانہ نگار میں اتنی بوترابیت تو ضرور ہونی چاہیے کہ پتھر پر اپنا علم گاڑ سکے۔‘‘(۱۷)
’’مجمع‘‘ میں ایک بچے پنن کی وساطت سے سماج کی کج رویوں پر نگاہ ڈالی گئی ہے۔ اس میں اہم اور بڑی علامت ’’مداری‘‘ ہے۔ اس کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی تفہیم ہو سکتی ہے۔مداری کا تماشا وقتی حظ تو رکھتا ہے۔ فقط وقت کا ضیاع ہے۔ دوسری علامت سیاسی لیڈر ہے جس کے بھاشن اور نعرے ان پڑھ اور سادہ لوح عوام کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ مغربی سامراج سرمایہ دار ایجنٹ، حاشیہ نشین، غاشیہ بردار، فسطائیت پسند جیسی اصطلاحیں، سٹالن، ماؤزے تنگ، لوئی اراگواں، پبلو نرودا،ہیولٹ جانسن جیسے لیڈروں کی مثالیں۔ ویانا کی امن کانگریس میں پانچ ہزار پانچ سو فاختائیں اڑائی گئیں۔پنن کے کان فاختہ اڑانے پر کھڑے ہوئے۔ باقی کچھ بھی اس کے پلے نہ پڑا۔پنن اس خطے کی غریب، لاچار، بے بس ، مجبور اور نادار عوام کی علامت ہے۔ جس کا استحصال، عطائی، واعظ، لیڈر، مداری اور شعبدہ باز ہمیشہ کرتے آرہے ہیں۔ تاریخ کے یہ مسخرے قبل از تاریخ سے تاحال (اس خطے پر کم از کم) برابر مسلط چلے آرہے ہیں۔
افسانہ ’اصلاح‘ میں بچوں کو کھیل خصوصاً پتنگ بازی سے منع کیا جاتا ہے۔یہ اس زمانے کی کہانی ہے جب لاہور میں پتنگ بازی جرم قرار نہیں دی گئی تھی کھیل کو رواداری، صحت مند سرگرمی اور ثقافتی ہما ہمی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیاہے۔مولوی اور سپاہی کی علامتیں مذہبی شدت پسندی اور ریاستی جبر کی طرف اشارے ہیں۔
’’محل والے‘‘میں محل بیتے دنوں اور ماضی ہو گئے زمانے کی علامت ہے۔ محل والے اب ہجرت کے بعد کس طرح کی صورت حال سے دوچار ہوئے۔ متروکہ مکان پر جو کہ سکھ کا تھا، قبضہ کر کے سب سے پہلا کام کتابوں کے جلانے کا کیا۔ کتب کے جلانے کے واقعات بخت نصر کا یروشلم میں، سعد بن ابی وقاص کا ایران میں، نادر شاہ دلی میں،ہلاکوکا بغداد میں،اور۱۸۵۷ء کے مجاہدین کا دلی میںکا تذکرہ تاریخ میںملتا ہے۔ کتاب روشنی، ہدایت اور علم کا سمبل ہے۔ اس کو راکھ میں تبدیل کرنا جہالت اور تعصب کے سوا کچھ اور نہیں۔ گلاب کو محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور نئی مملکت میں اس کی بڑی ضرورت تھی اور ہے۔بستی کا افضال، بن لکھی رزمیہ کا پچھوا اسی لیے گلابوں کی فصل اگانے کے متمنی تھے۔ ’’یاں آگے درد تھا‘‘کالج کی روداد پر مشتمل کہانی ہے۔ تقسیم سے قبل اور مابعد کا تقابل کچھ علامتوں سے کیا گیا ہے۔ درخت کو تہذیب، فطرت، شادابی اور افادیت کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے۔ چھاؤں، پھل، پرندوں کا مسکن، کانٹ چھانٹ سے ایندھن کی ضروری پوری ہونے تک مثبت مصرف اور سب سے بڑھ کر مشرقیت کا استعارہ۔ یہی درخت کاٹ کر اس کی جگہ نئے کلاس رومز کی تعمیر اور وہ بھی کامرس کی کلاس کے لیے۔ کامرس، سرمایہ داری، اور اس کے تمام لوازمات کی نمائندہ علم کی شاخ ہے ۔ ٹوٹا ہوا پانی کا نل(روپ نگر کی سواریاں کے خشک تالاب کی طرح) سوتے خشک ہونے کا مفہوم لیے ہوئے۔ موجودہ صورتحال پر منطبق کریں تو پانی کی قلت (دریاؤں اور زیر زمین) کی طرف دھیان جاتا ہے۔ (عمومی طور پر کہانی کار نے چلتے ہوئے رہٹ اور بہتے ہوئے پانی کو زیست کا استعارہ بتایا ہے )
’’آخری موم بتی‘‘ میںہجرت کر جانے والوں کی ایک بوڑھی رشتہ دار (پھوپھی)اور اس کی جواں سال بیٹی(شمیم) کا قصہ ہے۔ دونوں ماں بیٹی امام باڑے کی خاطر ہندوستان میں ہیں۔ امام باڑے میں مردانہ عزاداری ختم ہو چکی ۔ عورتوں کی مجلس ان دونوں خواتین کے دم سے جاری و ساری ہے۔ مگر کب تک؟ آخری موم بتی پھوپھی ہیں یا زیادہ سے زیادہ شمیم ہے۔ پھر عزا خانہ ویران۔ یہاں دیوے اور چراغ کی بجائے انتظار حسین نے موم بتی کی علامت کیوں استعمال کی ہے۔ یہ سوال غور طلب ہے۔ ۱۹۴۷ء تک انگریزی ایجادات لالٹین اور موم بتی آچکی تھیں۔ شمیم اور وحید (منگیتر) جو پاکستان ہجرت کر چکا انگریزی تہذیب کے پروردہ تھے لہذا نئی نسل کی پرداخت کو واضح کرنے کے لیے موم بتی بطور علامت آئی ہے۔ ’دیولا‘ میں روشن اور جگ مگ کرتی علامتیں ابابیل، گائے، دیولا، پتنگ اور بیابان ہیں۔ مجو اور بسنتی دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ اچانک بسنتی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ محبوبہ کی موت سے قبل مجو خواب دیکھتا ہے کہ پتنگ ٹوٹ چکی ہے۔ دیولا کی لو مدھم پڑ چکی ہے۔ سنسان بیابان جگہ ہے۔ یہ دو دلوں کے ٹوٹنے دو بھائیوں کے جدا ہونے کی نشانی ہے۔ ابابیل مسلمان اور گائے ہندو کے لیے تقدیس کا پہلو رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے قبلہ اور ان کے اتحاد کی علامت کعبہ کو بچانے میں ابابیل کا کردار اظہر من الشمس ہے۔ گائیں کی آنکھیں بند ہو رہی ہیں، اس کے کھروں کی افسردہ چاپ بھی یہ کہتی نظر آتی ہے کہ یہ قافلہ تھکا ماندہ تھم جائے گا،گئو دھول فضا میں معلق ہو کر رہ جائے گی اور اب ابابیلیں بھی تھک تھکا کر تتر بتر ہو چکی تھیں۔ ابابیلیں تھک گئیں تو قبلہ اپنے محبوں سمیت خطرے میں پڑ جائے گا اور اہنسا کے پجاری دولت کے پجاریوں کے سامنے بے بس ہیں۔ ساتواں در‘‘ میں کبوتری، املی کا پیڑ اور بندوق کی علامتوں سے کہانی میں رنگ بھرا گیا ہے۔ چھوٹے چچا نے فائر کیا ایک کبوتر مارا گیا، باقی سب چلے گئے۔ ایک کبوتری جو (غالباً) مرے کبوتر کی مادہ تھی نہ گئی۔ کبوتری کا سوگ میں بیٹھنا اس کے خاندان کے اجڑنے پر دال ہے۔ بندوق سامراجی دان کردہ تحفہ ہے۔ جس کے کارن ہنستی بستی دنیااجڑ گئی۔ معصومیت، خوبصورتی اور امن کی علامت کبوتری سے ذہن میں ۱۸۵۷ء کے بعد کی رہی سہی مسلم عظمت آتی ہے۔ بڑے چچا کا فائر میرٹھ چھاؤنی والی گولی سے مشابہت کا تقاضا کرتا ہے۔ منی اور راوی کے بچپنے نے اس کبوتری کو گنوا دیا۔ منی کو مسلم لیگ اور راوی کو کانگریس کی علامت کے طور پر دیکھ لینا بھی غیر مناسب نہ ہو گا۔ ’’پٹ بیجنا‘‘ کا عنوان خود ایک علامت ہے۔ گوبر سے نکلنے والا کیڑا بدصورتی کا استعارہ ہے۔ یہ انسانی رویوں کے اظہار کی کہانی ہے مگر سورۃ ھمزہ(سورۃ نمبر۱۰۴) کی پہلی آیت (اور بربادی ہے ان لوگوں کے لیے جو مال کو جمع کرتے ہیں اور گن گن کر رکھتے ہیں) معاشرے کے اجتماعی رجحان کی عکاس ہے۔
’’پسماندگان‘‘ میں خاموشی، شام، کہرام، مجسٹریٹی، تحصیل داری اور تھانے داری جیسی علامتیں انگریزی نظام کے ہندوستانی کارندوں کو زیر بحث لاتی ہیں۔ خان صاحبنی کے شوہر کو مجسٹریٹی کے ساتھ خان صاحب کا خطاب بھی عطا ہوا۔ خطابات (Titles)سے کیوں نوازا جاتا تھا اور کن کو نوازا جاتا تھا، یہ تاریخ کے کھلے راز (Open Secret)ہیں۔ ۱۸۵۷ء کی اشرافیہ جب رسوا ہو چکی تو ایک طبقہ سامراج سے وفاداریوں کے بل بوتے پر ان اعزازات کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ ہرن کا شکار اور وہ بھی شام کے وقت، جیسے جرائم بھی ان وفاداروں کے کھاتے میں ہیں۔ خان صاحب کے دو بیٹے (تحصیل دار اور تھانے دار) جوانی میں مر گئے۔ یہ وہ انجام ہے جو غلامی کے طوق پہننے والوں کا مقدر بنا۔ ۱۹۴۷ء میں یہی خان بہادر، آنریری مجسٹریٹ اور کپتان مکافاتِ عمل کی بھینٹ چڑھے۔
’’ٹھنڈی آگ‘‘ میں چولہا جذبات کی ترجمانی ہے اور ٹھنڈی آگ بڑھاپے اور مضمحل اعضا کی طرف اشارہ ہے۔ یہ مرد اور عورت کے احساسات اور جنسیات کے پہلو لیے ہوئے سیدھی سادی کہانی ہے۔ ’جنگل‘ اس مجموعہ کا جاندار افسانہ ہے۔ چیل، کنواں، سیہ کا کانٹا، گدھ، بلی ، دھرم شالہ، چڑیل، بندر، پھول، سانپ، مور کا پر، سادھو اور جن اور کئی پرندے اور درخت علامتوں کے طور پر موجود ہیں۔ خود جنگل بھی تہذیب مشرق کی نمائندگی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جس میں خوبصورتی،بدصورتی، توہم، جھگڑے، پیار، محبت سب خصوصاً اپنی چھب دکھاتے تھے۔چیل ، چوزے اور گوشت اٹھانے کا استعارہ ہے(افسانہ ’ چیلیں‘ میں اس کی وضاحت کی جائے گی) کنواں زراعتی نظام کا قدیم نمائندہ اور پوری زندگی کا عکاس ہے۔ اگر ویران ہو جائے تو پھر موت کانشان بھی یہی کنواں ہے۔ سیہ کا کانٹا لڑائی جھگڑے کی علامت اور جدائی کا سبب ہے۔ جادو ٹونے کا موثر ہتھیار ہے۔ ہندومسلم رشتوں میں دراڑ کو اس علامت سے واضح کیا گیاہے۔ جن، چڑیل جیسی علامتوں سے ان غیر مرئی قوتوں کی طرف اشارہ ہے جنھیں جدید اصطلاح میں خلائی مخلوق بھی کہا جاتا ہے۔ Allienنے مقامی لوگوں میں حلول کر کے یا غیبی قوت نے جو کارنامے سرانجام دیے ان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پرندے اور درخت تہذیب کے نمائندہ ہیں۔ بندر جو ڈراتا ہے اور خوف کی علامت ہے، انگریزوں کی طرف اشارہ ہے۔ سادھو وہ آدمی ہے ہر ایک عمل سے لاتعلق ہے۔ کچھ لوگ (قمرل، اچھن، مولا وغیرہ) حالات پر ششدر اور حیران ہیں اور کچھ اپنی من مستی میں۔ یہ ڈوبتی کشتی کے وقت مسافروں کا حال ہے۔ ’’مایا‘‘ میں ماں کے دل میں وسوسے ہیں۔ مایا جدید دور کی دولت اور لالچ کی علامت ہے۔ بیٹوں کے بدلے دھن لیا جارہا تھا تو یہ گھاٹے کا سودا تھا۔
اس مجموعے کا آخری افسانہ’’ کنکری‘‘ ہے۔ اس میں ایک طرف تو پرندے فطرت کے حسن کے طور پر موجود ہیں تو دوسری طرف شکار، کالے درخت، اندھیرے کھیت، فائر جیسی علامتوں سے زوال پذیری اور ظلم کے گھن چکر کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ٹیلی گراف اور تار جیسی علامات سے جدید دور کے نظام پر بھی نظر کی گئی ہے۔ کنکری کا پانی میں گھلنا اور علی کا گھٹ گھٹ کے مرنا دونوں گہری معنویت لیے ہوئے ہیں۔ روحانیت اور مادیت کے مظاہر کو ان علامتوں میں دکھانے کی سعی ملتی ہے۔
انتظار حسین نے علامتوں کے انتخاب میں روایت سے بھی استفادہ کیا ہے اوراختراع بھی کی ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ انھوں نے ایک ہی چیز کو الگ مواقع پر متضاد علامتوں کے طور پر برتا ہے مثلاً آخری آدمی کا بندر اور بندر کہانی کا بندر دونوں جگہ علیحدہ مفاہیم دیتے ہیں۔ کبھی بندر ہندو اساطیری روایت کا حامل اور کبھی ڈارون کی تھیوری والا بندہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک میں رام چندر جی کے ہم پلہ مہذب ذہن دوسری میں جانور اور انسان کے بیچ خام مخلوق۔ علامات کے متعلق سلیم اختر کا قول ہے:
’’علامات عام زندگی سے اخذ شدہ عام فہم علامات بھی ہو سکتی ہیں اور خود ساختہ اور وضع کردہ مبہم اور اشکال والی بھی ہو سکتی ہیں۔ علامت سے لاشعور کی ترجمانی بھی ہو سکتی ہے اور اس سے فرار کا ایک انداز بھی بن سکتی ہے۔‘‘(۱۸)
’’خاموش اونچے پیڑ، سوئے ہوئے کھیت، سب شام میں ڈھلتے دھواں بنتے جارہے تھے۔ دونوں وقت ملتے سمے پرندے اتنا شور مچارہے تھے گویا آپس میں گتھ گئے اور گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے۔ ایسے میں گھاس کے تختے پہ پڑا ایک دبلا پتلا جسم ایک مٹی کا ڈھیلا، امنڈتے ہوئے سمندر میں ایک بہتا پتا، ایک گھلتی کنکری وجود عدم کے راستے پر عازم سفرہے۔ غالباً شناخت کے مٹنے کی طرف اشارہ ہے۔ مال و مناول، عزت و مرتبے سمیت ایک عہد ڈوب رہا تھا۔‘‘(۱۹)
مجموعہ ’’آخری آدمی‘‘ علامتی کہانیوں سے بھرپور ہے۔ ان کہانیوں کے عنوانات ہی متون کی چغلی کھا رہے ہیں مثلاً آخری آدمی، زرد کتا، پرچھائیں، ہڈیوں کا ڈھانچہ، کایا کلپ، ٹانگیں، سیکنڈ راؤنڈ، سوئیاں، شہادت، سوت کے تاروغیرہ اس مجموعہ کے دیباچے میں سجاد باقر رضوی نے نہایت عمدگی اور مہارت سے علامتی کہانیوں کی تعبیر کی ہے:
’’وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں میں پاکستانی قوم اور پاکستانی فرد کی انفرادیت اور شخصیت کی شناخت کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانوں میںانکشاف حقیقت یک تہی نہیں ہے۔ ان کے یہاں انسان کے وجود کی مختلف تہیں منکشف ہوتی ہیں اور محض اسی طرح مکمل شعور ذات ممکن ہے۔ روحانی زوال کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آدمی کو پوری ذات کا شعور نہ ہو اور وہ وجود کی مختلف سطحوں سے باخبر نہ ہو۔‘‘(۲۰)
آدمی کب آدمی نہیںرہتا یہ بڑا سوال ہے اس کہانی کا۔ جب خدا کے ساتھ مکر کرے۔ غصہ اور خوف اور لڑائی کی حالت میں بھی وہ اپنی جون میں نہیں رہ سکتا۔ نفرت اور تعصب بھی انسانیت سے یہ شرف چین لیتے ہیں۔ ہنسی مذاق، ٹھٹھا کرنا (غیر سنجیدگی) بھی ایک فیکٹر ہے۔ اور لفظ جب اپنی تاثیر کھو دے۔ لفظ خالی برتن کی مثال رہ گیا۔ حتیٰ کہ لفظ کی موت واقع ہو گئی۔ بندر کی جون زوال کی حد ہے جس کے بعد معدومیت ہے۔ الیاسف جب جھیل کے کنارے بیٹھ کر پانی پینے کے لیے جھکا۔ اپنی صورت دیکھ کر چیخا۔ وہ بے تحاشا بھاگا۔ وہ بھاگا جاتا تھا جیسے وہ جھیل اس کا تعاقب کررہی ہے۔ جھیل یہاں آئینہ کی مثال ہے۔ الیاسف اپنی شکل دیکھنے کا روادار نہیں۔ برصغیر کی تاریخ مثل جھیل یہاں کے باسی کے پیچھے پیچھے ہے اور وہ سرپٹ دوڑ رہا ہے۔
انتظار حسین پاکستان میں مشرقی تہذیب و روایت کا آخری آدمی تھا۔ یہ آخری آدمی ایک علامت ہے۔ مجلس منعقد کروانے اور عزا خانے کی محافظ پھوپھی( آخری موم بتی) ، پہلوان جو قیامت خیز حالات میں بھی اپنی جگہ قائم رہا(استاد) اور ہجرت نہ کرنے والی، بستی کی صابرہ(جس نے اکیلے رہ جانے کا جواز اپنے آبا کی قبروں کو بتایا تھا) جو پاکستان نہ آئی۔ سب آخری آدمی تھے جن کا ثانی کوئی تھا نہ ہے۔’’زرد کتا‘‘ میں کتا اور لومڑی کی علامتیں نفس امارہ کو بیان کرتی ہیں۔ طمع دنیا، پستی، علم کا فقدان اور دانشمندوںکی بہتات سب نفس کی تفسیریں ہیں۔ احمد صحیری کا گدھا بھی علامت ہے۔ گدھا جب شعر پڑھنے لگا تو راز کھلا جب اناڑی سخن ور بن بیٹھیں تو بستی چھوڑ کر جنگلوں میں نکل جانا بہتر ہے۔ انتظار صاحب لاہور میں جب آئے تو یہ شہر پہلے ہی علم و ادب کا مرکز تھا مگر معاصر ادب کو سامنے رکھ کر گدھے کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس افسانے میں علم و جہل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ دانشور جوتیاں گانٹھ رہے ہیں اور بے بصیرت موچی مسند علم پر فائز ہیں۔ (یہ ہمارے عہد پر زیادہ موزوں لگتی ہے) شیخ کی علامت (اردو شاعری کے برخلاف) راست گو، عالم اور مصلح کی حیثیت سے اپنی معنویت ظاہر کرتی ہے۔ ملفوظات صوفیا کے پردے میں ارضی حالات کا بیان ہے:
’’انھوں نے لاشریک چھت کے مقابل اپنی اپنی چھتیں پاٹ لیں اور مٹی میں فصل (تقسیم) پیدا کر دیا اور زرد کتے نے عزت پائی اور اشرف المخلوق مٹی بن گیا اور مجھ پر تیرا شہر تنگ ہو گیا۔‘‘(۲۱)
زرد کتا جب معزز ہو گیا تو معلوم کرنا چاہیے کہ اب فقط یہ علامت نفس تک محدود نہیں۔اس لیے کہ بستی میں بھی یہ علامت کے طور پر موجود ہے(شراب نالیوں میں سے پی کر کتے بے ہوش پڑے ہیں) زرد کتا اندر کانفس ہے پھر باہر کا کتا کون ہے۔ ابو قاسم خضری نے خود سے کہا، یہاں سے چل کہ یہاں تیرے باہر اور اندر زرد کتے پیدا ہو گئے اور تیرا آرام چھن گیا۔ کبوتر تصوف و معرفت کی علامت ہے۔ پرچھائیں کا نوجوان ان دیکھے خوف میں مبتلا ہے۔ افسانے کو پڑھنا شروع کریں توانتظار حسین کے ناول چاند گہن کا سرنامہ آنکھوں میں گھومنے لگتا ہے جو بائبل (یو ایل نبی کی کتاب) سے اقتباس ہے۔ تمھارے بڑے بوڑھوں کو خواب دکھائی دیں گے اور تمھارے جوانوں کو سائے پریشان کریں گے۔ پرچھائیں کے حسن کو بھی وہم ہے کہ کوئی اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ یہ وسوسہ یہ وہم اسے کہیں چین نہیں لینے دیتا۔ اندھیرا، اندھی روشنی، اندھیری بس ایک آنکھ سے اندھی بس جیسی علامتیں حسن کی پریشانی کی تفسیر میں ہمیں آسانی فراہم کرتی ہیں۔ واقعی کوئی ہے یا اپنی پرچھائیں سے وہ خوفزدہ ہے۔ دونوں صورتوں میں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔کھمبا اور اس کی روشنی (Street Light)بھی اس کے وسوسوں کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ شہر میں اور وہ بھی لاہور جیسے شہر میں اس کی حالت ایسی ہے جیسی (باگھ میں) جنگل میں نعیم کی تھی۔پراسرایت میں شہر جنگل سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ بس کا عملہ ، خود بس، اندھیرا، روشنی، ہوٹل میں بیٹھے لوگ ہر چیز اس کے نزدیک مشکوک حتیٰ کہ چلتے ہوئے وہ پیچھے نہیں دیکھتا مبادا پتھر کا بن جائے۔ سپاہی کی علامت سے گتھی کچھ سلجھتی ہے کہ یہ دور کسی طالع آزما کا ہے۔ اور بڑا کٹھن ہے شاید علامتی انداز میں کہانی بھی وہی خوف لکھوا رہا ہے۔ حالی کی مناجات’’ اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے‘‘ بھی ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کر تی ہے۔یہ انتظار حسین کا بطور صحافی وہ تجربہ بھی ہو سکتا ہے جو انھیں سنسر شپ اور جبر کے دوران ہوا۔ ’’ہڈیوں کا ڈھانچ‘‘ بھوک کی علامت ہے۔ مرکر جی اٹھنے والا شخص بے یارومددگار مرا۔ مرنے کے وقت اس کی بالیں پہ کوئی نہ تھا۔ نہ کسی نے یٰسین کی تلاوت کی، نہ کوئی آنکھیں بند کرنے والا تھا۔ صبح لوگ آئے تو یہ مرا ہوا شخص زندہ ہو گیا۔ یہ صدیوں کا بھوکا لگتا ہر طرف س آنے والا کھانا ہڑپ کر جاتا مگر پھر بھی بھوکا۔ یہ شخص ایک دن کتے سے بھی غذا چھین کر کھا گیا۔
ایک کالا بھجنگ شخص سنسان پگڈنڈی پر چلا جارہا تھا۔ یہ سانسیہ تھا؟ سانسیہ جو مردار کھاتے ہیں۔ نیولے کھاتے ہیں، چھپکلی اور سانپ بھی۔ بد روح، جن، پچھل پائی جیسے اوہام سے کہانی کی پراسرایت کو گہرا کیا گیا ہے۔ مگر مضمون فقط دو ہیں بھوک اور خوف۔ ایک طبقہ استحصالی ہے جوسب کا رزق چٹ کرتا جارہا ہے اوردوسرا مجبور و مقہور لاچار جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ ’’ہمسفر‘‘ میں بس کسی مملکت کی علامت ہے۔ جس کی سمت غلط روٹ کی طرف ہے۔ مملکت کے بیانیے سے لے کر رویوں تک میں اس کی جھلک موجود ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ہماری کسی دلیل کا قائل نہیں۔ تھرڈ ڈویژن لوگوں کا امریکی وظیفے حاصل کرنا۔ جس جگہ کارخانہ زیر تعمیر ہے، یہاں گھنا جنگل تھا۔ دو انگریز شکار کھیلنے بندوق لیے آئے۔ کافی گولیوں کے بعد بھی ان کا نشانہ خطا رہا۔ ساتھ دو لونڈے کھڑے تھے۔ بندوقیں لے کر ٹھائیں ٹھائیں دو فائر کیے اور دو ہرن گرا لیے۔ جوانی کی ترنگ میں یہی بندوقیں انگریزوں پر تان لیں۔ انگریز بھاگے۔ اگلے دن پلٹن لے کر پلٹے۔ وہ لونڈے تو نہ ملے البتہ جنگل کو آگ لگا دی۔ جو اندر رہا جل گیا جو باہر نکلا گولی سے بھن گیا۔ جنگل ہندوستان، دو انگریز (ایسٹ انڈیا کمپنی )دو نوجوان (پہلے مددگار پھر غدار) میرٹھ کے آزادی پسند اور آگ سے جو جل گیا وہ روایات و تہذیب۔ پاکستان کے حالات پر یہ علامتی افسانہ بے لاگ تبصرہ بھی ہے اور آج بھی سبق اندوز ہونے کا متقاضی ہے۔ ’’کایا کلپ‘‘ میں شہزادہ آزاد بخت، شہزادی، دیو، قلعہ بڑی اور آسان فہم علامات ہیں۔ شہزادہ آزاد بخت ، شہزادی کے سحر سے مکھی بن جاتا ہے تا کہ رات کو دیو سے محفوظ رہے اور دن کوشہزادی کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا۔ دن کو دیو کے دسترخوان کی مکھی بنا رہتا۔ مکھی بننے کے لیے گویا جون کی تبدیلی لازم نہیں۔ رذیل حرکت سے بھی ایسا ممکن ہے۔ قلعہ (لال قلعہ بھی ہے) تخت و تاج ہے۔ حکومت ہے۔ دوسرے لفظوں میں آزادی کا خواب ہے۔ شہزادہ (ہندو مسلم لیڈر شپ بھی ہو سکتی ہے) شاید مسلم سورما ہے۔ شہزادی، آزادی کی نیلم پری ہے اور دیو سامراج کی علامت ہے۔یہ علامتیں اکہری تہہ پر ہی اپنا مفہوم واضح کر دیتی ہیں۔ آزادی دلوانے والے جب عیش و عشرت اور معمولی ذاتی فوائد (Vested interest) الجھ جائیں تو یوں ہی ہوا کرتا ہے۔ ’’ٹانگیں‘‘ میں بھی مبہم انداز میں شہر کے حالات پر تبصرہ ہے۔ بکرے کی طرح لمبی پتلی ٹانگیں اور سراس کا اونچا ہوتا گیا۔ یہ جن کا نقشہ ہے جو یٰسین کوچوان کو ملا تھا۔ داتا دربار کے مینار اور جامع مسجد دلی کا ذکر بھی ہے۔ دلی میں مسجد پر حملہ ہوا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ داتا کے مینار کو کس نے نقصان پہنچایا۔(یاد رہے یہ افسانہ لعل شہباز قلندر، داتا دربار اور رحمان بابا کے مزاروں پر دھماکوں سے بہت پہلے کی تخلیق ہے)نگریزوں کو امریکہ کا طرف دار بھی بتایا گیا ہے۔ کئی کردار بھی انتظار حسین نے بطور علامت کہانیوں میں رکھے ہیں۔ اس میں ٹھیکے دار صاحب امریکہ کے حامی ہیں جو روس کو سبق سکھائے گا(اور سکھایا بھی) زندہ خداؤں، اژدھوں اور شتر مرغ بھائیوں کا ذکر بھی ہے۔ زندہ خداؤں نے رزق چھینا، اژدھوں اور شتر مرغ بھائیوں کو بھائی بنانا پڑا۔ ان سب پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ یہ ملعون بھی اسی ملک کے شہری ہیں۔ سیکنڈ راؤنڈ پاک بھارت جنگ کے تناظر میں علامت نگاری سے کام لے کر کچھ سمجھنے سمجھانے کا جتن کیا گیا ہے۔ خالی سڑک، سائرن، قبریں آگ اور جنگ سب فنا کے استعارے ہیں۔ دیوان حافظ (شیرازی) سے فال نکالنے والوں کا ذکر البتہ نئے معانی لیے ہوئے ہے۔ اس سے یہ فال نکالنا کہ اب کی بار شمالی ہند پر ہمارا قبضہ ہو جائے گا۔ احمق کا قول اور دیوانے کی بڑ ہے۔ اس افسانے کے کردار مولوی، بڑے ابا، چچا میاں، خواجہ صاحب، شفقت بلوچ اور سوٹ والا شخص بھی مختلف اذہان اور سوچوں کے نمائندہ ہیںجن کی اپنی علامتی حیثیت بھی ہے اور پوری کہانی انھی کرداروں سے اپنا ابلاغ کرتی ہے۔ ’’سوئیاں‘‘ بھی کایا کلپ کی مانند مکمل طور پر علامتی انداز لیے ہوئے ہے۔ ساتواں در، دیو، شہزادی، سوئی، قلعہ اور سوئیوں میں بیندھا شخص ایسی علامتیں ہیں جو تھوڑی سی شعوری کاوش سے سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ ایک شحص قلعہ میں بے ہوش پڑا ہے۔ اس کا جسم سوئیوں سے بیندھا ہے۔ اگر سوئیاں نکال لی جائیں تو وہ ہوش میں آ سکتا ہے۔ قید سے رہائی پا سکتا ہے۔ شہزادی تمام سوئیاں نکال لیتی ہے ایک سوئی جو دماغ میں پیوست ہے اس کو نکالتے نکالتے تذبذب کا شکار ہو کر چھوڑ دیتی ہے۔ بیدار ہوتا شہزادہ پھر ساکت ہو گیا۔ ہر سوئی نکل گئی یا ہر کانٹا راستے سے ہٹ گیا مگر دماغ میں پیوست سوئی نہ نکل سکی۔ سوچوں اور فکروں پر پڑی گرہ نہ کھل سکی۔ آزادی حاصل کر کے بھی غلام کے غلام ہی رہے۔ یہ سوئی سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی، نظریاتی ہر شعبے میں کھبی ہوئی ہے۔ اس سوئی کو نہ نکالا گیا تو پچھتاوے ہوں گے۔ یہ علامت ماضی حال دونوں پر منطبق ہو سکتی ہے۔ ناخداؤں کے دماغ ماؤف ہیں اور لاچار خلقت پریشان۔
’’شہادت‘‘ کا کردار علی احمد گھمبیرتا کا شکار ہے۔ وہ اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہے۔ وہ اپنے ہونے کی گواہی دینے سے خوفزدہ ہے۔ یہ گواہی نہ دینے والا شخص حالات کے جبر کے آگے بے بس ہے۔ اس افسانے کے کرداروں میں دھوتی والا، چھریرے بدن والا، کوٹ والا، شریف ، سکھ اور موٹا سماج کی بوقلمونی کے مظہر ہیں۔
پطرس کو مسیح علیہ السلام نے کہا تھا آج مرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا انکار کرے گا۔ دوسری طرف امام حسین ؓ کے ساتھی بھی بطور حوالہ آئے ہیں۔ مسیح کے حالات اور کربلا سے اگر علی احمد مشابہ ہے تو وہ خود بے وفاؤں کا نمائندہ ہے۔
’’سوت کے تار‘‘میں پاک بھارت جنگ کا حوالہ ہے۔ قرآن مجید کی ایک آیت کا ذکر بار بار آیا ہے کہ ایک عورت محنت مشقت سے سوت کاتتی ہے پھر خود ہی ادھیڑ دیتی ہے۔ اس تمثیل سے اپنا آپ نقصان کرنے والوں کا بیان ہے۔ بصارت سے محروم بتی، اندھیرا رات، تباہ مکان جیسی علامتیں دوراندیشی کے فقدان، ظلم و جبر اور بربادی کو سامنے لاتی ہیں۔ یہاں بھی سوٹ بوٹ والا آدمی، ملاں پنواڑی، سکوٹر والا، بے نام ہیرو اور نوجوان جیسے کردار موجود ہیں۔ جو مغربی مقلد ملاکم دکاندار، مڈل کلاس کے لوگ اور عام آدمیوں کے نمائندہ ہیں۔ بے نام کردار جو کسی وصف سے اپنی پہچان کرواتے ہیں، وہ سب علامتی ہیں۔
’’شہر افسوس‘‘کا اوّلین افسانہ ’’وہ جو کھوئے گئے‘‘ ہے۔ یہ علامتوں سے مملو کہانی ہے۔ یادداشت کھو بیٹھنے والے لوگ، زخمی سر والا، باریش آدمی، تھیلے والا آدمی اور نوجوان ہیں۔ زخم، ریش، تھیلا یہ علامتیں جھگڑا، بزرگی اور ترقی پسندی کی ہیں۔ (ناول ’’تذکرہ‘‘ میں کامریڈ کے پاس تھیلا ہے وہ غالباً یہی ہے)۔ یادداشت اجتماعی ماضی کی علامت ہے اس کو بھلا دینا بہت بڑا المیہ ہے۔ غرناطہ اور جہان آباد (دلی) اسی اجتماعی ماضی کی عظمتوں کی نشانیاں ہیں۔ آگ، ہجرت کے ہنگام کا استعارہ ہے۔ دھواںConfusionاور uncertainity کی علامت ہے جو مہاجروں اور نئی مملکت کا مقدر بنی۔ چپ سنسر شپ اور بنیادی حقوق کے تعطل کو ظاہر کررہی ہے۔ کتا خوف اور نفرت کا نمائندہ ہے۔ سب کچھ کے باوجود افسانہ نگار مایوس نہیں، کوئل اچھے مستقبل، امیداور خوشیوںکی علامت ہے۔ زخمی سر اور زخمی سینہ، جسمانی اور روحانی گھاؤ کو ظاہر کرتے ہیں۔
کٹا ہوا ڈبہ‘‘ میں ریل، سفر، رات، پٹڑی، جنگل کی علامتیں اکہری حقیقت لیے ہوئے ہیں۔ ریل گاڑی ہندوستان میں جدت کی علامت ہے جس نے سفر کے روایتی طریقے کی کایا کلپ کر دی۔ ہندوستانی خام مال کی بندرگاہوں پر جلد منتقلی اور جدائی کی علامت بھی ہے۔ اکبر الہٰ آبادی نے انجن اور احمد ندیم قاسمی نے پٹڑی کو سامراجی حملہ قرار دیا تھا۔ سفر، مشکلات، ابتلا اور دشواریوں (ہجرت کے دوران) کو بیان کر رہا ہے۔ یہ ایسی علامت ہے جو زمین پر پاؤں نہ ٹکنے کا استعارہ بھی ہے۔ جنگل ہیبت اور وحشت کی علامت ہے۔ اکیلا رہ جانے والا ڈبہ (جو اپنی ریل سے کٹ گیا) اجتماعیت سے الگ ہو کر تنہا رہ جانے والوں کی علامت ہے۔’’ دہلیز‘‘ میں صفیہ ماضی کی یاد کو تازہ کرتی ہے۔ اس کہانی میں کوٹھڑی، مٹی اور سانپ کی علامتیں ہیں۔ گزرے زمانے کی جادوئی فضا، مٹی کی محبت اور اس پر ثبت پاؤں کے نشانات اور کوڑیالے سانپ کا انجانا خوف سب حال میں مفقود ہیں اسی لیے صفیہ مستقبل کے متعلق پریشان ہے۔ ’’سیڑھیاں‘‘ میں خواب، علم، کنواں، سیڑھی، پتنگ، مردے اور بندر کی علامتوں سے زوال کے سامان مراد لیے گئے ہیں۔ خواب میں امام بارگاہ کے عَلم کا چوری ہو جانا۔ عزا خانے ویران ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ کنویں کی سیڑھیاں اترنا زوال اور پستی میں جانے کا بیان ہے۔ سیڑھی تو بلندی پر جانے کی علامت ہے۔ مگر یہاں یہ پستی کی علامت ہے۔ پتنگ ثقافت کی خوشیوں کی قائم مقام ہے۔ خواب میں اس کی ڈور بھی کٹ چکی ہے۔ ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے۔ صدقہ بلاؤں کے رفع کرنے کے واسطے اکسیر ہوتا ہوگا مگراب کی بار ایسا نہیں ہوا۔ مردے خالی بے روح جسم نہیں بلکہ بے ضمیر، بے حس اور بے مروّت بھی ہیں۔ بظاہر زندہ لوگ مردے ہیں۔ ’’مردہ راکھ‘‘ بھی ’’سیڑھیاں‘‘ کا تسلسل ہے۔ ہندوستان میں عزاداری(جس کا سہرا بابر کے سر بھی باندھا جاتا ہے) صرف ایک مذہبی رسم ہی نہیں بلکہ کلچر کی حیثیت رکھتی تھی(سیاہ قمیص پہننا مذہب نہیں کلچر کا حصہ ہے (قدامت پسند لڑکی) منٹو کا ’’کالی شلوار‘‘بھی گواہ ہے)امام باڑہ کے متولی بدل گئے بد نیت بن گئے۔ دُلدل(گھوڑے) کی خوراک میں ڈنڈی ماری جانے لگی۔ عَلم جن پر سونا چاندی تھے، گروی رکھ دیے گئے۔ تو پھر امام اور اہل بیت نے تو روٹھنا ہی تھا۔
ذوالجناح خالی امام عالی مقام کی سواری کے گھوڑے کا نام نہیں بلکہ یہ حق و صداقت کی علامت ہے۔ یہ وہ مرکب ہے جس کا راکب باطل کو للکارنے والا ہی بن سکتاہے۔ مسلمانوں کا ہر ہیرو اور سورما امام کا جانشین اس لیے لگتاہے کہ اس کے پاس امام کی سواری ہے۔ میسور کے سلطان ہوں یا آخری مغل تاجدار کے جرنیل سب گھوڑے کی علامت کو مفاہیم دیتے ہیں۔انتظار حسین نے یہ علامت بہت جگہ استعمال کی ہے اور سب سے زیادہ دن اور داستان میں اس کا تذکرہ ہے۔ کربلا ایک طاقتور علامت ہے جو حقیقت میں افسانہ نگار کا موثر ہتھیار ہے۔ جس کو ہمہ جہت بنا کر انہوں نے فن میں برتا ہے۔مگر کربلا بڑے تناظر (Perspective)کی علامت ہے۔ علم جو خیبر سے کربلا تک سربلندی اور سرخروئی کا سمبل ہے وہ ہاتھوں سے جاچکا۔ کربلا میں زنجیریں پہنانا اور کربلا سے دمشق براستہ کوفہ جانا اور ہاتھوں کا قلم ہونا یہ سب ہندوستان میں دہرایا گیا۔ ماضی کو حال سے علامتوں کے ذریعے جوڑنا اور اس سے حال کی تفہیم میں مدد لینا، انتظار حسین کا کارگر گُر ہے۔’’ مشکوک لوگ‘‘ میں چیک (Cheque)ہڈی اور کتا مارشل لائی ادوار کی نحوستوں کا احوال سناتے ہیں۔ مشکوک (Spy)جو لالچ کی ہڈی پر کتا بننے پر آمادہ ہو گئے۔ چیک اور بریف کیس رشوت کی علامتیں ہیں۔یہ دونوں علامتیں انتظار حسین کی اپنی اختراع ہیں۔ جن بھی ماورائی اور خلائی مخلوق کا نمائندہ ہے۔ ایک ریفرنڈم (نام نہاد) پر جس کا ٹرن آف ۱۰۰ فیصد تھا ، حبیب جالب نے کہا تھا :
شہر میں ہو کا عالم تھا
جن تھا یا ریفرنڈم تھا(۲۲)
’’شرم الحرم‘‘ اور’’ کانا دجال‘‘ عرب اسرائیل جنگوں کے تناظر میں لکھی گئی کہانیاں ہیں۔ یروشلم، کانا دجال اور بہادر عرب بلیغ علامتیں ہیں۔ عربوں کی شکست کو معراج نبویﷺ سے جوڑا گیاہے۔ اردن، شام، مصر کی شکست پر افسردگی نہیں اس لیے کہ یہ عام شہر ہیں اور ان کی حیثیت مادی ہے جبکہ یروشلم (بیت المقدس) قبلہ اوّل ، مسجد اقصیٰ ہمارے لیے محترم و مکرم ہے۔ اس کا سقوط مسلمانوں کا ملّی واخلاقی زوال ہے۔ اسرائیلی فاتح جرنیل دایاں کا بھی ذکر ہے جس نے اپنے دوستوں کے ساتھ دیوار گریہ پر جاکر گریہ کیا۔ بظاہر دجال شاید اسرائیلی طاقت نظر آئے مگر حقیقت میں انتظار حسین نے زوال آمادگی کو ہی دجال کا نام دیا ہے۔ اپنی اجتماعی ناتوانی ہی سب سے بڑا فتنہ ہے۔ جہاں پر ہمارے پیغمبر بلند ہوئے ہم وہیں پست ہو گئے۔
’’بگڑی گھڑی‘‘ بظاہر پاکستان کے حالات کی کہانی ہے مگر اس کے اندر علامتیں گہرے شعور کی متقاضی ہیں۔ گھڑی ساز معاشرے کی اصلاح اور سماج سدھار کا نمائندہ ہے۔ اس کا کام گھڑیوں کی مرمت ہے مگر اس کی دکان کی سب گھڑیاں غلط وقت بتا رہی ہیں۔ ابو نجومی کا کردار عوام کا استحصال کرنے والا استعماری ایجنٹ ہے جو مستقبل کی پیشین گوئیوں کے بدلے سولہ گز لٹھا لیتا ہے۔ اور اس کے گھر کورے لٹھے (کفن) کا ذخیرہ جمع ہے۔
’’دوسرا گناہ‘‘ خوبصورتی سے رزق اور حاکمیت کو موضوع بناتا ہے۔ زمران، حشام، رافہ اور بختاور جیسے نام اور فضا سے یہ یونانی کہانی معلوم ہوتی ہے مگر دراصل یہ مسلمانوں کی تاریخ کا المیہ مذکور ہے۔ روٹی، دستر خوان، بھوک، دیوار اور دروازہ جیسی علامتوں کا استعمال کمال مہارت سے کیا گیاہے۔زمران حکمران کی علامت ہے۔ اس نے عوام کی رسائی دربار تک مشکل بنا دی،دیوار اونچی کر کے اور دروازہ لگا کر۔ دروازے پر دربان بٹھا کر قلعہ بند ہو جانا رعایا سے ناتا توڑ لینے کو ظاہر کرتا ہے۔ عوام کو جو حکومت کی طرف سہولتیں تھیں ان میں کمی کر دی گئی حتیٰ کہ اناج عوام کابادشاہ کی دودھیا گھوڑیاں کھانے لگیں۔ دودھیا گھوڑیاں خوبصورت عورتوں، لونڈیوں، رکھیلوں، نوکرانیوںاور خواجہ سراؤں کی علامت ہے۔ دوسرے لفظوں میں بادشاہ کی عیاشیوں کو بھی ان گھوڑیوں پر منطبق کر سکتے ہیں۔ دیوار تقسیم کی علامت ہے۔ دیوار برلن سمیت ہر تقسیم اس سے واضح ہوتی ہے۔ دیس نکالا اور غریب الوطنی کو حاکم کی ناراضی سے جوڑنا بھی ہر دور کے جابر سلطان کو بے نقاب کرنا ہے۔
’’دوسرا راستہ‘‘ میں ڈبل ڈیکر بس وطن عزیز کی علامت ہے۔ اناڑی ڈرائیور اس کے کرتا دھرتا ہیں۔ بس کی سمت متعین نہیں(داخلی اور خارجی پالیسیاں سمجھ سے بالاتر ہیں) باہر سے پتھراؤ ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ اینٹ تاک تاک کر بس پر پھینکی جارہی ہے۔ اینٹ ویسے تو تعمیر کی علامت ہے مگر یہاں یہ تخریب و فساد کی نمائندہ ہے۔ کتبے والا آدمی، سوٹ والا آدمی، بیگ والا آدمی، فرنچ کٹ والا، ثقہ آدمی، دھوتی والا اور اچکن والا عینک والاآدمی بھی علامتی حیثیت کے حامل ہیں۔ جو اس ملک کے شہری ہیں۔ ریشم کو بندر سلجھا رہے ہیں یہ طنز بھی وطن کے ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں پر ہے جو حالات کو مزید الجھائے جا رہے ہیں۔ یہ افسانہ سول سروس اکیڈمی میں فریم کروا کر لگا دینا چاہیے بلکہ جتنی بھی اکیڈمیاں ہیں بشمول ٹیوشن اکیڈمیاں ان کے نصاب میں بھی شامل کر دینے میں حرج نہیں۔ ’’اپنی آگ کی طرف‘‘ میں آگ، دھواں، جانی پہچانی علامتیں ہیں۔ حویلی بستی، عمارت، شان و شوکت، تہذیب اور مکان کو پیش کر رہے ہیں۔ جس عمارت کو دشمن گزند نہ پہنچا سکا اس کو مالک (مختار) نے جلا ڈالا۔ مختار عمارت کا مالک سے مراد وطن کا Ownerبھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف جس کا سب کچھ جل چکا (عام آدمی) وہ اپنی زمین و مکان سے ناطہ نہ توڑ سکا۔ ’’لمبا قصہ‘‘ مشرقی پاکستان کے المیہ کے پس منظر میں لکھا گیا۔
ون یونٹ (چاروں مغربی صوبوں کو ملا کر ایک صوبہ بنا دینا ایوبی دور کا بنگالیوں کی اکثریت کو کمزور کرنا تھا) بننا چاہیے تھا یا ٹوٹنا کیسا ہے؟ پر بحث ہو رہی ہے۔ ’’قصہ ‘‘اس کہانی کا انجام ہے جو ملک حاصل کرنے اور پھر گنوانے کامضمون لیے ہوئے ہے۔ ایک کردار کی چپ علامت ہے۔ شاید بنگلہ دیش بن جانے کے اعلان پر ردعمل ہے۔ ’’وہ اور میں‘‘میں شکوک اور وسوسوں کا بیان ہے۔ جنگ، اجنبی چہرے اور دھاگہ وہ علامتیں ہیں جو اوہام کو گہرا کر دیتے ہیں۔ ہر دور کے المیہ اور واقعہ سے عوام لاعلم رہتے آئے ہیں۔ ’’اجنبی چہرے‘‘ ہیں جو کٹھ پتلیوں کی طرح دھاگوں سے بندھے نظر آتے ہیں۔ جن کا کنٹرول کہیں اور ہوتا ہے۔ ’’وہ جو دیوار کو نہ چاٹ سکے‘‘ کھلے طور پر آزادی حاصل کرنے والوں کی ناکامی کو بیان کرتا ہے۔ غیروں سے جان چھڑاتے چھڑاتے آپس میں ہی بھائی الجھ پڑے۔ یاجوج ماجوج سے مراد ہندوستان کے عوام ہیں جو فسادات کی بدولت اس لقب کے مستحق ٹھہرے۔دیوار، پہاڑ، پتھر اور لہو مشکلات، مصائب اور خون خرابے کو واضح کر رہے ہیں۔ بوڑھا دانشور حیران ہے۔ قابیل اور ہابیل کے جھگڑے میں فیصلہ آسان تھا کہ ایک قاتل اور دوسرا مقتول تھا مگر اب لڑنے والے دونوں گناہ گار ہیں۔
’’اندھی گلی‘‘ میں مہاجروں کے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں جانے کا قصہ ہے۔ نعیم اور ارشد جب ہند یاترا کے دوران اپنی بستی میں گئے تو بستی نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ ایک گلی میں مڑے تو گلی آگے سے بند تھی۔(حال ہی میں بھارت سے گلزار جب پاکستان آئے تو اپنی جنم بھومی (جہلم) دیکھنے گئے مگر پھر وہ یاترا ادھوری چھوڑ کر سرپٹ واپس بھاگے) اندھی گلی، کنواں، خالی میدان، مندر کے معانی یہ ہیں کہ مہاجروں کے لیے وہاں اب کچھ بھی اپنا نہیںراستے مسدود ہیں۔ جستجو کیا ہے نامی کتاب میں انتظار حسین نے اپنی ہند یاترا میں بھی اپنی بستی کو روٹھا ہوا پایا۔(۲۳)
یہ رشتوں میں دراڑ اور زمین سے اکھڑنے کی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ ’’شہر افسوس‘‘ کے سبھی کردار بے نام ہیں۔ مثلا پہلا آدمی، دوسرا آدمی، سانولا آدمی، سانولی لڑکی، بوڑھا، منکوحہ، باپ، بہو اور پریشان حال آدمی۔ سانولا نوجوان جس کے سامنے اس کی بہن(سانولی لڑکی ) کو برہنہ کیا جاتا ہے۔ دونوں بنگالی معلوم ہوتے ہیں۔ بوڑھا، منکوحہ اور باپ اس نسل کے نمائندہ ہیں جو علیحدہ مملکت کے لیے کوشاں رہے اور اب ابتلاؤں میں گھرے ہیں۔ پہلا اور دوسرا مغربی پاکستانی مکالمہ کار ہیں ۔ جو حالات پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ پریشان حال شخص ملک کا دانشور بھی ہو سکتا ہے۔ شہر افسوس ڈھاکہ، چٹا گانگ، راجشاہی بھی دکھائی دیتے ہیں اور لاہور اور اسلام آباد بھی۔ ساڑھی بنگالی عورت کا لباس ہے جو تار تار ہوا۔ اسیری قید کے ایام کی طرف اشارہ ہے جو بھارت میں گزارے گئے۔ لاشیں شہر میں ان گنت ہیں۔ زندہ لاشیں بھی اب شہر میں ہیں۔ اس میں جانی نقصان اور ضمیر کی موت کا قصہ بیان ہوا۔ کتا معروف علامت ہے۔جس کو سمجھنا کیا ہے۔ کتا وفاداری اور رکھوالی کی صفات کا حامل مگر یہاں نفرت کے لائق سمجھا گیا ہے۔ برباد گھر ۱۹۷۱ء کا المیہ ہے۔
حوالہ جات
۱۔ انیس اشفاق۔ اردو غزل میں علامت نگاری۔ اردو اکادمی، اتر پردیش۔ ۱۹۹۵ء۔ ص ۲۸
۲۔ گستاؤلی بان، ڈاکٹر۔ تمدن ہند، ترجمہ: سید علی بلگرامی۔ مقبول اکیڈمی، لاہور۔ ۱۹۶۲ء۔ ص۳۸۱
۳۔ انتظار حسین۔ گلی کوچے۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۰۷ء۔ص۳
۴۔ انتظار حسین۔چراغوں کا دھواں۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۰۳ء۔ ص ۱۲۳
۵۔ انتظارحسین۔ علامتوں کا زوال۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔ ص ۱۵
۶۔ مجید امجد۔ تدوین و تحقیق:خواجہ محمد زکریا۔ کلیات مجید امجد(طبع نو) ۔ نئی دہلی، فرید بک ڈپو۔ ۲۰۰۳۔ ص ۳۱۰
۷۔ انتظار حسین۔ جستجو کیا ہے۔سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔۲۰۱۱ء۔ص ۱۲
۸۔ انتظار حسین۔ گلی کوچے۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۰۷ء۔ ص ۴۵
۹۔ کلثوم نواز۔ رجب علی بیگ سرور کا تہذیبی شعور۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۱۹۸۵ء ۔ ص ۲۵
۱۰۔ انتظار حسین۔ گلی کوچے۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۰۷ء۔ ص ۶۲،۶۳
۱۱۔ غلام فرید ، خواجہ۔ کلام خواجہ غلام فرید مع فرہنگ۔ لاہور۔ مشتاق بک کارنر۔ سن ندارد۔ ۴۶۹
۱۲۔ مہیشور دیال ۔عالم میں انتخاب دلی۔ اردو اکادمی،دہلی۔۱۹۸۷ء۔ص ۷۷
۱۳۔ انتظار حسین۔ گلی کوچے۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۰۷ء۔ ص ۱۳۴
۱۴۔ مسعود سعد سلمان، دیوان مسعود سعد سلمان۔ تہران، شرکت کتابفروشی ادب۔ ۱۳۱۸ھ۔ ص ۵۹۲
۱۵۔ انیس اشفاق۔ اردو غزل میں علامت نگاری۔ اردو اکادمی، اتر پردیش۔ ۱۹۹۵ء۔ص ۱۱۱
۱۶۔ امین راحت چغتا۔ دلائل۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۱۹۹۳ء۔ ص ۵۰
۱۷۔ انتظار حسین۔ کنکری۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۰۷ء۔ ص ۱۴
۱۸۔ سلیم اختر۔ افسانہ حقیقت سے علامت تک۔اردو رائٹرس گلڈ، الہ آباد۔ ۱۹۸۰ء۔ ص ۱۰۶
۱۹۔ انتظار حسین۔ کنکری۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۰۷ء۔ ص ۱۹۱
۲۰۔ انتظار حسین۔ آخری آدمی۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۰۷ء۔ص۹
۲۱۔ ایضاً، ص ۴۱
۲۲۔ حبیب جالب۔ کلیات حبیب جالب۔لاہور، ماورا پبلشرز۔ ۱۹۹۳ء۔ ص ۳۳۱
۲۳۔ انتظار حسین۔ جستجو کیا ہے۔سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۱۱ء۔ص ۷
٭٭٭
ڈاکٹر فرید حسینی
اسلام آباد ماڈل کا لج فار فائز
سٹریٹ ۱۷،آئی ٹین ون، اسلام آباد
Leave a Reply
Be the First to Comment!