دو بھیگے ہوئے لوگ کا تنقیدی مطالعہ
اقبال مجید کے افسانوں کا موضوعاتی دائرہ بہت وسیع ہے وہ اپنے عہد کو جبر وستم ، عدم تحفظ منافقت اور بیگانگی کے حوالے سے پیش کرتے ہیں ۔ اپنے عہد کی گم شدگی بے چارگی اور جبر وستم کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر مختلف صورتوں میں اپنے افسانوں میں پیش کرتے ہیں ۔ ’دو بھیگے ‘ ہوئے لوگ اس قسم کے افسانہ ہے ۔
اقبال مجید ۱۲؍ جولائی ۱۹۳۴ء میں مرادآباد میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام عبدالمجید تھااور والدہ کا نام امجدی بیگم ۔ ان کا باقاعدہ تعلیمی سلسلہ لکھنؤ سے شروع ہوا ۔
۱۹۵۶ میں لکھنؤ یونیورسٹی سے بی ، اے کیا اور ۵۸-۱۹۵۷میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ۔ ایڈ کیا ۔کانپور یونیورسٹی سے سیاسیات کا امتحان بھی پاس کیا ۔ ۷۵۔۱۹۶۰ تک گورنمنٹ انٹر کالج اور اورئی ضلع ضالون یوپی کے محکمہ تعلیم سے منسلک رہے ۔ ۱۳؍ مارچ ۱۹۷۵ سے بھوپال میں آل انڈیا ریڈیو پروڈیوسر پروگرام رہے ۔پھر ۱۹۹۰ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہوگئے ۔ اور ۱۹۹۲ میںملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔ نئے افسانہ نگاروں کی جو نسل سامنے آئی اس میں اقبال مجید کو اہم مقام حاصل ہے ۔
اقبال مجید کو اردو ناول وافسانہ دونوں میں مہارت حاصل ہے۔ مگر انھوں نے افسانے کوفنی اعتبار سے زیادہ اہمیت دی ۔ ان کا پہلا قابل ذکر افسانہ ’’ عدّو چاچا ‘‘ ہے جس کو ۵۶-۱۹۵۵ میں لکھا ۔ اور دوسرا افسانہ ’’ دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ ہے اور یہ ہی ان کا افسانوی مجموعہ بھی ہے ۔ ان کا یہ افسانہ ظ۔ انصاری کو بہت پسند آیا اور انھوں نے اس افسانے کو شاہراہ میں اپنے نوٹ کے ساتھ شائع کرادیا ان کا یہ افسانہ بہت مقبول ہوا اور پھر ان کے ایک کے بعد دیگر افسانے اردو رسالوں میںشائع ہو نے لگے اور انہیں عوام میں مقبولیت ملنے لگی ۔ حالاں کہ اسی درمیان میںا نھوں نے ۱۵ برسوں کا ایک طویل عرصہ عملی تھیٹر میں صرف کردیا اور افسانوں کی طرف سے ان کی توجہ ہٹ گئی پھر ۹۲- ۱۹۹۱ میں دوبارہ کہانیاں لکھنا شروع کردیں ۔ اور ان کے کئی افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے ۔
۱۔ ’’دو بھیگے ہوئے لوگ ‘‘ ۱۹۹۷۰ ناشرنصرت پبلشرز ، لکھنؤ
۳۔’’ ایک حلفیہ بیان ‘‘ ۱۹۸۰ء نصرت پبلشرز امین آباد، لکھنؤ
۲۔’’ شہر بدنصیب‘‘ معیار پبلشرز، نئی دہلی۱۹۹۷
۴۔’’تماشا گھر ‘‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،د ہلی سن اشاعت اول۲۰۰۳
اقبال مجید نے اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی ، ڈرامے بھی لکھے ان کے افسانوں کے ہندی ، مراٹھی ، انگریزی روسی اور کئی زبان میں ترجمے بھی ہوئے ۔
اقبال مجید کی شناخت ایک ترقی پسند افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوتی ہے ۔ انھوں نے افسانوی دنیا میں قدم رکھتے ہیں اپنی ذہانت اور عمدہ صلاحیتوں سے جلد ہی بلندمقام حاصل کرلیا ۔ حالاں کہ ان کے کئی ہم عصر افسانہ نگار جیسے جوگیندر پال ، عابد سہیل ، قاضی عبدالستار ، انور سجاد ، جیلانی بانو ، خالدہ حسین ، سریندر پرکاش ، بلراج مین را، وغیرہ افسانوی دنیا میں اپنا لوہا منواچکے تھے مگر اقبال مجید کے افسانے کچھ الگ طرح کی نمائندگی کرتے ہیں ان کے افسانوں میں رومانیت حقیقت اور نفسیات سبھی کچھ موجود ہے ۔اس کے علاوہ نظریاتی فکر بھی موجود ہے غرض اقبال مجید ہر طرح کی کہانی تخلیق کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔’’ دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘،’’ ایک حلفیہ بیان ‘‘ ، شہر بدنصیب ‘‘ او ر ’’ تماشا گھر‘‘افسانہ نگاری کے مختلف دور کی عکاسی کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں کسی طرح کی یکسانیت ومماثلت نہیں ملتی جو کہ ان کے افسانوں کی یہی اہم خوبی ہے یہاں تک کہ موضوع اور اسلوب بیان بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ ان کے عنوان میں ہی افسانے کا موضوع چھپا ہوتا ہے ۔ اپنے عہد کے اور زیادہ تر اپنے ہی طبقے کے متعلق انسانوں کی سیاسی سماجی حقیقت اور معاشرتی بے رحمی اور ثقافتی محرومیوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بناکر پیش کرتے ہیں ’’ ٹوٹی چمنی‘‘،’’ عدو چاچا‘‘ ، ’’ بے سہارا‘‘، ’’ایک رات ایک دن ‘‘ اس ضمن کے افسانے میں۔
’’ دو بھیگے ہوئے لوگ اقبال مجید کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے اس میں پندرہ افسانے شامل ہیں ۔ ’’ ٹوٹی چمنی ‘‘ ’’ عدو چاچا‘‘، ’’آئینہ در آئینہ ‘‘ ، دل چارہ گر ‘‘ ،’’ رگ سنگ‘‘ ،’’ میرے بعد‘‘، ’’جھوٹے کوئلے ‘‘، ’’ بڑا بابو ‘‘ ، ’’ شوکیس ‘‘، ’’ایک رات ایک دن‘‘ ،’’ بے سہارا‘‘، ’’ تھکن ‘‘ ، ’’ پیٹ کا کیچوا ‘‘ ،’’ بیساکھی ‘‘ ، ’’دو بھیگے ہوئے لوگ ‘‘ ہیں ۔ ’’ دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘، فکری وفنی اعتبار سے مجموعے کا سب سے بہترین افسانہ ہے ۔
’’ دو بھیگے ہوئے لوگ ‘‘ ، ایک علامتی افسانہ ہے ۔ افسانہ میں بارش کا ذکر در اصل کسی آفت ، مسائل یا کسی ایسی صورت حال کی علامت ہے جو اچانک آتی ہے اور سبھی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔ اور معاشرے کا ہر فرد اس پریشانی سے دو چار ہوتا ہے ۔
مگر اس کہانی میں دوسرے افسانوں کی طرح نہ تو کوئی واضح کردار نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی کہانی ۔ اور نہ ہی کرداروں کے تعلق سے کئی قسم کے واقعات کی شمولیت ہے بلکہ افسانے میں ایک خاص طرح کی عجیب وغریب صورت حال کی تفصیل ہے ۔ اس میںا یک صیغہ واحد متکلم یعنی ’’ میں ‘‘ اور دوسرا وحد غائب یعنی ’’ وہ ‘‘ یہ ہی دو کردار ہیں ۔ دونوں کی سوچ الگ ہے دونوں کے ذاتی مسئلے اور مسائل الگ ہیں۔ آسمان صاف شفاف ہونے کے باوجود اچانک بارش کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور بارش تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ۔ اچانک بارش ہونے کی وجہ سے دونوں ایک چھت کے نیچے کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ بارش میں بھیگنے سے بچ سکیں مگر جہاں کھڑے ہوتے ہیں وہ چھت ٹپک رہی ہوتی ہے اور بارش سے بچنے کے لیے دونوں الگ الگ طریقے سے غور وفکر کرتے ہیں ۔ کردار ’’میں‘‘ چھت کے نیچے قطرہ قطرہ بھیگنے کے بجائے پوری طرح بارش میں بھیگنے کو ٹھیک سمجھتا ہے تاکہ محفوظ جگہ پر پہنچ کر اس طرح بھیگنے سے بچ سکے ۔ اور ’’ وہ ‘‘ بارش رکنے کے انتظار میں اسی چھت کے نیچے آہستہ آہستہ بھیگتا رہتا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو وہ اپنے ساتھ اور بھی موجود اشیاء کو بھیگنے سے بچاسکے ۔
افسانہ اس طرح سے شروع ہوتا ہے کہ ۔
’’ بالکل اچانک بارش شروع ہوگئی ۔گرد آلود زمین پر انتہائی موٹی موٹی بوندیں اتنی تیزی سے یلغار کرنے لگیں کہ لوگوں کو جسم پر ان کی چوٹو ں کا احساس ہونے لگاتھا۔ کسی کو توقع نہ تھی کہ بارش ہوگی ، نہ تو موسم ہی تھا اور نہ ایسے آثار – خلاف توقع کوئی بہت بڑی تبدیلی ہمیں سب سے پہلے چونکاتی ہے اور پھر ہمارے معمول میں خلل پیدا کردیتی ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے بارش نے سڑکوں اور چوراہوں کا سارا نظام درہم برہم کردیا تھا ، لوگ گھروں سے نہ تو برساتیاں لے کرنکلے تھے اور نہ چھاتے ۔ اپنے اپنے بچاؤ کے لیے ادھر اُدھر بھاگنے لگے ۔ ‘‘۱؎
مندرجہ بالا اقتباس میں افسانہ نگار نے خود ہی یہ بات صاف کردی کہ بارش ایک مشکل گھڑی یا کسی تبدیلی کی علامت ہے جو اچانک معاشرے میں پیدا ہوجاتی ہے جس کی کسی کو توقع ہی نہیں ہوتی ہے ۔ جس کا تعلق سماجی ، تہذیبی ، معاشی اور معاشرتی یا کچھ اور بھی ہوسکتا ہے ۔ معاشرے میں خلاف توقع جب اس طرح اچانک کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس کا اثر لوگوں کے رویے اور فکر پر بھی پڑتا ہے جولوگوں کو چونکاتی ہے اور روز مرہ زندگی کے معمول میں خلل پیدا کردیتی ہے ۔
کردار ’’ میں ‘‘ ( ’’میں ‘‘ یعنی نئے نظریات حامل کردار ، وہ یعنی قدیم نظریات کا حامل کردار )اور ’’ وہ ‘‘ دونوں دو گرہوںطبقوں اور دو نظریات کی علامت ہیں جو اپنے اپنے مسائل سے نبردآزما ہوتے ہیں اور اپنے فکروجستجو سے اس مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تبدیلی ادب اور فکشن میں بھی ہوتی ہے کسی نئے پن کے لیے یا کسی روایتی اور تہذیبی ورثہ کو بچانے کے لیے ، اور اس صورت حال سے متعلق لوگوں کے الگ خیالات ’’ طرز وفکر ‘‘ سوچنے اور عمل کرنے کے طریقے ہوتے ہیں جو اپنے اپنے لحاظ سے بارش یعنی تبدیلی کی صورت ِ حال سے محفوظ رہنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ ایک گروہ ایسا ہوتا ہے جو خاص طرز فکر کے مالک ہوتے ہیں اور اس تبدیلی سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو اس صورت ِ حال میں ڈھال لیتے ہیں ۔ اس کا اندازہ اس اقتباس سے لگاسکتے ہیں ۔
’’ میں نے زمین پر تھوکا اور والہانہ انداز میں ڈھرڈھراتے ہوئے پانی میں سینہ تان کرنکل کھڑا ہوا ۔ میں نے پھرپلٹ کرنہیں دیکھا ہوا کے تیز جھونکے اور بوچھاروں کے تیز تماچوں نے میرا استقبال کیا۔ …… ہمارے پاس ان میں سے کچھ باقی نہ رہا اور یہی ساری الجھن ہے ۔ہم لوگ وید نہیں لکھ سکتے کوئی وید نہیں لکھ سکتے لیکن تم اس بھیگتے ہوئے آدمی کے بارے میں کیا کہہ رہے تھے ۔ ‘‘۲؎
مندرجہ بالا اقتباس میں افسانہ نگارنے داخلی خود کلامی کے ذریعہ اپنے نظریات کی وضاحت کی ہے کہ نئے نظریات کا حامل گروہ صورتِ حال یا تبدیلی سے دو چار ہوتے ہوئے بھی آگے کا جاری سفر رکھتا ہے اور نئے معاشرے میں جینے کا سلیقہ سیکھتا ہے ۔ اس نظریہ کے لوگ مختلف طریقے کے تجربات کی روشنی میںآگے بڑھنا چاہتے ہیںا ور بہتر صورت حال پانے کے لیے اپنے اندر لگاؤ، جستجو، بہتر عقیدے ،ذریعے اورنیا پن پیدا کرکے خوش ہوتے ہیں اور اس تبدیلی سے بیدار ہوتے ہیں ۔
دوسرا گروہ یعنی ’’ وہ ‘‘ پرانے خیالات اور نظریہ کا حامل ہے اس تبدیلی سے وہ خود کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے اس تبدیلی سے بچنے اور اپنے ورثے اور اثاثے کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ اس کے یہاں تہذیب ، سیرت ، لگاؤ ، جستجوبہتر عقیدے وہ سب کچھ پہلے سے موجود ہیں ۔ا س کا پورا مذہبی اور تہذیبی رویہ اس بنیاد پرقایم ہے ۔ اور اسے بچانے کی فکر میں وہ اس تبدیلی سے نکل کر بچنا چاہتا ہے ۔ تبدیلی آنے سے نئے پن کے اثر ات اس پر بھی مرتب ہوئے مگر وہ ٹو ٹ پھوٹ کے عمل سے دو چار ہوتا ہے اور اپنے تہذیبی ورثے کو بچاتا رہتا ہے ۔
اقتباس ملاحظہ ہوں :
’’ اگر آپ مناسب سمجھے تو بتائیں کہ کپڑوں کے علاوہ آپ کے ساتھ اس وقت کیا اور کوئی چیز ہے ؟ کیا مطلب ہے ؟ میں نے بات کی وضاحت چاہی ۔ میرا مطلب ؟ پتلون کی جیبوں میں اس وقت کون سی چیزیں ہیں ، میرا مطلب ہے …روپیہ پیسہ ۔۔۔۔ آپ کے پاس جوتے قمیص ، پتلون اور ریز گاری کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لیکن میرے پاس ہے ، آپ کے لیے اگر جوتے قمیص ، پتلون اور ریز گاری بھیگ بھی جائے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن میں جوتے اور قمیص اور پتلون کے بھیگ جانے پر بھی اس چیز کو بھیگنے سے بچانا چاہتا ہوں ‘‘
کس چیز کو ؟ میں طیش میں آکر چیخ پڑا ۔‘‘
وہی جو میرے پاس ہے اور آپ کے پاس نہیں ۔‘‘۳؎
مندرجہ بالا اقتباس میں تصویر تہذیب ، کا غذ، مسودہ وغیرہ سب چیزیں الگ الگ رجحان کی شکل میں بہت سے باتوں کی طرف نشاندہی کرتی ہیں ۔ نیا ،پرانا اور قدیم وجدید کی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ جس سے ایک روایتی تہذیب ، مخصوص اور معاشرتی اور معاشی فکر کی نمائندگی ہوتی ہے ۔ اس اعتبار سے اقبال مجید کا یہ افسانہ بے حد معنویت رکھتا ہے ۔ زبان کی سلاست اور سادگی افسانے کا وصف خاص ہے ۔
حواشی :
۱۔ دو بھیگے ہوئے (مجموعہ) اقبال مجید ، ناشر ۔ نصرت پبلشرز ، لکھنؤ ، ص ، ۲۷۵
۲۔ ایضاً ٍ ٍ ٍ ص ،۸۵۔۲۸۲
۳۔ ایضاً ٍ ٍ ٍ ص ،۸۹۔۲۸۷
٭٭٭
کنیز فاطمہ
ریسرچ اسکالر،شعبۂ اردو ، خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنؤ
فون نمبر :8791706476
Email: kanizfatma928@gmail.com
نوٹ: اقبال مجید کی کتابیں اور افسانے پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!