فن رباعی اور علامہ اقبال کی دوبیتیاں

علامہ سرمحمد اقبال کی شہرت کا ڈنکا نہ صرف ہندوستان میں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی بچتا رہاہے۔ان کی لازوال شہرت کی وجہ ان کی شاعری ہے جس میں نظمیں، غزلیں، مثنوی اور قطعات وغیرہ شامل ہے ۔دنیائے ادب میں جو اعزاز اقبال کو حاصل ہے وہ شاید ہی کسی اور شاعر یا ادیب کو میسر ہوئی۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت سے انکار کفر ہوگا۔ اس وقت میری گفتگو کا موضوع اقبال کی دو بیتاں اور قطعات ہے جنہیں عرف عام میں رباعی بھی کہا جاتاہے لیکن یہ رباعی کے معیار پر اترتی ہے یا نہیں پہلے اس پر گفتگو ہوجائے پھر بات آگے بڑھے گی۔

ڈاکٹر عندلیب شادانی کا کہنا ہے کہ اقبال کی دو بیتوںکو رباعی کہنا چاہئے نہ کہ قطعہ۔ جس کی وجہ وہ بابا طاہرعریاں کی دو بیتوں کو بتاتے ہیں جو بحرہزج کے مسدس میں ہے۔اپنی کتاب ’تحقیقات‘ میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بابا طاہر عریاں کے جتنے مجموعہ ہائے کلام ایران، یوروپ اور ہندوستان میں چھپے ہوئے ہیں ان کے سرورق پر رباعیات بابا طاہر ہی لکھا ہے۔ چونکہ اقبال کی دو بیتاں بھی بحر ہزج کے مسدس میں ہے تو اسے بھی رباعی ہی کہنا چاہئے۔

عندلیب شادانی نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کسی مستند عالم فن کا حوالہ نہیں دیا بلکہ شادانی صاحب نے اپنے دعوے کے ثبوت میں علامہ اقبال سے اپنے گفتگو کو قلم بند کیاہے:

’’بالآخر میں نے ایک دن علامہ اقبال مرحوم سے پوچھا کہ پیام مشرق میں لالہ طور کے جو ااشعاردرج ہیں ان کے لئے آپ نے رباعیات کا عنوان کس لئے اختیار کیاحالانکہ وہ رباعی کے مخصوص وزن پر نہیں ہیں۔ علامہ مرحوم نے فرمایا ایران،یوروپ اور ہندوستان میں جتنے مجموعۂ کلام بابا طاہر کے چھپے ہوئے ہیں ان کے سرورق پر رباعیات بابا طاہر ہی لکھا ہے اس لئے میں نے اپنے اشعار کو رباعی کہنا درست سمجھا کیونکہ بابا طاہر عریاں کی رباعیات کے وزن پر ہیں۔‘‘

یہ ہوگئی عندلیب شادانی صاحب کی بات جنہو ںنے بغیر کسی دلیل کے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ۔ یہاں کئی نکات کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔

ڈاکٹر عندلیب شادانی نے رباعی کے وزن کے متعلق جو رائے ظاہر کی ہے اس کو ماننے میں ہمیں تامل ہے کہ رباعی کے اوزان کی پیچیدگی اور زحافات کی نزاکت سے کم لوگ واقف ہوں لیکن اتنی بات تو سب جانتے ہیں کہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ کا وزن رباعی کے اوزان میں سے ایک وزن ہے اور اقبال کی جس قسم کے اشعار کو شادانی صاحب نے رباعی بتایا ہے وہ رباعی کے مخصوص وزن پر نہیں ہیں۔

جبکہ رباعی کا مخصوص وزن مفعول، مفاعیل، مفاعیل فعول؍فعل اور مفعول ، مفاعلن، مفاعیل، فعل؍فعول اورجیساکہ اوپر ذکرہوچکاہے کہ زحاف تخنیق کے استعمال سے رباعی کے چوبیس اوزان بنائے جاتے ہیں لیکن علامہ کی دو بیتاں مفاعیلن، مفاعیلن، فعولن میں تخلیق ہوئی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ رباعی کے اصل وزن اور علامہ اقبال کے دو بیتوں میں نمایاں فرق ہے ۔ہم اس بات کو اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ رباعی کا ہر مصرع چہار رکنی ہوتا ہے یعنی بحر ہزج کے مثمن میں اور علامہ اقبال کے مصرعے سہ رکنی ہیں ا س لئے فنی نقطۂ نگاہ سے علامہ اقبال کی دو بیتوں کو رباعی کہنا درست نہیں معلوم ہوتا۔ ڈاکٹر شادانی نے دوبیتی اور رباعی کے ناموں کو خلط ملط کرکے بحث کو خاطر خواہ پیچیدہ بنادیاہے لیکن کسی مستند عالم عروض یا ماہر فن کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ زمانۂ قدیم سے لے کر اب تک کسی ہندی یا ایرانی عروض نویس یا قواعد نگار کا کوئی ایسا قول نہیں ملا جس میں بحر ہزج مثمن یعنی چار رکنی مصرعوں کے سوا ہزج مسدس یعنی سہ رکنی مصرعوں کو رباعی بتایاگیاہو۔رباعی جس صنف سخن کا نام ہے وہ اپنے مخصوص وزن کے ساتھ اختلاف نہیں کرسکتی۔ میں اس جگہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب ’’ اردو رباعی فنی و تاریخی ارتقا ‘‘ سے چند مستند اساتذۂ ادب کی رائے پیش کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ شاید ان سے اصل مسئلہ کو سمجھنے اور سمجھانے میں مددملے۔

ایں بحر را عروضیان از مزاحفات بحر ہزج دانستہ واصل آں را بصورت ذیل آوردہ مفعولن، مفاعلن، مفاعیلین، فع۔‘‘( تحقیق انتقادی در عروض فارسی ص:104مبطع دانش گاہ تہران از پروفیسر ناتل خانلری)

ترجمہ: اس بحر کو عروضیوںنے بحر ہزج کے مزاحفات میں سے پایا ، اور اس کو ذیل کی صورت میں اخراج کیا ، مفعولن، مفاعلن، مفاعیلین، فع۔

’’رباعی کے باب میں بیان مختصر یہ ہے کہ اس کا ایک وزن معین ہے ۔زحافات اس میں بعض کے نزدیک اٹھارہ ،بعض کے نزدیک چوبیس ہیں اور اس بحر کا نام بحر رباعی ہے۔ رباعی سچ ہے کہ سوائے اس بحر کے اور بحر میں نہیں کہی جاتی ہے اوریہ جو مطلع اور حسن مطلع کو رباعی کہتے ہیں اس راہ سے کہ مصرعے چار میں کہو ورنہ رباعی نہیں ہے۔فقیر اس باب میں متعصب ہے اوروزن کے دو بیت ہیں۔ قافیہ والی کو رباعی نہ کہئے گا۔‘‘(عود ہند ص:13,14مرتبہ انواراحمد از غالب)

رباعی بحر ہزج مثمن سے مخصوص ہے اورنو زحافات واقع ہوتے ہیں جن سے چوبیس وزن پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ (معیار البلاغت ص:107مطبع نول کشور از منشی مولوی پرشاد)

’’عرضیوں نے رباعی کے چوبیس وزن ڈھونڈ نکالے ہیں اور خواجہ حسن قطان خراسانی نے ان سب کے دو شجرے بنائے ہیں اورہروزن میں بارہ وزن ٹھہرائے ہیں۔‘‘( قطعۃ العروض ص:128مطبع شام اودھ 1300قد بلگرامی)

’’الحاصل اس بحر کا نا م رباعی ہے کیونکہ اس بحر کے سوا اور بحر میںنہیں کہی جاسکتی پس جو لوگ ناواقف نہیں ہیںوہ عوام کی طرح ہروزن کو رباعی نہ کہہ سکیںگے۔‘‘(بحر الفصاحت ص:136مطبع نول کشوراز منشی نجم الفنی)

 ’’اصل میں بحر ہزج کے بارہ اخرب اور اخرم اوزان جن کی تعداد چوبیس ہوتی ہے اوزانِ رباعی کہلاتے ہیں اور رباعی کا اطلاق اپنی اوزان پر ہوتاہے۔‘‘(تنقید شعر العجم ص:7مطبع انجمن ترقی اردو حافظ محمود شیرانی)

’’رباعی بحر ہزج سے مخصوص ہے اس طرح چوبیس وزن بنتے ہیں پس جو چار مصرعے چوبیس وزن پر ہوںگے وہ رباعی ہے ورنہ ایسے دوست جن کا پہلا ، دوسرا اورچوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہو رباعی نہیں۔‘‘ (قواعد اردو ص:360مطبع انجمن ترقی اردو از مولوی عبدالحق)

’’وآں بہ ہمیں بحر اختصاص دارد وبست وچہار وزن برائے آن در د وشجرہ مقرر کراند۔‘‘(غیاث اللغات ص:291)

اور یہ اسی بحر کے ساتھ مختص ہے اوراس سے چوبیس اوزان دو شجروں میںمقرر کیا گیا ہے ۔

رباعی کے وزن کے متعلق ان اقتباسات کو آج تک کی تحقیق کا خلاصہ سمجھنا چاہئے۔ جن کتابوں کا حوالہ دیاگیاہے اور جو بھی حوالے دیئے گئے ہیں وہ تمام کے تمام مستند اہل قلم کے ہیں۔ان تمام کی رائے میں کوئی اختلاف نہیں ملتا۔ کسی نے بھی ایک جگہ ہزج مثمن یعنی چہار رکنی کے سوا سہ رکنی کو رباعی یا ترانہ نہیں کیا۔اب اس بات پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ اقبال کے اشعار کے متعلق شادانی صاحب کی رائے کس قدر حیرت انگیز ہے۔ چونکہ ڈاکٹر شادانی صاحب کی رائیں علمی و ادبی حلقوں میں وقیع شمار کی جاتی ہیں ا س لئے یہ ضروری ہے کہ اس پہلو کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔

جیساکہ کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ ڈاکٹر شادانی نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کئی مستند عالم فن کا حوالہ نہیں دیا اور علامہ اقبال کی گفتگو کا جو طویل حوالہ شادانی صاحب نے دیاہے اس کی تائید میں علامہ اقبال کی گفتگو کی کوئی واضح تحریر مدلل بحث ہمیں نہیں ملتی۔ایک خط میں البتہ اپنے اشعار کے متعلق ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی کو اس قدر لکھتے ہیں:

’’مہربانی کرکے ایک دفعہ بہت سی رباعیات نہ بھیج دیا کریں۔ تھوڑی تھوڑی بھیجا کریں ۔ان کو رباعیات کہنا غلط نہیں ہے۔ باباطاہر عریاں کی رباعیات جو اس بحر میں ہیں رباعیات کہلاتی ہیں ان میں قطعات بھی داخل ہیں یاں یہ صحیح بلکہ یہ رباعیات رباعی کے مقررہ وزن میں نہیں ہیںمگر اس کا کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘

اوپر کی عبارت سے تویہ بھی پتہ چلتاہے کہ اقبال کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے یہاں باباطاہر عریاں کے اشعار رباعی کے مقررہ اوزان میں نہیں ہیں۔ اب اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ علامہ اقبال نے کیا کوئی مضائقہ نہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا علمی وفنی مباحث میں اس قسم کے مضائقہ کی گنجائش ہے ۔اقبال کی اس سرسری سی رائے کو فیصلہ کن سمجھنا درست نہیں ۔حافظ محمود شیرانی اقبال کے متعلق لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر سر محمد اقبال کے متعلق مشہو رہے کہ وہ بعض غیر رباعی اوزان کو رباعی سمجھتے رہے اورجب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ اس کے ازالہ کی کوشش کی۔‘‘

اقبال بحر ہزج مسدس یعنی مفاعیلن ، مفاعیلن، فعولن ہی کو نہیں بلکہ بعض جگہ تو ایسے اوزان کو بھی رباعی کہہ گئے ہیں جن کا بحر رباعی سے کیا بلکہ رباعی کے مخرج بحر ہزج ہی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثال کے طورپر علامہ اقبال کے ان اشعار کو بطور حوالہ دیا جارہاہے:

تو غنی از ہر دوعالم من فقیر

روز محشر عذر ہائے من پذیر

در اگر بینی حسابم ناگزیر

از نگاہ مصطفیٰ پنہاں بگیر

اس رباعی کے متعلق محمد رمضان کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’آ پ بے تکلف وہ رباعی جو آپ کو پسند آگئی ہے آپ اپنے نام سے مشہور کریں ۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘

ان اشعار کو دیکھ کر یہ بات تو بالکل صاف ہے کہ یہ بحر ہزج کے مسدس میں نہیں بلکہ بحر رمل مسدس میں ہیں اورجس کا وزن فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلان ہے ۔اب ذرا اس بات پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ان اشعار کو بھی رباعی کہیں گے وہ بھی صرف اس بناپر کہ اقبال انہیں رباعی لکھ گئے ہیں اوراگر ہم اقبال کے ان اشعار کو رباعی مان بھی لیںتو مولانا روم کی مثنوی اورخود اقبال کی مشہور مثنوی’اسرار خودی‘ و’رموز بیخودی ‘کے علاوہ سیکڑوں،ہزاروں شعرا کی غزلوں اورقطعات کو بھی رباعی ماننا ہوگا۔ غالب کی بھی کئی غزلیں اس وزن میں لکھی ہوئی ہیں۔ان کی ایک غزل کا مطلع دیکھیںجو اس بحر اوروزن میں ہے:

کوئی دن گر زندگانی او رہے

اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

تو کیاہم اس طرح تمام غزلوں کو بھی رباعی کہیں۔مجھے لگتاہے اگر اس میں فرق روا نہ رکھاگیاتو پھر رباعی بہ حیثیت صنف کے ختم ہی ہوجائے گی۔

علامہ اقبال اورشادانی صاحب کی گفتگو کا یہ جملہ بھی حیرت انگیز ہے کہ ایران ،یوروپ اور ہندوستان میں جتنے مجموعۂ کلام بابا طاہر کے چھپے ہیں ان کے سرورق پر رباعیات باباطاہر لکھاہے بقول فرمان فتح پوری:

’’ خداجانے علامہ اقبال نے یہ بات شادانی صاحب سے کیونکر کہی ا س لئے کہ علامہ مرحوم کی زندگی ہی میں باباطاہر عریاں کے مجموعہ کے کئی نسخے ایسے موجود تھے جن کے سرورق پر ’رباعیات بابا طاہر‘ نہیں بلکہ دو بیت ہائے بابا طاہر لکھا ہواتھا۔ہمارے پاس بابا طاہر عریاں کے کلام کے تین نسخے ہیں۔یہ تینوں ڈاکٹر وحیددست گردی مدیر ’ارمغان‘ کے جن کا حوالہ ڈاکٹر شادانی نے اپنے مضمون میں دیا ہے۔تصحیح شدہ ہیں۔ایک نسخہ مرقع کی صورت میں ہے اوراس کے سرورق پر یہ عبارت درج ہے۔‘‘

متن کامل و درست دیوان باباطاہر عریاں بضمیمہ دو بیتہائے مشکوک تصحیح شدہ وحید دست گردی۔ (دیوان باباطاہر عریاں با تصویر مطبوعاتی امیر کبیر تہران)

دوسرے نسخے کے سرورق پر یہ عبارت ملتی ہے:

’’دیوان باباطاہر تصحیح وحید دست گردی۔‘‘

’’دیوان کامل بے نظیرباباطاہر عریاں ہمدانی از اشارت کتاب فروشی ادب۔‘‘33

تیسرے نسخے کے سر ورق پر یہ عبارت ہے:

’’دیوان کامل بے نظیر بابا طاہر عریاں ہمدانی از نشریات مخصوص مجلہ ارمغان۔‘‘34

ان نسخوں کے مقدمہ اورحواشی میں بھی کہیں رباعی کا نام نہیں ملتا۔ان نسخوں میں بابا طاہر کے کئی اور نسخوں کے حوالے ملتے ہیں لیکن ان میں بھی دو بیتی کے سوا رباعی کا سراغ نہیں ملتا۔ آخری نسخے کے آغاز میں جو فہرست مضامین دی گئی ہے اس میں بھی رباعی نہیں بلکہ اس طورپر دوبیتی لکھا ہے:

(1)دوبیتی ہائے بابا طاہر ومع قطعات بر وزن دوبیتی مطابق نسخۂ اصل

(2)دو بیتی ہائے

(3)دو بیتی نو یافتہ کہ در طبع اول نیست

(4)فرہنگ الفاظ دوبیتی ہائے پیش از طبع اول

اس نسخے میں خود وحید دست گردی نے جو تشریحی نوٹ دیاہے اس میں بھی صرف دو بیتی لکھا ہے۔

ان تمام حوالات کے باوجود ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:

’’لیکن اگر کہیں ایسا ہو اور کسی ناشر یا مدون نے اپنی فنی لاعلمی سے یا سوا باباطاہر کے اشعار کو رباعی کے نام سے درج کردیاہے تو کیا صرف ا س بناپر ہمارے علمائے فن کی تمام رائیں’غرق مئے ناب اولیٰ‘کے مصداق ٹھہریں کی اس لئے ڈاکٹر شادانی نے علامہ مرحوم کے سلسلے میں جو نجی گفتگو نقل کی ہے اس سے نہ صرف موقف پر روشنی پڑتی ہے اورنہ شادانی صاحب کی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ باباطاہر عریاں کے جتنے نسخے اب تک شائع ہوئے ہیں ان کے سرورق پر رباعیات باباطاہر لکھا ہواہے۔‘‘

ڈاکٹرشادانی نے اپنے دعوے کی دوسری دلیل اس طرح پیش کی ہے:

’’رضا قلی ہدایت نے مجمع الفصحاء میں باباطاہر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ (رباعیات بدیع ومضامین رفیع بزبان قدیم دارند)‘‘

’’رضا قلی ہدایت کے متعلق صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ اگر مولانا شبلی کے شعر العجم کی فن کی تمام تصانیف کو بے معنیٰ قرار دینا کسی طرح درست نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر شادانی صاحب کو یہ بھی دیکھنا چاہئے تھا کہ خود’المعجم فی المعائیر الاشعار‘ کا مؤلف شمس قیس رازی اس بارے میں لکھنا ہے جس کتاب کے حاشیے پر ڈاکٹر براؤن نے بابا طاہر عریاں کے اشعار کو بقول شادانی صاحب رباعی لکھا ہے۔

اگر علمی وفنی مباحث میں محض تذکرہ اورتاریخ نگاروں پر بھروسہ کیاجائے گا تو ہزج مسدس ہی کیا اوربہت سے اوزان کو رباعی کہنا پڑے گا۔ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو پیش کی جاسکتی ہیں۔

نصیرالدین ہاشمی نے اپنی کتاب ’دکن میں اردو‘ میں صفحہ نمبر 206پر ولی دکنی کے ان اشعار کو رباعی کے عنوان کے ساتھ لکھا ہے:

مہربانی و لطف دلربا

سابقہ تھا سواب نہیں دستا

یا مگر خواب وہ زمانہ تھا

کہ مجھے خواب میں نہیں دستا

اس امر سے ہم بخوبی واقف ہیں اور جاننے والے جانتے بھی ہیں کہ ان اشعار کا تعلق رباعی سے ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ان اشعار کا رباعی کے وزن سے دوردور تک کوئی واسطہ نہیں ہے ۔اس کا وزن فاعلن، فعل، فاعلن، فعل ہے جو رباعی کے اوزان میں نہیں ہے۔اب اگر کوئی شخص ہاشمی صاحب کے حوالے سے ولی دکنی کے ان اشعار کو رباعی لکھتا ہے تو کیا شادانی صاحب بھی اسے رباعی کہیںگے۔

اس طرح سید سلیمان ندوی نے بھی ان دو بیتوں کو رباعی لکھاہے:

آں می بدست آں بت سیمیں من نگر

گوئی کہ آفتاب بہ پیوست با قمر

واں ساغری کہ سایہ تفگینندی برو

برگ گل سپید است گوئی بلالہ بر

یارم سپند اگرچہ بہ آتش ہمی فگند

از بہر چشم تا نہ رسد مرو را گزند

آورا سپند و آتش ناید ہمی بکار

باروئی ہمچو آتش وبا خال چوں سپند

جہاں تک ان اشعار کاسوال ہے یہ بھی رباعی کے وزن پر نہیں ہے ۔اس کا وزن مفعول، فاعلات، مفاعیل، فاعلن ہے جس کا رباعی کے وزن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ہم سید سلیمان ندوی کے اس بیان کو سچ مان بھی لیںتو پھر غالب کی ا س غزل کو بھی رباعی کہنا ہوگا جس کا مطلع یہ ہے:

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہوتو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

جاننے والے جانتے ہیں کہ غالب کی یہ مکمل غزل اسی وزن میں ہے جس کو سید سلیمان ندوی نے رباعی لکھا ہے۔مولوی عبدالحق نے دیوان اثر میں ذیل کے قطعہ کو بھی رباعی کے نام سے سے درج کیا ہے ۔

فلک دل کو کب تک جلاتا رہے گا

عجب رنگ یاں کے دکھا تا رہے گا

اگر جانتے ہم تجھے دل نہ دیتے

کہ دل لے کے تو یوں ستاتا رہے گا

پھر اسی طرح دیوان ذوق مطبع نولکشو ر پریس 1923کے صفحہ 190پر بھی قطعہ کورباعی کے تحت لکھا گیا ہے ۔

قدم سنبھال کر رکھ راہ عشق میں اے ذوق

گزرنا اس رہ دشوار سے ہ آساں ہے

جوکوئی آبلہ پائے موربھی یہاں

تر ے ڈبونے کو وہ بھی تنور طوفاں ہے

اسی طرح محمد عبداللہ خویشگی نے ’مرقع‘ رباعیات کے نام سے رباعیوں کا جو انتخاب شائع کیاہے اس میں مختلف شعرا کے درجنوں ایسے قطعات ہیں جنہیں رباعی سمجھ کر نقل کرلیاگیاہے ۔اکبر الٰہ آبادی کے ان اشعار کو بھی رباعی کے نام سے درج کیاگیاہے ۔قطعہ ملاحظہ فرمائیں:

اک شاعری وہ ہے جسے فطرت سے میل ہے

اک شاعری وہ ہے جو اکھاڑے کا کھیل ہے

دونو ںہیں گو کہ اپنی جگہ مستحق داد

منزل سے اس کو کام ہے اس کو کھیل ہے

اکبر کا یہ قطعہ بھی رباعی کے وزن میں نہیں ہے اس کا وزن بھی مفعول، فاعلات، مفاعیل، فاعلن ہے۔اس طرح کے سیکڑوں ہزاروں اشعار ہیں جنہیں رباعی کے عنوان سے درج کردیاگیاہے اورنہ جانے اس قسم کے غلط اندراجات کتنی تعداد میں ہیں تو کیا ان تمام اشعار کو شادانی صاحب صرف اس بناپر رباعی کہیں گے کہ وہ کسی کی تالیف، کسی کے تذکرے اورکسی کی کتاب کے حاشیے پر رباعی کے نام سے درج ہیں اور اگر ایسا ہوا تو مجھے نہیں لگتاکہ عروض کا کوئی بھی وزن ایسا بچے گا جو رباعی کے اوزان میں نہ آجاتاہو۔حقیقت یہ ہے کہ علمی وفنی مباحث میں ایسے کمزور حوالوں پر بھروسہ کرنا عقلمندی نہیں ہے۔جن لوگوں کو فن سے واقفیت ہوتی ہے وہ اپنی تحریروں میں احتیاط سے کام لیتے ہیں ۔اخیر میں میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ رباعی ایک ایسی صنف ہے جس کی الگ پہچان ہے اوراسے اس کی اصل شکل میں ہی رہنے دیا جائے وگرنہ رباعی بحیثیت صنف کے ختم ہوجائے گی۔

٭٭٭

خوشبو پروین

ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو، حیدرآباد یونی ورسٹی، حیدرآباد

7644096273

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.