شہریار کی شاعری میں استفہام
شہریارؔکے اسلوب شاعرانہ میں جو چیز بہت نمایاں ہے وہ ان کا سوالیہ یااستفہامیہ لب ولہجہ ہے۔ اس لب ولہجہ سے ان کی جدت طرازی اور فلسفیانہ طرز فکر دونوں کا اندازہ ہوتاہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ کلمات استفہام کے استعمال سے جیسافائدہ شہریارنے اٹھایاہے جدید اردوشاعری میں کسی نے نہیں اٹھایا۔ البتہ شہریار سے پہلے غالبؔکے کلام میں اس صفت خاص کی گہرائیوں اور لطافتوں کوشدّت سے محسوس کیاجاسکتاہے۔ فکری سطح پر شہریار بھی غالب کے قریب نظرآتے ہیں۔ اسلوب کی سطح پر دونوں میں فرق ہے لیکن استفہام کی سطح پر بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہاں ہم اس چیز کو دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ شہریار کی غزلوں میں کلمات استفہام کادخل کس نوعیت سے ہواہے۔ اس نے ان کے کلام پر کیا اثر ڈالاہے، اور شعروں میں اس لب ولہجہ سے کس طرح کی معنویت پیداکی گئی ہے۔ صنف غزل میں بعض اوقات بحور، اوزان، قوافی اور ردیف کی پابندی شعر میں اس درجہ حائل ہوتی ہے کہ شاعرکو اچھوتے سااچھوتا خیال ترک کرنا پڑتاہے لیکن شہریار نے اس رنگ میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ جدیدشعرامیں شہریارایسے شاعرہیں جن کے لہجے کا بنیادی عنصر استفہامیہ یااستعجابیہ ہے۔ اس لیے کہ گھرکی تعمیرکا تصور میں بھی ناممکن ہونا اور اس ناممکنات کامشاہدہ کرلینا اور مثبت اور مستحکم صورت حال کو محسوس کرلینا شہریارکی سوچ اورپیش قدمی کالازمی حصہ بن جاتاہے۔ یہی وہ استفہامیہ لہجہ ہے جوان کے کلام کو معنویت بخشتاہے۔شہریار نے پوری شاعری میں خصوصاً غزلوں میں استفہامیہ اندازبیان پرپوری توجہ مرکوز کی ہے ۔ ان کے اسلوب بیان کی جدت کاراز بڑی حدتک اسی انداز بیان میں پوشیدہ ہے۔ شہریار کے نقادوں نے اب تک کلام شہریار کی اس خوبی کومحسوس نہیں کیا۔شاید ان کے لہجے کی سادگی وپرکاری اور لہجہ کا دھیمہ پن نے ذہن کو ادھرمنتقل نہیں ہونے دیاہو ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسلوب میں جلوئوں کی فراوانی سے نظر انتخاب چوک جاتی ہو۔ کیوں کہ ان کے کلام میں لسانی سطح پر جو تبدیلیاں رونماہوئی ہیں اور انہوں نے جو استعاراتی نظام قائم کیاہے جس میں رات، خواب،سمندر ، سورج، ریت، پرچھائی، شہراور دھندوغیرہ ایسے استعارے ہیں جو معاصر حسیت کو تضادات اورتناظرات کی روشنی میں پیش کرتے ہیںوہیں پیکر سازی کاعمل بھی جس میں بصری پیکروں کی تعداد زیادہ ہے اکثر گہرے مفاہیم اور کہیں کہیں خوف ناک معنی کاحامل پیکر بن گئے ہیں۔شہریارکے یہاں ان کے سحرسے نکلنا آسان نہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ شہریار نے اسلوب بیان میں عموماً استفہامیہ لہجے سے کام لیاہے اور اس لہجے کو جدتِ خیال سے اس طرح ہم آہنگ کیاہے کہ شعروں میں معنویت خوب سے خوب تر ہوگئی ہے۔ اس لہجے کی نمائندگی اور شہادت کے لئے منتخب ترین اشعار سے مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ شہریار کے پہلے شعری مجموعے ’اسم آعظم‘ کی پہلی ہی غزل اس کی نمائندگی کرتی ہے۔
کیا کوئی نئی بات نظر آتی ہے ہم میں
آئنہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے؟
کسی نئی چیزکا نظرآنااور آئنہ کااسے دیکھ کر حیران ہونا ایک بڑی حقیقت اور بدلائوکی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن اس حقیقت کے علاوہ شعرمیں جولطف قائم ہوتاہے وہ مصرعہ ثانی کے انداز بیاں کی وجہ سے ہے۔ لفظ کیوں، سے جواستفہام قائم کیاگیاہے اور اس سے جو استعجابی فضا تعمیر ہوئی ہے وہی شعرمیں معنویت کے ساتھ ساتھ لطافت کے آثاربھی پیدا کرتی ہے۔ یہ پوری غزل ہی استفہامیہ ردیف’کیوں‘ ہے، پر مشتمل ہے۔ اسی ردیف کی مددسے استفسار قائم کیاہے جس نے ان کے لہجے میں ایک تازگی اور توانائی پیدا کردی ہے۔
شہریاؔر کے یہاں ’اسم عظم‘سے لے کر ’شام ہونے والی ہے‘تک یہ اندازبیاں موجود ہے۔ جیسے جیسے کلام پختگی کی منزلوں کو چھوتاگیاہے، استفہامیہ لہجہ کی آب وتاب تیز ہوتی گئی ہے۔ غالبؔ کی طرح وہ بھی خدااور کائنات پر سوالیہ نشان قائم کرتے نظرآتے ہیں۔ شہریار کا بہت مشہور شعرہے۔
اے خدامیں ترے ہونے سے بہت محفوظ تھا
تجھ سے مجھ کو منحرف توہی بتاکس نے کیا؟
غالب بھی سوال قائم کرتے ہیں ۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا؟
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
شہریاؔر اور غالبؔ دونوں کے یہاں تاریخی اور سماجی صورت حال کے برعکس عقیدوں سے بے نیاز انسان کی نفسیاتی اور روحانی الجھنوں کو پیش کیا گیاہے۔ ایسے میں لب ولہجہ کی معنویت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ دونوں کے یہاں لفظ ’کس نے ‘اور ’کس کی‘ کی جگہ ’اس نے‘ اور ’اس کی‘ بھی ہوسکتاتھا لیکن اس سے شعرکی معنویت گھٹ جاتی، شعر محدود ہوجاتا اور اس کا لطف بھی جاتارہتا۔شعر:
تلاش جس کی رہی عمر بھر کیا تھا؟
زمین پہ کچھ بھی نہ تھا آسماں پر کیا تھا؟
بڑی شگفتہ اور خوبصورت غزل ہے۔ پوری غزل پانچ اشعار پر مشتمل ہے اور تمام اشعار کاانداز استفہامیہ ہے۔ غزل کی کامیابی کا دارومدار اسی لب ولہجہ پرہے۔ ذیل میں اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔
ہوس کے زہر کی ہر بوند پی چکے تھے ہم
رگوں میں جمی ہوئی ریت سے مفر کیا تھا؟
ہمارا عکس بھی بے عکس آئینوں میں تھا
سبب ضرور تھا اس کا کوئی مگر کیا تھا؟
یہ سوچنے کی بھی مہلت نہیں ملی ہم کو
خیال وخواب کی دیوار سے ادھر کیا تھا؟
اب ایک ہم ہیں ہمارے طویل سائے ہیں
کوئی بتائوکہ دنیا میں پیشتر کیا تھا؟
یہ بڑی پرتفنن غزل ہے۔ اس کا استفہامیہ لہجہ کیا تھا، کیاتھا، کیاتھا، ایسی ردیف ہے کہ قاری کو ٹھہرکر پڑھنے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ان تمام اشعارمیں صرف ردیف کے تلازمے نہیں ہیں بلکہ وہ استفہام کی نوعیت بھی رکھتے ہیں۔ اب تک ہماراسابقہ غالبؔ کے نقشِ فریادی کی گزرگاہوں سے ہواتھا۔ شہریارؔ کے یہاں بھی استفہامیہ فضاکی تخلیق اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا کردیتی ہے۔
شہریارؔ خالص جدیدلب ولہجہ کے شاعرہیں وہ اپنے تجربات کو جب زبان وبیان کی کسوٹی پر پرکھ لیتے ہیں تو غزل کچھ اس طرح ہوجاتی ہے۔
جو برا تھا کبھی اب ہوگیا اچھاکیسے؟
وقت کے ساتھ میں اس تیزی سے بدلا کیسے؟
کوئی ایک آدھ سبب ہوتا تو بتلا دیتا
پیاس سے چھوٹ گیا پانی کا رشتہ کیسے؟
بارہا پوچھنا چاہا کبھی ہمت نہ ہوئی
دوستو راس تمہیں آئی یہ دنیا کیسے؟
زندگی میں کبھی ایک پل ہی سہی غور کرو
ختم ہو جاتا ہے جینے کا تماشا کیسے؟
شہریارؔکے کلام میں یہ استفہام اسلوب کی نئی نئی شکلیں پیش کرتاہے۔ ان کے یہاں کہیں قوافی اور کہیں ردیف کو استفہامیہ لہجے میں پیش کرکے استفسار قائم کیاجاتاہے۔ یہ اسلوب ان کی غزلوں کو غالبؔکی طرح ایک وقار بخشتاہے۔ پوری غزل میں استفہامیہ انداز بیان خوب سے خوب ترکی جستجو کا مصداق قرارپاتاہے۔ یہ غزل شہریارؔ کے لب ولہجہ میں انفرادیت اور تازگی کا احساس کراتی ہے۔
شہریارؔکے یہاں استفہامیہ لب ولہجہ کی دل آویزی کے کئی اسباب ہیں۔ جس میں طنزیہ پیرائے بیان اور موضوع کے تضادات کی نشان دہی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کے یہاں طنز کے تیزتر نشتر انہیں شعروں میں ملیں گے جہاں استفہامیہ کلمات داخل ہوگئے ہیں۔
میں اپنی آنکھوں کو کیوں بند کر نہیں لیتا؟
ہرشخص کی رسوائی کا سبب میں ہوں
زندہ رہنے کے سوا کام نہیں کچھ مرا
فرق کیا پڑتا جو یہ میں نے نہ جانا ہوتا؟
شہریارؔکا بہت مشہور شعرہے۔
جو چاہتی ہے دنیا وہ مجھ سے نہیں ہوگا
سمجھوتہ کوئی خواب کے بدلے نہیں ہوگا؟
پہلے شعرمیں خود کو رسوائی کاسبب بتاکر واحد متکلم اپنے اوپرہی سوالیہ نشان قائم کرتاہے۔ مفہوم شعرسے قطع نظر اس شعرکی روح مصرعۂ اولیٰ کے لفظ’کیوں‘میں ہے۔ اس لفظ سے جو استفسار قائم ہوتاہے اس سے بہت ہی حوصلہ مند جواب ملتاہے کیوں کہ یہاں کسی کانام نہیں لیاگیاہے۔ لب ولہجہ کی جدت اور استفہامیہ طرز بیان سے شعرلامحدود بھی ہوجا تاہے۔ دوسراشعر استفہام کے ساتھ ساتھ سہل ممتنہ کی بھی بہترین مثال ہے۔ شعرمیں کلمۂ استفہام ’کیا‘اہمیت کا حامل ہے۔ اس لفظ کو بطورِ استفہام انکاری استعمال کرکے شاعرنے بڑی خوبصورتی سے اس جملے کو محذوف کردیاکہ آج تک جس بات کوجاننے کی میں نے شعوری کوشش نہیں کی آج خلافِ عادت اس کو کیوں جان لیا۔ اس شعر میں لفظ ’کیا‘ سے زبر دست تضاد بھی ابھرتاہے اورطنزبھی ۔تیسرے شعرمیں ضمیر تنکیرکوئی سے استفہام کااندازپیداکیاگیاہے۔ اس شعرمیں اپنی ذات اور سماج دونوں پر طنز ہے۔ جو مختلف النوع آفات کوبھی جنم دیتاہے۔ یہاں سفرکارخ ایک ایسی منزل کی طرف ہے جسے غیرانسانی خرابے سے تعبیر کیا جاسکتاہے۔ یہاں سوال قائم کرکے شہریارؔکا انفرادی احساس اجتماعی شعورمیں ڈھل جاتاہے۔
شہریارؔکے کلام میں اپنی شعری روایت سے وابستگی اور کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ نظرآتاہے۔ جس کا بڑافائدہ زبان وبیان پر قدرت اور اسلوب بیان میں ندرت کی صورت ہمارے سامنے آتاہے۔ زبان وبیان پر قدرت کی وجہ سے انہوں نے غزلوںمیںخوبصورت اور بامعنی استفسارقائم کرنے کا ڈھب پیدا کیا ہے۔ انہوں نے کہیں کلماتِ استفہام سے اور کہیں استفہامیہ لفظوں کے بغیر صرف لب ولہجہ کی مددسے یہ انداز قائم کردیاہے۔
کیسی دستک تھی کہ دروازے مقفل ہوگئے؟
اور اس کے ساتھ رودادِ قفس پوری ہوئی
بڑھارے مری وحشتیں چاک گریباں کردے
کوئی ہے جو یہ زندگی کاسفر مجھ پہ آساں کردے
شہریارؔکے یہاں یہ استفہامیہ انداز خود کلامی کی بھی صورت اختیار کرلیتاہے۔ زیادہ ترشعروں میں یہ وصف خود کلامی کی کیفیت اور لہجے کے دھیمہ پن میں چھپ ساجاتاہے لیکن غورکرنے پر صوری اور معنوی حسن کاراز بالعموم زیربحث اسلوب ہی میں پوشیدہ نظرآئے گا۔
وہ کون تھا، وہ کہاں کا تھا، یہ کیا ہوا تھا اسے
سنا ہے آج کوئی شخص مرگیا یارو
یہ شعر استفہامیہ لب ولہجہ سے شعرکے قالب میں کچھ اس طرح سے ڈھل گئے ہیں کہ آفاقیت کو سمولیتے ہیں۔ شعرکا سادہ اسولب اور بے تصنع طرزِ اظہار میں اگر کوئی چیز کمال پیداکرتی ہے تووہ استفہامیہ لب ولہجہ ہے۔ جو قدروں اور عقیدوں کو جھنجھوڑکررکھ دیتاہے۔ شعرکے ایک ہی مصرع میں تین سوال قائم کردینا وہ کون تھا؟کہاں کا تھا؟ اسے کیا ہواتھا؟ کے بعد دوسرے مصرع کادھیمہ پن اور آہستہ روی کمالِ فن کی دادچاہتی ہے۔لفظ ’کیوں‘نہ صرف استفسار قائم کرتاہے بلکہ جذبہ کی شدت اور بلند آہنگی کودبادیتاہے۔
استفہام عشقیہ مضامین میں بھی نئی نئی جہات کااضافہ کرتاہے۔ ان کے یہاں عشقیہ شاعری کی سادگی، جوش اور صداقت ،جنسی مضامین میں معنی کی تہہ داری اور حسن کاری کاایک بڑاسبب استفہامیہ انداز ہی ہے۔ اردوشاعری نے ہرعہدکی سماجی زندگی کی ترجمانی کی ہے ۔شہریارؔ کے یہاں بھی اپنے عہد کاسماج اور اس کا رجحان منکعس ہوتاہے۔ یہاں عاشق خود احتسابی کے عمل سے گزرتاہوانظرآتاہے۔ اس دوران کئی سوالات تصورعشق کے متعلق اس کے ذہن میںابھرتے ہیں۔
چھوٹ کر تجھ سے مراحال بتا کیا ہوتا؟
جیسا سمجھا تھا اگر تو کہیں ویسا ہوتا
شعرمیں یہ استفسار مخصوص لہجے اور طرزاداکی بناپر ایک سے زیادہ معنی پیداکردیتاہے۔ استفہامیہ اسلوب کی بنا پر دوسرے جدید شعراکے مقابلے میں شہریار کے یہاں زیادہ رنگارنگی دیکھنے کو ملتی ہے ۔لیکن یہ طرز ادا مفہوم میں اس وقت دوسرے معنی پیدانہیں کرسکتی۔ جب تک کہ کوئی استفہامیہ کلمہ اس کا معاون نہیں ہوجاتا۔ چونکہ اس شعرمیں لفظ ’کیا‘کااطلاق استفہام اخباری اوراستفہام انکاری دونوں سطح پر ہوسکتاہے ۔ اس لیے شعرمیں ذومعنویت پیداہوجاتی ہے۔
جدید شعرامیں شہریارؔایک ایسے شاعرہیں جواپنے استفہامیہ لہجے اورفکری بنیادوں پر غالبؔ کے بہت قریب نظرآتے ہیں۔عشقیہ تجربات میں بھی اور اظہار وبیان کی سطح پر بھی لیکن جذبے کی صداقت اور استفہام کی فراوانی شہریارؔکے یہاں زیادہ ہے۔شعر
مرے جنوں کو تری گواہی بہت
چاک گریبا نہ کیوں میں نے سیا آج تک؟
غالبؔکاشعربھی ملاحظہ ہو:
جز زخم تیغ ناز نہیں دل میں آرزو
جیبِ خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے
دونوں شعروں کے ظاہری مفہوم اورجذبے کی صداقت سے قطع نظر اگرہم لب ولہجہ پر گفتگو کریں تو شہریارؔ کے یہاں لہجہ کو کلمۂ استفہام کی معاونت حاصل ہے۔ جو غالب کے شعرمیں نہیں۔ اگر لفظ ’کیوں‘کو غم انگیز اندازمیں پڑھیں تو استفہام انکاری اور اگر سرسری لہجہ میں پڑھیں تو استفسار کارنگ پیدا ہوتا ہے۔شہریارؔ نے سادہ اور عام لفظوں میں استفہامیہ کلمہ کی مددسے معنی کی ایک سے زیادہ جہت پیداکردی ہیں۔ اس طرز خاص میں ایک اورشعر:
یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا
میں تجھ سے جدا ہوکے بھی تنہا نہیں ہوتا
ساقی فاروقی کا شعر ہے۔
ہم تنگ نائے ہجر سے باہر نہیں گئے
تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہے مر نہیں گئے
دونوں کے یہاں محبوب سے گفتگو عاشق کی خود اعتمادی کی دلیل ہے کہ وہ محبوب کے رحم وکرم کے محتاج نہیں۔ شہریارؔاور احمد مشتاق دونوں محبوب سے محوگفتگو ہیں۔ دونوں کے یہاں فرق لہجے کاہے۔ شہریار سوال قائم کرتے ہیں، احمد مشتاق صرف گفتگوکرتے ہیں۔ دونوں کے یہاں کسی طرح کے تصنع کا احساس بھی نہیں۔ شہریار کے یہاں استفہام انکاری بھی ہے اور استفسار بھی۔ احمد مشتاق کے یہاں استفہام انکاری ہے لیکن دونوں شعروں کا کمال یہ ہے کہ ان کے یہاں نہ صرف لب ولہجہ کی تازگی پائی جاتی ہے بلکہ استفہام اور استفسار سے عشقیہ روایت میںا یک نئے باب کا اضافہ بھی ہے۔
اس طرح ان اشعارمیںاستفہامیہ طریقۂ کار کے اس مطالعے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ یہ استفہام برائے استفہام ہے توکہیں برائے استفسار ،کہیں قوافی استفہامیہ ہیں توکہیں ردیف ، کہیں ایک مصرعے میں استفسار قائم کیا گیاہے ،کہیں دونوں میں، کہیں ایک بار نظر آتاہے ، کہیں ایک سے زیادہ بار، شعروں میں بلکہ مصرعوں میں آتے ہیں، کہیں کلمات استفہام کی مدد سے یہ رنگ چڑھ گیاہے، کہیں صرف لب ولہجہ سے ان میں کچھ غزلیں ایسی ہیں جو مسلسل ہیں اورکچھ غیرمسلسل ،کچھ بڑی بحروں میں ہے کچھ چھوٹی میں، کہیں شہریار نے استفہام سے حیرت واستعجاب کی فضا پیداکی ہے، کہیں کلمات استفہام کی مدد سے طنزوتشنیع اور خوف کا پہلو پیداہوگیاہے، کہیں عشقیہ مضامین میں استفہامی کلمات سے احتسابی رنگ کے آثار پیداہوتے ہیں، توکہیں خود کلامی اور ہم کلامی کی لطافتیں شعروں کو معنویت بخشتی ہیں۔غرض کہ شہریار نے اس طرز میں عجیب رنگارنگی پیداکردی ہے۔ اس لیے شہریار کا شمار ایسے فنکاروں میں ہوتاہے۔ جن کا ایک طرز احساس ہے۔ وہ اپنے تجربوں کوایک مخصوص رنگ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے ایسااسلوب اختیار کیاہے جوان کے مخصوص طرز احساس سے ہم آہنگ ہوگیاہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ جہاں تک استفہامیہ لہجہ کا سوال ہے تو سوائے غالب کے بہت کم لوگوں نے اس مخصوص طرز اظہار میں غزلیں کہنے کی ہمت کی ہے اور اگر کسی نے کی بھی ہے توبجز خیالات کو نظم کردینے کے شعریت پیداکرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، سوائے شہریارکے ۔غالب اورشہریار نے اس رنگ میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی ہے بلکہ یوں کہاں جائے کہ شہریار کے یہاں طنز کے تیزترنشتر سے گہری معنویت کے حامل اشعار انہیں غزلوں میں ملیں گے جن کے قافیے اور ردیف استفہامیہ ہیں توبے جانانہ ہوگا۔ یہاں حوالے کے طورپر ایسی غزلوں کے چندمطلع پیش کئے جارہے ہیں تاکہ اس کی وضاحت ہوسکے۔
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفاں ساکیوں ہے؟
اس شہر میں ہرشخص پریشاں ساکیوں ہے؟
جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے؟
زندگی روز نئے رنگ بدلتی ،کیوں ہے؟
(اسم اعظم)
بنیاد جہاں میں کجی کیوں ہے؟
ہرشے میں کسی کی کمی کیوں ہے؟
(ہجرکے موسم)
دل میں اترے گی تو پوچھے گی جنوں کتنا ہے؟
نوکِ خنجر ہی بتائے گی کہ خون کتنا ہے؟
(ساتواںدر)
نیند کی اوس سے پلکوں کو بھگوئے کیسے؟
جاگنا جس کا مقدر ہووہ سوئے کیسے؟
بام و درکی قیدسے مجھ کو رہاکس نے کیا؟
دشت کی وسعت کے حق میں فیصلہ کس نے کیا؟
نہیں ہے مجھ سے تعلق کوئی تو ایسا کیوں؟
کہ تونے مڑکے فقط اک مجھی کو دیکھا کیوں؟
تلاش جس کی رہی ہم کو عمر بھر کیا تھا؟
زمیں پہ کچھ بھی تھا آسماں پر کیا تھا؟
(خواب کا دربندہے)
جو برا تھا کبھی اب ہوگیا اچھا کیسے؟
وقت کے ساتھ میں اس تیزی سے بدلا کیسے؟
(’نیند کی کرچیں)
تمہارے شہرمیں کچھ بھی ہوا نہیں ہے کیا؟
کہ تم نے چیخوں کو سچ مچ سنا نہیں ہے کیا
(شام ہونے والی ہے)
شہریار کے یہاں مندرجہ بالا مطلعوں کی غزلیں نہ صرف بہت مشہور ہیں بلکہ زبان زدخاص وعام ہیں۔ عام اس لئے کہ شروع کی دونوں غزلیں فلم امرائوجان میں فلمائی گئی تھیںجنہیں لوگ آج بھی نہیں بھولے ہیں۔ اہل ذوق کے لیے تو یہ تمام غزلیںاہم ہیں ہی ،ان غزلوں میں اپنے معاصرین سے علیحدگی کے آثار بھی واضح ہیں۔ یہاں رہ ورسم عاشقی کی جنوں خیزی ذات وکائنات کے استعجاب میں گم ہونے لگتی ہے اور استفہام واستفسار کی ایک دنیائے دوں سے سابقہ ہوتاہے۔ یہ ساری غزلیں مطلع سے لے کر مقطع تک استفہامیہ لہجے میں ڈوبی ہوئی ہیں۔شہریارکے یہاں ایک ثلث سے زیادہ اشعار اسی رنگ میں ہیں، اگر انہیں کلیات شہریارسے خارج کردیاجائے تواس کا پلہ بہت ہلکا ہوجائے گا ۔
یوں انانیت تو میر ؔکے مزاج میں بھی تھی اور غالب سے کم نہیں تھی بلکہ شاید عام زندگی میں غالب سے زیادہ تھی۔ غالب کی انانیت تو لچک بھی جاتی ہے، سودا اور سمجھوتہ بھی کر لیتی ہے، لیکن میر کی زندگی اس قسم کی باتوں سے پاک ہے ۔ پھر میرؔ نے ایسی بلند عشقیہ شاعری کیسے کی ۔میر جیسی عشقیہ سپردگی اردو شاعری میں اور کہاں ملے گی۔ مگر میر کا مزاج صرف سپردگی کا نہیں ہے۔ میر کی سپردگی میں بلا کا کھچاؤ ہے۔ میرؔ نے ایسی بلندعشقیہ شاعری اس لیے نہیں کی کہ ان میں انسانیت نہیں تھی۔ ایسی شاعری صرف اس لئے ہوسکی کہ انہوں نے اپنی انانیت کی اقدار کے تحفظ کا ذریعہ بنا لیا تھا۔غالب تو اپنے زمانے کی پستی کے سارے گلے شکوؤں کے باوجود زمانہ ساز بھی تھے۔ میر نے تو اپنے زمانے پر تھوک دیا تھا۔ میر کی انانیت میں اتنی قوت تھی کہ وہ صرف اپنے بل پر اپنے زمانے کے خلاف کھڑے ہو سکتے تھے۔ مخالف دھارے کے رخ پر تیر سکتے تھے۔ اور ان تمام ترغیبات اور تحریفات سے بلند ہو سکتے تھے جن کا سامنا کرنے میں غالب کی ہڈیاں بھول گئیں۔
٭٭٭
ڈاکٹر محمد عزیز بلرامی
آفتاب ہال علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی،علی گڑھ
موبائل نمبر8533929951
میل:mohdazeezamu@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!