ناول’مدار‘کا تنقیدی جائزہ
اخلاق احمد
ریسرچ اسکالر
شعبۂ اردو ،دہلی یو نیور سٹی ،دہلی
akhkaqueahd@gmail.com
Mob.9210472322-9350993422
حیات اللہ انصاری نے بطور ناول نگار ’ لہو کے پھول ‘ جیسے ضخیم ناول کے ہی ساتھ مختصر نا ول ’ مدار‘ بھی تخلیق کئے ہیں۔یہ ستمبر ؍۱۹۸۱ء میں شائع ہوا ۔اس کا انگریزی تر جمہ (orbit)کے نام سے شائع ہو کرمنظر عام پر آ چکا ہے ۔اس نا ولٹ کے متعلق حیات اللہ انصاری رقم طراز ہیں :
’’میں چلا تو تھا اتر پر دیش اردو اکا دمی کی ’شب افسانہ ‘(مئی ؍۱۹۷۸ء)کے لئے ایک چھو ٹا سا افسانہ لکھنے اور وہ لکھ بھی دیا اور پڑ ھ بھی دیا ۔مگر پھر پھیلنے اوربڑھنے لگا اورہو تے ہو تے آپ ہی آپ ایک چھو ٹا سا نا ول بن گیا ۔‘‘ ۱؎
حیات اللہ انصاری نے ‘مدار ‘ایک چھو ٹے سے کینوس پر انسانی زندگی اور عصری معاشرے میں زبان یعنی مادری زبان کی اہمیت کیا ہو تی ہے؟اس حقیقت کا افسانوی بیا نیہ ایک المیہ کی شکل میں سا منے لاتے ہیں،جو از خود یہ ثابت کر دیتا ہے کہ ہماری زبان ہمارے شعورکاہی نہیں بلکہ لا شعور کا حصہ بھی ہے ۔ ‘مدار‘ میں اسی مسئلہ کو اٹھا یا گیا ہے غالباًیہ اردو کا واحد ناولٹ ہے جو مسئلہ کے نوعیت سے منفرد ہے اس کی دوسری مثال اردو فکشن میں شاید ہی ملے ۔
تین مخصوص کرداروں کے محور پر کہانی گھو متی ہے ۔ناولٹ کا پلاٹ ہند نیپال سر حد پر پھیلا ہوا ہے ۔اس کا سب سے اہم اور جاندار کردار روز ؔہے ۔یہ کمسن پہاڑی لڑکی ترتھ یاترا کے دوران اپنے والدین سے بچھڑ کر بے رحم اورسنگ دل ڈاکوؤںکی گرفت میں چلی جاتی ہے ۔وہ اس کو تبت کے سنگلاخ پہاڑیوں ،وادیوں اور جنگلوں میں اپنی مشترکہ داشتہ بنا کر رکھتے ہیں ۔انہیں حالات میں روز ؔبچپن سے جوانی کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہے ۔ان کے بے رحم ہاتھوں اسے جسمانی اور جذباتی اذیتوں سے دوچار ہو نا پڑا تھا۔وہاں اسے کوئی ہمدرد نہیں ملا ۔بازار سے سامان خریدنے کے بہانے وہ ڈاکوؤں کی گرفت سے نکل کر مالا گڑھ پہنچ جاتی ہے ۔اتفاق سے اس کی ملاقات گرجا کے پادری سے ہو تی ہے ۔وہ روز ؔکی پریشانی سے متاثر ہو کر اسے مشن میں داخل کر لیتا ہے ۔یہیں اس کا نام روز رکھ کر کرشچین بنا یا جا تا ہے ۔یہا ں چکی میں کام کرکے شب وروز گزارتی ہے اورپادری کی مدراسی آنٹی اسے تربیت کے ساتھ انگریزی بولنا سیکھا تی ہے ۔گرجاگھر میں بھی اس کی عزت محفوظ نہیں ہے ۔پادری کا بھتیجا اکثر رات میں گرجا کے کمرے میں اس کی عصمت دری کرتا ہے ۔روز ؔاپنے ساتھ ہو رہے غلط فعل کو پادری اور آنٹی سے کہتی ہے لیکن یہ لوگ اسے نظر انداز کر جا تے ہیں اورکے اس صبر تحمل کو دیکھ کراسے مشن سے بے دخل نہیں کرتے ہیںلیکن روز ؔکو اس کے وطن بھیجنے کی فکر میں رہتے ہیں۔اسی اثنا ایک فوجی افسر مالا گڑھ کے نو آبادیاتی علاقے کا دفاعی حالات اور تجارتی امکانات کا جائزہ لینے کے لئے وہاں بھیجا جاتا ہے ۔پادری ،روزؔکی ملاقات فوجی افسر سے کرانے کے بعد اسے وطن پہنچانے کی سفارش کرتا ہے اور ساتھ ہی روز ؔکی سیرت کے بارے میں بھی بتاتا ہے :
’’اب روز ؔکو یہاں رہتے ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیںمیں تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ کسی شریف گھرانے کی لڑکی ہے ۔دس سال ڈاکوؤں میں رہنے کے باوجود اس کی عادتیں نہیں بگڑی ہیں ۔یہاں آنے کے بعد ایک بار بد چلنی کاشکار ہو گئی تھی مگر ہم لوگ ایسی حرکتوں کو مجرم کی مجبوری کی روشنی میں دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ایسی غلطی پھر نہیں کرے گی معاف کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔اب میری درخواست ہے کہ آپ اس لڑکی کو اپنے ساتھ لیتے جائیں اور اس کے گھر پہنچا دیں ۔۔۔۔۔۔۔روزؔ سے جو حرکت سرزد ہو گئی تھی اس کو محبت نہ سمجھئے ۔اس بیچاری کی حالت اس پرندے کی سی ہے جو آندھی میں بھٹک گیا ہو ،اپنا گھونسلا نہ مل پا رہا ہو اور شام ہو رہی ہو ۔اس حالت میں جو بھی چٹان ملے گی اس پر بسیرا کر لے گا ۔روز ؔکی آتما کو قرارآ سکتا ہے تو صرف گھر پہنچ کر ۔۔۔۔۔۔ان حالات میں روز ؔکی شادی ہو نے سے رہی ۔اگر وہ بد چلنی کا شکاکر ہو گئی تومجبوراًاسے گرجا سے الگ کر دینا ہوگا ۔اب سمجھ لی جئے ،میں اسے کیوں وطن بھیج دینا چاہتا ہوں ۔‘‘ ۲؎
فوجی افسر روز ؔکو بحیثیت گا ئیڈ ساتھ لے کر نئی بستی جا تا ہے۔اور دس دن تک اس کے ساتھ گفت وسنید کے دوران روزؔ کے اندرونی جذبا ت اور خوا ہشات لا شعوری طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں جس سے جس کی شخصیت نمایاں ہوجاتی ہے۔روز کم تعلیم یافتہ کے باوجود حالات نے اسے ہر موضوع پر اظہار خیال کی صلا حیت پیدا کردی ہے یہی سبب ہے کہ وہ فوجی افسر سوا لوں کا جواب انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ مختلف حرکات وسکنات کے ساتھ واضع کر تی ہے۔اس سے فو جی افسر کو تبتی لوگوں کے رسم ورواج،تہذیب وتمدن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔روزؔزندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گذری ہے اس لئے وہ کسی بھی مسئلے کو مدلل ثبوت کے بعد ہی مانتی ہے۔روز کی یہی خصو صیات فوجی افسر کوکا فی متاثر کرتی ہے۔ڈاکوئوں کے ساتھ پر خطر ماحول نے اس کے اندر عزم اور حوصلہ کو جنم دیا تھا۔اسی وجہ سے فوجی افسر کو خطرے سے آگاہ کرتی رہتی ہے۔
سفر سے واپسی کے دوران فوجی افسر روزؔ کے گذشتہ حالات اور واقعات جاننا چا ہتا ہے،روزؔ کو اس کا انتظار ہی تھا ۔ جب اپنے محبت بھرے جذبات کو ظاہر کرنا چا ہتی تو شعوری طور پر کام چلائو انگریزی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی اور وہ بے اختیار ایسی زبان بو لنے لگتی تھی جیسے فوجی افسر سمجھنے سے قاصر رہتاتھا۔ روز اپنے دل کی بات اپنی زبان میں کہنا چا ہتی تھی لیکن دونوں میں زبانی مغائرت روزؔ کو جذباتی طور پر کمزور کردیتاتھا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ فوجی افسر سے اپنی مادری زبان سیکھنے کی فر مائش کرتی، تو اس کی انگریز ذہنیت عود کرجاتی تھی:
’’میں سیکھوں ہمالہ کی ایک گمنام وادی کی غیر معروف زبان!اگر زبان سیکھنا ہے تو فرنچ کیوں نہ سیکھوں جو میرا عہدہ بھی بڑھائے اورتنخواہ بھی۔ افسوس جاہل عورت نہیں سمجھ رہی ہے‘‘۔۳؎
فوجی افسر مہم ختم کر نے کے بعد روز کو ساتھ لے کر اپنے وطن لوٹ رہا ہو تا ہے۔اس دوران روز سے انتہائی خلوص اور محبت کا برتائو کر کے اسے اپنی طرف مائل کر نے کی بھر پور کو شش کر تاہے ۔دوران سفر مختلف لوگوں اور مختلف علاقوں سے گذر ہو تا ہے۔روز اپنے وطن کی جانب سے آنے والے گروہ کو دیکھنے کے بعد اس امید میں ان کے پاس جاتی ہے کہ شاید کو ئی اپنے وطن کا ہو، جس سے وہ اپنی زبان میں بات کرسکے۔لیکن جب اسے ہم وطن نظر نہیں آتاتو وہ افسردہ اور ملول ہو جا تی ہے۔جس کی عکا سی ناولٹ نگارنے بڑے پر اثر انداز میں کیاہے۔روز سردآہ بھر کر فوجی افسر سے کہتی ہے:
’’اتنے آدمی تھے،لیکن میری طرف کا ان میں سے کو ئی بھی نہ تھا۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی زبان میں چند جملے بولے تو کوئی بھی نہ سمجھ سکا‘‘۔۴؎
روز کے یہ الفاظ اس کے دلی کیفیات اور جذبات کو ظاہر کر تے ہیں۔جن میں اپنی مادری زبان اور وطن سے محبت کی علامت ہیں۔فوجی افسر بھی روزکی افسردگی کو سمجھتا ہے اور اس کی دلجوئی کرتا ہے۔اور اسے یقین دلاتا ہے کہ جلد ہی میں تم کو وطن پہنچا دونگا۔اس تسلی سے اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جا تاہے۔
افسانہ نگار نے روزکے جذبات اوراس کی مایوسی کوبڑے فن کا رانہ اندازمیں بیان کیا ہے۔روزؔجی افسر کی خواہش پر اپنے دلی کیفیات کو اپنی زبان میںبیان کرتے کرتے مغموم اور ملال ہو جا تی ہے۔اور پھر لا شعوری طور پر اپنی مادری زبان میںروانی کے ساتھ بولنے لگتی ہے۔یہاں اس کا مادری زبان میں اپنی سر گزشت بیان کرنا فطری ہے کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے دلی جذبات اور کیفیات کا بیان اپنی مادری زبان میں جس خوبی سے اداکر سکتا ہے وہ پرائی زبان میں ناممکن ہے۔حیات اللہ انصاری نے روز کے اسی بے چینی کو اجاگر کیا ہے۔اور ساتھ ہی مادری زبان کی اہمیت کو بھی ظاہر کیا ہے ۔روز اپنے دلی کیفیات سنانے کے بعد کچھ مطمئن ضرور ہوتی ہے پھر بھی اس سے مادری زبان کی انسیت ختم نہیں ہوتی ہے۔وہ فوجی افسر سے کہتی ہے:
’’رات تم نے بتپا سن لی،یہ بہت اچھا کیا۔یہ بات نہ تو اب سے پہلے کبھی میری زبان پر آئی ہے اور نہ میں اپنی بتپاپرکسی کے سامنے روئی ہوں۔مجھے حیرت ہو رہی ہے اپنے رونے پر ۔۔۔۔۔۔۔بابو۔۔۔۔۔۔روز مصیبت زدہ ضرور ہے لیکن اس پر اس میں اتنی خودداری ہے کہ وہ کسی سے ترس کی بھیک نہیںماگتی۔۔۔۔۔مگر یہ بتائو اتنی دیر تک چیخی چلائی روئی اور نہ جانے کیاکیا کہا تم سمجھے بھی۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ ۵؎
فوجی افسر کی ہمدردی اور مخلصانہ رویہ کے بعد دونوں کے درمیان انس اور محبت کے رشتے گہرے ہو جاتے ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ ہی فوجی افسر کی کچھ مجبو ریاں بھی ہیں۔اس کی بیوی کئی بچوں کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔اس لئے اس کے دل میں پہلے تو روز ؔکو داشتہ بناکر رکھنے کا خیال تھا لیکن حالات نے اسے اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیاہے،لیکن وہ ان باتوں کو اپنے تک محدود رکھتاہے۔روزؔیہ بھی سوچتی ہے کہ یہ شخص بھی پادری کے بھتیجے کی طرح احسان کا بدلہ میرے جسم سے وصول کرے گا۔لیکن دس روز تک اس کے ساتھ رہنے کے بعد اس کے شبہات دور ہو جاتے ہیں جب وہ سابقہ واقعات کا موازنہ فوجی افسر اور ان وحشی مردوں سے کرتی ہے تو بے اختیار ماضی میں پہنچ جاتی ہے۔جہاں اسے گذرے ہوئے مظالم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔اس نفسیاتی کشمکش کو حیات اللہ انصاری نے پر اثر انداز میں بیان کیا ہے:
’’پھر تو اس کے منھ سے اپنی بولی کے الفاظ کا آب شار جاری ہوگیا اور آنکھوں سے آگ برسنے لگی۔وہ اپنی زبان میں واقعات پر واقعات بیان کرتی چلی جاتی‘‘۔ ۶؎
فوجی افسر روزکو ساتھ لے کر گھر لوٹ رہاہوتا ہے اس عہد قرار کے ساتھ کہ وطن پہنچ کر آپسی محبت کے رشتے کو شادی کے دائمی بندھن میں تبدیلی کریںگے۔اور خواب کے یہ محل دونوں کو راحت اور سکون دیتے ہیں مگر فوجی افسر کے گھر پہنچنے سے قبل روزؔاپنے وطن جانے کی خواہش کو اپنے دل سے نکال نہیں پاتی ہے۔اور یہی جذبہ فوجی افسر کے اندر بھی بیدار کرنا چاہتی ہے۔قافلہ ایک ایسے مقام پر قیام کرتاہے جہاںسے ایک راستہ فوجی افسرکے وطن کی جانب اوردوسرا روز کے شہر کی جانب جاتاہے ۔روزؔاپنے وطن کی سرحد پر پہنچ کر اضطراری طورپر کچھ دیرکے لئے اپنے گھرجانے کی اجازت چاہتی ہے کہ اپنے والدین اور رشتہ داروں سے مل کر شام تک واپس آجائے گی۔
روزؔکوگھر پہنچ کر معلوم ہوتاہے کہ کنبہ کسی نا معلوم مقام پر کوچ کر گیاہے ۔اور گھرمیں فوجی دفتر قائم ہو چکاہے۔وہاں اسے ایک فوجی افسر سے ملاقات ہوتی ہے۔۔۔ادھیڑ عمر کے اس شخص سے گفتگو مادری زبان میں ہوتی ہے۔جواسے بے قابو کر دیتی ہے۔اپنی زبان کی محبت روزؔ کے اندر وطنیت کے جذبے کو بھی جگا دیتی ہے۔وطن اور زبان کی محبت کے بیچ اسے فوجی افسر کے پاس آنایادنہیں رہتاہے۔جب وعدے کے مطابق روزؔ واپس نہیں آتی ہے تو فوجی افسر توتشویش لاحق ہوتی ہے۔اس کی تلاش کے لئے مخبر کی مدد لیتاہے۔اس طرح کئی روز گزر جاتے ہیں لیکن اب بھی فوجی افسر پر امید ہے۔
با لآخر دس دن کے بعد روز ایک ادھیڑ عمر کے مرد کے ساتھ آتی ہے اور اس سے بڑی بے تکلفی سے باتیں کرر ہی تھی،اور فوجی افسر کو دیکھ کراس سے نظریں چراتی ہے۔ناولٹ نگار نے روزؔ کے اس کیفیات کا بیان فن کا رانہ انداز میں کیا ہے۔جس سے اس کی شخصیت اور سیرت کا اندازہ کیا جا سکتاہے۔روز فوجی افسر سے اپنی بات تذبدب کے ذریعہ کرتی ہے۔حیات اللہ انصاری نے روز نفسیاتی اور جذ باتی کیفیات کا بیان بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں:
’’بابو شاب ۔۔۔۔۔۔۔جو ہوا وہ عجیب سی بات ہے میں یہاں سے پکاّ ارادہ کر کے گئی تھی کسی کو بھی نہیں بتاوئں گی کہ مجھ پر کیا بیتا۔۔۔۔۔۔۔لیکن جب اپنے گھر کے اندر گئی اور وہ جگہیں دیکھی جہاں میرا سکھ بھرا بچپن بیتاتھا اور جہاں میں نے اپنی ماں اور بہن کے پیار کے مزے اٹھائے تھے تو آنکھوں میں آنسوں بھرآئے۔ اس بے چارے نے مجھے ڈھارس دی اور میری اپنی بولی میں،پندرہ برسوں بعد بچپن گزرکر لڑکی سے عورت بن کر میں نے اپنی بولی کے ڈھارس بھرے چند الفاظ سنے تو نہ جانے کیا گزر گیا میرے اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا لگاجیسے میری ماں،بہن،چاچی اور پتاجی سب کے سب ہر طرف سے پکار رہے ہیں۔اور کہہ رہے ہیں’’پیاری مت رو‘پیاری مت رو ۔‘‘ ۷؎
اس ناولٹ کا دوسرا اہم کردار فوجی افسر ہے۔جیسے حیات اللہ انصاری نے کہانی اور روز کے کردار کو آگے بڑھانے کے لئے تخلیق کیاہے۔وہ ایک فوجی افسر ہو نے کے ساتھ ساتھ ایصار اور ہمدردی کا مجسمہ بھی ہے ایک حساس طبیعت اور انسان دوست کی حیثیت سے فن کار نے اس کے کردار کو فنی چابک دستی سے آگے بڑھایاہے۔
فوجی افسر ایک وفا شعار انسان ہے اس لئے روزؔ کی پریشانی کوسن کراس کو اس کے وطن لے جانے کو راضی ہو جاتاہے۔اور اس کی عصمت دری کے باوجود اس سے شادی کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جاتاہے۔
تیسرا کردار بوڑھے شخص کاہے جوروزؔ کا ہم قوم اور ہم زبان ہے اسے اس ناولٹ میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔وہ جسمانی اعتبار سے کمزور،بد صورت اور ہیروئن کے اعتبار سے نا معقول ہے۔لیکن ہم زبان اور ہم وطن کی وجہ سے دونوں کے درمیان روحانی یگانگت پیداہوجاتی ہے بظاہر اس کا کر دار ناولٹ میں کوئی اہم نہیں ہے اور پلاٹ کے ارتقاء میں بھی کو ئی مدد نہیں کرتا ہے۔لیکن کہانی کوپائے تکمیل تک پہنچانے میں اہم رول ادا کرتاہے۔
’مدار‘ ناولٹ پلاٹ،کردار اور پیش کش کے اعتبارسے اردو فکشن میں کوئی منفرد فن پارہ نہیں ہے۔واقعات اور پلاٹ ایک دوسرے سے منسلک اور مر بوط ہیں لیکن سادہ اور اکہرے ہیں ۔کہانی واحد متکلم میں بیان کی گئی ہے۔جس سے دل چسپی برقراررہتی ہے۔زبان بھی انتہائی سادہ اور سلیس ہے اس ناول کے بارے میں ڈاکٹر محمد حسن رقم طرازہیں:
’’غورسے دیکھئے تو اردو کی بے بسی اور بے وطن کی علامت ہے۔پورا ناول فن کا رانہ بصیرت اور ٹھہرائو کا شکارہے اور یہ ناول یقینا اس دور کی اہم تخلیقات میں شمار کئے جانے کا مستحق ہے۔‘‘ ۸؎
اردو فکشن کی روایت میں ’مدار‘مو ضوعاتی اعتبار سے منفرد حیثیت کا حامل ہے۔یہ انفرادیت ناولٹ نگار کے مادری کے متعلق نفسیاتی اور جذباتی کرب کا مظہر ہے۔جس میں مصنف نے دوکرداروں فوجی افسر اورروزؔ کی داستان محبت کے آئینے میں مادری زبان کی اہمیت کوپراثر انداز میں پیش کی ہے۔
یہ مو ضو ع حیات اللہ انصاری کے کردار ،فکر اور مادری زبان کے متعلق خلوص کاامین ہے۔اپنی عملی زندگی میں بھی انہوں نے جس طرح اردو زبان کی ترویج واشاعت اور اس کی تہذیب وثقافت کے تحفظ خصوصاّ آزادی کے بعدہندوستان کی اس مشترکہ زبان کی مٹتی ہوئی شناخت کو سیاسی اور سماجی سطح پر باز یابی کے لئے ایک ان تھک سپاہی کی طرح سرگرداں رہے جس کا عتراف پروفیسر محمد حسن نے اس طرح کیا ہے:
’’اردو والوں کو بھی ہندوستان میں یہی صورت حال در پیش ہے۔ان کی مادری زبان چھین لی گئی۔روزؔکو بالآخراس کا ہم وطن اور ہم زبان مل گیا،اردووالے ابھی اس کی تلاش میں باتیں کرتے کرتے کسی ایسے لفظ کی تلاش میں کھو جاتے ہیں جوان کی اپنی زبان میں مو جود ہے جیسے ان کے ہم کلام ہم وطنوںنے سمجھنے سے انکار کردیا‘‘۔ ۹؎
’مدار‘ مو جودہ ھندوستان میں مادری زبان کے وصلے سے عموماََ اور بطور خاص اردو تحریک ایک متحرک فن پارہ ہے اور ہماری مادری زبان کے حوالے سے اپنی دلی جذبات کو ناول نے انشاب پہلی بات کے عنوان سے اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے:
’’میں سوچنے لگا کہ اتنا سب کچھ بھرا ہوا تھا میرے اندر مادری زبان کے بارے میں ہاں!تھا بھرا ہوا۔اور کیوں نہ ہوتا؟کیاکیا نہیں بھگتا اردو نے اس زمانے میں۔یہاں تک کہ لوگوں نے مشورہ دے ڈالاکہ آئو اس جیتی جاگتی قومی دولت کو چاہیں پھونک دیںاورہاں آگ وہی لگائیں جو اس کی محبت میں دیوانے ہو رہے ہیں۔غیروں کی بات چھوڑیے خود اپنوں نے کسر اٹھا رکھی ہے۔جب میں ایسے گھائو لگتے ہیں تو دوسروں کا درد بھی اپنا درد معلوم ہو نے لگتاہے۔۔۔۔۔۔‘‘ ۱۰؎
نو جوانی میں اردو کے ایک ادیب نے مجھ سے کہا تھا:
’’یار! اردو چلنے والی چیز نہیں ہے،اس لئے اب اپنی زبان بدلو ۔۔۔۔۔۔۔۔تب سے لے کر جب تک میرے بچے تعلیم کے قابل نہیں ہوئے۔یعنی پندرہ سال تک میں اس سوال پر بہت سنجیدگی سے غور کرتارہاکہ کیا کوئی شخص اپنی زبان بھی بدل سکتا ہے ؟اس سوا ل نے اپنے اندر ان سوتوں کو تلاش کرنے پر مجبور کر دیا جہاں سے الفاظ اُبل اُبل کر میرے لب اور قلم پر آتے تھے ۔جوں جوں غور کرتا گیا یقین ہوتا گیا کہ ان سوتوں پر اپنا کوئی قابو نہیں ہے ۔ان کا تعلق لا شعور سے ہے ۔جو بچپن میں تکمیل تک پہنچ جاتا ہے اور پھر اس پر شعور کا قابو بہت کم رہتا ہے ۔یوں دیکھو کہ نہ جاگتے کے خوابوں کی زبان پر اپنا بس ہے اورد نہ سونے کے خوابوں کی زبان پر‘‘۔ ۱۱؎
ناول کا اگر ہم باریک بینی سے مطالعہ کریں تو زبان کے تعلق سے حیات اللہ انصاری کے نظریۂ تعلیم کوہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔وہ نہ صرف اردو بلکہ ہر زبان کے بولنے والے افراد کواس کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہی دی جانی چاہئے۔اس سلسلے میں ماہرین تعلیم اور متعدد تعلیمی کمیشنوں نے اپنی تجا ویزات حکومت کو پیش کی ہیں ۔
زبان کے مسئلہ پر لکھا گیا یہ ناولٹ اردو ناولٹوں میں ایک اضافی حیثیت کا حامل ہے جو اردو ناول نگاری کے اہم تخلیقات میں شمار کئے جانے کے لائق ہے ۔
ڈاکڑاعجاز حسین اس ناولٹ کے متعلق لکھتے ہیں :
’’۱۹۸۱ء کے اواخر میں ایک اچھا ناول ’مدار‘شائع ہوا جو زبان اور تہذیب کے مسئلے پر ہے غالباًاپنے موضوع کے لحاظ سے با الکل اچھوتا ناول ہے کم از کم اردو میں ایسے نازک اور دلچسپ مسئلے پر کو ئی ناول ابھی تک نہیں لکھا گیا ‘‘۔ ۱۲؎
حواشی
۱۔حیات اللہ انصاری،مدار،کتاب داں ،لکھنؤ،۱۹۸۱ء،ص:۹
۲۔ ایضاً، ص:۲۷۔۲۵
۳۔ایضاً، ص:۷۵
۴۔ایضاً ص:۴۲
۵۔ایضاً ص:۵۷
۶۔ایضاً ص:۵۹
۷۔ایضاً ص:۵۔۱۰۴
۸۔احمدکمال،’مدار‘ایک تجزیہ،مشمولہ ،معلم اردو حصہ دوم لکھنؤ،۱۹۸۶ء،ص:۱۸
۹۔ڈاکڑمحمد حسن ،بحوالہ :نافع قدوائی ،حیات اللہ انصاری ،ساہتیہ اکا دمی ،دہلی ،اشاعت اول ،۲۰۰۶،ص:۸۲
۱۰۔حیات اللہ انصاری ،مدار‘ کتاب داں ،لکھنؤ،۱۹۸۱ء،ص:۹
۱۱۔ایضاً ،ص:۱۰
۱۲۔ڈاکڑاعجاز حسین ،مختصر تاریخ ادب اردو (ترمیم شدہ اڈیشن )الہ آباد ،۱۹۸۴ء ص:۳۹۹
Leave a Reply
Be the First to Comment!