پروفیسر ابن کنول کی کتاب ’’میر امن‘‘ایک مطالعہ

 ڈاکٹر محمد سراج اللہ

 معاون ایڈیٹر رو زنامہ قومی تنظیم ، پٹنہ

موبائل نمبر: 9199726661

تاریخ ادب اردو میں میر امن ایک ایسا نام ہے جس نے ’’باغ وبہار‘‘ اور گنج خوبی ’’جیسی معرکۃ الآرا کتابیں لکھ کر نہ صرف اردو زبان کو بال وپر عطا کیا، بلکہ اردو ادب کو بھی نیا، سادہ، رواں اور سلیس اسلوب سے بہرور کیا لیکن سوئے قسمت کہ ان کی حیات اور خدمات پر اب تک کوئی مستند کتاب نہیں لکھی جاسکی ہے۔ پروفیسر ابن کنول نے ’’میرامن‘‘ کے نام سے ان کا مونوگراف لکھ کر بہت حد تک ا س کمی کو دور کرنے اور میرامن کو ان کی شایان شان ان کا حق دلانے، ان کے مقام ومرتبے کا تعین کرنے اور ان کی حیات کو اردو زبان وادب کے لئے حیات بخش قرار دینے کی قابل تعریف کو شش کی ہے۔کتاب ۲۰۰۷ء اور ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی۔ ۲۰۱۲ کا ایڈیشن راقم السطور کے زیر بحث ہے۔ ’’حر ف آغاز‘‘ اردو اکادمی کے سکریٹری انیس اعظمی اور ’’پیش لفظ‘‘ اکادمی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر قمر رئیس مرحوم کے رشحات قلم ہیں۔

’’قصہ چاردر ویش ‘‘عطا حسین خاں تحسین کی کتاب ہے۔اس کی زبان نہایت ثقیل اور عام قاری کے لئے ناقابل فہم ہے۔ میرامن نے اس کا اردو ترجمہ ’’باغ وبہار‘‘ کے نام سے نہایت سہل اسلوب اور عوامی زبان یعنی اردومیں کیا، ترجمہ ہونے کے باوجود عوام وخواص میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ’’ قصہ چار درویش‘‘ کو اس کے اصل ہونے کے باوجودحاصل نہ ہوسکی۔ پروفیسر ابن کنول نے کچھ اسی طرح کی باتوں سے اپنے کلام کا آغاز کیاہے اور میر امن کے اس کار نامے کی خو ب پذیرائی کی ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:

’’اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں عطا حسین خاں تحسینؔ نے عوام وخواص میں مقبول قصہ چار درویش ’’بہ زبان ہندی‘‘ یعنی اردو میں رقم کیا لیکن تحسین نے اپنے عہد کے مزاج کا لحاظ رکھتے ہوئے اور اپنی لیاقت او راہلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قدر دقیق الفاظ، فارسی تراکیب، استعارات وتشبیہات سے اپنی نثر کو مزین وآراستہ کیا کہ ’’شہر ت دوام تو یقینا تحسینؔ کے حصے میں آئی مگر قبول عام سے وہ قطعا محروم رہے‘‘۔ قبول عام اس قصے کو اس وقت نصیب ہوئی جب میر امن دلی والے نے ’’باغ وبہار‘‘ کے نام سے اسے بہ زبان عوام قلمبند کیا۔ ’’باغ وبہار‘‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی او ریہ مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرامن نے اسے اپنی مادری زبان میں تحریر کیا اور ان کی مادری زبان وہ زبان تھی جو اس وقت کی دہلی اور جامع مسجد کے اطراف میں بولی جاتی تھی۔ سچ یہ ہے کہ دہلی او راس کے اطراف میں بولی جانے والی زبان ہی اصل اردو تھی اور اس وقت ہندستان پر آہستہ آہستہ قابض ہونے والی قوم یعنی انگریز مرکز کی اس زبان کو سیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا، جہاں اہل زبان کو محض اس لئے رکھا کہ وہ انگریزوں کے لئے ہندستان میں مقبول کتابوں کو بہ زبان ہند اس انداز سے لکھیں کہ جن سے انگریز نہ صرف زبان سیکھ سکیں، بلکہ یہاں کی تہذیب ومعاشرت سے بھی واقف ہوجائیں‘‘۔(۱)

فورٹ ولیم کالج کا قیام ۱۸۰۰ء؁ میں کلکتہ میں عمل میں آیا۔ اس کے قیام کے مقصد سے متعلق عوام وخواص میں بہت ساری باتیں مشہور ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے ذریعہ انگریز ہندستانی زبان کو جان اور سیکھ کر یہاں اپنی پکڑ مضبوط کرنا چاہتے تھے، یعنی تن کے گورے اور من کے کالے انگریزوں کی نیت میں کھوٹ تھی۔ پروفیسر ابن کنول نے اس طر ح کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فورٹ ولیم کالج کے قیام کو اردو زبان وادب کے لئے نیک شگون اور میرامن جیسے متعدد بلند پایہ مصنفین کی دستیابی کو کالج کی دین قرار دیا ہے۔ وہ رقمطراز ہیں:

’’فورٹ ولیم کالج کے قیام کا مقصد کچھ بھی رہا ہو لیکن یہ سچ ہے کہ اس کے قیام سے اردو زبان وادب کو نہ صرف ایک اسلوب ملا بلکہ نامور مصنفین مل گئے۔میر امن ان میں ایک اہم ترین نام ہے‘‘۔(۲)

 پروفیسر ابن کنول نیمذکورہ نکات کے علاوہ مزید جن امور و معاملات کی تفصیلات بیان کی ہیں ، وہ کچھ اس طرح ہیں : اٹھارہویں صدی میں میرامن کی ولادت،کئی پشتوں سے میرامن کے خاندان کا دہلی سے تعلق، میرامن کے بزرگوں کو بادشاہوں کی جانب سے جاگیریں اور مناصب کی تفویض، احمد شاہ ابدالی اور سورج مل جاٹ کے حملوں سے دیگر تمام اہل دہلی کے ساتھ میرامن اور ان کے خاندان کی تباہی، دہلی سے میر امن کوہجرت کرنے پر مجبورہونے کاواقعہ ، اہل وعیال کے ساتھ عظیم آباد پٹنہ میں عرصۂ دراز تک سکونت، ۹۹۔۱۸۹۸ء میں روزگار کی تلاش میں ان کی کلکتہ روانگی، نواب دلاور جنگ کے چھوٹے بھائی میرمحمد کاظم کے اتالیق کی حیثیت سے ان کی تقرری، بعد میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کے ذریعہ فورٹ ولیم کالج میں ملازمت، فورٹ ولیم کالج کے قیام کا مقصد، ۱۷۹۹ء میںٹیپو سلطان کی شہادت سے انگریزوں کے بلند حوصلے، ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی ہندستانی زبانوں کے شعبہ کے سربراہ کی حیثیت سے تقرری، عربی، فارسی اور سنسکرت میں موجود قصے کہانیوں اور دیگر علوم کی کتابوں کا سادہ، سلیس اردو میں ترجمہ کے مقصد سے ہندستان کے نامور ادیبوں اور مترجمین مثلا: میرامن، سید حیدر بخش حیدری، میر شیر علی افسوس، میر بہاد رعلی حسینی، مرزا کاظم علی جواںؔ، نہال چند لاہوری، مولوی اکرام علی، مظہر علی خاں ولا، حفیظ الدین احمد، للولال جی، بینی نرائن جہاںؔ، مرزا علی لطفؔ، مولوی امانت اللہ، مولوی خلیل علی خاں اشکؔ، مرزا جاں طیش وغیرہ کی فورٹ ولیم کالج میں تقرری، ۴؍ مئی ۱۸۰۱ء کو چالیس روپئے ماہوار تنخواہ پر میر امن کی کالج سے وابستگی، پانچ سال بعد ۴؍ جون ۱۸۰۶ء کو ایک طالب علم کو پڑھانے سے معذوری ظاہر کرنے کی پاداش میں کالج کی جانب سے میرامن کو چار مہینے کی پیشگی تنخواہ دیکر برخاستگی، میرامن کی تاریخ وفات اور جائے وفات سے اظہار لاعلمی، بعض محققین کے ذریعہ لکھنؤ کے مشہور ریختی گو میر یار علی جاناور میرامن کو میر حسن کی اولاد کہے جانے کی رشید حسن خاں کی تحقیق کی روشنی میں تردید، فورٹ ولیم کالج میں ملازمت سے قبل یا بعد میں تالیفی وتصنیفی کام سے متعلق بعض محققین کی باتوں کا رد، ’’باغ وبہار‘‘ ہی میرامن کی شہرت عام او ربقائے دوام کے لئے کافی،’’باغ وبہار‘‘ سے متعلق محمد یحییٰ تنہاؔ (سیر المصنفین)، سید نصیر الدین خیالؔ (مغل اور اردو)، کلیم الدین احمد (اردو زبان اور فن داستان گوئی)، گیان چند (اردو کی نثری داستانیں)، سید عبد اللہ (میرامن سے عبد الحق تک)، رشید حسن خاں (مقدمہ باغ وبہار)، مولوی عبد الحق (مقدمہ باغ وبہار)، سلیم اختر (باغ وبہار تحقیق وتنقید کے آئینے میں) جیسے ناقدین کے اقوال زریں، ’’باغ وبہار‘‘ کے ماخذات سے متعلق اردو محققین کے درمیان تنازع، ’’باغ وبہار‘‘ کی مقبولیت کے اسباب ’’باع وبہار‘‘ اور ’’نوطرز مرصع‘‘ کی کہانیوں میں مماثلت، چار درویشوں کے حالات ،واقعات، کردار اور پلاٹ وغیرہ۔

کتاب کے فاضل مصنف پروفیسر ابن کنول نے ’’باغ وبہار‘‘ کا جائزہ بھی لیا ہے اور محققین وناقدین کے تائثرات واقتباسات کی روشنی میں اپنی باتوں کو مستحکم طریقے سے پیش کیاہے۔ اخیر میں میر امن کو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد کئے جانے کی پیشن گو ئی کی ہے اور میر امان دہلوی و میر امن دلی والا کو ایک ہی قرار دیئے جانے کی بات کو با الدلیل مسترد کر دیاہے۔ ان کے الفاظ ہیں :

’’واقعہ یہ ہے کہ میرا من ’’باغ وبہار‘‘ اور ’’گنج خوبی‘‘ کی وجہ سے اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے۔ آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض محققین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میر امان علی دہلوی جنہوں نے دار الترجمہ حید رآباد دکن میں رہ کر انگریزی کی چند کتابوں کے اردو ترجمے کئے دراصل میرامن ہی تھے۔ یہ دعویٰ محض قیاس ہے۔ سچ یہ ہے کہ میر امان دہلوی او رمیر امن دلّی والا دو مختلف شخصیات ہیں‘‘۔

کتاب ۱۵۲ صفحات پر مشتمل ہے جن میں صفحہ ۱۱ سے صفحہ ۴۸ تک فاضل مصنف کے رشحات قلم ہیں۔ باقی ایک سو سے زائد صفحات میرامن کی کتاب ’’باغ وبہار‘‘ کے منتخبہ مضامین ’’شروع قصے کا‘‘، ’’سیر پہلے درویش کی‘‘، ’’سیر دوسرے درویش کی‘‘، ’’سیر تیسرے درویش کی ‘‘ اور ’’سیر چوتھے درویش کی‘‘ کی نذر ہیں۔ کتاب میں فہرست مضامین نہیں ہے۔ فاضل مصنف نے جو کچھ تحریر کیاہے وہ بلا عنوان ہے۔ صفحہ ۱۶ پر میر امن کے استعفی سے متعلق باتوں میں اختلاف پایاجاتاہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۴؍ جون ۱۸۰۶ء میں ایک طالب علم کو پڑھانے سے معذوری ظاہر کرنے پر چار مہینے کی پیشگی تنخواہ دے کر میرامن کو ملازمت سے سبکدوش کردیاگیا‘‘۔

جبکہ صفحہ ۱۶ پر ہی فاضل مصنف نے میرامن کی ضعیفی او ران کی جسمانی کمزوری کو ان کے استعفی کی وجہ قرار دیا ہے۔ رقمطراز ہیں:

’’… ملازمت سے سبکدوشی کا سبب ان کی ضعیفی او رجسمانی کمزوری بتایا گیا ہے‘‘

 کتاب کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ میرامن کے مختصر حالات زندگی اور ان کے گرانقدر کارناموں کی افہام وتفہیم میں یہ کتاب سنگ میل کی حیثیت ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ اس قبیل سے اس کتاب میں بہت ساری وہ باتیں قلمبند کی گئی ہیں جو دیگر کتابوں میں نہیںلکھی گئی ہیں۔ اسلوب نگارش بھی نہایت عمدہ، سادہ اور سلیس ہے، جس کی وجہ سے قاری کو کا فی لطف کا احساس ہوتاہے۔ میرامن کی کتاب ’’باغ وبہار‘‘ کے مضامین کی زیرمطالعہ کتاب میں شمولیت سے اس کی قدروقیمت او راہمیت میں چار چاند لگا معلوم پڑتا ہے۔ قاری جہاں ایک طرف ابتداء میں فاضل مصنف کی پرتاثیر اور پر لطف تحریروں سے لطف اندوز ہوتا ہے،وہیں دوسری طرف بعد کے اوراق میں میرامن کی سادہ، سلیس اور عام فہم زبان سے بھی محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ قصہ چاردرویشوں سے بھی بخوبی واقف ہوتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد علیحدہ طور پر ’’باغ وبہار‘‘ پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

حواشی :

(۱)          پروفیسر ابن کنول ، میر امن ، ص :12

(۲)          پروفیسر ابن کنول ، میر امن ، ص :48

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.