حامدی ؔکاشمیری کی غزل میں انسانی شناخت کا  بحران

    غزل بے چین روح کے سفر کا نام ہے ۔یہ تجربات کی زبان بولتی ہے شاعر جذبہ اور تخیل کی مدد سے اپنی درون بینی کو ظاہر کرتا ہے ۔یہ تجربات زمانوں پر محیط ہوتے ہیں۔اپنے تجربے کو حقیقت کا رو پ دیتے وقت شاعر اس بات سے عاری ہوتا ہے کہ پیش ہونے والا تجربہ ،اس کی ترجمانی ، تعمیر اور تعبیر کیا ہوگی۔شاعر بس صرف دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی سعی میں ہوتا ہے۔اپنے جذبہ کو فکر کے تاروپود سے پیوسط کرتے وقت شاعر پر خیالات کا اُمڈتا ہوا سیلاب بڑا وزنی بوجھ ہوتا ہے ۔درون بینی کی رونمائی کے ساتھ ساتھ شاعر اپنے تمدنی ماحول اور لاحول سے بھی متاثر ہوتا ہے ۔جنوں ، جذبہ کی پر ورش ماحول کے معیاروں کے سنگ ہی ہوتی ہے ۔گرچہ غزل کا جذبہ تربیت یافتہ نہیں ہوتا ہے لیکن بد مزاج بھی نہیں ہوتا ۔یہی سبب ہے کہ شاعری اپنے عہد کا مزاج کہلاتی ہے۔

    حامدی کاشمیری کا اصل میدان غزل ہے ۔ترقی پسندی اور فطرت نگاری کی روایات سے جنگ کرکے اپنے لئے ایک نئی راہ اختیار کی۔نئے تجربات پر اپنی غزل کی بنیاد رکھی۔جس کی جڑیں اپنے دور کے تاریخی شعور میں اس طرح پیوست ہیں کہ اس سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہی سبب ہے کہ حامدی کاشمیری کی غزل عین زندگی کے مسائل اور حقائق سے کنارہ کش نہیں ہو پاتی ہے ۔اپنے گردوپیش کی تباہی ،ابتری ،خوف و ہراس کے مظاہرات سے مُنہ نہیں موڑ سکتی ہے ۔غرض ان کی غزل امورِ زندگی سے مُکالمہ بن جاتی ہے۔اس امر پر انسان کو آج تک مکمل ایمان ہے کہ شاعری اپنے دور کے اجتماعی شعور سے متاثر ہوتی ہے ۔’’اجتماعی شعور کسی بھی مخصوص معاشرے کی روح ِ عصر کہلاتی ہے ۔مذہب ،سائنس ،فلسفہ،رواج اور روایات کا تعین کرنا اسی اجتماعی شعور کا وظیفہ ہے۔۔۔اجتماعی شعور شناخت کے مسئلے کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتا ہے کیونکہ شناخت کی غذا امکان ہے اور اجتماعی شعور امکان کا گودام ہے۔‘‘اب اگر کوئی استحصالی قوت (گروہ)فرد کو جو اس اجتماعی شعور کا حصہ ہوتا ہے ،سے جدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔تو معاشرتی عدم برداشت، مذہبی انتہا پسندی ،دہشت گردی جیسی علامات جنم لیتی ہیں ۔تو اس معاشرے کا فرد تشکیک پسندی کا شکار ہوجاتا ہے ۔’امکان ‘کی نادستیابی کی وجہ سے شناخت کے مسئلے سے دوچار ہوجاتا ہے ۔حالات کیا، جذبات کیا ،خیالات کیا ،کسی چیز کی سُدھ بدھ نہیں رہ جاتی ہے ۔شناخت ،نوآبادیاتی تجربے،بے دخلی سے جڑی ہے ۔شناخت کے کئی زمرے ہیں ۔تہذیبی،قومی،مذہبی ،علاقائی ،لسانی اور ان سب سے ماورا انسانی شناخت۔شناخت جدید انسان کا مسئلہ بھی رہی ہے جسے روایت سے بیگانگی کا تجربہ ہوا۔حامدی کاشمیری کی غزل جو روح کی آگ کی گہرائیوں میں پلتی ہے ،حیات کی ڈھڑکنوں اور جوش ِتمنا کی نبص سے چلتی ہے ۔حسرتوں کے قافلے اور رستے زخموں سے غذا حاصل کرکے آیت ِ درد بن کر نمو پاتی ہے ،بھی انسانی شناخت کے مسئلے کی عکاس ہے  ؎

خود اپنے جانے پہچانے نہیں تھے

وہ آئینوں سے بیگانے نہیں تھے

ذرا سی بات پر یہ خون ریزی

قبیلے اتنے دیوانے نہیں تھے

فقط پل بھر لگی تھی آنکھ میری

یہ خارستاں ، یہ ویرانے نہیں تھے

حامدی کاشمیری اپنے ایک مضمون ’’نئی حسیت کیا ہے‘‘میں لکھتے ہیں :

                ’’میرے نزدیک بنیادی طور پر نئے فنکار کی شناخت (اگر کوئی شناخت ہے) یہ ہے کہ وہ خودآگہی کے نقطہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔اس کی نگاہ میں سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کیا ہے ؟یہ گمبھیر سوال اپنے متنوع پہلوئوں کے ساتھ ،سائنسی تحقیق اور شعوری ترقی کے ساتھ ساتھ زیادہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور موجودہ انسان کے ذہن اور نفسیاتی کرب و انتشار کا موجب بنا ہوا ہے ،انسان کیونکر وجود میں آتا ہے ؟انسان اور کائنات کا باہمی رشتہ کیا ہے ؟ان کے آفرنیش کا راز کیا ہے ؟ان کا خالق کون ہے ؟تخلیق کائنات کے پسِ پردہ کوئی قانون یا مقصد کام کررہا ہے یا اس ظہور اتفاقیہ ہے ؟موت کیا ہے؟کائنات کا انجام کیا ہیـ؟

                             (تقلیب و تحسیںاز پروفیسر حامدی کاشمیری ،مرتبہ مصرہ مریم ،سن اشاعت ۔۲۰۰۹،ص۔۱۹۰)

    شاعرگردوپیش کے ماحول کو ظلمت کدہ سے تعبیر کرتا ہے۔جس میں لوگوں کی اجنبیت ہی ان کی شناخت ہے ۔شناخت کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ شاعر داستانوی اسلوب کا لبادہ اوڑھ کر پتھروں ،درختوں ،پھلوں ،پھولوں اور موسموں تک کو قوتِ گویائی سے آشنا کرتا ہے۔اس طرح سے وہ شہرِ بے گماں وجود میں آجاتا ہے جہاں انسان خود بولنے سے عاری ہوچکا ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ مغل ،افغان ،سکھ اور ڈوگرہ دورِ حکومت سے لے کر جدید دور تک ریاست کے لوگ مکرو فرویب کے جھانسے میں غلامانہ ذہنیت سے زبان و بیان کی شناخت کے محرمِ راز نہ ہو سکے۔اس صورتحال کی ترجمانی ان اشعار میں دیکھیے  ؎

کاٹ لیتے ہیں زُباں پہلے،پھر

پوچھ لیتے ہیں کہ خواہش کیا ہے

ایک ایک کر کے قتل ہونا ہے

اب فقط بات پیش و پس کی ہے

لب کشائی کی ضرورت ہی نہیں

ہر جبیں پر خون کی تحریر ہے

سیاہ پتھر بنوں تو کیا ہے

مجھے بھی آگاہِ راز کرنا

اپنے وجودِ خستہ کا اثبات ہی کرو

کھولو زبان ، شکوئہ حالات ہی کرو

ہوئے شب کو سنگ و شجر ہمکلام

نہیں تھا تو حرف آشنا وہ نہ تھا

   حامدیؔ کاشمیری کی شاعری بیسویں صدی کے شعور سے ہم آہنگ ہے خاص طور پر وجودیوں کا تصور ِ مرگ اور انسانی وجود پر اس کے اثرات حامدیؔ کے تصورِ مرگ کا ایک حصہ محسوس ہوتے ہیں ۔وہ آئینہ عدم میں خود کو غیر موجود پاتا ہے ۔ہیڈیگر موت کے متعلق کہتا ہے کہ ’’موت ناقابل ِ انتقال ہے یہ فرد کو اکیلا و تنہا کردیتی ہے اسے خود ہی تنہا موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘‘حامدی کاشمیری کے ہاں بقول ِ مصرہ مریم؛ـ’’ایسا لگتا ہے کہ موت کا احساس ان کے لا شعور کا حصہ ہے اور وہ زندگی ،جمالیات ، انسانی زندگی کی معنویت کو بھی موت کے شعور سے جوڑتے ہیں ،اور ان کی نا پائیداری کو ظاہر کرتا ہے ‘‘

                                         (حامدی کاشمیری ،حیات اورشخصیت از مصرہ مریم ،سن ِاشاعت۲۰۰۱،ص۔۱۶۱)

  یہ حقیقت ہے کہ شاعر دُنیا کو خواب سمجھتا ہے ۔حامدی ؔکے لئے بھی یہ خواب رنگ بہ رنگے ہیں ۔اسے خبر ہے کہ خواب زندگی سے محبت کی علامت ہے۔کہیں یہ خواب حیات تو کہیں ممات ،کہیں ظلمت تو کہیں روشنی ،کہیں حقیقت تو کہیں جھوٹ میں برہنہ حسرتیں بن کر اُبھر آتے ہیں۔

کون سے تم ہی تھے فنا انجام

بے زمیں، بے اساس میں بھی تھا

سائے صنوبروں کے بہت دلفریب تھے

پل بھر کو رُ ک نہ پائے مرگ آشنا ہوئے

موت کی نیند سو گئے سن کر

نغمہ مسحور تھا پرندوں کا

مسلسل خواب میں تھا خواب میں ہوں

یہ کیسے عالمِ اسباب میں ہوں

    شاعری اس لازوال اُمید کا نام ہے جس کی کسک ہر انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔یہ تنہائی کی غذا سے پلتی ہے اور تنہائی کاہی مداوا کرتی ہے چنانچہ حامدی ؔکی شاعری کا سر چشمہ بھی تنہائی ہے۔جو انفرادی و اجتماعی دونوں سطحوں پر تشددپرستی،مقابلہ آرائی ،زبان بندی اور جبریت سے نمو پاتی ہے ۔ مختصر بحر میںضخیم خیال شاعر کے اندرون سے طویل ہمکلامی کے بعد شعری وجود اختیار کرلیتا ہے اس طرح شاعر کی تخلیق اپنے تصور کی اس دُنیا کو شکل پذیری دیتا ہے جہاں محرومی،مذہب بیزاری ،انتہا پسندی،دہشت گردی ، بدامنی،خون خرابہ جیسے جرائم انسانی سائے کے تعاقب میں رہتے ہیں ۔

پوچھتے کیا ہو حال وادیوں کا

نوحہ گر ہیں چنار راہوں میں

میرے چہرے کی خموشی پر مت جا

ہے میرے سینے کے اندر کربلا

کُوبہ کو دیتے ہیں آواز کس کو

سایہ بھی خالی مکانوں میں نہیں

کوہِ اسود پہ رات گھیرے گی

وادیِ نور سے صدا دینا

    ریاست میں پچھلے ۳۰ سالوں سے مذہبی شدت پسندی ،سیاسی مکروفریبت ،کلاشنکوف اور خون کے کلچر نے فروغ پایا ہے ۔بیگانگیت کی ڈگریہ ہے کہ جہاں انسان ،انسان کا بہترین دوست ہے وہیں انسان ہی کے ہاتھوں انسان پریشان ِحال ہے ۔وادی کا ایک عام آدمی بھی اـن گنت مسائل کے دلدل میں پھنس چکا ہے ۔استحصال ،دھوکہ و فریب اور انسانی آزادی کے خلاف غیر محسوس کُن طور پر پیدا کئے جانے والے حربے اور ہتھکنڈے اور ایسے ہی گمبھیر مسائل سے دوچار ہے۔عوام اور حکمرانوں کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل ہے امیر خود غرض اور محنت کش لاچار۔ایسے بھیانک حالات میں انسان کو اپنے وجود کے فنا ہوجانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔جس سے انسانی شناخت کو کرئہ ارض سے مسخ ہوجانے کا خدشہ لاحق رہتا ہے ۔

مری خانۂ خرابی کا تماشہ دیکھنے والا

بناکر اپنے ہاتھوں سے جلایا آشیاں میں نے

جینا سیکھا ہے مر مر کے

جینے کے حالات نہ پوچھ

تمہارے شہر کے عشرت کدے ہیں خوب ‘ مگر

یہاں بھی کیوں ہمیں دارو رسن کی یاد آئی

رگوں میں زہر اترتا جا رہا ہے

مکانوں کا کہ لاشوں کا دھوں ہے

ہر اک چہرہ ہے مسخ ان آئنوں میں

عجب ہے کوئی حیراں بھی نہیں ہے

ہوئے سب لقمۂ ظلمات شاید

وہ طائر پھر دریچوں پر نہ آئے

                                                 ٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.