یادوں کی برات اور سیاسی مباحث
ساجد اشرف
ریسرچ اسکالر
جواہر لال نہرو یونیورسٹی۔نئی دہلی
اردو میں اب تک سینکڑوں خودنوشت سوانح عمریاں لکھی گئیں ہیںجن میں اکثر و بیشتر مقبول بھی ہوئیں۔ لیکن جوش ملیح آبادی کی خوذدنوشت سوانح حیات یادوں کی برات کو جو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ اب تک کسی اور خودنوشت سوانح عمری کے حصے میںنہ آسکی۔ یادوں کی برات ایک خودنوشت سوانح حیات ضرور ہے ، جس میں جوش نے اپنی زندگی سے وابستہ ہر قسم کے ڈھکے چھپے احوال و کوائف کو بیان کیے ہیں۔ لیکن اس کتاب میں زبان و بیان اوردلکش اسلوبِ نثر کے جادو، انکشافِ ذات کے بعض متنازعہ پہلو ، واقعات کے بیان میں افسانہ طرازی ، بے باکانہ جنسی اظہارِ خیال اور اس عہد کی تہذیبی و معاشرتی مرقع نگاری موجود ہے۔ اور خاص طور پر جوش نے جس طرح اپنی ذات، شخصیت اور نفسیاتی مطالعے کے در وا کیے ہیں اس نے یادوں کی برات کو شخصی مطالعے اور ادبی و آفاقی قدر نقطۂ نظر سے مزید اہمیت کا حامل بنا دیا ہے۔اگر کہا جائے کہ یادوں کی برات کی مقبولیت اس کے دلکش زبان و بیان کے دم سے ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہم نے اس مضمون میں یادوں کی برات میں دیگر خوبیوں اور مختلف موضوعِ بحث سے قطعِ نظر صرف سیاسی گوشے پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے۔
یادوں کی برات میں سیاسی مباحث کے تعلق سے دو گوشے موجود ہیں۔ ایک گوشہ عہد کے اعتبار سے ہے ، جس کے تحت ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور جوش کے پاکستانی شہری بننے کے بعد وہاں کی سیاسی صورتِ حال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اور دوسرا گوشہ جوش کی سیاسی فکر اور سیاسی گلیاروں سے تعلقات کے مختلف پہلو ئوںسے نسبت رکھتا ہے۔
جوش گرچہ عملی سطح پر سیاست سے وابستہ نہیں رہے تاہم ہند و پاک کے بعض اعلیٰ سیاست دانوںسے ان کے اچھے اور تلخ مراسم ضرور رہے۔ہندوستانی سیاست اور سیاست دانوں نے انہیں پلکوں پر بٹھایا ۔ان کی عظمت اور شان و شوکت کے شایانِ شان وقار بخشا ۔ حصولِ روزگار کی سفارشیں قبول کیں ۔لیکن اس کے برعکس پاکستان میںجوش کو قدم قدم پر سیاسی عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ ہندوستان میں جن سیاست دانوں سے جوش کے اچھے مراسم رہے ان میںپنڈت جواہر لال نہرو اور سروجنی نائڈو کا نام سرِ فہرست ہے۔ جوش کے نہروسے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات تھے ۔ اور اس کی ذات سے انہیں بہت سے فائدے بھی پہنچے۔ جوش نے نہرو کے سیاسی افکار اور ان کی ذات و صفات پر تفصیل سے لکھا ہے ۔ جس کا مجموعی تاثر یہ بیان کرتا ہے کہ نہرو اپنی انسان دوستی اور دیانت داری کے باعث ایک اچھے ڈیپلو میٹ توتھے لیکن ایک عیار سیاست داں نہیں! سیاسی دائوں پیچ اور چھل کپٹ سے عاری نہرو کی ذات کو اعلی انسانی اقدار کا پاسبان قرار دیتے ہیں اور اِنہیں وجوہات کی بنا پر انہوں نے نہرو کو غیر سیاست داں بھی کہا ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’ اور نہرو کی سیاست چوں کہ موجودہ سیاست کے قطعی بر عکس تھی، اس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اچھے سیاست داں نہیں تھے۔ میں اس کی تائید کرتا ہوں اس لئے کہ آج کے ’’اچھے‘‘ سیاست داں کے واسطے یہ ایک لازمی شرط ہے کہ اصولِ خدمت و انسانیت کے اعتبار سے وہ ناقابلِ برداشت حد تک برا آدمی ہو۔‘‘ ۱ ؎
نہرو کے تعلق سے اپنے اظہار ِ بیان میں جوش نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے ۔ یہ ان کی سیاسی مجبوری بھی تھی۔نہرو کے علاوہ سروجنی نائڈو سے بھی جوش کے بے تکلفانہ تعلقات رہے۔ ان کے احسانات اور ان سے ملاقات کو انہوں نے بھر پور عقیدت کے ساتھ یاد کیا ہے۔ اس دور میں مولانا ابولکلام آزاد بھی ایک بڑا سیاسی نام تھا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے جوش کے مراسم تو تھے لیکن جوش کے ذہن میں مولانا کے تئیں کڑواہٹ بھری تھی جو شاید سیاسی اور فکری نقطئہ نظر کی رو سے نا اتفاقی کے بنا پر تھی ۔ جوش پر مولانا کے سیاسی آداب و گفتگو گراں گزرتے تھے۔ ایک بارجوش کی نہرو اور مولانا دونوں سے ایک ساتھ ملاقات ہوئی ، نہرو جوش کے گلے لگے اور مولانانے ہاتھ ملایا ،مولانا آزادکے گلے نہیں لگے اس پر جوش کے ذہن میں یوں خیالات گزرے۔
’’مولانا نے فقط ہاتھ ملایا اور پنڈت جی لپک کر میرے گلے لگ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا بے چارے پر، تعلیمات کی وزارت کا نشہ چڑھ چکا تھا، اور نہرو وزارتِ عظمی کا پورا مے خانہ خالی کر دینے کے با وجود، ہوش میں تھے۔ یہ فرق دیکھ کر مجھے بہت صدمہ ہوا کہ مولانا مجذوب بن چکے ہیں، اور پنڈت سالک کے درجے پر فائز ہیں۔ افسوس کہ مسلمان پر حکومت کا نشہ بہت جلد چڑھ جاتا ہے۔‘‘ (حاشیہ) ۲؎
مولانا آزاد کی شخصیت سے ہندوستان واقف ہے لیکن جوش کی نظر میںمولانا کی جو قدر دیکھنے کو ملتی ہے اس کی ایک وجہ دونوں کے سیاسی افکار میں نا اتفاقی ہو سکتی ہے۔
ہندوستانی سیاست کی صورتِ حال کا جائزہ جوش نے’ قومی تحریک سے وابستگی‘ کے عنوان کے تحت پیش کیا ہے، جو بنیادی طور پر ان کے سیاسی افکار و خیالات نیز آزادی کی تحریک سے وابستگی کی مختصر سی روداد ہے ۔جوش نے جس عہد میںاپنی آنکھیں کھولیں وہ عہد اس وقت کے ہندوستانی سیاست کا سب سے زیادہ ا تھل پتھل والا دور تھا ۔ہندوستان پر پوری طرح سے انگریزوں کا تسلط قائم ہو چکا تھا ۔۱۸۵۷ء کی پہلی جنگِ آزادی کے بعد ایک بار پھر سے ہندوستانی عوام انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے لیے جد جہد کررہی تھی۔ جوش نے بیسویں صدی کے اوائل میں تحریکِ آزادی کے عملی منظرنامے کوبڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے، لکھتے ہیں۔
’’ سیاسی اعتبار سے اس وقت سناّٹا چھایا ہوا تھا۔ پو پھٹنے میں ذرا دیر تھی، رات کے دو یا تین بجے کا وقت تھا۔ لوگوں کی اکثریت کھراٹے لے رہی تھی۔ کچھ بستروں پر پڑے کروٹیں لے اور کنمنا رہے تھے اور، بہت تھوڑے لوگ، تِلک اور گوکھلے کے گجر سن کر بیدار ہو گئے اور دھیمے سروں میں آزادی کے چرچے کر رہے تھے۔‘‘ ۳؎
اور ہندوستانیوں کے اس مردہ دلی کو دیکھتے ہوئے انگریز ان کی طرف سے صبح ہونے کے امکان سے بے فکر تھے ۔ لیکن بقول جوش۔
’’ مہاتما گاندھی، جس وقت لنگوٹا باندھ کر میدان میں کود پڑے تو پو پھٹ گئی اور ہر طرف سے یہ آواز آنے لگیں کہ تخت یا تختہ– آزادی یا موت یا ایونِ فرنگی مسمار، یا تختئہ دار۔‘‘ ۴؎
مزید انہوںنے گاندھی جی کی سیاسی پیش قدمی اور انگریزوں کی ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسی کو اجا گر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کس طرح انگریزوں نے ہندو مسلمان کو ایک دوسرے سے اورمسلمانوں کے ایک فرقے کو دوسرے فرقے سے اور ہندئوں کے ایک فرقے کو دوسرے فرقے سے لڑانے کا کام کیا ۔ یہی نہیں جیلوں کے دروازے کھول دیے گئے ، تعلقہ داروں، نوابوں، سیٹھ ساہو کاروں، خان بہادروں، رائے بہادروںکو انگریز دودھ پلا کر پالے ہوئے تھے، ان کابھی غلط استعمال کرنا شروع کردیا:
’’اب کیا تھا،ہر طرف پکڑ دھکڑ کاایک طوفان برپا ہو گیا۔ جیلیں بھری جانے لگیں، سولیاںکھڑی کر دی گئیں۔ اور ہر جانب سے غلغلے بلند ہونے لگے کہ خاک میں ملا کر رکھ دو انگریز بہادر کے غداروں کو۔ یہاں تک کہ آگے چل کر جلیاں والا باغ کی زمین خون میں ڈوب گئی، اور تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو نے لگیں لاشیں محبّانِ وطن کی۔‘‘ ۵ ؎
جوش زمانۂ عالمِ طفلی سے ہی انگریز اور اس کی حکومت سے نفرت کرتے تھے ۔ اس کا اظہار بھی کئی موقع سے انہوں نے کیا ہے۔عملی سطح پر جوش ۱۹۱۸ء میں پہلی اور آخری بار تحریکِ آزادی سے وابستہ ہوئے ۔ اور کانگریس کے سالانہ اجلاس میں شامل ہونے کے لیے احمد آباد گئے ، وہاں مولانا ابوکلام آزاد سے ملاقات ہوئی، اور ابوالکلام آزاد کے ساتھ گاندھی جی سے ملاقات کے لیے گئے۔جوش گاندھی جی کی شہرت اور کارنامے سے واقف تھے اس بنا پر ان کے ذہن میں گاندھی جی کی تابناک شکل وصورت اور لحیم شہیم قد کاٹھی کا خاکہ بناہوا تھا ۔ لیکن پہلی ملاقات کا تاثر خود جوش کی زبانی سنیے:
’’مولانا آزاد کے ساتھ گاندھی جی سے ملا۔ ان کی صورت نے میرے ذوقِ جمالیات کے منھ پر تڑاق سے تھپڑ مار دیا۔ اور میرے دل میں اس وقت ایک بات یاد آئی کہ اس قدر ٹوٹے ہوئے جسم اور اس قدر بگڑے ہوئے چہرے کا آدمی، دنیا میں کر ہی کیا سکتا ہے۔ ہندوستان کی آزادی اور گاندھی؟ یہ منھ اور مسور کی دال؟ مایوسی نے مجھ کو ڈھانپ لیا۔
لیکن جب مختلف مسائل پر انہوں نے زبان کھولی تو ان کی رائے کی صحت و اصابت، اور ان کے لہجے کی پختگی اور صلابت نے یقین دلایا کہ ہندوستان کو جس مردِ میدان کا انتطار تھا وہ آ گیا ہے۔‘‘ ۶؎
گانگریس کے اسی سالانہ اجلاس میںہونے والے ایک بہت ہی اہم سیاسی واقعہ کو بیان کیا ہے۔جوش کے مطابق ایک سیشن سے قبل گاندھی جی اور مولانا حسرت موہانی کے درمیان آزادی کے ریجولیشن پر زبردست بحث چل رہی تھی ۔ مولانا حسرت موہانی کو چھوڑ کر گاندھی سمیت تمام فعال سیاست دانوں کی منشا یہ تھی کہ فی الوقت برطانوی حکومت کی چھتر چھایہ ہی میں آزادی کی مانگ کی جائے ۔ لیکن دوسری طرف اکیلے مولانا حسرت موہانی تھے جو’’ آزادئی کامل‘‘ کا ریجولیشن پاس کرانے کی ضد پر اڑے ہوئے تھے۔ جوش اس واقعہ کا آنکھوں دیکھا حال لکھتے ہیں:
’’ تھوڑی دیر بعد خلافت کے پنڈال میں گیا، دیکھا کہ مولانا حسرت موہانی اور مہاتما گاندھی کے درمیان بڑی رسّہ کشی ہو رہی ہے، ایک طرف گاندھی جی اور ان کے رفقاء اس بات پر مصر ہیں کہ سرِ دست برٹش تاج کے زیرِ سایہ آزادی طلب کی جائے اور دوسری طرف فقط مولانا حسرت موہانی ہیں، جو آزادئی کامل کا ریجولیشن پاس کرانا چاہ رہے ہیں۔
حسرت موہانی کو سب نے لاکھ لاکھ سمجھایا لیکن وہ نہ مانے، اور سیدھے اسٹیج کی طرف روانہ ہو گئے اپنا آزادئی کامل کا ریجولیشن لے کر۔ اسٹیج اونچا تھا اور حسرت پستہ قد آدمی تھے، میں نے سہارا دے کر ان کو اسٹیج پر چڑھا دیا اور جب انہوں نے آزادئی کامل کا ریجولیشن پیش کیا تو پنڈال میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔‘‘ ۷؎
یہ ایک اہم تاریخی صداقت ہے کہ غلام ہندوستان کے لیے مولانا حسرت موہانی وہ پہلے شخص تھے جنہوںنے گاندھی، نہرو، کے علاوہ دیگر بڑے لیڈران کے انکار کے با وجود آزادئی کامل کے ریجولیش کو پاس کرانے کی ہمت دکھائی۔
دوسری جنگ عظیم میں لکھنٔو کے گورنر کی ہندوستانیوں کو برطانیہ کی حمایت کی اپیل پر جوش نے ’’ایست انڈیا کمپنی کے فرزندوںسے خطاب‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی تومانو آگ لگ گئی ۔آزادی کے متوالے ان کی اس نظم کو ٹولی بنا بنا کر گانے اور انگریزوںکے ظلم کی یاد دہانی کرانے لگے۔کیوں کہ گورنر ، لکھنٔو نے ہندوستانیوں کو برطانیہ کی حمایت کی اپیل پر انسانیت کے مستقبل کی پاسداری کی بنا پر دینے کا ہی اعلان کیا تھا۔ یعنی انسانیت کے دشمن کی طرف سے انسانیت کی بقا کی بات کہی جا رہی تھی۔ جوش لکھتے ہیں:
ْٓ’’ اس نظم کا چھپنا تھا کہ آگ لگ گئی، طّلاب اور علّامتہ النّاس جلوس بنا بنا کر نکلنے اور اسے گاتے پھرنے لگے، آگے آگے وہ ہوتے تھے اور پیچھے پیچھے پولیس۔ میری یہ نظم جب برلن ریڈیو سے بروڈ کاسٹ ہوئی تو میری شدید نگرانی ہو نے لگی۔‘‘ ۸؎؎
مذکورہ نظم میں ایک غلام ملک کے باغی شاعر کے لہجے کی متانت میں تلخی کا اظہار بخوبی دیکھا جا سکتاہے۔ جو اس وقت کے فطری تقاضے کی غمازی کرتا ہے۔یہ لہجہ اور فکر جوش کا صرف ہندوستانی سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر نہیں بلکہ بین القوامی سطح پر بھی انسانیت کی پاسداری کے حق میں اسی نوع کے فکر کی نمائندگی کرتاہے۔ یادوں کی برات کی ابتداء میں جوش عالمی پیمانے پر انسانیت کے خلاف سیاسی اقدامات پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ فوجی درندگی کے بل بوتے پر، فتنے برپا کرنے والے ارباب سیاست کا یہ خیال ہے کہ دانائی اسی میں ہے کہ نادانوں کو ، ثقافت ، لسان، اوطان، اور ادیان میں الجھا کر، چھوٹی چھوٹی، بر سرِ جنگ، ٹولیوں میں تقسیم کر دیا جائے، اور پھر، بڑے اطمینان کے ساتھ، ان پر فرما روانی کی جائے۔
انہوں نے انتہائی بد دیانتی کے ساتھ ،’’بین الاقوام‘‘ کی ترکیب تراشی ہے، اور نوعِ انسان کو، جو مشرق سے لے کر مغرب تک صرف ایک قوم ہے، زبانوں، وطنوں، دینوں اور رنگوں کی آویزشوں میں مبتلا کر کے، پوری دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے، ان ظالم مسخروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ:
لفظِ ’’ اقوام میں کوئی جان نہیں ٭ ایک نوع میں ہودوئی، یہ امکان نہیں
جو مشرقِ یزداں ہے، وہ ناداں ہے فقط ٭ جو مشرقِ انساں ہے، وہ انساںنہیں
لطف تو یہ ہے کہ وہ بانیانِ فساد، خود تو سلامتی کے گوشوں میں دِبکے بیٹھے ہیں، اور، روٹی کی خاطر،اپنے بھائیوں کی جانیں لینے والی فوجوں کو للکار دیا ہے کہ وہ خون کی ہولی کھیلتے رہیں۔‘‘ ۹؎
معلوم ہوتا ہے کہ عالمی سطح کے جوش کے یہ سیاسی خیالات غالباََ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے پس منظر میں ہے۔ جوش نے مذکورہ مباحث میں اپنے عملی سرگرمیوں کا ذکر جو کہ ہمیں یادوں کی برات میں دیکھنے کو ملا، جن میں گاندھی جی سے پہلی ملاقات، پنڈت مدن موہن مالویہ کا فسادی کردار، یا پھر مولانا حسرت موہانی کا آزادئی کامل ریجولیشن وغیرہ ،یہ سب ایک اجلاس کی کاروائی کی روداد ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں ۱۹۱۸ء سے ۱۹۴۷ء تک کے طویل عرصے کے حوالے سے تحریکِ آزادای یا تقسیمِ ہند کے المناک واقعے کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا۔ جب کہ جوش کے نہرو، مولانا آزاد، گاندھی جیسے بڑے لیڈران سے ملاقات بھی رہی ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس دوران تحریکِ آزادی نت نئے تقاضوں اور اجینڈوں کے ساتھ نئے جوش و خروش کے ساتھ ابھر سامنے آئی ، مجاہد ِ آزادی کے ساتھ کئی بڑے تاریخی واقعات و حادثات پیش آئے، لیکن کہیں بھی اس کا ذکر نہیں ۔ اس سے تو ایک بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ جوش عملی سطح پر تحریکِ آزادی میں سرگرم نہیں تھے ۔ اگر ان کی مصروفیت تحریکِ آزادی میں رہتی تو شاید وہ ڈنکے کی چوٹ پر اس کا ذکر کرتے ۔لیکن ایک مورخ کی حیثیت سے بھی وہ کچھ بھی بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ تحریکِ آزادی کے علاوہ تقسیمِ ہند کا سانحہ بھی جوش کی حیات میں ہوا ۔ لیکن اس پر بھی جوش خاموش رہے۔ تقسیم ِ ہند کے اسباب و محرکات پر پاکستان نہیں تو کم ازکم انہیں ہندوستانی سیاست دانوںکے موقف کو ضرور بیان کرنا تھا۔ اس سلسلے میںاحمد عقیل روبی لکھتے ہیں:
’’ کاش جوش صاحب اس کتاب میں اس عہد میں ابھرنے والی سیاسی فکری نظریاتی تحریکوںکا تفصیلی ذکر کرتے جن بڑے لوگوں سے وہ ملے تھے ان کی فکری سیاسی وابستگیوں اور تبدیلیوں کی روداد بھی لکھ دیتے۔ صرف فرنگی سے نفرت کا باب لکھ دینے سے کوئی بڑی بات نہیں بنی۔‘‘ ۱۰؎
احمدعقیل روبی مذکورہ بالا سطروں میں جوش کے سیاست میں عملی حیثیت یا پھر تجربے کی بنیاد پر کچھ نہ لکھنے کی شکایت کر رہے ہیں ۔ لیکن کچھ دانشوران نے اس معاملے میں ایک قدم اور آگے بڑھ کر جوش کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ یعنی کہ جوش عملی اور فکری سطح پر تو سیاسی یا تحریکِ آزادی کے میدان میں کچھ خاص نظر نہیں آرہے ہیں، لیکن تخلیقی سطح پر بھی جوش کے یہاں سیاسی، انقلابی یا تحریکِ آزادی کے وہ نغمے یا تحریں اس قدر نہیں ملتی کہ موضوعاتی سطح پر ایک ان کی شاعری کے ایک حصے کو سیاسی یا تحریک آزادی کے نام سے موسوم کیا جا سکے۔ پروفیسر محمود الہی لکھتے ہیں:
’’ اگر ان کی شاعری کا تجزیہ کیا جائے تو جد و جہد آزادی اور انقلاب کے حوالے سے یہی عنصر ان کے یہاں سب سے کم ہے ۔ ان کی شاعری کو کتنے ہی ابواب میں تقسیم کیا جائے، جنگِ آزادی کا باب سب سے مختصر اور سب سے کمزور نظر آئے گا۔جوش کا جنگِ آزادی کا تصورر وایتی اور تقلیدی تھا ، ان کی شاعری کے عین عالمِ شباب میںتحریکِ خلافت کا آغاز ہوا اور اس کا عروج بھی۔ ایسے لمحات بھی آئے جب ملک کا بچہ بچہ اس تحریک سے وابستہ ہو چکا تھا۔ اور اربابِ دانش توبطورِ خاص اپنے قلم سے اس تحریک کو زندگی بخشنے کی کوشش کرتے رہے۔‘‘ ۱۱؎
مذکورہ دونوں اقتباسات ، دو مختلف دانشور کی آرا ہیں۔ لیکن کہی گئی باتوں میں کتنا وزن ہے اس کا تجزیہ، یا اس پر حتمی رائے صرف یادوں کی برات کے حوالے سے طے نہیں پا سکتا ۔ اس لیے کہ پروفیسر محمود الہی صاحب یادوں کی برات کی روشنی میں جوش کے سیاسی افکار اور عملی سرگرمیوں کا جائزہ پیش نہیں کر رہے ہیں، بلکہ وہ ان عناصر کو جوش کی شاعری میں تلاش کر رہے ہیں۔ ہاں ! اگر یادوں کی برات کی روشنی میں جوش کی سیاسی شخصیت یا پھر تحریکِ آزادی میں حصہ داری کے حوالے سے سوال قائم کیا جائے یا پھر اِس موضوع پر بحث کی جائے گی تو یہاں بحث کی گنجائش ضرورہے۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ جب ہم جوش کے عہد میں انقلابی نظموں کا ذخیرہ دیکھتے ہیں تو وہاں جوش سرِ فہرست نظر آتے ہیں۔
سیاسی اعتبار سے دکن کا قیام جوش کی زندگی میںکافی اہمیت رکھتا ہے۔ جوش نے لکھا ہے کہ وہ میں ۱۹۲۴ء کے اوائل میں حیدر آباد پہنچ گئے تھے۱۲؎ ۔ لیکن تابش دہلوی کے مطابق جوش پہلی بار ۱۹۲۷ء میں حیدرآباد آئے اور چند مہینے قیام کرنے کے بعد ۱۹۲۹ء میں دوبارہ حیدر آباد آئے اور دارلترجمہ میں ناظر ادب کی حیثیت سے ملازم ہو گئے ۱۳؎ ۔ جوش حیدرآباد،میر عثمان علی (نظامِ دکن) کے دور میں تشریف لے گئے تھے۔ دکن سے جوش کے معاشی ، ادبی اور سیاسی رشتے کاباقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ اور یہ تینوں رشتہ آخر دم تک فرحت و شادمانی اور کبھی فکر و پشیمانی کی بھی صورت پیدا کرتے رہے۔ سیاسی اعتبار سے نظامِ دکن کا دربار بھی قدیم زمانے کے راجائوں مہاراجأں کے چاپلوسوں سے بھرا تھا۔ نظامِ دکن کے سامنے دوسروں کی برائی کر کے خود ان کے ناک کا بال بننا ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی۔ دربا رکی سازیشیں بہت عام تھیں ۱۴؎ ۔ بقول جوش ،حیدر آباد میں نوکر چاکر کے علاوہ سودا سلف بیچنے والی بھی نظام کی خوفیا پولس میں شامل تھی ۱۵؎۔ یہ بات عیاں ہے کہ جوش نے دکن کا سفر اور وہاں قیام کی مدت خواب کے ذریعہ طے کر رکھا تھا ۔ گویا کہ دکن سے اخراج سیاسی عتاب نہیں تھی بلکہ جوش کے خواب کے مطابق تو یہ ہونا ہی تھا ۔جوش کا دکن سے در بدر ہونا تو جگ ظاہر ہے لیکن انہیں در بدر کیوں گیا اس کے بہت سے وجوہات ہو سکتے ہیں جسے جوش نے ہم سے پوشیدہ رکھا ۔لیکن انہوں ایک ہی وجہ بتائی جو اکثریت کی نظروں میں اس کے شان اور رتبے میں اضافہ کر سکتی تھی۔اور وہ وجہ ایک باغیانہ تیورکی نظم تھی جسے جوش نے نظامِ دکن کو مخاطب کر کے ا نہیں کہا تھا لیکن سامعین کے حلقے سے کسی خفیہ پولس نے نظام دکن کے کان میں اس طرح پھونکا ، گویا جیسے اس نظم کا روئے سخن نظام ِ دکن میر عثمان علی ہی ہیں۔ اس زمانے میں دکن میں جمہوری نظام نہیں تھا بلکہ وہ ایک خود مختار ریاست تھی۔ جہاں نظامِ دکن کے خلاف کچھ بھی بولنا اپنے لیے مصیبت پیدا کرنا تھا۔ جوش نے جس طرح اپنے اخراج کے اسباب و محرکات بیان کیے ہیں اس سے اخراج کی اصل وجہ اور بھی گنجلک ہوگئی ہے۔ جوش نے تو آن بان سے بتایا ہے نظامِ دکن کے دربار میں وہ کس طرح حاضر ہوتے تھے ۔کئی مرتبہ ان کی بڑی سے بڑی غلطیوں کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ لیکن ماہرالقادری کے مطابق جوش کی نظامِ دکن کے دربار تک رسائی تھی ہی نہیں۔ اور نہ کبھی نظام کے روبرو دربار میں حاضر ہوئے ۱۶؎۔
اگر ماہرالقادری کی بات مان لی جائے تو پھریہ بھی واضح ہوا کہ جوش کو نواب عمادالملک کے شفارشی خط کی بنا پر نظام دکن نے دربار میں نہیں بلایا ہوگا ، اور ان کو ملازمت ملنے کی کوئی اور صورت رہی ہوگی۔ سیاسی اعتبار سے جوش کا دکن سے اخراج ایک بڑا واقعہ ضرورہے۔نظامِ دکن کی شان میں گستاخانہ کلام کے باعث یا پھر وجہ جو بھی رہی ہو لیکن جوش معتوب کیے گئے تھے اور انہیں نظامِ دکن کے دربار سے تا حکم ثانی حیدرآباد میں قدم نہ رکھنے کا حکم ملا تھا۔ معتوب کیے جانے کے بعد بھی دہلی میں رہتے ہوئے جوش نے حیدرآباد میں دوبارہ داخلے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں اپنے قرابت داروں سے خط کتابت بھی کی لیکن ۱۹۴۷ء تک ان کی عرض گذاشت منظور نہ ہوسکی ۔۱۷؎
جوش نے تحریکِ آزادی کو قریب سے دیکھا تھا اسی طرح آزاد ہندوستان کی صبح اور اس سے ٹھیک قبل تقسیم ہند کے ہولناک مناظر اور اس سے ہونے والے جان و مال کے نقصان دیدہ و شنیدہ واقعات بھی ان کی حیات میں ہی رونما ہوئے تھے ۔یہ انسانی تاریخ کا انتہائی المناک واقعہ تھا ۔ جس کے درد کو ہر ایک با شعور ہندوستانی نے اپنے سینے میں محسوس کیا ۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم ہنداور اس کی پاداش میں بے گناہ انسانوںکا قتلِ عام ایک سیاسی قدم کا نتیجہ تھی۔ لیکن یادوں کی برات میں ہمیں تقسیم ہند کی روداداس طرح نہیں ملتی جیسا کہ توقع کی جا سکتی تھی۔ اس لیے کہ جوش نے ان واقعات وحالات کا مشاہدہ ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کے کرب کو جھیلا بھی تھا ۔جب کہ دوسرے ادبا نے اپنی خودنوشت سوانح عمریوں میں تقسیم ہند کی سیاسی حیثیت اور اس کے بعد ہونے والے فساد کی روداد کو بھرپور انداز میں قلم بند کیاہے۔جن میں ’’شہاب نامہ‘‘(قدرت اللہ شہاب)،’’الکھ نگری‘‘(ممتاز مفتی)، ’’گردِ راہ‘‘ (اخترحسین رائے پوری) ، ’’تمنا بے تاب‘‘(رشید امجد)وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاست سے متاثر ہونے کے باعث ،جوش مصلحت یا مجبوری کی بنا پراس المانک واقعہ کی تفصیل میں جانے سے قاصر رہے کیوں کہ جوش کے نہرو سے اچھے تعلقات تھے ،اور ذکر میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور آتاجس سے نہرو کے کردار و افکارنیز نہرو کے تعلق سے جوش کے قول و فعل میںبھی تضاد نظر آتا۔ تاہم کچھ ہلکے پھلکے واقعات کا ذکر ضرور ملتا ہے ۔ جوش نے تقسیم ہند کے بعد کے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے جو سردار پٹیل کے اشارے پر ایک مسلم پولس کمشنر کے ٹرانسفر سے متعلق ہے۔
’’ تقسیم ہند کے فوراََ بعد سردار پٹیل نے اس وقت کے دہلی کے مسلمان چیف کمشنر کو، جو علی گڑھ کے صاحب زادہ آفتاب احمد کے فرزند تھے، معطل تو نہیں کیا تھا ، مگر زبانی احکام کے ذریعے سے ان کے تمام اختیارات سلب کرکے، اس وقت کے ڈپٹی کمشنر مسٹر رن دھاوا کے سپرد کر دیے گئے تھے، اور، بڑی دھوم دھام کے ساتھ مسلمان لوٹے اور قتل کیے جا رہے تھے۔ ۱۸؎
مذکورہ سطور میں مسلم پولس کمشنر کی زبانی معطلی میں سردار پٹیل کاہاتھ ہے،ایسا جوش نے لکھا ۔ اور موجودہ پسِ منظر میں ماضی میں ہونے والے ایسے واقعات کی صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ویسے بھی سردار پٹیل کی فرقہ پرست ذہنیت سے ہندوستان واقف ہے ۔ جوش سے ایک ملاقات کے دوران سردار پٹیل نے ویسے بھی کھلے لفظوں میں کہا تھا:
’’ انہوں نے انگریزی میں مجھ سے کہا، آپ نے سنا ہوگا کہ میں مسلمان کا دشمن ہوں آپ جس قدر خوناک برہنہ گفتار آدمی ہیں، اسی قدر میں بھی ہوں، اس لیے آپ سے صاف صاف کہتا ہوںمیں آپ کے ان تمام مسلمانوں کی بڑی عزت کرتا ہوں ، جن کے خاندان باہرسے آکر، یہاں آباد ہو گئے ہیں، لیکن میں ان مسلمانوں کو پسند نہیں کرتا ، جن کا تعلق ہندوقوم کے شودروں اور نیچی ذاتوں سے تھا، اور مسلمانوں کی حکومت کے اثر میں آکر انہوں نے اسلام مقبول کر لیا تھا، یہ لوگ دراصل نہایت متعصب، شریر، اور فسادی ہیں، اور اقلیت میں ہونے کے باوجود، ہندو اکثریت کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ ۱۹؎
جوش اسی نوعیت کی وجوہات کی بنا پر سردار پٹیل کو ’کالا انگریز کہتے تھے ۔ ’’ کالا انگریز ‘‘کے عنوان سے جوش نے ایک نظم بھی لکھی تھی ۲۰؎۔ سردار پٹیل کے علاوہ چند اور بھی نامور شخصیات ہیں جنہیں جوش نے یادوں کی برات میں کچھ انتہائی متشکک اور متعصب نظروں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے کہ سر سید احمد خان اور پنڈت مدن موہن مالویہ ۔ ایک جگہ انہوںنے مدن موہن مالویہ اور سر سید احمد خان کو انگریزوں کے حامی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی تہذیب و ثقافت کے سفیر کی حیثیت سے بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ فرنگیوں کے نقیب پنڈت مدن موہن مالویہ اور سر سیّد احمد خاں اپنے چیلی چاپڑوں کے ساتھ مغربیت کے فروغ کی سعی کر رہے تھے۔‘‘ ۲۱؎
مذکورہ سطروں میں سر سید کو جوش نے ان کی تحریک کے اجینڈوں میں شامل مغربی تعلیم اور تہذیب کے باعث فرنگیوں کا نقیب کہاہے، یا انگریزوں کی ملازمت کے باعث، یہ جوش ہی بہتر جانتے ہوں گے۔ البتہ پنڈت مدن موہن مالویہ کی تاریخ کچھ ایسی ہی رہی ہے۔ جیسا کہ جوش نے کہا ۔ آج بھی ہندوستان میں مالویہ کے لگائے ہوئے پودے بڑی چابکدستی کے ساتھ اپنے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ ۱۹۱۸ء کے احمد آباد (گجرات) کے قومی تحریک کے اجلاس کے ہی ایک واقعہ کو جوش نے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کس طرح اس وقت ان کی شبیہہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سیکولر ہندئوں کے نزدیک بھی نا قابلِ قبول تھی:
’’ ہندو مسلم فساد کے سرکاری ایجینٹ مدن موہن مالویہ جب تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو تمام پنڈال بپھر گیا، اور ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں، نہیں سنیںگے، نہیںسنیںگے، بیٹھ جائو، بیٹھ جائو، بیٹھ جائو۔‘‘ ۲۲؎
پنڈت مدن موہن مالویہ اور سردار پٹیل جیسے کردار ہر زمانے میں ابھرتے ہیں ۔ کبھی مذہبی اور کبھی سیاسی آڑ سے ،ذات پات کے نام پر دو فرقے آپس میں لڑوا کر انسایت اور امن امان کے خلاف اپنی ناپاک ذہنیت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
ہندوستان کے عصری منظرنامے کے مدِ نظر یادوں کی برات میں ایک خطرناک سیاسی پیشن گوئی صحیح ثابت ہو رہی ہے۔ اور وہ پیشن گوئی ’گائے اور مسلمان‘ کے تعلق سے ہے۔ دوراندیشی سے بھرے اس جملے کا پسِ منظر جاننا بھی ضروری ہے۔ جوش حیدر آباد سے جلا وطن ہو کر واپس آرہے تھے لیکن ملیح آباد نہ آکر راستے ہی میں جھانسی ریلوے اشٹیشن پر اس لیے اتر گئے کہ ریاست دَتییہ پور جا کر فکر معاش کا حل نکالا جائے۔ وہاں جوش کے قرابت دار قاضی عزیزالدین (وزیرِ اعظم ، دتیہ )نے جوش کو برٹش حکومت کی مالی امداد سیـ’ پرو برٹش‘ اخبار نکالنے کا مشورہ دیا لیکن جوش نے جذبۂ حب الوطنی کے باعث قاضی عزیزالدین کا آفر ٹھکرا دیا ۔ جس کے جواب میں قاضی نے انتہائی دوراندیشی مصلحتانہ انداز میں چند جملے جوش کے گوش گزار کیے ، جسے ہندوستانی سیاست اور سیکیولیرزم کے نقطئہ نظر سے کافی اہم کہا جا سکتا ہے:
’’ جوش صاحب برٹش امپائر ( سلطنتِ برطانیہ) ایک نعمت ہے، اور بہت بڑی نعمت۔ اگر یہ حکومت خدا نہ خواستہ، باقی نہ رہی، تو میری یہ بات، کان کھول کر، سن لیجیے، کہ ہندو ہم کو کچّا چبا ڈالے گا، سرکاری نوکری تو بڑ ی چیز ہے، وہ ہم پر عرصئہ حیات تنگ کر دے گا، گائیں آپ کی کھیتیاں چر لیں گی، اور آپ گائے پر ہاتھ اٹھائیں گے تو ، کم سے کم آپ کا ہاتھ توڑ ڈالا جائے گا ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ قتل بھی کر ڈالے جائیں۔ ہندو آپ کے خون سے ہولی کھیلے گا، آپ کے ایم اے لڑکوں پر ہندو میٹرک کو ترجیح دی جائے گی، اور آپ کے خاندانوں کو تہہِ تیغ کر دیا جائے گا۔‘‘ ۲۳؎
مذکورہ سطور میں قاضی صاحب نے جو باتیں کہیں ہیں آج کی تاریخ میں اس کے درست ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یقینا جو قیاس آرائی آج سے تقریباََسو سال پہلے کی گئی تھی، آج صورتِ حال اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہے۔
سیاسی عنوان کے تحت جو بھی مباحث اب تک ہوئے ، ان کی روشنی میں جوش کے سیاسی نظریات پر بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جوش کی سیاسی فکر کا مرکزی پہلو جذباتیت اور مفاد پرستی پر مبنی معلوم ہوتاہے۔جوش کے پاس دراصل کوئی خاص سیاسی نقطئہ نظر نہیں تھا ، انہیں انگریزوں سے حد درجہ نفرت تو تھی اور گاہے گاہے نظموں میں اس کا اظہار بھی کرتے رہے۔ لیکن عملی سطح پر ان کا کوئی کارنامہ کسی طرح کی ٹھوس سیاسی بصیرت کا نتیجہ نہیں تھی۔ بلکہ یہ جذباتیت کا ایک بہائو تھا جس میں جوش حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ کبھی کبھار بہہ جاتے تھے۔ اگر ان کی سیاسی فکر ابولکلام آزادیا حسرت موہانی جیسی ہوتی تو ایک آدھ بار جیل کا سفر ضرور کر چکے ہوتے ۔ لیکن جوش کی ذات سے ایسی کوئی حقیقت وابستہ نہیں۔اور سچ تو یہ ہے کہ یادوں کی برات میں جوش کے جس قدر سیاسی واقعات اور فکر وعمل کے سراغ ملتے ہیں اس سے جوش کی حیثیت ایک تماشائی کی سی معلوم ہوتی ہے۔ اس دور میں سیاسی و سماجی رکن کے علاوہ شعرا و ادبا بھی تھے جنہوں نے تحریکِ آزادی میں اپنے فکر و عمل کے ساتھ کسی نہ کسی صورت شامل رہے۔ البتہ جب وہ پاکستانی سیاسی منظر نامے پر گفتگو کرتے ہیںتو وہاں سیاسی فکر کا ایک کینوس ضرور ابھرتا ہے۔لیکن جوش نے پاکستانی سیاست میں بھی منافقت سے کام لیا اور انگلو انڈین بنے رہے۔
پاکستان کے تعلق سے سیاسی مباحث کے ذیل میں سب سے اہم نکات جوش کا پاکستانی شہریت اختیار کرنا اور پاکستان میں اقتدار کی جنگ اور فوجی حکومت کے سبب پیدہ شدہ حالات کا تجزیہ ہے۔ ہندوستان میں نہرو، سروجنی نائڈو وغیرہ کی قربت نے جو ش کو ذاتی طور پر سیاسی فائدے پہنچائے ، لیکن پاکستان میں قدم رکھتے ہی جوش کو پاکستانی سیاست نے اس طرح اپنے نرغے میں لیا کہ وہ مرتے دم تک اس کے عذاب سے نجات حاصل نہیں کر سکے ۔اور پاکستانی شہریت اختیار کرنے کا فیصلہ زندگی کی سب سے بڑی بھول ثابت ہوئی۔ ابو طالب نقوی(چیف کمشنر،کراچی) کے بارہا اصرار اور ناصر حسین خان کی جذباتی اور دراندیشی بھری تقریر پر پاکستان آنے کو تیار ہو تو گئے اورنقوی نے جوش کے لیے مکان،باغ اور سنیماہال کے لیے زمین الاٹ کروا دی۔ اور جیسے ہی جوش کے پاکستانی بننے کی خبر عام ہوئی پھر کیا تھا ، پاکستانی ادیبوں ، صحافیوں ،سیاسی نیز مذہبی جماعتوں نے بھی انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، اور سب کے سب اخوت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوش کے خلاف کمربستہ ہو گئے:
’’ میرے پاکستانی بنتے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں ، اور شہر کراچی میں تو اس قدر بلبلا اٹھا گویا صورِ قیامت پھونک دیا گیا ہے۔ تمام چھوٹ بڑے اردو اور انگریزی اخباروں کے لشکر خم ٹھونک ٹھونک کر، میدانِ جنگ میں آ گئے۔ تمام ادباء و شعراء اور کارٹون سازوں نے اپنے اپنے قلموں کی تلواریں، نیام سے نکال کر میرے خلاف مضامین، قطعات، اور کارٹونوں کی بھرمار کردی ۔
ہر طرف منڈیوں کا سا ایک غلغلہ بلند ہو گیا کہ دہائی سرکار کی، مغلِ اعظم، یعنی ابو طالب نقوی نے جوش کو آدھا پاکستان کاٹ کر دے دیا ۔ مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے لوگ میرے خلاف متحد ہو کر ، شیر و شکر ہو گئے ۔ وہابیوں ، بریلیوں، دیوبندیوں ، قادیانیوں، سنیوں اور شیعیوں نے اپنی چودہ سو برس کی نفرتوں کو یکسر بھلا دیا، تبرّا اور مدح صحابہ کے مابین، طرح مصالحت پڑ گئی اور میرے خلاف متحدہ طور پر اعلانِ جنگ فرما دیا گیا۔‘‘ ۲۴؎
غرض کہ جوش جب تک پاکستان میں زندہ رہے تب تک ان پر سیاسی عتاب نازل ہوتے رہے۔ جوش نے ۱۹کار وبار اور دیگر منصوبوں کے لائسنس اور اس سے متعلق کاغذات کے رد ہونے یا نہ بننے کا ذکر کیا ہے جس میں سیاسی اور ادبی تعصب کارفرما تھی ۲۵؎۔ ترقی اردو بورڈ سے بھی جوش کے اخراج کی وجہ سیاسی تھی۔ جوش کے مطابق ۱۹۶۷ء میں جب وہ ہندوستان اپنے ملیح آباد کے باغات بیچنے آئے تو ظ۔انصاری نے کسی اخبار کے نمائندے کو بلاکر جوش کا انٹرویو کروایا، اور انٹرویو کے بعض بیانات کو شان الحق حقی اور الطاف گوہر کی مدد سے پاکستانی اخباروںمیں مسخ کر کے اسے ملک مخالف بیان بازی کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ ہی دنوں میں جوش ترقی اردو بورڈ سے باہر ہونے مجبور ہو گئے۔
جوش کی پاکستان میں جس طرح مخالفت ہوئی ، اس کا کوئی جواز بھی انہیں پیش کرنا تھا۔ آخر مخالفین کی نفرت اور احتجاج کے وجوہات کیا تھے۔ انہیں جوش کی مخالفت کرنے سے کس طرح کا فائدہ حاصل ہو سکتا تھا۔جب کہ جوش کے پاکستانی شہری بننے پر نہ ہی کسی مذہبی پیشوا یا مذہب کو نقصان پہنچا نہ ہی کسی ادیب یا شاعر کی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی آئی بلکہ الٹے جوش کو اپنے سے کم تر مرتبے کے شاعرکے روبرو کم تر جانا گیا۔ رہی بات سیاسی مخالفت کی تو ،جوش عملی سطح پر سیاسی آدمی نہیں تھے اس لحاظ سے جوش کی پاکستان آمد سے کسی کے سیاسی مستقبل میں کسی طرح کا کوئی حرف نہیں آتا یا پھر جوش کی تخلیقات میں ان کی سیاسی فکر کی شمولیت اس قدر نہیں تھی جس سے اقتدار کے پائے ہلتے ۔
حکومتی نظام کے تحت پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر اپنے اضافہ شدہ ایدیشن کے اضافی حصے میں بنگلہ دیش کے الگ ہونے ، جماعتِ اسلامی اور پیپلز پارٹی کے سیاسی افکارو اقدامات اوران کے ایجنڈوںپر کھل کر بحث کی ہے۔ جوش نے دعوتِ اسلامی کے نعروں اور پالیسیوکو مذہب کی آڑ میں بیجا متشدد ہونے پر اس کی سخت نکتہ چینی کی ہے ۔پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی کے مابین مقابلے اور اس کے نتائج پر جوش نے اچھا تجزیہ پیش کیا ہے۔جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جوش نظریاتی طور پر پیپلز پارٹی کی حمایت کر رہے تھے۔
’’اگر ’’حاملِ کفر‘‘ پیپلز پارٹی ہار اور محملِ ایمان ‘‘ جماعتِ اسلامی جیت جاتی ، تو آپ جانتے ہیں کہ بے چارے پاکستان پر کیا آفت ٹوٹ پڑتی؟
حضورِ والا یہاں کے تمام بینک بند کر دیے جاتے، در آمد و بر آمد کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا، تسخیرِ ارض و سماوات اور تحقیقِ اسرارِ کائنات کے حوصلوں پر زندیقیت کی مہر لگ جاتی۔ فلسفے، منطق اور سائنس کے مکتب ڈھا دیے جاتے۔ اقوال ، اوہام اور اساطیر کی یونیورسٹیاں کھول دی جاتیں۔ عقل کی ناک جڑ سے کاٹ کر پھینک دی جاتی اور جنون کے ماتھے پر تاجِ زَر کج کر دیا جاتا ۔ قرآن کے مردودلفظِ عشق کی تاج پوشی کے جشن مائے جاتے، اور قرآن کے محبوب لفظِ فکر کی کھال کھینچ دی جاتی۔ کچوـداڑھیوں کے لم ڈگّے محتسب، ہر شام کو گلیوں کے چکر لگاتے اور اربابِ دانش کے منھ سونگھتے پھرتے۔
اْٹنگے پائے جامے پہنوائے جاتے ، شانوں پر چوخانوں کے رومال، ڈلوائے جاتے اور چہروں پر داڑھیاں اگوا دی جاتیں۔
جو بد بخت کسی حسین چہرے کی طرف، جان بوجھ کر، دوسری بار نگاہ اٹھاتا، دردناک عذاب میں گھر جاتا۔ اور اگر الھّڑ، ناز و ادا سے کمر لچکاتی، اس پر لعنت کی کمانیں کڑکنے لگتیں۔ اور، شاعری، موسیقی، مْصوری مجسمّہ سازی اور رقص کو حرام ٹھہرا دیا جاتا۔‘‘ ۲۶؎
دراصل یہ بات اس وقت کی ہے جب بنگلہ دیش پاکستان سے الگ نہیں ہوا تھا۔ اور یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ جماعتِ اسلامی بنگلہ دیشی جماعت کو لیڈ کر رہا تھا۔ جب بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا تو یہی جماعتِ اسلامی یہاں بھی اثر انداز ہونا چاہی۔ لیکن آج کی تاریخ میں انہیں کافی کمزورکر دیا گیا ہے۔
ایوب خان اور الطاف گوہر اور یحیٰ خان کی عوام مخالف پالیسیی اور مارشل لاء کے نام پر بے قصور عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی پر بھی کافی لعن تعن کی ہے۔بطور خاص ایوب خان کی حکومت میں جوش کے باغیانہ تیور جسے جوش حق گوئی سمجھتے تھے، کے باعث کافی مصیبتیں اٹھانی پڑیں۔ ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا، بیٹے کی سیمنٹ ایجنسی بند کر دی گئی ، اور بیٹی کے پیٹرول ٹینکوں میں پیٹرول بھرنے سے منع کر دیا گیا۔اگرچہ یحیی خان کے دور میں جوش کی مذکورہ تمام کام کو دوبارہ بحال کر دیا گیا اور ان کا پاسپورٹ بھی لوٹا دیا گیا لیکن جوش یحیی خان کی نا اہل قیادت اور ان کی ذاتی کمزوریوں کے باعث پاکستان کو متعدد نہج پر خصارے میں لے جانے کا موجب ٹھہراتے ہوئے صاف لفظوں میں لکھتے ہیں:
’’ جہاں تک مفاد عامہ کا تعلق ہے ان کا دور نہایت منحوس ثابت ہوا۔ وہ بادٔہ عنبر چکاں، اورانفاسِ گل رخاں میں اس قدر ڈوب گئے کہ پاکستان کا بیڑا غرق ہو کر رہ گیا، اور بنگال ہاتھ سے نکل گیا ۔‘‘ ۲۷؎
اور مارشل لا نافذ ہونے کے بعد عوام الناس کے لیے کیسی صورتِ حال پیدا ہو جاتی تھی اس کی ایک جھلک جوش کی زبانی سن لیجیے:
’’مارشل لاء قائم ہوتے ہی تمام کرنیلوں جرنیلوںنے مونچھیں کڑی کر لیں، غرور کے تاج پیشانیوں پر کج فرما لیے۔ جس سے ناخوش ہو گئے اس کو جیل میں ٹھنسوا دیا، جس نے جھک کر سلام نہیں کیا، اس کو الٹا لٹکوا دیا، کوڑوں سے اس کھال کھینچ لی۔ جس شریف کی بہو بیٹی پسند آ گئی ، اسے پکڑا بلایا اور لہو لہان کر دیا۔ اور پولس کا محکمہ قطعی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ ‘‘ ۲۸؎
جوش کو پاکستان آمد سے لے کر مرتے دم تک ادبی و سیاسی اعتبار سے بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مخالفت تحریری شکل میں بھی تھی اور تقریری شکل میں بھی۔ ان تمام باتوں کے اعتراف کے باوجود کچھ پاکستانی شخصیات کا ماننا ہے کہ جوش اگرچہ بادِ مخالف کے اکثر شکار رہے تاہم حکومت نے حتی الاالمکان ان کی سرپرستی کی ۔ اکبر حمیدی لکھتے ہیں:
’’مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہماری حکومت نے مخالفت کے اس طوفان کے باوجود جوش صاحب کی قدر دانی۔اعزازات اور مراعات بحال رکھیں۔ جس کے وہ ہر طرح حق دار تھے۔ اگر حکومت اس دا نش مندی اور قدر شناسی کا ثبوت نہ دیتی تو آج شرم سے ہمارے سر جھک گئے ہوتے۔‘‘ ۲۹؎
یہ سچ ہے جوش کو پاکستان میںبھی چند سیاسی افرد اور نوکرشاہوں کی ذات سے فائدے ضرور پہنچے لیکن جوش کو جس طرح پاکستان میں سیاسی تعصبات کا سامنا کرنا پڑا ، ایسے معاملات ہندوستان میںکم ہی پیش آئے۔ من جملہ طور پر یادوں کی برات میں جس قدر سیاسی مباحث کے گوشے موجود ہیں اس کا تعلق جوش کی ذاتی اور اجتماعی دونوں زندگیوں سے ہے۔ لیکن ہندوستان کے تعلق سے جوش کے قلم سے سیاسی مباحث کے ذیل میں تحریکِ آزادی اور تقسیم ِ ہند جیسے واقعات پرگفتگو نہ کرنا، نہرو اور اپنے سابقہ وطن ِ عزیز کے تئیں وفاداری کا ثبوت ہے۔ویسے جس نے جیتے جی کبھی ہندوستان کی برائی نہیں کی وہ دمِ مرگ کی تحریر میں یہ نمک حرامی کیسے کر سکتا تھا۔
حواشی:
۱۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،شالیمار آفسٹ پریس کوچہ چیلان۔۱۹۸۱ء، ص:۵۲۲
۲۔ ایضاََ:۲۷۰(حاشیہ)
۳۔ ایضاََ، ص۔۱۸۸
۴۔ ایضاََ، ص:۱۸۹
۵۔ ایضاََ، ص۔۱۸۹۔۱۹۰
۶۔ ایضاََ، ص۔۱۹۲
۷۔ ایضاََ، ص۔۱۹۴
۸۔ ایضاََ، ص۔۲۵۹
۹۔ ایضاََ، ص۔۲۲
۱۰۔ احمد عقیل روبی، یادوں کی برات، مشمولہ،جوش بانی۔۳، (مرتبین ،قمررئیس،اقبال حیدر) جوش، لٹریری سوسائٹی (انڈیا۔کنیڈا)،جنوری تا جون۲۰۰۹ء۔ص:۱۴۳
۱۱۔ نیا سفر(جوش ملیح آبادی خصوصی مطالعہ)، (دہلی)، سہہ ماہی،جلد۔۱، شمارہ ،۲، جون ۱۹۹۳ء،ص:۴۱
۱۲۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،شالیمار آفسٹ پریس کوچہ چیلان۔۱۹۸۱ء۔ ص:۲۰۸
۱۳۔ تابش دہلوی، جوش حیدرآباد دکن میں، مشمولہ افکار:بیادِ جوش،(کراچی)،مدیر صہبا لکھنوی،مکتبہ افکار رابسن روڈ،کراچی ،شمارہ،۱۴۸،۱۹۸۲ء۔ ص:۲۱۰
۱۴۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،شالیمار آفسٹ پریس کوچہ چیلان۔۱۹۸۱ء۔ ص:۲۲۵
۱۵۔ ایضاََ، ص:۲۲۷
۱۶۔ ماہرالقادری کے تبصرے،جلد اول،مرتب:طالب ہاشمی،مرکزی مکتبہ اسلامی،دہلی۔۱۹۹۱ء، ص:۲۰۷
۱۷۔ جوش اور حیدرآباد، سید دائود اشرف ، مشمولہ،جوش بانی۔۴، (مرتبین ،قمررئیس،اقبال حیدر) جوش، لٹریری سوسائٹی (انڈیا۔کنیڈا)،جنوری۔جون، ۲۰۱۰ء۔ص:۱۴۴۔۱۴۵
۱۸۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،شالیمار آفسٹ پریس کوچہ جیلان۔۱۹۸۱ء۔ ص:۵۱۴۔۵۱۵
۱۹۔ ایضاََ، ص:۲۷۴
۲۰۔ شبیر علی کاظمی، جوش ملیح آبادی:چند یادیں،مشمولہ افکار:بیادِ جوش،(کراچی)،مدیر صہبا لکھنوی،مکتبہ افکار رابسن روڈ،کراچی ،شمارہ،۱۴۸،۱۹۸۲ء۔ ص:۲۲۴
۲۱۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات،شالیمار آفسٹ پریس کوچہ چیلان۔۱۹۸۱ء۔ص:۱۸۴
۲۲۔ ایضاََ، ص۔۱۹۳
۲۳۔ ایضاََ، ص۔۲۳۹
۲۴۔ ایضاََ، ص۔۲۸۲
۲۵۔ ایضاََ، ص:۲۸۴۔۲۸۵
۲۶۔ ایضاََ، ص۔۷۳۵
۲۷۔ ایضاََ، ص۔۷۳۱
۲۸۔ ایضا، ص:۷۳۱
۲۹۔ اکبر حمیدی، برسوں رہیں گی یاد،مشمولہ افکار:بیادِ جوش،(کراچی)، مدیر صہبا لکھنوی، مکتبہ افکار رابسن روڈ،کراچی، شمارہ۔۱۴۸، ۱۹۸۲ء،۔ص:۲۳۵
٭٭٭٭
Sajid Ashraf
115/chandrabhaga hostel, jnu
new delhi-110067
9871762286
sajidalam30@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!