بانو قدسیہ:تہذیبی مرکز لاہور کی نمائندہ ناول نگار  

                                                Bano Qudsia:leading Novelist of “Tehzeebi markaz” Lahore   by:Iqbal Ahmad Shah,lecturer Urdu,Govt Post_Graduate college Kot Sultan(Pakistan)                                         

   اقبال احمد شاہ،

 استاد شعبہ اردو، 

 گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج

 کوٹ سلطان(پاکستان)

  Iqbalshah26@yahoo.com

+923457171761  

Abstract:

Bano Qudsia’s novels are an embodiment of the civilization of Lahore. Though, Raja Gidh brings-forth the distinction between “Halal” and “Haram”,yet it also highlights the features of the civilization of Lahore. Historical places, orchands, buildings, Movements and the color of  political, social and religious life of Lahore find an exquisite expression in Raja Gidh.Similarly,the dwindling values and traditions of Lahore are also have their sharein this novel.Similarly,Shehr-e-Lazawal,Abaad Wiranay is also an embodiment of the changing colors  the life of Lahore. Different colors’ of the primitive and modern life of Lahore can be witnessed in Qudsia’s novels.

بانو قدسیہ کے ناول لاہور کی تہذیب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔راجہ گدھ گرچہ حلال و حرام کا نظریہ پیش کرتا ہے لیکن یہ لاہور کی تہذیبی زندگی کے خدوخال اجاگر کرتا ہے۔لاہور کے مقامات،باغات،عمارتیں،تحریکات،سیاسی،سماجی اور مذہبی زندگی کے رنگ پوری طرح راجہ گدھ میں بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ لاہور کی دم توڑتی اقدار اور روایات کا نوحہ بھی اس ناول کا حصہ ہے۔اسی طرح “شہر لازوال آباد ویرانے”بھی لاہور کی تہذیب کے بدلتے رنگوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔بانو قدسیہ کی ناول نگاری میں لاہور کے قدیم اور جدید رنگ بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

کلیدی الفاظ:

راجہ گدھ۔۔۔۔۔حلال حرام کا نظریہ۔۔۔۔۔۔لاہور کی تہذیب کا عکس۔۔۔۔۔۔سیاسی،سماجی اور تہذیبی زندگی کے رنگ۔۔۔۔۔۔تحریکات،مقامات،عمارتیں۔۔۔۔۔۔۔دم توڑتی اقدار کا نوحہ۔۔۔۔۔شہرلازوال آباد ویرانے۔۔۔۔۔لاہور کی تہذیب کے بدلتے رنگ۔۔۔۔بانو قدسیہ،نمائندہ ناول نگار

با نو قدسیہ کا شمار اردوفکشن کے اہم لکھا ریوں میں ہوتا ہے ۔وہ اپنےمخصوص نظر یے،فکشن میں سائنسی علوم کے استعمال اور مختلف اصناف ادب کےفن پر دسترس کے باعث اپنی جدا پہچان اور شناخت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ با تو  قدسیہ کا ناول “راجہ گدھ”ایک ایسا شا ہکار ناول گردانا جا سکتا ہے جس کے ذریعےانہوں نے لاہورکی موجودہ دور کی سیاسی،سماجی اور تہذیبی زندگی کی بھرپور پیش کش کی ہے۔ “راجہ گدھ”بنیادی طور پرایک فکری نا ول ہےجس کے ذریعے با نو قدسیہ نے حلال حرام کا نظر یہ پیش کیا ہے ۔ “راجہ گدھ” ایسے فکری معنویت کےحامل عنوان میں ہی اس نا ول کا بنیادی تھیم پو شیدہ ہے۔مصنفہ نےیہ نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ جب قوم کے افراد انفرادی یا اجتماعی طور پر مذہب سے دور ہو کر رزق حرام کی طرف مائل ہو جا تےہیں،تو رزق حرام کا اثر ہم پر نہ سہی مگر ہماری آئندہ نسل میں ضرور ظاہر ہو تا ہے۔(1)

                با نو قدسیہ نے” راجہ گدھ “کی فضا اپنے مختلف نمائندہ کر داروں،پر و فیسرسہیل،آفتاب،قیوم،سیمی،عابدہ،روشن،افتخاراورامتل کےذریعےتخلیق کی ہے۔قیوم نمائندہ کر دار ہےجس کےسیمی،عابدہ اورامتل نا می طوائف کےساتھ جنسی تعلقات قائم ہو تے ہیں ۔ جب اس کی شادی روشن نا می لڑکی سے ہو تی ہےتو شادی کی اولین شب ہی اسے پتا چلتا ہےکہ روشن کے بطن میں کسی اور کا بچہ پل رہا ہے۔قیوم اسے طلا ق دے کر اس کی شادی اس کے محبوب افتخار سے کر ا دیتا ہے۔نا ول کے اختتام پر قیوم کی ملا قات آفتاب سےہوتی ہے۔جس کا بیٹاایب نا رمل ہےاورمافوق الفطرت با تیں کر تا ہے ۔ ڈاکٹرمشتاق احمد وانی اس نا ول کے حوالے سےلکھتے ہیں :

“با نو قدسیہ نے را جہ گدھ میں مختلف کر داروں

کے ذریعے پاکستانی معاشرے کی عکاسی کی ہے اور

ایک ایسے سماج کو موضوع بنا یا ہے جو ذہنی ، سماجی ،

مذہبی ، اخلاقی، تعلیمی، اور تہذیبی اعتبار سے بحران کا

 شکار ہے۔”(2)

                تہذیبی حوالے سے اس نا ول کے کردار لاہور میں موجود دکھائی دیتے ہے جہاں کی تہذیبی زندگی کے خدوخال بھر پور انداز میں پیش کئے گئے ہیں۔ با نو قدسیہ کو لاہور میں قیام کر نے کے حوالے سے یہ فو قیت حا صل ہے کہ وہ نہ صرف لاہور کی تہذیبی زندگی ، اس کے تشکیل عنا صر سے پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ وہ تہذیبی مرکز لاہور کی تہذیبی تشکیل میں بنیادی حوالہ بھی قرار دی جا سکتی ہیں ۔ اس حوالے سے اُن کی ذمہ داری دو ہری نو عیت کی قرار پاتی ہے کہ وہ تہذیبی مر کز لاہور کی تہذیبی زندگی کےخدوخال  کو نہ صرف سمجھیں بلکہ انہیں بھر پور انداز میں پیش  بھی کریں ۔ اورانپنے تمام ناولوں،خاص طور پر راجہ گدھ میں انہوں نے یہ ذمہ داری بھر پور اندا زمیں پوری کی ہے۔

                “راجہ گدھ “میں حالات و اقعات،کر داروں،نظریات اور کہانی کی رنگارنگ دنیا آباد ہے اور اس رنگارنگ دنیا میں لاہور کی تہذیبی زندگی کے خدوخال بھی بھر پور انداز میں نکھرتے نظر آتے ہیں۔”راجہ گدھ” کے فکری اور تہذیبی حوالے انتہائی مضبوط اور وا ضح ہیں ۔ فکری سطح پر دیکھا جا ئے تو با نو قدسیہ نے ایک واضع نقطہ نظر پیش کیا ہے۔حلال اور حرام کے حوالے سے ایک بھر پور تھیوری پیش کی گئی ہے اور اس تھیوری کے حق میں دلا ئل کا ایک انبار  بھی موجود دکھائی دیتا  ہے ۔ ڈاکٹر خالد اشرف لکھتے ہیں:

“راجہ گدھ مصنفہ کے اس مذہبی نظر یے کی دلالت

 کر تا ہے رزق حرام دیوانگی اور Maladjustman کا

 با عث بنتا ہے ۔ ناول میں پروفیسر سہیل اس نظر یے کا

 خالق ہے جو انسان کی غذا کو اس کے Gene-Mutaion

میں تبدیلی کا باعث قرار دیتا ہے۔”(3)

                اپنی نظر یاتی اورفکری پیش کش کےساتھ ساتھ راجہ گدھ تہذیبی زندگی کابھی مر قع قراردیاجاسکتاہے۔اور اس میں لا ہور کی تہذیب اپنے تمام تر رنگوں،رنگینیوں اور خوب صورتیوں کے ساتھ مو جود ہے ۔ لاہورکی تہذیب ہمیشہ ہی سے خوب صورتی کی حامل رہی ہے۔اس رنگارنگ تہذیب کی تشکیل  میں دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ یہاں کے مقامات کا خصوصی عمل دخل ہے ۔ لاہور کے چند مقامات ایسے ہیں جن کے ذکر کے بغیر لا ہور کی تہذیبی زندگی ہی مکمل ہو تی ہے اور نہ ہی اس کے خدو خال کوجا ناجا سکتا ہے۔ایسی ہی ایک جگہ انا ر کلی ہے جو لاہور کی پہچان اوراس کی سماجی اور تہذیبی زندگی کا بنیادی حوالہ ہے۔بانوقدسیہ انار کلی کی تعریف کچھ یوں کر تی ہیں:

“دن کے وقت انا ر کلی کا کچھ اور رنگ ہو تا ہے ۔ گاہکوں

کی سر گرمیاں ، دو کانداروں کی گرم جو شیاں اور بکاؤمال

کی وافر نمائش کچھ دیکھنے نہیں دیتی۔”(4)

                انار کلی کا ہجوم ، اس کے لوگ ، دوکاندار، خوانچہ فروش، گاہک، سب مل کر اس منظر کو خوب صورت بنا دیتے ہیں اور اس سے روشناس ہو نے والا ہر فرد اس کے سحر میں مبتلا دکھائی دیتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تمام چیزیں لا ہور کی تہذیبی زندگی کا بھی حصہ ہیں:

“ان کے کندھوں پر مکسڈ چائے کی پیا لیاں ، نان

چھولے ، کبابیا بوتلیں ہوتی ہیں ۔طرارے بھر تے

 لو گوں میں راستہ بنا تے وہ بھنورے سے نکل جا تے

ہیں پھر کا لج کے طالب علموں کی وہ ٹولیاں  بھی ہوتی

ہیں جو لڑکیا ں تاڑنے دوکانوں کےتھڑوں کے پاس

 کھڑے ہو تے  ہیں ۔ ان کی وجہ سے بھی انارکلی راستہ

 تنگ پڑجاتا ہے اور انارکلی کی تشکیل داتا دربار کے عرس

کی مانند ہو جاتی ہے۔”(5)

                لاہورخوب صورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔قدیم دور کی عمارتیں،خوب صورت باغات،بھرپورسماجی زندگی،پرہجوم بازار اور تعلیم و شعر و ادب کا بھرپور ماحول مل کر اس شہر کو خوب صورت بناتے ہیں۔اس شہر میں بہت سے باغات ہیں جس کے باعث لاہور کو باغوں کا شہر بھی کہا جا تا ہے ۔ اس شہر میں باغو اور پار کو ں کی کثرت ہے جو اس شہر کی تہذیبی زندگی میں بنیادی حوالہ ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ ان باغات کی تعمیر سے بھی تاریخ جھلکتی نظر آتی ہے ۔ ا نہی ان گنت باغوں میں ایک اہم باغ،با غ جنا ح ہے،جس کا قدیم نا م لا رنس گارڈن تھا۔اے۔حمیداس با غ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

“اس باغ کا پہلا نام لا رنس باغ ہو تا تھا ۔ یہ بھی لاہور

کا ایک پرانا اور جدید باغ ہے ۔ اس باغ کا ایک اپنا رومان ہے۔”(6)

                “راجہ گدھ” کہانی کے تانے بانے اس باغ سے ملتے ہیں ۔ کہانی کے بنیادی کر داروں،سیمی اور قیوم کا مسکن لا رنس گارڈن ہی ہوتا ہے ۔ اور اس باغ میں بنی ہو ئی مصنوعی پہاڑیاں انہیں اپنے دامن میں پناہ دیتی ہیں ۔ بانو قدسیہ نے اس نا ول میں باغ جنا ح کی بجائے لا رنس گارڈن کا نام ہی استعمال کیا ہے اور اس استعمال کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر بھی پوری طرح اس ناول میں ظاہر ہوتا ہے ۔ اُن کے نزدیک لا رنس کی بجائے باغ جنا ح کا نام عطا کر نا درحقیقت نئی نسل کو تاریخ سے روکنے کی سازش ہے اور اس طرح کی چیزوں کےزریعےسے تاریخ اور تہذیب کو ختم کیا جا رہا  ہے  جو کہ آنے والی نسل کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے ۔

“پتا نہیں لا رنس گارڈن کا نام بدل کر کیوں باغ جنا ح

کر دیا ؟ کچھ شہر والوں کی صلاح سے ملکہ و کٹور یہ کا بت

اٹھوایا جا چکا تھا ۔ یار لو گوں نے سڑک کے نام اسلامی

کر دیے ہیں ۔ پرانے شہر کو نئے ناموںسے نواز دیا ۔ تا کہ

پچھلی تاریخ کا نام نہ رہے ۔نئی نسل پر انے مظالم کا نشاں نہ

 دیکھ سکےاس طرح بچے تاریخ سے کٹے رہیں اور روایت کا

 حصہ نہ بن سکیں،”(7)

                مال روڈ کو لاہور کی تہذیبی و سماجی زندگی میں خاص اہمیت حاصل ہے قدیم تاریخ کی حامل اس سڑک کو مخص ایک سٹرک کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی ۔ اپنے ریستورانوں ، جدید طرز تعمیر ، خوب صورت عمارات اور سر سبز با غات کے باعث ایک طرف جہاں یہ لاہور کی جدید شہری زندگی کو ظاہر کر تی ہے ، وہیں پر یہ سڑک زمانہ قدیم سے موجودہ دور تک ادبی و سیاسی سر گرمیوں  کا مرکز رہی ہے ۔ خاص طور پر موجودہ دور میں تو ہر طرح کی سیاسی ریلیاں ، دھرنے ، احتجاج اور جلسے اسی روڈ پر منعقد کیے جا تےہیں  ۔ با نو قدسیہ کے نزدیک اس ناول میں بھی مال روڈ خاص اہمیت حاصل ہے ۔مال روڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں:

“دن کے وقت مال کی شکل کچھ اور ہوتی ہے ۔ لیکن

 اس وقت عماریں بہت گرانڈیل ، سٹرکیں کشادہ ، اور

بتیاں بہت زیادہ روشن تھیں ۔ اکاد کا ریں آجا رہی تھیں

پوسٹ آفس کی گلابی عمارت سے نکل کر کر شن نگر کے

سٹاپ تک صرف بتیاں پلکیں کھولے کھڑی تھیں۔”(8)

                طوائف کو ہندوستان کی تہذیبی زندگی میں خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اور اسے ہردور میں بادشاہوں اور  امراءکے درباروں میں خاص اہمیت حاصل رہی ہے ۔خاص طور پر مغلوں کے دور حکومت میں طوائفوں کو شاہی در بار تک رسائی حاصل تھی اور ان کی حیثیت محض دل بہلا نے یا نا چ گانے تک ہی محدود نہ تھی بلکہ اُن کا  کو ٹھا تہذیب و ثقافت کا گہوارہ سمجھا جا تا تھا اور اس کی حیثیت تفریح گا ہ سے زیادہ تر بیت گاہ کی تھی۔

“وہ اشرافیہ کوفنون لطیفہ یعنی مو سیقی، شاعری اور رقص میں اپنی

کا ملیت اور دستگاہ کی بدولت تفریح کا سامان فراہم کرتیں۔”(9)

                لا ہور کی ہیرا منڈی بھی اسی تاریخی پس منظر کی حامل ہے ۔ لاہور کی تہذیبی و ثقافتی زندگی میں اسے خاص مقام حاصل ہے ۔ لاہور کی ہیرا منڈی محض تفریح گاہ ہی نہیں بلکہ لاہور میں مو سیقی کی تاریخ میں اسے نمایا ں مقام حاصل ہے اور اس نے فلم انڈ سٹری  کو نامورگلو کا رائیں  اور ادار کا رائیں  فراہم کی ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کی جگہوں کا دوسرا پہلو خا صا تا ریک ہے ۔ ان جگہوں  کو بنیادی طور پر خواہشات اور آرزوؤں کی قربان  گاہ کا درجہ حاصل ہے ۔ یہاں خواب اور مجبور یاں بکتی ہیں اور آرزوؤں کے ساتھ ساتھ جوانیاں قربان ہو تی ہیں ۔یہاں کی پرپیچ اور تنگ و تاریک گلیوں میں تاریخ کے کئی راز دفن ہیں۔ساتھ ہی ساتھ ان گلیوں،تاریک سیڑھیوں،پرانے بدبودار گھروں اوروقتی طور پر سجائی گئی محفلوں میں کئی جوانیاں اور خواب کاغز کے چند ٹکڑوں کے عوض قربان ہو کر ہماری نام نہاد شرافت اور پکیزگی کا مذاق اڑاتی دکھائی دیتی ہیں۔بانو قدسیہ  اس کی منظر کشی کچھ اس طرح سے کرتی ہیں:

“جا لی دار دروازے اور بو سید ہ کھڑکیاں اس وقت سختی

سےبند تھیں ۔ رات کو یہاں سے موسیقی کی آواز ،

گھنگھروںکی جھنکار نکلتی ہو گی۔ اس وقت ان مکانوں کے

پٹ کھلتے تو کھا نستے ہوئے بڈھے ، پان کھاتی ادھ کھائے

 امرود جیسی عورتیں اور مٹھیوں میں پیسے بھینچے بچے باہر نکلتے۔”(10)

                با نو قدیسہ نے اس ناول میں جہاں لا ہور کی تہذیبی زندگی کے عکس پیش کئے ہیں ،وہیں پر لاہور میں دم توڑ تی ادبی روائتوں  کا نو حہ پیش کر نے کی بھی کو شش کی ہے ۔ لاہور  ہر دور سے ہی شعرو ادب کا مرکز رہا ہے جو اپنی جدت اور جدا گانہ طرز بیاں کے باعث ہندوستان بھر کے شعرو ادب میں نما یا ں رتبے کا حامل سمجھا جا تا رہا ہے ۔ پھر لا ہور سے نکلنے والے ادبی ر سائل کی بر صغیر میں خاص  اہمیت تھی ۔ ان رسائل و جرائدکے اجراء نے شعرو ادب کے فروغ میں نمایا ں کر دار ادا کیا ۔ ساتھ ہی ساتھ ان رسائل کے ذریعے اردو ادب کو فکری سطح پر بھی بہت کچھ ملا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بے پناہ ترقی اور مادہ پر ستی نے لاہور شہر کی زندگی کو آلودہ کر دیا ۔ وقت نے اس کی تہذیبی شناخت  کو مسخ کر نے کے ساتھ ساتھ ان رسائل و جرا ئد کو بھی نگل لیا ۔بانوقدسیہ ان کا بھی نو حہ پیش کر تی ہیں:

“یہاں سے کبھی رسالہ ہمایوں نکلتا تھا ۔ ہمایوں رسالہ ،او دھ پنچ ؟

ادبی دنیا ـــ۔۔یہ سب کہا ں تھے ؟ ان کے خالق کہا ں تھے۔”(11)

                راجہ گدھ اپنے موضو ع ، اسلوب بیان ، زبان ، واقعات اور نظریات کے باعث منفرد قسم کا ناول ہے ۔ مصنفہ کو ناول کے فن اور پلاٹ پر مکمل گرفت حاصل ہے۔اسی گرفت کے باعث انہوں نے اپنا نقطہ نظر کہانی کی صورت میں بیان کیا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ناول لاہور کی تہذیبی زندگی کا عکاس ہے ۔ بانو قدسیہ کو لاہور کی تہذیب سے مکمل آگاہی حاصل ہے ۔ انہوں نے کہانی کی صورت میں لاہور کی تہذیبی زندگی  کے مر قعے پیش کئے ہیں ۔ لاہور کی تہذیبی کی پیش کش کے حوالے سےیہ ناول کا فی اہم قراد دیا جا سکتا ہے۔

                “شہر لا زوال آباد ویرانے ” با نو قدسیہ کا ایساناول ہے جو2012ء میں شائع ہوا ۔ اس طویل نا ول میں با نو قدسیہ نے بنیادی طور پر سیاسی اور صوفیانہ نظریات کو مو ضو ع بنا یا ہے لیکن اس کے تخلیقی پس منظر   میں لاہور شہر کار فر ما ہے ۔ نا ول کی ابتداء میں ہی اُن کی وضاحت پڑھ کر اس ناول کی پوری تھیم وا ضع ہو جاتی ہے ۔

“اس نا دل کی تھیم یہ ہےکہ لا ہور شہر جو بےپناہ نا

 پاک لو گوں سے آبادہے ، کیسے ابھی تک آباد ہے ۔

 غا لبا ً کچھ اللہ کے بھگت اس دھرتی پر آباد ہیں جو اس

 کے لیے دُعا گو ہیں۔”(12)

                حالیہ دور میں لاہور شہر نے تمدنی سطح پر بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ لو گوں کے اژ دھا م کے با عث لاہور میں آبادی میں بے پناہ اضافہ ہُوا ہے جس کا سب سے بڑاسبب آباد کاری ہے ۔ پھر صنعتی سطح  پر ترقی کے باعث مادی سطح پر بھی لا ہورمیں بےپناہ ترقی  دیکھنے میں آئی ہے ۔ اس چیز کا اثر لا ہور کی تمدنی ، تہذیبی اور ثقافتی زندگی پر بھی بڑا ۔نتیجتاً لاہور شہر کے ارد گرد بےپناہ نئی کا لونیاں  آباد ہو ئیں جو اب لا ہور کا ہی حصہ ہیں ۔ اپنی کا لو نیوں میں گلبرگ بھی شامل ہے جیسے لاہور کے جدید معاشرے کی علامت اور اسٹیٹس کو کا درجہ حاصل ہے ۔ با نو قدسیہ کے کر دار بھی اسی معاشرے کے پرو دہ ہیں ۔

“با لا خانے کے شیشوں کے سامنے گلبرگ کی مین

سڑک نظر آرہی تھی ۔ ہوم اکنا مکس کالج کو چھٹی

ہو نے والی تھی۔ ان گنت کا ریں اس کے سامنے

 کھڑی تھیں اور اکار دکا لڑکیا ں کھلے فیلپر اور لمبے

 سید ھے با ل کندھوں پر بکھرائے پھا ٹک کی جانب

آ نے لگی تھیں۔”(13)

                جدید دور میں ہونے والی اس ترقی نے تہذیبی سطح پر بہت زیادہ اثرات مر تب کئے اور معا شرے  کے پورے نظام کو بدل کر رکھ دیا ۔ خاص طور پر سٹیٹس کو کے چکر نے سماجی سطح پر اثرات مرتب کئے اور اس کے باعث فرد کو تنہائی ملی ۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے باعث خاندانی نظام ٹوٹ گئے جو بذات خود دکھ کی بات ہے۔ اس چکر میں انسان دوسرے انسانوں سے،ان کے دکھ سکھ سے اور خوشی و غم سے دور ہوکرتنہائی کا شکار ہوا۔

“ہم سارے کزن اور ہمارے بزرگ بھگوان

سٹریٹ میں رہا رکر تے تھے۔ خاندان کی شکل

 ایک ٹہنی کی سی تھی جس میں چھوٹے  بڑے

پتے لگے تھے ۔ اب صرف امین کا چھوٹا سا گھر اس

 گلی میں رہ گیا تھا ۔ باقی گھروں کی صرف یا دیں تھیں۔”(14)

                اس طرح کی در پیش صورت حال میں مصنفہ کا رویہ خا صا نا سٹلجیائی ہو جا تا ہے ۔ وہ ماضی کے اس گزرے وقت کو یاد کر تی ہیں جس نے لوٹ کر نہیں آنا۔یہ یادمحض ایک وقت تک ہی محدودنہیں بلکہ ایک تہذیب کی یادہے۔ با نو قدسیہ کے ہاں اس کھو ئی ہوئی تہذیب کویاد کر نےکارحجان ایک کسک بن کر سامنے آتا ہے ۔

“ان دنو ں نہر کے پارا جا ڑ تھا ۔ مال روڈ پر تانگے

چلتے تھے ۔ خاندانی لوگ رئیسی تانگوں میں شام کے

 وقت نہر کے  ساتھ ساتھ ہوا خوری کو نکلتے ۔۔۔ فلم

 دیکھنا تفریح کی انتہاتھی ۔۔۔نو جوان تعلیم یافتہ کا فی

 ہا ؤ س میں جاتے اور روسی لٹر یچر سے شغف رکھتے۔”(15)

                با نو قدسیہ کی نا ول نگاری کا جائزہ لیا جا ئے تو ان کی قدرو قیمت اردو ناول نگاری کی تاریخ میں بہت زیادہ ہے ۔ وہ اپنا ایک واضع نقطہ نظر اور نظر یہ رکھتی ہیں ۔ لیکن نظر یے کا پر چار کہانی اور ناول کے فنی لواز مات کو متاثر نہیں کر تا ۔ ساتھ ہی ساتھ نظر یہ  بو جھل بھی محسوس نہیں ہوتا ۔ اس چیز سے اُن کی نا ول نگاری کے فن پر مکمل  مہارت ظاہر ہو تی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ لاہور کی تہذیبی زندگی کے بیان میں بھی بانو قدسیہ کو ملکہ حاصل ہے۔ان کے نا ولوں میں لاہور کی تہذیبی زندگی کی رعنا ئیاں اور جلوے محسوس کئے جا سکتے ہیں ۔ان کے ناولوں میں جس دور کی تہذیب کو پیش کیا گیا ہےوہ دورتقسیم کے بعد کا نہیں بلکہ جدید دور ہے۔اس دور کےلوگ باشعور ہیں اور ان کےاس شعور کو بانو قدسیہ نے اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔

حوالہ جات

1۔با نو قدسیہ، “راجہ گدھ”، لاہور :سنگ میل پبلی کیشنز،2005ء

2۔مشتاق احمد وانی ، ڈاکٹر ، “تقسیم ہند کے بعد ارو ناول میں تہذیبی بحران”،دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،2002ء،ص281

3۔خالد اشرف ، ڈاکٹر ، ” برصغیر میں اردو ناول “،دہلی:ایجوکیشنل پبلشہگ ہاؤس،1994ء،ص 381

4۔با نو قدسیہ ، “راجہ گدھ”،ص103

5۔ایضاً،ص104

6۔اے حمید، “لاہور کی یادیں “،لاہور:سنگ میل،2010ء،ص 161

7۔با نو قدسیہ ، “راجہ گد ھ “،                ص123

8۔ایضاً ،ص14

9۔پران نیوائل ، “ہیرا منڈی کے جلوے”،مشمولہ، “لاہور” مرتبہ،یا سر جواد، لاہور: فکشن ہاؤس،2011ء ،ص72

10۔با نو قدسیہ ، “راجہ گدھ “، ص388

11۔ایضاً ،ص 168

12۔با نو قد سیہ ، ” شہر لا زوال آباد ویرانے” ، لاہور : سنگ میل پیلی کیشنز،2012ء ،

13۔ایضاً ،               ص 8

14۔ایضاً ،               ص 63

15۔ایضاً ،               ص205

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.