مابعد جدید غزل کے موضوعات
مامون عبدالعزیز
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی)
غزل کا بنیادی موضوع حسن وعشق کی باتیں کرنا ہے ۔واردات قلبی کا اظہار اس کا خاصہ ہے ، ابتدائی دورکی غزلوں میں معاملات عشق ، عاشق ، معاشوق اور رقیب کا ذکر کثرت سے ملتا ہے ۔ آہستہ آہستہ اس میں پندو موعظمت تصوف و فلسفہ کی عظیم روایت قائم ہوتی گئی۔غزل کے انفرادی پہلو اجتماعیت کی صورت اختیار کرنے لگے اور میر نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا ۔میر ؔسے غالب تک کے حد میں غزل اپنی کلاسیکی روایت پر قائم رہی یعنی عشقیہ کیفیات کی مختلف جہیں بیان کی جاتی ر ہی لیکن ۱۸۵۷ کے بعد اس کے موضوعات تبدیل ہو گئے ۔حالی نے اس پر قدغن لگا اور سادگی اصلیت اور جوش کی بنیاد پر اسے حقیقی زندگی کا ترجمان بنایا اور اس سے قوم کو بیدار کرنے کے لیے انقلابی روح پھونکی جس کے بعد اس کے موضوعات تبدیل ہونے لگے۔ذہنی وفکر ی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ۔چنانچہ۱۸۵۷کے بعد غزل میں سیاسی و سماجی مسائل کی عکاسی کی جانے لگی۔حتیٰ کہ غالب نے عشق کو فلسفیانہ نظر سے دیکھا ۔اس کے بعد یہ روایت قائم ہو گئی جس میں تصوف و فلسفہ کو موضوع بنایا جانے لگا ۔غالب کا آخری دور ہی جدید غزل کا آغاز ہے غالب نے غزل کو فکر وخیال کی گہرائی عطا کی ۔اس کے بعد یہ اثر فانی وار اصغر کے یہاں دکھائی دیتا ہے چونکہ حالی نے غزل کی اصلاح کے ذریعے شعرا کو جدید موضوعات سے باخبر کردیا تھا۔ حالی نے شاعری کاجو اصول مرتب کیا تھا اقبال نے اسے خوب فائدہ اٹھایا بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اس میں فکر و خیال کی نئی روح پھونکی جس میں خودی کی شناخت اور عظمت رفتہ کی یاد اور ملت اسلامیہ کی شیزہ بندی کا پیغام تھا ۔حالی نے جس چیز کی شکایت کی تھی اقبال نے اسے پورا کر دکھایا لیکن جدید غزل کی تشکیل نو اور اس کی احیا میں فانی، اصغر، حسرت اور جگر کو نمایاں مقام حاصل ہوا ان لوگوں نے غزل میں داخلی کیفیات اور واردات قلبی کا اظہار کیا ۔فراق اور چکبت نے زندگی کے بنیادی حقائق کو بیان کیا جس میں سیاسی و سماجی مسائل کی عکاسی کی گئی تھی ۔اس کے بعد ترقی پسند تحریک کے زیر اثر غزل کو انقلاب زمانہ کا حصہ بنا دیا گیااور اس میں انقلاب زندہ باد کے نعرے ، تحریک آزادی کی گونج ، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بلند ہوتی ہوئی آوازحب الوطنی کے گیت اشتراکی نظام کی عکاسی ، مارکسی نظریہ، اجتماعی مسائل، مزدوروں کی نمائندگی ،عورتوں کے حقوق ، نوآبادیاتی نظام کے اثرات اس میں دکھائی دینے لگتے ہیں۔اس دور میں مجاز، جذبی، فیض ،فراق ، مخدوم محی الدین وغیرہ نے اس خیال کی کھل کر نمائندگی اور غزل کو نئے موضوعات سے روشناس کرایا۔جدیدیت کے تحت اس میں داخلی کیفیات کا بیان ہونے لگا ۔جس میں انسان کی تنہائی فرار، ذہنی الجھن ، بے روزگاری، جنسی مسائل ،تقسیم کے اثرات ، نئی بستیوں کی تلاش شہری مسائل ،اداسی، فرسٹریشن وغیرہ کا ذکر کیا جانے لگا جدیدیت نے جن موضوعات کو اختیار کیا اس کا بنیادی مقصدانسانی وجود کا احاطہ تھا ۔
جدیدت کے بعد حالات میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی اور ۱۹۸۰کے بعد سے اب تک کے شعرا نے مختلف موضوعات کا احاطہ کیا ۔ مابعد جدیدیت نے ان موضوعات کو بیان کرنا شروع کیا جو جدیدیت کے علاوہ ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ ما بعد جدید غزل گو میں نمایا ںکرادارادا کرنے والوں میںاسعد بدایونی، فرحت احساس، جاویدقمر، قاسم امام ، عشرت ظفر، طارق نعیم، عباس تابش، راشد طراز ، شجاع خاور، عنبربہرائچی، اسلم محمود، منظور ہاشمی، اظہار عابدہ ،عبدالاحد ساز ، خالد عبادی، عین تابش، شین کا ف نظام، شارق کیفی، عذرا پروین ، کشور نابید، زہرا نگاہ، عالم خورشید ، مہتاب حیدر نقوی، عشرت ظفر ، اظہر عثمانی، طارق متین، راشد انور راشد، سراج اجملی، شہاب الدین ثاقب، آشفتہ چنگیزی، جمال اویسی، رسول ساقی، ابراہیم شک، ظہیر رحمتی،شارق عدیل،نعمان شوق، احمدمحفوظ وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ان کے علاوہ اوربہت سے نام ہو سکتے ہیں جن کے یہاں جدید موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے لیکن طوالت کی وجہ سے بہت سے نام حذف دیئے گئے ہیں۔اصل مدعا یہاں موضوعات کا احاطہ کرنا ہے ۔مابعد جدید صورت حال کے بنیادی پہلوئوں میں لامرکز یت کو اولیت کا درجہ حاصل ہے اس نے جدیدیت کے اس نظرئے کو چیلنج کیا جس میں انسانی ذات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اس نظریے سے انحراف کرکے انسانی وجود کا رشتہ سماج، معاشرت، تہذیب و ثقافت سے جوڑا ۔ جدید معاشرے کی تبدیلی، نئے معاشرے کا مزاج، ذہنی مسائل ، معاشرتی و ثقافتی فضا، کلچر کی تبدیلی، مشینی اشیاکااستعمال، سائنسی ایجادات، اسلحے کا بے جاخریدوفروخت ، برقیاتی اور تکنیکی اشیاء کے ذریعے پیدا ہونے والے مسائل ، میڈیا کی ضرورت، اشتہاربازی، صارفیت، (CONSUMERISM) ، کمپیوٹر کا مثبت ومنفی رویہ، علمی ذخیرہ اندوزی سے پیدا ہونے والے مسائل، مختلف کاموں کے لیے الگ الگ پروگرام وضع کرنا، ان کی صنعتی پیداوار، مصنوعی مشینی زبان ، پیشہ وارانہ تعلیم اور پیشہ وارانہ زندگی نے کائنات کو بازار کی صورت عطا کردیاہے۔ یہاں ہر چیز خریدی اور بیچی جاسکتی ہے۔فنون لطیفہ ، علم وادب کا کمرشیل ہونا، علم کی محکومیت، الکٹرانک میڈیا کی یلغار سے پوری دنیازیروزبر ہو رہی ہے ۔ ہندوستان میں کشمیر کا مسئلہ ،تقسیم کا بحران ،بابری مسجد کا انہدام ، بمبئی بم دھماکہ ، گجرات فسادات، قبائلی علاقوںکے مسائل ، بڑھتی ہوئی آبادی، روپئے کی گرتی شرح، بے روزگاری، سیاسی چمک، ہندومسلم کا تفریق، سمجھوتہ ایکسریس بم دھماکہ ، مہاجروں کے مسائل ، شناخت کا مسئلہ وغیرہ۔مذکورہ مسائل اور مضمرات کے تحت مابعد جدیدشعری رجحان وجود میں آیا ۔مسائل کے اس انبار میں یکے بعد دیگرے بہت سے داخلی اور خارجی مسائل پیدا ہوتے گئے مابعد جدید شاعری کے موضوعات کے حوالے سے وہاب اشرفی لکھتے ہیں:
’’ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شعر یات کے لیے مباحث نئی تھیوری سے ابھرے ہیں جس میں لسانی پہلوؤں کا احاطہ غیر معمولی انداز اختیار کر چکا ہے ۔نہ تو ترقی پسند شعریات میں ایسا کچھ تھا اورنہ ہی جدیدیت میں ۔ اس کے بعد کی صورت بہت پیچیدہ ہو چکی ہے ۔اگر ہم جدید ترین شعریات کے اساسی او ربنیادی لسنانی افکار کا جائزہ لیں تو معمولی سی بات بھی گہرائیوں میں اتر کر نئی معلومات سے لیس ہونے کی طرف راغب کرے گی اور زیادہ گفتگو متن اور متون کی سطح پر ہوگی اور محسوسات ، خیالات اور افکار کی بھی اپنی اہمیت ہوگی۔یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے مابعد جدیدیت کے باب میں غلط فہمیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اس کے دوسرے بہت نمایاںنکات بھی پس پست چلے جاتے ہیں یا ڈال دئیے جاتے ہیں۔لیکن نئی شعریات کس طرح ایک بار ہمیںاپنی جڑوں سے وابستہ کرنے ،اپنی تہذیب اور ثقافت کا امین اور محافظ بننے ، اپنی علاقائی بولی ٹھولی اور دوسری روایتوں کا تجاوز کرنے ، اعتقادات کے اختلاف کو برداشت کرنے ،رنگ و نسل کی نبیاد پر مصنوعی درجات کو ختم کرنے ، اپنی ذات میں گم ہوکر ذہنی پژمردگی اور قنوطیت کے خلاف صف آرا ہو کر مثبت انداز زندگی اختیار کرنے اور اجتماعی راہ و رسم بڑھانے اور منجمد سچائیوں سے ٹکرانے اور ان کے متنوع اور بدلتے ہوئے پہلوؤں پر نگاہ رکھنے کی تلقین کرتی ہے ۔یہ سارے امور ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں اور ہم تکنیکی مباحث میں الجھ کر جدید ترین شعریات کے کھلے ہوئے مثبت پہلوؤں سے بے خبر رہتے ہیں ۔میرا اپنا خیال ہے کہ مابعد جدیدیت کی کوئی شعریات ہے تو اس کی تعبیر زندگی اور اس کے اثبات سے ہوتی ہے اور اس فکر کا کوئی رد ممکن نہیں۔‘‘
ما بعد جدیدیت ،مضمرات و ممکنات، وہاب اشرفی ، ص ۔۱۷۷،۱۷۶
وہاب اشرفی نے جن نکات کی جانب سے توجہ مبذول کرائی ہے وہ انسان کی تہذیبی شناخت ہے ساتھ ہی ساتھ جدید مسائل کے چیلنجزکو قبول کرنے کی اجتماعی کوشش کو بھی ابھارا ہے اس میں یہ بات یہ بھی نکل کر سامنے آتی ہے کہ جدید مسائل میں گھرے ہونے کے باوجود زندگی کوکس طرح حسین و جمیل بنا جاسکتا ہے نیز یہ کہ مسائل کو مسئلہ نہ سمجھ کر اسے زندگی کا ایک حصہ تسلیم کر لیا جائے اور اس طرح انسان اپنے آپ کو خوش رکھ سکتا ہے ۔
مابعد جدیدیت کے تحت جو موضوعات نموپزیر ہوئے ان میں خارجی حقیقت سے حاصل ہونے والے تجربات و مشاہدات ہیں کیونکہ یہ عہد مابعد جدید کے ساتھ ساتھ ما بعد سچ کا بھی بیانیہ ہے ۔اس بیانئے میں لسانی اظہار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اس نے معروضی صداقت کے تصور پر بھی سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ لسانی اظہارکے تصور سے ہی متن کی اولیت ثابت ہوتی ہے۔ ایسا متن جو ماقبل کے کسی نہ کسی متن کی تفہیم و تجزیہ کرتی ہو،ماقبل کے متن سے مراد قدیم قصے کہانیاں ، داستانیں ، دیومالاتی اور اساطیری فن پارے ہیں۔ مابعد جدیدیت نے دیومالائی عناصر کے ذریعے انسانی زندگی کو تہذیب و ثقافت سے جوڑا اور اس طرح جو شاعری وجود میں آئی اس میں اساطیری پہلو بھی دکھائی دینے لگے مابعد جدیدیت نے زمان ومکاں کے حدود کو توڑ کر نئی قدریں بحال کیا اور قدیم شاعری جودکن میں موجود تھی اس کی از سر ے نو تفہیم کی اور ہند و مسلمان کو ثقافتی بندھن میں باندھنے کی کوشش کی، شمالی ہند میں بھی جو قدیم شاعری موجود تھی اس کی بازیافت کی گئی اور ما بعدجدید تصورات کی بنیاد پر اسے نئے معنی پہنائے گئے۔حاتم ، ابرو، میر ، مصحفی، جلال ، ناظر ، مرزا شوق، میر حسن سودا، درد ، غالب ذوق وغیرہ کے کلام کا مطالعہ کیا گیا اور مابعد جدید معنی کے دریا بہائے گئے مابعد جدیدیت کے تحت جو غزلیں لکھی گئی اس میں درجہ ذیل موضوعات نظر آتے ہیں ۔
۱۔ بے اطمنانی، بے چینی ، بے یقینی
۲۔ انسان دوستی ، اخوت و محبت کے دعوے وقت کے مطابق تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔
۳۔ حالات و اخلاقیات کی تنگ نظری
۴۔ نہ ہی کسی رجحان اور نہ ہی کسی ازم کا بیان ، نہ کوئی تحیکم اور نہ ہی کوئی مینی فیسٹو
۵۔ تہذیبی فکر کی بازیافت
۶۔ سچویشنل کیفیات کا اظہار ، اسٹائل ، عادات واطوار، فیشن اور شناخت غیرہ
۷۔ کھلے اور آزاد تحلیل کی پرواز
۸۔ ذاتی او رغیر ذاتی بیانئے کا اظہار
۹۔ تشبیہات و استعارات کو محض طفنِ طبع کے طور پر استعمال کرنا۔
۱۰۔ سائنسی ایجادات کے تجرباتی نتائج
۱۱۔ کلی حقیقت کا ادراک
۱۲۔ جذبات اور احساسات کے ختم ہوتی صورتوں کے حوالے سے سید محمد عقیل لکھتے ہیں:
’’نیا غزل گو، حقیقتوں کو نہ تو خالص جذبات کے حوالے کرتا ہے اور نہ ہی انہیں علامتوں کے پردوں میں چھپا رہا ہے بلکہ اس کا رد عمل ایک لاتعلق انسان کا سا ہے ۔زندگی کے رویوں کے ساتھ اس کا برتاؤبالکل راست ہے ۔ اسے وابستگی اور ناوابستگی بھی پریشان نہیں کرتیں وہ خالص تجربہ پسند (Emprisist) بھی نہیں اور نہ ہی اندھا مقلد‘‘
(ادب کا بدلتا منظرنامہ: اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ،گوپی چند نارنگ،ص ۔۱۶۴)
۱۳۔ نئی غزل میں نہ تو جوش ہے نہ ولولہ انگیزی بلکہ وہ سادہ بیانی کے ذریعے بیان ہوتی ہے
۱۴۔ معدوم ہوتی قدروں کی بحالی
۱۵۔ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل تک کا سفر
۱۶۔ نئی زندگی، نئی حسرتوں اور ن نئی تعبیروں کا اظہار
۱۷۔ نئی تشبیہات و استعارات کا تراکیب میں ندرت اور تازگی پیدا کیا گیا ۔
۱۸۔ قدیم تلمیحات و اساطیری عناصر کی بازیافت
پروفیسر شہپر رسول اپنے ایک مضمون ’’ما بعد جدید غزل یا نئی غزل‘‘ لکھتے ہیں:
’’۱۹۶۰ کے بعد کی غزل نے روایت سے بغاوت کا فرض انجام دیا تھا۔ ۱۹۸۰ سے بعدکی غزل یعنی مابعد جدید غزل نے جہاں زندگی کی نئی وسعتوں کو سر کیا، وہیںزبان و بیان کے توسط سے روایت کی معنی خیز گہرائیوں میں اپنی جڑیں تلاش کیں۔ما بعد جدید شعرا نے زبان کے مجازی اور تخلیقی اظہار کی نئی سمت و رفتار کے ساتھ ساتھ بارہااستعمال کیے ہوئے الفاظ کو بھی نئی اور بھر پور تخلیقی توانائی اورندرت کے ساتھ برت کر اظہار و معنی کی نئی سمتوں اور سطحوں سے غزل کو روشن کرایا۔غیر اطمنان بخش معاشرے اور نئے حالات کے جبر کو قبول کرتے ہوئے ماضی قریب اور ماضی بعید کو آج کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے حال و ماضی سے استعارے، پیکر اورجدید تلمیحات اخذ کیں۔نیز نئے اور پرانے کا ایک حیرت خیز ،طلسماتی، خوشگوار اور تازگی سے بھر پور لسانی اظہار کیا۔اس کے علاوہ نئی شعری زبان کو مزید معنوی و سعت ، حسن اور نئے لسانی زاویوں سے مزین کرنے اور مزید تخلیقی سطح پر برتنے کے ضمن میں کبھی اضافتوں سے روگردانی کا عمل سامنے آیا تو کبھی طول طویل تراکیب اور کئی کئی اضافتوں کے ا ستعمال کے ذریعے روانی ، چستی اور موسیقیت پیدا کی گئی۔‘‘
(ادب کا بدلتا منظرنامہ: اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ،گوپی چند نارنگ،ص ۔۱۸۸۔۱۸۹)
اس طرح کے صورت حال کے پیش نظر شعرا کی بہت بڑی تعداد اپنے مخصوص تخلیقی روئیے کونہ صرف تبدیل کیا بلکہ نئی صورت ِ حال کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا اور پوری قوت کے ساتھ اپنا تخلیقی وفور کھول دیا جس میں زندگی کے تمام ہی موضوعات شامل ہوتے گئے۔اس کے علاوہ انھوں نے اپنی انفرادی شناخت بھی قائم رکھی ۔
سیاسی سماجی وتہذیبی سروکار:
ادب سماج کا آئینہ ہے اور وہی ادب زیادہ دیر تک قائم و دائم رہتا ہے جو اپنی تہذیبی جڑوں سے وابستہ ہوتا ہے۔اد یب سماج ہی سے خام مواد حاصل کرتا ہے ۔ادیبوں کی یہ مجبوری بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے زمانے سے مطمئن نہ ہوںبلکہ ایک نئی دنیاکی دریافت کی خاطر ہمہ تن گوش رہتے ہیں ۔وہ اسی سماج کا ایک فرد ہوتا ہے ، وہ ا ن تمام مسائل ،دکھ درد کو بہت جلد محسوس کرلیتا ہے جو عوام بہت دیر میں محسوس کرتی ہے۔اس لیے وہ عوام کو باخبر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ زمانہ ان کے لیے ناگریز ہو گیا ہے اور اب ایسے حالات پیدا ہونے والے ہیں جو انسانوں کو مصیبت میں ڈالیں دیںگے ۔ وہی ادیب دیر تک زندہ رہتا ہے جو عوام تک آنے والی پریشانیوںکی اطلاع پہلے دے دیتا ہے ، عوام بھی اسی کو اپنا ادیب وفن کار سمجھتی ہے جو اس کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے ۔اس لیے ہم مابعد جدید دور میں یہ دیکھتے ہیں کہ موجودہ حالات ، سیاسی و سماجی نظام اور تہذیبی تحفظ کی خاطر ہر شاعر و ادیب جدوجہد کر رہا ہے کیونکہ موجودہ سیاسی و سماجی نظام انسانی شناخت کو خطرے میں ڈا ل رکھا ہے اور انسان ایک مشین کی مانند اس کائنات میں سفر کرنے پر مجبور ہو گیا ہے ایسے میں ہمیں سیاسی وسماجی نظام کو سمجھنا ہوگا اور اپنے وجود کی بقا کی جنگ لڑنی ہوگی تبھی ہماری تہذیب و ثقافت او رہماری شناخت محفوظ رہ سکتی ہے ورنہ ہماری کوئی شناخت نہیں ہو گی اور ہم محض ایک پرزے کے مانند رہ یوں ہی گرش کرتے رہیں گے ۔
مابعد جدید جس صورت حال کی نمائندگی کرتی ہے اس میں ثقافتی بازیافت ،تہذیبی تحفظ، لامرکزیت، مقامیت ، ساختیات، پس ساختیات، صارفیت ، معاشی حقیقت نگاری، اور سچویشن کے مطابق تخلیق کیا جانے والا ادب شامل ہے ۔مابعد جدیدیت کے پیروکار اسی طرح کے خیالات کو بیان کرتے رہے ہیں ۔ان کا بنیادی مقصد ادب کی تفہیم سماجی وثقافتی صورت حال کی بنیاد پر طے کرنا ہے ۔اسی کے متعلق وہاں اشرفی لکھتے ہیں:
’’رولاں ہارتھ یہ بھی کہتا ہے کہ دراصل مصنف ایک جدید شخصیت کا نام ہے جو ہمارے سماج کی پیداوار ہے جس کی نمودعہد وسطی میں ہوئی ہے ۔وہ مصنف کے تصور کوسرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی سے تعبیر کرتا ہے ۔اس کی نگاہ میں سرمایہ دارانہ ذہنیت نے ہی مصنف کی ذات کو اتنی اہمیت دے رکھی ہے ۔ رولاں بارتھ کو حیرت ہے کہ ابھی تک ادبی تاریخ ، ادبی سوانح، انٹرویو اور رسالوں میں مصنف کی ذات کو مرکزی اہمت دی جاتی رہی ہے ۔یاد داشتوںاور ڈائریوں کے ذریعے خود مصنف کی ذات کو مرکزی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ یادداشتوں اور ڈائریوں کے ذریعے خود مصنف اپنی ذات کو روشن کرتا رہا ہے۔ حالانکہ ادب کے پیکر کو عوامی کلچر میں تلاش کرنا چاہیے۔
لیکن صورت یہ ہے کہ بڑی شدت سے مصنف کی ذات اس کی زندگی، اس کے میلانات وجذبات پر زور دیا جاتا ہے ۔رولاں بارتھ ایسی تنقید کا مذاق اڑاتا ہے کہ بودلیرکے ادبی کارناموں کی ناکامی دراصل خودبودلیر کی ناکامی ہے یا Vonogoghمحض اپنے جنون کے سبب ناکام ہوا یاTehaikovarky اپنی برائیوں کے سبب گویا ادب کی قدروقیمت ادیب کی زندگی سے ہم آہنگ کی جاتی رہی ہے جب کہ ادب سے کسی فرد ادیب کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘
مابعد جدیدیت مضمرات وممکنات، وہاب اشرفی،ص ۔۲۳
مابعد جدید کے تمام نمائندے خواہ ان کا تعلق مغربی دنیاں سے رہا ہو یا مشرقی دنیا ںسے ادب کو سماج کا حصہ بنایا اور تہذیبی و ثقافتی سرچشموں سے متن کی تعبیر کی اور مصنف یا شاعر کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی کہ قاری اور متن برائے متن کو دی ۔متن کا مفہوم قاری طے کر ے گا نہ کہ مصنف۔ اس لیے مابعد جدیدیت میں’’ مصنف کی موت‘‘کا اعلان کیا گیا اور قای کو مرکزی حیثیت دی گئی کیوں کہ جدیدیت کے تصور میں انسان اپنی ذات میں الجھ گیا تھا اسے تہذیب وثقافت سے کوئی سروکار ن نہیں تھا لیکن مابعد جدیدیت میں انسان کو تہذیب و ثقافت سے وابستہ کیا گیا۔
ما بعد جدید اور اکیسویں صدی نے زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا ہے۔ سیاسی صورت حال ، سیاسی نظام ، سیاسی تغیرات نے غزل کوبہت خد تک متاثر کیا ۔شعرا نے سیاسی اثرات کو بھی قبول کیا۔سیاسی تبدیلیوں نے غزل کے مزاج کو بدل دیا۔ سماجی تغیریزی نے بھی غزل کو متاثر کیا ۔در اصل مابعد جدید غزل نے ترقی پسندی ، جدیدیت اور اس طرح کی تمام حدوں کو توڑ کر زندگی کی وسعتوں میںڈوب کرسراغ زندگی کا راز بیان کیا۔ نت نئے تجربے ،احساسات ،تشبیہات ، استعارات، تلازمات ،زبان ،اظہارو اسلوب ، علامتیں اور ڈکشن سب کچھ اس کے اپنے ہیںجن کا تعلق اپنی تہذیب وثقافت ، رسم رواج، سیاست و معاشرت ، مذہب وادب سے ہے ۔اس عہد کا شاعر سیاسی آگہی رکھتا ہے ۔وہ سیاسی نظام پر انگلیاں بھی اٹھاتا ہے اور اس کی ہم نوائی بھی کرتا ہے ۔اس کے یہاں سیاسی ناہموار یاں سیاسی جبرو استبداد ، سیاسی رسّہ کشی، سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اور سیاسی اتار چڑھاؤ کا حصہ بننا وغیرہ سب کچھ موجود ہے ۔وہ زبان وبیان کم بلکہ سیاسی نشیب وفراز پر زیادہ زور دیتا ہے ۔جب کہ بعض ایسے بھی غز ل گو ہیں جو سیاسی نظام کے شکار بھی ہوئے ہیں انہیں سیاسی جبر بھی برداشت کرنا پڑا۔چند اشعار کے ذریعے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ ہمارے شعرا کس طرح سے غزلوں میں سیاسی حالات کو بیان کرتے ہیں۔
یہ تجربات کی وسعت، یہ قید صوت و صدا
نہ پوچھ کیسے کٹے ہیں یہ عرض حال کے دن
عبدالاحد ساز
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
منور رانا
یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ
مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا
عنبر بہرائچی
وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
اظہر عنایتی
روز بکھرا ہے لہو کاغذ پر
شعر بنتا ہے لہو کاغذ پر
ابراہیم اشک
ہر ایک پل نئی طرز ادا تھی جینے کی
زمانہ بدلے نہ بدلے مجھے بدلنا تھا
ابراہیم اشک
ہم فقیروں کا اگر نیزے پہ آجائے گا سر
آسمانوں کی بلندی سے بھی ٹکرائے گا سر
شہباز ندیم
تمام شہر کی آنکھوں میں ریزہ ریزہ ہوں
کسی بھی آنکھ سے اٹھتا نہیں مکمل میں
فرحت احساس
میں جبرو قہر کے موسم میں بھی سرور رہا
اذیتوں میں بھی طارقؔ سرور تھا کیا تھا
شمیم طارقؔ
الغرض ۱۹۸۰کے بعد غزل کی جو بساط بچھائی گئی اس میں سیاسی حالات کو زیادہ اہمیت حاصل تھی کیونکہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر سیاسی صورتِ حال میں ولڈ ٹریڈ سینٹر کے منہدم ہونے کے بعد د جو تبدیلی آئی ۔اس کے اثرات ادیبوں وشعرا پر بھی پڑے ہندوستان میں بابری مسجد کا مسئلہ ، گجرات فساد، ممبئی دھماکہ، دہلی بم دھماکہ، بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر، ہندوراشٹرکا تصور، کشمیر کے مسائل ، برماوبنگلہ دیش سے آئے مہاجروں کو واپس بھیجنے کا مسئلہ، ہندو مسلمان کی تفریق ، کانگریس پارٹی کا عروج و زوال اور بی جی پی کا اقتدار ، مسلم شریعت سے چھیڑخانی، مسلم پرسنل لا پر سوال اٹھانا وغیرہ یہ سب ایسے مسائل ہیںجن کا براہِ راست تعلق سیاست سے ہے ۔سیاسی گلیاروں میں ان کی وجہ سے رونقیں بحال ہونے لگیں۔ادیبوں و شعرا نے سیاسی اتار چڑھاؤ کا ذکر کرنے لگے اور سیاسی اقتدار کے حصول کی خاطر عوام میں تصادم پیدا کرنا سیاست دانوں کا مقصد بن گیا ۔حال میں جتنے بھی مشاعرے ہوتے وہ بھی سیاست کا حصہ سمجھے جاتے۔ان مشاعروں کے ذریعے سیاسی رہنماؤں نے اپنے خیالات و نظریات کی تبلیغ کرنی شروع کردی اور شعرا کی بہت بڑی تعداد اس میں حصہ لینے لگی جو مخالف پارٹی کو برا بھلا کہتی اور ہم خیال پارٹی کی نمائندگی کرتی۔ مثلاً چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
جب طائر خیال کو شہپر نہیں ملا
میرے تصورات کو پیکر نہیں ملا
سجاد سید
وہ بھی اچھا لتا مرے سر کی طرف ضرور
شاید اسے ابھی کوئی پتھر نہیں ملا
سجاد سید
تھی مصلحت اسی میں مگر پھر بھی و ہ فقیر
ارباب وقت سے کبھی جھک کر نہیں ملا
سجاد سید
جہانِ کل میں کوئی پیچ وتاب ہونا ہے
نئی صدی ہے، نیا انقلاب ہونا ہے
ابراہیم اشک
ہر ایک پل نئی طرز ادا تھی جینے کی
زمانہ بدلے نہ بدلے مجھے بدلنا ہے
ابراہیم اشک
پس غبار نظر منظر تباہی ہے
اب آئینے کے مقدر میں رو سیاہی ہے
شمیم طارق
کام مشکل ہے کہ ہر سو موت کی وحشت کھڑی ہے
اے میرے ماک تو مجھ کو دو گھڑی آباد رکھنا
اظفر جمیل
یہ اندھیرے، یہ اجالے یہ بدلتی صورت
سارے منظر نظر آتے ہیں تمہاری صورت
مہتاب حید ر نقوی
میں منظروں کے گھنے پن سے خوف کھاتا ہوں
فنا کو دست محبت یہاں بھی دھرنا ہے
اسعد بدایونی
سحر سے قبل گھروں سے کوئی نہ نکلے گا
اداس رات کے انسو کسے پکارتے ہیں
ارشد عبدالحمید
جو زخم خوردہ تھے لہجے وہ پرتباک ہوئے
مری غزل کے سبھی شعر تابنا ک ہوئے ’
رئیس الدین رئیس
ہم نے فقط شناخت کی اک بات کی تھی
اے شہر بے شناس خطوار ہوگئے
راشد طراز
طراز اب تو تحفظ کی کوئی صورت نہیں ملتی
مرے رہبر کسی جائے اماں تک لے چلو مجھکو
راشد طراز
اب کے دھوئیں کی تیرگی میں سرخیاں بھی ہیں
جلتے ہوئے مکان کا منظر عجیب ہے
راشد طراز
لہو میں ڈوبتا منظر خلاف رہتا ہے
امیر شہر کا خنجر خلاف رہتا ہے
خورشید اکبر
یزید وقت کو دنیاں قبول کر لے مگر
سناں کی نوک پہ اک سرحلاف رہتا ہے
خورشید اکبر
سلگتی پیاس نے کرلی ہے مورچہ بندی
اسی خطا پہ سمند خلاف رہتا ہے
خورشید اکبر
اتنے خاموش ہو کیوں اہل زباں کچھ تو کہو
تم کو سننے کا بہت شوق تھا افسانہ دل
عالم خورشید
زمانے کے تغیر نے مزاج اپنا نہیں بدلا
حولی سے سڑک پر آگئے ہم کجکلاہی میں
عالم خورشید
فساد جنگ ، سیاست ، مظاہرے ،نفرت
یہ گالیاں ہیں ،انہیں کوئلے سے لکھتے ہیں
شکیل جمالی
اگر کچھ دیر کو ہم لوگ لڑنا بھول جاتے ہیں
ہماری رجنیتی کو پسینہ چھوٹ جاتا ہے
شکیل جمالی
اٹھا کر کبھی چلنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی
سیاسی آدمی میں ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی
شکیل جمالی
کوئی بتا نہیں سکتا ہے کون کس کا ہے
جلوس میں بھی کر ائے کے لوگ ہوتے ہیں
شکیل جمالی
بولتے بولتے چپ ہوجانا
اور کہتا کہ نہیں کچھ بھی نہیں
جمال اویسی
ٹھیس لگتی ہے انا کو تو برس پڑتے ہیں
لب کشا ہوتے نیہں اہل ہنر دانستہ
شمس رمزی
کوئی نہیں تھا استہایت تو اس میں تھے سناٹے گہرے
میرے من مندر میں آکر کس نے شور بکھیرا بابا
شمس رمزی
بے گناہ لوگوں کا روز قتل ہوتا ہے
راستہ نہ اپنا لیں لوگ اب بغاوت کا
شمس رمزی
کیا تعلقِ خاطر کیا عزیز داری ہے
مصلحت سے ملنا ہی اب تو ہوشیاری ہے
عمران عظیم
اس طرح کے نہ جانے کتنے اشعار ہیں جو موجودہ سیاسی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس میں زمانے کی حقیقت اور سچائی نظر آتی ہے ۔ان مفاد رپرست ہنماؤں نے انسانی شخصیت کو مجروح کیا، ڈر ، خوف کا ماحول پیدا کیا ، دہشت گردی کے الزام میں بے گناہوں کو قید کیاحتیٰ کہ جو بھی ان کی راہ میں آتا اسے ہٹانے میں کسی طرح کی کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ما بعدجدید شعرا نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انسانوں کو اس بات کا ا حساس دلایا کہ عوام پر ہورہے ظلم و ستم کووہ کھل کر بیان کر یں گے۔Protestاحتجاج ، بھوک ہڑتال، Strikeیا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے ان باتوں کوفروغ دیا جارنے لگا۔عوام کو یہ بھی بتایا گیا کہ سیاسی رہنما انھیں گمراہ کرکے ان کااستحصال کر رہے ہیں اور انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ اردو غزل ہر دور میں سیاسی حالات کی عکاسی کرتی رہی ہے خواہ حاتم ، ابرو کازمانہ ہو یا پھر میرو غالب اور اقبال کا یا پھر فیض، مجاز، علی سردار جعفری، اسعد بدایونی، جمال اویسی ، احمد محفوظ ، نعمان شوق ، راشد انور راشد، ظہیر رحمتی وغیرہ کا اردو غزل نے سیاسی نظام ، سیاسی چارہ جوئی ، سیاسی چپقلش اور سیاسی جدو جہد سب کو نہ صرف اظہار کی سطح تک بیان کی بلکہ انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ظلم و جبر کے خلاف آواز بھی بلند کیا ہے ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں جس میں سیاسی نظام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔:
کھڑا ہے کب سے کوئی راستہ نہیں ہے کیا
جنوں سے تیرا کوئی رابطہ نہیں ہے کیا
مرے وجود کو مت حادثے کا خوف دلا
مرا وجود خود ایک حادثہ نہیں ہے کیا
خموش ہونے کو ہے چیخ چیخ کے یہ صدی
سنا سکی نے نہ کچھ، سانحہ نہیں ہے کیا
عطا عابدی
کبھی خموشیاںخوابو ں کو چھین لیتی ہے
کہ بیچ بیچ میں ’’ہاں‘‘ بولنا ضروری تھا
ظہیر رحمتی
اب اس قدر بھی نہ کر اعتماد وحشت پر
اداس دل کہیں ایسا نہے ہو بہل جائے
ظہیر رحمتی
یہ کس نے طاق میں آنکھوں کی سرخیاں رکھ دیں
کہ روشنی میں شب انتظار ختم ہوئی
ظہیر رحمتی
الغرض اردو غزل میں سیاسی موضوعات کادرآنا لاشعوری عمل ہے ۔ مابعد جدید غزل میں ان موضوعات پر زیادہ توجہ دی گئی اور شعرا کی ایک بڑی تعداد اس طرح کے مضامین کو باندھنا شروع کر دیا۔کیونکہ مابعد جدید صورت حال کا تقاضا بھی یہی تھا جو شعرا کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کرتا ہے اور عوام کو قلبی سکون بخشتا ہے اسے ڈروخوف سے باہر نکال کر زندگی کی سچائی سے روشناس کراتا ہے :
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بحیلۂ مذہب کبھی بنام وطن
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سرو ں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
افتخار عارف
اردو غزل کا تہذیب وثقافت سے گہرا رشتہ رہا ہے ۔اس نے ہر دور کی تاریخی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی حالات کی عکاسی کی ہے ۔ امیر خسرو سے اب تک غزل کی جو روایت قائم ہوئی اس کی بنیاد تہذیبی وسماجی وابستگی رہی ۔میرؔ تقی میر نے اپنی غزلوں میں سماجی صورت حال کی عکاسی کی ہے ۔میر کی غزلوں کی خوبی ہی سماجی وابستگی ہے ۔غالب نے بھی اپنے حالات کی ترجمانی کی ہے 1857کے حالات نے جس قدر ہندوستانی سماج کو متاثر کیا تھا غالب کی غزلوں میں اس کی بہترین عکاسی ملتی ہے ۔خصوصاًتہذیبی شناخت، قدروں کی پامالی اور سماجی اداروں کی زبو حالی کا ذکر وغیرہ۔غالب کے اشارے کنائے اور علامات اسی انقلاب کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔غالب کی اہمیت اسی لیے مسلّم ہے کہ انہوں نے عصری کشمکش کو بیان کیا ۔اسی طرح حسرت موہانی کے یہاں جدو جہد آزادی کا نعرہ بلند ہوتا نظر آتا ہے ۔ اقبال نے نوجوانوں میں روحانیت کی روح پھونکنے اور سماجی بقا کی خاطر تہذیبی شناخت کو لازمی قرار دیا۔
تقسیم ہند کی بعد ناصر کاظمی ، فیض اور مخدوم وغیرہ نے فسادات ، جبرو ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور سماجی وتہذیبی تعلق کو بحال کرنے کی جدوجہد بھی کی ۔جدیدیت کے شعرا میں خلیل الرحمن اعظمی، باقر مہدی، وحید اختر ، بانی، محمد علوی، منیر نیازی، کمارپاشی، فضیل جعفری، وزیر آغا اور شمیم حنفی وغیرہ نے سماجی ضرورتوں کے پیش نظر تہذیبی وابستگی اور تہذیبی ہم آہنگی کو بروئے کار لایا اور کھل کر ان موضوعات کو پیش کیا ۔ چنانچہ مابعد جدید عہد تک صورت ِحال تبدیل ہوتی چلی گئی ۔نئی قدریں وضع کی جانے لگیں۔تہذیبی وثقافتی اداروں کو نیا رنگ دیا جانے لگا ، سماج میں رہنے والے انسان کی زندگی تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی اور آئے دن تہذیبی کشمکش سے دوچار ہونے کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ایسے میں اس عہد سے تعلق رکھنے والے شعرا نے تہذیبی تحفظ کی خاطر نئے معاشرے کی تعمیر کا کام شروع کردیا۔ان کے پیش نظر ایسا سماج تھاجو تہذیبی وابستگی اور تہذیبی شناخت کی جدو جہدکر رہاتھا کیونکہ جو معاشرہ وجود میں آرہا تھا اس میں سماجی و تہذیبی وابستگی کی گہرائی نظر نہیں آرہی تھی۔عالمگیریت نے تہذیبی دوریاں ختم کردی تھیں۔الکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے انسانی زندگی کو اپنے احاطے میں لنا شروع کر دیاتھا ۔وہ تہذیب وثقافت کو پس پشت ڈال کر موبائل کی اسکرین پر جمتا جارہا تھا۔ اسے روایتی قدروں کی کوئی فکر نہیں، اخلاقی زبوحالی، موقع پرستی، مفاد پرستی، خود غرضی کی پرخار راہوں میں وہ گم ہوتا چلاگیا ۔اس لیے مابعد جدید عہد کے شاعروں نے تہذیبی بقا، تہذیبی شناخت کی خاطر اپنے کلام کو صیقل کیا اور معاشرتی ،تہذیبی وثقافتی تحفظ کے لیے ایسے کلام تخلیق کیے جو عوام کی زندگی کو بہتر بنا سکے۔ عوام کو اپنی تہذیب سے جوڑ سکے۔مابعد جدید غزل گو میں جمال اویسی نے حالات کی صورت گری میں اہم رول ادا کیا ہے ان کی غزلوں میں روایتی انداز کے علاوہ جدید عہد کا بنیانیہ بھی موجود ہے۔انہو ںنے فرد واحد کے احساس کو اجتماعیت کا روپ دینے میں اہم کردار ادا کیا:
ہوش میں رہنے کو کہتا ہے یہ دل
اپنے ماضی سے تو اچھا ہے یہ دل
وقت سے پہلے ہے مابعد جدید
ہر نئی سوچ سے ڈرتا ہے یہ دل
ابر سے بحر سے بجھتی نہیں پیاس
جانے کس چیز کا پیاسا ہے یہ دل
ان کی غزلوں میں شعور کی آگہی ، تہذیبی اور سماجی وابستگی کا احساس دکھائی دیتاہے ۔ٹوٹنے اوربکھرنے کے بعد تعمیر کی صورت کا ادراک انہوں نے روایتی شاعری سے اخذ کیا ہے ۔
آواز مری لوٹ کے آتی ہے مجھی تک
یہ شہر مرا کاش بیاں باں نہیں ہوتا
لیے پھرتے ہو ذہنوں میں اندھیرا
تو پھر ہم صبح والے کس لیے ہیں
عمران عظیم کا تعلق بھی مابعد جدید عہد سے ہے انہوں نے بھی نئے زمانے اور نئے طرز حیات کی عکاسی کی ہے ۔
مابعد جدیدغزل کثرت میں وحدت ہے لیکن سیاسی منظرنامے کی بنیاد پر ذات پات کو فروغ ملا یہاں ،برہمنیت کا غلبہ ہونے لگا ، متوسط طبقوں کا زوال ہوا اور وہ حاشیے پر چلے گئے ۔ جن کی سیاسی اہمیت نہیں تھی اب وہ طاقت ور ہوگئے ۔اسی طرح قبائلی ، آدی باسی اور علاقائی سطح پر بھی سماجی و تہذیبی صورت حال میں تبدیلی آنے لگی ۔قومی لیڈر شب کے ذریعے سیاسی و ثقافتی طاقت حاصل کرنا ان کا مقصد اولین بن گیا ۔اس کے متعلق گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں۔
’’ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک تکثیری سماج میں مرکزیت یا وحدت کا چیلنج ایک حد تک ہی گوارا کیا جاسکتا ہے اور نظر انداز کیے ہوئے،دوسرے یعنی جو اب تک’ غیر تھے‘اس کے قلب میں آجانے کے بعد مرکزاور مقامیت میں ایک توازن کی بھی ضرورت ہوگی جس کا خواب ہندوستان کے دستور میں رکھا گیا ہے ۔بہر حال آمرانہ مقتدرات یا مراکز کا زمانہ گزر گیا جو تکثیریت کو دبائیں یا علاقائی ، اقلیتی اور قبائلی تشخص کو نظر انداز کریں۔‘‘
ادب کا بدلتا منظرنامہ ، اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ،ص ۔۷۵ ا
ان حالات کے تئیں شعرا نے ہندوستان کی سماجی اور تہذیبی صورت حال کی عکاسی کی ہے ۔ان کے اشعار احتجاج کی صورت اختیار کر تے گئے۔احتجاج کا یہ اندازکہیں تو زیریں لہروں کی طرح نظر آتا ہے اور کہیں بلند سے بلند تر ہوگیا ہے ۔مثلاً فرحت احسا س کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
یوں تو گزر گئے ہیں دن دیدئہ و دل کی عیدکے
پھر بھی ہیںشاخ چشم پر پھول یہ کس امید کے
کوئی نہیں ہے میرانیس ہم پہ جو مرثیہ لکھے
ہم بھی تو ہیں لب فرات مارے گئے یزید کے
ہم کو کیا گیا ہلاک سامنے خلق کے تمام
پھر بھی سکوت دیکھیے شاہد چشم دید کے
فرحت احساس
یعنی ہندوستان کی سماجی صورت ِحال یہ ہوگئی کہ ہر لمحہ ایک خوف دلوں میں بیٹھتاچلاگیا ہے۔ہر انسان گویا تلوار کی دھار پر چلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
تیرے ہونٹوں کی خموشی بھی کسی دن ٹوٹے
غم سے یخ بستہ ہے اک جان تمناّ قسمت
وقت سے کون سا رشتہ ہے بتائے کوئی
اک ستارہ ہے ، سمند ہے کہ صحرا قسمت
اظفر جمیل
ہر جانب حیات وموت کی ر شہ کشی اورکشمکش ہے ۔بے دست و پانی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔انسان اپنی قسمت کے بھر وسے زندگی گزار رہا ہے اسے آنے والے لمحے کی کوئی خبر نہیں کہ کب کیا ہو جائے یا کسی حادثے کا شکار ہوجائے۔قسمت پر منحصر زندگی بھی ہماری تہذیبی ورثے کاحصہ ہے ۔شعرا نے بھی اسی ورثے کو حاصل کرنے کے لیے ماضی سے اپنا رشتہ استوار کیا۔تہذیب وتمدن سے وابستہ تمام خو ش نماںمظاہر کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی قوت صرف کردی ہے ۔مثلاً راشد جمال فاروقی کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
وہ سارے لوگ بھلے وقت کا نشانی تھے
برا ہوا کہ برے وقت کے نوالے ہوئے
کبھی ہمیں میسر تھیں ساعتیں کیا کیا
گزر رہی ہیں سروں پر قیامتیں کیا کیا
ذرا جو عظمت رفتہ یہ حرف آنے لگے
تو اک بچی ہوئی محراب دیکھ لیتے ہیں
ہ دیکھ پاؤں کا اپنا زوال ہوتے ہوئے
وقارِ کوہ صفت پائمال ہوتے ہوئے
راشد جمال فاروقی
اس میں شاعر عظمت رفتہ کی یادوں سے اپنی موجودہ زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے ۔اسے احساس محرومی تو ہے لیکن یہ محرومی اسے حرکت و عمل پر ابھار رہی ہے ۔مابعد جدید غزل گو کے یہاں یہی حرکت و عمل نظر آتی ہے ۔وہ تہذیبی وسماجی صورت حال پر اکتفا کرکے بیٹھ نہیں جاتے بلکہ خوش گوار ماحول پیدا کرنے کے لیے جد وجہد کرتے ہیں جو انہیں روحانی سکون عطا کرے:
ہماری نسل نے ایسے میں آنکھ کھولی ہے
جہاں یہ کچھ نہیں بے رنگ منظروں کے سوا
تیری آنکھوں سے بھی دنیا دیکھ چکے
کوئی صورت رہ جاتی نادانی میں
دیکھا تھا کوئی خواب کہ اب یاد نہیں ہے
روئے تھے بہت دیر سبب یاد نہیں ہے
کوئی آئینہ لیے شہر میں یو پھرتا ہ
ہم توڈر جاتے ہیںخود دیکھ کے اپنی صورت
مہتاب حیدر نقوی نے آنکھ ،منظر ، خواب اور آئینہ کے ذریعے داخلی حزن وملال کے علاوہ خارجی صورت حال کی عکاسی کی ہے ۔ان کے یہاں اپنی صورت دیکھ کر ڈر جانے کی جو صورت نظر آتی ہے وہ حرکت و عمل کی ترغیب دلاتی ہیں ۔ان کے یہاں جمود کو توڑنے کی صفت موجود ہے ،وہ قاری کو سماجی و ثقافتی منطقوں سے آگاہ کرتے ہیں ۔اسے ڈرانے کے بجائے اپنے عہد کی سچائی دکھاتے ہیں۔اسے احساس دلاتے ہیںکہ حالات کی سنگینی اور ماحول کے جبر نے اسے اپنوں سے دور کردیا ہے ۔انسانی رشتوں کے بے معنویت کو بھی مابعد جدید شعرنے بھر پور انداز میں بیان کیا ہ ۔
جس نے بھی ہاتھ ملایا اسے اپنا سمجھے
پیاس وہ تھی کہ سرابوں کو بھی دریا سمجھے
عقیل نعمانی
سوا اپنے کسی کو راز داں ہونے نہیں دیتے
وہ آگ ایسی لگاتے ہیںدھواں ہونے نہیں دیتے
عقیل نعمانی
ہم نے فقط شناخت کی اک بات کی تھی اور
اے شہر بے شناس خطاوار ہوگئے
راشد طراز
طراز اب تو تحفظ کی کوئی صورت نہیں ملتی
مرے رہبر! کسی جائے اماں تک لے چلو مجھکو
راشد طراز
شکایتیں ہی ستم کے خلاف کرکے اٹھوں
میں صاحبوں سے ذرا اختلاف کرکے اٹھوں
خورشید اکبر
کب سے ہاتھوں میں لیے بیٹھا ہوں پیمانہ دل
کس قدر ہو گیا ویران یہ میخانہ دل
عالم خورشید
سرمایہ زندگی کا کچھ ایسے لٹ رہا ہے
تہذیب کے گھروں کو مسمار کر چکے ہیں
افتخار راغب
مابعد جدید غزل میں سماجی صورتِ حال کو ہر اعتبار سے بیان کیا گیا ہے مثلاًانسانی رشتوں کا نہدام ، رشتوں کی محرومی کا احساس ، شہری زندگی کی محرومی و لطف اندوزی کا احساس ، گاؤں کا چھوٹ جانا اور شہری ماحول کو قبول کر لینا۔روایتوںکی زبوحالی اور سرمایہ داری کی للک اور مادّہ پرستی خردید و فروخت کی کشمکش اور صارفیت کا فروغ Consumarismاور بازارواد کا بڑھتا رجحان وغیرہ اورجدید معاشرے میں فیشن کا دور دورہ ہے ۔ چیزوں کا Glamoriseہو نا حتی کی ہماریاکلچر بھی پیشہ وارانہ ہو تے جا رہے ہیں۔اکیسویں صدی کے عہد میں ہر چیز قیمتاً دستیاب ہو سکتی ہے ۔ہمارا معاشرہ اور ہماری تہذیب ان تمام صورت حال سے متاثر ہوئی ہے۔اس لیے جدید عہد کے شعر ا نے ان تمام چیزوں کے منفی و مثبت پہلوئوں کا بیان کیا ہے لیکن انہوں نے فوقیت انسانی زندگی، انسانی معاشرہ اور تہذیب وثقافت کو دی ہے ۔ شعرانے انسان کی گم ہوتی ہوئی شناخت کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کیاہے۔وہ صارفیت اور بازارواد، شہری زندگی، فیشن اور Glamourسے باخبر بھی کر رہاہیں کہ ہماری اماج گاہ ہماری تہذیب، ہماری ثقافت ہے ۔اسی کے جائے پناہ میں ہم سکون حاصل کر سکتے ہیں۔چنانچہ اکیسویں صدی کے غزل گو کے یہاں شہر مکان ، خواب ،گھر، بھوک ، جسم کی قید، بے پناہی کااحساس، انسانی خسارہ، ذہنی تھکان ، عورتوں کے مسائل ، سماج میں عورت کا کردار وغیرکو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
بنا لیتے ہیںمل جل کر مگر ہر بار گرتی ہے
خسارہ ملک کا ہوتا ہے جب سرکار گرتی ہے
مسرت حسین عازم
اسی کی زندگی کٹتی ہے بے پناہی میں
سفر کرتا ہے جو اپنی انا کی سربراہی میں
حسن رہبر
نئے فیشن کی دیکھیں بے نیازی
بھرے بازار میں تن بولتا ہے
چاہیے کیا تمہیں تحفے میں بتا دو ورنہ
ہم تو بازار کے بازار اٹھا لائیں گے
عطا تراب
جادو بھری جگہ ہے بازار تم نہ جانا
اک بار میں گیا تھا بازار ہوکے نکلا
فرحت احساس
بھوک میں کوئی کیا بتلائے کیسا لگتا ہے
سوکھی روٹی کا ٹکڑابھی تحفہ لگتا ہے
اخلاق ساگری
لکھیں گے روز نئی داستاں کاغذ پر
اتاریں گے یوںذہنی تھکان کاغذ پر
افتخار جمیل
یہ لوگ خواب بہت کربلا کے دیکھتے ہیں
مگر غنیم کو گردن جھکا کر دیکھتے ہیں
اسعد بدایونی
ہاتھ آجائے تو جیسے ہر علاقہ سلطنت
ہاتھ نہ آئے تو یہ سمجھ کہ دلی دور ہے
راشد انور راشد
مابعد جدید عہد کی صوت حال کا پیش خیمہ ہی سیاسی سماجی اور تہذیبی تبدیلی کا رویہّ ہے ۔اگر اس کے اسباب وعلل کا مطالعہ کریں تو یہ نتائج برآمد ہوتے ہیں کہ حالات کے پیش نظر یہ صورت حال پیدا ہوئی ۔ مابعد جدیدیت نے اس کے موضوعات کی توسیع کی اور ادب کو نئے عہد سے ہم آہنگ کرایا۔اردو غزل میں اس کے امکانات روشن تھے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس عہد سے تعلق رکھنے والے غزل گو شعرا کے یہاں جن موضوعات کو زیادہ اہمیت دی گئی وہ سیاسی، سماجی و تہذیبی صورت حال ہی تھی ۔سیاسی تبدیلیوں کے سبب سماجی صورت حاصل بھی تبدیل ہوگئی اور اسماجی اداروں پر جو تہذیبی یلغار ہورہی تھی اسے سمجھنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔اس لیے شعرا نے یہ بیڑا اٹھایا کہ جدید عہد کے مشینی دور میں انسان کو کس طرح زیست کا سامان مہیا کیا جائے ۔اس کے لیے سیاسی مسائل ، سیاسی بندش ، ظلم و زیادی اور سیاسی مفاد کی نشان دہی ضروری تھی۔ الکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے سماجی و معاشی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ اس بالادستی میں تہذیب وثقافت رسم و روایت ،خاندانی نظام درہم برہم ہورہے تھے۔ انسان اپنی شناخت کی خاطر دوسروں کی شخصیت کو مجروح کر رہا تھا ۔اس نے اپنی تہذیب ،ثقافت حتی کی مذہب کی بھی پرواہ نہیں کی،وہ شہری زندگی کاعادی ہوگیاہے ،اسے اب ماضی کی یادیں نہیں ستاتیں کیونکہ موبائل کی دنیاں نے یہ احساس بھی ختم کر دیا ہے ۔آج کا قاری ایسی چیزوں کی تلاش میں بھٹک رہا ہے جو اسے راتوں رات مشہور کردے اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے ۔اس عہد میں عورتوں کے بھی بہت سے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے ،تعلیم نسواں کے مسائل، سماجی طور پر عورتوں کی حیثیت کا اعتراف، مرد اساس معاشرے میں عورتوں کو وہ مقام ابھی تک نہیںمل پایا ہے جو وہ چاہتی ہیں، عورتیں بھی اپنے حقوق کی خاطر مردوں کی پرواہ کیے بغیر شانہ بہ شانہ چل رہی ہیں۔ان تمام مسائل سے باخبر کرنے کے بعد انہیں ذہنی آسودگی عطا کرنا آج کے شعرا کی ذمہ داری بن گئی ہے ۔اسی لیے غزل اپنے آب وتاب کے ساتھ آج بھی ادبی افق پر روشن ہے۔غزل کی اہمیت کااندازہ اس کے موضوعات کی ہم آہنگی سے لگایا جاسکتا ہے ۔غزل کی توانائی اپنے عہد سے وابستگی میں پیوست ہے ۔ یہی مابعد جدید غزل کی انفرادیت ہے جو سیاسی سماجی اور تہذیبی موجوں کو برداشت کر تے ہوئیآئندہ نسل کے لیے راہیں ہموار کر رہی ہے۔
الغرض مابعد جدیدیت نے ان تمام مفروضوں کو توڑ کر شعرا کو یہ آزادی عطا کر دی کی وہ سیاسی ، سماجی اور تہذیبی اعتبار سے مکمل طور پر آزاد ہے ۔وہ جس طرح چاہے اپنے جذبات کی عکاسی کر سکتے ہیں کیونکہ سیاسی کرائسس کی وجہ سے ہر انسان سیاست کا حصہ بن سکتا ہے اورسیاسی اعتبار سے حکمرانوںکی بالادستی ختم کر سکتا ہے ۔
مابعد جدیدصورتِ حال نے ظلم کا احساس ہر انسان میں پیدا کر دیا گیا کہ انسان ایک اعتبار سے ظالم بھی اور مظلوم بھی اس لیے کوئی منظم یا اعلی حکومت اسے نجات نہیں دلا سکتی ۔ اسے خود سے اپنے حقوق حاصل کرنے ہوں گے ۔سماجی اداروں کو ختم کرکے سماجی شناخت کی بنیاد قائم کرنی ہوگی ۔یہ شناخت کا یہ زاویہ عمومی اور افقی خطوط پر منقسم ہے کیونکہ دلت ، اقلیت، پس ماندہ، ناخواندہ کی بنیاد پر مختلف سیاسی پارٹیاں بننی شروع ہوگئیںاور سماجی اعتبار سے بھی ا نہیں اہمیت دی گئی یعنی سماجی شناخت قائم کرنے کے لیے ہر انسان کے جذبات واحساسات کو سمجھا گیا ۔اسے یہ آزادی دی گئی کی وہ جس طرح چاہے زندگی گزار سکتا ہے ۔اگر اس کی خواہش Fashionableکپڑے پہننے کی ہے تو وہ پہن سکتا ہے ، تہذیبی وثقافتی حد بندیوں کو توڑ کر انسانی جذبات کی بنیاد پر تہذیبی اقدار وضع کی گئیں ۔شعرا کے ساتھ ساتھ قاری کو بھی یہ آزادی دی گئی کی وہ جو مفہوم برآمد کرنا چاہے کر سکتا ہے اور شاعر جس طرح کا خیال پیش کرنا چاہے کرسکتا ہے ۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اردو غزل میں بہت سے ایسے موضوعات درآئے ہیں جو ہماری تہذیب وثقافت اور معاشر سے میل نہیں کھاتے یہاں جنسی آزادی ہے یعنی مرد، صرف عورت ہی سے ہم بستری کیوں کرے ۔وہ مرد سے بھی کرسکتا ہے اسی طرح عورت بھی عورت کے ساتھ رہنے پر آزاد ہے اگر کوئی شخص خود کشی کرنا چاہتا ہے تو اسے پوری آزادی ہے۔ مابعد جدیدیت نے یہ باورکرایا کہ انسان کیا سوچتا ہے ، وہ کیا چاہتا ہے ؟ گویا مرکزی حیثیت انسانی ضروریات و خواہشات کی ہے، عورتوں کو بھی مکمل آزادی دی گئی کہ وہ جس طرح چاہیں اپنی زندگی بسر کرسکتی ہیں۔چنانچہ مابعد جدید غزل گو کے یہاں اسی طرح کے متنوع موضوعات نظر آتے ہیں۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!