مرثیے کی روایت اور انیس کی مرثیہ نگاری
مرثیہ شاعری کی ایک صنف ہےجس میں کسی کی موت پر اس کے محاسن وفضائل کو یاد کرکے جزع فزع کیا جاتا ہے۔مرثیے کو شخصی اور کربلائی دوزمروں میں تقسیم کیا گیاہے۔ شخصی مرثیے کی تاریخ عربی میں دور جاہلیت اوردور اسلام دونوں میں موجود ہے۔ لیکن کربلائی مرثیہ کی ابتدا واقعہ کربلا اور اہل بیت کی شہادت کے بعد شروع ہوا سلطنت بنو امیہ میں حکومتی سختیوں کی وجہ سےاس صنف کی طرف شعرا بہت کم مائل ہوئے۔ لیکن خلافت بنو عباس میں اہل بیت کے شان وفضائل اور بہادری کو جلابخشنے اور ان کی یادوں کو شہرت دوام بخشنے کے لیے شعرا وادبانے اہل بیت کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کوشعری قالب میں ڈھال کر واقعہ کربلا کی ایسی منظر کشی کی کہ اہل بیت سے انسیت رکھنے والےافراد زارو قطار رونے لگتے۔
فارسی زبان میں شخصی مرثیے کی قدیم تاریخ رودکی کے اشعار میں ملتی ہے جس میں اس نے اپنے دوست کے انتقال پر رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ فردوسی اور فرخی نے بھی اس صنف میں قسمت آزمائی کی ہے۔ فارسی زبان میں اہل بیت کے واقعات پر مبنی مرثیے کی روایت محتشم کاشی نے ڈالی۔انھوں نے اخروی تمتعات کے لیے دس بندوں پرمشتمل ایسے اشعار کہے جو دردوغم کی مجسم تصویر ہیں۔ اسی کے زیر اثر اردو زبان نے اس صنف کو اپنایا جسے شروع میں گولکنڈہ اور بیجا پورکی دکنی سلطنتوں میں ترقی ملی۔ شہزادوں کی سرپرستی میں اس صنف نے مزید ترقی کے منازل طے کرنا شروع کیے ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے مرثیہ گویوں کی ایک جماعت پیدا ہوگئی۔ احمد شریف گجراتی، محمد قلی قطب شاہ، وجہی، غواصی، عبداللہ قطب شاہ، قطبی، عابد، فائزمحب، لطیف اور شاہی وغیرہ سلطنت گولکنڈہ کے اہم مرثیہ گو ہیں۔
شمالی ہند میں قائم دہلوی، شاہ حاتم، میر محمد،قائم، آبرو، سعادت، یک رنگ اورعاصی وغیرہ ابتدائی دور کے اہم مرثیہ نگار ہیں۔ اٹھارھویں صدی کے نصف آخر میں دہلی میں مرثیہ گوؤں کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی تھی۔ جن میں مسکین، سکندر، سودا، میر گھاسی، رند، ندیم، مصحفی، جرات اور اشرف وغیرہ قابل ذکر مرثیہ نگار ہیں۔ میر محمد تقی میر اور سودا نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی لیکن ان کے مراثی کو وہ کمال حاصل نہ ہوا جو لکھنؤ کے مرثیہ نگاروں کو حاصل تھا۔
شیعی ماحول اورعزہ داری نےلکھنؤ میں مرثیہ نگاری کواوج کمال تک پہنچایا۔غازی الدین حیدرنواب لکھنؤ نے مرثیہ گوئی کی سرپرستی کی جس سے لکھنؤ میں مرثیے کی فضا اتنی بلند ہوئی کہ یہ صنف ادبیت کے تقاضے کرنے لگی جسے میرضمیر اور بعد میں آنے والی نسلوں نے بحسن و خوبی انجام دیا۔اس دور میں مرثیہ کہنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے جس میں میر ضمیر، دلگیر اور میر خلیق کے علاوہ افسردہ، ناظم اور گدا وغیرہ کے نام مرثیے کے ضمن میں اہم ہیں۔انیسویں صدی کی دوسری چوتھائی میں سلامت علی دبیر، ببر علی انیس، میر عشق، مرزا آتش اور میر مونس وغیر ہ نے مرثیہ گوئی کے سورج کونصف النہار پر پہنچایا۔
شخصی مراثی میں کسی قریبی شخص کی وفات پر لکھے جاتے ہیں شاعر قربت کی وجہ سے متوفی کی خوبیوں سے باخبر ہوتاہے اس لیے ایسے مراثی میں وہ دشواریاں درپیش نہیں ہوتیں جو کربلائی مراثی میں ہوتی ہیں۔کربلائی مراثی تخیلات اور تاریخ سے ہم آہنگی بے حد ضروری ہوتی ہے۔میدان جنگ میں استعمال ہونے والے اسلحہ جات ، نیزہ ، تیر اور تلوار ر،جنگی گھوڑوں کی صفات، ان کے دوڑانے کے طریقے،گھوڑوں کی چال، تمام کرداروں کی اچھائی، برائی ، کردار وں کی عمراورنفسیات کے مطابق ترجمانی کرنا،پتھر پر نقاشی کرنے کے مماثل ہے۔کربلائی مراثی کے باب میں لکھنؤ کی اہمیت سے کسی کو انکار ممکن ہیں، بلکہ یہ کہنا حق بجانب ہے کہ کربلائی مراثی کی تاریخ زبان اردو ، سرزمیں لکھنؤ اور انیس ودبیر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔
ببر علی انیس1803 عیسوی فیض آباد میں پیدا ہوئے، والد کا نام میرخلیق اور دادا کا نام میرحسن اور پردادا کانام میرضمیر تھا۔مرثیہ گوئی کے باب میں انھوں نے خود کو مرثیہ کی پانچویں پست کہا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے قبل چار اور اکابرین نے مرثیہ گوئی کی تھی۔انیس نے جس وقت شاعری میں قدم رکھا اس وقت شا عری کا مدار صنائع بدائع تھا۔ مبالغہ، ایہام اور مناسبات لفظی کوشاعری کا کمال تصورکیا جاتاتھا۔لیکن انیس نے عوام الناس کے مد نظربلاغت کے تمام پہلؤں کے ساتھ ساتھ لفظیات پر زور دیا اور اپنے کلام میں عوامی ڈکشن کو زیادہ سے زیادہ برتنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ایک اچھوتے نہج کو رواج ملا جومروجہ شاعری کی لفظی ساخت سے بالکل جدا تھی، عوامی زبان وبیان کےامتزاج نےان کے کلام کو اس طرح مزین کیا کہ ہر خاص عام اس سے محظوظ ہونے لگا۔
ان کے مراثی میں جزئیات کو اتنی چابکدستی سے برتا گیا ہے کہ منظر خود بخود سامنے ابھرآتاہے۔اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ انیس ایک ماہر سنگ تراش ہے جو عام فہم اور سیدھے سادے الفاظ کی مدد سے ایسا نقش ابھارتاہے کہ مرثیے کا ہر جز مقتضائے حال کا ترجمان ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ یک ہی مرثیے میں کہیں قاری فخریہ طور پر سر کو بلند کرنے لگاتاہے تو کہیں زارو قطار رونے لگتاہے۔یعنی جب انیس مداحی اہل بیت شروع کرتے ہیں تو اہل بیت کی بہادری، سخاوت، جودت، مروت اور جنگی ہنر مندی کا اس طرح نقشہ کھینچتے ہیں کہ قاری وسامع اہل بیت کی جملہ صفات کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ لیکن شہادت کے بعد جب بین کے اشعار پروتے ہیں تورقت آمیز لفظوں کا تانا بانااس طرح بتنے ہیں کہ اہل بیت مظلومی ومجبوری اور بے کسی پر آنکھ اشک بار ہونے لگتی ہے۔
انیس کے مراثی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں زبان بیان پر بے پناہ قدرت حاصل ہے۔ وہ تشبیہات ، استعارات وکنایات کو برمحل برتنے پر قدر ت رکھتےہیں۔ ان کےمراثی میں محاورے، کہاوت اور بے تکلف بولے جانے والے الفاظ کے ذخائر موجودہیں۔ ذیل کے اشعار میں محاورات کے ذریعہ جنگ کی منظر کشی دیکھیں:
یک بہ یک طبل بجا، فوج میں گرجے بادل
کوہ تھراے، زمیں ہل گئی، گونجا جنگل
پھول ڈھالوں کے چمکنے لگے، تلواروں کے پھل
مرنے والوں کو نظر آنے لگی شکل اجل
اشعار پر غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ نقارے کی چوب کی بجتے ہی اہل حق اور باطل کے درمیان خونریز جنگ چھڑگئی اور اس جنگ کی صورت اور ہولناکی ایسی تھی کہ ارض وسماں سب ہل گئے،ہر سپاہی اپنے باجی گری دکھانے لگا جس کے نتیجے میں مقتولین کو اپنے موت کی شکل نظر آنے لگی۔ان اشعار میں آپ دیکھیں کہ طبل کا بجنا، بادل کا گرجنا،بجلی کا چمکنا،ناگن کا ڈسنا،کوہ کا تھرانا، جنگل کا گونجنااورزمین کا ہلنا وغیرہ عام محاورے ہیں جن کی مدد سے انیس نے جنگ کی ایسی تصویر کھینچی ہےکہ قاری کی ذہن میں ایک گھماسان کی جنگ کی تصویر ابھرتی ہے۔ ایک اور بند دیکھیں:
عرض عباس نے کی ، جوش ہے جراروں کو
تیر سب کھاتے ہیں، تولے ہوئے تلواروں کو
میہمانوں کا نہیں پاس، ستم گاروں کو
مصلحت ہو تو رضا دیجیے ، غم خواروں کو
روسیاہوں کو ہٹا دیں، کہ بڑھے آتے ہیں
ہم جو خاموش ہیں، تو منہ پہ چڑھے آتے ہیں
اس بند میں’تلواروں کا تولنا اور منہ چڑھنا’بھی محاورے ہیں لیکن انیس ان محاوروں کو اس طرح برتا ہے کہ دو متضاد قضیے ایک ساتھ ابھرآئے ہیں۔یعنی اہل بیت جری ، بہادر اور تلواروں کو تولنے میں بےمثال ہیں لیکن ان ساری صفات کے باوجومخالفین کی تیروں کا نشانہ صرف اس لیے بن رہے ہیں کہ انھیں اہل اسلام ہونے کا پاس ہے ، وہ مقابلے کی طاقت رکھنے کے باوجود جنگ نہیں کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح جنگ کے ٹل جائےاور ایک ہی کلمہ پڑھنے والوں کے درمیان جنگ نہ ہو۔ بند کا آخری مصرعہ ‘ ہم جو خاموش ہیں، تو منہ پہ چڑھے آتے ہیں’کو اگر ایک محاورے کے طور پر دیکھیں تو معلوم ہوتاہے کہ اہل بیت کا ہر ایک سپاہی مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ تن بیتاب ہے۔محض امام حسین رضی اللہ عنہ کے اجازت کی ضرورت ہے۔بند پر غور کریں تو اندازہ ہوتاہے کہ انیس بحر مواج کو کوزے میں بند کرنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ان کے مراثی کی ایک اہم خوبی نفسیات سے قربت ہے۔ وہ جس عمر کے کردار کی ترجمانی کرتے ہیں اس کی نفسیات کے عین مطابق کرتے ہیں۔ بند ملاحظہ ہو:
زینب نے ہائے بھائی کہا اور نکل پڑی
بانو نے پھینکی سر سے ردا اور نکل پڑی
کبرا پکاری وابتا اور نکل پڑی
چلائی فضہ ہائے خدا اور نکل پڑی
آگے تو بے حواس حرم روتے جاتے تھے
پیچھے پکارتے ہوئے سب بچے آتے تھے
اس بند میں بانو، کبراا ور فضہ بچہ کردار ہیں ؛ شہادت امام کے بعد ان کے دونوں پر جوکچھ گذری اس کی ترجمانی ا س بند سے بہتر اور کیا ہوسکتی تھی کہ شرم وحیا کی پیکر ، اہل حرم کے سامنے جب ان کے بھائی ، باپ اور اعزاکی نعش آئی تو وہ بے حواس ہو کر ننگے سر خیموں سے باہر نکل آئیں۔ اس بند میں ہائےبھائی!،وابتا! اور ہائے خدا !فجائیہ الفاظ ہیں جن کے ذریعہ مستورات اہل بیت کی بے حواسی،بچوں کی گھبراہٹ اور نوحے کو اس باریکی سے بیان کیاہے کہ نہ کہیں شعریت مجروح ہوئی ہے اور نہ قصہ پن بلکہ دونوں ہی سہل الفاظ کی ایک لڑی میں پیوست ہوکر قاری وسامع کے ذہن ودماغ کو مقید کرتے ہیں اوررزمیہ داستان کی تخیلاتی دنیا کی سیر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
صنائع بدائع اور لفظیات کے علاوہ انداز بیان کی ندرت انیس کے مراثی کی اہم خوبی ہے۔ جس سے منظر وکرداراس طرح ابھرآتے ہیں گویا کہ واقعہ سامنے ہورہا ہو۔وہ مردوزن، نیک وبد،بچے بوڑھے اور جوان ہر طرح کے کرداروں کی نفسیات سے واقف ہیں اس لیے جذبات واحساسات کی ترجمانی میں انھیں وہی قدرت حاصل ہے جو منظر کشی اور کردار نگاری میں ہے۔انھوں نے المیے کے بیان میں تشبیہات واستعارات کی مہارت سے فطری مناظر کونت نئے مفاہیم سے ہمکنار کردیا ہے۔بقول شبلی نعمانی:
“شاعری درحقیقت مصوری ہے۔۔۔۔ ایک درخت کی تصویر کھینچنی ہو تو کسی قسم کی تخیل اور دیدہ وری کی ضرورت نہیں، ٹہنیاں، پھل، پھول، پتے سب سامنے ہیں اور ہر شخض ان کو محسوس کرسکتا ہے۔ لیکن رنج ، غم، جوش، محبت، غیظ، بیقراری، بیتابی، مسرت، خوشی، محسوس اور مادی چیزیں نہیں ہیں، آنکھ ان کو محسوس نہیں کرسکتی، البتہ دل پر ان کا اثر ہوتاہے۔ لیکن یہ اثر سب پر یکساں نہیں ہوتا، اس لیے ان کی ہو بہو اور اصلی تصویر اتارنا مشکل ہے۔میر انیس کا اصل جوہر یہیں پر کھلتاہے۔۔۔۔۔۔میر انیس کے مرثیوں میں نہایت کثرت سے ان جذبات کا اور ان کے مختلف مدارج کا ذکر ہے، لیکن جس جگہ جس چیز کو لیا ہے اس کمال کے ساتھ اس کی تصویر کھینچی ہے کہ پورا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھرجاتاہے۔”[1]1
انیس کی انھیں خصائص کا ذکر کرتے ہوئے مسیح الزماں لکھتے ہیں:
”انیس کے مرثیوں میں انسانی برتاؤ اور جذباتی ردعمل کے مختلف النوع نمونے نظر آتے ہیں، غم، خوشی، شجاعت کے سادہ جذبات بھی ملیں گے جو دوسرے شعرا کے یہاں بھی کامیابی سے پیش کیے گئے ہیں، لیکن جب ان جذبات میں مختلف احساسات کی کشمکش رونما ہوتی ہے یعنی کہیں محبت اور حیا کہیں غصہ، شجاعت، پاس ادب، کہیں فرض ومحبت آپس میں دست وگریباں نظر آتے ہیں تو انیس کی مہارت کا قائل ہونا پڑتاہے کہ ان ملے جلے جذبات کی تصویر کتنی کامیابی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔”[2]2
مختصر یہ کہ اردو میں مرثیے کی روایت اگر چہ عربی اور فارسی زبانوں میں قدیم رہی ہے اور وہیں سے اردو زبان میں منتقل ہوئی، لیکن مرثیے کو جو ترقی اردو زبان میں حاصل ہوئی وہ کسی اور زبان کے مراثی کو حاصل نہیں ہوئی۔اسی طرح شخصی مراثی کی مثالیں اردو زبان میں بھی ملتی ہیں لیکن کربلائی مراثی کو جو وقعت میسر ہوئی وہ شخصی مراثی کو نہیں ملی ۔اردو مرثیہ گویوں کی ایک طویل فہرست ہے ان سب میں انیس ودبیر کے مراثی کو جو مقام حاصل ہوا وہ کسی اور کو نہیں ملا۔ انیس ودبیر کے موازنے میں شبلی نعمانی اور زیادہ تر علما کی رائے یہی ہے کہ انیس کو مرثیہ گوئی کے باب میں اولیت حاصل ہے ،جبکہ بعض لوگوں کاماننا ہے کہ دبیر کو انیس پر اولیت حاصل ہے ۔جب کہ دونوں کے مطالعے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ شاعر ہیں اور دونوں کو اپنےدورمیں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ ہاں انیس کے الفاظ کی سادگی،ندرت ، روز مرہ ، محاورہ اورعوامی زبان کے استعمال نے انھیں مرثیے کے باب میں زندہ وتابندہ کردیا ۔
عبدالرحمن
- 209/16 ShaheenBagh
Jamia Nagar Okhla New Delhi.110025
999.552498
Email: rahman11007@gmail.com
Leave a Reply
2 Comments on "مرثیے کی روایت اور انیس کی مرثیہ نگاری"