نظریہ پس نوآبادیت اور اکبر الٰہ آبادی

محمد امان اللہ خان                                                                           

ریسرچ اسکالر                                                                                 

وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون  سائنس و ٹیکنالوجی اسلام آباد                                                                                                                      khan.maliklalian@gmail.com

   +923002594747

Abstract:

Colonialism is strictly referred to the policies and Methods by an Imperial Power maintained and extended its control over the territories or People.A policy of extending a Country’s Power and influence through diplomacy or military. It also affects the literature of the Subject Country which is controlled by the colonialist. This Article Present an analysis of Post Colonial effects on Akbar Elah Abadi’s Urdu Poem

Key Words:

مزاحمت          ۔        شہر آشوب۔      نوحہ۔   خان بہادر۔       لسان العصر۔      تہذیب کا کھوکھلا پن

مزاحمت ہمارے ادب میں رچی بسی ہے اس طرح کہ اردو ادب کا آغاز جس دور میں ہوا وہ سیاسی انحطاط او رمعاشرتی، معاشی، اقتصادی، تہذیب و ثقافتی زوال کا دور تھا۔ اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز ہی سے اس زوال کی ابتدا ہوگئی تھی او ریہ زوال بنیادی طور پر سیاسی انحطاط کا ہی نتیجہ تھا۔ سیاسی زوال کی تاریخ میں 1857 ء ایک مرکزی نقطہ تھا۔ یہ ایک ایسے تاریک باب کا آغاز تھا جس کے نتیجے میں ایک طرف طویل مسلم دور کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تو دوسری طرف غلامی کا ایک طویل سلسلہ کا آغاز بھی ہوگیا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ شکست صرف ایک سطح پر ہی نہیں ہوتی، اس کا اثر جغرافیائی سطح کے ساتھ خارجی اور داخلی رویوں پر بھی ہوتا ہے۔ جغرافیائی شکست کے مرحلہ میں دشمن کا قبضہ زمین پر ہوتا ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کے اثرات پوری زندگی کے اجتماعی شعور پر بھی ہوتے ہیں اس طرح مفتوحہ علاقے جہاں خارجی طور پر بل کہ داخلی سطح پر بھی قابو میں ہو جاتے ہیں۔ انگریزوں نے جہاں تشدد او رظلم کے سہارے اپنی حکومت قائم کی وہاں مقامی آبادی کے سیاسی، سماجی، فکری، تعلیمی، تہذیبی وثقافتی رویوں پر اپنی گرفت اس طرح مضبوط کی کہ مقامی آبادی کو معاشی و معاشرتی او رسیاسی پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اپنے اس تسلط کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے برصغیر کے لوگوں کی عموماً اور مسلمانوں کی خصوصاً فکری ادبی اور ثقافتی اقدار پر جدید تکنیک سے اس طرح حملہ کیا کہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔1857ء کی خون آلود شام کے ختم ہوتے ہی ایک نئی صبح کا آغاز ہوا۔ کل تک کے صاحب اقتدار زندگی کی عام ضرورتوں کے لیے بھی ترس گئے محتاجی و اقتصادی صورت حال معاشی استحصال کی بلندیوں کو چھو گئی جس کے سبب فکری سطح پر ایک مجموعہ ذہنی بے چارگی کا احساس ابھرا اور یہ احساس ہی پس نوآبادیاتی اثر تھا۔ جس کو نہ صرف مختلف شعرا و ادبا نے محسوس کیا جس کو اپنے تئیں اپنی اپنی اصناف ادب کا حصہ بنایا۔ یہ صورت حال اس دور کا نوحہ بن کر اپنی پہچان کراتی ہے۔ اس عہد کے شعرا نے اس زوال کو نہ صرف المیاتی انداز سے پیش کیا بل کہ اس کی گہرائیوں میں جا کر تجزیہ کرنے کی کوشش کی اس دو رکی اردو شاعری پر اس الم ناک اور کرب کی گہری چھاپ ہے یہی حال چلتے چلتے تقسیم ہند او ربعد از اں تقسیم پاکستان کی صورت حال پر ملتا ہے۔اس ساری صورت حال نے جس طرح سیاسی و ثقافتی سطح کو متاثر کیا اس کے اثرات اس دور کی پوری شاعری پر محسوس ہوتا ہے۔ اس حوالہ سے لکھے جانے والے شہر آشوب خاص جونا جی، سودا، منیر شاہ حاتم اوردیگر شعرا اپنے دور کی بد حالی او رزوال کی داستان سناتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مستقبل کے خدشات اورڈر بھی ملتے ہیں۔

            1857ء سے1900 ء تک کے درمیانی عرصہ کا جائزہ لیں تو دو نمایاں رجحانات سامنے آتے ہیں۔ ایک یاسیت اورآہ بکا کی منتشر لہریں جن کے درمیان کہیں کہیں جذبہ جہاد کی کمزور سی صورت بھی موجود ہے اور اس حوالے سے مذہبی اصلاح کاروں کی کاوش۔ دوسرا رجحان مقصدیت کا جوش و خروش، دبستان سر سید اور ان کے متبعین کے حوالے سے سامنے آتا ہے۔ انجمن پنجاب کی کاوشیں ان دونوں رجحانات کے درمیان ایک راستے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اردو نظم میں یہ رجحانات بڑے نمایاں ہیں۔ اردو نظم میں اس دور کے شعرا میں حالی ؔ، آزاد ؔ، اسماعیل میرٹھی ؔ او راکبر الہٰ آبادی نے نہ صرف اپنی شاعری کے سبب وقت کے دھارے آگے رکاوٹ ڈالی بل کہ مسلمانوں کو اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے اپنی ممکنہ تگ و دو کی ایک نئی لہر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مسائل کوتسخیر کرنے کا عزم او رحوصلہ دینے کے لیے اکبر الہٰ آبادی کے بعد جو دوسرا بڑا نام سامنے آتا ہے وہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا ہے۔

اکبر الہٰ آبادی

            اکبر الہٰ آبادی وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے انگریز سامراج کے نو آبادیاتی نظام کے خلاف آواز حق اٹھائی جو بظاہر طنز او رمزاح کے روپ میں تھی دراصل وہ نو آبادیاتی نظام کے ظلم و استحصال کے خلاف ایک پکار تھی۔ اکبر الٰہ آبادی کا مختصر سوانحی خاکہ ذیل میں دیا جاتا ہے۔

“اصل نام:                                               سید اکبر حسین

قلمی نام:                                                    اکبر الہٰ آبادی

تخلص :                                                      اکبر

والد محترم:                                                سید تفضل حسین رضوی

خاندانی شناختی حوالہ:                                  رضوی / سید

جائے پیدائش :                                          بارہ ، الہ آباد، بھارت

تاریخ پیدائش :                                          اکتوبر 1845ء

ابتدائی تعلیم :                                             گھر پر ہی حاصل کی

اساتذہ گرامی :                                           والد محترم او رمولوی محمد فاروق

ابتدائی تعلیمی ادارہ      :                               مشن سکول، الہ آباد

پہلا منصب :                                              ایسٹ انڈیا ریلوے میں معمولی ملازمت

آخری منصب :                                          سیشن جج

خطابات     :                                               خان بہادر، لسان العصر

مرغوب اصناف :                                       قطعات، غزلیات

وجہ شہرت :                                               اصلاحی و مقصدی ظریفانہ شاعری

وفات :                                                      ۹ستمبر1921ء

تخلیقی یادگار:                                             کلیات اکبر۔……”       (1)

            برصغیر پاک و ہند کے اردو دان طبقے جس میں علماء، ادباء، شعرا، نقاد، سوانح نگار، مبصرین او رمعروف تذکرہ نگار شامل ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی کو شاعر بے بدل قرار دے چکے ہیں۔ صاحبان فن او رارباب نقد و نظر کی رائے میں ہندوستان کی تاریخ میں اکبر جیسا کوئی دوسرا پیش نہیں کر سکتے۔اکبر الہٰ آبادی فن و فکر کے اعتبار سے سے اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی شاعری میں استحصال زدہ روایات و اقدار او رنام نہاد روشن خیالی کی مذمت او رجدید روایات کو قدامت پسند ی بنا دیے جانے کا المیہ او ر انسانیت کی تذلیل کا نوحہ جابجا ملتا ہے۔ سرسید احمد خان کی تعلیمی و اصلاحاتی تحاریک کے رد عمل کے طور پر جو لوگ اپنی قدیم او ر دیرینہ روایات کی پاسداری کیلیے فکری و عملی محاذ پر ڈٹ گئے تھے ان میں اکبر الہٰ آبادی کا نام سرفہرست ہے۔ اکبر الہٰ آبادی کے زندگی کے حالات و واقعات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ تعلیم یا جدید تعلیم کے بالکل مخالف نہ تھے۔ چوں کہ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، گیارہ سال کی عمر میں سکول گئے لیکن تنگ دستی کے سبب ایک سال بعد ہی سکول چھوڑ دیا بعد میں انگریزی، فارسی اور عربی سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد ان زبانوں کی کتب کا مطالعہ کیا، ریاضی او رحساب جیسے مضامین اپنی ذاتی کاوش اورمحنت سے سیکھے۔ انگریزی زبان بھی اپنی مدد آپ کے تحت سیکھی او رپڑھی۔ اس سارے عمل میں اکبر الہٰ آبادی کی طرف سے سرسید احمد خاں کی تحاریک، انگریزی زبان پڑھنے کی ترغیب او رجدید علوم کی طرف مسلمانوں کی نئی نسل کے رجحانات کی مخالفت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اکبر دراصل نئے تہذیبی رجحانات کے نقاد کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ایسے رجحانات کے نقاد جو ان کی اپنی مقامی تہذیب کو کھوکھلا کر کے نئی نسل کو گمراہ کرنے، دین سے دور کرنے، اسلاف سے لا علمی برتنے او راغیار کی اندھی تقلید کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو روحانی زندگی سے نکال کر مادہ پرستی او رمصنوعی زندگی کی طرف لے جاتے ہیں ایسے رجحانات کے اکبر بے رحم نقاد تھے او راپنی مقامی تہذیب کے دفاع میں اپنی استطاعت کے مطابق ڈٹ گئے تھے۔ تہذیبی تصادم کے نظریے کے مطابق تہذیبی و ثقافتی بالا دستی قائم کرنے، تجارتی و عسکری مقاصد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و اقتصادی غلبے کے لیے استعماریت کے جن ہتھ کنڈوں کو آج کی دنیا میں استعمال کیا جا رہا ہے ان کے حوالے سے اکبر الہٰ آبادی کے کلام میں سینکڑوں اشعار رہنمائی فراہم کرتے ملتے ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی کے مطابق مثبت تبدیلی ہمیشہ کسی بھی قوم اور اس کی تہذیب کے اندر سے پھوٹتی ہے اور بتدریج جدت کی طرف افراد و قوم کی رہنمائی کرتی ہے۔ وہ تبدیلی جو باہر سے اچانک مسلط کر دی جائے وہ تہذیبی حملے کے مترادف ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کے اغراض و مقاصد عموماً سیاسی مفادات سے ہوتے ہوئے سماجی، معاشرتی، معاشی، تہذیبی و ثقافتی، نفسیاتی او رتعلیمی سطوحات تک جا پہنچتے ہیں۔ ان حالات و واقعات کے تناظر میں ہمیں آج ایک بار پھر رجوع کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

            اکبر الہٰ آبادی کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اکبر نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز ایسٹ انڈیا ریلوے میں پندرہ روپے ماہانہ پر معمولی سی نوکری سے کیا او ر ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے سیشن جج کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ڈ ہوئے۔ حکومت برطانیہ کی طرف سے “21 مئی1898ء کو آپ کو خان بہادر (2)کا خطاب ملا۔ اور”21 اکتوبر1910ء”  (3)  کو آپ کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ اس حادثے کو ابھی بھول ہی نہ پائے تھے کہ”5 جون 1913ء کو آپ کا بیٹا ہاشم 13 برس کی عمر میں فوت ہوگیا  (4) یکے بعد دیگرے ان دو حادثوں نے جیسے آپ کی جان ہی لے لی۔ پھر صحت جواب دے گئی، کئی امراض غالب آگئیں، عمر کے یہ چند آخری سال انتہائی مایوسی او رغم زدہ حالت گزارے۔ بالآخر “9 ستمبر 1921ء”(5) کے دن اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

            اکبر الہٰ آبادی کی شہرت کا انحصار ان کی طنزیہ او رظریفانہ شاعری پر تھا۔سرکاری ملازم ہونے کے ناطے ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ انگریزوں کی کھلم کھلا مخالفت کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے مزاحیہ اور طنزیہ طرز شاعری کو اختیار کیا۔ اس طرز کو اختیار کرتے ہوئے اپنی شاعری کے ذریعے مغربی تہذیب و ثقافت پر بھرپور انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا۔

            وہ انگریز جو برصغیر پاک و ہند میں تجارت کی غرض سے داخل ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ موقع پرستی کرتے ہوئے بالآخر تاج وری لے اڑے او رکم و بیش نوے سال کی حکومت کی۔ اس دورانیے میں اپنی محکوم قوم کی تربیت کے لیے اپنا نظام تعلیم بھی رائج کیا۔ اس نظام تعلیم کا بنیادی مقصد ایسے طلبا کی کھیپ تیار کرنا تھا جو رنگ، نسل اورلب و لہجہ کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں مگر اخلاقی و فکری اعتبار سے انگریز۔ انگریزوں نے بھرپور پر اپیگنڈے کا استعمال کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ وہ ہی صرف ہندوستان کی تعمیر و ترقی او رخوش حالی کے ذمہ دار ہیں۔ حالاں کہ حقیقت بالکل برعکس تھی۔ ہندوستان کی لوٹ انگلستان کی خوش حالی کا سبب تھی۔ اکبر الہٰ آبادی مغربی تہذیب و تمدن کی تبلیغ او رتقلید پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ مغربی تہذیب مقامی عوام کو جہاں مذہب سے دور کر رہی تھی وہاں مذہب کے مقابلے میں سائنس او رفلسفے کے تابع کرنے کی بھرپور کوشش تھی۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنے ذہنوں پر مغرب کا رعب اس حد تک قائم کر چکا تھا کہ زندگی کے ہر میدان میں مغرب نقش تھا۔ اکبر الہٰ آبادی نے اس صورت حال کو مشاہدہ میں لا کر قوم کی رہ نمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔

            حکومت کو دوام بخشتے انگریز نے ایسا نظام رائج کیا جس کا مقصد صرف او رصرف مسلمانوں کے ذہنوں سے ماضی کی شان و شوکت کو ختم کرنا تھا۔ ایسے تعلیمی ادارے جن میں پڑھانے کے لیے اساتذہ یورپ سے منگوائے۔ اس نظام تعلیم کے سبب چند ہی برسوں میں لوگوں کے ذہن بدل دیے گئے۔  اکبر الہٰ آبادی مغربی تہذیب کی مخالفت اس لیے کرتے تھے کہ مغربی تعلیم نے ہندوستان میں مقامی آبادی خاص مسلمانوں کو ان کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ علمی و فکری سرمائے سے بھی دور کرنا شروع کر دیا تھا۔ مسلمان اپنے درخشاں ماضی کو بھول گئے تھے۔

            انگریز کی تعلیمی پالیسیاں او رتعلیمی نظام کے سبب جدید تعلیم سے آراستہ افراد نے اپنی تہذیب وثقافت اورمعاشرت سے بیگانگی کا اظہار کرنے لگے تھے۔ اس بیگانگی کے پیش نظر انگریزی تہذیب و معاشرت پر جان چھڑکنے لگے تھے۔ انگریزی تہذیب و تمدن کے اس حد تک مرعوب ہو چکے تھے کہ انگریزی بولنے، انگریزی طرز اپنانے، گفتگو میں یورپی مفکرین کے حوالے سے دینے والے پر فخر محسوس کرتے تھے اور ان افراد کو مہذب شمار کیا جا تاتھا۔ وہ لوگ جو انگریزی سے نابلد او رناواقف تھے ان کو ہمیشہ غیر مہذب شمار کیے جاتے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئی نسل نے اپنے آباؤا جداد کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی ٹھان چکے تھے۔ اکبرؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے مغربی تہذیب کی اس یلغار کے آگے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ قوم کے احساس دلانے کے لیے ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

مسلمانوں نے کالج کی بری کیا راہ پکڑی ہے

وہی تو اک ٹھکانہ ہے وہی اندھے کی لکڑی ہے(6)

اس زمانے میں جو دل دہر سے پھر جاتا ہے

آدمی پایہ تہذیب سے گر جاتا ہے(7)

            انگریزی تعلیم کا بنیادی مقصد لائق، ہنر مند، افراد تیار کرنا بالکل نہ تھا۔ ان کا اصل مقصد صرف او ررصرف ایسے انسان پیدا کرنا مقصود تھا جو دیکھنے میں تو ہندوستانی اور کام کے اعتبار سے انگریز ہوں۔ ان کو اپنی دفتری ضروریات پوری کرنے کے لیے مقامی آبادمی کے ایسے باشندے در کار تھے جو ان کے لیے کلر کی کا کام انجام دیں۔ اسی کے سبب انگریز نے تعلیمی ترقی کے نام پر سائنس و ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔ مغربی تہذیب نے اپنی نئی اقدار کے سبب پرانی تہذیبی اقدار پر حملہ کر کے مادہ پرستی، خود غرضی، ظاہر داری، آزاد پسندی، ناچنے گانے، گھومنے پھرنے، شرم و حیا کے پردوں کو چاک چاک کرنے کو اپنا فرض اولین سمجھا موجودہ دور کی تہذیبی وثقافتی حالت کا معائنہ کیا جائے تو آج بھی ہر طرف اسی تعلیم کا اثر نظر آئے گا۔ ہر طرف مغربی یلغار نظر آئے گی۔ وقت کی ضرورت ہے۔ کہ ہم اپنے مذہب سے رشتہ جوڑیں۔ آباؤ اجداد کی زریں روایات سے رہنمائی حاصل کریں اپنے تہذیبی و ثقافتی اقدار کو اپنائیں۔ سائنسی و فنی، تعلیمی و فکر، معاشی و معاشرتی تعلیم کو سیکھ کر ملک وقوم کی ترقی و خوش حالی میں اپنا کردار ادا کریں۔ اکبر تہذیبی وثقافتی معاشی و معاشرتی، علمی و فکری، سطح پر مشرق کو مغرب پر ترجیح دینے کے قائل ہیں وہ قطعاً انگریزی پڑھنے یا پڑھانے کے مخالف نہ تھے لیکن فارسی اور عربی کے مقابلے میں انگریزی کو قبول کرنے کو بھی تیار نہ تھے۔ اس کی مثال کچھ یوں دیتے ہیں کہ ”سید تو سارے کونسل میں چلے جائیں جب کہ جمن بے چارہ اکیلا ہی مسجد میں رہ جائے“۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا اکبر کے ہاں ماضی کی پسندیدگی، ماضی کے ادوار، عروج و زوال سب کے سب زمانی علامت کے ان کے ایمان کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک قوت تسخیر کی حدود کا امکان ماصی اوردینی اصولوں کے سبب ہی ممکن ہے۔ وہ حال سے بیزار نہیں بل کہ ان کو یہ گلہ ہے کہ ”حال“ دین کو نظر انداز کر دینے اوردین پر دنیا کو ترجیح دینے کی طرف مائل کرنے پر زور دیتا ہے۔ وہ مستقبل کی کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ ایسے مستقبل سے عاری معلوم ہوتے ہیں جو بنی نوع انسان کو محض مادی اور دنیوی خوش حالی کی ضمانت دیتا ہے۔ اکبر کے فکری شعور او رتخلیقی صلاحیتوں میں اس کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی سوچ کو بنیادبنا کر ان کی قومی، سیاسی، معاشرتی او رتہذیبی و ثقافتی شعور کو بہترین طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ حوالہ کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:

کہتے ہیں اکبر یہ تیری عقل کا کیا پھیر ہے

طبع تیری اس نئی تہذیب سے کیوں سیر ہے(8)

تہذیب کے خلاف ہے جو لائے راہ پر

            اب شاعری وہ ہے جو ابھارے گناہ پر(9)

            اکبر کی شاعری میں نو آبادیاتی اثرات پر جو طنز ملتا ہے وہ اپنی انفرادیت آپ رکھتا ہے۔ وہ اپنی پوری شاعری میں انگریز اور انگریز قوم کی ہندوستان کی حکمرانی کو عمیق نظروں سے دیکھا ہے اوراپنی شاعری میں جا بجا اس کا ذکر کیا ہے۔ ان کی شاعری اپنی انفرادیت کے اعتبار سے ذیل کے پہلو رکھتی ہے۔

۱۔         مذہب ہماری تمام ترعلمی، تہذیبی، سیاسی جدوجہد کا مرکز ہونا چاہیے۔

۲۔        خدا سے دوری اغیار کی خوشامد پر مجبورکرتی ہے۔

۳۔        تحریص و ترغیب سے حاکم قوم محکوم اقوام کو فریب دیتی ہے

۴۔        انگریزوں کی اصلاحات و مراعات بھی ان کے اپنے مفاد میں تھیں تاکہ رعایا حالت غلامی کے احساس میں مبتلا نہ رہے۔

۵۔        بحیثیت قوم ہندوستانی قوم اپنے قومی شعور اورغیرت سے عاری ہو چکی تھی اور خالی شیخی بگھاڑ کرخود کو فریب دینا چاہتا تھی۔

۶۔        قوم کے رہنما اپنے مفادات کے طلب گار تھے اورقوم کو ڈبونے کے قریب ترلانے میں اپنا کردار ادا کررہے تھے۔

۷۔        قوم کا آپس کا اتحاد ختم ہو چکا تھا جس نے غیر قوم (انگریز، نو آباد کار) کی خوشامد کا عادی بنایا۔

۹۔        اقتصادی اعتبار سے انگریزوں کی لوٹ مار کااکبر کو شدت سے احساس تھا۔

۰۱۔       اکبرؔ کا تصور ملت قوم سے بڑھ کر تھا اور وہ اسی شعور کے بانی ہیں جو کہ اقبال ؔ کے ہاں ہے۔ اقبال کے نزدیک  بھی فرد اگرملت کے احساس سے کٹ جائے تو وہ فنا ہو جاتا ہے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کے لیے پس نو آبادیاتی فکر کے پیش رو کے طور پر اکبر الہٰ آبادی سامنے ہیں۔

۱۱۔        اکبرالہٰ آبادی کے نزدیک قوم کی بنیاد و اساس مذہب ہے۔

            اکبرؔ نے سیاسی مسائل پر کھلے الفاظ میں تنقید سے گریز کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ خود سرکارِ انگریز کے ملازم تھے۔ لہٰذا اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے علامتی اور طنز و مزاح کا پیرائیہ اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی شاعری سے طنز و مزاح کا پردہ ہٹاتے ہیں تو”نو آبادیاتی نظام”کا اثرکھل کر سامنے آجاتا ہے او ریہی پس نو آبادیت ہے۔ علامتی انداز میں اکبر نے جو کچھ کہا واضح اورصاف اندا زمیں ویسا شاید ممکن ہی نہ ہوتا۔ اکبر یہ واضح اشارہ دے رہے تھے کہ انگریز اپنی پالیسیوں اوراصلاحات کے سبب ہندوستان کو اس تہذیب سے بہت لے جا رہا ہے جس تہذیب کا وجود دجلہ و فرات کے کناروں میں وجود پایا تھا۔

            اکبرؔ نے اس ظلمت و تاریکی کے دور میں رہتے ہوئے جس طرح قوم کے جذبات کی اجتماعی ترجمانی کا فریضہ انجام دیا۔ قوم کو فکری، علمی، تہذیبی و ثقافتی، معاشی و معاشرتی، مذہبی غرضیکہ ہر لحاظ سے رہ نمائی دی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ علامہ محمد اقبال نے بھی اپنی شاعری میں وہی جہت اپنائی جس کی نشان دہی ان کے پیش رو اکبر الہٰ آبادی نے کی تھی۔ اس فکری دھارے میں پیش رو ہونے کی عزت اورمقام و مرتبہ جو اکبر الہٰ آبادی کو حاصل ہے وہ مقام و مرتبہ اور جاہ و حشمت سر سید اور حالی کو بھی نہیں ہے۔ اکبر الہٰ آبادی نو آباد کاروں کو اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے زوال کا سبب گردانتے  تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بالواسطہ اوربلا واسطہ اس کا جا بہ جا اظہار کیا ہے وہ نمایاں اقدار جو اسلامی تہذیب کا حصہ ہیں۔ ان اقدار میں ضبط، اخفائے راز، حیاء، غیرت، ثبات و استقلال، عالی ظرفی، ایفائے عہد، ہر جائی نہ ہونا، عزت نفس، احترام آدمیت، صبر اور ایثار، خوف خدا، حق گوئی، حق پسندی، صداقت، روا داری، اخوت، عدل وانصاف،عجز و انکسار، خوش اخلاقی، خلوص نیت، پاکیزہ سوچ و عمل، سخاوت و احسان او رادب و احترام شامل ہیں۔

            ان اخلاقی قدروں کے برعکس منفی صورتوں کو اپنی شاعری میں جہاں تک ممکن تھا نا پسندیدہ قرار دیا۔ تکبرو غرور، خوشامد، بخل، تصنع، بناوٹ، جھوٹ، مکر و فریب، ریا کاری، حرص و ہوس، غیبت اور زمانہ سازی کدورت سب کے سب ان کے لیےناپسند تھے اور انگریز قوم میں یہ ساری خامیاں تھیں جو کمال عیاری کے ساتھ برت رہے تھے اور اس پسماندہ قوم کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنے مطلب کے لیے استعمال کررہے تھے۔

            اکبر کی شاعری موجودہ تہذیب و معاشرت پر صادق آتی ہے ان کی شاعری کو تین اشارات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

۱۔         تہذیب و معاشرت کا تعلق مذہب سے ہے۔

۲۔        ہندوستان کی تہذیب و معاشرت خاص اسلامی تہذیب کاتعلق مشرقیت سے ہے۔

۳۔        ہند اسلامی تہذیب و معاشرت کو یورپی تہذیب و معاشرت سے بے حد خطرات لاحق ہیں۔

            یہ تینوں نکات ان کی ذہنی و فکری سوچ کے ساتھ ساتھ ان کے تہذیب و ثقافت سے رشتے کو واضح کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی گہرائی کے ساتھ ہندوستان پر نو آبادیاتی اثرکو محسوس کررہے تھے۔ وہ دیکھ چکے تھے کہ 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد اسلامی تہذیب بڑی تیزی سے بدل رہی تھی۔ اکبر کو یہ اندیشہ تھا کہ ہندوستانی قوم سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت او رعلمی وفکری میدان میں بھی غلام نہ بن جائے، کیوں کہ مقامی آبادی اپنے تہذیبی و معاشرتی مرکز سے بہت پرے ہوتی جا رہی تھی۔ سوچ کی تبدیلی اپنی اصل سے دوری کا سبب بن رہی تھی جو کہ سراسر نادانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اکبر قوم کو اپنی اصل سے جڑے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ہند اسلامی تہذیب ان کے نزدیک مشرقی او رخالص تہذیب ہے۔ اسی کو وہ اپنی تہذیب بھی شمار کر تے ہیں۔ ا سکی وجہ یہ تھی کہ اس کی بنیاد اخلاص و محبت سے ماخوذ تھی۔ نوآبادکارنے اس مقامی تہذیب و ثقافت کے لیے خارجی حالات کو ایک نئے رنگ میں پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اس نئے دور کے آجانے سے مقامی آبادی میں اخلاص و محبت کی جگہ ریا کاری، او رمفاد پرستی نے لے لی۔ ایثار و قربانی کی جگہ توقعات اورمفاد آبسے۔ لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد کو بھول گئے او ررسماً مزاج پُرسی کا طریقہ رائج ہوا۔

            نو آبادیاتی اثر نے بڑی کامیابی کے ساتھ مقامی آبادی کے مزاج، معیار، سوچ، اخلاق او رطبیعت کے ساتھ ساتھ اخلاص کو بھی بدل دیا۔ جہاں ان کے سوچنے کا انداز بدلا وہاں ہی وہ اس خوبی سے بھی بے بہرہ ہوگئے کہ دوست اوردشمن کی پہچان کر سکیں انگریز جو کمال عیاری کے ساتھ مقامی آبادی کو پسنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہا تھا اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کوذہنی طور پر اتنا غلام بنا چکا تھا کہ اپنے خلاف کوئی ہرزہ سرائی برداشت نہ تھی۔ ان حالات کی یلغار کےآگے بند باندھنے کے لیے اکبر اپنی اس پسماندہ اورپسی ہوئی قوم کو داخلی شخصیت کی روشنی کو بحال رکھتے ہوئے، اجتماعی سطح پر اپنے بنیادی افکار سے منسلک رہنے، اپنی اصل سے جڑے رہنے، اور اپنے مرکز پر قائم رہتے ہوئے خارجی تبدیلیوں کو اہمیت نہ دینے کا مشورہ دیتے ہیں چوں کہ تبدیلی کا عمل خارج میں واقع ہوتا ہے تو اکبر قوم کو اپنی نظر آسمان کی طرف رکھنے کی صلاح دیتے ہیں تاکہ داخل سے ربط رہ سکے اور داخل کا ربط اللہ سے ہے جو وہ ہستی ہے جو ہر تغیر سے پاک ہے۔

چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا

شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا

چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ

            کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر،خوشی سے پھول جا(10)

            اکبر الہٰ آبادی نے مغربی تہذیب و ثقافت کی اس یلغار اور اس کے مؤثر مظاہر و عوامل کی بھیڑ او رترغیبات کے شوروغل میں مشرقی اسلامی تہذیب و ثقافت او رعلمی و فکری سوچ اور رجحانات کو زندہ رکھنے کے لیے یہی ترکیب استعمال کی کہ انفرادی او راجتماعی سطح پر اگر اپنے وجود کو قائم رکھنا ہے تو مسلمان قوم خاص اور جملہ ہندوستان کی عوام بطور عام اپنے مرکز سے وابستہ رہیں۔ وجود کا مرکز رب العزت کی ذاتِ بابرکت ہے او راس ذات سے اگر رشتہ قائم ہے تو وجود بھی قائم ہے۔ خدا پاک سے بڑھ کر نہ تو کوئی مضبوط سہارا ہے اور نہ ہی کوئی رشتہ۔ اکبر الہٰ آبادی انگریز نوآبادکاروں کو سیلاب سے تشبیہ دیتے ہیں اور سیلاب آتے ہیں گزر جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو مضبوط سہاروں کو تھام لیتے ہیں سلامت رہتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے چکی کے دو پاٹوں میں پسنے والوں دانوں میں وہی سلامت رہتے ہیں جو مرکز کے آس پاس رہتے ہیں۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ سیلاب آکر گزر جائیں تو نشان ضرور چھوڑ دیتے ہیں اوریہی نشانات ”پس نو آبادیت“ ہیں جو آج تک بحیثیت قوم ہم پر نمایاں ہیں۔

            زندہ قومیں کبھی اپنے اسلاف کو فراموش نہیں کرتیں۔ مسلمان قوم کے ذہنوں پر انگریزی تسلط کا جو اثر قائم ہوگیا تھا اس کو زائل کرنے میں اکبر الہٰ الہ آبادی نے اپنی کاوش کی ہے۔ وہ گرد جو ہمارے ذہن و قلب او رسوچ و افکار پر جم گئی اس کو جھاڑنے کے لیے اکبر کی شاعری آب حیات کا کام انجام دیتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی اس گرد کو صاف کرنے کے لیے جتنی ضرورت اکبر کے اپنے زمانہ میں بھی آج اس سے کہیں بڑھ کر ضرورت ہے۔ اکبر کی شاعری ایک مشعل راہ کا کام انجام دیتی ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے ہم اپنے قومی شعور، پاکیزہ مسلم تہذیب و ثقافت، شاندار تمدنی اقداروافکار، رسوم و رواج، اعلیٰ عادات و اطوار، عظمت رفتہ و گزشتہ او ربلند اخلاقی فضائل سے بھرپور مزین زندگی کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں، شخصیت، معاشرہ او رملک و قوم کی تکمیل کے لیے درج بالا عناصر کو انفرادی او راجتماعی دونوں محاذ سے پیدا کرنا از حد ضروری ہے۔ آج اخلاقی گراوٹ او رتہذیبی زبوں حالی کا دور دورہ ہے مغرب ایک بار پھر مشرق پر چڑھ دوڑا ہے۔ اسلامی تہذیب وثقافت اور اخلاق و اقدار کا حلیہ بگاڑ نے کی بھرپور سعی ہے۔ نئی او رمہلک صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ اکبر کے دور میں بھی ایسی ہی ابتر صورت موجود تھی۔ اکبر اس صورت حال کو دیکھ کر خود بھی تڑپتے تھے اور قوم کو بھی جگانے کے لیے بھرپور کوشش کی۔ آج بھی اکبر کے پیغام کو پھیلانے او راس کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے قطعات قومی درد، قومی شعور اور قومی احساس کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی مقصدی و اصلاحی شاعری کے کئی ایک پہلو ایسی تخلیقات فراہم کرتے ہیں جو ان کے نظریات سے ہٹ کر ان کی فنی و تخلیقی او ربلندی فکر کو واضح کرتے ہیں:

تم شوق کالج میں پھلو، پارک میں پھولو

جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو

            بس ایک سخن بندہ عاجز کا رہے یاد

                        اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو (11)

اکبر الہٰ آبادی کے حوالہ سے حاصل کلام یہ نکات ہیں:

1۔        اکبرؔ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے بدلتے ہوئے زمانی حالات کو اپنے تہذیبی وثقافتی اقدار کے لیے بنیادی خطرہ محسوس کر لیا تھا۔

2۔         انگریزی تعلیم و ترقی کو انگریزی سامراج کے لیے ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر سب سے پہلے سمجھا۔ اس حوالہ سے مہاتما گاندھی1869 ء اور اقبال 1877ء بھی ان سے بعد کے ہیں۔

3۔        اکبرؔ ملک کی غلامی کے خلاف نہ تھے بل کہ وہ نو آبادیاتی نظام کے شدید مخالف تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو نوآبادیاتی نظام کا جزو لاینفک سمجھتے تھے۔

4۔        اکبرؔ اقبال او رمہاتما گاندھی سے مغربی تہذیب اور تعلیم کی تفہیم کے حوالہ سے اولیت رکھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں نے مغرب کی تہذیب او رتعلیم کو براہ راست او ربہت قریب سے دیکھا تھا لیکن اکبر الہ آبادی ملک سے باہر گئےبغیر ہی مغربی تعلیم او رتہذیب کی علامتوں اور مضمرات کو نہ صرف سمجھا بل کہ قوم کے سامنے پیش بھی کیا۔

5۔        مغربی تہذیب وثقافت، تعلیم و فکر او رنظریاتی اقدار کی مخالفت اکبر کے ہاں ایک مکمل نظام کی صورت میں موجود ہے۔

6۔        اکبر نے نو آبادیاتی نظام تعلیم کو انسانیت کی روح اور حق و باطل کے فرق کو سمجھنے کے لیے ننگی تلوار سمجھتا ہے۔ وہ اس نظام تعلیم کو ایک بے ذہن کے مشین Mindless Machine سے تشبیہ دیتا ہے جو ہندوستانی قوم پر مسلط کر دی گئی۔

7۔        اکبر مختلف اشیاء کو نو آبادیاتی سامراج او رنطام حکومت کے لیے طاقت اور قوت کا سر چشمہ تصور کرتا ہے۔ جیسا کہ “انجن’ استعارہ ہے نو آبادیاتی نظام کی طاقت کا جب کہ “دین” مشرقی روحانیت کا استعارہ قرار پاتا ہے لفظ “خالی”اور “بھاپ” وغیرہ بھی استعارے ہیں “خالی” سے مراد ایسی زمین جو تباہ ہونے کے بعد خالی ہو جاتی ہے او ر”بھاپ”ایٹم بم کی وجہ سے پیدا ہونے والے وہ صورت حال ہے جو بھاپ نما ہو کر ہوا میں ہر چیز کو شامل کر دیتی ہے۔

            اسی طرح “روح کی رہ مستقیم”کی اصطلاح استعمال کر کے روح، عقل اور ان دونوں کے تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جدید تعلیم نے ان دونوں کے سبب ہندوستانی قوم کو مغربی قوم کے اصولوں کا غلام بنا دیا تھا۔

8۔        اکبر جدید تعلیم او رقدیم تعلیم کے نتائج سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک قدیم تعلیم انسان کو “حکمت”سکھانے کے بعد “اوج کمال” پر پہنچا دیتی ہے۔ جب کہ جدید تعلیم “بازار کا مال” بناتی ہے او رصرف کلرکی کرنے او ر سرکار کا نوکر بناتی ہے جدید تعلیم حقیقت او رمعنویت سے خالی ہے۔

9۔        اکبر اس کھوئی ہوئی شناخت کو بحال کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں جو انگریزسامراج او رنو آبادیاتی نظام تعلیم نے ہندوستانی قوم سے چھین لی ہے۔ اکبر اس صورت حال کا واضہ حال بتاتے ہیں جو شناخت کے حوالہ سے پیدا ہوئی ہندوستانی قوم نو آبادکاروں کے رنگ میں اتنا رنگ گئی کہ اسے اپنی شناخت تصور کرنے لگے۔ عام زبان میں اس صورت حال کے لیے Stock home syndrome کی اصطلاح مستعمل ہوتی ہے جس میں کوئی محبوس یا مجبور شخص اپنے پر ظلم کرنے والے انسان کے رنگ میں ہی رنگ جاتا ہے او رخود کو اس کا ایک حصہ فرض کر لیتا ہے۔ یہی صورت حال بحیثیت قوم ہماری ہے کہ مغربی اقوام مل کر تیسری دنیا (کم تر صورت حال، معیشت، کم زور ممالک و اقوام) کا استحصال کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑرکھی ہے جب کہ یہ اسی تیسری دنیا کے باشندے انہیں مغربی اقوام کی تقلید میں مرے جا رہے ہیں۔

10۔     محکوم قوم کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود کو حاکم قوم سے ہم آہنگ کرلے۔ دوسرے لفظوں میں نو آبادیاتی حاکم اور سامراج اپنے محکوم کے جسم او رروح دونوں کو اپنے تخریبی رنگ میں رنگنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ دونوں کے اس اتحاد کی ایک صورت نوکر شاہی ہے۔ اس نوکر شاہی میں محکوم اپنے مالک کی طاقت کو مستحکم کرکے اپنے سے کم تر لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتا ہے۔

11۔     اکبر نے جدید استعماری نظام ”گلوبلائزیشن اور ”سرمایہ دارانہ نظام“ کے پھیلاؤ کو اس نئے نظام کے ہتھیار شمار کیا ہے۔ ان کی یہ فکری شوچ ان کو اپنے سے بعد میں آنے والے زمانے کا پیش گو کہلواتی ہے۔

اکبر کے ہاں جو چند علامتیں ہیں وہ ذیل میں ہیں:

            شیخ، جمن، بدھو، شہر، کیمپ، توپ، انجن، بسولا، اصطبل، پرانا شہر، مکڑی، پروفیسر، کلہاڑی، مال گاڑی، بھینس، بین، صاحب، بابو، برگیڈ Brigade وغیرہ

            ان تمام الفاظ کو ان کی شاعری میں بہ طور علامت کے لیے جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ یہ تمام علامتیں نوآبادیاتی نظام کے لیے استعمال ہوئیں ہیں۔ اکبر نے کمال خوب صورتی سے ان علامتوں کو طنزیہ انداز دے کر ان کی معنویت کو بڑے احسن اندا زمیں قاری او رسامعین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اکبر نے انہیں علامتوں کے پیش نظر حکمران نوآباد کاروں او رمحکوم طبقہ (مقامی آبادی) کے درمیان فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ فرق جو آج بھی Status-co کے زمرے میں آتا ہے جس کو معاشرہ کا ہر فرد او رہر طبقہ بخوبی دیکھتا بھی ہے اورسمجھتا بھی ہے۔

حوالہ جات:

1۔           رانا، خضر سلطان، مرتب “کلیات اکبر” اکبر الہ آبادی، لاہور، بک ٹاک ٹمپل روڈ،2012ء، ص 3

2۔           ایضاً، ج  ا،ص 7

3۔           ایضاً

4۔             ایضاً، ص8

5۔             ایضاً

6۔             ایضاً، ص468

7۔             ایضاً، ص484

8۔             ایضاً، ص547

9۔             ایضاً، ص571

10۔          ایضاً

11۔            رانا، خضر سلطان، مرتب “کلیات اکبر” جلد دوم، اکبر الہ آبادی، لاہور، بک ٹاک ٹمپل روڈ،2012 ء، ص33

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.