جدیداردو افسانہ کے تجربات پر ایک نظر
شاہدحُسین
رسیرچ اسکالر، سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
اُردو افسانہ آغا ز سے لیکر موجودہ دور تک نت نئے نئے تجربات کرتا ہوا اپنی منزل کی طرف گامزن رہا ہے۔ اُردو افسانہ ان تجربات سے ہوکر اپنی شناخت اور وُسعت میں زیادہ اضافہ حاصل کرتا گیااورا ن ہی تجربات کی بنا پر اُردو افسانے کو مختلف زمانے میں مختلف ناموں سے تقسیم بندی کی گئی۔ اُردو افسانے کو آغاز سے لیکر ترقی پسند تحریک کاسفر طے کرکے جدید دور تک بہت سارے تجربات کا سامنا کرناپڑا اگر دیکھاجائے اُردو افسانہ تجربات کامرکزبناہوانظر آتاہے اور آج بھی اُردو افسانے کو مختلف تجربوں سے ہوکر گذرنا پڑتا ہے ۔ہر زمانے کافکشن ، حالات، مسائل ،موضع ،تکنیک، اسلوب ، کردار ، زبان ، بیان، فن اورفکشن نگار وغیرہ مختلف نظر آتاہے ۔اتنی کم مدّت میں اُردو افسانے میں یہ تبدیلیاں آئی یہ افسانے کی وُسعت کی دلیل کو دھراتا ہے کہ ہر زمانے میںمختلف فکشن نگار نئے نئے تجربات ،چاہیے وہ موضوع ، مسائل، تکنیک ،اسلوب، کردار ،زبان و بیان اور فن وغیرہ کے اعتبار سے کیوں نہ ہوں ۔یہ تجربات اُردو افسانے میں لازم وملزوم نظر آتے ہیں ۔ اُردو افسانے پر اگر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو ہمارا افسانوی ادب درخشان ستارہ کی طرح تابناک نظر آتاہے۔شروع سے ہی اُردو افسانے میں مختلف قسم کے افسانے تخلیق ہوئے ۔جو زمانے اور حالات کے عین مطابق افسانہ نگاروںنے تخلیق کئے ۔اسی وجہ سے اُردو افسانہ کبھی رومانی افسانہ ، کبھی حقیقی افسانہ،کبھی نفسیاتی افسانہ، کبھی ترقی پسند افسانہ، کبھی تقسیم ہند کا افسانہ، کبھی جدید دور کاافسانہ،کبھی ما بعد جدیددورکاافسانہ ،کبھی نیا افسانہ اورکبھی ہم عصرافسانہ کے مختلف ناموںسے تعبیر کیا جانے لگا۔آج ہمیں یہ احساس ہوتاہے کہ یہ نام اُردو افسانہ کے لیے لاز م و ملزوم نظر آتے ہیں۔اور افسانوی ادب میں یہ نام اُردو افسانہ کی پہچان بن کراُبھرے ہیں۔پروفیسر خو رشید احمد اپنی کتاب ’’جدید اُردو افسانہ‘‘ میں لکھتے ہیں
’’کہ افسانہ کوئی جدمد یا سنگ بستہ صنف نہیں ہے ۔ اس میں تجربہ ،تبدیلی اور اضانہ کو قبول کرنے کی بھر پور صلاحیت موجودہے‘‘ ۔ ۱؎
جدیدیت کے دور نے جہاں سارے ادب کو اثر انداز کیا۔ وہاں اردو افسانہ بھی اثر انداز ہواہے ۔ جدیدیت نے اردو افسانہ کو نئے موضوع، نئے مسائل ،نئی تکنیک،،نیا اسلوب،نئے کرداد،نئی زبان ،نیا فن،نئے تجربات، اور نئے افسانہ نگار عطا کیئں وہاں اردو افسانہ کو جدید نام(جدید افسانہ) سے منسوب کر دیا۔جد یدیت نام ہے پرانی روایت سے انحراف اور نئی در آنے والے روایت کی پیروی کرنا ہے ۔غرض جدیدیت ان ہی تبدیلوں کا نام ہے جس کا ٓغاز اردو ادب ۱۹۵۵ ء ۱۹۶۰ء کے آس پاس ہوا۔ ۱۹۶۰ء کے بعد اُردو افسانے میں نئی فکر اور نئے احساس کی ترجمانی ملتی ہے۔ ان افسانوں میں پریم چند اور ترقی پسند افسانہ نگاروں کی حقیقت نگاری سے انحراف اور آدرشوں کے باطل ہونے کی مایوسی ملتی ہے ۔ افسانے کا اسٹرکچر پوری طرح توڑ دیا گیا۔ کہانی سے انحراف ، پلاٹ ،کردار ، آغاز، انجام اور وحدت ثلاثہ اور ربط ضروری نہیں سمجھا گیا۔ زماں و مکاں کا ماورائی تصور اور انسان کا بعد الطبیعاتی تصور پیش کیا گیا۔ زبان کی شکست و ریخت اور شخص علامات کا استعمال کیا جانے لگا ۔ ہندی ، ریاضیاتی اور علمی اشکال کے استعمال کی کوشش کی گئی۔ انور سجاد ، بلراج مین را، سریندر پرکاش اور احمد ہمیش نے افسانے کے اسٹرکچر کو بالکل بدل کر رکھا دیا۔ نئے تجربات کیے ، نیا پیرایۂ اظہار وضع کیا۔لسانی سطح پر بھی شکست و ریخت کے عمل کو روا رکھا ۔ اور ایک نیا اسٹرکچر فراہم کیا۔ یہ افسانہ ترقی پسند افسانے سے مختلف تھا۔ وہ انسان کی خارجی زندگی کا سیدھا سادہ بیان نہ ہو کر انسان کے ظاہر و باطن کا امتزاج پیش کرتاہے ۔یہ افسانہ کوئی سماجی حل پیش نہیں کرتاصرف سماجی صورت حال کو سامنے لاتاہے ۔ افسانہ نگار کسی خاص نظریے یا مقصد کے حصول کے تحت افسانہ نہیں لکھتے ۔ معمول سے الگ کوئی انوکھی یا سنسنی خیز بات کہہ کر یا کوئی غیر متوقع انجام پیدا کرکے قاری کو حیران کرتاہے۔ افسانہ میں غیر ضروری تفصیلات سے گریز کیاگیا ۔ حقیقت کو نظر انداز کرکے اس کو ماورائے حقیقت بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے لیے ایسا اسلوب منتخب کیا گیا جو داستانوی ، خواب نویسی جیساہو۔ اس کے لیے بیان کی منطقی تسلسل کو جوڑ کر پیش کیاجانے لگا۔ شہروں کے نام نہیں لکھے گئے تاکہ افسانہ میں مقامی رنگ نہ آنے پائے۔ کرداروں کی جگہ ا، ب ، ج یا پھر اس کے صفات معمر آدمی ، سرخ بالوں والا، نجات دہندہ استعمال کیے جانے لگے۔جدید افسانے کو اس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ داستانوی ، علامتی ، تجریدی دستانوی فضا میں حکایتی اسلوب کو بروئے کار لاکر اسطور اور دیو مالائی کہانیوں کے ذریعہ کسی عصر واقعے کو بیان کیا جاتاہے ۔علامتی اظہار کے ذریعہ شعوری اور نیم شعوری رشتوں کو اُبھار کر افسانہ نگار معنوی تہہ داری پید اکرتاہے ۔ جدید افسانے کے وجود واسباب کے بارے میں صبااکرام نے اپنے کتاب ’’جدید افسانہ چند صورتیں ‘‘میںلکھتے ہیں۔
’’۱۹۶۰ء کے عشرے کو اُردو افسانے کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسی عشرے کے دوران اُردو افسانے کا نیا رُخ اس وقت متعین ہوا جب جیمز جوائس James Joyee،ورجینیا وولف Virginia woolf،البیرٹ کامیوAlbert Comusاور فرانزکا فکاFranz Kafkaکے زیرِ اُردو افسانے میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ اس کے خدو خال میں یہ تبدیلیاںجو منٹو کے ’’پھندے ‘‘ کرشن چندر کے ’’غالیچہ‘‘ احمد علی کے ’’قید خانہ‘‘ اختر اور ینوی کے ’’کینچلیاں اور بال جبریل‘‘ عزیز احمد کے’’ تصورشیخ ‘‘حسن عسکری کے ’’حرام جادی‘‘ سہیل عظیم آبادی کے ’’الائو‘‘ اور غلام عباس کے افسانہ’’ آنندی‘‘ میںذرا دھندلی دھندلی سی تھیں وہ اب بالکل واضح ہوچکی تھیں اور جدید افسانے کا نیا چہرہ دمکنے لگا تھا‘‘۔ ۲؎
اُردو افسانے کی واضح تعبیر اور خدوخال اگر دیکھا جائے تو وہ ترقی پسند افسانے میں ہی نظر آتا ہے ۔ واقعی ترقی پسند افسانہ نگاروںنے اس فن کوفن کے اعتبار سے برتا اور اُردو افسانے میں ایسے افسانے تخلیق کیںجنکی مثال عالمی ادب میں بھی ملنی مشکل ہے ۔افسانے کا یہ دور سنہری دور سے تعبیر کیا جائے تو کوئی شک و شبہ نہیں ہوگا ۔ ترقی پسندتحریک کے بعد اُردو افسانے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔اگرچہ ترقی پسند افسانے پر بہت سارے اعتراضات بھی ہوئے پھر بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیںاُردو افسانے کا یہ دور قیمتی دور سے یاد کیا جائے گا۔اس نے اُردو افسانے کو سماج کے قریب ترکیا اور افسانے میں اجتماعی سماج کے دُکھ سُکھ،درد و کرب ، مفلسی ، غریبی ،ظلم و تشدد وغیرہ کی عکاسی نظر آنے لگی اُردو افسانہ کی نشو و نما نئی سج دھج کے ساتھ وسیع تر فکری اور فنی بلندیوں کے زیر اثرہوئی ۔چوتھی دہائی میں مختلف افکارو نظریات کی بدولت ہندوستانی عوام نمائشی اورمصنوعی زندگی کے خول سے باہر نکلنے کی جدوجہد میںمصروف تھے، نئی اور پرانی نسل کی ذہنی کشمکش نے بالآخر سیاسی اور سماجی بیداری کے ایسے آثارپیداکردئے تھے جن کی بنا پر انگریزی تسلط کے قدموں میں لرزش طاری ہوچلی تھی۔ اس عہد افسانہ مذکورہ تغیر و تبدل کی عکاسی کرتاہے ۔ یہ عکاسی شہری زندگی اور دیہی ماحول دونوں کی ہے ۔ ادبی حلقہ میں اسے ترقی پسند تحریک کے نام سے یادکیاجاتاہے ۔اس سے وابستہ افسانہ نگاروں نے اپنے مطالعہ اور مشاہد ہ کی بدولت افسانہ کے موضوع ،اسلوب ،تکنیک میں تنوع پیدا کیا ، اور اپنے افسانوں کے لیے ایسے موصنوعات کا انتخاب کیا جن کا تعلق جیتی جاگتی دنیا کے بے بس او ر مظلوم انسانوں سے تھا۔ دیہی لوگ عرصہ دراز سے لگان ، بیگار، سود، موروثی قرض اور بے دخلی کے شکار تھے ۔ رسم و رواج اور عقائدسے اندھی عقید ت مندی اُن کی مفلو ک الحالی میں اضافہ کرتی جارہی تھی ۔چھوت چھات کے بھید بھائو ،نسبی اونچ نیچ ، رنگ و نسل کی تفریق ، اعلیٰ و ادنیٰ کا امتیاز ،استحصال کی جڑوںںکو مضبوط کررہی تھیں ۔ کم مائیگی اور بالادستی کے تصور نے زندگیوں کو پیچیدہ ، بے کیف اور لوگوں کو عسر ت زدہ و تنگ حال کردیا تھا ۔ ریا کاروںنے جادو ٹونے اور آسیب کا جال پھیلا کر بھولے بھالے لوگوں کو ذہنی طور پر پسماندہ اور توہم پرست بنادیا تھا۔عورت کی حالت اور بھی دگرگوںتھی۔ جہیز کی قبیح رسم نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی تھی ۔ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوںکے کینواس میںاُس عہد کے مزاج اور تغیر کی بھرپور ترجمانی کی۔ ترقی پسند تحریک میں بھی اُردو افسانے میں نئے تجربات فن، اسلوب ،موضوع ،مواد ہیٔت وغیرہ کے اعتبار سے کیاگیایہان اُن کا تذکرہ مناسب نہیںہے بلکہ جدید دور میںنئے تجربات ہوئے ہیں اُن کا تذکرہ کرنا زیادہ مناسب رہے گا، کیونکہ اگر افسانوی ادب کو دیکھا جائے زیادہ تجربات جدیددور میں ہی سامنے آئے اور افسانے کو نت نئے نئے تجربات سے ہمکنار ہوناپڑا۔ جدید دور کے افسانہ نگاروں نے یہ تجربات اپنے مزاج اور بدلتے حالات کو مد نظر رکھ کربروئے کار لائے ہیں۔ جدید دور میں افسانے کو کن کن تجربوں سے دوچار ہونا پڑاہے۔ اس با رے میں ممتاز شیرین اپنے ایک مضمون ـــــــ،ناول اور افسانے میں تکنیک کا تنوع،، لکھتی ہیں۔
’’جب سے افسانہ اپنے مخصوص دائرے سے باہر آیاہے اس میں بلا کا تنوع،وسعت اور قوت آگئی ہے۔افسانوی ادب متمول اورآزاد ہو گیا ہے۔ساری پابندیون کو توڑ کر زندگی کی ساری وسعتوںاور پیچیدگیوںکو اپنے آپ میں سمولینا چاہتا ہے۔اب ایسے افسانے بھی ہیں جن میں پلاٹ نہیں ہوتا،جن کی کوئی متناسب اورمکمل شکل نہیں ہوتی،وقت اور مقام کا تسلسل نہیں ہوتا‘ ۲ ؎
اُردو افسانے میں نئے تجربات کا سلسلہ ترقی پسندتحریک اوراس کی ہم عصر متوازی تحریک ’’حلقۂ ارباب ذوق ‘‘سے منسلک فنکاروںکی تخلیقات میں بھی جاری رہا جنہوںنے مل کرمغربی اثرات کے تحت حیاتِ انسانی کے خارجی وداخلی دونوںپہلوئوںکی ترجمانی کی۔خارجی اثرات چارلس ڈکنس،میکسم گورکی، ژولا، موپاساں ،ایچ ۔جی۔ ویلز،بالزیک ، ٹالسٹائے جیسے فنکاروں کی تخلیقات کے مطالعہ کی دین ہیں۔جبکہ مارشل ہرا ؤسٹ ،ڈوروتھی،رچرڈسن،جیمس جوائس اور ورجیناوولف کی قیادت میں داخلی زندگی کی عکاسی کی گئی ۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد داخلی نفسیاتی میلان بالخصوص فرائڈ کی تحلیل نفسی اور جنسی نفسیات کا اُردو افسانہ پر گہرا اثر پڑا۔ مغربی اثرات کے باوجود ہر دور میں مشرقی روایات سے مکمل طور پرجڑے رہے اسی لیے ہما رے ادب میں روایت پرستی اور جدت طرازی کا اچھا امتزاج ملتاہے۔
اسی زمانے میں ادب کے کینواس پر کچھ ایسی ہستیاں اُبھریں ، جنہوںنے اپنے آپ کو کسی تحریک یا ازم سے منسلک نہیں کیا ، بلکہ اپنی فنی بصیرت وسیع مطالعہ ،عمیق مشاہدہ کثیر الجہات تجربات کے ذریعہ اپنی اور اپنے فن کی شناخت کروائی اور افسانوی ادب کو تخلیقی اظہار کی نئی جہات سے روشنا س کرایا۔ یہ ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو ، قرۃ العین حیدر، اور انتظار حسین ہیں جنہوں نے آزادان طور پر ادب میں نت نئے تجربے کیے ۔
جدید افسانہ اور افسانہ نگاروںکو یہ شاندار ادبی پسِ منظر ورثہ میں ملا تھا ۱۹۵۵ء کے بعد ہمارے ملک میں سیاسی ، تہذیبی و ثقافتی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے عام زندگی متاثر ہوئی۔ فرد کی خارجی زندگی ہی انقلااب پذ یر نہیں ہوئی بلکہ اب اس کے ذہن، تخیل اور افکار کا ڈھانچہ بھی نیا تھا ۔گویا ایک نیا ذہنی نظام وجود میں آیا جو روایتوںکی سطح سے اُٹھ کر نئے افق دیکھنے اور نئے زمانہ کے ساتھ چلنے کا خواہاں تھانتیجہ ظاہر تھا۔روایات کی اہمیت کم ہونے لگی ۔ تخلیق کا روں نے اپنے عہد کے تمام انقلاب اور تبدیلیوں کو جدید ڈھنگ سے پیش کرنیکی کوشش کی ۔ اس طرح جدید افسانہ معرضِ وجود میں آیا ۔ جس کے واضح خط و خال ۱۹۶۰ء کے بعد اُبھرے ۔ یہ افسانہ کا تجرباتی دور تھا جس کا مرکزافسانہ ہیٔت اور تکنیک تھا۔
جدید افسانہ میں طرح طرح کے تجربات کئے گئے ۔ چاہیے وہ موضوع کے اعتبارسے ہو،ا سلوب کے اعتبار ، فن و تکنیک ، اصول و ضوابط کے اعتبارسے ہو۔جدید افسانے میں سب سے پہلا تجربہ اگر دیکھا جائے تو مسلمہ اصول و ضوابط قواعد و روایات سے اجتناب بلکہ انحراف ہے ۔افسانہ کی پرانی روایات سے اجتناب کرکے اپنی ایک نئی روایات قائم کرتاہوا نظر آتاہے ۔ پرانے اصول وضوابط قواعد وروایات کو جدید دور میں جب ماننے سے انکار کیا تو اس کو نئے نئے تجربات بروئے کار لانے پڑے ۔ چاہے وہ موضوع ، ہیّت ، فن و تکنیک ، اصول و ضوابط ، اسلوب وغیرہ کیوں نہ ہو۔ اس نے افسانوی ادب کو پوری طرح سے تجرباتی بنادیا ۔ اسلئے کہا جاتاہے جدید دور میں اُردو افسانے کے سب سے زیادہ تجربے کئے گئے ۔ اس لئے اس دور کو اُردو افسانے کا تجرباتی دور سے بھی تعبیر کیا جاتاہے ۔ جدید دور میں موضوعات میں تنو ع پیدا ہوا۔ جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے وہ فرد کی خارجی ، سماجی زندگی کے بجائے اس کی باطنی زندگی کا عکاسی بنا ۔ افسانہ نگار نے کردار کی سماجی سطح پر ظاہر ہونے والی حرکات و سکنات سے اس کی شخصیت کی شناخت نہیں کروائی بلکہ کردار کی شخصیت سے قاری کو متعارف کروایا ۔ جو اس کے ظاہر ی اعمال کے پس پردہ چھپی ہوئی تھی۔ اس نے کردار کے جذبات و احساسات اس کی ذہنی کیفیات اس کے لاشعور میں چھپے افکار و خیالات کو آشکار کرنے کی کوشش کی ۔ جو اس کی شناخت کا ذریعہ ہے کیونکہ جدید افسانہ کے کردار سوچتے زیادہ ہیں اور عمل کم کرتے ہیں وہ بقول پر وفیسر محمد حسن ’’عمل کے اتنے غازی نہیں ہیں جتنے خیالات کے غازی ہیں‘‘
کردار کے حوالے سے اگر دیکھا جائے جدید افسانہ کا کردار پچھلے دور کے افسانوی کرداروں سے بالکل مختلف تھا۔ اس لیے اسے ’نیا انسان‘کہا گیا، جس کی باطنی دنیا کی شناخت اور ا س کے اظہار کے لیے فنکاروں نے نئی نئی تکنیکوں کا سہارا لیا۔ اور نئے نئے تجربات کو افسانے میں شامل کیا ۔ جن میںشعورکی رو، آزاد تلازمۂ خیال واحد متکلم کا صیغہ کا استعمال ، افسانہ کی سہ بعدی جہت اور اس کا مکالموں ، خطوط اور ڈائریوں پر مبنی ہونا شامل ہے۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانوں میں شعورکی اور آزاد تلازمۂ خیال کی تکنیکوں کااستعمال بخوبی کیاہے۔
جدید افسانہ میں نثرکی منطق سے گریز ملتاہے۔ اس تجرباتی دور میں پلاٹ کی اہمیت کم ہوگئی تھی۔ا فسانے میں قصے کے تانے بانے واقعات کے بجائے تجربات و احساسات سے بُنے جاتے تھے اور پلاٹ کی تنظیم خارجی سطح پر نہیں داخلی سطح پر کی جاتی تھی جسے صرف محسوس کیا جاتاتھا۔
جدید دور کا افسانہ شاعری سے قریب تر نظر آتاہے ۔دلی کیفیات و محسوسات کے اظہار کے لیے تخلیقی زبان اور اندازِ بیان استعمال کیا جاتا تھا۔تہہ داری رمزواشاریت استعارات وتمثیلات جدید افسانہ کے اہم تجرباتی اجزاء تھے۔ اس کے بارے میںڈاکٹر نگہت ریحانہ اپنی کتاب ،اردو افسانہ: فنی و تکنیکی مطالعہ،،میں رقمطراز ہیں۔
’’جدید افسانے میں زبان کے برتنے کا طریقہ کلاسکی کہانی سے کافی مختلف ہے ۔نثر کی منطق سے جدید افسانہ گریز کرتا ہے۔اب اس کی زبان و اندازِ بیان شاعرانہ ہوتا ہے۔جدید کیفیات و لمحاتی محسوسات کے اظہار کے لیے جدید افسانے میں تخلیقی زبان اور اندازِبیان استعمال ہوتا ہے۔جدید افسانہ شاعری اسے قریب تر ہوتا جارہاہے۔پرانی کہانی کی بہ نسبت جدید افسانے میں زیادہ تہداری ہے۔رمزواشاریت،استعارے و تمثیلات اس دور کے افسانوں کے اہم اجزا تھے۔افسانے کو شاعری سے قریب تر کرنے میں علامتی اسلوب کا بڑا ہاتھ ہے۔علامت نگاری کا شاعری سے گہرا تعلق رہا ہے ۔اسی لیے علامت کے استعمال نے افسانے کو بھی شاعرانہ ارِتکاز کے سبب تخیل اورابہام کی سطح پر کی شاعری سے قریب کر دیا ہے۔اس میں شاعری کی سی پراسرایت اور تکراربھی سما گئی ہے۔اس کی مثالیں انتظار حسین اور انور سجادکے یہاں ملتی ہیں۔انتظار حسین نے اپنے افسانوںمیں غزل کے مزاج کو شامل کیاہے اور انور سجاد نے، جو خودشاعراور مصورہیں،شاعری اور مصوری کے مزاج کو تخیل کی سطح پر افسانہ سے ملا دیا ہے۔سریندر پرکاش نے قدیم تاریخ اور اساطیر کا استعمال کیا ہے۔‘‘۳؎ٌؔ
افسانہ کو شاعری سے قریب تر کرنے میں علامتی اسلوب کابڑ ا ہاتھ ہے ۔ ابتداء ہی سے علامت ہمارے افسانہ کے مزاج میں شامل رہی ہے ۔لیکن جدید افسانہ میں یہ مختلف اشکال میں واضح طور پر ظاہر ہوئی ۔ یہ نیا علامتی رحجان پچھلے رحجا ن سے مختلف تھا ۔افسانہ میں ادبی علامتیںاستعمال ہونے لگیں۔ بیشتر علامتیں غیرمانوس تھیں کچھ نفسیات ، مذہب ، فلسفۂ عمرانیات، وعلم معنی،ریاضی اور سائنس کے مزاج کی مظہر تھیں۔ریاضی سے متعلق علائم سریندر پرکاش کے افسانہ ’’نقب زن‘‘ میں ملتے ہیں اس ضمن میں اکرام باگ کے افسانے بھی قابلِ ذِکر ہیں۔ جدید افسانہ نگاروں نے پیکری اور استعاراتی اسلوب بھی اپنا یا تھا۔
عموماً علامتی افسانوں کی بنیاد کسی قدیم داستان ، مذہبی قصہ ، تلمیح،بچوں کی کہانی یا حکایت اور اساطیر پر ہوتی ہے۔ اس دور کے افسانہ میںاساطیری عناصر بھی ملتے ہیں۔ اس کی مثالیں قرۃ العین حیدر ، انتظار حسین، جوگندر پال، غیاث احمد گدی اور سریندر پرکاش کے افسانوں میں ملتاہیں۔افسانہ کا انحصار کیفیت آفرینی پر ہوتاہے ۔ ایک خاص کیفیت اور تاثر پیدا کرنے میں تجریدی اسلوب بہت کار گرثابت ہوتاہے ۔ اس سے تخلیق میں فکری اور اشاراتی عناصر پیدا ہوجاتے ہیں۔ جدید افسانہ نگاروں نے اس طرف بھی توجہ کی،اُردو افسانے کے اس تجرباتی دور کے بارے میں ڈاکٹر صغیر افراہیم اپنی کتاب کے ایک مضمون ،افسانے کے بدلتے ہوئے رنگ،میں ڈاکٹر سیدہ جعفر کے الفاظ قلم بند کرتا ہے۔
’’نئے تجربات کے سلسلے میں روایات سے گریز زماں و مکان کے تصور سے روگردانی ،کہانی پن سے انحراف اور مروجہ ترسیلی اندازسے بے نیازی نے جہاںافسانے کو تازگی، نیاپن اور حدّت کی آب و تاب عطا کی وہیںتجریدی،تمثیلی اور انٹی اسٹوری طرز نے اُردو افسانے کو ماضی کی بعض جاندار روایات سے بھی دور کردیا۔ جن افسانہ نگاروںنے انہیںجدّت کی خاطر اپنایا تھا ۔ اور علامت کو فارمولے کے طور پر برتاتھا ۔ ان کی کہانیاں سطحی ، بے معنی اور کم مایہ ثابت ہوئیں اور قاری کے لیے معمہ اور چیتاں بن کر رہ گئیں۔،، ۴؎
ردو قبول کے اس دور میں خارج سے داخل کی طرف پیش رفت ہوتی ہے تو ایک جانب شعور کی رو کی تکنیک،نفسیاتی تصوّر ِ وقت اورفلسفہ وجودیت کوفروغ حاصل ہوتاہے تو دوسری طرف تمثیلی اورداستانی رنگ کے قصوںکے ذریعے یہ صنف اساطیری اوردیو مالائی فضا سے ہم آہنگ ہوتی ہے اوران میں کرداروں کی جگہ تمثیلوںاستعاروں اورعلامتوں کابرمحل استعمال ہوتاہے ۔ افسانہ کی اس نئے ہیّتی تجربہ پر پروفیسر وحید اختر، الفاظ، کے افسانہ نمبر(۱۹۸۱ء) میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں۔
’’گذشتہ چند برسوںمیں ہمارے ادبی جرائد تجریدی اور علامتی کہانیاںکثرت سے شائع کرر ہے ہیں بلکہ اب تو افسانوں میں کہانی شاذ ہی ہوتی ہے ۔علامت اورعلامتی اظہار ہی سب کچھ ہونے لگا ہے ۔ تجرید اور علامت یا اشارے میں فرق ہے الفاظ اشارہ بھی ہوتے ہیں، علامت بھی، امر بھی اور استعارہ بھی ۔ ادب مجرد تصورات کو بھی مرئی پیکروں میںڈھالنے کا فن ہے۔ ادب میں افسانہ اپنے لغوی معنیٰ کے لحاظ سے بھی کسی حقیقی یا فرضی واقع کابیان ہے ۔ یہ واقعہ تاریخی بھی ہوسکتاہے ۔ زمانی بھی نفسیاتی واردات بھی تاثر کا زائیدہ بھی لیکن کہانی میں واقعہ کو بہر حال اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ کہانی واقعے کا بیان ہے ۔ اسی لیے کہانی کا اسلوب بیانیہ رہا ہے‘‘ (ص۲۱)
جدیداُردو افسانے میں بہت سے تجربات دیکھنے کو ملتے ہیں کچھ تجربات اُردو افسانے میں خاص مقبول ہوئے اورکچھ تجربات نے صنفِ افسانہ کو ہی مسخ کیا۔ بہر حال یہ تجربات کا دور تھا ۔ نئے نئے تجربات سے جدید افسانہ نے کئی سنجیدہ مسائل بھی پیدا کئے۔ اس بارے میں ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان ایک مضمون ’’ہمعصر افسانہ میں فن اور تکنیک کے تجربات ــ ـــــ میں لکھتی ہیں۔
کہ جدید افسانہ نے کئی سنجیدہ مسائل بھی پیدا کئے۔بالخصوص علامتی ،پیکری ، استعاراتی اور تجریدی ذریعہ اظہار نے تخلیق کاروںمیںکئی غلط فہمیاں پیدا کردیں ۔ وہ پیکر ،ا ستعاراتی علامتی اسالیب میںتفریق نہ کرسکے ۔ نہ ہی علامت نگاری اور تجریدیت کے صحیح مفہوم کو سمجھ پائے۔ ان اسالیب کے فن احکامات کو سمجھنے کے بغیر محض تقلید کے شوق میں انہوںنے ان نئے اسالیب کو اپنا لیا۔اس لیے وہ انہیں صحیح طور پر برت نہ سکے۔۵؎
جدید افسانہ نگاروں نے افسانے کے بنیادی عنصر کہانی پن سے انحراف کیا جس کے نتیجے میں ’’اینٹی اسٹوری‘‘ کاقیام عمل میںآیا ۔خصوصاً ۱۹۶۰ء کے بعد اُردو میں زیادہ تر ایسی کہانیاں لکھی گئیںجن میں کہانی پن کا فقدان یا ان کا عدم وجود نظر آتاہے جیسے کہ سریندر پرکاش کا افسانہ’’تلقار مس‘‘ ’’برف کا مکالمہ‘‘ براج مین راکا افسانہ ’’مقتل‘‘،’’ ایک مہمل کی کہانی‘‘َ،انور سجاد کا افسانہ’’ بچھو ، غار ، نقش ، دوب ہوا اور الیخا‘‘، اقبال مجید کا افسانہ ’’ایک حلفیہ بیان‘‘ ، رشیدامجد کا افسانہ ’’گملے میں اُگا ہوا شہر‘‘وغیرہ کہانی پن کے روایتی انداز کا فقدان ہے۔اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ جدید افسانہ نگاروں نے واقعات کے بجائے خیالات کی ترجمانی کا تجربہ کیا۔ ذہن کے پوشیدہ گوشوں ، لاشعور اور تحت الشعور کی ترجمانی کی طرف قدم بڑھایا ۔ جس میںافسانے کا پلاٹ سے محروم ہونا لازمی تھا۔ کیونکہ خارجی دنیا مین وقت کی نوعیت تاریخی ہوتی ہے جب کہ داخل میں وقت کاتاریخی تصور برقرار نہیں رہ پاتا اور ماضی ، حال ، مستقبل تینوں زمانے آپس میں ضم ہوجاتے ہیں اس قسم کے افسانوں میں ’’شعورکی رو‘‘ کا سہارا لیا گیا ۔مثلاً محمد حسن عسکری کے افسانے ’’حرام جادی‘‘ اورانور سجاد کے افسانے’’سنڈریلا‘‘ میں زمانے شکست وریخت کی وجہ سے پلاٹ غائب ہوگیاہے۔
پلاٹ کے بعد کردار کا جائزہ لیتے ہیںتو پتہ چلتاہے کہ پلاٹ ہی کی طرح افسانے کی تعمیر میں کردار مضبوط ترین ستون کا رول ادا کرتے ہیں کیونکہ افسانے میں جو واقعات پیش آتے ہیں وہ خلا میں واقع نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلق ہر صورت میں کردار ہی سے ہوتاہے ۔جدید افسانہ نگاروں نے خارجی کردار نگاری کے انداز کو سطحی قرار دے کر رد عمل کے طور پر کرداروں کاداخلی خاکہ تیار کرنے کا تجربہ کیا ۔جہاں انسان کی نفسیاتی کیفیت کا مطالعہ کیا گیا اور حقیقت سامنے آئی کہ ظاہری طور پرنظر آنے والی چیزیں قابل اعتنا نہیں ہوتیں بلکہ اصل حقیقت تو انسان کے باطن میں جیتا ہے ۔ لہٰذا افسانے میں کردار کے خیالات و تاثرات کو بھی اہمیت حاصل ہوئی۔جس کے نتیجے میں افسانہ نگار کی کردار سے وابستگی بڑھی اور کردار کی ذات میں داخل ہوکر اس کے باطن کو کھنگھالنے اور اندرونی کیفیت کو منعکس کرنے کارویہ عام ہوا۔ کردار نگاری کیاسے داخلی طریقہ کار کے تحت افسانے تخلیق کئے گئے ان میںکرداروں کے خارجی نقش ونگار واضح نہیںہوتے ،نہ ہی ان کے چال ڈھا ل رنگ روپ کاپتہ چلتاہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے کردار کے خیالات و تاثرات سے واقف ہونے کی وجہ سے قاری کردار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے میںکامیاب ہوجاتاہے۔
اُردو افسانے میں کردار نگاری کے حوالے سے ایک تجربہ اس وقت سامنے آیاجب افسانے میں خالص کردار نگاری کی اہمیت کم ہوگی اور واحدمتکلم کے صیغے میں کہانی بیان کرنے کا دور شروع ہوا چنانچہ افسانے میں میں’’میں‘‘ ’’یا‘‘’’وہ‘‘ کو مرکزی کردار کی حیثیت حاصل ہوگی۔جس کے نتیجے میں کرداروں کی ظاہری شکل و صورت افسانے سے ختم ہوگی۔ اس تجربے کامقصد بھی داخلی کیفیت اور اندرونی احساسات کابخوبی اظہار رہاہے۔
جدید افسانے میں کردار کے حوالے سے ایک تبدیلی یہ بھی ہوئی کہ جیتی جاگتی شکل میں نظرآنے والے کرداروںکی جگہ پرچھائیاںنظر آنے لگیں ۔ سائنسی ترقی کے دور میں جب ذات کا تصور دھندلا پڑنے لگا اور انسان اپنی پہچان کھولنے لگا تو افسانوںسے جسم بھی غائب ہونے لگے ۔کردار نگاری کے اس طریقہ کار سے متعلق پر فیسر طارق چھتا ری نے لکھاہے :
’’کردار جسم اورپرچھائیں دونوں پر جدید اُردو افسانے میں توجہ دی گئی مگر ہوا یوںکہ۱۹۶۰ء کے بعد یہ رحجان عام ہوا ور پھر اس میں شدت آگئی کہ اب افسانوںسے جسم غائب ہوگئے او رمحض پرچھائیاںہی باقی رہ گئیں۔لہٰذا کرداروں نے اپنا وجود کھودیا اور چندہیولے ہی نظر آنے لگے‘‘ ۶؎
روایتی افسانے کے برعکس جدیدیت کے زیر اثر اُردو افسانہ اسالیب کی تبدیلیوں سے بھی د وچار ہوا۔ افسانہ نگاروںنے بدلتے ہوئے حالات و تصورات کے تحت مروجہ روایتی اسلوب سے ہٹ کرجدا گانہ روش اختیار کی اوراسلوب کے حوالے سے متنوع تجربات کئے گئے۔افسانہ نگاری کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حقیقت سامنے آتی ہے کہ ابتدائی زمانے میں سادہ بیانیہ انداز میںافسانے لکھنے کا رواج عام رہا ہے جس میں داستانوی، اصلاحی اور رومانی رنگ نمایاں ہے۔ سادہ بیانیہ اسلوب میں لکھنے کا مقصد قاری مین دلچسپی پید اکرنا، ابتداتا انجام اس دلچسپی کو برقرار رکھنا نیزاپنے تاثرات کو قاری پر مرتب کرنا بھی رہا ہے ۔پریم چند اور سجاد یلدرم کے ہاتھوں جب حقیقت نگاری اور رومان پرستی کی روایت قائم ہوئی تو اسلوب میں بھی حقیقت اور رومان کی صورتیں نمایاں ہوئیں اور جب ترقی پسند تحریک کے دور میں مقصد ی ادب پر زور دیا جانے لگا تو عوا م تک اپنی آواز پہچانے کے لئے نفع ، بناوٹ ، پیچیدگی اور ابہام سے عاری براہ راست وضاحتی بیانیہ اسلوب کا قیام عمل میں آیاجس میںزندگی کی رعنائیوں اور رنگنیوں سے قطع نظر زندگی کی کھردری صورت اور اس کے مسائل کو پیش کیاجانے لگا ۔ ترقی پسند عہد کے اس مقبول ترین اسلوب کو جدید دور میں گھسا پٹا ، فرسودہ اور پرانا کہاجانے لگا اور یہ دعویٰ کیاگیا کہ اب اس اسلوب میں کوئی بھی نئی بات کہنے یا جدید دور کے پیچیدہ مسائل کو پیش کرنے کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے ۔ لہٰذا افسانہ نگاری کے اس روایتی بیانیہ اسلوب کو جدید دور میں خیرباد کہہ دیا گیا اور اس کی جگہ جو اسلوب رائج ہوا ا س کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر شفیق انجم نے لکھا ہے :
’’جدید افسانہ نگاروں نے روایتی بیانیہ اسلوب کی بجائے ملامتی و استعاراتی انداز اختیا ر کیا۔عدم تکمیلیت ، ابہام ، اشاریت ، رمز و اعما ، تجریدیت اورشعر یت اس اسلوب کی نمایاں خوبیاں بن کر اُبھریں تحریر کے ٹھوس پن کی بجائے سیال کیفیت زیادہ اہم ہوگئی، اسلوب میںدائرے ، لکیریں ، قوسیں اورنقطے نمودار ہونے لگے ، جملوں کو توڑنا،فقروں کو نا مکمل چھوڑنا اور وقفہ ، سکتہ اور خط کا استعمال عام ہوا اورلفظوں کو ادلنا بدلنا ، شاعرانہ تلازمے بنانا ، تمثیل و پیکر تراشی اور تشبیہات وا ستعارات لانا ضروری پایا ۔‘‘ ۷؎
جدید دور میں تخلیقی تجربات کے حوالے سے جب افسانے میں اسلوبیاتی تجربے کئے جانے لگے تو داستانی اسلوب کو بھی اظہار کا وسیلہ بنایا گیا ۔چنانچہ ابتدائی زمانے میں افسانہ نگاروں نے داستانی اسلوب کو محض داستانوں سے قربت کی وجہ سے لاشعوری طو ر پر اپنایا تھا۔ جدید افسانہ نگاروں نے شعوری طور پر اسلوب میں تجربے کے حوالے سے اس اسلوب کو اپنایا۔ جدید دور کا داستانی اسلوب روایت پسند داستانی اسلوب سے قدرے مختلف ہے۔ اس میں روایت اور جدّت کا خوبصورت امتزاج موجود ہے جدید افسانے میں داستانوی اسلوب کو اختیار کرنے والوں میں انتظارحسین کو پیش رو کا درجہ حاصل ہے۔
جدید اُردو افسانے میں تکنیک کے اعتبار سے بھی بہت سارے تجربات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے روایتی افسانوں میںتکنیک کو برتنے کا ایک مخصوص انداز رہا ہے ۔ ان افسانوں کی تکنیک میں افسانے کے تشکیلی عناصر کے تمام جز کوبرتنے کاانداز متعین تھا یہ کہ ابتدائی زمانے کے افسانوں کی تکنیک میں داستانی انداز نمایاں تھا اور اس مناسبت سے افسانہ نگار فوق الفطرت خصوصیت کے حامل کردار اور پرشکوہ داستانوی اسلوب اختیار کرتے تھے ۔ پریم چند نے حقیقت نگاری کی روایت قائم کی تو افسانے کی تکنیک میںتبدیلی واضح ہوئی۔ مزید یہ کہ پلاٹ ،کردار ، بعد فضا کی پابندی افسانوی تکنیک استعمال کی جانے لگی ۔ خصوصاً روایتی بیانیہ تکنیک کوغیرمعمولی فروغ ملا۔
اُردو افسانے میں تکنیکی تجربات کا آغاز بھی مغربی ادب کے زیر اثر ہوا۔ا س کے ابتدائی نقوش مجموعہ ’’انگارے‘‘ کے افسانوں میں واضح ہوئے جس کے مرتب سجاد ظہیر تھے۔ یہ مجموعہ اصلاً ایک روایت شکن باغیانہ عمل تھا جس نے فرد کا داخلی تجزیہ شعور کی رو، آزاد تلازمیہ ٔ ،خیال اور داخلی خود کلامی کی تکنیک استعمال کرکے کیا، یہ مجموعہ موضوع ، اسلوب اور تکنیک کے اعتبار سے جدید تکنیکی تجربے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ جدید دور کے افسانہ نگاروں نے افسانے کے فن میں جو تجربے کئے۔ اس سے افسانے کی روایتی تکنیک کا تصور زائل ہوگیا۔لہٰذا مواد اور اسلوب کی مناسبت سے تکنیک کے بھی تجربے کئے گئے اور رجحانات کی تبدیلی کے اعتبار سے پلاٹ کی تعبیر کردار کی پیش کش ، شعور کی روآزاد تلازمۂ خیال، داخلی خود کلامی وغیرہ تکنیک کے تجربے سامنے آئے ۔افسانہ نگاروںنے پلاٹ کی تعمیر کے تجربے کئے ۔ چونکہ انہوں نے داخلی زندگی کی سیال کیفیات سے اپنے افسانہ کا مواد فراہم کیا، جو بظاہر بے ربط اور زماں و مکاںکی بندشوںسے آزادہوتے ہیں۔ جس کونظم و ضبط کے ساتھ منطقی پلاٹ کی روایتیںتکنیک میں بیان کرنا قطعی نا ممکن ہوتاہے چنانچہ افسانہ نگاروںنے موضوع کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اسے پلاٹ کی روایتی بندش سے آزاد کردیا۔ اس طرح افسانے میں Anit Plotکی تکنیک کا قیام عمل میں آیا۔ روایتی بیانیہ کی تکنیک سے انحراف کرکے جدید دور کا افسانہ پلاٹ ، کردار اور افسانے کی بنیادی خصوصیت کہانی پن سے عاری ہوتے ہیں ۔مزید اس میںارتقاء کی صورت نظر نہیںآتی۔
جدید افسانہ نگاروں نے افسانے کی ہیٔت ،ا سلوب اور تکنیک کے جو مختلف تجربے کئے ایسی صورت حال میں افسانوی زبان کا متاثر ہونا مزید اس میں تغیر اور تبدیلی کا درا ٓنالازمی تھا۔ اس دور کے افسانہ نگاروںنے اپنے پیچیدہ قسم کے تجربوں کوانجام دینے کے لیے حقیقت پسند افسانہ نگاروںکے برخلاف زیادہ تخلیقی زبان کااستعمال کیا۔ جدید افسانہ ماقبل دور کے افسانوی زبان کے روایتی منطق سے انحراف کرکے شاعرانہ انداز اختیار کرلیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے افسانے کی زبا ن نثر سے دور اور شاعری کے قریب معلوم ہوتی ہے۔ مرزا ماحامد بیگ نے اس ضمن میں لکھا ہے:
’’آج افسانے کی نثر میں نظم کے بیچ خطِ امتیاز نہیں کھینچاجاسکتا اس لئے کہ یہ نثر کے منصب کو گھٹاتاہے ۔نثر نظم تصوریت آہنگ اور ترنم کے راستوں ایک ہو رہی ہیں۔ ‘‘ ۸؎
جدیدافسانے میں زبان کے اعتبار سے بھی تجربات دیکھنے کو ملتے ہیںجدید افسانے کی زبان کے بارے میں سلیم شہزاد لکھتے ہیںکہ:
’’غیر روایتی زبان میں شعور کی رو کا اظہار ،منتشر خیالی کے لفظی پیکر اورعلامتی ابہام نے نثری اسلوب کی رو سے بھی ملایااورآزاد یا نثری نظم کی طرح چھوٹی بڑی سطروںمیں افسانہ لکھا جانے لگا۔بلکہ متعدد افسانوں سے تویہ تاثر عیاں ہے کہ افسانہ نگار نے شعوری طور پر افسانے کو نظم بنانے کی کوشش کی ہے۔ پھر چند لکھنے والوں کے خالص شعری تشبیہی اسلوب برتنے سے ایسا معلوم ہونے لگا کہ افسانہ واقعی شاعری بنتا جارہاہے۔۹؎
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جدید اردو افسانہ تجربات کا مرکز نظرآرہا ہے اس میںافسانے کے موضوع ، ہیٔت ، فن ، تکنیک ، اسلوب اور زبان کی سطح پر جونت نئے تجربے ہوئے انہوں نے اُردو افسانوی ادب میں وُسعت ، عمق ، تہہ داری اور تنوع پیدا کیا۔ موضوع، پلاٹ اور کرداروں میںنئے نئے تجربات کیئے گئے۔ موضوع ، پلاٹ اور کردار کے علاو ہ احساس و تخیّل کو بھی افسانہ میں بنیادی حیثیت دی۔ افسانوی ادب کو فنی وجمالیاتی اقدار سے سرافراز کیا۔اسے فکر کی گہرائی ،نفسیاتی اور فلسفیانہ جہات سے روشناس کرایا۔ساتھ ہی اسے تحقیقی نہج عطا کی۔افسانے کے پورے منظر نامے کا اگر سرسری جائزہ لیاجائے تو یہ دور پورے افسانے کا تجرباتی دور کہلاتا ہے اوراُردو افسانے میں یہ دورہمیشہ درخشاں اور تابناک نظر آئے گا۔
حوالہ جات:
۱؎ پروفیسرخورشید احمد، جدید اُردو افسانہ ’’ہیٔت و اسلوب میں تجربات کا تجزیہ‘‘ ایجوکیشنل بک ہائوس ، علی گڑھ ۱۹۹۷ء ، ص ۱۱
۲؎ صبا اکرام، جدید افسانہ چند صورتیں ، این پبلی کیشنز ،کراچی ،۲۰۰۱ء ،ص ۱۳
۳؎ پروفیسر گوپی چند نارنگ،ناول اور افسانے میں تکنیک کا تنوع،،مشمولہ،،اردو افسانہ روایت اور مسائل،ایجوکیشنل پبلشنگ
ہائوس،دہلی،۲۰۱۶،ص ۶۵
۴؎ ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان، اردو افسانہ فنی و تکنیکی مطالعہ،ایجوکیشنل پبلنشگ ہائوس،دہلی،۹۸۶ ۱ ء ،ص۲۳۴۔۲۳۵
۵؎ ڈاکٹر صغیر افراہیم،اردو فکشن تنقیدو تجزیہ،ایجوکیشنل بک ہاوس،علی گڑھ،۲۰۰۳ء،ص ۲۲۸
۶؎ شہزاد منظر ، جدید اُردو افسانہ، عاکف بک ڈپو ، دہلی،۱۹۸۸ء، ص ۴۸
۷؎ پرفیسرطارق چھتا ری ، جدید اُردو افسانہ ، ایجوکیشنل بُلک ہائو س ،علی گڈھ ۱۹۹۲ء، ص ۷۸۔
۸؎ ڈاکٹر شفیق انجم، اُردو افسانہ، (بیسویں صدی کی ادبی تحریکوں اور رحجانات کے تناظر میں)، پور پ اکادمی، اسلام آباد ، ۲۰۰۸ء،
۹؎ مرزا حامد بیگ ، افسانے کا منظر نامہ، مکتبہ عالیہ ، لاہور، ص ۱۳۶۔
۱۰؎ سلیم شہزاد’’قصہ جدید افسانے کا ــ،منظر نما پبلشزز ،مالیگائوں، ۱۹۸۹ء،ص ۶۰۔۶۱
شاہد حسین
پی۔ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالر سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
ای میل ۔darshahid514@gmail.com
فون نمبر۔+917006571067
Leave a Reply
Be the First to Comment!