پارسی تھیئٹر کے ایک اہم ڈراما نگار: حسینی میاں ظریفؔ
محمد انس
ریسرچ اسکالر،شعبہئ اردو، دہلی یونی ورسٹی، دہلی
موبائل نمبر۔7217727573
Parsi theatre ke eik Aham Drama Nigar: Hussaini Miyan Zareef by: Mohammad Anas
ظریفؔ جن کا اصل نام غلام حسین اور تخلص ظریف ہے لیکن حسینی میاں ظریف کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا وطن میسورتھا بمبئی میں آکر سکونت اختیار کرلی تھی جہاں وہ محلہ چھاجھ والا میں قیام پذیرتھے سید حسن رقم طراز ہیں:
”ڈراما ’گلشن بیخار عرف بلبل بیمار‘ کے خاتمے پر یہ تحریری ملتی ہے ”تالیف کیا ہوا جناب غلام حسین مشہور حسینی میاں ظریف باشندہ میسور، حال ساکن بمبئی کا۔“ ۱؎
اس کے برعکس ڈاکٹر اے بی اشرف ان کا وطن گجرات بتاتے ہیں لیکن انھوں نے کوئی سند نہیں پیش کی وہ لکھتے ہیں:
”غلام حسین المعروف حسینی میاں ظریف، نوساری ضلع بڑودہ گجرات کے رہنے والے تھے۔ معمولی پڑھے لکھے اور کمتردرجے کے شاعرتھے۔“ ۲؎
ظریف کب پیداہوئے اور ان کا انتقال کب ہوا یہ ابھی تحقیق طلب ہے البتہ احسن لکھنوی کے اس بیان سے یہ پتہ ضرور لگتا ہے کہ انھوں نے طویل عمرپائی۔ احسن کے اس بیان کو سیدحسن نے قلم بندکیا ہے کہ ”انھوں نے عنفوان شباب میں ظریف کو بچشم خود دیکھا تھا وہ ایک لیحم شحیم آدمی تھے اور اس وقت ان کی عمراسی سال کے قریب تھی لیکن بڑھاپے کی کمزوری نے قویٰ وجوارح پرکوئی اثرنہیں کیاتھا پیری کا اضمحلال نہ تھا ہوشوحواس میں اختلال نہ تھا۔“ ۳؎ ۔ احسن 1890میں بمبئی پہونچے تھے۔ اس حساب سے ظریف کی پیدائش کم وبیش ۱۱۔۰۱۸۱ میں ہوئی ہوگی۔ مگر سن وفات کے بارے میں اکثر ادیب ومحقق خاموش نظرآتے ہیں۔ ظریف جمناداس مہتا بھگوان داس کتب فروش بمبئی کے یہاں ملازمت کرتے تھے اور پرانے ڈرامے کو کانٹ چھانٹ کر اس کو از سرنو لکھتے تھے۔ ظریف کی ڈرامانگاری کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔بعض ادیبوں نے ان کی بہت تعریف کی ہے اور بعض نے ان کو کمتردرجے کا ڈرامانگار کہا ہے۔ مولفین ناٹک ساگر نے لکھا ہے:
”ظریف کے ڈراموں میں غرض وغایت محض تفنن طبع اور دوگھڑی کا دل بہلاواتھا، نہ پلاٹ کی خوبی ہے نہ ڈرامے کی شان، اداکاری خارج عمل ہے، نظم ونثرخام، مگر امانت کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کرکے ایک تناور درخت بنادیا۔ ملک کے ہرحصے کے باشندوں کو اردوکی چاٹ لگ گئی اس سے مجال انکار نہیں کہ ہندوستان میں زبان اردو کی ترویج بہ حد کمال حسینی میاں ظریف کے طفیل ہوئی۔“ ۴؎
مولفین ناٹک ساگر کا مندرجہ بالا بیان تضادسے پُر ہے ایک طرف تو وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے ڈراموں میں ڈرامے کی کوئی خوبی نہیں ہے مگر دوسری طرف یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے ڈراموں کی دھوم سارے ہندوستان میں تھی یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ڈراماخراب ہونے کے باوجود اتنا مقبول ہوکہ پورے ہندوستان میں دیکھا جائے حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے مشہور ڈراموں میں ہرقسم کے پلاٹ موجودہیں ان کے ڈراموں میں وہی خوبیاں اور خامیاں ہیں جواس وقت کے اکثرڈرامانگاروں میں پائی جاتی ہیں اس سلسلے میں عشرت رحمانی فرماتی ہیں:
”درحقیقت حسینی میاں ظریف نے امانت کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری ہی نہیں کی بلکہ اس سمندرسے پانی اڑاکر ایک دریا الگ بنانے کی کوشش بھی کی اور اس تناور درخت کی شاخوں سے چند پودے اپنے نام کے لگائے۔“ ۵؎
سید بادشاہ حسین بھی ان کی ڈرامانگاری کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ”ظریف کی طبیعت میں بلاکی روانی تھی یہی وجہ تھی کہ جب ڈرامانگاری کی خدمت ان کے تقویض ہوئی تو انھوں نے دریاہی بہادیئے۔“۶؎ اب تک کوئی ثبوت نہیں ملاکہ ظریف نے کسی کمپنی کے لیے کوئی ڈراما لکھاہو یا اس کا کوئی ڈراما اسٹیج ہوا ہے انھوں نے ڈرامانگاری کب شروع کی یہ بتاپانا مشکل ہے لیکن محققوں کے مطابق ان کا سب سے پہلا ڈراما ’گلشن بہار افزا عرف نئی دریائی اندرسبھا‘ ہے جو 1884 میں شائع ہوا تھا۔ یہ پورا ڈراما اندرسبھاکے مطابق ہے صرف پہلے کے ایک دوسین اور کرداروں کے نام بدل دیئے گئے۔ اس کے علاوہ ظریف نے اپنی غزلیں مع تخلص کے اس میں داخل کردیں۔ انھوں نے دوسروں کے ناٹکوں کو (رونق وآرام وغیرہ) ردوبدل کرکے اپنے نام سے چھپوایا جو کہ اس وقت کا عامل چلن تھا اوریہ معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ درج ذیل ڈرامے ان سے منسوب کیے جاتے ہیں:
(۱) نتیجہ عصمت عرف رنج وراحت یعنی آف ومہوش 1884
(۲)گلزارعصمت عرف نیرنگ عشق 1886
(۳)بکاؤلی عرف غنچہ عشق 1887
(۴)ظلم عمراں روسیہ عرف انصاف محمود شاہ 1887
(۵)خون عاشق جانباز عرف تماشائے جانگدارظمل مست ناز 1887
(۶)فتنہ خانم عرف مقبول عالم 1888
(۷)شریف وکمینہ عرف فریب فتنہ 1888
(۸)ظلم اظلم عرف تماشائے پرالم نتیجہ ستم 1888
(۹)تماشاگلستان خاندان ہامان 1888
(۰۱)سیف سلیمانی عرف تائید خناس شیطانی 1888
(۱۱)ناصرہمایوں 1888
(۲۱)مکرتلبیس عرف بزم سلیمانی 1888
(۳۱)شیریں فرہاد عرف گلشن بیداد1889
(۴۱)تماشائے نادر عرف لعل وگوہر1889
(۵۱)گل با صنوبر چہ کرد
(۶۱)بادشاہ خداداد عرف وادیئ دریا
(۷۱)نئی زنکباری اندرسبھا عرف گلشن پرفضا
(۸۱)خدادوست عرف انجام سخاوت
(۹۱)تماشائے زہرا خورشید عرف حیلہ تدبیرخوبی تقدیر
(۰۲)فسانہ عجائب عرف جان عالم وانجمن آرا
(۱۲)تماشائے راجہ گوپی چند
(۲۲)پورن بھگت عرف تماشائی یادگارجگت
(۳۲)اکسیر اعظم عرف طلسمات سلیمانی
(۴۲)تماشاخوارکا خدایار عرف مشہور علی بابا اور چالیس چوروں کا سردار
(۵۲)گلشن بے خار عرف بلبل بیمار
(۶۲)پریوں کی ہوائی مجلس عرف تبرنگ عجائبات
(۷۲)تماشا الہ دین عرف چراغ عجیب وغریب
(۸۲)تماشانامی، سخاوت حاتم طائی برائے منیرشامی
(۹۲)تماشا چھیل ہٹاؤ موہنارانی عرف پاک محبت کی نشانی
(۰۳)لیلیٰ مجنوں عرف پاک محبت
(۱۳)قسمت سے گلہ عرف شکنتلا
ظریف نے متعدد ڈرامے قطع برید وتصنیف کیے۔ انھوں نے تقریباً بتیس ڈرامے لکھے۔ جن کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے پہلے حصہ میں ان ڈراموں کو رکھا جاسکتا ہے جن کو ظریف نے اپنے نام سے چھپوایا جن پر اصل مصنف کا نام درج نہیں ہے۔ یہ ڈرامے رونق یا آرام کے لکھے ہوئے ہیں انھوں نے اس میں تھوڑی سی ترمیم کرکے اس کو اپنے نام سے چھپوایا ان ڈراموں میں ظریف کا تخلص کہیں نہیں آیا حتیٰ کہ انھوں نے اصل ڈرامانگار کے تخلص کو بھی حذف کردیا۔ ظلم اظلم کے سرورق پر یہ اشعار درجہیں:
یک تماشے میں ہیں نتیجے دو
صبر صابر کا ظلم اظلم کا
با تصویر اس کو چھاپا ظریف
کھیل توام ہے شادی وغم کا
اسی طرح ایک ڈراما ’خون عاشق جا نباز عرف تماشائی جانگداز ظلم مست ناز‘ جورونق کا ڈراما ہے جس کا اصل نام ’عاشق کا خون عرف دامن پردھبا‘ ہے۔ اس میں بھی انھوں نے اصل ڈراما نگارکے تخلص کو اڑاکر اور تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ اپنے نام سے چھپواکرشائع کیا اس کے سرورق پریہ تحریر ملتی ہے کہ المشتہر منشی حسینی میاں متخلص بہ ظریف اور درج اشعار لکھا ہوا ہے:
قابل دید یہ تماشا ہے
خون مشہور عاشق جانباز
کرکے دوآتشہ چھاپا ظریف
ماہ مکر سے ہے مست ناز
دوسرے شعرمیں ایک لفظ آیا ہے جو قابل غور ہے کہ ’کرکے دوآتشہ چھاپا ظریف‘ یہاں انھوں نے یہ نہیں لکھا ہے ’دوآتشہ چھاپا ظریف‘ ’کرکے‘ کا اصل مطلب یہی نکلتا ہے کہ انھوں نے اس کو ترمیم تنسیخ کرکے اپنے نام سے چھپوایا انھوں نے خود اس کو تصنیف نہیں کیا۔
دوسرے حصہ میں وہ ڈرامے آتے ہیں جن میں ظریف نے اچھی خاصی قطع برید کی ہے اور اس میں اپنے تخلص کا استعمال بھی کیا ہے جن کو وہ از سرنولکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں جب کہ حقیقت میں وہ کسی اور کے ڈرامے ہیں۔ ان ڈراموں کے سرورق پر وہ اصل ڈرامانگار کا نام بھی لکھ دیتے ہیں۔ رونق کا ڈراما ’فریب فتنہ عرف چاہت زر‘ میں ردوبدل کرکے انھوں نے اس کا نام ’شریف وکمینہ عرف فریب فتنہ‘ رکھا اور سرورق پریہ دعویٰ کیا ہے:
یہ تماشا فریب فتنہ کا
شائقین دیکھ لینا پڑھ کے ضرور
کرکے مطالعہ ظریف دونوں کتاب
خوب پہچان لیں کے اہل شعور
اس کے علاوہ انھوں نے بہت سے ڈراموں کو ردوبدل کرکے اپنے نام سے چھپوایا جیسے’ظلم عمران روسیہ عرف انصاف محمود شاہ‘ اور ’بکاولی عرف غنچہئ عشق‘ وغیرہ۔ یہ دونوں ڈرامے رونق کی تصنیف ہیں۔ ظریف نے ردوبدل وترمیم وتنسیخ کو واضح طور پرقبول بھی کیا ہے اکثر ڈراموں کے سرورق پریہ شعر نظرآتا ہے۔
ناٹک ہم اے ظریف تراشے نئے نئے
قصے قدیم ہیں یہ شماشے نئے نئے
تیسرے حصہ میں وہ ڈرامے آتے ہیں جن کو ظریف نے خود تصنیف کیا ہے۔سید حسن نے ایسے چارڈراموں کا ذکرکیاہے جو ظریف نے خودتصنیف کیا لیکن جب ہم ڈاکٹر نامی کی کتاب کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو صرف دو ڈرامے ایسے نظرآتے ہیں جن کو ظریف نے خود تصنیف کیا ہے ایک ’گلزارعصمت عرف نیرنگ عشق‘ جس کے سرورق پر یہ تحریردرج ہے تصنیف کیا ہوا حسینی میاں المتخلص بظریف دوسرا ’نتیجہ عصمت عرف رنج وراحت یعنی آصف ومحوش‘ اس کے سرورق پربھی یہی عبارت نظرآتی اور ایک رباعی درج ہے:
دیکھنے سے اس کھیل کے آجاتی ہے خدا کی قدرت
عرف ہے رنج وراحت اس کا نام نتیجہ عصمت ہے
اردومیں اب طبع کیے ہیں ظریف اس کا جمناداس
ناظرین کے واسطے گویا ایک دفتر حیرت ہے ۷؎
ان دونوں ڈراموں کے علاوہ کسی دوسرے ڈرامے کے سرورق تصنیف کیاہوا ظریف کا نہیں لکھا ہے باقی تمام ڈراموں کے سرورق پردوعبارتیں نظرآتی ہیں۔ ایک تالیف کیا ہوا حسینی میاں ظریف اور دوسرے المشتہر حسینی میاں ظریف۔ اس یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ان کے صرف دوہی طبع زاد ڈرامے ہیں باقی ڈرامے قدیم ڈراموں میں ردوبدل کرکے اپنے نام سے انھوں نے چھپوایا۔
ظریف پریہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے دوسروں کے ڈراموں کو تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ اپنے نام سے چھپوایالیکن پارسی تھیٹرکی تاریخ پرنظردوڑائیں تو یہ صاف نظرآتا ہے کہ اس وقت یہ کام ہرکوئی کررہاتھا ہے اس وقت کے حالات کا مشاہدہ کریں تو ایک بات صاف نظرآتی ہے کہ ڈرامانگاراپنی مرضی سے ڈرامے نہیں لکھتے تھے وہ مالکوں کے حکم سے ڈرامے لکھتے تھے چونکہ مالکوں کو زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتاتھا اس لیے وہ انھیں ڈراموں کو زیادہ پیش کرتے تھے جومشہور ہوچکے تھے اس لیے وہ اپنے ڈرامانگاروں سے قدیم ڈراموں میں ردوبدل کرواتے تھے۔ یہ کام تقریباً تمام ڈرامانگاروں نے کیا آرام سے لے کر آغاحشر کاشمیری تک۔ اس لیے صرف ظریف کو موادِ الزام ٹھہراناغلط ہے ایک اوربات یہ کہ ظریف نے کھلے طورپراس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے ڈراموں میں ردوبدل کرکے پیش کیا ہے ڈراموں کے سرورق پرہی اس کی تفصیل رقم کردی ہے۔
جیسا کہ اوپرذکرآچکا ہے کہ ظریف کے صرف دوطبع زادڈرامے ہیں ’نتیجہ عصمت‘، ’گلزارعصمت‘ دونوں کے پلاٹ میں بڑی حدتک مماثلت ہے۔ دونوں کا موضوع عورت کی پارسائی ہے دونوں میں عورتوں کے کردار کو مستحکم کرکے پیش کیاگیا ہے وہ غیرمناسب حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں اور آخرمیں کامیاب ہوتی ہیں ان دونوں ڈراموں میں مقفیٰ نثر کا کافی استعمال کیاگیا ہے۔
مرزا رسوا کے مطابق ظریف کی زبان ”بمبئی کے مچھلی بازار کی بول چال“ جیسی ہے جب کہ ناٹک ساگر کے الٹ سیدبادشاہ حسین ’اردومیں ڈرامانگاری‘ میں لکھتے ہیں:
”ظریف کی طبیعت میں بلا کی روانی تھی یہی وجہ تھی کہ جب ڈرامانگاری کی خدمت ان کے تفویض ہوئی انھوں نے دریاہی بہادیئے۔“ ۸؎
ڈاکٹر نام کے مطابق ظریف نے کسی ڈراما کمپنی کے لیے کبھی کوئی ڈراما نہیں لکھا سبھی ناقدین اس سے متفق ہیں کہ وہ کسی کتب فروش کے یہاں ملازم تھے شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیج سے بالکل ناواقف تھے جوشخص اسٹیج سے بالکل ناواقف ہو اس سے بہترین ڈرامے کی توقع کرنا بالکل فضول ہے ایک کامیاب ڈرامانگاروہی ہوسکتا ہے جواسٹیج کی باریکیوں سے واقف ہو یہی وجہ ہے کہ ان کے ڈراموں کے پلاٹ سست اور سپاٹ ہیں ان کے طبع زاد ڈرامے حرکت وعمل سے خالی ہیں کرداروں میں کوئی کشش نہیں ان کے موضوعات بھی انفرادی نہ ہوکر صرف اخلاقی ہیں جیسے کہ وہ درس دینے کے معاملے میں آگے رہنا چاہتے ہوں ان کے مکالمے ناقص اور غزلیں وغیرہ بھی کوئی خاص کشش نہیں رکھتیں زبان وبیان اور مکالمے کے چند نمونے درج ذیل ہیں:
]آصف کو آتے ہوئے دیکھ کے چھپنا[
اکبر:۔دیکھو دیکھو وہ جو آتا ہے ہمارا چھوٹا بھائی ہے شاید ہماری خرابی صحت کی خیرپایا ہے، ضرور ہمارے لینے کو آیا ہے۔ بھائی اب کیا کریں چلو کہیں چھپ جائیں چھپنا دونوں کامارے غیرت کے آنا آصف کا گاتے ہوئے۔
آصف:۔
غزل
کوئی کہو کیا میرے یارکو پہچانتے ہو۔طرز
ہیں کہا بھائی میرے کوئی سنا دو مجھ کو
میرے بھایوں کا پتا بہر خدا دو مجھ کو
ڈھونڈھتا پھرتاہوں ملتا نہیں بھائیوں کا پتا
جانتے ہو کوئی للّٰہ بتا دو مجھ کو
کیا کروں آہ نہیں تاب جدائی اے ظریفؔ
غم سے مرجاؤں گا جلد ملا دو مجھ کو
(لپٹ جانا آصف کے گلے سے دونوں بھائیوں کا اور کہنا)
آدم:۔
غزل
کہیں کیا بھائی جان تم سے نہایت شرم ساری ہے
بگڑنا بن کے صدافسوس یوں قسمت ہماری ہے
اکبر:۔ جو کچھ گذرا سوگذرا معاف کر بہر خدا بھائی
کہا مانے نہیں تیرا یہی قسمت میں خواری ہے
آدم:۔ خدایا توبہ کرتاہوں بری عادت چھڑا میری
کہ دولت بھائی کی بھی میں جوا میں کھیل ہاری ہے
اکبر:۔
نشے میں میں بھی دولت عیش وعشرت کراڑاڈالا
خطا کی ہم نے تجھ بھائی سے کرتے انکساری ہے۔۹؎
غزلیات میں یہ مکالمے بہت ناقص اور ادنیٰ درجے کے ہیں اسی طرح ان کی نثربھی پست اورادنیٰ درجے کی ہے۔ ظریف نے سنجیدہ ڈراموں میں مزاح کے عنصر داخل کر کے اردوڈرامے میں پہلی کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے سنجیدہ فضا میں مزاح پیداکرنے کی کوشش کی لیکن ان کا مذاق عامیانہ ہے اس میں ہجو کی طرح پست ذہنیت کی نمائش کی گئی ہے اس میں مکالمہ، تصویرکشی کے انداز پر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے چندنمونے درج ذیل ہیں:
کوتوال کا غصہ سے پکارنا۔ جمعدار!
جمعدار:۔
(گھبراکر) سرسر
کوتوال:۔
پہرا کدھر
جمعدار:۔
ادھر اور کدھر
کوتوال:۔
چل آ ادھر شہرکی کیا خبر
جمعدار:۔
آیا غیرب پرور (سلا کرکے) ال بیل برابر
کوتوال:۔
تم کچھ نشہ کرتا ہے؟
جمعدار:۔
تھوڑی سی افیون کھالیتاہوں۔
کوتوال:۔
اورکچھ پیتے بھی ہوگے؟
جمعدار:۔
جی ہاں ایک دوبوتل برانڈی، تاڑی، بھنگ، گانجا، چرس، مدک، چنڈوپیا کرتاہوں، اور تو کچھ نہیں۔
کوتوال:۔
جبھی تو ہوشیاری سے پہرادے رہے ہو۔ اچھا خبرداری سے پہرے پررہو میں جاتاہوں۔۰۱؎
ظریف کی شعروشاعری کا انداز پست اور عامیانہ ہے نثرمیں بھی کوئی خوبی نظرنہیں آتی ظریف پر دوسروں کے ڈرامے اپنے نام سے چھپوانے کا الزام تقریباً سبھی ناقدوں نے لگایا ہے جس کا ذکر پہلے باب میں آچکا ہے۔ ان کی وکالت کرتے ہوئے سیدحسن لکھتے ہیں:
”اردو ڈراماکی تاریخ وتنفید لکھنے والوں نے ظریف پریہ الزام لگایا ہے کہ وہ دوسرے ڈرامانگاروں کا مال سرقہ کرکے اس پر اپنا لیبل چسپاں کرادیتے تھے……اس معاملے میں وہ زیادہ قصور وارنہیں ہیں …… ان کا گناہ وہی ہے جس کے آرام سے لے کر آغاحشر تک مرتکب ہوئے ہیں، صرف ظریف کو ملزم ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔“ ۱۱؎
ظریف نے جب دنیائے ڈرامانگاری میں قدم رکھا اس وقت ڈراما اپنی ابتدائی منزل میں تھا جس سے لوگ محض تفریح حاصل کرنا جانتے تھے ادب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ مہذب لوگ اسے دیکھنا معیوب سمجھتے تھے حتیٰ کہ ہمار ے نامور ادیب بھی اسے اردوادب کی صنف ماننے سے انکاری تھے ڈرامے کو اردوادب میں کوئی جگہ نہیں تھی جس کی وجہ سے یہ فن ادنیٰ درجے کے لوگوں کے ہاتھوں پروان چڑھا جوعام سطحی لوگوں کے مذاق کی تسکین اورتحسین کے لیے ڈرامے تیارکرتے تھے۔ ظریف کے ڈراموں میں جتنی خامیاں ہیں ایک تو اسی ذہنیت کی پیداوارہیں اور دوسرے ان کی اسٹیج کے بارے میں مکمل ناواقفیت بھی۔ ان دووجوہات سے ظریف اچھے ڈرامانگارتو نہیں بن سکے لیکن ڈرامے کے شروعاتی دورکی ان کی خدمات کو ہم فراموش بھی نہیں کرسکتے۔
حواشی
۱۔سید حسن،بہار کا اردو اسٹیج اور اردو ڈراما۔ص۔۵۳۱
۲۔ڈاکٹر۔اے۔بی۔اشرف،اردو ڈراما اور آغا حشر کاشمیری۔ص۔۴۶
۳۔سید حسن،بہار کا اردو اسٹیج اور ارد دراما۔ص۔۵۳۱
۴۔محمد عمرو نورالٰہی،ناٹک ساغر۔ص۔۶۲۱
۵۔عشرت رحمانی،اردو ڈراما کا ارتقاء۔ص۔۷۶۱
۶۔بادشاہ حسین،اردو میں ڈراما نگاری۔ص۔۹۱۱
۷۔عبدالعلیم نامی،اردو تھیٹر جلد دوم۔ص۔۲۳۱
۸۔بادشاہ حسین،اردو میں ڈراما نگاری۔ص۔۹۹۱
۹۔بحوالہ۔سید حسن،بہار کا اردواسٹیج اور اڈراما۔ص۔۶۴۱
۰۱۔ایضاً۔ص۔۹۴۱
۱۱۔سید حسن،بہار کا اردو اسٹیج اور اردو ڈراما۔ص۔۲۴۱،۳۴۱
Leave a Reply
Be the First to Comment!