صحافت کیا ہے؟
عربی زبان کا لفظ ’صحیفہ‘ جس کا معنی کتاب یا نامہ ہے، اس سے لفظ ’صحافت‘ کی تشکیل ہوئی۔ اس میں کسی مناسبت یا دوسرے سروکار کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ صحیفہ نگاری یا نامہ نگاری کو ہی اردو میں صحافت کہا جانے لگا۔ یہ لفظ اس قدر مانوس ہوگیا کہ اس کا متبادل بھی کوئی نہیں ہے اور اس لئے یہی مشتمل بھی ہے۔عبد السلام خورشیدنے اپنی کتاب ’فن صحافت‘ میں رقمطراز ہیں:
”صحافت کا لفظ صحیفے سے نکلا ہے۔ صحیفہ کے لغوی معنی کتاب یا رسالہ کے ہیں۔ بہرحال عملاً گایک عرصہ دراز سے صحیفہ سے مراد ایک ایسا مطبوعہ ہے جو مقررہ وقتوں میں شائع ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام اخبارات ورسائل صحیفہ ہیں۔“
اقتباس میں ’مقررہ وقت‘ کا استعمال کیا گیا ہے، یہاں اس کی وضاحت ضروری ہے۔ صحافت اگر کتاب لکھنے سے متعلق ہے تو وقت کی پابندی بہت معنی نہیں رکھتی ہے لیکن صحافت اخبارات ورسائل سے وابستہ ہے تو وقت کی پابندی بہت اہم ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اخبارات یا رسائل معینہ وقت میں ہی شائع کیے جاتے ہیں اور کتاب کی اشاعت میں وقت سے زیادہ حالات وکوائف کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ڈاکٹر محمد شاہد حسین کی مشہور کتاب ’ابلاغیات‘ جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیا ہے،کتاب میں مصنف نے صفحہ 44پر صحافت کو بہت ہی سہل انداز میں واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”صحافت خبر ہے، اطلاع ہے، جانکاری ہے۔ صحافت عوام کے لئے عوام کے بارے میں تخلیق کیا گیا مواد ہے۔ یہ دن بھر کے واقعات کو تحریر میں نکھار کر آواز میں سجا کر تصویروں میں سمو کر انسان کی اس خواہش کی تکمیل کرتی ہے جس کے تحت وہ ہر نئی بات جاننے کیلئے بے چین رہتا ہے۔“
مذکورہ اقتباس میں اس بات سے قطعی گریز کیا جانا چاہئے کہ صحافت عوام کے لئے عوام کے بارے میں تخلیق کیا گیا مواد ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ’ڈیموکریسی‘ Democracy کے لئے سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے کہا تھا۔ راقم کا خیال ہے کہ صحافت کا تعلق صرف عوام سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق خواص سے بھی ہے اور حکام کے علاوہ سیاسی نمائندگان سے بھی۔ بہرحال اس بابت ایک اور مشہور کتاب ’رہبر اخبار نویسی‘ میں مصنف سید اقبال قادری نے ’انسائیکلو پیڈیا آف امریکانا‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ اس میں بھی مقررہ وقت کی اہمیت پر توجہ دی گئی ہے، ملاحظہ کیجئے:
”Journalism is the colletion and periodical dissemination of current news and events or more strictly the business of managing, editing or writing for journals & newspapers”
اگر انگریزی کی مذکورہ عبارت کے مفہوم پر ذرا توجہ دی جائے تو اسے تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوگا کہ صحافت کیلئے مقررہ وقت میں خبریں یا واقعات جمع کرنے ہوتے ہیں ورنہ وقت کا خیال نہ رکھا تو تمام خبروں یا واقعات کی وقعت کم ہوجاتی ہے۔ تاہم اس ضمن میں اس بات کوبھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے معینہ وقت میں ہی خبرنگاری یا واقعہ نگاری میں بیانیہ کی صحت بھی بحال رہنی چاہئے۔ غالباً اسی وجہ سے ’میافیوآرنولڈ‘ کے مقولے کو ہمارے دانشور زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں صحافت کو جلد بازی میں لکھا گیا ادب سمجھا گیاہے۔ تو کیا واقعی یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ’صحافت جلد بازی میں تخلیق کیا گیا ادب ہے‘۔ لیکن اس سے پہلے اس قول کی صداقت میں جھانکیں پہلے، سر سید کے قول کو سامنے رکھیں کہ جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ایک صحافی کو کیسا ہونا چاہیے۔ ممکن ہے صحافت کی غرض وغایت سے کچھ باتیں روشن ہوسکیں۔ وہ کہتے ہیں، ’اخبار کے لکھنے والوں کے فرائض تین قسم کے ہوتے ہیں یعنی وہ صلاح دینے والا،تربیت کرنے والا اور لوگوں کی حالت و معاشرہ کی اصلاح کرنے والا ہوتا ہے۔‘اگر اسے صحافت کی کسوٹی مان لی جائے تو ذہن لا محالہ سترہویں صدی کے اس ادب کی جانب جاتا ہے جب جرمنی، فرانس، سوویت روس، امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں بڑے قلم کاروں مثلاً سیکسپئر، ملٹن، او ہنری، جان ڈان، رابرٹ ہیرک، سر والٹر ریلگ وغیرہ نے متعدد ناول، ڈرامے اور نظمیں قلم بند کیے۔ یقینااس دور میں معاشرے کی اصلاح کیلئے یہ تمام تخلیقات وضع کی گئی تھیں اور اس نے صرف سماجی ڈھانچہ کو ہی نہیں بلکہ سیاست و معاشرت پر بھی اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ مذکورہ صدی بڑے اتھل پتھل اور انقلابات کی صدی رہی۔ صرف مذہب ہی نہیں بلکہ سیاست میں جملہ خرابیاں در آئی تھیں اور اس کی وجہ سے زندگی کا نظام ہی درہم برہم ہورہا تھا۔عیسائیت خدائی کا دعویٰ کرنے لگی اور عام زندگی پر پادریوں کا قبضہ ہونے لگا۔ مال ودولت کی ہوس نے ایسا جڑ جمایا کہ تعیش پسند لوگ مرنے سے قبل گرجا گھروں کے پادریوں سے جنت کے جملہ امور پر مامور فرشتوں کے نام شفارشی خطوط تک لکھوانے لگے۔ اقوام عالم اور ملکوں کی معیشت پر اجارہ داری قائم کرنے کیلئے آئے دن فتنے اور جنگوں کی گویا ایک روایت جڑیں جمانے لگی۔ غریبوں اور مزدوروں کو غلام بنایا جانے لگا۔ ان فتنہ انگیزیوں میں ایک جانب حصول معاش اور ہوس اقتدار کارفرما تھا تو دوسری جانب یہ سارے کھیل مذہب کی آڑ میں بھی کھیلے جارہے تھے۔پیراڈائز لوسٹ اور میک بیتھ جیسے عظیمشاہکار اسی زمانے ضبط تحریر میں لائے گئے تاکہ اقوام عالم کو تقویت واستحکام مل سکے۔ یقینا ان شاہکاروں کا معاشرت پر گہرا اثر پڑا۔ اس کی واضح دلیل ہے کہ عیسائیوں میں کیتھولک اور پراسٹیسٹنٹ دو فرقے ہوگئے۔سیاست میں بھی اس کا وہ اثر ہوا کہ اس کی وجہ سے چین، جاپان، روس اور دنیا کے دوسرے حصوں میں کمیونزم اور شوسلزم جیسے نظریات غالب آنے لگے۔ یقینی طور پر یہ وہ تخلیقات تھیں جو ادب عالیہ کے بہترین نمونے تھے۔ ان ڈراموں یا ناولوں میں خبر نویسی کا شائبہ تک نہیں ہے، بلکہ فکر و فلسفے پر ہی ان کا دارو مدار ہے۔ معاشرے میں در آنے والے نقائص کے سبب وہ تخلیقات حکمرانوں اور مذہبی پیشواؤں کے خلاف ایک زبردست احتجاج تھے۔آج بھی ان ادب پاروں کو وقار کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔جہاں تک صحافت میں ادب کی آمیزش ہے تو وہ اس حد تک کہ زبان و بیان تو بہرحال شرط اول ہے۔ کیوں کہ حقیقت میں الفاظ ہی خیالات کے کی پوشاک ہیں، اس کے بغیر نہ تو اچھے ادب کی تخلیق ہوسکتی ہے اور نہ ہی خبریں ہی پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے تمام واقعے جو عام زندگی اور سیاست سے وابستہ ہیں اس کی اطلاع اور فراہمی خبر تو ہے لیکن
اس کے لئے زبان وبیان اور ترتیب واقعات کو ضبط تحریر میں لانا ہی خبر نویسی ہے اور یہ تاریخ نویسی کا سب سے کارگر اور موثر وسیلہ ہے۔ گویا ایک اچھا ادیب بیک وقت صحافی بھی ہوسکتا ہے اور ایک مشاق صحافی بہت بہتر ادیب بھی ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ صحیفہ نگاری اور واقعہ نگاری دونوں دو چیزیں ہیں۔بلاشبہ متذکرہ سترہویں صدی کے شہرہ آفاق قلم کاروں کو اپنی تخلیقات کو ضبط تحریر میں لانے کا ایک مقصد تھا اور وہی مقصد ان کا مشن تھا۔یقینا صحافت بھی ایک مشن ہے، ایک مہم ہے۔ وسعت النظری سے کام لیا جائے تو عالمی جنگ سے لے کر خلیجی بہران (امریکہ و عراق جنگ1990ء سے صدر صدام حسین کے قتل تک)جہاں ایک طرف امریکی ٹینک اور مزائل داغے جاتے تھے تو دوسری طرف صحافتی عملے بھی امریکہ کو حق بجانب قرار دینے میں اپنی ہر کوشش کو بروئے کار لارہے تھے۔یہ کہنا موضوع سے پرے نہیں کہ اُس وقت امریکہ نے ایک آزاد ملک کو اگر بزور قوت تاراج کیا تو اس میں صحافتی پیش رفت کا بھی اسے مساوی طور پر تعاون حاصل رہا۔ہندوستان میں آزادی کی پہلی لڑائی میں صحافتی مہم یا مشن بھی قابل ذکر ہے۔
جہاں تک صحافی کا سوال ہے اس کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے شاید یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ صحافت پیشہ نہیں بلکہ ایک خدمت ہے۔سید اقبال قادری کی زبان میں کہا جائے تو……
”آج کی صحافت محض فطری قوت تحریر ہی نہیں بلکہ صحافت کے اصولوں، فن طباعت، زبان، تاریخ، جغرافیہ، شہریت، بین الاقوامی سیاست، اقتصادیات، علم انتظامیہ، آئینی قوانین، عمرانیات ایسے مختلف موضوعات کا ادراک بھی ہے۔ علمی قابلیت کے ساتھ عملی تربیت یکساں اہم ہے۔“ (رہبر اخبار نویسی، این سی پی یو ایل، ص15)
دراصل صحافت کا مفہوم اتنا وسیع و وقیع ہے کہ آج کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے میں لگی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ملک کی مختلف دانش گاہوں سے وابستہ طالب علم حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ صحافت کے کام میں بھی بڑے انہماک سے مصروف ہیں اور ہر دن کچھ بہتر کرنے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔غالباً یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر یہ خیال کیا جانے لگا ہے کہ صحافت کسی اخبار کے لئے نامہ نگاری میں مصروف رہنے کا نام ہے۔ کسی حد تک یہ خیال درست بھی ہے، تاہم صحافت کی معنویت واقعتاً بہت وسیع ہے۔ صحافت اور صحیفہ نگاری میں بظاہر کوئی زیادہ فرق نہیں، تاہم شاعروں، افسانہ نگاروں، ناقدوں یا فسلفے کے ماہرین یا پھر ماہر سیاسیات و معالجات وغیرہ کی نگارشات یا ان کی تخلیقات صحیفے تو ہیں مگر صحافت کے دائرے میں نہیں آتے۔یہاں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ مذکورہ نگارشات دوران تکمیل اس امر کے تابع ہوسکتے ہیں کیوں کہ کوئی صحیفہ جب تکمیل کے مرحلہ میں ہو تو اسے بھی صحافت کے تمام مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں اس قول کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا کہ ’صحافت جلد بازی میں لکھا گیا ادب ہے۔‘ دراصل ادب میں راوی کے تخیلات کا دخل ہوتا ہے مگر صحافت میں واقعاتی اظہار ہی اصل ہے۔جہاں تک زبان وبیان، ترتیب واقعہ اور جملوں کی درستگی کا تعلق ہے تو اس وجہ سے صحافت کو ادب کے قریب سمجھنا بے وجہ نہیں ہے۔
ایک صحافی سے کیا امیدیں کی جاسکتی ہیں اگر اسے مولانا محمد علی جوہر کے قول کی روشنی میں دیکھیں تو ایک صحافی کو کیسا ہونا چاہئے، یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ مولانا جوہر کہتے ہیں:
”صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت سے درج کرے۔ اسے خیال رکھنا چاہیے کہ واقعاتی صحت کا معیار اتنا بلند ہو کہ مؤرخ اس کی تحریروں کی بنیاد پہ تاریخ کا ڈھانچہ کھڑا کرسکے۔ صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں رہنما بھی ہوتا ہے، اسے صرف عوام کی تائید اور حمایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ صحافت کے منبر سے عوام کو درس بھی دینا چاہیے۔“
(اکیسویں صدی میں اردو کا سماجی ثقافتی فروغ، ص376)
یقینا مولانا جوہر کسی صحافی سے اگر ایسی توقع کرتے ہیں اور واقعی صحافی ایسا ہی ہو تو کسی امریکی سابق صدر ہی نہیں بلکہ ہر عادل حکمراں صحافت کے بغیر حکمرانی کو بے سود سمجھے گا۔ صحافت کے مفہوم کو محض چند جملوں میں بیان کردینے سے اس کی وضاحت نہیں ہوجاتی بلکہ اس پران گنت قلندرانہ صفات کی حامل شخصیات اور بے شمار مشاہیر قلم نے زندگی کے اس بے مثال شعبہ کو اپنے خون جگر سے سینچا اور تب جاکر اس کی بنیاد پڑی۔ گزشتہ برس(2014) میں شہر گیا، بہار کے سبکدوش آئی پی ایس معصوم عزیز کاظمی ’این سی پی یو ایل‘ کے زیر اہتمام ایک سیمینار بعنوان’’اکیسویں صدی میں اردو کا سماجی اور ثقافتی فروغ“ جو کتاب کی شکل میں بھی دستیاب ہے، اپنے مقالے میں صحافت کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
”صحافت کے متفقہ مقاصد اطلاعات رسانی اور لطف رسائی ہے، لیکن کسی بھی زبان کی صحافت ایک مخصوص معاشرہ ومملکت میں فروغ پاتی ہے۔ اس میں اس خطہ کے حالات، احساسات اور ضروریات کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ اسے حق بینی اور حق گوئی کا علمبردار رہنا ہے۔ یہ بلا تفریق مذہب وملت زندگی کے داخلی اور خارجی لطافتوں اور کثافتوں کو عریاں کرتا ہے۔ کائنات اور خالق کائنات کی اولین تخلیق انسان واقوام کے تعلقات بھی صحافت کے موضوعات ہیں کیوں کہ یہ تہذیبی وسماجی تعلقات واثرات کے پیدا کردہ ہیں۔“
وہ آگے کہتے ہیں:
”خالص ادب کی طرح صحافت میں تخیلات و تصورات کی گنجائش صفر ہے۔ صحافت خلا میں جنم نہیں لیتی ہے۔ معاشرہ ومملکت کی سچائیاں،تلخیاں، خوشگوار وناخوشگوار واقعات، سیاست، مذہب، حادثات، تجربات، شکستہ خواب کے محرکات ہیں۔ یہ سماج کاایسا آئینہ ہے جس میں سب کچھ عیاں ہوتا ہے۔“ (ص375)
صحافت کی وضاحت کرتے ہوئے فرحت احساس نے بھی اپنے خیال کا اظہار کیا اور جیسا کہ ان سے پہلے کسی نامعلوم شخص نے صحافت کو جلد بازی میں لکھا گیا ادب بتایا، فرحت احساس بھی صحافت کو ادبی اظہار کے شق میں ہی رکھتے ہیں۔ ان کے لہجے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحافت ایک ایسے جذبہ کا نام ہے جو کسی انسان کے اندر شعوری طور پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ یہ احساس اس کے اندر فطرتاً پیدا ہوتا ہے۔ جہاں تک ذمہ داری کی بات ہے، اس ضمن میں وہ کہتے ہیں:
”صحافی ایک ایسا شخص ہوتا تھا جو اپنے معاشرے اور وقت کے حالات وواقعات اور ان کی سمت ورفتار سے باخبر رکھنے اور اس بارے میں اپنی رائے دینے کے منصب پر فائز سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک سماجی اور تہذیبی ذمہ داری کے احساس اور اس سے عہدہ برآ ہونے کا منصب تھا۔ یہ احساس خود زائیدہ تھا اور یہ منصب خود حاصل کردہ تھا۔ اس میں اس کے اصل اور بنیادی محرک کے سوا کوئی خارجی عوامل شاید
ہی کارفرما رہتا تھا۔“ (فرحت احساس، اردو اور عوامی ذرائع ابلاغ، ص125)
ان اقوال کی روشنی میں صحافت کی معنویت اور اس کی اہمیت روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا بھی بجا ہے کہ صحافت کو پیشہ کے طور دیکھنا قطعی درست نہیں ہے بلکہ صحافت مکمل طور پر ایک جذبہ ہے جو یقینا قدرت کی عطا کردہ ہے۔ بلا شبہ اس سے ملک و قوم اور خلق کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی نے اپنی شعوری زندگی کا بیشتر حصہ اردو صحافت میں صرف کیا ہے اور مذہبیات کے علاوہ جدید علوم پر بھی انہیں خاصہ درک حاصل تھا۔ ان کا نظریہ بھی یہی رہا ہے کہ صحافت کے ذریعہ دین اور خلق کی خدمت کی جائے۔ انہوں نے صحافی کو گویا ترغیب دی ہے کہ وہ نہ صرف عوام کے جذبات کو اجاگر کریں بلکہ ان میں بیداری لائے اور عوام کے جذبوں کی اصلاح بھی کرے۔اس کے علاوہ مولانا صحافیوں سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے مخالفین پر ذاتی حملہ کرنے کے بجائے نہایت اعتدال پسندی کو راہ دیں۔ صحافی کو اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے میانہ روی اور شائستگی کا انداز اختیار کرنا چاہیے۔
اس تیزگام اور ترقی یافتہ زندگی نے جس تیزی سے سہل پسندی کو اختیار کیا ہے اسی رفتار سے صحافت نے بھی اپنا دائرہ کار بڑھایا ہے۔آج اس کی اہمیت اس قدر ہے کہ نہ صرف سیاست سے منسلک شعبہ جات بلکہ سوئی سے لے کر جہاز بنانے والی کمپنی میں بھی ایک شعبہ صحافت لازمی طور پر کام کررہا ہے۔کسی کمپنی کو تیار کردہ اشیا کی زیادہ فروخت کے لئے اشتہاراتی ایجنسی کو اشتہار دینے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس کے لئے وہ اپنی مشینری میں صحافت کے شعبہ کو بھی شامل رکھتا ہے۔یہ شعبہ بسا اوقات تیار مال کی خوبیوں اور اس کی افادیت سے متعلق صارفین میں اعتماد جگانے کے لئے لفظوں کی تراکیب اور متوازن جملے وضع کرتے ہیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنوعات بنانے والی تقریباً تمام چھوٹی بڑی کمپنیوں کو بخوبی معلوم ہے کہ اشتہار ہی دراصل تجارت کی روح ہوتی ہے۔ اس لئے اس کے لئے قابل قدر اور باصلاحیت لوگوں کو کی تقرری کی جاتی ہے۔ کمپنیاں اس کے لئے وال پوسٹر اور ہورڈنگ سے لے کر اخبارات اور ٹی وی چینل کے علاوہ ریڈیو نشریات کو بھی اشتہارات فراہم کراتی ہیں۔
باوجوداس کے موجودہ دور میں صحافت کی تصویر بدل گئی ہے یا بدل رہی ہے جس سے کئی سوالات پیدا ہو گئے ہیں جیسے
صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون، سچ یا محض ایک خیال ہے؟
صحافت خدمت، ذمہ داری یا وسیلہ روزگارہے؟
صحافیانہ دیانت داری، حقیقت یا روایت ہے؟
پریس کی آزادی کی سچائی شفاف یا مبہم ہے؟
صحافت اور سیاست مدغم یا متوازی ہے؟
***
ڈاکٹر محمد شاہنواز ہاشمی
گیسٹ فیکلٹی، دہلی اسکول آف جرنلزم
دہلی یونیورسٹی، دہلی، 9968477977
Leave a Reply
Be the First to Comment!